Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۶

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۶
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"کون ہے معاذ..."
عائشہ نے بیٹھے بیٹھے ہی آواز لگائی...
"ہم ہیں بہو..."
جانی پہچانی آواز پر اُس نے پلٹ کر دیکھا تو معاذ کے ساتھ چاچا اور چاچی اندر داخل ہوئے...
"اسلام علیکم..."
عائشہ نے فوراً پاس پڑا دوپٹہ اُٹھا کر سر پر ڈالا اور چاچی کے گلے لگ گئی...
"وعلیکم السلام بہو جیتی رہو خوش رہو..."
اُنہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ اُس کے سر کا بوسہ لیتے ہوئے کہا....
"بیٹھیں آپ دونوں معاذ صحن سے جاکر کرسیاں لے کر آؤ..."
"نہیں بہو ہم کوئی مہمان تھوڑی ہیں جیسے تُم لوگ بیٹھے ہو ویسے ہی ہم بیٹھ جائیں گے..."
وُہ دونوں فرش پر ہی بیٹھ گئے...
"آپ کی طبیعت کیسی ہے آخری دفعہ احسن کے ساتھ ہی ملی تھی آپ سے تب آپ کو بلڈ پریشر کی شکایت رہتی تھی..."
وُہ دونوں ہی خود کو رونے سے یہ روک رہی تھیں...
"میں بھی اُس سے آخری بار تب ہی ملی تھی مُجھے نہیں پتا تھا کہ اب کبھی اُس کی اتنی پیاری مسکراہٹ نہیں دیکھ سکوں گا کیسا زندگی سے بھرپور بچہ تھا ایسا گبھرو جوان..."
اُن کا لہجہ بھیگنے لگا تھا...
عائشہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا خود کو رونے سے روکنے کے لئے...
"نظر لگی ہے تُم دونوں کو حاسدوں کی جانتی نہیں ہوں میں کیا کتنی مرچیں لگتی تھی منیرہ اور اُسکی بھانجی کو تُم دونوں کو یوں خوش دیکھ کر پھر احسن تُجھ سے محبت بھی تو بے انتہا کرتا تھا اُسے تیرے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں تھا مُجھے آج بھی یاد ہے جب احسن معاذ کو لے کر پہلی بار اپنے گھر گیا تھا تو منیرہ نے کیسا تماشہ لگایا تھا کہ پورے محلے نے سنا تھا وُہ عورت تو اتنی بے حس اور خبیث تھی کہ اُس معصوم کی طرف دیکھنا تو درکنار اُلٹا اُسے اور تُجھے مرنے کی بدعائیں دے رہی تھی بس اُس کے بعد سے احسن نے اُن لوگوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھا جنید بھائی (احسن کے والد) کے انتقال تک وُہ اُن سے باہر ہی ملتا رہا..."
اُنہوں نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا..
"ہاں ابو تو تقریباً روز ہی معاذ سے ملنے آتے تھے میرا خود میکہ صرف تب تک تھا جب تک امی ابو زندہ رہے اب تو عرصہ ہوا میں نے اُس گھر کو نہیں دیکھا جہاں میرا پورا بچپن گزرا ہے..."
عائشہ نے متاسفانہ انداز میں کہا...
"مٹر بنا رہی ہو..؟"
"ہاں معاذ کو بہت پسند ہے مٹر کا پلاؤ اُس کے لئے بنارہی ہوں.."
اُس نے معاذ کی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے کہا...
"میرے بچے احسن کو بھی بڑا پسند تھا میرے ہاتھ کا مٹر قیمہ.."
وُہ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں..
"اِس سب کی کیا ضرورت تھی چاچی آپ آگیا یہی کافی تھا..."
عائشہ نے پھلوں ،مرغی، گوشت اور بچوں کے کھانے کی چیزوں کے شاپرز کو دیکھتے ہوئے کہا...
"میری خوشی ہے بیٹی اِس سے نہیں روکنا.."
وُہ فوراً بولیں تو عائشہ نے مزید کُچھ نہیں کہا..

_________________________________________

وُہ لوگ ایک گھنٹہ بیٹھ کر واپس چلے گئے عائشہ نے کھانے تک روکنے کی بہت کوشش کی مگر وُہ دونوں چلے گئے۔۔۔
"مما یہ دادا نے دیے ہیں..؟"
معاذ نے پانچ سو کا نوٹ اُسے دیتے ہوئے کہا...
"یہ کب دیے اُنہوں نے ؟؟"
عائشہ نے حیرت سے پوچھا۔۔
"جب آپ کچن میں گئی تھیں اور مُجھے دادی نے کہا تھا کہ ہمارے جانے کے بعد مما کو دے دینا..."
عائشہ مسکرائی تھی..
"ایسے بھی تو لوگ ہیں نہ میرا کوئی اِن سے خون کا رشتہ ہے نہ احسن کا مگر خونی رشتوں سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھ رہے ہیں خود کے حالات بھی کوئی بہت اچھے نہیں ہیں مگر بات صرف احساس کی ہے انسانی ہمدردی کی ہے.."
اُس نے دِل میں سوچا...
دروازہ ایک بار پھر سے بج اُٹھا...
"جا میرا بیٹا گیٹ کھول آ.."
عائشہ نے معاذ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وُہ جو مما کہتا ہوا چلا گیا...
"اسلام علیکم عائشہ بھئی منہ میٹھا کرو بس تُم.."
دروازہ کھلتے ہی ثروت باجی اُس کے پاس آئیں اور پورا پورا گلاب جامن اُس کے منہ میں تقریباً ٹھونس دیا...
"وعلیکم السلام ارے بتائیں تو ہوا کیا ہے ماشاللہ سے بہت خوش لگ رہی ہیں..؟"
عائشہ نے گلاب جامن بھرے منہ کے ساتھ پوچھا...
"خیر سے فریحہ کے یہاں بیٹا ہوا ہے.."
اُنہوں نے چہکتے ہوئے بتایا..
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ باجی ہائے مطلب میں آخر خالہ بن گئی آپ کو بھی مبارک ہو نانی جان۔۔۔"
عائشہ نے اُنہیں گلے لگاتے ہوئے کہا وہ واقعی بہت خوش تھی آخر فریحہ اُس کی واحد سہیلی جو تھی...
"میں اور احمد ابھی بس نکل رہے ہیں حیدرآباد کے لئے نکل رہے ہیں بس اپنی بچی کو خوشخبری سنا کر منہ میٹھا کروانے آگئی باقی محلے میں آکر مٹھائی بانٹوں گی..."
"باجی فریحہ ٹھیک ہے ناں کیونکہ ڈاکٹر نے تو دو ہفتے بعد کو تاریخ دی تھی.."
اُس نے متانت سے پوچھا...
"ہاں فریحہ بھی بلکل ٹھیک ہے بس ڈاکٹر تھوڑی جانتے ہیں اللہ کے کاموں کے بارے میں ورنہ دیکھ اگر ایسا کُچھ ہوتا تو میں ابھی دو دن پہلے ہی تو واپس آئی ہوں حیدرآباد سے..."
ثروت باجی نے عائشہ کا ہاتھ دبا کر کہا...
"اچھا یہ لے ایک چابی گھر کی اپنے پاس رکھ کُچھ بھی ضرورت ہو جو بھی چاہیے ہو لے لینا میں تو اب ہفتہ دو ہفتہ سے پہلے آؤں گی نہیں فریحہ کے پاس کون ہے اکیلا امان کیا کیا کرے گا میں رُک جاؤں گی تو دونوں کو ہی آسرا ہوجائے گا اب اتنے دن گھر خالی بھی نہیں چھوڑ سکتی ناں تُو بس جاکر اگر بتی جلا دینا اور جھاڑ جھنکار بھی کردینا..."
اُنہوں نے چابیوں کا گُچھا اُس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا...
"بے فکر ہوکر جاؤ آپ بلکہ ایک منٹ ٹھہرو.."
وُہ اندر سے جاکر ہزار روپے لے آئی اور اُن کے ہاتھ میں رکھ کر بولی...
"یہ میری طرف سے حسین کے ہاتھ میں دے دینا اور یاد دلانا اُس موٹی کو کہ جیسا طے ہوا تھا کہ اُس کی پہلی اولاد کا نام میں رکھوں گی جیسے اُس نے معاذ کا رکھا تھا تو میں نے "حُسین" رکھا ہے اگر امان بھائی کو کوئی اعتراض نہ ہو تو یہی نام رکھنا.."
"وہ سب تو ٹھیک ہے مگر پیسے رہنے..."
"باجی کیا میں اب اپنے بھانجے کو اپنی خوشی سے کُچھ دے بھی نہیں سکتی بس آپ کُچھ نہ بولو اور جلدی جاؤ.."
عائشہ نے اُن کی بات کاٹ کر کہا...
"امی آجائیں گاڑی آگئی ہے..."
احمد مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے بولا...
"چل ٹھیک ہے اپنا اور بچوں کا بہت خیال رکھنا میں چلتی ہوں۔۔۔"
"ٹھیک ہے خیریت سے جا کل صبح اپنے گھر کی لینڈ لائن پر کال کرنا میں صفائی کے لئے جاؤں گی تو بات ہوجائے گی اُس موٹی سے بھی خُدا حافظ..."
"ہاں ٹھیک ہے خُدا حافظ۔۔۔"
اُنہوں نے بھی الوداعی کلمات کہے...
"اللہ حافظ عائشہ باجی.."
احمد نے بھی کہا اور اُن کے پیچھے پوچھے چلا گیا...
"اللہ بخریت و عافیت منزل تک پہنچائے سفر آسان کرے۔۔۔"
اُس نے دِل میں کہا...
"معاذ گیٹ بند کرکے میرے ساتھ کچن میں آجاؤ زونی کو دیکھنے دو ٹی وی آپ میری مدد کرواؤ..."
عائشہ نے مٹر کے دانوں سے بھرا تسلا اُٹھاتے ہوئے کہا اور کچن کی طرف چل دی پیچھے سے معاذ حسبِ توقع "جی مما" کہتا ہوا گیٹ بند کرنے چلا گیا...

_________________________________________

"لو یہ سو بھی گئی اور ٹی وی چل رہا ہے.."
عائشہ نے ٹی وی آف کرتے ہوئے کہا اور اندر سے چھوٹا کمبل لا کر اُس پر ڈال دیا...
"مما کتنی دیر میں بن جائے گا..."
بس دس منٹ میں ذرا آلو گل جائیں۔۔۔"
عائشہ نے اُسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا...
"آپ کو پتا ہے آپ بہت پیارے اور سمجھدار بچے ہو.."
اُس نے معاذ کے گال چومتے ہوئے کہا...
"آپ مُجھ سے زیادہ پیار کرتی ہیں اِس کا مطلب..."
اُس نے فوراً پوچھا...
"میں دونوں سے بہت پیار کرتی ہوں میری جان آپ دونوں کے سوا کون ہے میرا.."
"آپ زیادہ کس سے پیار کرتی ہیں پھر جیسے پاپا زونی سے کرتے تھے..."
وُہ پانچ سال کا بچہ تھا مگر سمجھدار بہت تھا اِس لیے اتنی چھوٹی عمر میں بھی اُسے احساس تھا کہ اس کی مما بہت مشکل حالات میں ہیں اور وُہ اُنہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا...
"اگر ایسی بات ہے تو میں اپنے معاذ سے زونی سے تھوڑا سا زیادہ پیار کرتی ہوں۔۔۔"
اُس نے معاذ کے گال کو چھوتے ہوئے محبت سے کہا...
"میں بھی پاپا سے زیادہ آپ سے پیار کرتا ہوں..."
وُہ فوراً خوش ہوکر اُس کے گلے لگ گیا...
"مگر یہ بات ہمارے درمیان سیکریٹ رہے گا آپ زونی سے نہیں کہو گے یہ بات کیونکہ اُسے بُرا لگے گا ناں..؟"
"کبھی نہیں بتاؤں گا میں کیوں زونی کو رُلاؤں گا میں تو بڑا بھائی ہوں ناں اور پاپا ہمیشہ کہتے تھے کہ زونی میرے لیے بلکل ویسی ہے جیسی پاپا کے لیے میں اُس کا بڑا بھائی،دوست اور پاپا بھی ہوں..."
احسن کا ذکر کرتے وقت اُس کی آنکھوں میں الگ ہی چمک ہوتی تھی اور دُکھ بھی مگر عائشہ نے اُسے احسن کے سوئم کے علاوہ کبھی اپنے پاپا کے لیے روتے ہوئے نہیں دیکھا...
"میرا بہادر بچہ ، میری جان.."
عائشہ نے اُس کی بلائیں لے لیں..
"میں اب دیکھتی ہوں جاکر کھانا بن گیا ہوگا آپ زونی کو اُٹھاؤ اور منہ ہاتھ دھوکر صحن کی لائٹ بھی کھولو رات کے ۹ بج رہے ہیں ابھی تک صحن کی لائٹ آن نہیں کی دسترخوان بھی بچھاؤ..."
عائشہ نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور اُٹھ کر چلی گئی..
دس منٹ بعد جب وُہ واپس آئی تو اُس کے کہے کے مطابق دونوں ہاتھ منہ دھو کر دسترخوان پر بیٹھے تھے...
"اُٹھ گئی میری شہزادی.."
اُس نے زونی کو دیکھتے ہوئے کہا جس کی آنکھیں اب بھی نیند میں ڈوبی ہوئی تھی...
"چلو شاباش دعا پڑھو دونوں بسم اللہ وعلی برکۃ اللہ.."
"دونوں نے اُس کے پیچھے دُعا دہرائی.."
"شاباش اور یہ دُعا ہمیشہ کھانا کھانے سے پہلے پڑھنا مُجھے بار بار یاد نہ دلانا پڑے اتنی آسان تو ہے صرف پانچ لفظ ٹھیک ہے.."
عائشہ نے نرمی سے کہا تو دونوں نے ہاں میں سر ہلایا..
"یہ لو..."
اُس نے چاولوں کا نوالہ ٹھنڈا کرکے زونی کی کھلایا اور پھر دوسرا نوالا معاذ کو...
"اب دونوں خود کھاؤ اور ایک بھی دانہ زمین پر نہیں گرنا چاہیئے اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ٹھنڈا کرکے کھاؤ منہ نہ جلا بیٹھنا.."
اُس نے متانت سے کہا..
ابھی پانچ منٹ گزرے تھے کہ دروازہ بجنے لگا اور بغیر رُکے پیٹا جارہا تھا عائشہ کو دھڑکا ہوا...
"آپ آرام سے کھانا کھاؤ میں دیکھتی ہوں..."
اُس نے پاس پڑی سیاہ چادر کو اپنے سینے اور سر پر ڈالا اور کھڑی ہوگئی...
"کون ہے جو اِس طرح دروازہ پیٹ رہا ہے.."
اُسے ڈر لگ رہا تھا..
"کون ہے؟؟"
اُس نے دروازے سے کُچھ دور کھڑے ہوکر آواز دی مگر کوئی جواب نہیں آیا مگر دروازہ مزید پیٹا جانے لگا اُس نے چھینٹی سے جھانکا تو باہر جنید کے ساتھ منیرہ کو دیکھ کر اسے حیرانی تو ہوئی مگر اُس نے فوراً دروازہ کھول دیا...
"اسلام علیکم امی..." دروازہ کھولتے ہی اُس نے سلام کیا...
اُسے اندازہ ہوا صرف جنید اور منیرہ نہیں بلکہ پورا گھر ہی آیا ہوا تھا مگر "کیوں"؟ سوال اُس کے دماغ میں ٹکریں مار رہا تھا...
"آئیں آپ لوگ اندر آئیں.."
"اپنے ہی گھر میں آنے کے لئے تیری اجازت کی ضرورت نہیں مُجھے.."
منیرہ نے نفرت سے کہا...
"نہیں امی میں ایسا تو نہیں کہہ رہی چلیں اندر چلیں.."
اُس نے اپنی گھبراہٹ کو چھپایا..
منیرہ تیز نظروں سے اُسے دیکھتی اندر چلی گئی جہاں کا منظر اُنہیں حیران کرگیا یہ وُہ گھر تو نہ تھا جہاں وہ آج سے چار سال پہلے آئی تھیں یہ گھر تو بہت بھرا بھرا تھا مگر اب فرش پتلا کارپیٹ اور ٹی وی ٹرالی اور کونے میں پڑے کتابوں اور اخباروں کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں تھا...
بچے اتنے سارے لوگوں کو یوں اچانک دیکھ کر گھبرا گئے دونوں اپنی ماں کے پاس بھاگے...
"معاذ ، زونیرہ گھبراؤ مت یہ دادی ہیں آپ کی اور یہ چاچا اور تایا ہیں.."
عائشہ نے دونوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا مگر وہ خود گھبرا رہی تھی اِن لوگوں کی اچانک آمد سے ورنہ جن لوگوں نے احسن کے جیتے جی اِس گھر میں قدم نہیں رکھا نہ کبھی اپنے کی پوتے یا پوتی کی شکل دیکھی وُہ اچانک یہاں کیسے...
"زبیدہ تاسف سے گھر کے در و دیوار کو تک رہی تھی جو اِن لوگوں کی بدحالی کو چیخ چیخ کر بتا رہی تھی اُس کا دِل ہی لرز رہا تھا اب جو ہونے والا تھا...
"آپ لوگ کھڑے کیوں ہیں بیٹھیں ناں جو بھی ہے جیسا بھی ہے ہمارے دسترخوان میں آپ کے سامنے رکھ دوں گی..."
اُس نے خوش اخلاقی سے کہا...
"ہم یہاں کھانا کھانے نہیں آئے دیکھو عائشہ میں بات گھما پھرا کرنے کی عادی نہیں ہوں جب تک احسن زندہ تھا ہم نے کبھی تمہیں کُچھ نہیں کہا نہ ہی اِس گھر میں آئے مگر اب ہوگئی ہے برداشت سے باہر اور ہمارے حالات بھی کوئی اتنے اچھے نہیں ہیں اِن ڈیڑھ سالوں میں بھی تمہیں تنگ نہیں کیا مگر بس اب تُم اپنا بندوبست کرو اور یہ گھر خالی کرو کیونکہ یہ میرا گھر ہے..."
منیرہ نے سختی سے کہا۔۔۔
عائشہ کے سر پر تو جیسے چھت آگری ہو..
"امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں جیسا بندوبست یہ گھر تو چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گی یہی تو میرا اور میرے بچوں کا گھر ہے اِس کے علاوہ تو میرے سر پر اور کوئی چھت نہیں.."
اُس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی..
"بھئی یہ میرے مسئلہ نہیں تم اور تمہارے بچے کہاں جاؤ گے مجھے بس میرا گھر خالی چاہیے ورنہ مُجھے زبردستی کرنی ہوگی.."
وُہ سفاکی کی حد پر تھی...
"یہ احسن کا گھر ہے اور اب میرے بچوں کا ہے میں نہیں جاؤں گی کہیں اسے چھوڑ کر آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں امی۔۔۔۔"
اُس نے خود کو مضبوط ظاہر کیا...
"اِس گھر پر تیرا کوئی حق نہیں ہے سمجھ آئی اب شرافت سے دفع ہوجا.."
راشدہ بیچ میں کود پڑی...
"یہ میرا گھر ہے اور میں اِس گھر سے کہیں نہیں جاؤں گی سمجھ آئی آپ لوگوں کو اب جائیں یہاں سے ورنہ میں پولیس کو بلاؤں گی کہ آپ لوگ مُجھے دھمکا رہے ہیں اور مجھے میرے ہی گھر سے نکال رہے ہیں..."
"اچھا بلا لے پولیس کو ثابت کیسے کرے گی کہ یہ تیرا گھر ہے ہاں ہے کو ثبوت کوئی کاغذ کُچھ تو ہوگا..."
راشدہ نے ہاتھ پر ہاتھ باندھے تمسخرانہ انداز میں کہا۔۔۔
"اگر نکال سکتی ہو تو نکال کر دکھاؤ مُجھے میرے گھر سے یہ میرا گھر ہے میرے شوہر احسن کا..."
عائشہ نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ایک لمبے عرصے بعد اُس کی آنکھوں میں پھر وہی جلال تھا جس کی احسن داد دیا کرتا تھا کہ غلط کے خلاف اسی ہمت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے...
"میں نے بھی اگر تُجھے ابھی اسی وقت گھر سے نہ نکلوایا تو دیکھ لینا تُو بھی یہیں ہے میں بھی یہیں ہوں..."
"امی پلیز آپ کُچھ کہے میرے لیے نہیں تو اپنے خون کے لیے احسن کے بچوں کے لئے.."
عائشہ نادان کو منیرہ سے نجانے کیوں ہمدردی کی توقع تھی...
"جو میرا خون تھا اُسے تو تُو نے مجھ سے چھین لیا اور اپنے جال میں پھانس لیا اور اب وُہ اِس دُنیا سے جاچکا ہے جہاں تک بات ہے اِن بچوں کی تو اِن سے میرا کوئی تعلق نہیں یہ صرف تیرے بچے ہیں لے کر غرق ہو..."
"کیا ہوگیا ہے سب پاگل ہوگئے ہو یہ میرے بچوں کا گھر ہے اس ایسے کیسے چلی جاؤں یہ میرا گھر ہے اب عزت کے ساتھ آپ لوگ نکل جائیں یہاں سے مُجھے اور میرے بچوں کو سکون سے رہنے دیں..."
اُس نے راشدہ کو دھکا دے کر کہا...
"اتنی ہمت تیری مجھے ہاتھ لگایا نکل یہاں سے چلو چلو نکلو..."
اُس نے عائشہ سے لپٹے بچوں کو دھکا دیا جس سے زونیرہ فرش پر جا گری تھی اگلے ہی لمحے عائشہ کا ہاتھ اُٹھا اور راشدہ کے گال پر اپنا نشان چھوڑ گیا...
"میرے بچوں کو ہاتھ بھی لگایا تو ہاتھ توڑ کر دوسرے ہاتھ میں دے دوں گی آپ نکلو یہاں سے سب چلو بہت ہوگیا جتنی تمیز سے پیش آرہی ہوں میں سر پر چڑھے جارہی ہو تُم..."
عائشہ کی آنکھوں میں انگارے جل رہے تھے مگر دِل ڈوبا جارہا تھا۔۔۔
"بس بہت ہوگیا یہ رہے گھر کے پیپرز جو امی کے نام پر ہیں اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو لاکر دکھاؤ کہ اِس گھر پر تمھارا حق ہے ورنہ چلی جاؤ یہاں سے..."
جنید نے گھر کے جعلی کاغذات اُس کے سامنے پھینکے۔۔۔
پیپرز دیکھنے کے بعد عائشہ کو یوں محسوس ہوا جیسے سر پر نہ آسمان ہے نہ پاؤں تلے زمین وُہ کہیں ہوا میں معلق ہوگئی ہے بچوں سمیت...
"کیا ہوا نکل گئی ساری ہوا اب دکھا ناں اپنی اکڑ اب مار تھپڑ.."
راشدہ نے تنفر سے کہا...
"اب چلو نکلو یہاں سے جو سامان لینا ہے لو اور جاؤ..."
منیرہ کو آواز تھوڑی نرم تھی...
عائشہ جان گئی کہ اِس وقت وہ عائشہ نہیں ایک ماں ہے جو اپنے بچوں کو اِس وقت لے کر سڑکوں کی خاک نہیں چھان سکتی....
"امی میں کہاں جاؤں گی اِس وقت اتنی رات کو اِس سخت سردی میں مُجھے صبح تک یہاں رہنے دیں بس پھر میں خود کہیں چلی جاؤں گی میں اپنے بچوں کی قسم کھاتی ہوں.."
گھر کے کاغذات دیکھنے کے بعد عائشہ اُن کے قدموں میں گری ہوئی تھی جو کُچھ دیر پہلے تک گھر نہ چھوڑنے پر بضد تھی...
"کہیں بھی جا ہمیں کیا۔۔"
راشدہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے پیچھے دھکا دیا تو دونوں بچوں نے آگے بڑھ کر اپنی ماں کو سنبھالا...
"یہ آپ کا خون ہیں احسن کی جان تھی اِن میں احسن کے وجود کا حصہ ہیں یہ امی خُدا کے واسطے آپ کو اِن بچوں کا واسطہ صرف ایک رات صرف ایک رات.."
اُس نے اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا...
"ایک لمحہ نہیں فوراً نکل تو میری ماں کی قاتل ہے امی تیری کوئی بات نہیں سنیں گی.."
راشدہ نے جب دیکھا منیرہ نرم پڑتی دکھائی دے رہی ہیں تو اُس نے اُن کے کمزور نبض پر پیر دھرا تھا اور حسبِ توقع وُہ اپنا رُخ موڑ گئیں...
"مُجھے نکال دیں مگر میرے بچوں کو آج رات یہیں رہنے دیں میں صبح آکر لے جاؤں گی.."
وُہ گڑگڑا رہی تھی...
"امی ایک رات تو رہنے دیں اکیلی جوان لڑکی ہے اوپر سے بچوں کا ساتھ ہے اِس وقت کہاں جائے گی کُچھ تو رحم کریں اتنی ظالم نہ بنیں..."
زبیدہ مزید چُپ نہ رہ سکی..
"امی زبیدہ ٹھیک کہہ رہی ہے ایک رات کی بات ہے صرف..."
جبار نے بھی زبیدہ کی حمایت کی...
"ہرگز نہیں میری بہن اِس کی وجہ سے میری آنکھوں کے سامنے سسک سسک کر مری تھی اُس نے مرتے دم تک یہی کہا تھا آپا میں احسن کو کبھی معاف نہیں کروں گی نہ آپ کو تُو میں کیسے اس حرافہ پر رحم کھاؤں راشدہ دھکے دے کر باہر نکال کی اسے بھی شور کر رہی تھی اب دیکھو کیسے بھیک مانگ رہی ہے..."
منیرہ نے اُسے صحن میں لا کھڑا کیا اور خود منہ پھیر کر اندر چلی گئی اور اُن کے پیچھے جبّار اور جنید بھی تھے...
"مُجھے نکال دیں مگر میرے بچوں کو آج رات یہیں رہنے دیں میں صبح آکر لے جاؤں گی بچوں کو نہیں نکالیں.."
"راشدہ چھوڑ دو.."
زبیدہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"آپ مت بولیں بیچ میں..."
"بھابھی میرے بچوں کو رکھ لیں صرف ایک رات بلکہ صرف چند گھنٹے میں فجر میں کے جاؤں گی باہر بہت سردی ہے میرے پاس کوئی دوسری جگہ نہیں..."
اُس نے زبیدہ سے التجا کی مگر وہ کم ہمت تھی منیرہ کے فیصلے کے خلاف جاکر خود گھر سے نہیں نکلنا چاہتی تھی...
"چل اُٹھ بہت بک بک کرلی..."
"کوئی ایک تو سن لے بس مُجھے نکال دیں مگر میرے بچوں کو آج رات یہیں رہنے دیں میں صبح آکر لے.."
وُہ مزید کُچھ بولتی اُس سے پہلے راشدہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اور بچوں کو ننگے پیر گھر سے نکال باہر کیا اور دروازہ مقفل یوں گہری سانس لی جیسے کوئی جنگ فتح کر لی ہو....
"امی دروازہ کھولیں امی بچوں کو لے لیں امی..."
وُہ مسلسل دروازہ پیٹے جارہی تھی...
محلے والے اپنے اپنے گھروں کی چھتوں، کھڑکیوں،دروازوں پر کھڑے فری کا تماشہ دیکھ رہے تھے بس۔۔
"میں جاکر دیکھتی ہوں..."
کسی عورت نے کہا...
"رہنے دو اُن کا گھریلو معاملہ ہم کیوں کسی کے معاملے میں بولیں..."
دوسری عور نے ہاتھ روک کر کہا..
جبکہ دوسری طرف مسلسل ایک ماں دہائیاں دیے جا رہی تو دروازہ پیٹے جا رہی تھی...
"بس ایک رات صرف ایک رات یا اللہ رحم کر مُجھ پر رحم کر.."
وُہ آسمان کی طرف جھولی اُٹھا کر بولی...
"امی دروازہ کھول دیں میرے بچوں کو لے لیں بس ایک رات صرف ایک رات۔۔۔"
"دادی بس ایک رات دروازہ کھول دیں..."
عائشہ کی دیکھا دیکھی معاذ نے بھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے ہی مرحوم باپ کی چوکھٹ پر بیٹھے گھر کا دروازہ پیٹنا شروع کردیا اِس منظر نے کئی آنکھیں اشک بار کی تھیں مگر یہ وُہ کوفہ مزاج قوم تھی جو بے حس تھی ظلم آنکھوں سے دیکھنے والی مگر کُچھ نہ کرنے والی یہ قوم ہر کربلا پر بس افسوس کرنے والی مگر عملاً کچھ نہ کرنے والی...
"دادی دروازہ کھول دو.."
زونیرہ نے بھی کہا تھا اب عائشہ کا دِل کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا اُس نے دونوں بچوں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اُٹھ کھڑی ہوئی....
"خُدا تُم لوگوں کو برباد کرے تمہارا کیا تمہارے بچوں کے آگے آئے کبھی خوش نہیں رہ سکو گے تُم لوگ میرے بچوں کو بے گھر کرکے تُم لوگ بھی بس نہیں سکو گے میرے ہاتھ عرش کی طرف اُٹھے ہیں یا اللہ میری بددعا ہے اِن فرش والوں کو نیست و نابود کردے
موت مانگیں موت نہ ملے جینا چاہیں جی نہ سکیں
میری بد دعا ہے تُم لوگوں کو کبھی سکھ نہیں پاؤ گے کبھی نہیں مجھے اللہ کو قسم مرتے دم تک معاف نہیں کروں گی کسی کو..."

(جاری ہے)


Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro