Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۰

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۱۰
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

فون مسلسل بجے جارہا تھا مگر چھت پر ہونے کے باعث اُسے آواز نہیں آرہی تھی۔۔
"مما..مما.."
معاذ اُسے بلانے چھت پر آیا...
"کیا ہوا بیٹا.."
"فون بج رہا ہے.." اُس نے ہانپتے ہوئے بتایا..
"اچھا چلو نیچے.." معاذ کا ہاتھ پکڑ کر وُہ نیچے آگئی...
"اسلام علیکم.." فون اُٹھاتے ہی عائشہ نے سلام کیا...
"وعلیکم السلام عائشہ میں سلمان بات کر رہا ہوں.."
"جی بھائی بولیں..."
"عائشہ امی نے مُجھے سب بتادیا ہے میں نے اپنے ایک دو دوستوں سے بات کی ہے جس میں سے ایک نے جواب دیا ہے پروموٹر کی جاب ہے گھر سے تھوڑا دور ایک سپر مارکیٹ ہے وُہ اُسی ایریا کا مینجر ہے تُم کل جاکر مارٹ کے فلور مینجر سے مل لو انگلش لینگویج کا کورس تو تُم نے کیا ہوا ہے باقی کم از کم وُہ لوگ انٹر تو مانگتے ہیں تو تُم کہہ دینا انٹر کرلیا ہے اُن لوگوں نے کون سی مارک شیٹ منگوانی باقی میرا دوست باقر سنبھال لے گا ٹھیک ہے..."
سلمان نے اُسے ساری صورتحال بتادی...
"بہت بہت شکریہ بھائی آپ کا میں کل چلی جاؤں گی آپ بس پتا لکھوا دیں..."
عائشہ نے خوشی سے کہا اور پیپر پر پتا لکھنے لگی...
"شکریہ کی کوئی بات نہیں تُم میرے لیے بلکل فریحہ کی طرح ہو اور میں تو چاہتے بھی نہیں کہ تُم نوکری کرو تُم  سکون سے رہو وُہ تمہارا بھی گھر ہے اور یہ میں کوئی ترس یا احسان نہیں کروں گا بلکہ تُم میرے بھائیوں جیسے دوست کی بیوہ ہو میرا اخلاقی فرض ہے تمھارا خیال رکھنا احسن کے بچوں کا خیال رکھنا تُمہیں الگ گھر میں رہنا ہے ٹھیک ہے امی بھی تمہاری بات سمجھتی ہیں اور میں بھی ایک گھر میں رہنا کسی طرح بھی مناسب نہیں تُم الگ رہ لو مگر بھائی ہونے کے ناطے مُجھے تمھاری ذمے داری اٹھانے دو میں نہیں چاہتا تُم نوکری کرو باہر کی دُنیا بہت خراب ہے تُم جیسی لڑکیوں کے لیے نہیں ہے..."
سلمان نے پُر شفقت لہجے میں کہا...
"آپ کے خلوص پر ذرا بھی شک نہیں ہے بھائی مگر میرے اپنے بھی کُچھ اُصول یہ میرا ضمیر یہ بات گوارا نہیں کرتا کہ میں کسی پر بوجھ بنوں یا کسی اور تکیہ کروں میں خود مختار ہونا چاہتی ہوں اپنے پیروں پر کھڑی ہونا چاہتی ہوں تاکہ اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دے سکوں اللہ کا شکر ہے میرے ہاتھ پیر سلامت ہیں اور اِس بات کی اجازت تو ہمارا دین بھی دیتا ہے جب گھر میں کوئی مرد نہ ہے تو عورت ضرورت کے تحت باہر نکل سکتی ہے بس آپ اپنی دعائیں دیتے رہیں..."
اُس نے مضبوط لہجے میں کہا...
"ٹھیک ہے میں تُمہیں مزید کُچھ نہیں بولوں گا مگر ہاں یہ بات ضرور یاد رکھنا امی اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں خوش رہی اللہ تمہارے بچوں کے نصیب اچھے کرے..."
"آمین بھائی..." عائشہ نے مسکرا کر کہا...
"خُدا حافظ اپنا اور بچوں کا بہت خیال رکھنا امی ویسے بھی کل یا پرسوں تک آجائیں گی.."
"بہت شکریہ بھائی اللہ حافظ آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا..."
عائشہ نے فون رکھ دیا اُس کے چہرے پر اطمینان ہی اطمینان تھا کہ اُس نے اپنے خیر خواہوں کو ناراض کیے بغیر اپنی بات اُنہیں سمجھا دی تھی..
__________________________________________

عائشہ نے سے پر دوپٹہ لیتے ہوئے آئینے میں دیکھتے ہو اپنا تنقیدی جائزہ لیا ضرورت کی وجہ سے آج اُس نے تھوڑا بہت میک اپ بھی کیا تھا احسن کے جانے کے بعد پہلی بار اُس نے اپنے چہرے پر کُچھ لگایا تھا کیونکہ جاب کی نوعیت سے وُہ اچھی طرح واقف تھی اِسی وجہ سے آج اُس نے عبایا نہیں پہنا تھا بس نیلے رنگ کی بڑی سی چادر لے لی تھی اور بال بھی کھلے رکھے تھے یوں اُس کی عُمر بھی زیادہ نہیں تھی وہ  چوبیس سال کی نازک سی لڑکی تھی۔ چہرے کی رنگت صاف تھی اور نقوش دلآویز، اُس کے چہرے پر سب سے دلکش چیز اُس کی آنکھیں تھیں، بڑی بڑی ساحر آنکھیں کہ جن پر لمبی گھنیری پلکیں سایہ فگن رہتیں، اُس کی آنکھوں کا رنگ گہرا سیاہ تھا ، اماوس کی گھنی رات جیسا سیاہ اور ان سحر انگیز آنکھوں میں ہمہ وقت گلابی ڈورے تیرتے رہتے ، ستواں ناک میں باریک سا نگ چمکتا اور اوپری ہونٹ کا کٹاؤ سمٹ کر اداسی کا مظہر نظر آتا تھا۔ اُس کے چہرے پہ پھیلا حزن و ملال اسے مزید کشش بخشتا اور وہ سادہ سے حلیے میں بھی کسی کی بھی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکتی تھی۔ وہ سراپا حسن تھی، حزن و ملال میں ڈوبا ہوا حسن ۔۔ اپنی تیاری سے مطمئن ہونے کے بعد وُہ آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی..
"میں جارہی ہوں تھوڑی ہی دیر میں واپس آجاؤں گی آپ دونوں نے بلکل بھی گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے نہ ہی کسی کے لئے دروازہ کھولنا ہے میں چابی لے کر جارہی ہوں تو دروازہ میں خود کھول لوں گی آپ دونوں ٹی وی دیکھ لینا یا کتابیں نکال کر پڑھ لینا ویسے بھی میں آپ دونوں کو جلد ہی دوبارہ اسکول میں داخل کروا دوں گی ٹھیک ہے..."
عائشہ نے اپنے سامان میں سے سینڈلز نکالتے ہوئے کہا..
"اوکے مما.." دونوں ایک ساتھ بولے...
"معاذ اپنا اور بہن کا خیال رکھنا اللہ حافظ..."
دونوں کو پیار کرتے ہوئے وُہ باہر نکل گئی...

___________________________________________

"میں نے آپ کا ٹرائل لے لیا ہے جو بھی ہوگا آپ کو بتا دیا جائے گا مگر ایک بات ذہن میں رکھیں کہ آپ نے میٹرک بھی مکمل نہیں کیا ہے بی اے کی جاب کے لیے بھی کم از کم انٹر پاس ہونا ضروری ہے لیکن باقر نے جب آپ کی سفارش کردی ہے تو 80 پرسنٹ تو آپ کی جاب ہو ہے جائے گی باقی مُجھے آپ کی صاف گوئی بھی بہت اچھی لگی .."
عائشہ نے اپنی تعلیم کے متعلق جھوٹ نہیں بولا تھا...
"جانتی ہوں میں مگر میں نے انگلش لینگویج کا کورس کیا ہوا ہے بس کُچھ وجوہات کی بناء پر میٹرک نہیں کرسکی میرے ماں باپ کا انتقال ہوچکا ہے مُجھ پر دو چھوٹے بہن بھائی کی ذمے داری ہے.."
اُس نے بچوں کے متعلق جھوٹ بولا تھا...
"اگر نام شارٹ لسٹ کرلیے ہوں تو کمپنی بھیج دیجئے گا سلیم بھائی..."
ابھی وہ لوگ بات کر ہی رہے تھے پیچھے سے کسی نے منیجر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُس سے کہا وُہ لگ بھگ اُنتیس یا تیس برس کا خاصہ خوش شکل مرد تھا۔۔۔
"میڈم ابھی آپ جائیں اگر سلیکشن ہوئی تو آپ کو بتادیا جائے گا.."
"ٹھیک ہے.." عائشہ نے نرمی سے کہا...
"سلیم بھائی ذرا آئیں میرے ساتھ..."
بات کرتے کرتے بلا اِرادہ ہی خضر کی نظر عائشہ کے اوپر پڑی تھی اور کُچھ لمہوں کے لیے ٹھہر گئی تھی..
"خُدا حافظ.." اُس کی نظریں خود پر محسوس کرکے عائشہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار اُبھرے تھے وُہ فوراً وہاں سے نکل گئی جبکہ خضر کی نظروں نے دور تک اُس کا پیچھا کیا تھا...
"اِنہیں روکیں اور کُچھ دیر انتظار کرنے کا بولیں...
اُس نے شیلف بوائے سے عائشہ کو روکنے کا کہا اور خود کسی کو فون ملانے لگا...

___________________________________________

"امی آپ کو جو میں نے پندرہ لاکھ روپے دیے تھے رکھنے کے لئے وُہ لا دیں مُجھے ورکرز کو سیلری دینی ہے اور آفس کا کرایہ بھی تاکہ ہم لوگ آرڈر پر کام شروع کرسکیں اور آج گھر کو دیکھنے کے لیے تین پارٹی آئیں گی آپ جبار بھائی کو بتا دیجیے گا وُہ دکھا دیں گے اُنہیں جاکر میں بھی بس آفس کے لئے ہی نکل رہا ہوں..."
جنید نے جوتوں کے تسمے باندھتے ہوئے کہا...
"راشدہ میری الماری سے پیسے لے آ.."
اُنہوں نے آواز لگائی مگر کوئی جواب نہیں آیا یوں دس منٹ گزر گئے...
"یہ کہاں مرگئی ہے پیسے نہیں ڈھونڈے جارہے حالانکہ سامنے رکھے ہوئے ہے تُو رُک میں دیکھتی ہوں جاکر..."
منیرہ نے بے زاری سے کہا...
"کیا دیوارِ چین پر چلی گئی ہے پیسے لینے جو تلاش ختم ہوکر ہی نہیں دے رہی جبکہ آنکھوں کر سامنے پیسے پڑے ہیں.."
اُنہوں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں کہا..
"اللہ اللہ یہ کیا حشر کردیا ہے کمرے کا میری پوری سیٹ الماری کا ناس مار دیا ہے..."
نیچے گرے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے اُنہوں نے راشدہ کو خوب کوسا جنید بھی اندر آگیا تھا..
"امی پیسے کہیں نہیں ہیں میں نے پوری الماری کھنگال لی ہے ایک ڈھیلا تک نہیں ہے۔۔۔"
راشدہ کی پسینے میں شرابور حالت اُس کی گھبراہٹ اور پریشانی صاف ظاہر کر رہی تھی...
"کیا مطلب پیسے نہیں ہیں امی میں نے آپ کو دیے تھے رکھنے کے لئے..."
جنید کے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔۔
"ایسے کیسے نہیں ہیں پیسے یہیں رکھیں ہیں میں نے تو ہٹ میں دیکھتی ہوں.."
منیرہ نے پوری الماری تین بار چھان ماری مگر پانچ کے نہ چلنے والے بڑے تین سکوں کے علاوہ کُچھ نہ ملا..
"ایسا کیسے ہوسکتا ہے میں نے تو پیسے یہیں رکھے تھے چابی میرے پاس ہوتی ہے  اور اگر چوری بھی ہوتے تو زیور بھی نہ ہوتے وُہ تو بلکل سلامت ہیں.."
اُنہوں نے باقاعدہ اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا...
"تو پھر کہاں گئے پیسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی گئے تو گئے کہاں کو دس پندرہ ہزار نہیں پورے پندرہ لاکھ تھے وُہ بھی گھر اب تک نہ بکنے کی وجہ سے کسی سے اُدھار لیے تھے یا میرے مالک۔۔"
جنید سر پکڑ کر بیٹھ گیا پورے کمرے میں موت سی خاموشی چھا گئی...

___________________________________________

"اکسکیوز می آپ کو سر خضر آفس میں بلا رہے ہیں.."
عائشہ آدھے گھنٹے سے ویٹنگ ایریا میں بیٹھی تھی کہ ایک کسی نے آکر اُس سے کہا...
اُس نے دروازے پر پہنچ کر ناک کیا...
"کم اِن.." اجازت ملنے پر وُہ اندر داخل ہوگئی اُسے دیکھتے ہو خضر کی آنکھوں میں عجیب سی چمک اُبھری تھی...
ویسے آپ کیا نام ہے یہ تو میں نے پوچھا ہی نہیں..."
خضر نے سر سے پیر تک گہری نظروں سے عائشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا...
"عائشہ..." اُس نے گھبراتے ہوئے جواب دیا خضر کے دیکھنے کا انداز ہرگز بھی قابلِ برداشت نہیں تھا۔۔۔
"پلیز ہیو آ سیٹ.."
"تھینک یو۔۔"
وُہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی...
"میں نے کمپنی سے آپ کی سفارش کی تھی اور وُہ مان بھی گئے ہیں پھر باقر سے بھی آپ نے اپنی سورس لگوائی ہے تو آدھا کام تو ویسے ہی ہوگیا تھا..."
خضر کا لہجہ اہانت آمیز تھا..
"سورس نہیں اُنہوں نے بس رکمنڈ کیا ہے باقی کمپنی کو آؤٹ پٹ دینا میرا کام ہے اگر میں خود کو اِس جاب کے اہل ثابت نہ کرسکی تو وُہ مُجھے کبھی بھی فائر کردے گی اِس لیے اسے سورس نہ کہیں میں فری کی تنخواہ تو نہیں لوں گی ناں.."
عائشہ نے مضبوط لہجے میں جواب دیا جسے سن کر خضر کے چہرے اور طنزیہ مسکراہٹ آئی تھی...
"جی بلکل سروس تو آپ دیں گی ہی تب ہی پرمننٹ ہوں گی جب تک آپ کے کسٹمرز آپ سے مطمئن رہیں گے آپ بھی ٹکی رہیں گے آئی مین کمپنی کو اچھی سیل دیں گی تو..."
خضر نے معنی خیز انداز میں کہا...
" خیر پیکج بائیس ہزار تک ہوگا جاب ٹائمنگ صبح گیارہ بجے سے شام سات بجے تک آپ ہفتہ اتوار کو چھوڑ کر کسی بھی ایک دن چھٹی کرسکتی ہیں اگر نہ کریں تو  اُس کی ایکسٹرا پیمنٹ ملے گی باقی اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کمپنی کو کتنی سیل دیتی ہیں ویسے جس کمپنی نے آپ کو ہائر کیا اُن کے چاول،مسالے اچھے ہیں خود بخود بک جاتے ہیں آپ کو بس کسٹمرز سے خوش اخلاقی سے پیش آنا ہوگا اور ہاں  سر پر دوپٹہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی انڈراسٹینڈ..."
خضر نے اُسے جاب کے متعلق ساری معلومات دے دی تھی..
"شکریہ سر.." عائشہ نے مسکرانے کی کوشش کی...
"سنبھال کر رکھیں بہت موقع آئیں گے میرا شکریہ ادا کرنے کے.. میرا مطلب فرسٹ سیلری سے ٹریٹ دے دیجیے گا.."
عائشہ کے بدلتے تاثرات دیکھ کر اُس نے بات بنائی آنکھیں مسلسل عائشہ کے جسم پر رینگ رہی تھیں...

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro