Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

2nd Last Episode

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۱۴ (سیکنڈ لاسٹ)
#مصطفیٰ_چھیپا

"کیا ہوا اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو عائشہ۔۔؟"
بینش نے اُس کے چہرے پر پھیلی پریشانی دیکھتے ہوئے پوچھا..
"تُم صحیح کہہ رہی تھی سر خضر کے بارے میں بہت گھٹیا انسان ہے یہ شخص.."
عائشہ نے مضطربانہ انداز میں کہا..
"کیا ہوا کُچھ کہا کیا اُس نے؟ یا کوئی گھٹیا حرکت کی ہے ؟.."
بینش نے ہمدردی سے پوچھا۔
"مُجھے فارمز فل کرنے کے لیے بُلایا تھا تمہارے سامنے جب میں اُس کے آفس میں گئی تو اپنے اصل مقصد پر آگیا بہت گھٹیا باتیں کیں کہ اگر میں اُس کے ساتھ کمپرومائز کروں تو مُجھے.."
اُس نے اپنی بات ادھُوری چھوڑ کر دُکھ سے بینش کی طرف دیکھا...
"بہت ذلیل انسان ہے میں نے تُمہیں پہلی ہی اِس سے خبردار کردیا تھا اور اِس طرح پریشان ہونا مسئلے کا حل نہیں ہے میری جان اگر باہر نکلی ہو تو خضر جیسے مردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ہر دم تیار رکھو مردوں کے اِس معاشرے میں عورت کا گزارہ کرنا جب گھر کی چار دیواری میں آسان نہیں تو یہ تو پھر کھلا میدان ہے جہاں تُم سے بھانت بھانت کے لوگ ٹکرائیں گے اب اگر اِس طرح تُم ہر مشکل سے گھبراؤ گی تو بہت مُشکل ہوجائے گا.."
بینش نے مضبوط لہجے میں کہا..
"تُم صحیح کہہ رہی ہو اِس طرح پریشان ہونے سے کُچھ نہیں ہوگا اگر اپنے بچوں کا باپ بننا ہے تو اِن مشکلوں سے گھبرانے سے کُچھ نہیں ہوگا بلکہ اِن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا.."
عائشہ نے گہری سانس لے کر کہا۔۔۔
"یہ ہوئی نہ بات اور ہاں ہمارے سامنے تو تُم نے کہہ دیا کہ بال بچوں والی ہو مگر کبھی غلطی سے بھی یہ بات اپنے ایریا منیجر یا اِس خبیث خضر کے سامنے مت کہہ دینا ورنہ اگلے دن باہر ہوگی پتا نہیں کیسے رولز ہیں کہ لڑکی شادی شدہ نہ ہو..."
سارہ جو کب سے خاموش کھڑی اُن دونوں کی باتیں سُن رہی تھی بولی..
عائشہ اپنی بے دھیانی پر شرمندگی سے مسکرا ہی سکی۔۔
"شرمندہ ہونے کی بات نہیں ہم کون سی کنواری ہیں میری ایک بیٹی ہے پانچ سال کی اور دو سال کا بیٹا اور اِس کی بیٹی ہے تین سال کی.."
سارہ نے ہنستے ہوئے بینش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو عائشہ کو حوصلہ ہوا..
"ویسے تمہارے ہسبنڈ کیا جاب کرتے ہیں ..؟"
بینش نے اپنی ریگ کا ڈسپلے ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا..
"موٹر مکینک تھے۔۔" اُس نے یاسیت سے جواب دیا..
"تھے مطلب؟" سارہ نے حیرت سے پوچھا۔۔
"مطلب دو سال پہلے مُجھے اور ہمارے دو بچوں کو چھوڑ کر وُہ اِس دُنیا سے چلے گئے ہیں ورنہ اگر وُہ زندہ ہوتے تو میں یوں رُل تو نہ رہی ہوتی.."
احسن کے ذِکر پر اُس کی آنکھیں بھر آئیں...
"اوہ یار بہت افسوس ہوا سُن کر واقعی جیون ساتھی کا چلے جانا اور پھر اُس کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے میں خود اِس درد سے گزر چکی ہوں سمجھ سکتی ہو.."
سارہ نے نارسائی کے احساس سے چور انداز و تبسم کے ساتھ کہا۔۔۔
"کیا مطلب۔؟" عائشہ نے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے پوچھا.
"مطلب یہ کہ حمزہ کے ساتھ میری دوسری شادی ہے میرے پہلے شوہر کا تو شادی کے چھ مہینے بعد ہی دوستوں کے ساتھ کراچی سے لاہور جاتے ہوئے ایک کار ایکسڈنٹ میں اِنتقال ہوگیا تھا.."
"اوہ۔" عائشہ نے افسوس کا اظہار کیا...
"فہد میرا من پسند جیون ساتھی تھا اسکول کالج یونیورسٹی ہر جگہ ساتھ رہے ہم بس میاں بیوی کے رشتے میں تا عمر کی ہمنوائی میسر نہ ہوئی یہ میرا دِل جانتا ہے کہ میں نے وُہ وقت کیسے گزارہ تھا مگر اِن سب میں ایک بات بہت اچھی تھی فہد کے گھروالوں نے کبھی مُجھ سے بُرا سلوک نہیں کیا وُہ جیسے اُن کی زندگی میں تھے ویسے ہی بعد میں رہے بہو بناکر لائے تھے تو بیٹی بناکر ایک بہترین اِنسان کے ساتھ رخصت بھی کیا جبکہ میرے پاس اُن کے بیٹے کی نشانی میری اور فہد کی بیٹی "کنزہ" بھی تھی مگر پھر بھی اُنہوں نے میری زندگی کی بہتری سوچی۔ حمزہ نہ صرف ایک بہترین اِنسان ہیں بلکہ وہ میری توقع سے بھی زیادہ اچھے باپ اور شوہر ثابت ہوئے ہیں سو میں سے دس سوتیلے رشتے اچھے نکلتے ہیں میری بیٹی کے لئے حمزہ اُن دس میں سے ہیں اپنی اولادِ نرینہ ہونے کے بعد بھی کنزہ کی جگہ وہی ہے جو پہلے تھی۔ ہاں میں مانتی ہوں ایسی قسمت بہت کم لڑکیوں کا نصیب ہوتی ہیں مگر اِس کی وجہ سوتیلے رشتوں کے بدصورت شکل یا دوسری شادی کے بعد بے قدرا ہمسفر نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ہے لوگ اپنی بیوہ اور طلاق یافتہ بیٹیوں کی ساری زندگی اِس لیے بھائیوں بھابیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے یا مرحوم شوہر کے گھر والوں کی ٹھوکروں میں برباد کردیتے ہیں کہ دوسری شادی میں خوشیاں نہ ملے یا اولاد کو سوتیلے رشتوں کا زہر پینے پڑے مگر وہ لوگ یہ نہیں دیکھ پاتے کے سگے رشتے اِس سب میں اُس لڑکی کی زندگی کیسے جہنم بنادیتے ہیں..."
سارہ نے مشرقی معاشرے میں عورت کے استحصال کی پوری روداد سنا ڈالی عائشہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اُسے احسن کی محبت کے سحر سے نکال کر صرف ایک ماں بنا کر  رکھ دیا ہے جو ظلم اور کرتے ہیں وُہ تو خود ہی احسن اور اُس کی یادوں سے وفا نبھانے کی تگ ودو میں اپنے بچوں پر کر رہی تھی..
"مگر اگر لڑکی خود ہی دوسری شادی نہ کرنا چاہتی ہو..؟"
اُس کے منہ سے بے خیالی میں بات نکل گئی..
"عائشہ میں ایک عورت کی حیثیت سے یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہوں اگر ایک عورت نے  کبھی مرد کی قربت محسوس نہ کی ہو تو ساری زندگی اکیلے گزار سکتی ہے مگر جب آپ اِس سے گزر چکے ہوں تو عمر کی ایک حد تک آپ کو اِس کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس میں کُچھ غلط نہیں ہے اِسی لیے ہمارے مذہب میں عورت کی دوسری ، شادی پر کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ اسے ضروری قرار دیا ہے گناہ سے بچنے کے لیے حرام فعل کی طرف راغب نہ ہونے کے لیے ..."
سارہ نے قطعیت سے کہا تو وُہ واقعی لاجواب ہوگئی اُس کی بات حرف بہ حرف سچ تھی مگر پھر بھی وہ انکاری تھی..
"عائشہ تمہارے ہسبنڈ کی ڈیتھ کیسے ہوئے تھی..؟"
بینش نے سارہ کی باتوں پر اُس کی اُلجھن محسوس کرتے ہوئے بات بدلی تو سارہ بھی اُسے دیکھ کر چُپ ہوگئی...
"کسی سیاسی تنظیم میں شامل ہوگئے تھے احسن بطور ایک عام کارکن کی حیثیت سے میں نے تو اُنہیں لاکھ سمجھایا تھا کہ میرے لیے بس وُہ کافی ہیں اور کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں سب کُچھ بہت اچھا تھا مگر اُنہیں ہر نوجوان کی طرح جلد از جلد پیسے کمانے کی حرص لے ڈوبی اور ایسی کی مجھے اُن کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا بس ایک اتوار کی دوپہر کہہ کر گئے تھے کہ دو گھنٹے میں واپس آرہا ہوں بچوں کو اور خود تیار رہنا شام میں گھومنے چلیں گے میں نے روکنا بھی چاہا اُس دِن میری حالت بھی عجیب ہورہی تھی تیسری بار اُمید سے تھی احسن تو میری ایک چھینک پر بھی پریشان ہوجاتے تھے مگر اُس دِن میرے اتنا کہنے پر بھی چلے گئے کیونکہ اُنہیں چلے جانا تھا میں اور بچے اُن کا انتظار ہی کرتے رہے کہ کب وُہ واپس آئیں اور ہمیں لے کر جائیں گھمانے مگر وہ تو نہ آئے مگر ہفتے بعد بس اُن کے کبھی واپس نہ آنے کی خبر آگئی کے ایک بم دھماکہ میں کتنے ہی لوگوں کے ساتھ وُہ بھی اِس دُنیا سے چلے گئے اور نعش کی حالت ایسی نہ تھی کہ ورثاء کو آخری دیدار بھی کرواسکتے..."
ماضی کے دھندلکوں میں جھانکتی عائشہ سارہ کی آواز پر حال میں لوٹی...
"تُم نے کہا تُم تیسری بار اُمید سے تھی مگر ابھی تُم نے کہا کہ تمہارے دو بچے ہے تو کیا تیسرا..؟"
سارہ نے بات ادھوری چھوڑ کر اُسے دیکھا...
"بیٹی ہوئی تھی مگر صرف ایک دن ہی زندہ رہی ڈاکٹرز کہتے تھے کے وقت سے پہلے پیدائش کے وجہ سے اُس کے پھیپھڑے مکمل کام نہیں کر رہے تھے اِس وجہ سے اُسے نہیں بچا سکے..."
عائشہ نے زخم خوردہ کہا...
"ان سب سے گزرنے کے بعد بھی تُم آج اپنے بچوں کے لیے کھڑی ہو یہ اہم ہے ہاں ماضی کا کُچھ حصہ تکلیف دہ ہے مگر جیسے اب تک تُم ماضی کی اچھی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہی ہو آگے بھی جاری رکھنا اپنے بچوں کے لئے..."
بینش نے اُس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے محبت سے کہا..
"چلو بھئی بہنوں دوپہر کے بارہ بج رہے ہیں مارٹ میں لوگ آنا شروع ہوگئے ہیں تو کام پر لگ جاؤ اور عائشہ تمہارے پاس جو بھی کسٹمر آئے اُسے مصالحوں کے لیے میری ریگ کی طرف ہی بھیجنا دیکھنا آج اِس سے زیادہ سیل میں کروں گی..."
سارہ میں ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے آنکھ مار کر کہا جس پر وُہ دِل سے مسکرا دی..
"وُہ تو شام میں پتا چل ہی جائے گا کہ کون زیادہ سیل کرتا ہے.." بینش نے چیلنج کرتے انداز میں کہا پھر تینوں اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگئے..

                              •••••••••••

"رو کیوں رہے ہو.."
آفسر زوہیب نے حیرت سے پوچھا...
"مُجھے یقین نہیں آرہا اب تک کہ میں واقعی آزاد ہوگیا ہوں  واپسی اپنوں سے مل سکتا ہوں.."
احسن نے  بے یقینی سے کہا..
"یقین کرلو کہ تُم پر عائد سارے الزامات جھوٹے ثابت ہوگئے ہیں تمہارے نام کی آڑ میں خون کی ہولی کھیلنے والا اصل مجرم پکڑا جاچکا ہے اور اِس بات کا یقین تُمہیں اپنی فوج پر رکھنا ہوگا کہ کتنے ہی بے گناہوں کی جانوں کا حساب اُس سے ضرور لیا جائے گا تمہارے ساتھ ہوئے ظلم کی معافی بھی اُسے نہیں ملے گی دو سال پہلے کے اُس دھماکے میں تُم تو بچ گئے تھے مگر کتنے ہی معصوم لوگوں نے اپنی جان گنوائی تھی اور  اِس سے پہلے بھی ان گنت ماؤں کے گودیں، بہنوں کے بھائی،بچوں کے مائیں ،باپ کی جانیں لی ہیں اِس تنظیم نے ملک سے غداری کی سزا ضرور ملے گی اِنہیں تُم اللہ کا شکر ادا کرو کے تم ہر طرف سے کلیئر ہوکر جارہے ہو تُم اور تمہارے جیسے ہزاروں نوجوان ایک اور ایک گیارہ کرنے کی دھن میں یہ نہیں دیکھتے کہ کس دلدل میں دھنستے جارہے ہو بہت سے بے گناہ ہوتے ہوۓ بھی بچ نہیں پاتے تمہارے ساتھ دعائیں کسی کی کہ پوری عزت کے ساتھ واپس جارہے ہو.."
آفسر نے اُس کے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا..
"میں آپ کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے سر اگر آپ نے میری بے گناہی پر یقین نہ کیا ہوتا تو آج شاید میں زندہ نہ ہوتا.."
احسن نے تشکر آمیز انداز میں کہا...
"میں نے بس اپنا فرض نبھایا ہے پاکستان کے ہر شہری کی ذمے داری ہے ہم پر قسم کھائی ہے اِس ملک اور لوگوں کی حفاظت کی تو کسی کے ساتھ زیادتی کیسے کرسکتے ہیں.. اِس سب میں تُمہاری صرف اتنی غلطی ہے تُم نے اپنے اِرد گِرد کے لوگوں پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیا اور پھر پیسہ کمانے کے جنوں تمہیں مزید اندھا کردیا مگر میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا زندگی کے رہنما اصول کی طرح اگر کوئی تُمہیں تُمہاری قابلیت سے کم معاوضہ دے رہا ہوں اور دوسری طرف کوئی تُمہیں تُمہاری قابلیت سے کئی زیادہ معاوضہ دے رہا ہو تو زیادہ کو چھوڑ کر کم چننا کیونکہ قابلیت کے موافق یا اُس سے کم میں خطرہ نہیں مگر روپے زیادہ دینے والا تُم سے کیا چاہتا ہے اِس بات کا خدشہ ہے اِس لئے محنت سے آگے بڑھو شارٹ کٹ سے تُم جلدی پہنچ جاؤ گے مگر وقت پر نہیں پہنچو گے اور وقت سے پہلے اگر کُچھ مل بھی جائے تو اُس کے دیرپا رہنے کی کوئی ضمانت نہیں..."
اُنہوں نے اٹل لہجے میں کہا...
"یہ تُمہاری کراچی جانے کی ٹرین کی ٹکٹ ہے اب سے کُچھ گھنٹوں میں تُم واپس اپنوں میں لوٹ جاؤ گے مگر اِس سب سے جو سبق ملا ہے اُسے ہمیشہ یاد رکھنا.."
آفسر نے اُس کے ہاتھ ٹکٹ اور کُچھ پیسے دیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا...
"کبھی نہیں بھولوں گا یہ سبق میری زندگی میں آگے آنے والی ہر مُشکل میں مشعل راہ ہوگا.."
احسن نے مصمم کہا...
"اجازت ہے سر.." اُس نے اجازت چاہی..
"ضرور .." آفسر نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگایا اور اجازت دی...
"ہاں ایک اور بات.."
وُہ جانے ہی لگا تھا کہ آفسر نے روکا...
"یہ اب تُم سارے راستے سوچتے ہوئے جانا کہ تُمہیں اپنے گھر والوں کو کیا بتانا ہے مگر یاد رہے اِس سب کے بارے میں باہر کسی سے ذکر مت کرنا صرف اِسی شرط پر میں نے اپنی ذمے داری پر تُمہیں واپس بھیج دینے کی سفارش کی تھی ورنہ تُم  واپس نہیں جاسکتے تھے ہاں البتہ عزت کے ساتھ یہاں کام کر رہے ہوتے کیونکہ دنیا کہ لیے تُم مر چُکے ہو..."
"آپ بے فکر رہیں میں آپ کے بھروسے پر پورا اُتروں گا.."
احسن نے پورے اعتماد سے کہا۔
"چلو اب جاؤ نئی زندگی مبارک ہو احسن مجید.."
آفسر نے مسکرا کر کہا۔۔
"یس سر.. "
اُس نے آفسر زوہیب کو سلیوٹ کیا جو ایک عام آدمی کو طرف سے اِن جانبازوں کے لیے اظہارِ تشکر تھا...

(جاری ہے)

نوٹ : آخری قسط دو حصوں پر مشتمل ہوگی پہلا حصہ جمعے کو اور آخری حصہ اتوار کو پوسٹ ہوگا انشاء اللہ...
ناول کے متعلق کہانی کے متعلق اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں بھلے دو لائنز کا ہی صحیح میں کہانی کے متعلق کمنٹ کریں کوئی کمی رہ گئی ہو تو وہ بتائیں کیا اچھا لگا وُہ بتائیں اتنے لمبے وقفے کے بعد لکھ رہا ہوں تو کیا میرے اندازِ تحریر میں کوئی فرق آیا ہے وُہ بتائیں بھلے فرق منفی ہو یا مثبت مگر بتائیں ضرور اِس سے مُجھے بہتری میں مدد ملے گی..
شکریہ

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro