قسط نمبر ۴
#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۴
"کدھر جارہا ہے اِدھر آ.."
بختاور نے اپنے کمرے کی طرف بڑھتے غفران کو پیچھے سے آواز لگائی...
"تُجھے کُچھ پتا چلا..."
اُن کا انداز تفشيشی تھا...
"کیا.."
اُس نے شانے اُچکائے..
"نجمہ کا فون آیا تھا دوپہر میں بتارہی تھی منتہٰی کو تیرے چچا نے کہی بھجوا دیا ہے.."
اُنہوں نے اپنی دانست میں بم پھوڑا تھا...
"بھجوا دیا مطلب..."
اُسے حیرت ہوئی..
"مطلب کسی کو نہیں بتا رہے کہ کہاں بھیجا ہے بس کہہ رہے مُجھے پتا ہے.."
بختاور نے ناگواری سے کہا..
"مُجھے تو لگتا ہے لڑکی گھر سے بھاگ گئی ہے لکھ کر لے لے تو آخر کو بھگوڑے بھائی کا اثر تو آنا تھا.."
اُنہوں نے نخوت سے کہا...
"بکواس نا کر امّاں چچا ہو یا کوئی ہر ایک کو بتا دے جاکر منتہٰی صرف میری ہے اُس کی شادی صرف مُجھ سے ہوگی تو فضول کوششیں ترک کردیں.."
وُہ بھڑک اٹھا تھا...
"پتا نہیں کون سے سر خاب کے پر لگے ہیں اُس منہوس ماری میں ایک سے ایک لڑکی ڈھونڈوں گی تیرے واسطے بس اس چھپکلی کا پیچھا چھوڑ دے اتنا خوبصورت بیٹا ہے میرا کوئی بڑے گھر کی بہو لاؤں گا..."
وُہ اُسے سمجھانے کی ناکام سعی کرنے لگی..
مگر غفران ہی کیا جو مان جائے اور منتہٰی تو اِس کا جنوں تھی اِس کی ضد...
"مُجھے صرف منتہٰی چاہیے جو صرف میری ہے اور اپنے چیز میں ہر طور حاصل کرلیتا ہوں بتا دینا چچا کو.."
اُس نے اب کی بار وارننگ دینے والے انداز سے کہا...
"جانتا ہے اُس کے بھگوڑے بھائی نے تیری بہن کے ساتھ..."
بس کردے امّاں پچھلے پانچ سال سے ایک ہی بات سنائے چلی جارہی ہے میرے کان پک گئے ہیں.."
غفران نے شدید بیزاری سے کہا اور بائک کی چابی کو اُنگلی میں گھماتا سیٹی بجاتا چل دیا....
"ان ہونی ہونی نہیں اور ہونی ہونی ہار... میں بھی دیکھتی ہوں کیسے وُہ اِس گھر آتی..."
اُنہوں نے بھی خود سے عہد کیا۔۔۔
_____________________________
"فرحان..."
وُہ رات کےدوسرے پہر کسی برے خواب کے ڈر سے جاگی تھی...
چہرہ پسینے سے تر تھا...
اُسے اپنے چہرے پر یکدم دو ننھے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا...
"فرحان..."
وُہ اب تک خواب کے زیرِ اثر تھی..
چند لمحے یوں ہی سرک گئے...
آنکھیں چاروں اطراف گھما کر ماحول سمجھنے کی کوشش کی گہری سانسیں لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی...
اُس نے اپنے برابر میں آڑھی ترچھی لیٹی دُعا کو دیکھا تو بے اختیار ایک نرم مسکراہٹ نے اُس کے لبوں کو چھو لیا...
دُعا کے سر کے نیچے کا تکیہ وُہ دونوں ہاتھوں سے خود سے لگائے سورہی تھی گردن بھی ایک طرف تھی اور ایک پاؤں بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا۔۔۔
وُہ اپنے سر کو جھٹکتی اُٹھ کھڑی ہوئی..
تکیہ اُس کے چنگل سے نکال کر سر کے نیچے لگایا اور پاؤں اوپر کرکے اُسے چادر اُڑھا دی...
وُہ نیند کی پکی تھی تب ہی اُٹھی نہیں ورنہ وُہ تو ہلکی سی آہٹ پر بھی فوراً اُٹھ جایا کرتی تھی...
دوپٹہ شانوں پر اچھی طرح پھیلاتی بالکونی میں آگئی...
کوئی صدا اُس کے قدموں سے آ لپٹی...
"میں آپکی پھوپھو بولو "پھوپھو.."
مُنیر کا ہر بار اُس کی کوشش پر بے تحاشا ہنس دینا...
"آپ ہنستے رہیں پر مانی بھائی علیشہ آپ دونوں سے شرط لگاتی ہوں یہ مما پاپا سے پہلے مُجھے پھوپھو ہی بولے گا.."
خود کا اترا اترا کر کہنا...
سب ہی آوازیں اُس کے پیروں سے آن لپٹی سلاسل کی مانند..
"ماہی چلو میرے ساتھ میں تمہیں اِس طرح نہیں دیکھ سکتا تُم میری جان ہو میرا دِل خوں کے آنسو روتا ہے..."
منیر کا اُس کا ہاتھ پکڑ کر آنکھوں میں بے پناہ درد اور تکلیف لیے کہنا...
"میں نہیں چل سکتی بھائی میں ابو کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی..."
اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر اپنے فرحان پھوپھو کی جان.. جان سے پیار ا بھائی بہنوں جیسی بھابھی اور شفیق ماں کے کفن میں لپٹے چہرے آ ٹھہرے...
اُس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں آنسو آنکھوں کی سرحدیں پھلانگ باہر آ گرے...
"بھائی مُجھے معاف کردیجئے گا میں نے آپکو بہت دُکھ دیا ہے بہت اپنی ماہی کو معاف کردیجئے گا...مُجھے تو آپکے بعد کوئی "ماہی" بھی نہیں بلاتا بھائی..."
اُس نے ریلنگ کو مزید مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا...
درد حد سے سوا تھا...
ٹھندی یخ ہواؤں سے بے خبر وُہ بس ماضی میں مستغرق تھی کُچھ ہوش بحال ہوئے تو خود کو کانپتے پایا....
اُسے کُچھ یاد آیا...
"اور یہ میری ماہی کے لیے.."
مُنیر نے ایک شاپر اُسے دیتے ہوئے محبت سے کہا...
"بھائی آپکو کیسے پتا چلا مُجھے یہ ڈیزائن والا سویٹر چاہئے.."
اُس نے پیکٹ نکال کر دیکھا تو خوشی کے مارے چلا اُٹھی...
"میری ماہی کو کوئی چیز پسند آئے اور میں نہ لے کر دوں ایسا کب ہوا ہے.."
وُہ اُس کی خوشی دیکھ دیکھ کر نہال نہال ہورہا تھا...
"اِس کے پاس اتنے سویٹر رکھیں ہیں بیٹا فالتو میں پیسے خرچ کیے..."
آصف صاحب مزید چیزیں دیکھتے ہوئے افسوس سے بولے...
"ایک ہی ایک تو میری بہن ہے اب اِس کے بھی لاڈ نہ اُٹھاؤں بس آپ میرے اور میری ماہی کے بیچ نہ بولا کریں میری جان ہے یہ..."
مُنیر کہاں کُچھ سن سکتا تھا اپنی ماہی کے خلاف کُچھ وُہ تو اُس کا عشق تھی....
"ہاں میرے بھائی ہیں آپ کو کیا ابو.."
وُہ حال میں بھی ماضی میں کہے گئے الفاظ دہراتی واپس لوٹی...
تلخ حققیت سے سامنہ ہوا..
"بھائی اب کوئی بھی نہیں ہے جو میرے لاڈ اٹھاسکے آپ مجھے جن کے رحم و کرم پہ چھوڑ گئے انہیں میں اب بوجھ لگنے لگی ہوں تو آپ کی جگہ کیسے لے پاتے آپ تینوں کی اکلوتی بہن ہوں مگر اس اکلوتے پن کو صرف آپ نے زندہ رکھا تھا اور مان قائم رکھا تھا.میری تمام خواہشات اپنی کمسنی میں ہی دم توڑ گئی ہیں
جہاں پیٹ کی آگ ہی نا بجھے وہاں کیا امید جگانا کہ باقی امنگیں اور خواہشات پوری ہونگی میں تو وہ سائل ہوں جسے اپنے در پہ بھی بھکاری بن کے جینا پڑ رہا ہےچیتھڑے پہنے لوگ بھی اپنے آنگن میں بادشاہ ہوتے ہیں میں تو وہ بھی نا رہی ..بھائی کاش آپ نا جاتے تو میں آپ کی نازوں پلی لاڈو رانی ہوتی !."
اُس نے کربناک لہجے میں خود سے کہا...
اُس بے اختیار ایک ہفتے پہلے کی بعد یاد آئی...
" "بھائی مُجھے کُچھ پیسے چاہئے..."
اپنی انا پر قدم دھرے حالات کے آگے سر جھکائے بلا آخر اُس نے حمید سے پیسے مانگ ہی لئے.
. جبکہ وہ سوچ بیٹھی تھی جنہیں خود احساس نہیں اُنہیں بول کر کیا خود کی عزت کروانا...
"کیوں چاہیے..."
حمید نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پھلوں ،ڈرائی فروٹس مونگ پھلی کی تھیلیاں نجمہ کو دیتے ہوئے کہا جسے تھام کر وہ وہی جم گئی سننے کے لئے کیا بات کرنی...
"بھائی میرے پاس صرف سویٹر نہیں ہے صبح اسکول جاتے ہوئے بہت ٹھنڈ ہوتی ہے نہ میرے پاس ڈھنگ کے کپڑے ہیں جو ہیں اُنہیں متواتر پہننے اور دھونے سے اُن کا رنگ پھیکا پڑ چُکا ہے بس دو ہزار روپے دے دیں..."
منتہٰی فرش کو تکتی نظریں نیچے کیے دوپٹے کےکونے کو مروڑتی مضطرب سی اُمید کی پھڑپھڑاتی لو دِل میں جلائے کھڑی تھی....
"نہیں ہے میرے پاس یہی کرتا رہوں میں بس کبھی یہ لا دو کبھی وُہ ہر وقت کُچھ نا کُچھ چاہیے ہوتا ہے تمہیں...
حمید نے انتہائی حقارت سے کہا اور بقایا شاپرز نجمہ کو دیتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا...
اُس نے بے اختیار آنسو اندر اُتارے..
وُہ واپسی کے لیے مڑی ہی تھی سامنے سے حمید کا چھوٹا بیٹا بھاگتا ہوا اپنی ماں کے ہاتھ میں پکڑی تھیلیوں کی طرف چڑھ دوڑا..
تھیلی کو کھینچنے کی وجہ سے وہ پھٹ گئی اور زمین پر گری دو شال موزے جیکٹ اور ایک عدد سویٹر اپنی بھائی کی تنگ دستی اور کم ظرفی کا اعلیٰ ثبوت دیتے محسوس ہوئے..."
اُس نے فوراً حمید کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چرا گیا..
وُہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی تھی اور پھر چلتے چلتے کہاں آ رکی تھی ...
"کل آپکو گئے پورے تین سال ہوجائیں گے بھائی میرے "مانی بھائی" کو گئے اور منتہٰی کی روح کو بھی گزرے اتنی ہی مدت ہونے لگی ہے "میں" "میں" نہیں یہ تو صرف جسم ہے روح تو آپ ساتھ لے گئے ہیں میں تو موت کے انتظار میں زندہ ہوں شاید کبھی نہ نکلتی وہاں سے مگر ہاں میرا باپ ابھی میرے سر پر ہے جو میرے لیے درد رکھتا ہے جو میری ہر تکلیف پر کڑھتا ہے...مگر اب میں اور روؤں گی نہیں مُجھے ابو کے لیے جینا ہے اُن کے لیے کُچھ کرنا ہے تاکہ اُنہیں اُس جہنم سے نکال سکوں.."
ایک عزم کے ساتھ اشکوں کو صاف کرتی افق کو دیکھتے بولی..
آسمان میں جگ مگ چمکتے تاروں میں اُسے منیر کی مسکراتی شکل خود کو ہمت دلاتی محسوس ہوئی وہ مطمئن سی ہوکر اندر آکر لیٹ گئی کُچھ ہی دیر میں نیند کی دیوی اُس پر بھی مہربان ہوگئی..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"دُعا اُٹھو صبح کے آٹھ بج رہے ہیں.."
منتہٰی نے خوابِ سحر سے سوتی دُعا کو جھنجھوڑا...
"بس دو منٹ.."
وُہ کہتے ہوئے دوسری طرف کروٹ لے کر دوبارہ خواب دیدہ ہوگئی...
"اُٹھ جاؤ یار پھر تیار بھی ہونا ہے..."
منتہٰی نے دوبارہ اُسے ہلایا...
"اچھا میری ماں اُٹھ گئی..."
وُہ منہ بسورتی اُٹھ بیٹھی...
"تُم تیار بھی ہوگئی.."
دُعا نے اپنی نیم غنوده آنکھیں مارے حیرت کے مکمل طور وا کرتے ہوئے کہا...
"ہاں.."
اُس نے مختصر سا جواب دیا...
"کب سے اُٹھی ہوئی ہوں سیدھے سیدھے بتاؤ.."
اُس نے بیڈ سے اُٹھتے ہوئے کہا..
"میں فجر کی نماز کی بعد سوتی نہیں عادت ہے میری اور کل سے تمہیں بھی اُٹھاؤں گی فجر کے لیے چُپ چاپ نماز اوڑھنا ساری سستی غائب ہوجائے گی.."
منتہٰی نے اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا...
"مُجھے تُم معاف رکھو بہن آئی مین میں اور فجر میں اتنی جلدی...نو چانس.."
اُس نے الماری سے ایک سوٹ نکالا اور واش روم میں چلی گئی...
منتہٰی مُسکرا دی۔
دُعا چینج کرکے باہر آئی تو نیلے کلر کی پرنٹڈ لیلن کی لانگ شرٹ میں اُس کی سنہری رنگت مزید دمک رہی تھی اُس نے دوپٹہ اچھی طرح سینے پر پھیلایا اور ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وُہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگنے لگی تھی...
"تُم کیا پھیکی بھنٹارن بن کے جارہی ہو.."
دُعا نے سفید کھلی سی گھیردار شلوار پر کالی قمیض پہنے سیاہ چادر سر اور سینے پر پھیلائے منتہٰی کے ہر طرح کے بناوٹ اور تصنع سے پاک چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا..
"میں ٹھیک ہوں ایسے ہی.."
اُس نے فوراً سے کہا...
"ہاں ہاں پتا ہے تُم نیچرلی پیاری پر تھوڑا سا میرے لئے اتنی سادہ بھی نہیں.."
دُعا نے لپ اسٹک زبردستی لگاتے ہوئے کہا...
"اچھا اب اور کُچھ نہیں اور چلو.."
ہاں اب ٹھیک ہے ماشاللہ.."
دُعا نے بے اختیار تعریف کی...
دُعا نے بھی سیاہ چادر سر اور سینے پر پھیلائی اور سینڈلز پہن کر اُس کے ساتھ چل دی...
___________________________________
"بس یہی روک دیں سائڈ میں.."
زیان نے مطلوبہ جگہ آنے پر رکشے والے سے کہا...
"یہ لیجئے.."
اُس نے سو کا نوٹ دیتے ہوئے کہا...
"بھائی بونی کا وقت ہے کھلے نہیں.."
رکشے والے جیبیں کھنگالتے ہوئے کہا...
"کوئی بات نہیں آپ رکھ لو بس مُجھے دعا دے دو یار پہلا دن ہے نئے آفس میں سب اچھا ہو دوست..."
وُہ اپنے ازلی دوستانہ انداز میں بولا...
"انشاءاللہ بھائی."
رکشے والے نے رکشہ دوبارہ اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا...
"یا اللہ خیر کرنا.."
وُہ فرم کے اندر چلا گیا..
"السلامُ علیکم میرا نام زیان طارق ہے.."
اُس نے منیجر سے جاکر مِل کے کہا...
"وعلیکم سلام...جی میں نے آپکو پہچانا نہیں دراصل میں نے کل سے ہی جوائن کیا ہے.."
مقابل نے نرمی سے کہا..
"اوہ مطلب میں اکیلا نیا نہیں دوست تم بھی نئے ہو.. ویسے میرا نام زیان ہے.."
اُس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا...
"میرا نام سمیر ہے.."
سمیر نے اُس کے بڑھے ہاتھ کو تھامتے ہوئے کہا...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro