Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۳

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۳

"بھابھی..بھابی..."
جمیلہ پورے گھر میں چیختی ہوئی سب سے آخر میں نجمہ کے کمرے میں آ رکی..
"کیا ہوگیا کیوں اتنی بولائی ہوئی ہے..."
نجمہ نے لحاف کو مزید لپیٹتے ہوئے بھی..
"بھابھی منتہٰی اپنے کمرے میں نہیں ہے..."
وُہ اپنا تنفس بحال کرتے ہوئی بولی گویا کسی بہت بڑے بوجھ سے نجات پائی تھی بات بتا کر... کے
"کیا مطلب نہیں ہے اُس چوہیا نے کہاں جانا ہے دھیان سے دیکھ یہی کہی مری ہوگی کمبخت ماری یا بچوں کو اسکول چھوڑنے گئی ہوگی..."
نجمہ نے اُس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
"نہیں بھابھی بچے تو اپنے کمرے میں سورہے ہیں منتہٰی ہوتی تو کب کا تیار ہوچکے ہوتے میں نے پورے گھر میں دیکھ لیا وُہ نہیں ہے.."
جمیلہ نے اب کی بار ذرا سختی سے کہا...
"گھر میں نہیں ہے تو پھر کہاں چلی گئی وُہ.."
نجمہ نے حیرانگی کے عالم میں کہا۔۔
"چل میں دیکھتی ہوں تیرے ساتھ..."
نجمہ پاؤں میں چپل گھسیڑتے اُٹھ کھڑی ہوئی...
وُہ دونوں آصف صاحب کے کمرے میں آئے جہاں منتہٰی اُن کے ساتھ رہتی تھی تو آصف صاحب کو آنکھیں کھولے لیٹے پایا ہاتھ میں اُن کے تسبیح تھی جس پر وہ شاید کُچھ پڑھ رہے تھے...
منتہٰی کا بستر بھی نہیں بچھا ہوا تھا...
"جمیلہ اُس کی الماری دیکھ..."
نجمہ کمر پر ہاتھ رکھے بولی...
الماری کھولی تو اُن دونوں کو حیرت کا ایک شدید ٹرین جھٹکا لگا کیونکہ منتہٰی کے سارے کپڑے غائب تھے...
"یہ کہاں دفع ہو گئی ہے کپڑے بھی نہیں ہے.."
نجمہ نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ  غصّے سے کہا...
"حمید..حمید.. اُٹھو جی بھاگ گئی تمہاری بہن ہم سب کے چہروں پر کالک مل کر..."
نجمہ وہی کھڑے کھڑے زور سے صدا دیتی کمرے سے نکل گئی....
"میں تو کہتی تھی اِس لڑکی کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے بھابھی مگر یہاں ہماری سُنتا کون حمید بھائی اور اختر کو اپنی لاڈلی بہن کے آگے کُچھ دکھتا ہی کہاں لو اب خاک ڈال گئی ہمارے سروں پر.."
جمیلہ نے بین کرتے ہوئے کہا...
حمید اور اختر اپنی اپنی بیویوں کی آواز سنتے نیند سے آنکھیں مسلتے نیچے آئے...
"کیا شور مچا رکھا ہے تُم دونوں نے.."
حمید برہم ہوکر بولا..
"آپکی بہن ہمارے منہ کالے کرگئی اور ہم کُچھ بولے بھی نا..."
نجمہ ڈھیٹ ہوئی...
"بکواس بند کرو جمیلہ سیدھے سیدھے بتاؤ کیا تماشہ ہے اور یہ بچے اب تک اسکول کیوں نہیں گئے منتہٰی کدھر ہے..."
اختر جمیلہ اور بھڑکا...
"وہی تو بھاگ گئی ہے رات گئے پتا نہیں کس کے ساتھ..."
نجمہ پھر شروع ہوئی..
"تُم دونوں اپنے منہ بند رکھو گی ابو کہاں ہے اُن سے پوچھو اُن ہی کے کمرے میں سوتی ہے..."
حمید نے سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے کہا...
اختر نجمہ اور جمیلہ بھی اُس کے پیچھے چل پڑے...
"ابو کہاں ہے منتہٰی..؟"
حمید نے کمرے میں قدم رکھتے ہی سخت آواز میں کہا...
آصف صاحب نے دھیرے سے اپنی آنکھیں وا کیں اور اپنے دو ناکارہ سپوتوں کو دیکھ نخوت سے منہ دوسری جانب موڑ لیا...
"ابو بتائیں کہاں گئی ہے وُہ..."
اب کی بار نجمہ چیخی تھی جبکہ حمید اُس کی بدتمیزی دیکھتے ہوئے بھی چُپ رہا...
"چلی گئی...بلکہ میں نے بھیج دیا میری بیٹی میری مرضی تُم دونوں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خوش رہو.."
آصف صاحب اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے اطمینان سے بولے...
"کہاں چلی گئی ہے..؟"
اختر نے حیرانی سے پوچھا...
"جہاں بھی ہے پر یہاں سے بہت خوش ہے.."
اُنہوں نے تسبیح کے دانے متواتر گراتے ہوئے کہا...
"وُہ ہمارے گھر کی عزت بے ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے..."
حمید نے گالی دیتے ہوئے اپنی بات مکمل کی...
"گھر کی عزت اب تم دونوں کے خون نے کیسے جوش ماردیا جب زن مریدوں کی طرح اپنی اپنی بیویوں کے پیچھے دُم ہلائے گھومتے تھے تب کیوں یاد نہیں آئی کے وُہ تمہارے گھر کی عزت کو پرائے گھر سے آئی ہوئی دونوں عورتیں کس طرح ذلیل کرتی ہیں اپنی بیویاں تمہیں حق بجانب لگتی ہیں نا تمہیں تو پھر اس بات کا رونا..اور تُم دونوں کو تو ویسے ہی میری بچی آنکھوں میں کھٹکتی تھی اب خوش ہوجاؤ چلی گئی وُہ..."
آصف صاحب نے زہر خند لہجے میں کہتے ہوئے شعلہ بار آنکھوں سے غیرت کے ماروں کو دیکھا...
"چچا ہم تو میں آپ کے لئے جتنا بھی کرلیں آپکو ہمیشہ وُہ آفت کی پرکالہ منتہٰی ہی معصوم لگے گی..."
نجمہ ترشوئی سے بولی...
"بکواس بند کرو اپنی اپنی اور نکل جاؤ میرے کمرے سے میں جانتا ہوں میرے بیٹی کہاں ہے تو اپنی نام نہاد عزت کے تازیانوں کو چلو بھر پانی میں غرق کرکے اپنی اپنی زندگیوں میں بے فکر مست و مگن ہوجاؤ..."
"ابو وُہ اپنا گھر ہوتے ہوئے دربدر کی ٹھوکریں کھائے گی..."
"یہاں تُم لوگوں کی بھی تو ٹھوکروں پر ہی تھی کم از کم زمانے کی ٹھوکر کھا کر خود مختار تو ہوگی کسی کے آگے بھیک تو نہیں مانگنی پڑے گی سرد راتوں میں پتلی سی چادر میں ٹھٹھرنا تو نہیں پڑے گا دِن بھر تُم لوگوں کی غلامی کرکے اُجرت کی صورت سب کا بچا ہوا کھانا تو نہیں ملے گا تُم لوگوں کی دھتکار اور پھٹکار سے بچی رہے گی...مُجھے اپنی بچی کا ایسا رُلنا دل و جاں سے منظور ہے..."
آصف صاحب نے اپنی بات ختم کرکے ہاتھ سے دروازے کی طرف اشارہ کیا...
مطلب صاف تھا کہ اب جاؤ...
نجمہ اپنا پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی باقی سب بھی ایک ایک کرکے کمرے سے باہر نکل گئے...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے منتہٰی کیا کر رہی ہو...؟"
دُعا نے کچن کے کیبنیٹس کی تلاشی لیتی منتہٰی سے پوچھا..
"رات کے کھانے کے لئے دیکھ رہا تھا دال وغیرہ کُچھ ہو تو بنادوں..."
اُس نے اپنی تلاش جاری رکھتے ہوئے کہا...
"سودا ختم ہوگیا ہے اور میں اپنی سُستی کی وجہ سے بازار نہیں گئے خیر کل لے آئیں گے فرم سے واپسی پر..."
اُس نے بے فکری سے کہا...
"تو آج...؟"
"آج باہر سے آرڈر کرلیں گے..."
وُہ فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے بولی...
"تمہارے پاس فون ہے؟"
منتہٰی کو اچانک یاد آیا اُس نے اب تک ابو کو کال نہیں کی۔۔۔
"ہاں ہے.."
دُعا نے چینلز بدلتے ہوئے کہا۔۔۔
"مُجھے ابو کو کال  کرنی ہے کیا آپکا.."
"ارے تو اِس میں اتنی جھجکنے والی کیا بات ہے یہ لو اور کرلو فون..."
دُعا نے اپنا سیل اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا...
منتہٰی نے متشکرانہ نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے سیل لے لیا...
________________________________
آصف صاحب مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے ہی تھے فون بجنے لگا انجان نمبر دیکھ کر پہلا ہی خیال اُنہیں منتہٰی کا اوا  پُر اُمیدی سے کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون کان سے لگا لیا...
"السلامُ علیکم ابو..."
منتہٰی نے رندھتے ہوئے گلے کے ساتھ سلام کیا...
"وعلیکم سلام...میری بچی کیسی ہے تو میں کتنا پریشان تھا میں نے کہا بھی تھا پہنچتے ہی مُجھے کیسے بھی کال کرنا تُجھے پتا ہے نہ میں پریشان ہوجاؤ گا جب تک تیری کوئی خیر خبر نہیں آتی..."
"ابو میں بالکل بھول گئی تھی.. آپ کیسے ہیں؟ آپ نے اپنی دوائی تو لی نا؟ میں نہیں ہوں تو آپ بھول مت جائے گا ..."
وُہ روتے ہوئے ایک ہی سانس میں کہتی گئی....
"میں بِلکُل ٹھیک ہوں میری بچی تو بتا تو کیسی ہے سب ٹھیک تو ہے نا..."
آصف صاحب نے محبت سے پوچھا...
"ابو میں بِلکُل ٹھیک ہوں بس آپ اپنا خیال رکھیں مُجھے آپکی فکر لگی رہے گی..."
منتہٰی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی...
"ابو بھائی بھابھی نے تو  بہت..."
"اِدھر کی فکر تو چھوڑ دے اُن کم ظرف لوگوں نے جو کرنا تھا کرلیا اِن لوگوں کو میں دیکھ لوں گا تو بس اپنا خیال رکھ...تہمینہ سے ملاقات ہوئی تیری..؟"
آصف صاحب نے ٹھہر کر پوچھا...
"نہیں ابو وُہ  آج آئی ہی نہیں تھی کل فرم سے واپسی پر ملوں گی بس میرے لیے دعا کیجئے گا ابو..."
"میں تو ہر دم تیرے لیے دُعا کرتا ہوں میری بچی بس تو خوش رہے.."
اُنہوں نے شفقت سے کہا...
دُعا بڑی غور سے ساری باتیں سُن رہی تھی..
"ابو میں ایک دو دن میں فون لے لوں گی جب تک آپ میں اسی نمبر پر آپ سے بات کیا کروں گی اپنا بہت بہت خیال رکھیے گا اور اپنے صحت کے حوالے سے کوئی لا پرواہی مت کیجئے گا آپ ہی تو ہے میرے اِس دُنیا میں بس.."
منتہٰی نے بھیگے لہجے میں کہا..
"ابو..."
منتہٰی کہتے کہتے رکی...
"بول ابو کی جان..."
"ابو مُنیر بھائی علیشہ اور امی کی بہت یاد آرہی ہے آج..."
وُہ بلا آخر اپنا ضبط کھونے لگی تھی...
آصف صاحب کی آنکھوں کے سامنے وُہ سارے منظر گھوم گئے جو جانفرسا تھے...
"بس میری بچی ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں اُن لوگوں کے لئے ہماری حدوں سے بہت دور.."
اُنہوں نے اپنی آنکھوں  کے بھیگتے کنارے صا کیے...
"ابو پرسوں اُن تینوں کو گئے پورے ۳ سال ہوجائیں گے..
وقت کتنی تیزی تیزی سے اُڑ گیا نہ مُجھے لگتا تھا مُنیر بھائی کے بعد میں جی نہیں سکوں گی مگر دیکھیں آج بھی زندہ ہوں سانسیں لے رہی ہوں..."
"اچھا بیٹا میں تُجھے کل کال کروں گا اپنا بہت خیال رکھنا میری بچی خُدا حافظ..."
آصف صاحب میں اور سکت نہ تھی اپنے ایک غلط فیصلے کے بدلے عُمر بھر کے روگ کی داستان سُن سکتے...
"مُنیر میرے بیٹے مُجھے معاف کردینا اپنے بدقسمت باپ کو معاف کردینا..."
اُنہوں نے یوں ہاتھ جوڑے کہا گویا منیر آصف رفیق اُن کے روبرو ہو...
مُنیر کے جملوں کی بازگشت آج بھی اُن کی سماعتوں میں زندہ جاوید تھی...
"ابو ہم سے لاکھ نفرت سہی پر ایک بار اپنے پوتے کی شکل تو دیکھ لیں یہ تو آپکا خون ہے ..."
مُنیر کا منت سماجت کرنا.
مگر اُنہوں نے اُس معصوم کے چہرے کی طرف ایک نظر بھی نہ ڈالی...
"ابو میں نے کوئی اتنا بڑا گناہ بھی نہیں کہ آپ میری شکل دیکھنے تک کے روادار نہیں.."
مُنیر کا بار بار اُن سے مِلنے گھر آنا اور بے نیل مرام واپس لوٹ جانا...
"آصف صاحب میں کہتی ہوں گلے لگالیں بچے کو مُجھ سے نہیں دیکھی جاتی اُس کی رونی صورت آپ بھی جانتے ہیں کتنی محبت کرتا ہے آپ سے اگر آپ نے معاف نا کیا ناں تو اب کی بار میں اُس کے ساتھ چلی جاؤں گی.."
نفیسہ بی بی کا اُنہیں دھمکانا اور پھر چلے جانا ہمیشہ کے لیے اپنے آصف صاحب کو اکیلے چھوڑ کر ایک عُمر ساتھ گزار کر لامتناہی جدائی کا درد دے کر چلے جانا..
"نفیسہ میں لگا لوں گا اپنے مانی کو گلے میری جان ہے وُہ تُم واپس آجاؤ میری بہو میرے بیٹے میرے پوتے کو بھی لے آؤ واپس  میں سینے میں بھر لوں گا واپس آجاؤ..."
اُنہوں نے اپنے نحیف ہاتھوں سے اپنے پراگندہ چہرے کو صاف کیا اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے آنکھیں موند لیں...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"لو پانی پیو رونا بند کرو..."
دُعا نے اُس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے پانی کا گلاس منہ سے لگایا...
"بس منتہٰی بس.."
دُعا اُس کی غیر ہوتی حالت سے گھبرا گئی تھی...
"بھائی..."
وُہ اپنے حواسوں میں نہیں دکھائی دیتی  تھی...
"لیٹ جاؤ شاباش..."
اُس نے اُس کے سر کے نیچے تکیہ رکھتے ہوئے پیار سے کہا...
منتہٰی ہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے کسی روٹھے ہوئے بچے کی طرح سوگئی...
"یا اللہ اِس کو سکون دے..."
دُعا نے دِل سے دعا کی...
کتاب نکال کر بیڈ کی دوسری طرف آکر لیٹ گئی اور ورق گردانی میں مصروف ہوگئی...
____________________________________

(جاری ہے)


Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro