قسط نمبر ۲۹
Mega Episode 💥💥💥
#بچھڑے_سفر_میں
(season 1)
از قلم #مصطفیٰ چھیپا
۲۹قسط نمبر
(2nd last episode)
"فرحان تو اُس دِن مانی بھائی امی اور بھابھی کے ساتھ گاڑی میں تھا پھر وُہ کیسے اور اتنے سالوں تک آپ نے اُسے چھپا کر کیوں رکھا ہم سب سے.."
اُس نے غفران کے حصار سے نکلنے کی کوشش ترک کردی تھی...
"کیا تمہارے لیے اتنا کافی نہیں ہے کہ تمہارے بھائی کی آخری نشانی صحیح سلامت ہے اُسے میں تُم لوگوں کے پاس کیوں نہیں لایا وُہ لمبی کہانی ہے تُم ٹھیک ہوجاؤ میں سب بتا دوں گا ابھی میں یہ سب باتیں کرنے نہیں آیا..."
غفران نے نرم لہجے میں کہا...
"عمی بھائی یا آپی سونے سے پہلے ایک بار مُجھے دیکھنے آئیں گی آپ دروازہ کھول دیں اور چینجینگ روم میں چھپ جائیں..."
وُہ نا چاہتے ہوئے بھی اُسے بچانے پر مجبور تھی سب کچھ اتنی جلدی ہوا تھا کہ اُسے کُچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ مِل سکا...
"تُم ابھی بھی اُس کے سامنے کہہ سکتی ہو کہ تُمہیں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا ہے میں ابھی تُمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا جاناں..."
غفران نے اُس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا...
"ابھی نہیں غفران مُجھے آرام سے بات کرنے دیں اُنہیں میں آجاؤں گی آپکے پاس اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے چار ناچار مُجھے آنا ہوگا..."
وُہ بیچارگی سے بولی...
"ہاں اور کوئی راستہ نہیں ہے تمہارے پاس کیونکہ تمہارے سارے راستوں کا اختتام مُجھ پر ہوتا ہے.."
غفران نے جیسے اُسکی حالت سے حظ لیا تھا...
"اب جائیں اُن دونوں میں سے کوئی کسی وقت بھی آسکتا ہے..."
"کُچھ ایسا مت کرنا جس سے مُجھے تکلیف ہو جاناں میں تمہیں یقین دلاتا ہوں میں فرحان کو کبھی کُچھ نہیں کروں گا میں کر ہی نہیں سکتا تُم دونوں میں میری جان بستی ہے اُسے نقصان پہنچانے سے پہلے میں مرنا پسند کروں گا مگر تُم نے مُجھے دھوکا دینے کی کوشش کی تو میں تمہارے بھائی کی آخری نشانی کو تُم سے ہمیشہ کے لیے بہت دور لے جاؤں گا بہت دور..."
اُس نے پہلی بار اپنے ارادے منتہٰی پر واضح کیے تھے کیونکہ اُسے ڈر تھا منتہٰی عماد کو سب بتا نہ دے...
اُس نے اُٹھ کر دروازے کا لاک کھولا اور چینجنگ روم جا چھپا منتہٰی نے بلکل ٹھیک کہا تھا تھوڑی ہی دیر بعد عماد کمرے میں آیا تھا...
"جاگ رہی ہے میری چوہیا..."
عماد نے مسکراتے ہوئے کہا اور اُس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا...
"ایسے ہی آنکھ کھل گئی تھی بھائی پھر نیند ہی نہیں آئی..."
اُس نے نجانے کس رو میں بہہ کر کہا...
"آنکھیں بند کرو نیند آجائے گی شاباش ویسے بھی تُمہیں زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے تاکہ جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ.."
اُس نے منتہٰی کی کمر کے پیچھے تکیہ درست کرتے ہوئے کہا...
"دوائی لے لی تھی ناں...؟"
"جی بھائی آپی زبردستی دودھ بھی پلا کر گئی ہیں دوائی کے ساتھ.."
اُس نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا...
"ہاں ایسی زبردستی تو کرنی ہی ہوگی کیا میں نہیں جانتا تُمہیں دودھ سے کتنی سخت چڑ ہے بچپن میں بھی جب امّاں تُمہیں دودھ پینے کے لئے دیتی تھیں تو تُم ہمیشہ اگر میں سامنے ہوتا تھا تو مُجھے پلا دیتی تھی یا پھر نظر بچا کر پھینک دیا کرتی تھی..."
عماد نے ہنستے ہوئے کہا تو ایک حقیقی مسکان نے اُس کے ہونٹوں کو چھوا تھا وُہ منتہٰی کی امی کو امّاں کہتا تھا...
"ایسے ہی مسکراتی رہا کرو بس بہت پیاری لگتی ہو بلکل شہزادی..."
عماد نے محبت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"عمی بھائی..." اتنی محبت کے جواب میں وُہ اُسے کیا دُکھ دینے والی تھی سوچ کر ہی اُس کا دِل بھر آیا اُس نے بے ساختہ اُس کا نام لیا...
"جی بھائی کی جان میں یہی ہوں کہو بیٹا کوئی بات ہے..؟"
عماد کو اب کُچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا...
غفران کا دِل پوری شدت سے دھڑک رہا تھا اُسے لگا کہ منتہٰی اُسے سب بتا دے گی اور وہ اُسے کھو دے گا کیونکہ فرحان کو کُچھ کرنے کے بارے میں وُہ اپنے خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا اگر منتہٰی عماد کو سب بتا دیتی تو وُہ کیا کرسکتا تھا کُچھ نہیں فرحان واحد وُہ کڑی تھا جو اُسے منتہٰی سے جوڑے رکھ سکتا تھا...
"ایک وعدہ چاہئے آپ سے..."
"کیسا وعدہ بیٹا..؟"
عماد نے شفقت بھرے انداز میں پوچھا...
"چاہے کُچھ بھی ہوجائے کُچھ بھی مُجھ سے جتنی ہی بڑی غلطی کیوں نہ ہوجائے آپ کبھی مُجھ سے ناراض نہیں ہوں گے کبھی بھی مُجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے ہمیشہ مُجھ سے ایسے ہی محبت کریں گے کبھی بھی مُجھ سے بدگمان نہیں ہونگے میں اپنا ایک بھائی کھو چُکی ہوں عمی بھائی وُہ مُجھ سے ناراض ہوکر گئے تھے آپ کبھی مُجھ سے ناراض مت ہونا..."
منتہٰی نے اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر لجاجت سے کہا...
"پاگل لڑکی اِدھر آؤ..."
اُس نے اپنے بانہیں پھیلا کر کہا تو منتہٰی نے فوراً اُسکے سینے پر اپنا سر رکھ دیا وہی سکون محسوس ہوا جو منیر کے حصار میں تھا...
"کتنا سوچتی ہو یار ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ماہی میں تُم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوسکتا بہن تو بھائی کی جان ہوتی ہے اُن کی پہلی اولاد اُن سے بھلا کون ناراض ہوسکتا ہے میں صرف اتنا کہوں گا تُم مُجھے اگر مار بھی دو گی نا تب بھی تُم سے ناراض تو بہت دور کی بات اِس دُنیا سے چلے جانے کے بعد بھی تمہارے لیے دعائیں..."
"مرنے کی باتیں مت کریں بھائی مُجھے بہت ڈر لگتا ہے پلیز..."
منتہٰی نے روتے ہوئے کہا..
"رونا نہیں میری جان بلکل نہیں اور یہ بات اپنے دِل سے نکال دو کہ مانی تُم سے کبھی ناراض ہوسکتا تھا میں جانتا ہوں اُسے جان دیتا تھا وُہ تُم پر یار ہم دونوں نے تمہیں اپنے بچے کی طرح پالا ہے کیا تُمہیں لگتا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی تُم سے ناراض یا خفا ہوسکتا ہے..."
عماد نے اُسکی آنکھیں صاف کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا تو اُس کا سر بے اختیار نفی میں ہلا...
"ہم دونوں تو لڑا کرتے تھے اِس بات پر کہ کون ماہی سے زیادہ پیار کرتا ہے اور نتیجہ ہر بار کُچھ نہیں نکلتا تھا کیونکہ ہم دونوں ہی اپنی اپنی جگہ تُم سے بہت محبت کرتے ہیں فیصلہ تو ہو ہی نہیں سکتا کون زیادہ کون کم..."
عماد نے جاندار مسکراہٹ کے ساتھ کہا...
"کتنا میلو ڈرامہ چلے گا اِن دونوں کا..."
غفران غصّے سے بیچ و تاب کھا رہا تھا...
"ہم دونوں جب بھی ملتے تھے تو آدھی باتیں تمہاری ہی ہوتی تھیں کہ ماہی نے یہ چیز توڑی تو امّاں نے ڈانٹا ماہی نے ٹیسٹ میں اتنے نمبر لیے تو ماہی نے گھر کی کھڑکی توڑ دی کرکٹ کھیلتے وقت اب ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں آٹھ نہیں اِس پر بھی ہم لوگ لڑتے تھے اور تُم جانتی ہو کیوں لڑتے تھے..."
عماد کی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی تھی وُہ ماضی کے خوبصورت دنوں میں کھونے لگا تھا۔۔۔
"ہاں پتا ہے مُجھے کیونکہ میرے دو گھر تھے شروع سے دو دو مائیں دو دو باپ اور جان چھڑکنے والے بھائی اب یہ فیصلہ مشکل تھا کہ مُجھے چار دن کون سے گھر میں رہنا تین دِن کون سے اور یہ لڑائی ہر ہفتے ہوتی تھی سب کتنا اچھا تھا پہلے حمید بھائی اور اختر بھائی بھی مُجھ سے بہت محبت کرتے تھے مگر پھر سب بدل گیا اکلوتی میں سب کی بہن تھی مگر اِس بھرم کو صرف آپ دونوں نے قائم رکھا.."
منتہٰی نے یاسیت سے کہا...
خاموشی کا ایک وقفہ آیا تھا اُن دونوں کے درمیان دونوں میں سے کوئی کُچھ نہیں بولا دوسری طرف غفران کا دِل چاہ رہا تھا منتہٰی کو اُٹھا کر اپنے ساتھ لے جائے وُہ تو جیسے اُسکی موجودگی بھلا ہی بیٹھی تھی...
"میں بہت اکیلا ہوگیا ہوں ماہی مانی کے جانے کے بعد بہت اکیلا میں نے خود کو کیسے سنبھالا ہوا ہے یہ میں ہی جانتا ہوں وُہ میرا بچپن کا دوست میرا بھائی میرا سب کُچھ تھا اُسکے ہوتے ہوئے مجھے کبھی کسی اور دوست کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے کافی تھے مگر میں اُس دن
مر گیا تھا جب میں نے مانی کے جنازے کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا تھا وُہ بوجھ مُجھے آج بھی جب اپنے کندھوں پر محسوس ہوتا ہے تو میرے کندھے جُھک جاتے ہیں میں نے بہت مشکل سے سنبھالا ہوا ہے خود کو اب تک ماہی ہم دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر دِن نہیں گزرتا تھا اور آج اتنے سال ہوگئے ہیں مُجھے اُسکی آواز سنے ہوئے اُس کے منہ سے جانی سنے ہوئے اُسکے منہ سے "ماہی سے سب سے زیادہ پیار میں کرتا ہوں..." سنے ہوئے زور سے اُسکے گلے لگے ہوئے علیشہ کے منہ سے عماد ڈفر سنے ہوئے امّاں کی محبت امی کی پیار بھری پھٹکار سنے ہوئے فرحان کی توتلی زبان میں تاچو سنے ہوئے اُسکی معصوم شرارتوں کے قصے مانی سے سنے ہوئے...."
وُہ دونوں اب ہچکیوں سے رو رہے تھے فرحان کے نام پر دونوں کے دِل میں ایک ہوک سی اُٹھی غفران کی موجودگی کا خیال دوبارہ بجلی کی سی تیزی سے کوندا ذہن میں.. عماد اور منتہٰی دونوں ہی جانتے تھے کہ فرحان زندہ ہے مگر اپنی اپنی جگہ مجبور تھے..
"سب بہت پیچھے رہ گیا ہے ماہی ہم بہت آگے آگئے ہیں بہت یاد آتی ہے مانی کی بہت یاد دل چاہتا ہے ابھی کہیں گھر کے کسی کونے سے نکل کر کہے "ابے ہٹ ادھر سے سالہ ڈرامے باز اور کس کر گلے لگا لے... بہت یاد آتے ہیں سب بہت ..."
اُس نے منتہٰی کو مزید مضبوطی سے خود سے لگائے کہا کیونکہ وُہ جانتا تھا دُکھ دونوں کا سانجھا تھا....
"تُم مت چھوڑ کر جانا مُجھے کبھی بھی میں اب اور مزید کسی کو نہیں کھو سکتا صرف تُم اور شائنہ رہ گئے ہو میری زندگی میں کوئی ایک بھی اگر چلا گیا تو میں واقعی مر..."
"بھائی نہیں کریں ایسی باتیں میں کہیں نہیں جارہی کوئی کہیں نہیں جارہا بس جو ہوچکا اُسے بدلا نہیں جاسکتا مگر جو ہے اُسے بچایا جاسکتا ہے بس آنسو صاف کریں اور جلدی سے مسکرائیں..."
منتہٰی نے اُس سے الگ ہوکر کہا اور اُسکے آنسو صاف کیے...
"میں نے بھی بلاوجہ تُمہیں بھی دکھی کردیا بس دِل بھر آیا تھا مگر مُجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ تُم میرے ساتھ ہو بس پرسوں تمہاری خلع کے مقدمے کی پہلی پیشی ہے اور پہلی ہے ہیئرنگ میں تُم اُس ذلیل اِنسان سے مکمل طور پر آزاد ہوجاؤ گی..."
عماد نے اُسکے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا...
غفران نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچی تھیں آنکھوں میں خون اُترنے لگا تھا عماد واقعی سچ جو کہہ رہا تھا اسی لیے تو اُس نے اپنا آخری حربہ آزمایا تھا فرحان کا نام لے کر ورنہ وُہ اُسے ہمیشہ کے لیے کھو دیتا۔۔۔
"کاش جیسا آپ کہہ رہے ہیں وُہ سچ ہوتا بھائی..."
منتہٰی نے خود سے کہا....
"اچھا ماہی یہ انگوٹھی جو میں تمہیں پہنا رہا ہوں اِسے ہمیشہ پہنے رکھنا.."
عماد نے اپنی جیب سے ایک انگوٹھی نکال کر اُسے پہناتے ہوئے کہا..
"انگوٹھی کیوں.؟؟"
"سوال بہت نہیں کرنے لگ گئی تُم بس مُجھ پر یقین رکھو.."
عماد نے مقصد بتانے سے گریز کیا...
"کیسی بات کرتے ہیں آپ پر تو خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے..."
"اچھا اب سوجاؤ صبح ہونے والی ہے ویسے بھی ٹھیک ہے میری چوہیا.."
عماد نے اُسکی ناک دبا کر کہا تو وہ ہلکا سا مسکرادی...
"شب بخیر اللہ حافظ بیٹا.."
عماد نے کمبل اُس پر برابر کرتے ہوئے کہا اور سائڈ لیمپ بند کرتے ہوئے باہر چلا گیا....
ایک دو منٹ گزرنے کے بعد غفران دوبارہ باہر نکل آیا اور دروازے کو لاک کرتا ہوا دوبارہ اُس کے ساتھ آکر لیٹ گیا اور اُسے خود سے قریب کرلیا...
"جیسی فضول باتیں تُم اُس کے ساتھ کر رہی تھی کہیں اپنا ارادہ تو نہیں بدل دیا تُم نے.."
وُہ اپنا خدشہ زبان پر لے ہی آیا...
"تُم جیسے جذبات اور احساسات سے عاری اِنسان کے لئے یہ باتیں فضول ہی ہیں کیونکہ تُمہیں صرف اِن سے کھیلنا آتا ہے۔۔۔
میں چلوں گی کل تمہارے ساتھ اور کوئی راستہ جو نہیں ہے ..."
وُہ پھر سے تُم پر آچکی تھی مطلب صاف تھا وُہ اُس سے مزید متنفر ہوچکی تھی۔۔۔
"ٹھیک کہا تُم نے میں جذبات سے عاری اِنسان ہوں مگر تمہارے معاملے میں مُجھ سے بڑا جذباتی اِنسان کوئی نہیں ہے "سدرۃ المنتہٰی".."
"تُم اور تمہاری دو ٹکے کی جذباتیت سستی بے وزن اور بودی..."
وُہ ناگواری سے بولی...
"کیا ہم پچھلی سب باتیں بھول کر ایک نئی زندگی نہیں شروع کرسکتے منتہٰی سب بھول کر میں تُم سے وعدہ کرتا ہوں میں تُمہیں بہت محبت دوں گا بہت چاہوں گا تُمہیں اتنا کہ تُم اپنی ساری تکلیفیں بھول جاؤ گی میری محبت تُمہیں جیت لے گی تُم بھی مُجھ سے محبت کرو گی ایک دِن بس صرف ایک آخری موقع دے دو صرف ایک آخری موقع..."
اُسکے لہجے میں خواہش بول رہی تھی اُسکی زندگی کی سب سے بڑی خواہش....
مگر منتہٰی کو اُس کی اِن باتوں سے چنداں فرق نہیں پڑتا تھا وُہ یہ سب باتیں اِس سے پہلے بھی کئی بار سن چُکی تھی...
"بس ایک آخری موقع چاہتا ہوں تُم سے..."
وُہ اب بھی اُسکے جواب کا منتظر تھا مگر منتہٰی نے کُچھ نہیں کہا بس سپاٹ نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی.....
اب وہ شہادت کی اُنگلی اُس کے گال پر پھیرنے لگا مگر منتہٰی نے کوئی حرکت نہ کی....
غفران کو شدت سے جیا کے سامنے اپنے کہے لفظوں کا احساس ہورہا تھا کتنے سچے تھے وُہ الفاظ۔۔۔
"وُہ پاک ہے بلکل پاک اُسے صرف ایک مرد نے چھوا ہے اور وُہ میں ہوں اُس کا شوہر وُہ لاکھ مُجھ سے نفرت کرلے مگر پھر بھی وُہ میری ہے وُہ میری "عورت" ہے صرف میری وُہ مرنا پسند کرے گی مگر میرے علاوہ کسی کو خود کو چھونے کا اختیار نہیں دے گی پھر بھلے دُنیا کی دولت اُس کے سامنے ڈھیر کردو وُہ خود کو مجھ تک محدود رکھے گی ایک مضبوط اور باکردار عورت کی طرح یہی فرق ہے جو اس کا قرب مُجھے پُر سکون کردیتا ہے میرے انداز میں خود بخود نرمی آجاتی ہے ہیجان رفع ہوجاتا ہے وُہ میرا سکون ہے..."
واقعی وُہ کُچھ وقت کے لیے سب بھول گیا تھا ہیجان بے چینی بے سکونی سب ختم سی ہوگئی تھی...
"تُم میرا سکون ہو " سدرۃ المنتہٰی" بس یونہی ہمیشہ خود کو مُجھ تک رکھنا صرف مُجھ تک تمہاری وفاداری میرا سب سے بڑا غرور ہے جتنی نفرت جتنی رنجش مگر میں جانتا ہوں تُم نے یہ اختیار صرف مُجھے دیا ہے اور کسی کو نہیں کیونکہ تُم میری بیوی ہو اور میں تمہارا "شوہر"..."
غفران نے اُسکی پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئے بہت دھیمی آواز میں کہا....
"یہ آخری بار ہے جو تُم مُجھے چھو رہے ہو میں اب اپنا فیصلہ کرچُکی ہوں..."
منتہٰی نے خود سے کہا اور سختی سے اپنی آنکھیں بند کرلیں...
_________________________________________
"زیان تُم کیا چاہتے ہو مُجھے صاف صاف بتادو.."
صبح سات بجے ہی زیان سہیل کے گھر میں موجود تھا حالانکہ صرف پانچ گھنٹے پہلے ہی تو وُہ لوگ ملے تھے...
"میں تُم سے الگ سے اِس لیے مِلنے آیا ہوں کیونکہ جو میں کرنا چاہتا ہوں وُہ عماد مُجھے نہیں کرنے دے گا قانون کا پابند جو ہے وہ مگر میں ہر طرح کی حفاظت کرنا چاہتا ہوں کل منتہٰی کے خلع کی پہلی ہیئرنگ ہے اور وُہ یہ بات اچھے سے جانتا ہے کہ کل اُسے ہر صورت میں منتہٰی کو آزاد کرنا ہوگا اور اِسے روکنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے.."
زیان نے تنفر سے کہا...
"تُو مُجھ سے کیا چاہتا ہے..؟"
"منتہٰی کے پل پل کی خبر وُہ کب کہاں ہے کس جگہ ہے سب کُچھ میں اب اِس موڑ پر آکر کوئی رسک نہیں لے سکتا..."
اُس نے قطعیت سے کہا...
"عماد نے سارے حفاظتی انتظام کر رکھے ہیں زیان..."
"تمہارے پاس ٹریکنگ ڈیوائس ہے..."
زیان نے اُسکے سر پر دھماکہ کیا تھا..
"ہاں مگر وہ آفیشیل یوز کے لئے ہوتی ہے میں تمہیں نہیں دے سکتا.."
سہیل کو اُسکی بات سمجھ آگئی تھی...
"مگر ہمیں اِس کی ضرورت ہے یار تُم نہیں سمجھ رہے ہو وہ کُچھ بھی کرسکتا ہے کُچھ بھی جس اِنسان نے پانچ سال تک ایک اے ایس آئی آفیسر کو اپنی قید میں رکھا اور کسی کو کُچھ بھی پتا نہیں چل سکا تو تُم سوچ سکتے ہو وہ کیا نہیں کرسکتا..."
زیان نے اُسے سمجھانا چاہا...
"آئی ایم سوری میں بغیر کسی آرڈر کے تُمہیں ایسی کوئی چیز نہیں دے سکتا یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے.."
سہیل نے اُسے صاف جواب دے دیا..
"ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری مگر یاد رکھنا میں نے تُم سے درخواست کی تھی اب اگر کُچھ بھی غلط ہوا تُو اُسکے ذمے وار تُم بھی برابر ہوگے کیونکہ سب کچھ جانتے بوجھتے تُم نے میری مدد نہ کی..."
زیان نے کھڑے ہوکر کہا...
"اگر میرے اختیار میں ہوتا تو ضروری کرتا.."
سہیل نے افسوس کے ساتھ کہا...
زیان مزید کُچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا...
_________________________________________
کھٹ پٹ کی آواز سے اُسکی آنکھ کھلی تو رات کا سارا واقعہ کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گزر گیا اُس نے بے ساختہ اپنے برابر میں دیکھا تو غفران بڑے مزے سے سورہا تھا...
"غفران..."
اُس نے ہلکی آواز میں اُسے پُکارا مگر اُسے کوئی فرق نہ پڑا...
"غفران اُٹھو جاؤ یہاں سے اِس سے پہلے کوئی آ جائے..."
منتہٰی نے اُس کا شانہ ہلایا تو وُہ اُٹھ بیٹھا..
"باہر سے کچھ آوازیں آرہی ہیں یقیناً کوئی اُٹھ گیا ہے..."
منتہٰی نے دبی ہوئی آواز میں کہا...
"اچھا ہے آجائے ویسے بھی آج تو تُم نے میرے ساتھ جانا ہی ہے ابھی پتا چلنے دو اُسے.."
غفران نے دوبارہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے بے فکری سے کہا...
"تُم پاگل ہو کیا میں نے جب کہہ دیا ہے کہ میں آجاؤں گی تمہارے پاس تو ابھی جاؤ پلیز میرے لیے سب اتنا مُشکل مت کرو اور نہ مُجھے مجبور کرو کہ اپنا فیصلہ بدل دوں..."
منتہٰی نے تابمقدور اپنی آواز ہلکی رکھنے کی کوشش کی غفران کی اُسکی برداشت کو آزما رہا تھا..
"دھمکی دے رہی ہو مُجھے..."
وُہ اب بھی غیر سنجیدہ تھا...
"تُمہیں جو سمجھنا ہے سمجھ لو..."
منتہٰی نے بے خوف ہوکر کہا...
"ٹھیک ہے ابھی چلا جاتا ہوں مگر میں اِس بات پر کیسے یقین کرلوں کے تُم مُجھے دھوکا نہیں دو گی..."
"تُمہیں یقین دلانا بھی کسے ہے تُم نے کہا ناں تُم فرحان کو صرف مُجھ سے دور لے جاؤ گے اُسے کُچھ کرو گے نہیں تو پھر مُجھے یہ فیصلہ کرنے پر مت مجبور کرو کہ میں اُسکی جُدائی برداشت کرکے تُم سے الگ ہوجاؤں..."
منتہٰی نے بڑی صحیح جگہ وار کیا تھا غفران نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ منتہٰی یوں بھی کرسکتی ہے کیونکہ وُہ واقعی فرحان کو تکلیف دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا...
"میں بھائی سے کوئی بات نہیں کروں گی کیونکہ میں اُنکا دِل نہیں توڑنا چاہتی میں یہ نہیں کرسکتی اُن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُن سے جھوٹ بولوں آج شام میں نے آپی کے ساتھ ہاسپٹل جانا ہے چیک اپ کیلئے ہوسکتا ہے بھائی بھی ہوں میرے ساتھ پولیس اہلکار بھی ہوں اگر اُن سب کی موجودگی میں تُم مُجھے اپنے ساتھ لے جاسکتے ہو تو لے جانا..."
منتہٰی نے براہِ راست اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا...
"یوں تو پھر یونہی ہی سہی ساتھ تو اپنے میں تمہیں لے ہی جاؤں گا اگر تُم نے کوئی ہوشیاری نہیں کی تو..."
غفران نے اپنا چہرہ اُسکے قریب لے جاکر کہا اور ایک گہری سانس لی...
_________________________________________
"اسلام علیکم دُعا کیسی ہیں آپ..؟"
سمیر نے گاڑی میں بیٹھتی دُعا سے پوچھا...
"وعلیکم السلام ٹھیک ہوں تُم کیسے ہو..؟"
دُعا نے اخلاقی فرض نبھایا...
"کیسا ہوسکتا ہوں...؟"
اُلٹا سوال کیا گیا...
"اچھے ہی دکھ رہے ہو.." دُعا نے جھلا کر کہا...
"کیا واقعی.." سمیر نے پورا کا پورا پیچھے مڑتے ہوئے کہا..
"میں نے تُم سے کتنی بار کہا ہے مُجھ سے اِس قسم کی باتیں مت کیا کرو پلیز سمیر.."
دُعا نے درخواست کی کیونکہ وُہ اُسکے چہرے پر پھیلی مایوسی، نا اُمیدی دیکھ چُکی تھی۔۔
"کیا آپکی زندگی میں کوئی اور ہے آپ کسی اور سے محبت کرتی ہیں...؟
سمیر اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ شاید اُسکی زندگی میں کوئی اور ہو جس کے جواب دعا لمحہ لیے بغیر دیا تھا...
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میں کسی سے محبت نہیں کرتی..."
بے اختیاری میں کہتے کہتے یکدم اُسکی زبان کو بریک لگا احساس ہونے پر زبان دانتوں تلے دبا لی...
سمیر کو چہرے کو ایک جاندار سی مسکراہٹ نے چھوا تھا...
"سیروں خون بڑھ گیا میرا یہ جان کر کہ میرے علاوہ آپکی زندگی میں کوئی اور نہیں بھی اب میں اپنی کوششیں مزید جاری رکھوں گا اور جب تک رکھوں جب تک آپ خود مجھے ہاں نہیں کردیتیں..."
سمیر نے ایک نئے عزم کے ساتھ کہا...
"میں نے یہ بھی نہیں کہا کہ تُم میری زندگی میں ہو خوش فہمیاں مت..."
وُہ مزید بھی کُچھ بولتی مگر زیان کو آتا دیکھ کر چُپ کرگئی...
"تُم دونوں پھر شروع ہوگئے تھے..."
زیان نے خوشگوار لہجے میں کہا...
"دفع کرو اِسے تُم بتاؤ کسی کام کی بات کر رہے تھے..."
دُعا پھر سے خود کو زیر بحث بنتا دیکھ کر جھلا کر بولی...
"اچھا بعد میں بات کریں گے.." زیان نے بھی آنکھ دبا کر شرارت سے کہا...
"ہاں دُعا ابھی ہم لوگ ماہی سے ملنے جارہے ہیں تو یہ ایک تعویذ ہے جو تُمہیں ماہی کو پہنانا ہے میں اگر دوں گا اُسے تو شاید عجیب لگے مگر تُمہیں وُہ منع نہیں کرے گی..."
زیان نے چمڑے کا ایک سادہ سا تعویذ دُعا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا...
"تعویذ .؟؟؟"
دعا نے حیرت سے کہا...
"تُم لوگوں سے کیا چھپانا یہ کوئی تعویذ نہیں ہے ایک ٹریکنگ ڈیوائس ہے جسٹ فار سیفٹی کیونکہ غفران اِس خلع کو روکنے کے لئے کُچھ بھی کرے گا اِس سے ہمیں پتا چلتا رہے گا ماہی اِس وقت کہاں ہے اور ہم سُن بھی سکتے ہیں وُہ کس سے بات کر رہی ہے وغیرہ مگر یہ بات ہم تینوں کے بیچ میں ہی رہے..."
زیان نے تفصیل بتائی..
"کیا تُمہیں کہنے کی ضرورت ہے.."
دُعا نے پوچھا..
"مگر ہم عماد سے کیوں چھپا رہے ہیں وُہ تو خود یہ چاہتا ہے کہ ماہی کی اُس سے جان چھوٹ جائے۔۔"
سمیر نے سوال بجا کیا تھا...
"عماد مُجھے کبھی بھی اِن قانونی معاملات میں انولو نہیں کرے گا وہ جو بھی کرے گا قانون کے تحت کرے گا اور اگر میں اُسے یہ بات بتاؤں گا کہ میں نے غفران کے گھر اور آفس کے باہر اپنے کُچھ لوگ نگرانی کرنے کے لئے چھوڑ رکھے ہیں اور میں یہ سب کر رہا ہوں تو کیا تُم دونوں کو لگتا ہے کہ وہ مُجھے ایسا کچھ کرنے دے گا...؟"
زیان کا اشارہ ٹریکنگ ڈیوائس کی طرف تھا...
"عماد ایک دائرے میں رہ کر ماہی کو بچا رہا ہے اور میں آؤٹ آف دا وے جاکر بھی ماہی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا پھر وہ بھلے قانونی طریقہ ہو یا غیر قانونی کُچھ بھی ہوجائے بھلے سے میں مر بھی جاؤں مگر اُسکی جان اُس جنگلی اِنسان سے چھڑوا کر رہوں گا اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یار..."
زیان کی آنکھیں پُر نور تھیں اُسے یقین تھا اب اُجالا زیادہ دور نہیں ہے....
"ٹھیک ہے میں پہنا دوں گی اُسے اور ہم دونوں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہیں..."
دُعا نے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا...
"اب چل یار۔"
زیان نے سمیر سے کہا تو اُس نے گاڑی اسٹارٹ کرکے زیان کے گھر کے پورچ سے نکالی اور عماد کے گھر کے راستے پر ڈال دی....
_________________________________________
"کہاں کھوئی ہوئی ہو لڑکی...؟"
دُعا نے کمرے میں داخل ہوکر کہا...
"کہیں نہیں بس ایسے ہی تُم سناؤ کیسی ہو..؟"
منتہٰی نے مسکرا کر کہا...
"بلکل ٹھیک ہوں تُم بتاؤ ہاتھ اور پی کیسا ہے اب.."
"کافی بہتر ہے آپی اور بھائی مجھے ذرا دیر کے لئے بھی بیڈ سے اٹھنے نہیں دیتے صبح سے جو کھلانا پلانا شروع رات کو سونے تک چلتا رہتا یہ یخنی وُہ یخنی یہ دوائی تو یہ تو وُہ..."
وُہ ہنستے ہوئے بولی...
"تُم سے بہت محبت کرتے ہیں عماد بھائی..."
دُعا کے لہجے میں خود بخود یاسیت در آئی تھی...
"بلکل بہت محبت کرتے ہیں عمی بھائی مُجھ سے.."
اُس نے گہری سانس لے کر کہا..
"بس ماہی کل تُم ہمیشہ کے لیے اُس اِنسان سے الگ ہوجاؤ گی میں تُمہیں بتا نہیں سکتی کہ میں کتنی خوش ہوں.."
دُعا نے اُسے گلے لگا کر کہا...
منتہٰی کے دِل پر ندامت کا بوجھ بڑھنے لگا تھا...
"یہ میں تمہارے لیے لائی ہوں..."
دُعا نے تعویذ اُسکے گلے میں پہناتے ہوئے کہا...
"تُم کب سے اِن چیزوں کو ماننے لگی ہو.."
منتہٰی نے حیرانی سے پوچھا جب تک دُعا اُسے تعویذ پہنا چُکی تھی...
"غلط بھی تو نہیں ہے کُچھ اللہ کا کلام ہی ہے.."
دُعا نے متانت سے کہا...
زیان اور سمیر اُسی وقت اندر داخل ہوئے تھے...
"کیسی ہیں آپ..؟"
سمیر نے نرمی سے پوچھا...
"ٹھیک ہوں بلکل آپ کیسے ہیں سمیر...؟"
منتہٰی نے مسکرا کر پوچھا...
اُس نے کبھی بھی سمیر کے انداز میں کسی بھی قسم کا کوئی بدلاؤ نہیں دیکھا تھا ورنہ جو احمقانہ حرکت وُہ پہلے کرچکی تھی کوئی اور اُسکی جگہ ہوتا تو یقیناً بار بار اُسے احساس دلاتا مگر سمیر نے جب بھی اُسے مخاطب کیا اُس کے طرزِ تخاطب میں ہمیشہ عزت اور احترام تھا یہی انہی وجوہات کی بناء پر اُسے کبھی ایسا لگا تھا کہ اگر سمیر اور اُسکی شادی ہوجاتی تو وہ دونوں خوش رہ سکتے تھے... "شاید رہ بھی لیتے کیونکہ سمیر عورت کی عزت کرنا جانتے ہیں میں غفران کے علاوہ کسی کی ساتھ بھی خوش رہ سکتی تھی..."
اُس نے خود سے کہا۔۔۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں آپکے سامنے ہوں..."
سمیر نے اپنے ازلی نرم لہجے میں کہا...
"آپکی بوریت کا علاج ہے میرے پاس منتہٰی..."
وُہ چاہ کر بھی کبھی اُسے ماہی نہیں بلا سکا تھا کیونکہ ماہی اُس کا محبت سے لیا جانے والا نام تھا اور اُسکے دِل میں منتہٰی کے لئے صرف عزت تھی احترام تھا مگر اکثر اُسے منتہٰی کی/ حالت دیکھ کر پچھتاوا ہوتا تھا کہ اِس سے اچھا تو وہ ہی اسے اپنا لیتا کم از کم ایک عزت دار زندگی تو وُہ اُسے دے سکتا تھا بھلے محبت نہیں ہوتی مگر یوں دگرگوں حالت بھی نہ ہوتی اُس کی....
"میں آپکے لیے کُچھ کتابیں لے کر آیا ہوں آپ لیٹی لیٹی پڑھتی رہیے گا آپ بور بھی نہیں ہوں گی..."
سمیر نے ایک بیگ اُس کے سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔۔
"بہت شکریہ سمیر..."
منتہٰی نے سچے دِل سے کہا...
۰"اُففف شروع ہوگئے دو بور اِنسان..."
دُعا نے اُکتا کر کہا...
"کیسی ہو تُم.."
زیان نے محبت بھرا سوال کیا تھا جس کے جواب میں منتہٰی نے مسکرا کر گردن کو خفیف سی جنبش دی تھی...
"کیسی جارہی ہے آپ لوگوں کی جاب...؟"
منتہٰی زیان کی طرف مزید نہیں دیکھ پا رہی تھی اُسکی آنکھوں میں کرب اُترنے لگتا تھا زیان کی پُر امید پُر نور نظریں دیکھ کر جن میں صاف تحریر تھا ہماری محبت جیت جائے گی ماہی...
"ہم لوگ لاڑکانہ والی جاب چھوڑ چکے ہیں دُعا نے بھی کراچی میں ہی جاب ڈھونڈھ لی ہے سمیر کو بھی ایک بہت اچھی جاب مِل گئی ہے اُسکی فیملی بھی اِس منتھ کے اینڈ تک کراچی آجائے گی اور میں نے اپنے ابو کا بزنس سنبھال لیا ہے اب میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا..."
زیان کے دِل کی بات زبان پر آئی تھی منتہٰی کی نظریں بے اختیار ہوکر اُسکی جانب اُٹھی تو زیان نے اپنی نظریں جُھکا لیں کیونکہ اُسے یوں دیکھنے کا اُسے کوئی حق حاصل نہیں تھا....
"کیا میں اتنی محبت کرنے والے شخص کا دِل پھر سے توڑ کر سکون سے رہ سکوں گی.."
منتہٰی نے خود سے سوال کیا تھا جواب ندراد تھا...
"تُم بے فکر رہنا ہم سب تمہارے ساتھ ہیں.."
زیان نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا...
"زیان آپکی محبت میرے لیے خُدا کا سب سے خوبصورت اور انمول تحفہ ہے میں جانتی ہوں آپ مُجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں آپکو میری عزت کا کتنا خیال ہے اور ایک وُہ شخص ہے محبت کا دعویٰ نجانے کتنی بار کرتا ہے کیونکہ اُسے خود بھی اپنی محبت کا یقین نہیں آپکی یہ جھکی نظریں میری طرف نہ دیکھ پانا احساسِ گناہ محبت کی شدت کو بڑھاتا ہے آپ نہیں جانتے میں ہر نماز میں خُدا سے آپکا ساتھ مانگتی ہوں اور مجھے یقین ہے ایک دِن ایسا ضرور آئے گا جب میں آپکی ہوجاؤں گی میں منتہٰی زیان ہوجاؤں گی کتنا خوبصورت اور روح افزاء احساس ہے یہ خیال بھی مُجھے آج پھر پوری شدت سے اعتراف ہے کہ میں نے صرف آپ سے محبت کی ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک صرف آپ سے ہی محبت کروں گی اور ہر دم یہی دُعا کروں گی مُجھے آپکی ہمراہی مِل جائے مُجھے آپ مِل جائے بس پھر کُچھ نہیں چاہیے زندگی سے..."
اُس نے نم آنکھوں سے زیان کو دیکھتے ہوئے دِل میں کہا...
"رونا نہیں ہے تُم نے ماہی بلکل بھی نہیں.."
زیان نے ضبط کرتے ہوئے کہا ورنہ دِل اُکسا رہا تھا اپنے ہاتھوں سے اُسکے آنسو صاف کرے...
"بہت شکریہ زیان بس ہمیشہ اسی طرح..."
وُہ کہتے کہتے رُکی پھر اپنا رُخ بدل لیا...
"بلکل ہمیشہ اسی طرح تُم سے محبت کرتا رہوں گا صرف تُم سے پھر بھلے کُچھ بھی ہوجائے.."
وُہ جان گیا تھا کہ منتہٰی کیا کہنا چاہتی تھی مگر اس نے بھی اُس کا بھرم قائم رکھا بات مکمل اپنے دل میں کی تھی۔۔۔
"ہممم میری چوہیا بور ہوتی ہے مُجھے پہلے بتانا تھا میں تو جہاں بھی جاؤں پھر تمہیں اپنے ساتھ ہی لے جایا کروں گا .."
عماد نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا اُس کے ہاتھ میں ٹرے بھی تھی...
"چلو شاباش اب جلدی سے یہ سوپ ختم کرلو پھر میں اپنی شہزادی کی باہر لے کر جاؤں گا.."عماد نے اُس کے ساتھ ہی بیٹھتے ہوئے کہا اور چمچ اُسکی طرف بڑھایا...
"بھائی پلیز نہیں میرے منہ کا ذائقہ خرا
ب ہوگیا ہے یہ سوپ پی پی کر .."
منتہٰی نے بُرا سا منہ بناکر کہا...
"پینا تو ہوگا کوئی چوں چراں نہیں شاباش شاباش..."
عماد اب زبردستی اُسے سوپ پلا رہا تھا جس میں سے آدھے سے زیادہ وُہ اپنے کپڑوں پر بھی گرا رہی تھی جسے عماد ہاتھ میں پکڑے رومال سے بار بار صاف کر رہا تھا اور اُس کا منہ بھی...
"اِدھر دیں آپ میں خود پی لوں گی بھائی ایک ہاتھ سلامت ہے میرا..."
"آہاں چُپ چاپ میرے ہاتھ سے پیو اور یہ ٹیڑھی میڑھی شکل بنانا بند کرو اِس طرح تو سوپ گرے گا ہی..."
عماد نے اب کی بار ذرا سختی کرکے کہا تو وہ وُہ چُپ چاپ معصوم سی شکل بناکر سوپ پینے لگی جس پر عماد سمیت سب کو ہنسی آگئی....
"میں بہت جلد اِن چہروں پر مایوسی اور تکلیف کی وجہ بننے والی ہوں مُجھے معاف کردیجئے گا بھائی ..."
اُس نے تاسف سے سوچا۔۔۔
_________________________________________
"میں ڈاکٹر سے بات کرکے آتا ہوں تُم لوگ چلوں گاڑی کی طرف.."
عماد نے کوریڈور میں پہنچ کر شائنہ اور ساتھ آرہے دو پولیس اہلکاروں سے کہا اور واپسی مڑ گیا..
"دیکھا میں کہہ رہی تھی ہماری ماہی بہت جلدی ریکور کرلے گی ڈاکٹرز کا بھی یہی کہنا ہے تُم کافی جلدی ٹھیک ہورہی ہو اللہ کا شکر ہے..."
شائنہ نے مسکراتے ہوئے کہا...
منتہٰی کی نظریں مسلسل چاروں طرف گھوم رہی تھیں وہ جانتی تھی غفران یہ موقع نہیں چھوڑے گا ہر ممکن کوشش کرے گا...
"وُہ ایک ذہنی مریض ہے کُچھ بھی کرسکتا ہے اگر اُس نے عمی بھائی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی نہیں میں آپکو نہیں کھو سکتی بھائی کسی صورت نہیں..."
اُس نے باقائدہ کانپ کر سوچا...
"آپی پانی پینا ہے پیاس لگ رہی ہے.."
وُہ غفران کو خود موقع دینا چاہتی تھی تاکہ کسی کو بھی نقصان پہنچائے بغیر وُہ اُسے لے جاسکے..
"ہاں گاڑی میں رکھا ہوا ہے پانی ہم پارکنگ کی طرف ہی جارہے ہیں.."
"وُہ گرم پانی ہے مُجھے ٹھنڈا پانی پینا ہے پلیز آپ لے آئیں میں جب تک اِن دونوں کے ساتھ پارکنگ کی طرف ہی جارہی ہوں..."
منتہٰی نے اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی...
"ٹھیک ہے میں لاتی ہوں آپ دونوں اِسے پارکنگ
تک لے جائیں.."
شائنہ نے اُن دونوں سے کہا...
منتہٰی وہیل چیئر کا بٹن دبا کر خود آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی پیچھے پیچھے وُہ دونوں بندوق تانے آرہے تھے...
"اِن دونوں کو کیسے ہٹاؤں اپنے پاس سے.."
سوچتی سوچتی وُہ پارکنگ ایریا میں عماد کی گاڑی کے پاس آرُکی...
دفعتاً ہی اطراف میں دھواں سا بھرنے لگا اور تیز ہوتا چلا گیا یہاں تک کُچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا کُچھ ہی لمحوں میں منتہٰی کو اپنے سر بھاری ہوتا محسوس ہونے لگا آنکھیں بند ہورہی تھیں... ہوش کھونے سے پہلے آخری احساس ہوا میں ہونے کا تھا جیسے کسی نے اُسے اُٹھایا ہوا تھا اور پھر وُہ بے ہوش ہوگئی...
_________________________________________
"شائنہ جیسے ہی پارکنگ میں داخل ہوئی تو ہر طرف دھواں دھواں تھا مگر اب پہلے سے کم تھا۔۔۔ اُسکی چھٹی حس نے کسی خطرے کا اشارہ کیا تھا منہ پر دوپٹہ رکھ کر وُہ سیدھا گاڑی کی طرف بھاگی وہاں کا منظر اُسکے ہوش و حواس سلب کرلینے کے لئے کافی تھا دونوں پولیس اہلکار اور اِرد گِرد چند اور لوگ بے ہوش پڑے تھے منتہٰی کی وہیل چیئر الٹی پڑی تھی نہ وُہ گاڑی کے اندر تھی...
"کہاں چلی گئی ماہی..."
دھوئیں کے اثر سے اُس کا سر بھی بری طرح چکرا رہا تھا حواس کُچھ بحال ہوئے تو اُس نے عماد کو کال ملائی...
"ہاں ہاں شانو بس آرہا ہوں تُم لوگ گاڑی میں ہی ویٹ کرو میں بس لفٹ کا انتظار کر رہا ہوں"
عماد نے فون اُٹھاتے ہی فریش آواز میں کہا..
"عماد ماہی کہیں غائب ہوگئی کہیں نہیں ہے.."
کال ملتے ہی وُہ ضبط کھو بیٹھی...
"کیا مطلب کُچھ پتا نہیں چل رہا شائنہ وُہ تمہارے ساتھ تھی اور تُم کہہ رہی ہو اُس کا کُچھ پتا نہیں چل رہا..."
عماد کا بھک سے اُڑ گیا وُہ لفٹ کا انتظار کرنے کے بجائے سیڑھیوں کی طرف بھاگا...
"عماد میں اُسے لے کر گاڑی کی طرف ہی جارہی تھی تو اُس نے ہی کہا اُسے پیاس لگ رہی ہے تو میں پانی لینے گئی تھی واپس آئی تو وہ نہیں ہے پارکنگ لوٹ میں بھی عجیب سا دھواں پھیلا ہوا ہے..."
"کہیں تُم اپنے بھائی کے ساتھ ملی ہوئی تو نہیں ہو بہت محبت جاگ رہی ہے ویسے بھی تمہارے دِل میں اُس کے لیے..."
عماد کو کُچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کھ کیا نہ کہے یاد رہا تو بس اتنا کہ اُسکی بہن اغوا ہوچکی ہے اُسکی ناک کے نیچے سے وُہ اُسے لے کر چلا گیا...
"عماد کیا کہہ رہے ہیں آپ ہوش میں تو ہیں..."
شائنہ چلائی...
"دو پولیس اہلکار جو تمہارے ساتھ بھیجے تھے وُہ حرام خور کہاں تھے..."
عماد کا غصّے کے مارے بُرا حال تھا اُس کے بس میں ہوتا تو وُہ سب تہس نہس کردیتا...
"تُم کامیاب نہیں ہوسکتے..." وُہ خود سے بولا...
"وُہ دونوں بے ہوش پڑے ہیں عماد ابو کی قسم میں نے کُچھ نہیں کیا ہے آپ مُجھ پر یقین کریں..."
عماد نے مزید کُچھ کہنے سے خود کو روکا تھا ورنہ وہ نہیں جانتا تھا وُہ مزید کیا کیا کہہ جاتا...
کُچھ ہی منٹوں بعد وہ بھاگتا ہوا آرہا تھا وہیل چیئر اُلٹی پڑی اُسے منہ چڑا رہی تھی...
عماد نے غصّے میں زوردار ٹھوکر ماری تھی وہیل چیئر کو جس سے وہ ایک طرف لڑھک گئی نیچے کُچھ چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی وہ انگوٹھی تھی وہی انگوٹھی جو اُس نے منتہٰی کو رات میں پہنائی تھی...
"نہیں نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا نہیں.."
اُسے لگ رہا تھا کہ اُسکے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔۔
"اب کیسے ڈھونڈوں گا میں ماہی کو کیسے کیسے کیسے.؟؟"
شدید غصے کے عالم میں وُہ اپنا ہاتھ بار بار گاڑی کے بونٹ پر مار رہا تھا...
"عماد سنبھالیں خود کو کچھ نہیں ہوگا ماہی کو وُہ مِل جائے گی آپ نے انگوٹھی میں جو ٹریکنگ ڈیوائس فٹ کی تھی اُس سے تو فوراً پتا چل جائے گا..."
شائنہ نے پُر جوش ہوکر کہا...
عماد کی نظر اچانک گاڑی کے سامنے کے شیشے پر پڑی جہاں ایک کاغذ چپکا ہوا تھا۔۔۔
"بہت ہلکا لے لیا تھا تُم نے مُجھے سالے پلس بہنوئی صاحب تُم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اپنی بیوی کو اتنی آسانی سے چھوڑ دوں گا بہت کم عقل ہو تُم نادان تُمہیں تو یہ بھی نہیں پتا کل کی رات میں نے تمہارے ہی گھر میں تمہاری ہی بہن مطلب اپنی بیوی کے ساتھ گزاری ہے اور اب اسے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے کر جارہا ہوں ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے مرجاؤ گے مگر تُمہیں اُسکی خاک تک نہ ملے گی...
تمہارا بہنوئی پلس سالہ غفران..."
"حرامزادے کتے.."
عماد نے اُس خط کو بری طرح پھاڑ ڈالا....
"تُو نہیں لے کر جاسکتا میری ماہی کو ہرگز نہیں...."
عماد گاڑی کا لاک کھولتے ہوئے خود سے بولا...
"عماد آپ پریشان مت ہوں مل جائے گی.."
"دور رہو مجھ سے بلکل دور تمہارا اور میرا رشتہ ختم اُسی گھر واپس چلی جاؤ جس گھر کی گند ہو تُم آج صرف تمہاری وجہ سے وہ شخص میری بہن کو لے کر چکا گیا ہے.."
عماد نے شائنہ کا ہاتھ بری طرح جھڑک ڈالا...
"میری بات کا یقین کریں میں ایسا کچھ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ماہی میری بہنوں جیسی ہے..."
"بہنوں جیسی ہے بہن ہے نہیں غفران تمہارا بھائی ہے سگا بھائی تمہاری رگوں میں بھی وہی گندا خون دوڑ رہا ہے جو اُسکی کیسے یقین کروں ہو تو تُم اُسی کی بہن ناں ورنہ اُس کی اتنی ہمت نہیں کہ وُہ آدھی رات کو میرے گھر میں گھس جائے میری ناک کے نیچے سے میری بہن کو لے جائے یقیناً کسی نے اُسکی مدد کی ہے گھر میں سے اور صاف بات ہے اگر سوچوں تو صرف تُم..."
عماد نے اُس کا ہاتھ بری طرح موڑتے ہوئے کہا...
"میں نے ایسا کُچھ نہیں کیا ہے میرا اعتبار کریں عماد میں آپکی شائنہ ہوں میں ایسا کُچھ نہیں کرسکتی جس سے آپکو.."
"بس کرو یہ ڈرامہ تمہارا اصل چہرہ میرے سامنے آگیا ہے میں اِس بات کی اگر نظرانداز کر بھی دوں کہ کل رات گھر آنے میں تُم نے اُسکی مدد نہیں کی تو یہ بتاؤ کہ اُسے یہ کیسے پتا چلا کہ میں نے منتہٰی کوئی انگوٹھی پہنائی ہے جس میں ٹریکنگ ڈیوائس ہے جب کہ اِس کے بارے میں تمہارے اور میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا پھر اُسے کیسے پتا چلا..."
"میں نہیں جانتی اُسے کیسے پتا چلا مگر میں نے کچھ نہیں کیا ہے عماد میرا یقین کریں.."
"بھاڑ میں جاؤ تُم اور آئندہ میرے سامنے آنے کی ضرورت نہیں ہے اپنی بہن کو تو میں بچا ہی لوں گا سن لو یہ بات اور اپنے ہوتے سوتے کو بھی اچھے سے سمجھا دینا .."
عماد نے اُسے دھکا دیا اور گاڑی میں جا بیٹھا اور بھگاتا ہوا لے گیا مڑ کر تک نہ دیکھا شائنہ کا کیا حال ہے...
اُس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا دھندلی آنکھوں سے آخری منظر عماد کو بہت پل بہ پل خود سے دور جاتا دیکھا وُہ زمین پر گر پڑی اور اُسکا سر ایک لوہے کی روڈ سے جالگا تھا خون تیزی سے بہہ رہا تھا مگر اُس دُشمن جاں کو فکر تک نہ ہوئی شاید اب پچھتاوا رہنا تھا ساری عمر کا...
(جاری ہے)
#Note: khulam khula dhamki hai last episode tab hi aegi jab mjhe is epi par pora response milega interms of comments and all comments will be related to story not nice next etc....
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro