Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۸

Mega Episode 💥💥💥
#بچھڑے_سفر_میں
(season 1)
از قلم #مصطفیٰ چھیپا
قسط نمبر ۲۸ (3rd last episode)

۴ دِن بعد....

"اُٹھ بھی جائیں اب آپ کب سے ہی سو رہے ہیں..."
منتہٰی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے نروٹھے پن سے کہا...
"دیکھیں اگر اب آپ نہیں اُٹھے تو میں آپ پر پانی پھینک دوں گی..."
اُس نے اب دھمکی دی جس سے غفران کے چہرے پر بڑی جاندار سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور دھیرے دھیرے اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں سامنے منتہٰی منہ پھلائے ناراض نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی...
"اُٹھ گیا جاناں بس اب خوش.."
سر کو کوہنی کے بل ٹکائے وُہ محبت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا...
"ہاں جب میں نے پانی پھینکنے کی دھمکی دی تب اُٹھے ورنہ آپ اور آپ کی نیند..."
وُہ ذرا بھی متاثر نہ ہوئی اُس کے محبت لٹاتے لہجے سے...
"میں تو تُم سے بھی پہلے کا جاگا ہوا ہوں بس اِس اِنتظار میں آنکھیں بند کیے لیٹا تھا کہ کب تُم مُجھے اِس طرح اُٹھاؤ..."
غفران نے منتہٰی کے بال آگے کی طرف کرتے ہوئے کہا...
"مطلب آپ ناٹک کر رہے تھے اتنی دیر سے اور میں یونہی ہلکان ہوئی جارہی تھی کہ کہیں آپکی طبیعت تو خراب نہیں ہوگئی ورنہ آپ اتنی گہری نیند کبھی نہیں سوتے..."
منتہٰی نے اُس کے بکھرے بال سنوارتے ہوئے کہا...
"میں تو کب سے اِس انتظار میں ہوں کہ تُم مُجھے اِس نیند سے اُٹھاؤ جو خواب میں دیکھتا ہیں اُنہیں تعبیر دو بس تُم مُجھے اِس نیند سے جگا دو یہ اِنتظار بہت طویل ہوگیا ہے جاناں بس اب میں اٹھنا چاہتا ہوں مُجھے اُٹھاؤں اب اور نہیں رہا جاتا فریب میں اسے حقیقت کا رنگ دے دو بس اب کافی ہے اتنا یوں یونہی ایسے ہی اب نہیں رہا جاتا میں اُٹھنا چاہتا مُجھے سہارا دو...
مُجھے جگا دو... مُجھے جگا دو"
غفران نے منتہٰی کو خود سے قریب کرتے ہوئے مخمور لہجے میں کہا...
"میں آپکو ایسا جگاؤں گی کہ پھر آپ کبھی سونے کی چاہ نہیں کریں گے میں آپکو ایسا اُٹھاؤں گی کہ پھر کبھی نہ گریں گے میں میں...."
کہتے کہتے اچانک منتہٰی کی آنکھیں سُرخ ہوئیں اُن سے خون بہنے لگا چہرے پر بڑا گہرا زخم تھا لمبے سیاہ بال اب جلے ہوئے معلوم ہورہے تھے یکدم اُس کے ہاتھ میں ایک خنجر آگیا جو اُس نے غفران کے گلے پر رکھ کر اپنی پوری قوت سے اُس پر ضرب لگانی شروع کردی غفران کو تکلیف بہت تکلیف محسوس ہورہی تھی مگر اُس تکلیف سے نجات نہیں مِل رہی تھی ابھی تو اُس کی کھال کے پار بھی نہ اُترا تھا خنجر ابھی تو اُسے بہت لمبا سفر طے کرنا تھا صدیوں پر محیط...
"مُجھے جگا دو... مُجھے جگا دو۔۔۔"
وُہ یکدم اُٹھ بیٹھا پیشانی مکمل طور سے عرق آلود تھی پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا سانس دھونکی کی مانند چل رہا تھا...
"نہیں تُم مُجھے سے اتنی نفرت نہیں کرسکتی یہ صرف خواب ہے تُم در حقیقت ایسا کُچھ نہیں کرو گی تُم غصّہ ہو مُجھ سے بس میں تمہیں منا لوں گا جاناں.."
غفران نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے خود سے کہا...
وُہ مسلسل تین راتوں سے جاگا ہوا تھا ایک لمحہ کو نہیں سویا تھا آج ذرا سی دیر کے لئے آنکھیں بند کیں تو پھر سے منتہٰی کے الفاظ خواب کی شکل میں ڈھل کر اُس کی نیند حرام کر گئے...
غفران نے اپنے بغل میں دیکھا جیسے اُمید تھی کہ وہ ہوگی اُس کے برابر میں مگر بیڈ خالی تھا بلکل جیسے وُہ خود خالی تھا نہیں سمجھتا تھا جسے وہ محبت کہتا ہے وُہ صرف اُسکی ضد ہے صرف اُس کا جنون ہے کیونکہ اُس جیسے لوگ کبھی محبت کر ہی نہیں کرسکتے وُہ بس اِس وہم میں رہتے ہیں کہ انہیں محبت ہے مگر اِس بات کو مان لینا اُن کے لیے موت ہے اُس نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا تھا مگر منتہٰی کو وُہ برسوں پہلے ہار چُکا تھا مگر وہ کہتے ہیں ناں حاصل سے غافل لا حاصل پر عاشق غفران نے منتہٰی کے انکار کو اپنی ضد بنالیا اور ضد،جنون کبھی تعمیری نہیں ہوتے ہرگز نہیں....

_________________________________________

"تُم نے بہت اچھا فیصلہ کیا اپنے ابو کا بزنس سنبھالنے کا اُنہیں بھی اب آرام مِل جائے تو ورنہ تمہارے ایڈونچرز کے چکروں میں وُہ اپنی واحد اولاد سے دور ہوگئے تھے.."
سمیر نے زیان کے سامنے فائل رکھتے ہوئے کہا...
"میں نے یہ فیصلہ کس لیے کیا ہے یہ تُو جانتا ہے بہت اچھے سے عماد سے میں نے وعدہ کیا ہے میں ماہی کی اُس اِنسان سے جان چھڑانے میں پوری مدد کروں گا کسی بھی قسم کے واقعے کے لئے مُجھے تیار رہنا ہوگا اِس کے لئے ضروری تھا کہ میں خود کو مضبوط کروں تاکہ ماہی کے لئے لڑ سکوں کیونکہ جس کھیل میں غفران نے اُسے پھنسا دیا ہے ناں اُس سے نکلنا بہت مشکل ہے وُہ اُسے پاگل کرنے پر تُلا ہوا ہے..."
زیان نے اپنا دایاں ہاتھ زور سے ٹیبل پر مارا...
"واقعی اُس اِنسان سے جان چھڑا پانا بہت مشکل ہے ایک چیز سے نکلو تو دوسری چیز دوسری سے نکلو تو تیسری بہت بُرا پھنسایا ہوا ہے اُس نے منتہٰی کو..."
سمیر نے افسوس سے کہا...
"اُسے جو کرنا ہے کرلے مگر اب میں وُہ کروں گا جو ماہی چاہتی ہے اور عماد نے صاف بتادیا ہے کہ وُہ اُس اِنسان کے ساتھ اب کسی قسم کا کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی تو بس اب ایسا ہی ہوگا میں اپنی ماہی کو بچا کر رہوں گا..."
زیان نے مستحکم انداز میں خود سے کہا...

_________________________________________

۴ دِن پہلے....

"لے کر جاؤ اِسے یہاں سے..."
فرش پر بیہوش پڑے غفران کو ٹھوکر مارتے ہوئے عماد نے نفرت سے کہا...
"عماد.." شائنہ نے شکایتی نظروں سے اُسے دیکھا...
" شائنہ ایک بات تُم اپنے ذہن میں بٹھا لو تمہارا بھائی ہم سب کا دُشمن ہے میں جانتا ہوں تُم دونوں  کا آپس میں خون کا رشتہ ہے چاہے جیسا بھی ہے یہ تمہارا بھائی ہے تمہیں تکلیف ہوگی مگر یہ بھی مت بھولو کہ اِس نے ہم سب کو کتنی تکلیف دی ہے..."
عماد نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
زیان اُسی وقت کمرے میں داخل ہوا تھا منتہٰی کی نظر اُس پر نہیں پڑی تھی مگر زیان کی نظریں تو اُسی پر ٹھہر گئی تھی وُہ نہیں جانتا تھا اتنی تکلیف اُس نے آخری بار کب محسوس کی تھی اُسکی محبت کے وجود پر زخم نہیں تھے زخموں میں اُس کی محبت کا وجود تھا اتنی بے رحمی اتنی بربریت کا شکار ہوچکی تھی وُہ ..
"ہر بار بد سے بدتر حالت میں ملی ہو تُم مُجھے اِس شخص کے تمہاری زندگی میں آنے کے بعد سے..."
کہیں اندر سے آواز آئی...
ایک نظر فرش پر اوندھے منہ پڑے اِنسان کو دیکھا اور دُعا اور سمیر کی طرف بڑھ گیا...
کُچھ وارڈ بوائے آئے اور غفران کو اسٹریچر پر ڈال کر لے گئے شائنہ عماد کی ہر بات بھلائے غفران کے ساتھ ہی باہر نکل گئی....
"میں اب بلکل بے فکر ہوگئی ہوں بھائی مُجھے یقین ہے کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا آپ آگئے ہیں ناں بس..."
منتہٰی نے عماد کا ہاتھ زور سے پکڑے کہا...
"میں ڈاکٹرز سے بھی معلوم کرکے آیا ہوں تُم بلکل ٹھیک ہو کل تک تُمہیں ڈسچارج کردیں گے پھر میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا ٹھیک ہے ناں..."
عماد نے اُسے بلکل بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے کہا...
"ماہی..."
دُعا نے دھیمی آواز میں اُسے پُکارا تو اُسے دُعا کی موجودگی کا بھی احساس ہوا اور نظریں اُسکی طرف اُٹھیں مگر ساتھ کھڑے شخص کو دیکھ کر آنکھوں میں تحیر اُتر آیا اُسکی زندگی میں ایک خلاء وُہ بھی تو تھا ادھوری محبت کا کرب تکلیف اذیت جو ہر لمحہ اُسکے ہمقدم تھی جب لگا تھا کہ وہ اُس محبت کو کھو چُکی ہے روچکی ہے وُہ پھر سامنے آکھڑا ہوا تھا وُہ نہ چاہتے ہوئے بھی غفران اور زیان کا مقابلہ کرنے لگی تھی دونوں ہے اُس سے محبت کے دعویدار تھے مگر سچا کون تھا یہ صرف منتہٰی جانتی تھی.. محبت میں تکلیف نہیں دی جاتی محبوب کو بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ سامنے والا خوش رہے اگر اُس کی وجہ سے محبوب کے جسم سے خون کا ایک قطرہ بھی  بہہ جائے تو عاشق کے لئے وُہ موت ہے... محبت عزت مانگتی ہے عزت محبت کبھی نہیں مانگتی کیونکہ "عزت" بذاتِ خود ایک بہت بڑی "محبت" ہے...گزرتے وقت کے ساتھ منتہٰی پر یہ بات واضح ہوتی جارہی تھی کہ زیان زاہد کبھی اُسے چھوڑے گا نہیں اُسے محبت نبھانی آتی ہے وُہ کبھی ہار نہیں مانے گا یہ سکون تھا اُسے کہ ہے ایک دِل جو صرف اُس کے لیے دھڑکتا ہے صرف اُس کے لیے اُسے اعتراف تھا غفران جیسے ہزار ہیں زیان جیسا صرف ایک جو صرف اُسے چاہتا ہے جس کی اولین ترجیح اُس کی خوشی ہے اور اُس خوشی کو حاصل کرنے کے لئے وُہ کُچھ بھی کرسکتا ہے....
"ماہی...." اپنے چہرے پر جمی منتہٰی کی نظروں میں اُسے یاسیت، تاسف، ملال بیک وقت صاف دکھ رہا تھا بے اختیار ہوکر اُس نے اُسے پکارا تھا  وُہ بھلا چُکا تھا کہ وہاں کوئی اور بھی ہے...
"زیان.." وہی تڑپ وہی چُبھن وہی دل سوزی تھی اُس کی بھی آواز میں دونوں ہجر کے مارے تھے آمنے سامنے ہوئے تو محبت عود آئی...
"کیا تہیہ کرلیا ہے کہ ہر بار مُجھے دوگنی اذیت دینی ہے ماہی..."
وُہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اُسکی طرف بڑھ رہا تھا..
عماد نے حیرت سے یہ منظر دیکھا...
"تُم واپس آگئے پھر سے کبھی ہار نہیں مانو گے کیوں اتنے ڈھیٹ ہو تُم..."
نہ شکوہ تھا نہ شکایت وُہ مان اور یقین بول رہا تھا محبت کا..
"کبھی بھی نہیں..."
زیان نے قطعیت سے کہا...
"آپ کون...؟" عماد نے عجیب نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا...
اُن دونوں کو اپنی بے خودی کا احساس ہوا...
"زیان نام ہے میرا..."
زیان نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا اور مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا جسے عماد نے اُلجھن بھرے انداز میں تھام لیا...
"سمیر..." سمیر نے بھی آگے بڑھ کر مصافحہ کیا...
"یہ سب کیا تھا..؟" عماد نے دو ٹوک انداز میں پوچھا مگر منتہٰی کے چہرے پر اطمینان تھا...
"ماہی کون ہے یہ لوگ اور یہ لڑکا...؟"
اُس نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا...
"دُعا اور سمیر میرے دوست ہیں..."
منتہٰی نے نارمل انداز میں جواب دیا...
"اور یہ.."
عماد کا اشارہ زیان کی طرف تھا...
"ایک ادھُوری خواہش..."
منتہٰی نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا...
عماد کو اب سمجھ آرہا تھا کہ کیا معاملہ ہے....
"تُم آرام کرو میں آتا ہوں..."
عماد نے منتہٰی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے کہا...
"آپ دونوں میرے ساتھ آئیں..."
اُس نے سمیر اور زیان سے کہا اور باہر نکل گیا....

_________________________________________

"تُم میری بہن سے محبت کرتے ہو؟؟"
عماد نے بغیر  کوئی دوسری بات کیے سیدھا پوچھا...
"ہاں.." زیان نے پورے اعتماد سے کہا...
"سب جاننے کے بعد بھی..؟"
"ہاں کیونکہ اِن سب میں "ماہی" کی کوئی غلطی نہیں ہے..؟"
"منتہٰی نام ہے اُس کا بہتر ہوگا تُم بھی منتہٰی ہی بولو..."
عماد نے سرزنش کی...
"ٹھیک ہے..." زیان کو کوئی اعتراض نہیں تھا...
"ملے کیسے تُم اُس سے..؟"
اُس نے بغور زیان کو دیکھتے ہی پوچھا تو زیان نے شروعات سے لے کر ساری کہانی اُسے سنادی جسے اُس نے بڑے ضبط کے ساتھ سنا عماد کو بہت تکلیف پہنچی تھی کہ اپنا گھر سگے رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی اُس کی ماہی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئی تھی....
"آپ کے اور مانی صاحب کے بارے میں منتہٰی سے بہت سنا ہے مگر اُس نے یہی بتایا تھا کہ آپ دونوں..." سمیر نے اُلجھ کر کہا...
"اُسے یہی لگتا تھا کہ میں مرچُکا ہوں اب کیا کیوں کیسے میں بچا یہ ایک بہت لمبی کہانی ہے مگر اتنا بتا دیتا ہوں اِن سب کے پیچھے کوئی اور نہیں غفران ہی ہے..."
عماد نے متانت سے کہا..
"کیا وُہ اتنا پاور فل ہے...؟"
زیان کو حیرت ہوئی تھی...
"بہت اُس کی طاقت کا اندازہ اسی بات سے لگا لو کہ پانچ سال اُس نے ایک اے ایس آئی آفیسر کو اپنے قبضے میں رکھا اور کوئی اُس تک پہنچ نہیں سکا ورنہ مُجھے ڈھونڈھ نکالنا انٹیلیجنس بیورو کے چند گھنٹوں کی مار تھی مگر ہمارے محکمے میں بہت سی بڑی کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کا منہ پیسوں سے بند کردیا گیا ہے..."
عماد نے تفصیل سے ساری بات بتائی...
"آپ اے ایس آئی آفیسر ہیں خفیہ پولیس..؟"
سمیر نے تصدیق کرنی چاہی ..
"جی.." عماد نے مختصر جواب دیا...
"مُجھے سب سے پہلے اپنی جاب واپس حاصل کرنی ہوگی پانچ سال تک میں غائب رہا ہوں اتنا آسان نہیں ہوگا مگر مجھے کرنا ہوگا کیونکہ مجھے صرف ماہی کی جان نہیں چھڑوانی اُس سے بلکہ بہت سے لوگوں کی جانوں کا بدلہ بھی لینا ہے وُہ بہت سوں کا مجرم ہے اور ایسے انسان کو یوں آزاد کھلا گھومنے کا کوئی حق نہیں ہے..."
جذبات کی رو میں بہہ کر عماد نجانے کیا کیا کہتا چلا گیا...
"آپ جاب کی فکر مت کریں میری ابو کے بہت اچھے دوست ہیں آئی جی سندھ مکرم علی شاہ نے آج ہی اُن سے بات کرتا ہوں آپکو پولیس ایکشن کمیونٹی میں پیش نہیں ہونا پڑے گا..."
زیان نے پر اعتماد انداز میں کہا...
عماد کو حیرت ہوئی تھی مگر سمیر کو ذرا حیرت نہیں ہوئی کیونکہ وہ شروع دِن سے جانتا تھا کہ زیان فائننشلی بہت مضبوط ہے یہ سب جابز وغیرہ شہر شہر گھومنا یہ اُس کے شوق تھے...
"تمہاری اتنی سورس کیسے...؟"
عماد نے سوال کیا..
"آپ نے rzz گارمنٹس کا نام سنا ہے..؟"
زیان نے سوال کے بدلے سوال کے...
"ہاں سنا ہے پاکستان کی ٹاپ تھری گارمنٹس فیکٹری میں آتی  ہے غالباً..."
"جی وہی میرے ابو کی فیکٹری ہے وُہ اور پھر جس کے پاس پیسہ ہو سورسز تو ہوتے ہی ہیں.."
وُہ پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے بولا کیونکہ ایسی زندگی سے تو وُہ دور جانا چاہتا تھا جہاں کچھ کیے بغیر اُسے سب مِل جاتا تھا مگر قسمت اُسے وہی لے آئی تھی...
"شکریہ..." عماد نے متشکر انداز میں کہا...
"میں منتہٰی کی اُس اِنسان سے جان چھڑانے میں اور اُس اِنسان کو سلاخوں کے پیچھے کرنے میں آپکی ہر ممکن مدد کروں گا..."
زیان نے مضبوط لہجے میں کہا فیصلہ وُہ کرچکا تھا کہ اب اُس نے کیا کرنا ہے...

_________________________________________

وُہ مسلسل تین دنوں سے منتہٰی سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اُس کا نمبر بند تھا یا پھر بدلا جا چُکا تھا مگر آج موصول ہونے والے خلع کے نوٹس نے اُسے پتنگے لگا دیے تھے یہ بات اُس کی برداشت سے باہر تھی کہ منتہٰی نے ایسا سوچا بھی کیسے کہ اتنی آسانی سے وہ اُسکی زندگی سے چلی جائے گی غفران نے پیپرز کے پرزے پرزے کر ڈالے اُس کا اشتعال کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔۔۔
"میں نے تُم سے کہا تھا جب تک میں زندہ ہوں تُمہیں خود سے کبھی الگ نہیں ہونے دوں گا پھر چاہے اُس کے لیے مُجھے کُچھ بھی کرنا پڑے کُچھ بھی...."
اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارتے ہوئے وُہ شدید غصّے میں بولا...
کُچھ دیر بعد گاڑی ایک بنگلے کے آگے رُکی چوکیدار نے دروازہ کھولا تو وُہ گاڑی پورٹیکو میں لے گیا سامنے ہی لان میں بیٹھی لڑکی کی جانب بڑھا...
"تُم یہاں بیٹھی ہو خرم کہاں ہے...؟"
وُہ اُس کے سر پر کھڑے ہوکر چیخا مگر وہ کانوں میں ہینڈ فری لگائے کم سے کم لباس میں گھر بھر کے نوکروں کی منظورِ کے بنی ہوئی تھی بلکل بے فکر...
"سنائی نہیں دے رہا بہری ہوگئی ہے کیا.."
غفران نے اُسکے کانوں سے ہینڈ فری کھینچتے ہوئے کہا..
"تُم کب آئے..؟" اُسکی لاپرواہی میں کوئی فرق نہ آیا...
"خرم کو چھوڑ کر تُم یہاں کیا کر رہی ہو...؟"
اُس نے اپنا سوال دہرایا...
"سو رہا ہے وُہ اب کیا سوتے سے اُٹھا دوں اُسے..."
وُہ ہاتھ نچا کر بولی...
"تُمہیں کیا ہوا ہے رات میں یہاں آنے کا مطلب تو صرف ایک ہی ہے مگر کیوں کیا تمہاری بیوی نے حقوق زوجیت کی ادائیگی سے انکار کردیا کیا..."
اُس نے غفران کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مخمور انداز میں کہا...
"اپنی اوقات میں رہو تو اچھا ہوگا تمہارے لیے جیا زیادہ پھدکنے کی ضرورت نہیں ہے..."
غفران نے تھوک نگلتے ہوئے کہا سُرخ اور خُمار آلود آنکھیں اُس کے چہرے میں بھی منتہٰی کو ڈھونڈھ رہی تھیں غفران نے نہایت نرمی سے اُس کے گال کو چھوا...
"مُجھے اتنے نرم لمس کی عادت نہیں ہوش میں آؤ میں وُہ نہیں ہوں جو تُم مُجھے سمجھ رہے ہو..."
جیا نے غفران کے ہاتھ کو سختی سے اپنی چہرے پر دباتے ہوئے کہا...
"تُمہیں کیسے پتا کہ میں تمہیں کوئی اور سمجھ رہا ہوں.."
اُس نے سخت لہجے میں پوچھا...
"کیونکہ مُجھ سمیت ہر عورت کو تمہارا چھونے کا انداز جنگلیوں جیسا ہے کیونکہ تُم ہمارے پاس صرف ضرورت پوری کرنے آتے ہو اور یہ اتنا نرم لمس کیا میں نہیں جان سکتی یہ کس کے لئے ہے صرف اُس کے لیے جس کے قریب تُم ضرورت کے لئے نہیں اپنی محبت کی تسکین کے خاطر جاتے ہو فرق تو ہوگا ناں ظاہر ہے..."
وُہ کاٹ دار لہجے میں بولی...
غفران کو اعتراف تھا کہ اُس نے کتنا سچ کہا تھا...
"میں تمہاری وحشت کی عادی ہوں سو ویسے ہی پیش آؤ.."
غفران کُچھ بھی کہے بغیر اُس کے ساتھ اندر چلا گیا...

_________________________________________

"میں اس تُم سے کوئی کام کہا تھا تُم نے دو دِن کا کہہ کر مُجھے ٹال دیا کالز کرتی ہو نمبر بند ملتا ہے تمہارا کبھی اُٹھاتے نہیں ہو.."
دُعا نے کال مل جانے کے فوراً بعد بغیر کسی سلام دُعا کے کہا...
"تُمہیں کیا کرنا ہے اُس اِنسان کے بارے میں معلوم کرکے تُم تو یہ سب چھوڑ چُکی ہو واپسی کا ارادہ ہے تو بتادو میرے دِل میں تو اب بھی تمہاری جگہ ہے..."
دوسری طرف سے نہایت بھونڈے انداز میں کہا گیا...
"اپنا منہ بند کرو اور صاف صاف بتادو اگر کُچھ جانتے ہو اُسکے بارے میں ورنہ میرے اور بھی کانٹیکٹس  ہیں..."
دُعا نے لٹھ مار انداز میں کہا...
"مُجھے وجہ بتادو کیوں معلوم کرنا ہے میں تُمہیں بتا دوں گا..."
"ٹھیک ہے نہیں بتانا ہے تو مت بتاؤ میں کسی اور سے معلوم کرلوں گی بھاڑ میں جاؤ تُم..."
دُعا غصّے سے کہتے ہوئے فون بند کرنے لگی..
"آہاں جانِ من اتنی بھی کیا جلدی ہے اب ایسا بھی کیا ہوگیا ہے۔۔۔"
وُہ ہنستے ہوئے بولا...
"کیونکہ تُم میرے کسی کام کے نہیں ہو..."
"مگر میں تمہارا کام ضرور تمام کرسکتا ہوں..."
وُہ اب خباثت دکھا رہا تھا اپنی...
"کیا مطلب...؟" دُعا اِس عرصے میں پہلی بار گھبرائی تھی ..
"کوکین،ایئرپورٹ، ویڈیو... ہاہاہاہاہاہا"
وُہ مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا...
"مت بھول میرے پاس بھی بہت ثبوت ہیں مرڈر "ایم اے " ویڈیو ریکارڈنگ ورنہ تُو اتنا اچھا نہیں کہ مُجھے یونہی آزاد گھومنے دے تیری گوٹ بھی میرے پاس دبتی ہے دھیان رکھنا..."
دُعا نے بنا ڈرے بے خوفی سے کہا تو سامنے والے نے جھلا کر فون بند کردیا...
"یا اللہ کیوں میرا ماضی پھر میرے سامنے آرہا ہے اگر کسی کو بھی میرے بارے میں کُچھ بھی پتا چل گیا تو سب مُجھ سے نفرت کریں گے سب "سمیر" بھی..."
دُعا نے یاسیت بھرے انداز میں خود سے کہا اور آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی تھوڑی ہی دیر گزری تھی موبائل پھر بجنے لگا سمیر کی کال تھی...
"میں چاہ کر بھی تمہاری محبت کا جواب محبت سے نہیں دے سکتی سمیر تُمہیں سمجھنا ہوگا..."
اُس نے کئی آنسو اپنے اندر اُتارے اور موبائل سائلنٹ موڈ پر لگا اور اُلٹا کرکے سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا....

_________________________________________
_________________________________________

وُہ ابھی تک گہری سانسیں لے رہا تھا کُچھ دیر پہلے جو خواب اُس نے دیکھا تھا وُہ اب تک اُس کے حواسوں پر چھایا ہوا تھا منتہٰی کے ہاتھ میں خنجر اور آنکھوں میں نفرت اُسے ہولائے دے رہی تھی....
"نہیں تُم مُجھے سے اتنی نفرت نہیں کرسکتی یہ صرف خواب ہے تُم در حقیقت ایسا کُچھ نہیں کرو گی تُم غصّہ ہو مُجھ سے بس میں تمہیں منا لوں گا جاناں.."
"کسے منا لو گے راسخ.."
جیا نے واش روم سے باہر نکلتے ہوئے اُسکی آواز سنی تھی...
"اپنی سدرۃ المنتہٰی کو میری جان میری  زندگی میرا سب کُچھ ہے وُہ..."
وُہ خود سے بولے جارہا تھا..
"اتنا مت پاگل ہو راسخ وُہ بھی صرف ایک لڑکی کے پیچھے تُم پتھر ہو پتھر اپنے دِل پر بھی پتھر رکھ دو کچل ڈالو اپنے ہر احساس کو اپنے تمام جذبوں کو کیونکہ راسخ کی زندگی میں اِن کی کوئی جگہ نہیں ہے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ.."
جیا نے غفران کا چہرہ سختی سے اپنی دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے کہا...
"اب وقت نہیں ہے میں بہت آگے نکل چکا ہوں اب واپسی موت ہے ہاں منتہٰی سے دستبرداری موت ہے بس اِس سے زیادہ کُچھ نہیں اِس سے کم کُچھ نہیں..."
وہی ضد وہی جنون پھر اُترنے لگا تھا اُسکی آنکھوں میں....
"وُہ لڑکی جسے تمہارا چھونا برداشت نہیں ہے اُسکے لیے تُم مرے جارہے ہو اپنی ضرورتیں پوری کرنے دوسری عورتوں کے پاس آتے ہو پھر کس کام کی ہے وُہ.."
"وُہ میری بیوی ہے "بیوی" میری محبت ہے میرا عشق ہے وُہ اُس کے وجود کی چاہ میرے دِل سے اُسی دِن ختم ہوگئی تھی جب اُس نے مجھے پہلے بار تھپڑ مارا تھا اُسے لگتا تھا کہ میں اُسکی عزت لوٹنا چاہتا ہوں اُس نے یہ سوچا بھی کیسے میں تو بس اُسے دیکھ کر اپنا آپ کھو بیٹھا تھا وُہ حوس نہیں تھی وُہ میری محبت تھی میری محبت جسے اُس نے اور اُس کے بھائی نے حوس کا نام دیا حوس حوس.."
اُس چہرہ خطرناک حد تک سُرخ ہورہا تھا تمام رگیں اُبھر آئی تھیں....
"اور اُسی بات کا بدلہ تُم نے اُسکے بھائی کی جان لے کر لیا تو پھر اُسے کیوں نہیں مارا اُسے کیوں زندہ چھوڑا ہے وُہ تو اب بھی تمہاری محبت کو حوس ہی سمجھتی ہے ناں..."
"کیونکہ میں اُسے کھو نہیں سکتا بہت اِنتظار کیا ہے میں نے اُس کا بہت بہت تُم کہتی ہو ناں میں اُسے اتنی نرمی سے کیوں چھوتا ہوں اور باقی عورتوں کو جانور کیوں سمجھتا ہوں کیونکہ تُم سب عورتیں دو دو ٹکے پر بکنے والی ہو جہاں پیسہ وہیں تُم مگر وُہ پاک ہے بلکل پاک اُسے صرف ایک مرد نے چھوا ہے اور وُہ میں ہوں اُس کا شوہر وُہ لاکھ مُجھ سے نفرت کرلے مگر پھر بھی وُہ میری ہے وُہ میری "عورت" ہے صرف میری وُہ مرنا پسند کرے گی مگر میرے علاوہ کسی کو خود کو چھونے کا اختیار نہیں دے گی پھر بھلے دُنیا کی دولت اُس کے سامنے ڈھیر کردو وُہ خود کو مجھ تک محدود رکھے گی ایک مضبوط اور باکردار عورت کی طرح یہی فرق ہے جو اس کا قرب مُجھے پُر سکون کردیتا ہے میرے انداز میں خود بخود نرمی آجاتی ہے ہیجان رفع ہوجاتا ہے وُہ میرا سکون ہے..."
غفران نے جیا کے دونوں ہاتھ نہایت سختی سے پکڑے ہوئے تھے مگر وہ ضبط کیے سنتی رہی...
"تُمہیں پتا ہے کیا تُم ایک ذہنی بیمار اِنسان ہو یہ محبت نہیں پاگل پن ہے صرف تُم خود جتنے بدکردار ہو تمہاری عورت بھی اتنی با کردار تو نہیں ہوگی بھلے اُس نے خود کو جسمانی طور پر تُم تک محدود رکھا ہوگا مگر کیا کبھی سوچا ہے اُس کے دِل میں کوئی اور ہوسکتا ہے کیا کبھی سوچا ہے جب اُسے پتا چلے گا کہ تُم ہی اُس کے بھائی کے قاتل ہو تو وہ تب بھی تُم سے محبت کرے گی.."
"منہ بند کر کنجری عورت طوائف بکاؤ مال دو ٹکے کی تیری اوقات ہے تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کے بارے میں اتنی گھٹیا باتیں  بولنے کی کیسے ہمت ہوئی.."
وُہ اب اُس کے چہرے کو پیٹ رہا تھا بری طرح..
"مار لو جتنا مارنا ہے مگر اِس پر بھی سوچو تمہاری بیوی کسی اور کو.... ہاہاہاہا"
وُہ ہر تھپڑ پر اور زور زور سے ہنسنے لگتی غفران کو وحشت ہونے لگی اُس نے جلدی سے شرٹ پہنی اور اپنا کوٹ اُٹھا کر  باہر نکل آیا...
". تاریخ گواہ ہے ہمارے اِس دھندے کی ہر وُہ انسان جو خود کو نا قابل شکست سمجھتا ہے جو خود کو ہی سب کُچھ سمجھتا ہے وُہ بھی عورت کے چکر میں ہی پھنستا ہے سالہ ایک عورت کے پیچھے تباہ ہوکر رہ جاتا ہے صرف ایک عورت کے پیچھے ."
جیا نے پیچھے سے بڑے پُر جوش انداز میں کہا...
" کیا کبھی سوچا ہے اُس کے دِل میں کوئی اور ہوسکتا ہے..."
غفران کے کانوں میں یہ جملے مسلسل گونج رہے تھے....
سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے وُہ ایک کمرے کے پاس رُکا اور پھر اندر چلا گیا...
خرم عرف فرحان منیر بڑی گہری نیند سورہا تھا وُہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اُسکے برابر میں اگر بیٹھ گیا...
اُس نے بہت نرمی سے اُس کے دونوں گالوں کو چوم لیا..
"میں اگر تباہ و برباد بھی ہوگیا تو مُجھے اِس بات کا یقین ہے کوئی ایک ہے اِس دُنیا میں ایسا میرے پیچھے رونے والا جسے  میرے جانے کا دُکھ ہوگا جو مُجھے یاد کیا کرے گا میرا بیٹا صرف میرا پتا نہیں کیا ہے اِس میں کہنے کو یہ میرے دشمن کی اولاد ہے مگر میں ایک لمحے  بھی اِس سے نفرت نہیں کرسکا نہ کرسکتا ہوں آپکی پھوپھی میری آدھی جان ہے تو آپ میری باقی آدھی جان میں تُم دونوں کے بغیر ادھورا ہوں بلکل ادھورا اور آج اُسے واپس لانے کے لئے میں آپکا ہی استعمال کروں گا جو میں کبھی کرنا نہیں چاہتا تھا میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی نے بھی پتا چلے کے آپ ہو مگر مُجھے اُسے بھی واپس اپنے پاس لانا ہے اپنے قریب کہ میں اُسے محسوس کر سکوں تین دِن سے میں نے اُس کا چہرہ نہیں دیکھا اب اور نہیں بس..."
اُس نے فرحان کا ماتھا چومتے ہوئے کہا...
"پاپا آپ آگئے.." وُہ نیند میں تھا مگر اُس کی خوشبو سے واقف تھا اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے اُسے دیکھ رہا تھا...
"میرے بیٹا مُجھے یاد کر رہا تھا کیسے نہیں آتا جانو۔۔۔"
غفران نے اُسے گود میں اُٹھاتے ہوئے کہا..
"آپکو کیسے پتا چلا کہ میں آپکو یاد کر رہا تھا۔۔"
وُہ اُس کے گلے کا ہار بنتے ہوئے لاڈ سے بولا۔۔۔
"ویسے ہی جیسے آپکو پتا چل گیا نیند میں کہ میں آگیا ہوں.."
غفران نے اُس کے پیٹ میں گُدگُدی کرتے ہوئے کہا تو وُہ ہنسنے لگا...
"مُجھے تو آپکو اِسمیل سے پتا چلا..."
وُہ فخریہ انداز میں بولا...
"تو مُجھے بھی نا ایک چڑیا نے بتایا کہ میرا بیٹا مُجھے یاد کر رہا ہے پتا ہے کونسی چڑیا وُہ جو ہمارے لان میں آم والے درخت پر بنے گھونسلے میں نہیں رہتی جس سے آپ باتیں کرتے رہتے ہو اس نے میرے پاس آکر کہا کہ بھئی میرا خُرم مجھے بہت مس کر رہا ہے بس تو میں بھاگا چلا آیا اپنی جان سے ملنے..."
غفران نے دوبارہ اُسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی بیٹھ گیا...
"واؤ مطلب برڈ نے میری وش آپ تک پہنچائی پاپا..."
وُہ پُر جوشی سے بولا۔۔۔
"ہاں چلو اب شاباش سوجاؤ صبح ٹیچر نے بھی آنا ہے ناں شاباش میرے شیر..."
"آپ جاؤ گے تو نہیں ناں اب میرے ساتھ ہی رُکیں گے نا رات کو.."
وُہ اُسے زور دیا ہگ کرتے ہوئے بولا جیسے جانے نہیں دے گا آج چاہے کُچھ بھی ہوجائے...
"نہیں جارہا یہی ہوں آپکے پاس.."
غفران نے اُس پر بلنکٹ ڈالتے ہوئے خود پر بھی ڈال لیا اور کوٹ گھڑی اور موبائل سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور جوتے اُتارنے لگا..."
"آئی لو یو سو سو سو مچ پاپا.."
ایک وہی تھا جو ہے دھڑک اپنی محبت کا اظہار کردیا کرتا تھا اُس سے...
"آئی لو یو ٹو میری جند جان.."
غفران  نے اُسے اپنے اوپر لٹا دیا کیونکہ وُہ ہمیشہ جب بھی اُس کے ساتھ سوتا تھا غفران کے اوپر چڑھ کر سوتا تھا کیونکہ اُسے یہ ڈر رہتا تھا کہ اُس کا پاپا رات کو اُسے چھوڑ کر چلے جائیں گے اور غفران کو اُسکی یہ بات ہر بار نیا لطف دیتی تھی۔۔
_________________________________________

رات کے نجانے کس پہر اُسکی آنکھ کھلی خرم نیند میں اُسکے  سینے سے پھسل کر بیڈ پر گر چُکا تھا مگر دونوں ہاتھ اور دایاں پیر اُس ہی کے اوپر تھا....
غفران نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے...
اُس نے نرمی سے خُرم کو خود سے الگ کیا جس پر وُہ ہلکا سا کسمسایا پھر دوبارہ کروٹ بدل کر سوگیا غفران نے اُس پر کمبل برابر کیا  اور اپنی باقی چیزیں اُٹھا کر خُرم کو پیار کرتا ہوا باہر آگیا...
گاڑی اُس  نے عماد کے گھر کے راستے پر ڈال دی تھی...
تقریباً آدھے گھنٹے بعد وُہ عماد کے گھر کے سامنے کھڑا تھا اُس نے دور سے ہی  دیکھ لیا تھا کہ گھر کے باہر دو پولیس اہلکار کھڑے ہیں جن کی موجودگی میں گھر کے اندر داخل ہونا ایک ناممکن مرحلہ تھا... اُس نے گاڑی ٹرن کی اور بہت پیچھے چلا گیا گاڑی کو وہی چھوڑا اور پیدل چلتا ہوا پاس ہی اُگی جھاڑیوں میں جا چھپا اور سوچنے لگا کہ اِن لوگوں دھیان کیسے بٹائے پیسوں سے کچھ نہیں ہونے والا تھا کیونکہ عماد نے اگر انہیں اپنے گھر کی پہرے داری کی ذمے داری دی تھی تو یقیناً اُس کے بھروسے کے آدمی تھے اور وہ ابھی کوئی رسک لینے کے موڈ میں نہیں  تھا....
وُہ گُلشن معمار کا الگ تھلگ ایریا تھا پورا علاقہ ب بھائیں بھائیں کر رہا تھا...عماد کے اگل بغل کے دونوں پلاٹس پر ابھی کنسٹرکشن کا کام چل رہا تھا غفران کے دماغ ایک ترکیب بجلی کی تیزی سے کوندی وُہ یونہی جھاڑیوں میں چھپا رینگتا رینگتا انڈر کنسٹرکشن بلڈنگ میں جا گھسا اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا اُس عمارت کی چھت پر پہنچ گیا جہاں سے عماد کی چھت بلکل صاف نظر آرہی تھی  عماد کے بنگلے سے وُہ عمارت بلکل جڑی ہوئی تھی کودنے کی ضرورت ہی نہیں تھی وُہ با آسانی اُتر سکتا تھا اور بغیر آواز کے وُہ عماد کے گھر میں اُتر بھی گیا اب دوسرا مرحلہ تھا منتہٰی کا کمرہ ڈھونڈھنا... وُہ نیچے جانے والی سیڑھیوں کی طرف بڑھا پہلی ہی منزل سے نیچے جھانکنے پر ڈرائنگ روم سے آتی روشنی سے اُسے پتا چل گیا کہ نیچے کوئی ہے اُسے عماد کی آواز بھی سنائی دی تھی اندر چار لوگ تھے جس میں سے ایک کو اُس نے خود باہر جاتے دیکھا تھا باقی تین واپس اندر چلے گئے وُہ جانتا تھا یہ میٹنگ اُسی کے لیے تھی اگر کوئی اور وقت ہوتا تو وُہ سُننے کی کوشش بھی کرتا مگر ابھی اُس کا مقصد منتہٰی تک پہنچنا تھا...
بالترتیب تین کمرے ایک ساتھ تھے...
"منتہٰی چل پھر نہیں سکتی ابھی تو اُسکے کمرے کا دروازہ اندر سے بند نہیں ہوگا.."
اُس نے سوچا مگر زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی راہداری کے آخر میں بنے کمرے سے نکلتی شائنہ نے اُس کی مشکل آسان کردی وُہ نیچے جارہی تھی اِس کا مطلب تھا منتہٰی باقی کے دو کمروں میں سے کسی میں ہے وُہ دیوار کی آڑ میں کھڑا رہا اُس کے چلے جانے تک اور پھر بغیر آواز کے تیز تیز قدم اُٹھاتا پہلے کمرے تک پہنچا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا اُسے سامنے ہی بیڈ پر بڑے پُر سکون انداز میں سوتی منتہٰی دکھائی دی...
کمرے کو اندر سے لاک لگا کر وُہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اُس کی طرف بڑھنے لگا...
" تاریخ گواہ ہے ہمارے اِس دھندے کی ہر وُہ انسان جو خود کو نا قابل شکست سمجھتا ہے جو خود کو ہی سب کُچھ سمجھتا ہے وُہ بھی عورت کے چکر میں ہی پھنستا ہے سالہ ایک عورت کے پیچھے تباہ ہوکر رہ جاتا ہے صرف ایک عورت کے پیچھے..."
جیا کے الفاظ اب بھی کانوں میں گونج رہے تھے اُسکے...
"میں لاکھوں بار برباد ہونے کو تیار ہوں اگر وہ ایک عورت تُم ہو جاناں.."
اُس نے محبت سے اُسے دیکھتے ہوئے خود سے کہا اور اُسکے برابر میں آکر لیٹ گیا ...
"مُجھے تُم سے کوئی الگ نہیں کرسکتا جاناں کوئی نہیں بس کُچھ دِن بھلے اور رہ لو یہاں پر آنا تو تمہیں میرے پاس ہی ہے اپنے غفران کے پاس.."
ڈیمر کی مدھم روشنی میں بھی وُہ اُس کا چہرہ صاف دیکھ سکتا تھا بہت پُر سکون نیند سو رہی تھی وُہ غفران مسلسل اُس کے بالوں میں دھیرے دھیرے اُنگلیاں پھیر رہا تھا تب ہی منتہٰی نے نیند میں اپنا دایاں ہاتھ اُس کے سینے پر رکھا کوئی کرنٹ جیسا تھا جو منتہٰی کے رگ و پے میں دوڑا تھا اُسکی تمام حساسیت آنِ واحد میں بیدار ہوئی اُس نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دی چند لمحے اُس کے چہرے کو خود سے اتنا قریب دیکھتی رہی پھر ذرا پیچھے ہٹ کر بولی...
"تُم یہاں بھی آگئے کیسے..؟"
وُہ تھک کر بولی...
"بس بہت ہوا جاناں تین دِن ہوگئے ہے تمہیں مُجھ سے دور رہتے ہوئے بس اب میرے ساتھ چلو تُمہیں پتا ہے میں اِن تین دنوں میں ایک منٹ بھی سویا نہیں ہوں آنکھیں بند کرتا ہوں تو تُم سامنے ہوتی ہو کھولوں تو بھی تُم ہوتی ہو میں کیا کروں میرے مرض کی دوا صرف تُم ہو.."
وُہ اُس کی پیشانی چومتا ہوا بولا خطرناک حد  تک سُرخ ہوتی اُسکی آنکھیں رتجگوں کی واضح غماز تھیں...
"غفران پلیز چلے جاؤ تُمہیں دکھ نہیں رہا میں تُم سے دور کتنی پُر سکون ہوں مطمئن ہوں بس کردو تُم بھی اب چھوڑ دو مجھے.."
"میں تو بے چین ہوں مسلسل مضطرب ہوں میرا کوئی خیال نہیں تُمہیں آخر کیوں کیوں جاناں.."
وُہ تڑپ کر بولا..
"عادت ڈال لو اِس کی اب میں واپس نہیں آنے والی.."
منتہٰی نے اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا اور بیٹھنے لگی غفران نے اُس کی مدد کی...
"تُمہیں واپس آنا ہوگا میرے پاس واپس آنا ہوگا میں روز روز تو اپنا سکون حاصل کرنے یوں چوروں کی طرح تُم سے ملنے تو نہیں آسکتا ناں؟؟" وُہ ہنستے ہوئے بولا اور منتہٰی کو ہمیشہ کی طرح پاگل ہی لگا...
"غف..."
"شش جاناں ابھی چُپ مُجھے تُمہیں محسوس تو کرنے دو تین دن تُم سے دور رہا ہوں مُجھے تمہاری خوشبو تو اپنے اندر اُترنے دو..."
غفران نے اُس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے مخمور لہجے میں کہا...
عماد...." منتہٰی نے چیخنا چاہا...
"شش جاناں بس بس ابھی بلکل چُپ جب میں کہہ رہا ہوں کہ مُجھے ابھی تمہیں محسوس کرنے دو تو تُم بلکل چُپ رہو آخر کو تین دِن تُم سے دور رہا ہوں آسان تھوڑی تھا..."
وُہ نرمی سے منتہٰی کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا...
کافی دیر یونہی گزر گئی تو غفران اُٹھ کر بیٹھ گیا منتہٰی کو لگا وُہ جا رہا ہے مگر وُہ تو اُسے بھی بٹھا رہا تھا....
"جانتی ہو یہ کون ہے..؟"
اُس نے جیب سے موبائل نکال منتہٰی کے کندھے پر اپنی تھوڑی رکھتے ہوئے موبائل اُس کے سامنے کیا...
منتہٰی نے دیکھا وُہ ایک چھوٹا بچہ تھا نہیں وُہ صرف ایک بچہ نہیں وُہ اُسے جانا پہچانا لگا...
"کیا ہے یہ سب اب کیا کھیل کھیل رہے ہو تُم.."
"کوئی کھیل نہیں ہے سوچا تھا تُمہیں خود ملوانے لے کر جاؤں گا مگر پھر حالات بگڑتے چلے گئے بگڑتے چلے گئے اب تُم پھر مُجھے غلط سمجھو گی..."
وُہ گہری سانس لے کر بولا...
"کون ہے یہ...؟"
منتہٰی نے اب سختی سے پوچھا...
"فرحان منیر.."
غفران نے کہتے کے ساتھ ہی اُس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا منتہٰی انچ تک نہ ہلی حتٰی کہ سانس تک نہ لی جو نام اُس نے لیا تھا وُہ اُس کے ہوش و حواس سلب کرنے کے لئے کافی تھا..
"فرحان..." وُہ کسی ٹرانس سے کیفیت میں بولی...
"ہاں تمہارے مانی بھائی کا بیٹا فرحان میں نے سوچا پھوپھی ہونے کے ناطے تُمہیں پتا ہونا چاہیے بس اسی لیے اتنی رات کو تُمہیں بتانے چلا آیا تاکہ کل صبح تُم خود اپنے عماد بھائی کو کہو کہ تمہیں اپنے شوہر کے پاس واپس جانا ہے کیونکہ تُم مُجھ سے بہت محبت کرتی ہو اور چھوٹے موٹی لڑائی تو میاں بیوی میں ہوتی رہتی ہیں..."
وُہ منتہٰی کے گرد حصار تنگ کر رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا منتہٰی اُسے اپنا سکون حاصل کرنے سے نہیں روکے گی کیونکہ جو جھٹکا اُس نے دیا تھا وُہ اُسکے لیے کافی تھا...
"اگر میں تمہارے ساتھ چلوں گی تو تُم فرحان کو کُچھ نہیں کرو گے.."
منتہٰی نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا...
"میں ویسے بھی اُسے کُچھ نہیں کرسکتا جاناں بس یہ تمہارے لئے ایک وارننگ ہے کہ مجھے خود سے الگ کرنے کا سوچنا بھی مت کیونکہ یہ نا ممکن ہے بلکل نا ممکن..."
غفران ڈیمر بھی بند کرچکا تھا اب کمرے میں مکمل اندھیرا تھا...
منتہٰی کو اپنی زندگی پھر سے اندھیروں میں گھرتی دکھائی دی....
"میں تمہارے لیے کُچھ بھی کرسکتا ہوں جاناں کُچھ بھی..."
منتہٰی کے چہرے کو چھوتے ہوئے اُس نے محبت سے کہا...
منتہٰی نے اُسکے بازو پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر زور سے بھینچا تھا کیونکہ وہ چیخنا چاہتی تھی اپنی بے بسی پر مگر اُسے اجازت نہیں تھی وُہ غفران کے سینے پر اپنا دایاں ہاتھ مار رہی تھی بار بار مگر غفران نے اُسے خود سے دور نہیں کیا..
"کیوں ہر بار تُم جیت جاتے ہو کیوں میں تُم سے نفرت کرتی ہوں نفرت کیوں نہیں چلے جاتے میری زندگی سے آخر کیوں.؟؟"
"کیونکہ یہ نا ممکن ہے جاناں دُنیا کی کوئی طاقت تُمہیں مُجھ سے الگ نہیں کرسکتی کبھی نہیں..."
غفران نے قطعی انداز میں کہا...
"میں ایک دِن تُم سے آزاد ہوکر دکھاؤں گی غفران دیکھنا تُم..."
"جو کہنا ہے کہہ لو بس میرے قریب رہو مُجھے سکون حاصل کرنے دو بہت بے چین رہا ہوں.."
وُہ گہری سانس لے کر بولا....

_________________________________________

"ٹھیک ہے کام ہوجائے گا تیرا بس دو دِن دے مُجھے اِس کا پورا بائیو ڈیٹا نکال کر تیرے سامنے رکھ دوں گا..."
سہیل نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے زیان اور عماد سے کہا...
"مُجھے بڑی سے بڑی سے لے کر ہر چھوٹی سی چھوٹی ڈیٹیل بھی چاہیے اِس کے حوالے سے..."
عماد نے دوبارہ باور کروایا....
"تُم دونوں ٹینشن مت لو جتنا مُجھ سے ہوسکے گا اور جتنی اپنی سورز سے میں انفارمیشن کلیکٹ کرسکا اُس کا وعدہ میں کرتا ہوں.."
سہیل نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
"ویسے حیرت ہے زیان عماد کا تو سمجھ آتا ہے مگر تو کیوں ایک گینگسٹر کے  پیچھے پڑا ہوا ہے..."
سہیل نے ازراہِ مذاق کہا...
"اس بات کو تُو چھوڑ بس بھائی کا یہ کام کردے.."
زیان نے صاف ٹالا..
"ٹھیک ہے نہیں بتانا ہے تو مت بتا.."
سہیل نے مصنوئی خفگی سے کہا...
"اچھا چل ابھی میں چلتا ہوں پھر ملاقات ہوگی.."
وُہ جانے کے لیے کھڑا ہوگیا...
"ایک بات اور میں جانتا ہوں  آئی ایس آئی میں بھی کُچھ لوگ ہیں ایسے کھاپٹر ٹائپ مگر تُم جن لوگوں کو یہ کام سونپوں وُہ بھروسے مند ہو کیونکہ یہ انفارمیشن لیک نہیں ہونی چاہیے ورنہ وہ لوگ محتاط ہوجائیں گے..."
عماد نے ہاتھ ملاتے ہوئے تنبیہی انداز میں کہا...
"اوکے سر جی.."
وُہ بڑا خوش مزاج اِنسان معلوم ہوتا تھا...
"تھینک یو سو مچ..."
زیان نے متشکرانہ انداز میں کہا..
سہیل اُن سب سے مل کر چلا گیا...
"یہ سب کیا اتنا آسان ہوگا جتنا لگ رہا ہے کیونکہ جیسا مُجھے دکھ رہا ہے غفران کوئی چھوٹی موٹی مچھلی نہیں ہے اگر کو غفران ہی اِس پورے نیٹ ورک کا سرغنہ ہے تو..."
سمیر نے پُر سوچ لہجے میں کہا...
"بڑی مچھلی غفران نہیں ہے اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کیونکہ پانچ سال جو ثبوت حاصل کرنے کے لئے غفران نے مجھے اغوا کیا تھا اُس کے مطابق غفران کے اوپر بھی کوئی ہے مگر شومئی قسمت میں نے جہاں اُس یو ایس بی کو چھپایا تھا اب وُہ وہاں نہیں ہے اور وہ یقیناً غفران کے پاس بھی نہیں کیا کیونکہ اگر اُسے وُہ یو ایس بی پہلے ہی مِل چُکی ہوتی ٹو وُہ مُجھے کب كا مار چکا ہوتا..."
عماد کڑی سے کڑی جوڑ رہا تھا...
"انشاءاللہ سب بہتر ہوگا غفران اور منتہٰی کا رشتہ ختم کرنا ہے سب سے پہلے جس کے لیے خلع کا نوٹس تو اُسے بھیج دیا ہے اب وُہ کُچھ نہیں کرسکتا کُچھ بھی نہیں.."
زیان نے سنجیدہ لہجے میں کہا.....

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro