Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۷

Mega Episode 💥💥💥
#بچھڑے_سفر_میں
(season 1)
از قلم #مصطفیٰ چھیپا
قسط نمبر ۲۷ (4th last episode)

"لے تو آئے ہو تُم لوگ مُجھے مگر ہمت ہے تو ایک گھنٹے سے زیادہ مُجھے یہاں رکھ کر دکھا دو.."
غفران نے جھٹکے سے خود کو آزاد کروایا اور پاس پڑی کُرسی ٹھوکر مار کر آگے کیا اور اُس پر بیٹھ گیا...
"ابے او تیرے باپ کا گھر نہیں ہے یہ تھانہ ہے تھانہ اے لے کر جا اِسے حوالات میں ڈال آتا ہوں میں بھی اِس کی ٹھکائی کرنے جا لے کر جا حرام خور کو..."
انسپکٹر نوید احمد نے اُسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا اور حوالدار کی طرف دھکا دیا....
"اپنی اوقات میں رہ سمجھ آئی ورنہ ایسا غائب ہوگا کہ لاش کے ٹکڑے بھی نہیں ملیں گے..."
غفران نے اُس کا گریبان اپنے دونوں ہاتھوں میں لے نفرت سے کہا...
"میرے تھانے میں مُجھ ہی پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو ایک گھنٹہ نہیں پورا ایک ہفتہ یہیں سڑے گا دیکھا تو بھی کس سے پالا پڑا ہے..."
"تیرا باپ بھی مُجھے یہاں نہیں رکھ سکتا لگا لے جتنا دم ہے تیرے پچھواڑے میں..."
غفران استہزایہ بولا...
"لے کر جا اِسے میری شکل کیا دیکھ رہا ہے..."
انسپکٹر نوید تماشہ دیکھتے حوالدار پر گرجا...
"چل بے.."
وُہ بھی جیسے ہوش میں آیا غفران کو گھسیٹنے لگا اپنے ساتھ...
"میں نے کہا ناں تیرا باپ بھی مُجھے یہاں نہیں رکھ سکتا دیکھ آگئی تیرے دوسرے باپ کی کال اب پچھتا اپنی زندگی پر تُو.."
غفران نے اپنے کوٹ کی جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا جس پر ڈی ایس پی شہاب کالنگ لکھا آرہا تھا...
"ہاں کیسے کیسے حرامزادے بھرتی کر رکھے ہیں تُم لوگوں نے ہر مہینے تُم لوگوں کو کروڑوں روپے اِس لیے دیتا ہے کہ اپنے باپ کو یوں اُٹھا کر لے آؤ کس کام کے ہو تُم لوگ حرام خوری کے پیسے لیتے ہو.."
غفران نے فون اسپیکر پر رکھ کر انسپکٹر نوید کے سامنے کیا دوسری طرف سے اُبھرنے والی آواز نے اُسے حیران کردیا...
"نیا ہے سر پتا نہیں ہے آپکے بارے میں غلطی ہوگئی معاف کردیں میں ابھی سسپنڈ کرتا ہوں اُسے آپ بس کُچھ کاغذی کاروائی کے بعد واپس جا سکتے ہیں معافی سر.."
انسپکٹر نوید کے لئے اپنے با رعب ڈی ایس پی کا یہ روپ بہت حیران کن تھا اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اُس نے کس پر ہاتھ ڈالنے کی غلطی کی ہے...
"آپ فون دیں انسپکٹر نوید احمد کو.."
"لے بات کر.."
غفران نے تحقیر آمیز لہجے میں کہا جس سے نوید کے ماتھے پر بل پڑ گئے..
"جی سر..."
وُہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لہجے کی تلخی نا چھپا سکا...
"ابے جی سر کے بچے کسی پکڑ لائے ہو پتا نہیں ہے کون ہے یہ فوراً کے فوراً جانے دو اِنہیں اور تُم اگلے دو مہینے کے لئے سسپنڈ کیے جاتے ہو..."
وُہ بری طرح چیخ کر بولے مگر آج نوید کو کوئی خوف محسوس نہیں ہوا کیونکہ اُس اِنسان کا دوسرا روپ وُہ دیکھ چکا تھا....
"فارغ کرو ایسے لوگوں کو سپنڈ نہیں..."
غفران نے تنفر سے کہا...
"سر اِن کی وائف نے اِن کے خلاف کمپلین کی ہے میں کیسے چھوڑ دوں اِسے..."
وُہ بے خوفی سے بولا..
دوسری طرف سے ڈی ایس پی نے کئی موٹی گالیاں بکیں اور غفران کو چھوڑنے کو کہا جس پر انسپکٹر نوید نے غصے میں فون زمین پر دے مارا....
"تیرے باپ کا تھا جو ایسے پھینک دیا.."
غفران اُس پر چیخا...
"ہاتھ نیچے رکھ کر بات کر حرامی نیچے تیرے باپ کا نہیں کھاتا مگر یاد رکھ ایک دِن ضرور میرے ہاتھوں ہی ضائع ہوگا تُو نفرت ہے مُجھے تُجھ جیسے لوگوں سے اپنے پیسے کے دم پر بہت اچھلتا ہے ناں تُو دیکھ لیں گے تُجھے بھی۔۔۔۔ اے فارغ کر اسے گندگی کو باہر نکال جلدی سے..."
غفران کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹا کر اُس نے سب انسپکٹر سے کہا اور باہر چلا گیا...
غفران نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں وُہ اب مزید کوئی ہنگامہ نہیں کرنا چاہتا تھا اُسے منتہٰی کے پاس واپس جانا تھا....

_________________________________________

"ماضی"

"کیا ہوا اتنا اُداس کیوں بے...؟"
منیر نے بیڈ پر آڑھے ترچھے لیٹے عماد کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا...
"تُو نہیں جانتا...؟"
عماد کے لہجے میں شکوہ صاف تھا...
"یار دیکھ اب یہ مت بولنا تُو اِس سب کے لئے تیار نہیں تھا پہلے سے غفران کو تُو جانتا ہے تایا ابو ہوتے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا میں منا لیتا اُنہیں تیرے لیے مگر یہ غفران نہیں مانے گا اُسے اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں نے شائنہ سے شادی نہیں کی اُسے اِس بات پر غصّہ ہے کہ میں نے ماہی کا رشتہ اُس سے ختم کردیا تُجھے لگتا ہے وُہ میرے بچپن کے دوست سے اپنی بہن بیاہے گا... کبھی نہیں ہرگز نہیں..."
منیر نے پوری سچائی سے کہا..
"تو میں کیا کروں پھر تُو تو اپنی کرکے سیٹ ہوگیا میری محبت کا کیا دِل کرتا ہے بندوق کی ساری گولیاں اُتار دوں اُس خبیث اِنسان کے سینے میں..."
عماد نے شدید غصّے سے کہا...
"تُو شائنہ سے بات کرنے کی کوشش کر..."
"اُس سے بات ہوچکی ہے میری اُسے کوئی اعتراض نہیں ہے وُہ خوش ہے اِس رشتے سے سارے فساد کی جڑ یہ غفران ہے..."
"دیکھ عماد میں جانتا ہوں غفران کبھی شائنہ کی شادی تُجھ سے نہیں کرے گا کبھی بھی نہیں کیونکہ میں نے اُس کی خواہش جو نہیں پوری ہونے دی تُو شائنہ سے بات کر باقی سب مُجھ پر چھوڑ دے میں سب انتظام کرلوں گا..."
منیر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"کیا مطلب اُسے اپنے گھر سے بھاگنے کے لئے کہوں...؟"
عماد نے حیرت سے پوچھا...
"اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے عماد یاد رکھ میری بات وُہ اپنی خوشی سے کبھی تُم دونوں کی شادی نہیں ہونے دے گا..."
منیر نے اسے سمجھانا چاہا وُہ خود بھی کافی حد تک اُس کا ہم خیال ہوچکا تھا...
"شائنہ نہیں مانے گی میں جانتا ہوں کبھی نہیں مانے گی..."
عماد نے مایوسانہ انداز میں کہا...
"اُسے سمجھانا اب تیرا کام ہے میں بھی کوشش کروں گا اور علیشہ سے بھی کہوں گا کہ وُہ بات کرے مُجھے اُمید ہے وُہ سمجھ جائے گی سارے حالات اُسکے سامنے ہیں اُسے اپنے لیے سوچنا ہوگا..."
منیر نے مستحکم انداز میں کہا...
"اچھا میں بات کروں گا اُس سے تُو بتا انکل سے بات ہوئی کوئی..."
"وُہ میری شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہیں یار کیا بات کروں..."
منیر نے تاسف سے بولا...
"مگر ماہی بتا رہی تھی وُہ فرحان کو جب بھی گھر لاتی ہے تو وُہ بھی اُسے گود میں لیتے ہیں پیار کرتے ہیں علیشہ کے ساتھ بھی اُن کا رویہ نارمل ہے..."
" جانتا ہوں یار مگر وُہ مُجھ سے ناراض ہیں پتا نہیں کب معاف کریں گے کریں گے بھی یا نہیں..."
"ایسا مت سوچ اچھا ہوگا سب انکل تُجھے بہت چاہتے ہیں یہ سب جانتے ہیں..."
عماد نے تسلی آمیز لہجے میں کہا...
"تبھی تو اتنا ناراض ہیں مُجھ سے..."
وُہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا...
"اچھا میں نے غفران کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کی ہیں تیرا شک بلکل ٹھیک تھا..."
"کیا مطلب وہ واقعی اسمگلنگ کرتا ہے.."
منیر کو یقین نہ آیا..
"جی وُہ بھی کافی بڑے پیمانے پر کوئی اُس پر اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں ڈال سکتا بڑے افسروں کے نوٹوں سے منہ بند کیے ہوئے ہیں اُس نے اور صرف اسمگلنگ نہیں وُہ خونی بھی ہے پتا نہیں کتنے لوگوں کا قتل کروا چکا ہے..."
عماد نے ایک کے بعد ایک اُس کے سر پر بم پھوڑے...
"تب ہی کہوں صرف پانچ سالوں میں ایسا کونسا کام شروع کردیا اُس نے جو کروڑوں کا بنگلہ لے لیا اتنی گاڑیاں اور اتنا بڑا آفس جس کی آڑ میں وہ یہ سب کرتا ہے.."
منیر کے دِل میں غفران کی نفرت دوچند ہوگئی...
"اچھا ہوا میری ماہی کی جان چھوٹ گئی اُس سے.."
"تُو غلطی پر ہے مانی..."
عماد نے یہ بات خود سے کہی تھی وُہ اُسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا منتہٰی نے بھی یہ بات منیر کے بجائے اُسے بتائی تھی کہ کوئی روز اُس کا پیچھا کرتا ہے یونیورسٹی آتے جاتے وقت تب ہو عماد نے اُس کی پک اینڈ ڈراپ کی ذمے داری غیر محسوس طریقے سے اپنے ذمے لے لی تھی روز وُہ خود چھوڑنے جاتا تھا اور چاہے جتنا بھی مصروف ہو روز خود لینے بھی جاتا تھا...
"کہاں کھو گئے..."
منیر نے اُس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وہ ہوش میں آیا...
"کُچھ نہیں میں مکمل معلومات کرکے اِس غفران پر ہاتھ ڈالتا ہوں تمام ثبوتوں کے ساتھ..."
"ہممم.." منیر نے ہنکارا بھرا....

_________________________________________

"حال.."

"کیسی ہو میری جان..."
شائنہ نے منتہٰی کے بال سنوارتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا...
"ویسی ہی ہوں جیسا حال آپکے بھائی نے کیا ہے میرا..."
وُہ نفرت بھرے انداز میں بولی اُسے غفران سے جڑے ہر رشتے سے بیزاری اور نفرت سی ہورہی تھی وُہ جانتی تھی شائنہ اُس کے ساتھ کتنی مخلص ہے مگر پھر بھی وہ تلخ ہورہی تھی...
"میری شہزادی میری بچے اپنی آپی کو معاف کردو میں وہاں نہیں تھی جب وُہ..."
"آپ کہیں بھی تو نہیں تھیں آپی جب جب اُس اِنسان نے مُجھ پر ہاتھ اُٹھایا آپ کبھی بھی تو نہیں تھیں بعد میں آپکو جھوٹی ہمدردی میرے زخموں کو مندمل نہیں کرسکتی وُہ مزید جلاتی ہیں مُجھے مُجھے نہیں برداشت کہ کوئی میرے حال پر ترس کھائے "ہائے بیچاری" شائنہ کر مُجھے اِس دُنیا میں بلکل اکیلا ہونے کا احساس کروائے میرے بھائی ہوتے ناں تو یہ ہوتا ہی نہیں اللہ نے مُجھ سے میرے دونوں بھائی چھین لیے اور جو رہ گئے ہیں وُہ ٹھہرے زن مرید اللہ کبھی کسی کی بھی لڑکی کو اتنا بے بس اور اکیلا نا کرے کوئی نہیں ہے میرے پاس میرے ساتھ میرے باپ نے مُجھے سر سے اُتار کر ایک بار پلٹ کر بھی نہیں پوچھا زندہ ہوں یا مرگئی...."
اُسکی آواز میں کرب ہی کرب تھا...
"چاچا روز مُجھے کال کرتے ہیں تمہارے پوچھنے کے لئے..."
"بیٹی میں ہوں یا آپ..؟"
وُہ ترکی بہ ترکی بولی...
"میری کیا غلطی ہے ماہی میں نے کبھی نہیں چاہا تُم اتنی تکلیف میں رہو کبھی بھی نہیں..."
شائنہ رونے کے در پر تھی..
"آپ اُس اِنسان کی بہن ہیں یہ ہے آپکی غلطی میں اُس سے اتنی نفرت کرتی ہیں اتنی نفرت کہ اُس سے جڑے ہر رشتے سے مُجھے نفرت ہوگئی ہے نفرت کیا کیا آپکی ماں نے یہ سب اُسی عورت کی وجہ سے ہوا ہے وُہ فسادی عورت آپکی بہن کتے کی بچی آپکا پورا گھر كنجر خانہ جانور رہتے ہیں اُس گھر میں جانور چلی جائیں میرے سامنے سے میں اتنے سخت اور گندے لفظ بولوں گی کہ آپ سُن نہیں سکیں گی چلی جائیں دفع جائیں دفع ہوجائیں..."
زور زور سے بولتے ہوئے بلآخر وُہ بے بسی سے روپڑی...
"ایسے مت بولوں چندا وُہ تمہارے تایا کا گھر ہے.."
"جو جاچکے ہیں اِس دُنیا سے اب میرا اُس گھر میں کوئی اپنا نہیں میں اِس دُنیا میں اتنی ہی تنہا اور لاچار ہوں جتنا کہ ایک یتیم بلکہ شاید میں تو اُس سے بھی گئی گزری ہوں چلی جائیں چلی جائیں آپی چلی جائیں چلی جائیں..."
وُہ روتے روتے شائنہ کے ہی گلے لگ گئی شائنہ نے بھی اُسے دور نہیں کیا بلکہ مزید خود میں بھینچ لیا وُہ جانتی تھی کہ منتہٰی کو اُسکی بہت ضرورت ہے ....
"آپی میرا بچہ مرگیا میرا بچہ..."
وُہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی....
"میرا بچہ مار دیا اُس جانور نے مار دیا..."
اُسکی اب ھچکیاں بندھے لگی تھیں...
"چندا میری جان سنبھالو خود کو سنبھالو..."
وُہ اُس کا چہرہ دیوانہ وار چومتے ہوئے خود بھی رو رہی تھی...
"ہر چیز پر صبر آگیا مگر اِس پر نہیں آپی وُہ دنیا میں آنے سے پہلے چلا گیا صرف اُس جانور کی وجہ سے میں کبھی معاف نہیں کروں گی اُسے کبھی بھی نہیں مرتے دم تک نہیں..."
"نہیں کرنا معاف کبھی مت کرنا بچے بس آپی سے ناراض نہیں ہونا کبھی میں بہت چاہتی ہوں تُمہیں بہت..."
شائنہ نے اُس کے دونوں گال چومتے ہوئے کہا...
"پانی پیو.."
شائنہ نے گلاس اُس کے منہ سے لگاتے ہوئے کہا مگر منتہٰی کی نظریں تو دروازے پر کھڑے شخص پر ٹکی تھیں...
شائنہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عماد کھڑا تھا اُس کی نظریں منتہٰی پر تھیں...
منتہٰی کی آنکھوں میں شناسائی کے رنگ اُبھرے بڑی بے یقین نظروں سے وُہ اُسے دیکھ رہی تھی شائنہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی عماد تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا منتہٰی کے ساتھ آکر بیٹھ گیا....
"یہ کیا حال ہوگیا ہے میری گڑیا کا ماہی میری چوہیا.."
عماد آنکھیں بے اختیار بھر آئیں...
"عم.. عم.. عمی بھائی"
بے یقینی کے عالم میں اُسکی زبان لڑکھڑانے لگی تھی...
"ہاں میں عمی بھائی تمہارا..."
اُس نے بے اختیار ہوکر منتہٰی کو گلے سے لگا لیا...
"بھائی یہ آپ ہی ہیں...؟"
اُسے اب تک یقین نا آیا تھا...
عماد نے کوئی بھی جواب دیے بغیر اُسے مزید سختی سے بھینچ لیا...
"عمی بھائی..."
یہ چاہت یہ محبت یہ شفقت بھرا انداز انہی کو تو ترسی ہوئی تھی منیر کے جنازے کے سامنے اسی حصار میں لے کر اُس نے منتہٰی کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اُس کا ایک اور بھائی ہے جو ہمیشہ اُسکے ساتھ رہے گا مگر ایک دِن وُہ بھی چلا گیا آج اُسی حصار میں واپس آکر اُسے وہی احساس ہوا جو اُسے اپنے مانی بھائی کے گلے لگ کر ہوتا تھا....
"عمی بھائی کہاں چلے گئے تھے آپ دیکھیں میرے ساتھ کیا ہوگیا میں برباد ہوگئی ہوں بھائی میں تباہ ہوگئی ہوں..."
اُس کی ہر دہائی پر عماد کی آنکھیں مزید بھر آتیں...
"معاف کردو مُجھے میں تمہیں نہیں بچا سکا مُجھے معاف کردو.."
وُہ بچوں کی طرح رو رہا تھا...
"آپکو پتا ہے میرے ساتھ کیا کیا ہوا ہے.."
وُہ ھچکیوں کے درمیان بولی....
"جانتا ہوں سب جانتا ہوں میری جان بیٹا اپنے بھائی کو معاف کردو معاف کردو..."
وُہ اُس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولا اور محبت سے اُس کی پیشانی چوم لی...
"اب آپ آگئے ہیں اب سب ٹھیک ہوجائے گا مُجھے نہیں رہنا اُس کے ساتھ بھائی آپ مُجھے اپنے ساتھ لے جائیں میں اُس گھر میں واپس نہیں جاؤں گی اپنے ساتھ لے جائیں میں اب اکیلی نہیں ہیں آپ آگئے ہیں اب سب ٹھیک ہوجائے گا اللہ تیرا شُکر ۔۔۔"
منتہٰی نے منیر کی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا ایک پُختہ یقین تھا اُس کے لہجے میں کہ ہاں اب وُہ اکیلی نہیں ہے وُہ چیخ چیخ کر کہہ سکتی ہے وُہ اکیلی نہیں ہے اُس کا بھائی ہے اُس کا محافظ اُس کا محرم جس کے سائے میں اُسے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں...
"کس نے کہا تُم اکیلی ہو میں ہوں ماہی چاہے کُچھ بھی ہوجائے کُچھ بھی میں تمہیں خود سے دور نہیں کروں گا تُم میری ذمے داری ہو کہا تھا میں نے تمہارا ایک بھائی گیا تھا دوسرا ہے مُجھے مانی کی جگہ سمجھتی ہو تُم میں کیسے تُمہیں چھوڑ سکتا ہوں ہاں..."
عماد نے اُس کا بھیگا چہرہ اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے کہا بکھرے بال سنوارے...
"اب سب ٹھیک ہوجائے گا مُجھ پر یقین ہے ناں اب کُچھ نہیں ہونے دوں گا میں اپنی چوہیا کو..."
وُہ دونوں روتے ہوئے ایک دم ہنسنے لگی....
"دیکھیں آپ آئے میری ہنسی بھی واپس آگئی بھائی.."
وُہ مسکرا کر بولی...
"میرا بچہ اِدھر آؤ..."
عماد نے اُسے ہنستا دیکھ کر دوبارہ اپنے سینے سے لگا لیا...
"اب تمہیں صرف ہنسنا اور جس جس نے تمہیں رُلایا ہے اُنہیں اب رونا ہے ہر اُس اِنسان میں بدلہ لوں گا جس نے تُمہیں رُلایا ہے میں نہیں چھوڑوں گا کسی کو بھی بس اب بے فکر ہوجا بلکل تیرا بھائی ہے تیرے سر پر..."
"کتنا سکون ہے بھائی آپکے حصار میں تحفظ کا احساس میں یہی چاہتی تھی کہ کوئی ہو ایسا جو کہے بے فکر ہوجا منتہٰی میں ہوں "میں ہوں.." اور آپ ہیں "آپ ہیں..."
اُسکے انداز میں مان تھا یقین تھا ایک غرور تھا..
"بس تُم جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ پھر میرے ساتھ گھر چلنا اپنے..."
وُہ متانت سے کہتا ہوا اُس کا سر اپنے کندھے سے ٹکا کر بیٹھ گیا اور دھیرے دھیرے اُس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگا...
"آپ چلے کہاں گئے تھے عمی بھائی.."
"لمبی کہانی ہے بعد میں بتاؤں گا بس اتنا جان لو میں چاہتے ہوئے بھی تمہارے پاس نہیں آسکتا تھا ورنہ کب کا آگیا ہوتا..."
"اب تو تمہارا بھائی آگیا ہے مُجھے بھول ہی گئی ویسے بھی مُجھے دفع ہوجانے کا کہہ رہی تھی.."
شائنہ جو کب سے چُپ کھڑی اُن دونوں کی محبت دیکھ رہی تھی مسکراتے ہوئے منتہٰی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پُر شکوہ انداز میں بولی...
"آپی وُہ میں نے بس۔۔۔"
منتہٰی جی بھر کر شرمندہ ہوئی...
"مذاق کر رہی تھی یار..."
شائنہ نے اُس کی ناک دبہ کر کہا تو وہ ہنس دی...
"اللہ یہ مسکراہٹ ہمیشہ قائم رکھے آمین..."
وُہ صدقِ دل میں بولی...
"آمین ثم آمین..."
عماد نے کہا..
"آپکو حیرانی نہیں ہوئی بھائی کو دیکھ کر.."
منتہٰی نے حیرت سے پوچھا...
"نہیں کیونکہ میں مِل چُکی ہیں اِن سے پہلے..."
شائنہ عماد کی طرف دیکھتے ہوئے بولی وہ مسکرا رہا تھا...
"آپ نے مُجھے بتایا نہیں.."
"ابھی تین گھنٹے پہلے تو ملی ہوں اللہ کی بندی.."
شائنہ جلدی سے ہولی...
"اب تُم کیا چاہتی ہو "طلاق" مگر کیا وہ اتنی آسانی سے دے گا..."
شائنہ نے گہری سانس لے کر کہا...
"میں دیکھتا ہوں ناں کیسے طلاق نہیں دے گا.." عماد تنفر سے بولا۔۔۔
منتہٰی کُچھ دیر چُپ رہی پھر گہری سانس لے کر بولی۔۔۔
"غفران کیساتھ میں کتنی مخلص رہی ہوں یہ میں جانتی ہوں وُہ میری زندگی میں دندناتا ہوا گھسا چلا آیا جس شخص کی اپنی طرف نظر تک برداشت نہیں کرسکتی تھی میں نا چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنے وجود کا استحصال اُسے کرنے دیا مگر بالجبر بالرضا نہیں اُس نے مُجھے کبھی اِنسان نہیں سمجھا کہتا ہے اُسے مُجھ سے محبت ہے کیا یہ محبت ہے جس کے نشانات میرے وجود کو درد تکلیف کے سوا کچھ نہیں دیتے آپ پوچھتی ہیں میں کیا چاہتی ہوں تو سنیں میں چاہتی ہوں اُس حرام کے تخم کو مہاوٹ کی بارشوں میں مادر زاد برہنہ گھمایا جائے ہنٹروں سے اُس کی ستائی کی جائے جسم کا کوئی حصہ باقی نہ رہے جہاں نشان نہ ہو ہر جگہ ہر جگہ وہاں بھی "وہاں بھی" تاکہ مردانگی کا بھرم باقی نہ رہے جس کی تسکین کے لیے یہ مرد ذات صدیوں سے عورتوں کا استحصال کرتی آرہی ہے میرے ساتھ اتنا سب کرنے کے بعد بھی وُہ اس بات پر مصر ہے کہ میں اُسکی عزت کرتی رہوں اسے فرشتہ گردانتی رہوں اُس سے محبت کروں کیا
اپنی روح کے قاتل سے محبت یا ہمدردی ہوسکتی ہے سب کو معاف کیا جاسکتا ہے آپی مگر اسکو نہیں جس نے بڑے کمزور لمحوں میں روح پر بڑی کاری ضربیں لگائی ہوں ہرگز نہیں بلکل نہیں ایسے انسان کی یہی سزا ہے کہ وہ اس قدر جھلا جائے کہ اب اُس کی محبت کا مصنوعی خول اتر ہی جائے اور وہ چوٹ کھائے کتے کی طرح سب پر بھونکتا پھرے...."
منتہٰی کی آنکھوں سے نفرت عیاں تھی اتنی اُس کے لفظوں میں حقارت ہی حقارت تھی....
"ماہی..."
شائنہ کو لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی یہ وُہ منتہٰی تھی ہی نہیں جسے وُہ جانتی تھی۔۔۔
"بس بس ماہی بس میں ہر چیز کا حساب لوں گا اُس سے..."
عماد نے اُسے دوبارہ خود سے لگاتے ہوئے کہا اور اُس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگا....
شائنہ اب تک عالم حیرت میں تھی..
"مت دیکھیں ایسے مُجھے آپی یہ مت بھولیں سادہ طبیعت لوگوں کا جب بے طرح استحصال کیا جاتا ہے تو انکی سادگی بعض اوقات بڑی خوفناک انداز میں پلٹا کھاتی ہے اور وہ نہایت خطرناک ہوجاتے ہیں..."
اُس کا لہجہ کسی بھی قسم کی رعایت سے عاری تھا...
"ٹھیک کہہ رہی ہے بلکل ماہی...."
عماد کو شائنہ کا یوں حیرت سے دیکھنا عجیب لگا...
"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہے..."
شائنہ نے فوراً خود کو کمپوز کیا...

_________________________________________

"تُم دونوں اوپر چلو میں کار پارک کرکے آتا ہوں.."
زیان نے سمیر اور دُعا سے کہا...
وُہ لوگ غفران کے گھر گئے تو وہاں سے پتا چلا منتہٰی ہاسپٹل میں ہیں تو وُہ لوگ سیدھا ہاسپٹل پہنچے...
"ٹھیک ہے.."
سمیر نے کہا اور دُعا کے ساتھ آگے بڑھ گیا....
وُہ گاڑی پارک کرکے نکل ہی رہا تھا دوسری طرف سے اندھا دھند بھاگتے ہوئے آتے شخص سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں سامنے سے آنے والا شخص منہ کے بل زمین پر جا گرا...
"آئی ایم ایکسٹریملی سوری.."
اپنی غلطی نا ہوتے ہوئی بھی زیان نے فوراً معذرت کی اور ہاتھ آگے بڑھایا اٹھنے میں مدد کے لئے...
"دیکھ کر چلا کر.."
غفران نے اُس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا اور خود اُٹھ کھڑا ہوا....
" میں نے سوری بول دیا ہے اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میری غلطی ہے آپ اندھوں کی طرح بھاگتے چلے آرہے ہیں اور اب آگے سے اکڑ دکھا رہے ہیں..."
زیان نے بگڑ کر کہا...
"اب تو مجھے بتائے گا کہ کس کی غلطی ہے ہاں.."
غفران کے ہاتھ زیان کے گریبان پر تھے اُسے منتہٰی کی طرف سے الگ پریشانی تھی تھوڑی دیر پہلے عماد کے بھاگ جانے کی خبر نے اُسے حواس باختہ کردیا تھا...
"ہاتھ ہٹا کر بات کر تمیز سے پیش آرہا ہوں اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مُجھے بدتمیزی نہیں آتی سمجھ آئی پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں.."
زیان نے اُسے پیچھے کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا...
"تیری اتنی ہمت.."
غفران نے اُس کے منہ پر گھونسا مارنا چاہا جسے زیان نے درمیان میں ہی تھام لیا اور پاؤں ذرا اوپر کرکے ٹخنے سے اُس کے پیٹ پر وار کیا...
غفران نے پلٹ کر زوردار لات زیان کے سینے پر ماری جس سے وہ نیچے گر گیا مگر اُٹھ کر دوبارہ مارتا ہی کہ کُچھ لوگ بھاگ کر آئے بیچ بچاؤ کروایا...
"تُجھے تو میں دیکھ لوں گا.."
غفران نے خود کو لوگوں کی پکڑ سے آزاد کرواتے ہوئے کہا...
"ہاں چل دفع ہو یہاں سے آیا بڑا دیکھ لے گا بہت دیکھے تیرے جیسے.."
زیان بھی چُپ نہ رہا مگر غفران نا چاہتے ہوئے بھی نظرانداز کرکے آگے بڑھ گیا..
زیان لوگوں سے نپٹ کر لفٹ تک پہنچا تو دونوں ہے بزی تھی...
"سیڑھیوں سے چلا جاتا ہوں..."
اُس نے خود سے کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا منتہٰی کا روم چودھویں فلور پر تھا...

_________________________________________

"ماہی.."
دُعا نے دروازے پر کھڑے بے یقین نظروں سے اُسے دیکھا سر سے پیر تک پٹیوں میں جکڑی بے حد کمزور چہرے کا رنگ خطرناک حد تک زرد ہورہا تھا...
"دُعا تُم..."
منتہٰی کو اپنی نظروں پر یقین نہ آیا..
"یہ کیا ہوگیا ہے آپکو منتہٰی..."
سمیر نے متحیر ہوکر کہا...
"آپ دونوں...؟"
عماد نے پوچھا...
"بھائی میرے دوست ہیں..."
"میری جان کیا حال بنا لیا ہے خود کا.."
دُعا نے سر تاپا اُسے دیکھا عماد منتہٰی کے برابر سے اُٹھ گیا...
"یقیناً یہ سب اُسی جانور نے کیا ہوگا ہاں وہی ہے کتا منع کیا تھا تمہیں کتنا منع کیا تھا مگر تُم نے نہیں سنی کسی کی بھی..."
"کون جانور..."
عقب میں سے اُبھرنے والی آواز منتہٰی ہزاروں میں بھی پہچان سکتی تھی وُہ وہی بیداد گر تھا اپنی سرد آنکھیں اور سرد لہجہ لیے...
سب کے چہرے پر نفرت کے سائے آ ٹھہرے...
"دور رہ قریب جانے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ تیرا وُہ حشر کروں گا کہ رہتی زندگی تک یاد رکھے گا کتے..."
عماد نے اُسے آگے بڑھنے سے روکتے ہوئے کہا...
"مُجھے پتا تھا تُو یہیں آئے گا حرامزادے.."
غفران نے اُسے دھکا دینا چاہا مگر ناکام رہا...
"تُجھ سے ایک ایک چیز کا حساب لوں گا میں اپنی بہن کے ہر آنسو کا میری ماں کی موت کا میرے بچے کی موت کا میری بیوی کی ہر تکلیف کا میرے دوست میرے..."
"دفع ہو ادھر سے یہ میری بیوی ہے کوئی بھی مُجھے اِس سے ملنے سے روک نہیں سکتا.."
غفران نے قصداً اُسے عین وقت پر بولنے سے روکا کیونکہ وہ جانتا تھا منتہٰی کو اگر منیر کی موت کا سچ پتا چل گیا تو وُہ اُسے ہمیشہ کے لیے کھو دے گا....
"میں روکوں گا ہمت ہے تو مُجھے روک کر دکھا تُو اور کونسا رشتہ تیری کہانی ختم میری بہن کا تیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جو ہے ابھی ختم ہوجائے گا طلاق دے ابھی کے ابھی ورنہ تیری جان لے لوں گا میں سور کی نسل .."
"تیرے خوابوں میں.."
غفران نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹانے چاہے مگر گرفت سخت تھی...
"طلاق دے ماہی کو ابھی کے ابھی میری سامنے بہت ہوگئی تیری من مانی یہ بات اب تیرے ذہن میں رہے میں آگیا ہوں اور اب میں اپنی بہن کو تیرے ساتھ کسی بھی رشتے میں بندھے نہیں رہنے دوں گا..."
عماد نے اُس کے گریبان پر گرفت سخت کرتے ہوئے شدید غصّے سے کہا...
"مُجھے طلاق دو غفران مُجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ چھوڑ دو مجھے تُمہیں خُدا کا واسطہ ہے.."
منتہٰی نے بھی زہر خنداں کہا...
"کبھی نہیں کبھی بھی نہیں..."
"مُجھے طلاق دو غفران..."
منتہٰی پوری شدت سے چلائی عماد،شائنہ سمیت دعا اور سمیر سب متحیر سے منتہٰی کو دیکھتے رہ گئے ...
"زیان کو روکو سمیر اُسے اُوپر نہیں آنا چاہیے ابھی.."
دُعا نے سمیر سے کہا جو مسلسل زیان کا نمبر ٹرائی کر رہا تھا مگر وُہ اُٹھا نہیں رہا تھا...
"نہیں میری جان کبھی نہیں..."
غفران نے ایک جھٹکے سے خود کو عماد سے چھڑوایا اور اُس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر تیز تیز سانسیں لیتے ہوئے بولا...
"دور ہٹ میری بہن سے.."
عماد جارحانہ تیور لیے اُس کی طرف بڑھا..
" عمی بھائی مُجھے بات کرنے دیں..."
"نہیں ماہی ہرگز نہیں۔۔"
"یہ کُچھ نہیں کرسکتا اب کیونکہ آپ یہیں ہیں بس مُجھے بات کرنے دیں اِس سے.."
منتہٰی دوبارہ اُسکی طرف متوجہ ہوئی...
"طلاق دو مُجھے..."
وُہ دوبارہ چیخی
"نہیں نہیں.."
غفران نے اُس کا چہرہ مزید سختی سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔
"طلاق دو.."
"نہیں کبھی نہیں ہرگز نہیں..."
طلاق دو.."
"موت ہے میرے لیے.."
"تُو مرجاؤ..."
وُہ سفاکی سے بولی...
"اتنی جلدی نہیں مُجھے جینا ہے تمہارے ساتھ..".
"مگر مُجھے تمہارے ساتھ نہیں جینا..."
"میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا..."
"چھوڑنا تو ہوگا تمہیں اب میں تمہارے ساتھ کسی قیمت پر نہیں رہوں گی مُجھے طلاق دو ورنہ میں خلاع لے لوں گی.."
"ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی میں تمہیں مار دوں گا اور پھر خود کو مگر خود سے الگ کبھی نہیں ہونے دوں گا تُم میرے جینے کی وجہ ہو منتہٰی..."
غفران کی حالت عجیب ہونے لگی تھی آنکھیں شدید سُرخ ہورہی تھیں...
"تین لفظ کہہ کر آزاد کرو مُجھے اِس اذیت سے تُمہیں تمہاری ہی محبت کا واسطہ..."
وُہ اب بے بسی سے بولی ہاتھ غفران کے چہرے پر تھا جہاں اُس نے خود نشان لگایا تھا اپنے ناخن سے سوکھے زخم کو کھرچنے لگی...
"مُجھے طلاق دو کیسے مرد ہو تُم ایک عورت اپنے منہ سے تُم سے طلاق مانگ رہی ہے اور تُم اُسے اپنے ساتھ زبردستی رکھنے پر بضد ہو لعنت ہے تُم پر مرد بنو غفران طلاق دو مُجھے.."
وُہ دونوں تیز تیز سانسیں لے رہے تھے...
"جو عورت مُجھ سے طلاق مانگ رہی ہے وُہ میری زندگی ہے وُہ میری جان ہے وُہ میرا سب کُچھ ہے میرے ہنسنے کی وجہ میرے رونے کی وجہ میری سانس لینے کی وجہ تُم بتاؤ کیسے چھوڑ دوں میں اُسے کیسے کیسے چھوڑ دوں نہیں نہیں نہیں نہیں کبھی نہیں ہرگز نہیں ناممکن بلکل نا ممکن.."
اُس نے یکدم منتہٰی کو چھوڑا اور بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا کمرہ تہس نہس کرنے لگا...
" نہیں نہیں نہیں نہیں.." بس ایک ہی لفظ وُہ بار بار بول رہا تھا وہاں موجود ہر شخص سہم گیا تھا اُس کا یہ پاگل پن دیکھ کر سوائے منتہٰی کے کیونکہ وُہ اچھی طرح اُسکے جنون سے واقف تھی...
"مگر وُہ عورت تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی.."
وُہ دوگنی شدت سے چیخی..
"مگر یہ شوہر اپنی بیوی کو نہیں چھوڑے گا اچھی طرح جان لو یہ بات "سدرۃ المنتہٰی"۔۔"
غفران نے دوبارہ اُس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اٹل لہجے میں کہا منتہٰی حقیقی معنی میں اب خوفزدہ ہوئی تھی اُسے غفران کی آنکھوں سے خوف محسوس ہونے لگا اُن آنکھوں میں آگ تھی سب جلا دینے والی آگ وُہ جان گئی تھی یہ سب کتنا نا ممکن ہے کیونکہ محبت سے دستبردار ہوا جاسکتا ہے جنون سے نہیں اور جنون بھی غفران کا جو انتہا کا انتہا پسند تھا..
"غفران میں تُم سے نفرت کرتی ہوں شدید ترین نفرت ہے میرا بلا سے تُم کل کے مرتے آج اور ابھی مرجاؤ کسی اور کی آئی ہوئی تُمہیں آجائے مرجاؤ مرجاؤ.."
منتہٰی روتے ہوئے چیخ رہی تھی...
"نہیں نہیں تُم اتنی نفرت نہیں کرسکتی مُجھ سے میرا سانس لینا مشکل ہوجائے گا جاناں نہیں جاناں مُجھے یوں نا ماروں بہت چاہتا ہوں میں تُمہیں بدلے میں اتنی نفرت تو مت دو مُجھے تم کبھی نہیں سمجھ سکتی تُم میرے لیے کیا ہو..."
آنسو ہاں آنسو ہی تھی غفران کی آنکھوں میں شائنہ حیران رہ گئی تھی کیا یہ اُس کا وہی جلاد بھائی ہے...
"اب ایک منٹ تُو یہاں نہیں ٹھہرے گا ایک منٹ..."
عماد نے اُس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارتے ہوئے کہا اور پھر پے در پے مارتا چلا گیا مارتا چلا گیا یہاں تک کہ اُس کا منہ لہو لہان ہوگیا مگر وُہ اپنی بے یقین نظریں منتہٰی پر جمائے ہوئے تھا کوئی مزاحمت نہیں کی کی بس ایک ہلکی سی گردان کر رہا تھا جو صرف اُسے خود سنائی دے رہی...
"تُم مُجھ سے اتنی نفرت نہیں کرسکتی نہیں جاناں نہیں..."
شائنہ نے ہے آگے بڑھ کر عماد کو روکا اور پیچھے کیا غفران کی حالت دیکھ کر اُس کا دل بھر آیا وُہ جیسا بھی تھا اُس کا خون تھا سگا بھائی..
غفران کی حالت بگڑنے لگی تھی سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی ہاتھ اور پیر پیچھے کو مڑنے لگے تھے آنکھیں اوپر چڑھ گئی تھیں...
"تُم مُجھ سے اتنی نفرت نہیں کرسکتی نہیں جاناں نہیں..."
وُہ ابھی بھی یہی کہہ رہا تھا...
"میں تُم سے اتنی نفرت کرتی ہوں کہ تمہارے جسم سے بہتا خون مُجھے اپنے زخموں پر مرہم محسوس ہو رہا ہے مُجھے اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہو رہا ہے مگر یہ اتنا کم کیوں بہہ رہا ہے تُم تو اِس لائق ہو تُمہیں کند چُھری سے دس بار ذبح کیا جائے دس بار اور وہ چھُری اتنی کند ہی ایک موت بھی تُمہیں صدیوں میں ملے صدیوں میں..."

(جاری ہے)

Avoid nice next comment give complete review if you want remaining last 3 episodes of season 1 complete means complete review be careful 😎😎😎

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro