قسط نمبر ۲۵
#بچھڑے_سفر_میں
(season 1)
قسط نمبر ۲۵
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"چلو یہاں سے میرے ساتھ.."
عماد نے شائنہ کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ لے جاتے ہوئے کہا..
وُہ بے یقینی کی کیفیت میں اُسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی یکدم کُچھ یاد آیا اور اُس کے قدم رُک گئے...
"کیا ہوا شانو رُک کیوں گئی..."
اُس نے حیرت سے پوچھا...
"عماد منتہٰی..."
بس وُہ اتنا ہی کہہ سکی اور رونے لگی...
"ماہی..؟ ہماری ماہی...؟"
اُس نے تصدیق کرنی چاہی شائنہ نے اثبات میں سر ہلایا...
"کیا ہوا ہے اُسے۔۔"
عماد نے دھیمے لہجے میں پوچھا....
"آپ چلیں میرے ساتھ..."
شائنہ عماد کا ہاتھ پکڑ کر اُسے ہاسپٹل عُقبی حصے پر بنے پارک میں لے آئی وُہ دونوں بینچ پر بیٹھ گئے...
"کیا ہوا ہے شانو سچ سچ بتاؤ اور تُم ہاسپٹل میں کیا کر رہی ہو؟ ماہی کو کیا ہوا ہے...؟"
اُس نے ایک ساتھ کئی سوال کرلیے...
غفران اور ماہی کی شادی ہوچکی ہے۔۔۔"
"یہ تُم کیا کہہ رہی ہو..."
باعث حیرت اور غم کے وُہ بس اتنا ہی کہہ سکا...
"ہاں..." شائنہ نے افسوس کے ساتھ کہا...
"مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے سب جانتے ہوئے کہ وُہ اِنسان کیسا ہے ماہی اُس سے کیسے شادی کرسکتی ہے انکل نے کیسے غفران سے شادی ہونے دی کیا وہ نہیں جانتے کہ اُس نے ماہی کے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کی تھی پھر بھی مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آرہا یہ سب کیسے ہوگیا..."
وُہ بے بسی سے بولا اپنا ہاتھ زور سے بینچ پر مارا....
"چاچا کی کم ہمتی کی وجہ سے ہی یہ سب ہوا ہے اُنہوں نے ماہی کی زندگی برباد کردی جانتے بوجھتے اُسے دوزخ میں دھکیلا ہے اُنہوں نے میں نے بہت سمجھایا بہت مگر ماہی نے میری بات نہیں سنی اُسے چاچا نے خود کشی کرنے کی دھمکی دی تھی وُہ مجبور تھی کیا کرتی وُہ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا غفران نے اُس بچی کی زندگی عذاب بنادی ہے عذاب....."
شائنہ نے روتے روتے ساری بات اُسے بتادی۔۔۔
عماد کا غصّہ بڑھتا جارہا تھا...
"اُس نے ہمارے بچے کو بھی مار دیا عماد میری کوکھ میں ہی مار دیا تھا اُس نے ہماری بیٹی کو..."
روح فرسا انکشاف تھا جس ننّھے وجود کو اپنی گود میں لینے کی خواہش نے اُسے زندہ رہنے میں مدد دی تھی وُہ خواہش آج بری طرح ٹوٹی تھی عماد کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر کہیں گم ہوگئے....
"بیٹی ہوئی تھی..."
اُس نے چہرہ دوسری طرف کرکے کہا وُہ نہیں چاہتا تھا شائنہ اُسے روتا ہوا دیکھے مگر اُس کا دِل بری طرح تڑپ رہا تھا...
"اور امی..." وُہ نا ممکن سوال پوچھ رہا تھا جبکہ نسیمہ خاتون کی سانسیں تُو اُس نے خود نے چیک کی تھیں وُہ اُسی وقت چھوڑ کر جاچکی تھیں اُسے....
شائنہ نے متاسفانہ انداز میں نفی کی...
"آپ کیسے بچ...جبکہ اُس نے میری آنکھوں کے سامنے آپکو گولی ماری تھی ایک نہیں تین تین اور وُہ مُجھے وہاں سے گھسیٹتا ہوا لے گیا تھا...."
شائنہ نے ہلکی ہلکی سسکیاں لیتے ہوئے کہا تو عماد نے اُسے دوبارہ اپنے سینے سے لگا لیا...
"بس بس بس... میں تمہارے پاس ہوں ناں بس رو مت..."
وُہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے بولا...
"اُس نے ہمارا بچہ مار دیا عماد میں کُچھ نہیں کرسکی وُہ بلکل آپکے جیسے تھی بس اُسکی آنکھیں میرے جیسی تھیں آپ یہی چاہتے تھے ناں وُہ ہوبہو آپکا عکس تھی بلکل آپکی پرچھائی مگر جب میرے اِن ہاتھوں میں تھی وُہ بے جان تھی وُہ رو نہیں رہی تھی میں نے اُسے رُلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں روئی نہیں روئی سب چھین لیا غفران نے مجھ سے مگر میں پھر بھی مجبور تو اُسکے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے پر میں اُسے مار بھی نہیں سکتی ورنہ کب کا ختم کرچکی ہوتی اُسے مگر میں مجبور تھی منیر نے کہا تھا فرحان اُس کے پاس ہے اُس نے مرتے وقت ہم دونوں سے وعدہ لیا تھا کہ ہم اُسکے بیٹے کو کُچھ نہیں ہونے دیں گے غفران کے چنگل سے اُسے نکال لیں گے جب مُجھے لگا آپ نہیں رہے تو میں نے غفران سے کہا تھا میں اُسکے خلاف پولیس میں کمپلین کروں گی تب اُس نے اِس بات کا اعتراف کیا تھا کہ فرحان اُسکے پاس ہے مُجھے دھمکی دی تھی اگر میں نے منہ کھولا تو وُہ اُسے بھی مار دے گا..."
شائنہ نے نخوت سے کہا...
"تُم ہسپتال میں کیا کر رہی ہو ماہی یہاں ہے کیا..؟"
شائنہ نے اُسے سب بتا دیا تھا مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ منتہٰی کے اوپر آج کیا گزری ہے...
"ماہی ایڈمٹ ہے...؟
اُسے اپنی آواز بہت مدھم سنائی دی...
"کیا ہوا ہے اُسے وُہ یہاں کیوں بے...؟"
عماد تقریباً چیخا تھا...
"بہت ظلم ہوا ہے اُس پر عماد بہت میں آخری وقت میں منیر کو دیا وعدہ نہیں نبھا سکی میں اُسکی ماہی کی حفاظت نہیں کرسکی اُسے مرتے دم تک اپنی ماہی کی فکر تھی جس کی ہاتھ پر ایک خراش آنے پر وُہ تڑپ جاتا تھا آج وُہ نیلوں نیل زخمی روح ٹوٹی ہڈیوں کے ساتھ ہسپتال کے بستر پر پڑی ہے بہت ظلم ہورہاہے اُس پر عماد میں کُچھ نہیں کرسکی کُچھ نہیں اُس نے اپنا بچہ کھو دیا ہے اب وُہ کبھی ماں نہیں بن سکتی...."
منتہٰی کا خون میں سنا وجود اُسکی آنکھوں کے سامنے آ ٹھہرا آنسو روکنا محال ہوگیا...
عماد کی آنکھوں میں کرب کے سائے لہرانے لگے وُہ چاہ کر بھی اپنے کسی غم کا ماتم نہیں کرسکتا تھا منتہٰی کی حالت جو شائنہ نے بتائی تھی سن لیں ہی اُس کی روح کانپ اُٹھی تھی اُس نے کبھی نہ سوچا تھا اُسکی پھولوں جیسی ماہی یوں بے دردی سے روندی جائے گی دِل میں یک گونہ سکون محسوس ہوا کہ منیر زندہ نہیں ورنہ وہ مرجاتا بلکہ اگر وہ ہوتا تو یہ سب ہوتا ہے نہیں اُسکی جان بستی تھی ماہی میں اُسکی روح کتنی تکلیف میں ہوگی..
عماد محض سوچ ہی سکا اُسے منتہٰی کی ساری باتیں یاد آنے لگیں...
"عمی بھائی اچھی طرح سن لیں سیون کلاس میں پاس ہونے پر آپ مجھے پلے اسٹیشن 3 گفٹ کر رہے ہیں آپ نے مڈ ٹرم کے رزلٹ پر پرامس کیا تھا اب میرا فائنل رزلٹ آچکا ہے اور سیکنڈ آئی ہوں کب تک ملے گا مُجھے میرا گفٹ؟؟؟ .."
منتہٰی نے چائے کی پیالی اُسے دیتے ہوئے دھونس جما کر کہا...
"بھئی کون کافر اپنے وعدے سے مُکر رہا ہے... واہ واہ واہ جادو ہے ماہی کے ہاتھوں میں.."
وُہ چائے کی چُسکی لیتے ہوئے بولا..
"تُم ہی روز چائے بنادیا کرو یہاں آکر ماہی یہ تو ویسے ہی ندیدہ ہے..."
منیر نے اپنی پيالی اُٹھاتے ہوئے کہا...
"ہاں کہہ لے تُو کہہ بھی سکتا ہے اتنی پیاری سی بہن جو ہے تیری ہم ہے ہیں ماں باپ کے اکلوتے کوئی بہن بھائی ہی نہیں..."
عماد مصنوئی تاسف سے بولا مقصد منتہٰی کو تپانا تھا....
"اچھا ویسے تو بہت بولتے ماہی میری گڑیا،ماہی میری شہزادی،میری بہنا،میری سہیلی اب کہہ رہے ہیں کوئی بہن ہے نہیں جائیں میں بات نہیں کرتی آپ سے ایسا تھوڑی ہوتا ہے..."
عماد کا مذاق اُسی کو مہنگا پڑ گیا وُہ منہ پھلا کر منیر کے کندھے میں منہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی...
"میں تو مذاق کر رہا تھا پرنسز تُم تو بُرا ہی مان گئی..."
عماد کو قطعی اتنے شدید رویے کی اُمید نہ تھی مگر اُسے منانا بھی تھا آخر کو وُہ ماہی تھی جتنی منیر کو عزیز اُتنی ہی اُسے بھی گود میں کھلایا تھا اُسے بس کہنے کو کوئی خونی رشتہ نہ تھا مگر وُہ اُس کی دودھ شریف بہن تھی منتہٰی نسیمہ خاتون کو بہت عزیز تھی کیونکہ اُن کی کوئی بیٹی نہیں تھی اور منتہٰی کی پیدائش کے وقت کُچھ حالات بھی ایسے ہوئے کہ نفیسہ بی بی اُسے فوراً فیڈ نہ کروا سکیں تو نسیمہ خاتون نے اُسے دودھ پلایا بڑا ہی حسین اتفاق تھا منیر اور منتہٰی دونوں سے اُن کا دودھ کا رشتہ تھا...
"مناؤ اب تُم میری بچی کو ناراض کردیا تُم نے بات مت کرنا ماہی اِس سے اب.."
منیر نے آگ میں گھی کا کام کیا جس پر عماد نے اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا...
"ہٹ اِدھر سے..."
عماد نے منیر کو تقریباً دھکا دیتے ہوئے صوفے سے کھڑا کیا اور منتہٰی کے برابر میں جا بیٹھا جبکہ منیر اُسکی کمر پر مکا جڑتے ہوئے دوسرے صوفے پر جا بیٹھا اور دلچسپی سے اُن دونوں کو دیکھنے لگا...
"کوئی بہت ناراض ہے..."
وُہ اُس کی کندھے پر اپنی تھوڑی رکھتے ہوئے بولا تو منتہٰی نے جھٹکے سے دور ہوئی...
"مُجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی..."
وُہ ناراض لہجے میں بولی....
"چلو بات نہیں کرو میری سن تو سکتی ہو ناں..."
عماد نے شرارت سے کہا حسبِ توقع اگلے ہی پل منتہٰی نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے...
"میں آپکو سننا بھی نہیں چاہتی بہت بہت ناراض ہوں میں.."
اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اُسے ڈرانے کی کوشش کرتے ہوئے عماد کو بہت معصوم لگی...
عماد نے ایک نظر منیر کو دیکھا جو اب چائے کے ساتھ بسکٹ سے انصاف کرتے ہوئے گویا کوئی مووی دیکھ رہا تھا....
"معاف کردو ناں ماہی.."
وُہ بے بسی سے بولا...
"مُجھے کُچھ سنائی نہیں دے رہا..."
منتہٰی زور زور سے بولی یقین دلانے کے لیے کہ واقعی اُسے کُچھ سنائی نہیں دے رہا...
"ٹھیک ہے اب وُہ جو اندر میری الماری کے سیکنڈ شیلف کے نیچے پلے اسٹیشن 3 رکھا ہوا ہے وُہ کسی اور کو دے دوں گا میری ماہی تو مُجھ سے بہت ناراض ہے بات تک نہیں کر رہی سن تک نہیں رہی..."
وُہ منہ اُسکے کان کے قریب لے جاکر آہستہ سے بولا...
"کیا آپ پلے اسٹیشن لے آئے ہیں کیوں کسی اور کو دیں وُہ تو میرا ہے صرف..."
وُہ اُسکی طرف چہرہ کرتے ہوئے خوشی سے تقریباً چیخ اُٹھی تھی...
"تُمہیں سنائی دے رہا تھا چچ چچ چچ اب تو میں نے بتا بھی دیا کہ وُہ میری الماری کے سیکنڈ شیلف کے نیچے رکھا ہے اب تو یہ چوہیا وہاں گھس جائے گا ہائے میرے پیسے گئے ماہی تو مُجھ سے ناراض ہے..."
وُہ مصنوئی تاسف سے بولا...
"نہیں میں کوئی ناراض نہیں آپ بہت بہت اچھے ہیں عمی بھائی لو یو سو سو مچ..."
وُہ تیز تیز بولتے ہوئے اُسکی گلے لگ گئی خوشی حد سے سوا تھی....
"میری چوہیا.."
عماد نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے کہا...
"چلو جاؤ شاباش اپنا گفٹ لے لو ایک ہفتے سے رکھا ہوا تھا کیونکہ مُجھے پتا تھا میری چوہیا ضرور پوزیش لائے گی اسی لیے پہلے سے لے کر رکھا ہوا تھا.."
وُہ منتہٰی کے بال کا گال تھپتھپاتے ہوئے مسکرا کر بولا...
"تھینک یو.."
"اے چُپ چوہیا اب میں ناراض ہوجاؤں گا اگر تھینک یو شينک یو بولا..."
وُہ آنکھیں دکھا کر بولا ...
"نہیں بولتی۔۔۔" اتنا کہہ کر وُہ اُس کے کمرے کی طرف بھاگ گئی.....
"واہ جی مان گئے تُجھے..."
منیر نے مرعوب ہوجانے پر انداز میں کہا...
"مت بھولا کر وُہ میری بھی بہن ہے تیری محبت اپنی جگہ میری اپنی..."
عماد نے بسکٹ اُٹھاتے ہوئے کہا.....
............................................
"مُجھے ماہی سے ملنا ہے شانو مانی چلا گیا تو کیا ہوا میں تو ہوں ناں بس اب اور تکلیف میں نہیں رہنے دوں گا اُسے میں..."
وُہ ہتھیلی سے اپنی آنکھیں رگڑ کر صاف کرتا ہوا بولا....
"وہاں غفران بھی ہے عماد..."
"میں اُس سے نہیں ڈرتا بہت بدلے لینے ہیں اُس سے میں نے بہت میری دونوں ماؤں کا میری اولاد کا میرے بھائی کا میری بھابھی کا میری بہن کا تمہارا ہر چیز کا حساب دینا ہوگا اُسے اب وُہ نہیں بچے گا بہت ہوگیا بس اب اور نہیں..."
اُسکی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے غصّے کے مارے بُرا حال تھا....
"عماد ابھی نہیں ہوش سے کام لیں ابھی اِس حالت میں نہیں ہیں کہ اُس کا سامنہ کرسکیں کُچھ دِن رُک جائیں بس میں ماہی کا پورا خیال رکھوں گی غفران کُچھ نہیں کرسکے اِس بار اُسے بس کُچھ دِن رُک جائیں پلیز میری خاطر..."
وُہ اُس کا بازو پکڑ کر ملتجی انداز میں بولی....
"ٹھیک ہے..." یہ وہی جانتا تھا اُس نے یہ دو لفظ کیسے کہے تھے...
"آپ کہاں رہیں گے؟؟؟ گھر مت جائیے گا غفران کو جب پتا چلے گا سب سے پہلے آپکو وہی ڈھونڈے گا.."
وُہ خوف زدہ تھی کہیں پھر سے اُسے کھو نہ دے...
"شانو ڈرنا مت میں کہیں نہیں جاؤں گا بس ایک دو دِن دے دو میں کچھ کرتا ہوں سب سے پہلے پولیس اسٹیشن جاؤں گا کوشش کروں گا میری جاب مُجھے واپس مِل جائے مُجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ وُہ لوگ مُجھے مردہ مانتے ہیں یا گمشدہ..."
عماد نے گہری سانس لے کر کہا...
"عماد..." وُہ بس اتنا کہہ کر نم آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی...
"کُچھ نہیں ہوگا میری جان اب کُچھ نہیں ہوگا تمہارا عماد تمہارے ساتھ ہے تمہارے پاس ہے بھروسہ رکھو مُجھ پر..."
عماد نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا...
"ابھی میں چلتا ہوں ماہی کا اور اپنا خیال رکھنا ٹھیک ہے میری جان..."
وُہ اُس کا گال تھپتھا کر چلا گیا پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا ورنہ شاید جا ناں پاتا....
_________________________________________
غفران کا موبائل مُسلسل بج رہا تھا مگر وُہ اُٹھا نہیں رہا تھا وہاں شدید غصّے میں تھا منتہٰی سے ملنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے شام سے رات ہوگئی پولیس بھی آکر جا چکی تھی کیونکہ منتہٰی دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی تھی ....
"بس بہت ہوا وُہ ہوتی کون ہے مُجھے روکنے والی دو ٹکے کی ڈاکٹر مُجھے میری بیوی سے ملنا ہے اُس کے لئے مُجھے کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہے..."
وُہ اُٹھا اور آئی سی یو کے دروازے پر جا کھڑا ہوا جہاں ایک پولیس اہلکار ڈیوٹی دے رہا تھا تاکہ کوئی بھی فیملی میمبر اندر نہ جاسکے شائنہ کُچھ ضروری چیزیں لینے گھر گئی تھی... غفران نے اپنی جیب ٹٹولی مگر کُچھ نہیں تھا پھر ایک ایک کرکے اُس نے ساری جیبیں کھنگال ڈالیں مگر اُس کا والٹ نہ تھا شاید بھاگم دوڑی میں کہیں گرگیا تھا...
اُس نے اپنی گھڑی اُتاری اور پولیس اہلکار کے ہاتھ میں زبردستی تھماتے ہوئے بولا...
"پورے تین لاکھ کی ہے چوں چراں مت کرنا مُجھے بس اپنی بیوی کو دیکھنا ہے اِس لئے راستے سے ہٹ جاؤ اور کسی کو اندر مت آنے دینا..."
سب کُچھ اتنی جلدی ہو پولیس اہلکار کو سمجھ ہی نہیں آیا کیا کہے بس تین لاکھ سُن کر منہ میں پانی بھر آیا اور ہٹ گیا...
"زیادہ دیر مت لگانا کسی کو پتا چل گیا تو میری نوکری خطرے میں پڑ جائے گی..."
وُہ پیچھے سے بولا جسے نظرانداز کرتے ہوئے غفران اندر چلا گیا...
منتہٰی کا پورا وجود پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا دائیں پیر میں پلاستر بندھا ہوا تھا اور ایک اینکل کی مدد سے تھوڑا اوپر کو اُٹھا ہوا تھا بائیں ہاتھ میں بھی پلاستر بندھا تھا دایاں ہاتھ سینے پر رکھا ہوا تھا وُہ دھیرے دھیرے سانسیں لے رہی تھی آنکھیں بند تھیں یقیناً سو رہی تھی...
غفران کے کانوں میں اُس کی چیخیں گونج رہی تھیں یہ بات سچ تھی وُہ ہرگز نہیں چاہتا کہ وہ سیڑھیوں سے گرے وُہ صرف ایک حادثہ تھا مگر اُس کے بعد جو اُس نے منتہٰی کے ہاتھ پر اپنے پیر سے ٹھوکر ماری تھی وُہ سراسر اُس کا فعل تھا غفران ایسا ہی تھا جب غصّے میں ہو تو ہوش ہو حواس قابو میں نہیں رہتے اُسے نہیں سمجھ آتا کہ وُہ کیا کر رہا ہے اور کس کے ساتھ کر رہا ہے اگر اُسے آدھا پاگل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا...
"میں نے جانوروں کی طرح ہی تو مارا ہے..."
اُسے اپنی ہی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی...
"بلکہ میں جانور ہی تو ہوں..."
اُس نے منتہٰی کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا...
"اگر تمہیں کُچھ ہوجاتا تو کیا میں زندہ رہ پاتا...؟"
اُس نے خود سے سوال کیا جواب میں وُہ باقاعدہ کانپ اُٹھا....
جُھک کر اُسکی بند پلکیں چوم لیں....
" کُچھ نہیں ہوتا آپکو کیونکہ آپکو مُجھ سے محبت نہیں ہے صرف ضد ہے انا ہے جنون ہے محبت میں اِن تینوں کی جگہ نہیں..."
منتہٰی نے اپنی آنکھیں کھولتے ہوئے خُشک لہجے میں کہا...
"تُم جاگ رہی ہو کیسی ہو میری جان..."
غفران نے اُس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کا سینے پر رکھا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا...
"میرا بچہ؟..."
منتہٰی نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ نظریں چُرا گیا اور منتہٰی سمجھ گئی کہ وہ کیا کھو چُکی ہے....
اُس نے خود کو رونے سے روکنے کے لئے غفران کا ہی ہاتھ سختی سے بھینچ لیا غفران کُچھ نہ بولا بس اُس کا ہاتھ اپنے سینے سے لگا لیا....
خاموشی کا ایک طویل ترین وقفہ آیا تھا اُن دونوں کے درمیان وہ بے آواز روتی رہی غفران اُس کا ہاتھ اپنے سینے سے لگائے چُپ چاپ بیٹھا رہا بلآخر جب اُسکی برداشت جواب دے گئی تو اُس نے منتہٰی کی آنکھیں نرمی سے صاف کیں...
خاموشی نے ایک بار پھر دونوں کے بیچ اپنی جگہ بنائی مگر اِس بار اُس کی عمر صرف چند لمحوں پر محیط رہی..
"کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ سب کرکے آپ کہ مُجھ سے بہت محبت کرتے ہیں.."
اُسکے لہجے میں چٹانوں سی سختی تھی...
غفران نے اُسکی بات کا کوئی لفظی جواب نہیں دیا بس اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سینے سے لگائے اُس کے ہاتھ پر گرفت سخت کردی وُہ اُسے اپنی بے ترتیب دھڑکنیں محسوس کروانا چاہتا تھا...
"جب اِنسان کو لگتا ہے شامتِ اعمال کا وقت آ پہنچا ہے تو اُس کا دِل یونہی بے ترتیب دھڑکتا ہے لہذا مُجھ پر اِن دھڑکنوں کا کوئی اور تاثر قائم کرنے کی ناکام کوشش مت کریں..."
منتہٰی تند لہجے میں بولی....
لمحے کو غفران کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی کتنا سچ کہا تھا اُس نے وُہ شامتِ اعمال سے تو ڈر رہا تھا مگر اگلے ہی لمحے اُس نے مزید سختی سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا وہی ضد تھی اُسکی گرفت میں وہی اکڑ وہی بے رحمی...
"آپ جو چاہتے تھے وُہ ہوگیا مارنا چاہتے تھے میرے بچے کو مار دیا اب میری ایک بات اچھی طرح سن لیں میں نے ہر ممکن کوشش کرلی اِس رشتے کو نبھانے کے لئے سب کُچھ برداشت کیا آپکا جانوروں کی طرح مُجھے مارنا روز مُجھے تکلیف اور اذیت دینا سب کُچھ میں نے برداشت کیا مگر اب نہیں میرا جو نقصان ہونا تھا وہ ہوگیا مگر اب مُجھے آپکے ساتھ نہیں رہنا..."
منتہٰی نے قطعی انداز میں کہتے ہوئے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا....
غفران ہر طرح کے ردِ عمل کے لئے تیار تھا...
"تُمہیں ابھی آرام کی ضرورت ہے شاباش آنکھیں بند کرو..."
غفران نے اُس کا گال تھپكتے ہوئے کہا..
"جب تک آپ میری زندگی میں ہیں میں چاہ کر بھی آرام نہیں کرسکتی چھوڑ دیں مُجھے میں اِنسان ہوں غفران جانور نہیں ہوں آپ کو ذرا رحم نہیں آتا مُجھ پر میرے ہاتھ اور پیر کی ہڈی توڑ دی ہے آپ نے میرا بچہ مرگیا ہے مگر میں زندہ ہوں پھر بھی اگر زندہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں تو مُجھے آزاد کردیں طلاق دے دیں مُجھے ورنہ کسی دن بغیر بتائے چلی جاؤں گی...."
وُہ بولتے ہوئے اُس کے تھوڑا قریب ہوئی اور سرگوشی کرنے والے انداز میں بولی۔۔۔
"اِس دُنیا سے..."
غفران نے دانت پر دانت جمائے سختی سے پیس ڈالے آنکھیں معمول سے زیادہ کھل گئی تھیں....
"منتہٰی میں تُم سے وعدہ کرتا ہوں میں آئندہ کبھی تُم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا میں تُم سے بہت محبت کرتا ہوں بہت جو سزا دینی ہے دے دو بس دور جانے کی بات مت کرنا میں تُمہیں خود بھی مُجھے چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں دیتا میں مرجاؤں گا یا خود کو مار لوں گا..."
وُہ چیں بولنے کے در پر تھا منتہٰی کا لہجہ اُسے بلکل نا اُمید کرچکا تھا...
"ایک آخری موقع دے دو سدرۃ المنتہیٰ...."
منتہٰی نے ایک نظر اُسے دیکھا اپنا پورا نام لیے جانے پر اُسے بلکل حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہمیشہ سے اگر کسی کے منہ سے اُس نے اپنا پورا نام سنا تھا تو وُہ صرف غفران کے منہ سے ہی سنا تھا وُہ اکثر اُسے کہتا تھا سب کے لئے تُم بھلے ماہی ہو میرے لیے نہیں کیونکہ جو تُم میرے لیے ہو وُہ کسی کے لیے نہیں تُم میری سدرۃ المنتہیٰ ہو...
"چلے جائیں غفران میری زندگی سے میں وُہ سترہ سالہ منتہٰی نہیں ہوں جسے آپ کوئی بھی غلطی کرنے کے بعد یوں لفاظی کرکے منا لیں گے نہ آپ وُہ غفران ہیں جس کے میں نے کبھی خواب دیکھے تھے لڑکپن کے دور میں آپکا جوان سراپا دل کو خوب بھاتا تھا آپکے مضبوط ہاتھوں کی گرفت تب صرف بے چین کرتی تھی ایک لطیف اور گدگدا سا احساس ہوتا تھا کیونکہ تب سوچیں محدود تھیں تجربے ناکافی تھے ایک غرور جیسا تھا کہ میرا ہونے والا شوہر وُہ ہے جس پر سب کی نظر ہے جو سب کی چاہت ہے مگر جیسے جیسے عقل آتی گئی تو یہ بات بھی سمجھ آگئی ایک مکھی پھول پر بھی بھنبھناتی ہے اور گند پر بھی فرق سے صرف اُن کی قسموں کا ہے کوئی شفاء دیتی ہے شہد کی صورت میں کوئی بیمار کرتی ہے گند کی صورت میں.... میں اچھی طرح سمجھ گئی ہوں آپ کون ہیں اِس سے آگے اپنا احتساب خود کیجئے..."
منتہٰی نے حقیقت کے کئی تھپڑ اُسے مارے تھے....
وُہ مزید کُچھ نہیں سننا چاہتا تھا بغیر کُچھ کہے باہر چلا گیا منتہٰی نے نخوت سے اُسکی پیٹھ کو گھورا....
(جاری ہے)
نوٹ: اگلی قسط اتوار کو آئے گی....
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro