قسط نمبر ۲۴
#بچھڑے_سفر_میں (season 1)
قسط نمبر ۲۴
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"امی دیکھا آپ نے کیسے آنکھیں دکھاتی ہوئی گئی ہے ہمت دیکھی آپ نے اِس کی...."
شبینہ نے گرنے والے انداز میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا....
"دیکھ ہی رہی ہوں چیونٹی کے پر نکل آئے ہیں مگر سارا قصور تیرے بھائی کا ہی ہے پاگل ہوا پڑا ہے اِس کے پیچھے ہاتھ کا چھالا بناکر رکھا ہوا پھیلے گی تو ضرور پھر یہ کُچھ کرنا پڑے گا اِس کا ایسے تو ہرگز نہیں چھوڑوں گی میں..."
بختاور نے اپنا دایاں ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھتے ہوئے پُر سوچ انداز میں کہا اور ایک نظر گھڑی کی طرف ڈالی چہرے پر مکروہ مسکراہٹ پھیلتی گئی...
"غفران کے آنے کا وقت ہونے والا ہے.."
"تو..."
شبینہ نے نا سمجھ آنے والے انداز میں پوچھا...
اگلے ہی پل بختاور کا ہاتھ گھوما اور شبینہ کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا وُہ بُلبُلا اُٹھی...
"مُجھے کیوں مارا..."
وُہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے غصّے سے تقریباً چیخ اُٹھی...
"ٹھہر جا ابھی پتا لگ جائے گا۔۔"
بختاور کی آنکھوں میں شیطانیت ناچ رہی تھی شبینہ بھی اپنا گال سہلاتے ہوئے چُپ ہوگئی...
"دس سے پندرہ منٹ بعد پورچ میں گاڑی رُکنے کی آواز آئی تو بختاور اپنا کام شروع کر چُکی تھی...
"کتنی بار کہا ہے تُجھ سے مت منہ لگا کر اُس کے ارے بھلے سے تو جتنی صحیح مگر جو یہ تیرا کمبخت زن مرید بھائی ہے ناں اپنی بیوی کی ہی بات پر یقین کرے آمین ارے میں تو اُس ذلیل لڑکے کو پیدا کرکے پچھتا رہی ہوں مار دیتی اُسی وقت کم از کم یہ دن تو نہیں دیکھنے کو ملتے یہ کوئی بات تھی تُو نے جوس بنانے سے منع کردیا تو کھڑی کھڑی اتنی باتیں سنا گئی تُجھے اور مُجھے اپنی ماں کی بے عزتی ہوتی دیکھ کر تُو نے کُچھ بولنا چاہا تو تھپڑ جڑ دیا توبہ توبہ ایسی حرافاں نکلی ہے شکل سے کتنی معصوم لگتی ہے...."
بختاور نے زبردستی شبینہ کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا شبینہ خود بھی اُن کا پلان سمجھ چُکی تھی تو حسبِ ضرورت سسکیاں لینے لگی..
اندر داخل ہوتا غفران اُن کی آہ و بکا سن کر وہی رُک گیا یہ بات اُس کے لیے نا قابلِ یقین تھی کہ منتہٰی بختاور سے بدتمیزی کرسکتی تھی اور دوسری نا ممکن بات کہ وُہ کسی پر ہاتھ اُٹھا سکتی تھی...
"امی بھائی آگئے میں پانی لے کر آتی ہوں.."
شبینہ نے اداکاری کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔۔۔
"بیٹھ اِدھر تُو کیوں کرے اِس کے کام لایا ہے ناں اپنے لیے رکھیل بولے اُسے سب کو میری بچی کی ہی گردن پتلی نظر آتی ہے..."
بختاور نے ہاتھ پکڑ کر شبینہ کو دوبارہ بٹھا لیا...
"کیا ہے گھر آؤ تو آپ لوگوں کی عجیب چِخ چِخ مُجھے کوئی اور كام نہیں ہے کیا ..."
غفران کا موڈ ویسے بھی خراب معلوم ہوتا تھا...
"ہاں ہاں تیری بیوی تو جیسے اللہ میاں کی گائے ہے ایک ہم ہی تو غلط ہیں زن مرید کہیں کے جا جا مر جوروں کے قدموں میں بے غیرت مرد تیری بیوی تیرے دم پر پورے گھر میں دندناتی پھرے جو دِل میں آئے وُہ سنا دے مُجھے تیری بہن کو تھپڑ مار دے مگر تُجھے تو سب ڈرامے ہے لگیں گے ہے نا بیوی کی پٹھی سے لگ کر رہنے والا نا مراد آئے ہائے ایسا مرد جنا ہے میں نے جو اپنی ماں کا ہی نہیں تو ماں جائی کا کیا درد لائے گا... اے میاں اُٹھو چلو یہاں سے اپنے کمرے کا راستہ ناپو ہم کون تیرے وہی ایک رہ گئی ہے تیری ایک تیرا باوا تھا ماں کا بیٹا میری غلطی نہ ہونے پر بھی صرف اپنی ماں کے کہنے پر مجھے اُدھیڑ کر رکھ دینے والا اور ایک میں مے جنا ہے نرا نامرد رے اگر ذرا سی بھی غیرت باقی رہی ہے تو لگا آ تین چار منہ پر کہ اگلی بار منہ سے کُچھ پھوٹنے سے پہلے تھپڑوں کی گونج کانوں میں زنزناتی سنائی دے..."
وُہ انتہائی تحقیر آمیز لہجے میں بولیں..
"دیکھ بے غیرت دیکھ نشان ابھی تک جمے ہیں بہن کے چہرے پر رے کیسا بھائی ہے تو لے یہ لے پہن لے..."
بختاور نے اپنی چوڑیاں اُتار کر اُس کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا...
غفران نے ایک نظر شبینہ کے سُرخ چہرے کو دیکھا اور اپنے پیروں کے پاس گری بختاور کی چوڑیوں کو بس پھر اُس کی برداشت جواب دے گئی وُہ تقریباً بھاگنے والے انداز میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا اُوپر جانے لگا...
"بیٹا مارنا بات ہم نے معاف کیا اُسے..."
وُہ ہلکی سی آواز میں پیچھے سے بولیں...
"واہ امّاں مان گئے تیری پلاننگ کو..."
شبینہ داد دیے بنا نہ رہ سکی....
"اسلام علیکم..."
ابھی وُہ دونوں خوش ہو ہی رہی تھیں شائنہ اندر داخل ہوئی اور اسے دیکھ کر دونوں کے چہرے کی خوشی لمحے میں غائب ہوئے اب صرف ناگواری مترشح تھی....
"کیا ہوا آپ دونوں مُجھے دیکھتے ہی ایسے ہونق زدہ کیوں ہوگئے..."
شائنہ نے بغور اُن دونوں کو دیکھتے ہوۓ کہا تب ہی پہلی منزل سے غفران کے چیخنے کی آواز آئی وُہ کسی ملازمہ سے منتہٰی کا پوچھ رہا تھا....
"صاحب وُہ چھت پر ہیں بارش ہورہی تھی تو چلی گئیں میں نے منع بھی کیا مگر.."
اُس کے جارحانہ تیور دیکھتے ہوئے ملازمہ سہم گئی...
"یہ اتنے غصّے میں کیوں ہے اور ماہی کو کیوں ڈھونڈھ رہا مُجھے بتائیں کیا کِیا ہے آپ لوگوں کا کیا کہا ہے اِس سے..."
وُہ اپنی چادر اور بیگ صوفے پر پھینکتے ہوئے چیخ کر بولی...
غفران اب چھت پر جاتی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا چھت پر جانے کے دو راستے تھے شائنہ دوسرے راستے سے اوپر بھاگی....
"ذرا سی بارش ہوتی نہیں پانی کھڑا ہوجاتا ہے..."
منتہٰی نے وائپر سنبھالتے ہوئے خود سے کہا....
"یہ نیچے سے شور کی کیسی آوازیں آرہی ہیں شاید آپی اور غفران کے بیچ پھر کوئی بحث ہوئی ہوگی.."
اُس نے تاسف سے سر جھٹکا پانی نیچے سیڑھیوں سے نیچے گرانے لگی...
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے اُوپر ہاتھ اٹھانے کی ذلیل عورت..."
غفران کی چنگھاڑتی آواز پر اُس نے پلٹ کر دیکھا تو لرز کر رہ گئی وُہ شعلہ بار آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئےاُس ہی کی طرف بڑھ رہا تھا ہاتھ سے وائپر چھوٹ گیا بے اختیار پیچھے ہٹنے کی وجہ سے گیلے فرش پر اُس کا پیر بری طرح سے پھسلا چھت سے نیچے کی طرف جاتی سیڑھیوں کے دہانے پر کھڑے ہونے کے باعث وُہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی نیچے گرتی چلی گئی....
"بھائی..." ہر بار کی طرح تکلیف کے وقت اُس نے منیر کو ہی پُکارا تھا...
غفران نے اُسے نیچے گرتے دیکھا مگر اشتعال میں کمی واقع نہیں ہوئی ...
منتہٰی نے نیم وا آنکھوں سے غفران کو سیڑھیاں اُترتے دیکھا آنکھوں سے بے اختیار گرم سیال بہنے لگا اُس نے کہنی کے بل اُٹھنے کی کوشش کی مگر غفران کے پیر کی زور دار ٹھوکر سے اُس کا ہاتھ بری طرح مڑ گیا....
"بابا..."
آہ دلدوز سے گھر کے در و دیوار لرز اُٹھے مگر شاید مکینوں کے دلوں پر مہر لگ چُکی تھی...
"کیسے ہمت ہوئی..."
اب وُہ اُسے گھسیٹتے ہوئے کھڑا کرکے بولا منتہٰی کھڑی نہ ہوسکی بائیں پیر کی ہڈی ٹوٹ جانے کے باعث وُہ دوبارہ مڑ گیا اب کی بار چیخ اتنی دردناک تھی کہ غفران بھی حواسوں میں لوٹا تھا...
"ماہی..."
شائنہ نے جلدی جلدی سیڑھیاں اُترتے ہوئے غفران کو بری طرح دھکا دے کر اُس سے الگ کیا اور اپنے سینے سے لگا لیا...
"آپی بہت درد ہورہاہے٬ بہت درد ہورہاہے٬ بہت درد ہورہاہے.."
وُہ پُھپک پُھپھک کر رودی...
غفران کے ہاتھ پیر پھول گئے منتہٰی کی حالت دیکھ کر...
"مُجھے موت دے دے اللہ مُجھے موت دے دے نہیں برداشت ہورہا بہت درد ہورہاہے..."
شائنہ نے اُس کا سر اپنی گود میں رکھا اور ایمبولینس کو کال ملانے لگا غفران بس منتہٰی کی تکلیف سے بری طرح چیختی آوازیں سن رہا تھا...
چیختے چیختے بلآخر وُہ بے ہوش ہوگئی...
"اِس کا تو پورا ہاتھ نیلا ہورہاہے اور بایاں پیر بھی..."
شائنہ کی آواز کانپ رہی تھی....
"کیا حال کردیا ہے تُم نے غفران اِس کا..."
وُہ چاہ کر بھی چیخ نہیں پا رہی تھی منتہٰی کی حالت اُسے ہولائے دے رہی تھی...
اگلے ہی لمحے غفران اُٹھا اور منتہٰی کو اپنی گود میں اُٹھا کر تیز تیز سیڑھیاں نیچے اُترنے لگا جس میں ایک بار وُہ خود بھی گرا مگر منتہٰی کو کس کر پکڑے رکھا....
"آئے ہائے یہ کیا ہوگیا اسے.."
بختاور کے حقیقتاً ہوش اُڑ گئے تھے وُہ خونم خون ہورہی تھی...
وُہ اُنہیں نظرانداز کرکے باہر کی طرف بھاگا شائنہ بھی اپنی چادر لے کر اُسکے پیچھے بھاگی...
"تُم اِس کے ساتھ پیچھے بیٹھو..."
غفران نے منتہٰی کو بیک سیٹ پر لٹاتے ہوئے کہا اور خود نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی...
"جلدی چلاؤ غفران..."
شائنہ مسلسل اُسے ہوش میں لانے کی کوششیں کر رہی تھی...
آدھے گھنٹے بعد وُہ ہاسپٹل کی حدود میں داخل ہوئے غفران نے جلدی سے گاڑی سے اُتر کر اُسے اُٹھایا اور اندر کی طرف بھاگا جب تک وارڈ بوائے اسٹریچر لا چُکے تھے غفران نے منتہٰی کو اُس پر لٹایا اتنی میں کوئی ڈاکٹر کو بھی بلا لایا...
"ہارٹ بیٹ بہت سلو ہے کیا یہ پریگننٹ ہے؟ ۔۔"
ڈاکٹر نے منتہٰی کی خون میں سنی شلوار دیکھتے ہوئے پوچھا...
غفران نے صرف سر ہلایا....
"اِن کے ہاتھ اور پیر کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے..."
"شائنہ نے بے اختیار اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر نکلنے والی سسکی کا گلا گھونٹا...
"آپریشن تھیٹر ریڈی کرو ہمیں فوراً آپریشن کرنا ہوگا اِن سر پر کافی گہری چوٹ آئی ہیں.."
ڈاکٹر صاحبہ نے کہا اور وارڈ بوائے اسٹریچر گھسیٹتے ہوئے آگے لے گئے....
"تُم مر کیوں نہیں جاتے کتے سُور سفاک اِنسان ایسا تو کوئی جانور کو بھی نہیں مارتا وُہ تو پھر بھی گوشت پوشت کی جیتی جاگتی اِنسان ہے..."
شائنہ نے ایک کے بعد ایک نجانے کتنے تھپڑ اُسے مارے مگر وُہ بِلکُل چُپ کھڑا رہا مزاحمت تک نہ کی اُس کی سماعتوں میں بس یہی الفاظ گونج رہے تھے...
"اِن کے ہاتھ اور پیر کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے...."
اذیت ہی اذیت اُتر رہی تھی اُسکے اندر...
جب وُہ مار مار کر تھک گئی تو روتے روتے زمین پر بیٹھ گئی...
"وُہ ماں بننے والی ہے اِس بات کا تو خیال کرلیتے تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے..."
غفران نے سختی سے اپنی مٹھی بھینچ لی...
_________________________________________
"ماضی....."
نو سال پہلے.....
"تو یہ بات ہے اور تُو مُجھ سے چاہتا ہے کہ میں اپنے سورسز سے غفران کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کروں..."
عماد نے پُر سوچ انداز میں منیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..
اُسی وقت نسیمہ خاتون نے چائے کی ٹرے اُن دونوں کے سامنے رکھی...
"ہاں اب تیرا پولیس میں ہونے کا کُچھ تو فائدہ ہو مُجھے.."
منیر نے ہنستے ہوئے کہا...
"تُو جانتا ہے عماد ماہی میں میری جان ہے میں اُسے کسی ایسے اِنسان کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتا جو غلط کاموں میں ملوث ہو جس کا کردار مشکوک ہو اور میں ابھی اِس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ ابو کے سامنے جا کھڑا ہوں اور اُن دونوں کا رشتہ ختم کروا دوں..."
منیر نے بے بسی سے کہا....
"ویسے مجھے حیرت ہوتی ہے مانی.."
عماد نے چائے کا مگ اُٹھاتے ہوئے کہا...
"کیسی حیرانی..."
منیر نے بھی اپنا کپ اُٹھاتے ہوئے کہا...
"امی آپ یہاں کیوں بیٹھ گئیں ہم پرائیویٹ باتیں کر رہے ہیں..."
نسیمہ خاتون کو اب تک وہیں بیٹھے دیکھ کر عماد نے کہا...
"بیٹھے رہنے دے تُجھے کیا مسئلہ ہے امی سے کوئی پردہ ہے..."
منیر نے فوراً کہا...
"آگیا ماں کا بیٹا..."
عماد نے جل کر کہا...
"میں جارہی ہوں بیٹا تُم لوگ باتیں کروں اور مانی خوب کان کھینچنا اِس نالائق کے.."
وُہ کڑی نظروں سے عماد کو دیکھتی ہوئیں جانے لگیں...
"فکر ہی نہ کریں امی اسے ہوبو نہ بنادیا تو میں آپکا دودھ شریف بیٹا نہیں..."
وُہ ہنستے ہوئے اداکاری سے بولا...
"اور تُو بتا کس بات پر حیرانی ہوتی ہے تُجھے.."
منیر نے دوبارہ پوچھا...
"اسی بات پر کہ کبھی غفران میں اور تُو بہترین دوست ہوا کرتے تھے اور اب دیکھ..."
عماد گہری سانس لے کر بولا...
"تب غفران بھی وُہ غفران نہیں تھا جو اب ہے یقین تو مُجھے بھی نہیں آتا کہ یہ وہی غفران ہے جس کی زبان مانی بھائی مانی بھائی کرتے نہیں تھکتی تھی حالانکہ صرف تین سال کا فرق ہے ہم دونوں میں مگر اب یہ وُہ غفران ہے ہی نہیں ہم دونوں کا جگری مگر تو جانتا ہے میٹرک کے بعد اُس نے ہم سے خود دوری اختیار کی پھر اِس کی صحبت کن لوگوں کے ساتھ تھی یہ بھی چھپا نہیں رہا ہم سے مجھے تب بھی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر میں اُسے سمجھاؤں گا تو وہ سمجھ جائے گا میری عزت کرتا تھا بہت میں نے اُسے وقت دیا کہ شاید خود سنبھل جائے مگر پھر جو باتیں مُجھے پتا چلی ہیں وُہ ہرگز نظرانداز کرنے والی نہیں ہیں،،، ہر طرح کا نشہ شراب ،لڑکیوں کے ساتھ تعلقات اب تو بتا یہ سب جانتے ہوئے میں کیسے اپنی ماہی کی شادی اِس سے ہونے دوں گھر پر اگر کبھی ابو کو کُچھ بولوں تو وہ بھائی اور بھتیجے کے محبت میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں میری بات تک نہیں سنتے مگر میں اپنی ماہی کو ہرگز بھی تاریکیوں میں نہیں دھکیل سکتا وُہ میری جان اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ اُس سے محبت کرتا ہوں میں وُہ بہت معصوم ہے میں نے دیکھا ہے اُسکی آنکھوں میں اب وُہ غفران کے لیے خواب سجانے لگی ہے شروع سے یہی تو سنتی آرہی ہے کہ وہ غفران کی ہے میں اُسے اِس تکلیف سے بچانا چاہتا ہوں ورنہ کہیں بہت دیر نہ ہوجائے...."
منیر بولتے ہوئے جذباتی ہوگیا آنکھیں چھلک پڑیں...
"ماہی مُجھے بھی اُتنی ہی عزیز ہے جتنی تُجھے ہے تُجھے مانی نام اُس نے دیا تو مُجھے عمی بھائی نام کس نے دیا تو فکر مت کر میں ہماری بہن کو تاریکیوں میں نہیں ڈوبنے دوں گا..."
عماد نے اُسکے ہاتھ پر تسلی بخش انداز میں کہا...
"ویسے تیری علیشہ سے بات کہاں تک پہنچی...؟"
اُس نے موضوع بدلا...
"میں نے اُسے پرپوز کردیا ہے ..."
"اُس نے کیا کہا؟"
"کیا کہنا تھا ہاں کہاں مجھے کون منع کرسکتا ہے.."
وُہ اِٹھلا کے بولا....
"یہ منہ اور مسور کی دال..."
عماد نے اُسے چڑایا...
"مذاق ایک طرف تو نے شائنہ کا کیا سوچا..."
منیر نے سنجیدگی سے پوچھا...
"کیا مطلب شائنہ کا کیا سوچا وُہ تو تُو سوچے گا بیچاری کو دھوکا دے رہا ہے..."
منیر کے اِس سوال پر وُہ سٹپٹا گیا...
"مُجھ سے تیرے متعلق کوئی چیز چھپی رہی ہے عمی..."
منیر نے اب کی بار محبت سے پوچھا...
"میں جانتا ہوں تُو اُس سے محبت کرتا ہے ابھی سے نہیں یونیورسٹی سے جانتا ہوں تیری آنکھیں صاف بتاتی ہیں کہ تُو اُسے کتنا چاہتا ہے..."
منیر کی اِس بات پر عماد نے بھی گہری سانس لے کر خود کو ریلیکس چھوڑ دیا...
"عجیب نہیں ہے میں نے تیری منگیتر پر نظریں گاڑھی ہوئی تھیں اور تُو نے جانتے ہوئے بھی کُچھ نہیں کہا کہیں تُو اسی وجہ سے تو اُس سے شادی نہیں کر رہا کہ میں اُس سے محبت کرتا ہوں..."
عماد کو نیا خطرہ لاحق ہوا...
"میں نے ہمیشہ اُسے ایک دوست کی نظر سے دیکھا ہے عمی محبت میں نے صرف علیشہ سے کی ہے ہاں اگر میری زندگی میں علیشہ نہ ہوتی تو میں یقیناََ اُسی سے شادی کرتا وُہ بہت اچھی لڑکی ہے اپنے بہن بھائیوں سے بالکل مختلف اُس گھر میں تایا ابو شائنہ اور زوہیب ہی تو ٹھیک ہیں..."
منیر نے صدقِ دل سے کہا...
"بس تو جلدی سے اپنا اور شائنہ کا یہ نام کا رشتہ ختم کر تاکہ میں اپنا رشتہ بھیجوں کمینے.."
عماد نے اُس کے کندھے پر مكا مارتے ہوئے کہا تو دونوں ہنس دیے....
_________________________________________
"حال"
"ڈاکٹر صاحب منتہٰی کیسی ہے..."
ڈاکٹر کو باہر آتا دیکھ کر غفران اُن کی طرف لپکا شائنہ بھی فوراً اُٹھی...
"مسکیرج تو اُن کا یہاں آنے سے پہلے ہی ہوگیا تھا ہاتھ اور پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے باقی جسم پر جابجا زخموں کے ان گنت نشان ہے سر پر اُن کے چھ اسٹیچز آئے ہیں کوئی باریک سے چیز اُن کی آنکھ کے بہت قریب لگی ہے یہ اُن کی خوش قسمتی ہے کہ آنکھ بچ گئی اور میں حیران ہوں اتنی چوٹوں کے بعد بھی وُہ زندہ کیسے ہیں یوں لگتا ہے کسی نے اُسے جانوروں کی طرح مارا ہے پہلے بھی اُنہیں...."
ڈاکٹر صاحبہ کڑے تیوریوں سے غفران کو گھور رہی تھیں...
"یہ ڈومیسٹک وائلنس کا کیس ہے میں نے پولیس کو انفارم کردیا ہے وُہ آنے ہی والے ہوں گے۔۔۔"
ڈاکٹر صاحبہ کی نظریں مسلسل غفران پر تھیں...
"ایک بری خبر اور ہے منتہٰی اب کبھی ماں نہیں بن سکتیں بہت زور سے کسی سولڈ سرفیس سے ہٹ ہونے کے باعث اُن کے بچہ دانی بری طرح متاثر ہوئی باقی اللہ نے چاہا تو کُچھ بھی نا ممکن نہیں مگر جو میرے سامنے کنڈیشن ہے اُس سے یہی دکھ رہا ہے مُجھے..."
وُہ اب شائنہ سے مخاطب تھیں...
شائنہ نے کرب سے آنکھیں میچ لیں....
"منتہٰی سے مِل سکتا ہوں میں....؟"
غفران نے اِس عرصے میں صرف اتنا کہا...
" ہرگز نہیں جب تک پولیس آپکا پیشنٹ کا اسٹیٹمنٹ نہیں لے لیتی کوئی بھی فیملی ممبرز اُن سے نہیں مِل سکتا ویسے بھی وُہ ہوش میں نہیں ہے جو کہ اُن کے لیے بہت بہتر ورنہ ہوش میں آکر جس درد سے اُنہیں گزرنا ہے اُس کا آپ اور میں صرف اندازہ لگا سکتے ہیں وہ بہت بہت تکلیف میں ہیں ہاتھ اور پیر کی ہڈی ٹوٹنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ہم تو ایک ناخن کے اکھڑ جانے پر تڑپنے لگتے ہیں تو اُن کی تکلیف کا اندازہ تو لگا ہی نہیں سکتے...."
ڈاکٹر صاحبہ نے افسوس سے کہا اُنہیں اُس معصوم لڑکی سے دلی ہمدردی تھی...
"وُہ میری بیوی ہے..."
"اسی لیے کہہ رہی ہوں آپ نہیں مِل سکتے اُن سے...."
وُہ اُسی کے انداز میں بولی...
"یہ کُچھ دوائیاں ہیں آپ لے کر آجائیں..."
ڈاکٹر نے پرچی شائنہ کو دیتے ہوئے کہا اور دوبارہ روم میں چلی گئیں....
"لاؤ دو میں لے آتا ہوں.."
غفران نے اپنے غصّے پر قابو پاتے ہوئے کہا...
"میں خود لے آؤں گی.."
نخوت سے کہتے ہوئے اُس کا ہاتھ جھٹکا اور آگے بڑھ گئی....
ابھی وُہ کوریڈر سے گزر ہی رہی تھی ایک مانوس آواز سماعتوں سے ٹکرائی مگر وہم سمجھ کر ٹال دیا...
مگر پھر وہی آواز سنائی دی...
یہ آج کیا ہوگیا ہے مُجھے اِن کی آواز کیوں سنائی دے رہی ہے آه میں بھی نہ..."
ارد گرد نظریں گھماتے ہوئے خود سے بولی...
"میں یہاں ہوں کہاں نظریں تھکا رہی ہو کیا تمہارے دِل میں بسی میری تصویر پر اتنی گرد اٹ چُکی ہے کہ پہچان بھی نہ سکو.."
اُس کا دِل جیسے کٹ کر رہ گیا تھا...
"نہیں یہ آواز جھوٹی نہیں ہے مگر کہاں ہیں آپ صرف آواز ہے چار سوں پیکر اُوجھل ہے نظروں سے.."
جب عماد نے اُسے اپنے حصار میں لیا تو وُہ اس بات پر ایمان لے آئی ہاں یہ وہی ہے اُسکی محبت اُس کا شوہر اُس کا عماد....
"شانو میری جان تُم نے اپنے عماد کو نہیں پہچانا..."
عماد نے اُسے خود میں مزید بھینچے ہوئے کہا...
"عماد.." دوبارہ اُس کا نام منہ سے ادا ہوا حیرت ہو حیرت مترشح تھی اُس پکار میں جسے وُہ رو چُکی تھی وہ جیتی جاگتی حقیقت بن کر اُسے اپنے مضبوط حصار میں لیا ہوا تھا....
"ہاں میری جان..."
عماد نے اُسے خود سے الگ کرتے ہوئے اُس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا...
شائنہ نے بغور اُسے دیکھا وُہ بہت بدل چکا تھا اُس وجیہہ عماد کا سایہ بھی نہیں لگتا تھا جسے وُہ جانتی تھی بہت کمزور ،گہرا رنگ اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں جگہ جگہ زخموں کے نشان خطرناک حد تک بے ترتیب بڑھی ہوئی شیو.....
"یہ آپ ہی ہیں میرے عماد کیا ہوگیا ہے آپکو عماد کیا ہوگیا ہے آپکو..."
وُہ روتے ہوئے دوبارہ اُس کے سینے سے لگ گئی...
_________________________________________
"دیکھئے میں آپ سے کہہ رہا ہوں مُجھے میری بیوی سے ملنے دیں پلیز..."
غفران نے لہجہ نرم رکھنے کی ناکام کوشش کی..
"تاکہ آپ اُن پر پریشر ڈال کر اُن کا اسٹیٹمنٹ چینج کروا سکیں..."
وُہ تنفر سے بولی...
"آپ مجھے میری بیوی سے ملنے سے روک نہیں سکتیں..."
"میں روکنے کا پورا اختیار رکھتی ہوں پیشنٹ ابھی میری ذمےداری ہے یہ میں طے کروں گی مجھے اُسے کس سے ملنے دینا ہے اور کس سے نہیں..."
وُہ بے خوفی سے بولی...
"آپ جیسے مردوں کو میں بہت اچھے سے جانتی ہوں عورت کو اپنے پیر کی جوتی سمجھنے والے مگر اب یہی آپکے سر پر بجے گی ویٹ اینڈ واچ ناؤ گیٹ آؤٹ فرم مائی روم..."
وُہ سخت لہجے میں بولی...
"آئی سیڈ گیٹ آؤٹ.."
غفران پیر پٹختا ہوا باہر چلا گیا...
دروازے پر رُک کر اُس نے نام پڑا...
"ڈاکٹر طیات عامر..."
"دیکھ لوں تمہیں بھی ڈاکٹر.."
_________________________________________
ٹرین نے کراچی کینٹ اسٹیشن پر پاؤں پسارے تو سب مسافر باری باری کرکے نیچے اُترنے لگے۔۔۔
زیان دُعا اور سمیر نے اپنا سامان اُٹھایا اور وُہ لوگ بھی نیچے اُتر گئے سمیر کی فیملی ابھی ساتھ نہیں آئی تھی...
اسٹیشن پر نظر کرتے ہی زیان کی آنکھوں کے سامنے منتہٰی کا اعتراف محبت کسی فلم کی طرح گھوم گیا...
"میں واپس آگیا ہوں ماہی صرف تمہارے لئے اور اِس بار میں جانے کے لئے نہیں آیا ہوں بلکہ تمہیں اُس عذاب سے نکالنے کے لیے میں اِس اُمید پر نہیں آیا کہ تُم مُجھے مِل جاؤ گی میں تو اپنی محبت کا حق ادا کرنے آیا ہوں اور میری محبت تمہیں صرف خوش دیکھنا چاہتی ہے اسے اور کُچھ نہیں چاہیے..."
زیان نے خود سے کہا اور اسٹیشن کے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے اِس بات سے انجان تھے جنگ اب شروع ہونی تھی زیان اور غفران کی ایک لمبی جنگ بہت لمبی اور زیان کو اپنی محبت آخری دم تک نبھانی تھی اپنی ماہی کو بچانا تھا محبت قرض ہے قرض چکانے وُہ واپس لایا گیا تھا شطرنج کی بساط بچھ چُکی تھی کھیل بھی شروع ہوچکا تھا شہہ اور مات کی باری تھی اب...
Do give review plzz..
۔
season 1 has only 6 episodes left...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro