Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۹

#بچھڑے_سفر_میں
قسط نمبر ۱۹
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"بولو کُچھ۔۔"
غفران نے چُپ چاپ بیٹھی منتہٰی کو ذرا سا ہلایا تو وُہ جو کسی گہری سوچ میں مستغرق تھی لوٹ اؤں مگر اُس نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا..
"ویسے تُم نے ایک بات نوٹ کی ہے؟.."
وُہ ابھی تک اُس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا..
منتہٰی نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھ...

"کہ میرا سارا غُصّہ اور نفرت،بدلے کی وُہ آگ جو کل تک میرے اندر جل رہی تھی آج نہیں ہے آج تو میں نے تُم سے معافی بھی مانگی ہے کل کے رویے کے لیے.."
اُس نے منتہٰی کے گلے میں پہنے ہار کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا...
وُہ ابھی چُپ رہی...
"یہ سر درد جان لے لے گا میری.."
وُہ ایک دم سے اُٹھتے ہوئے بولا اور اپنا سر دبانے لگا...

"میں چائے بنا لاتی ہوں آپکے لیے دوسری..."
وُہ کہہ کر اُٹھنے ہی لگی تھی غفران نے دوبارہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا..
"ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی جب میں نے کہہ دیا یہیں بیٹھی رہو تو یہیں بیٹھی رہو.."
اُس کا انداز اب تند تھا کُچھ دیر پہلے کی نرمی کا شائبہ بھی نہیں تھا..
وُہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ بیڈ کے دائیں طرف لایا اُسے اپنے برابر میں بٹھا کر خود لیٹ گیا...
"میرا سر دبا دو.."
اُس کے ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھتے ہوئی رسان سے بولا...

وُہ آہستہ آہستہ اُس کا سر دبانے لگی غفران کے تنے ہوئے نقوش نرم پڑنے لگے تھے...
"ویسے تُم دو ڈھائی مہینے کہاں گزار کر آئی ہو.."
سوال بلکل غیر متوقع تھا اُس کے ہاتھ لمحے کو رُک گئے تھے...
اُس نے اپنی آنکھیں کھول دی اور اِستفہامیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا....
"کُچھ پوچھا ہے میں نے..."
پھر وہی تیزی تھی اندازِ سخن میں..

"ابو کی کزن ہے وُہ لاڑکانہ میں ہاسٹل میں انچارج ہیں تو ابو نے اُن سے بات کرکے مُجھے وہاں بھجوا دیا تھا اُنہوں نے ہی میری جاب بھی کروائی تھی ایک فرم میں صبح نو سے شام پانچ تک کی.."
اُس نے ساری بات پوری سچائی سے بتادی..

"معاملہ صرف اتنا ہی ہے نا؟؟؟"
وُہ مطمئن نہیں ہوا تھا...
"مطلب؟.." اُس نے اُلٹا سوال کیا..
"مطلب تُم اچھے سے سمجھ گئی ہو تمہارے لیے یہ سمجھ جانا ہی کافی ہے اگر مُجھے ذرا بھی شک ہوا کہ تُم نے مُجھ سے جھوٹ بولا ہے تو تُم تو وہی ہوگی مگر میں کل رات والا غفران نہیں ہوں گا اُس سے بھی زیادہ وحشی پن دکھاؤں گا تُمہیں مائنڈ اِٹ..."

اسی نے منتہٰی کے گداز ہاتھوں کو اپنے کرخت ہاتھوں میں لے کر دبا کر تنبیہ کی تھی...
"ایسا کُچھ نہیں ہے.."
نجانے وُہ خود کو تسلی دے رہی تھی يا خود سے جھوٹ...
"اور ہونا بھی نہیں چاہیے.."
مزید زور دے کر کہا گیا...
"اب جاؤ کپڑے بدلو جاکر اور میرے کپڑے بھی نکال دو.."
اُس کے ہاتھوں کو جھٹکے سے ہٹا کر وُہ سختی سے بولا...

وُہ اِسی موقع کی تلاش میں تھی سرعت سے اُٹھ کر الماری کی طرف بڑھ گئی..
غفران نے اُس کی اِس حرکت کو بغور دیکھا اور دوبارہ آنکھیں بند کرلیں..
_________________________________________

"کیا محبت ہوجانے کے بعد اِنسان وسعت قلب ہوجاتا ہے وُہ بھی اتنا؟.."
دُعا نے آہستہ سے خود سے یہ سوال کیا تھا وہ اِس بات سے انجان تھی کے اُس کی آواز اتنی مدھم نہیں تھی کہ ایک چیئر کے فاصلے پر بیٹھا سمیر نہ سُن سکے...
"محبت کشادگی اور گنجائش پیدا کرتی ہے
دِلوں میں موجود روح اِس جذبے سے آشنا ہوجائے وُہ در بدر نہیں پھرا کرتی بلکہ ایک جگہ ٹھہر جاتی ہے۔
جس روح سے محبت ہو جائے اُسی کے گرد طواف کرتی ہے اگر محبت کرنے کے باوجود آپ انا پر اڑے رہیں تو ایسے سرکش جذبے کو محبت کا نام دینا سراسر توہینِ محبت کے زمرے میں آتا ہے۔
کیونکہ محبت میں "میں" نہیں ہوتی اُس میں صرف "تُو" ہوتا ہے " انت " کی خوشی ہوتی ہے... "
سمیر نے متانت سے اُس کے سوال کا جواب دیا تھا.

دُعا نے چونک کر اُسے دیکھا مگر وہ اُس کی طرف دیکھنے کے بجائے سامنے دیکھ رہا تھا.

" مگر کُچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عزت سے جڑی ہوتی ہیں اور مرد غیرت اور محبت کے معاملے میں ہمیشہ "غیرت" کو چُنتا ہے جتنی ہی سچی محبت کیوں نہ ہو وُہ محبت "ترک" کردیتا ہے.."
اُس نے بھی سامنے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا.

اب کی بار چونکنے کی باری اُس کی تھی...
"دُعا مُجھے آپ سے کُچھ کہنا ہے میں جانتا ہوں نہ یہ موقع ٹھیک ہے نا ہی جگہ مگر میں کہنے میں دیر نہیں کرنا چاہتا "محبت" کے کُچھ انجام دیکھ کر اب مُجھے ڈر لگتا ہے میں بھی کہیں اپنی "محبت" کو کھو نا دوں.."

دُعا جانتی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا مگر ایک یہی بات تھی جس سے وہ ہمیشہ کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتی تھی
سمیر کو اپنے احساس چھپانے آتے تھے مگر وہ عام سے عام لفظوں میں بھی پوشیدہ بھید پڑھ لینے کا ہنر رکھتی تھی پچیس سالہ زندگی میں اُس نے لوگوں کے لہجوں کو اور ان میں چھپے رازوں گھول کر پی لیا تھا وہ ہر طرح بات کرسکتی تھی اور ہر طرح کی بات سمجھ بھی سکتی تھی....
"جو چیز دسترس میں ہی نا ہو اُسے کھونے سے ڈرنا نہیں چاہیے اِنسان کو جو ہے اُسے سنبھال کر رکھنے کی سعی کرنی چاہیے.."
اُس نے صاف لفظوں میں اُسے ٹوک دیا تھا اور وُہ اِس بات پر ٹھٹھکا تھا...

"جو چیز بہت اچھی لگے ضروری نہیں وُہ اچھی ہی ہو کوئی کیسے جان سکتا ہے سمیر وُہ سونے کے ورق میں لپٹی کوئی غلاظت ہو... کیا آپ جان سکتے ہیں؟؟
کوئی کیسے جان سکتا ہے اُس غلاظت کے نیچے کوئی چھپا ہو کوئی احساس، کوئی یاد، کوئی "محبت"

"محبت" لفظ پر اُس نے بے اختیار چونک کر اُسے دیکھا تھا...
"میں نے کہا نا کُچھ باتیں "عزت" سے جُڑی ہوتی ہیں اور اُن میں وسعت القلبی ناپید ہے۔
"مفقود" ہے.."
گہری سانس خارج کرتے ہوئے اُس نے اپنی کئی تلخ یادوں کو ایک بار پھر جیا تھا....

"خود سے قیاس لگانا بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا
کوئی واقعی اتنی کشادگی رکھتا ہو اپنے دِل میں اور اُس کے لئے یہ باتیں معنی ہی نہ رکھتی ہوں.."
سمیر نے مصمم ارادے سے کہا..

"کتابی باتیں ہیں صرف اُن لوگوں کے لیے بہت پُر کشش اور دلچسپ جنہوں نے دُنیا و مافیہا کی صعوبتیں نہ جھیلی ہو وُہ اس کرب سے آشنائی ہرگز نہیں رکھ سکتا کیونکہ دُکھ کا اصل احساس تب ہی ہوتا ہے جب وُہ آپکی ذات پر گزرتا ہے
اور یہ بات میری پوری زندگی کا خلاصہ ہے مشرقی مرد کے لئے "محبت" کا مترادف لفظ "غیرت" ہے جبکہ محبت کا اِس سے کوئی تعلق ہی نہیں..."
دُعا نے سختی سے اُس کی دلیل کو رد کیا تھا..

"ہر اِنسان ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے بات "بھروسے" کی ہے صرف.."
وُہ اُس کی بات سے قائل ہوجانے والوں میں سے نہیں تھا وہ حل نکالنے والوں میں سے تھا..

"ایک اور کتابی بات.."
اُس نے تمسخر اڑایا..

"کتابیں سچ بولتی ہیں یہ حققیت کا آئینہ دکھاتی ہیں.."
سمیر نے اُس کی تمسخر کے جواب میں مستحکم انداز میں ردِ دلیل پیش کی...

"ہاں بولتی ہیں مگر صرف وُہ کتاب جو آپکے وجود پر تجربوں کی صورت میں خودبخود درج ہوتی جائیں اِنسان کی خود لکھی کتابیں میری نظر میں فرار کا ذریعہ ہے بس اِس سے زیادہ کُچھ نہیں..."
اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا..

"اگر مثبت انداز سے سوچیں تو ہر طرح کی حوصلہ شِکن صورتحال  میں بھی حل نکل آتا ہے ، جبکہ اگر منفی سوچیں گے تو مسائل اور پابندیوں کی نشاندہی ہی کریں گے۔
یہ اُس مثالی خیال سے بھی بڑھ کر ہے کہ گلاس میں پانی’’آدھا بھرا ‘‘ہوا ہے یا ’’آدھا خالی ‘‘ہے جس کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ مثبت سوچ ہے یا منفی سوچ ہے۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ منفی سوچ چیزوں کا تناسب بگاڑ دیتی ہیں ؟ اور مسائل بظاہر بڑھتے ہوئے اور پہلے سے زیادہ  مشکل لگنے لگتے ہیں۔..؟"
سمیر جرح کے موڈ میں تھا..

"کبھی غور ہی نہیں کیا وقت ہی نہیں اِن فضولیات کے لئے
زندگی "گزر" رہی ہے یوں ہی گزرتی رہے بس.."
دُعا کی اِس بات پر وُہ ہولے سے ہنسا تھا...

"بعض اوقات کوئی مسٔلہ اِتنا زیادہ ناممکن لگنے لگتا ہےجتنا ہوتا نہیں ہے۔ اور ایک منفی ذہنیت اکثر بھُلا دیتی ہے کہ خُدا کے آگے کچھ بھی ناممکن نہیں۔
خُدا کا کلام پڑھنا آپکو منفی سوچ سے چھٹکارا اور خُدا پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

(ritardiation) کسی چیز کا حل نہیں
میں نے دماغ کو خُدا اور اُس کے کلام پر  ایمان رکھنے کی تربیت کی ہے اور جب میَں نے اپنے حالات سے بڑھ کر اُس پر بھروسہ کیا تو مجھےاُس قوت کا تجربہ ہوا جو خُدا کے ذریعہ سے ہمیں دستیاب ہوتی ہے۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ خُدا کے لئےکچھ بھی ناممکن نہیں ( کُچھ بھی نہیں).."
سمیر نے ملائمت سے کہتے ہوئے اپنی بات مکمل کی...
"پتا نہیں.."

وُہ شدید ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوچکی تھی جو چار دیواریں اُس نے اپنے گرد کھڑی کر رکھی تھیں وُہ شخص اُسے گرانے کے لئے پہلی ضرب لگا چُکا تھا اور وُہ اپنے اُس کمفرٹ زون کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی...

سمیر نے اُس کے چہرے کے بدلتے زوایوں کو بغور دیکھا اور گہری سانس لے کر گردن کرسی کی پُشت سے ٹکا لی..

"میں دیکھ کر آتی ہوں شاید زیان اُٹھ گیا ہے.."
وُہ جلد از جلد وہاں سے چلی جانا چاہتی تھی...
"ہاں جائیں مگر ایک بات سن لیں زندگی "گزاریں" نہیں اور نہ اِسے یونہی "گزرنے" دیں بلکہ زندگی کو "جئیں" زندگی کو "زندہ" رہنے دیں.."
اُس نے آنکھیں بند کیے ہی کہا...

دُعا کُچھ لمحے اُس کے چہرے کو دیکھتی رہی پھر اپنا سر جھٹک کر اندر چلی گئی..
_________________________________________

آسمان کی لامتناہی وسعتوں نے نیلگوں رنگ اُوڑھنا شروع کردیا تھا طائر اپنے اپنے گھونسلوں کو خیر آباد کہہ کر رزق کی تلاش میں نکل گئے اُس کی نظروں کے عین سامنے سوریہ مشرق سے آہستہ آہستہ سر اُٹھا رہا تھا...
شادمان ٹاؤن اور سخی حسن کو جوڑتے دوڑ کے بائیں طرف غفران کا بنگلہ تھا وہ گیلری میں کھڑی خاموش،روڈ کی دیکھ رہی تھی  کبھی کوئی گاڑی یا بائک تیزی سے گزر کر خاموش کھائی میں پتھر پھینکتی آگے بڑھ جاتی اور پیچھے صرف آواز رہ جاتی گونجتی ہوئی..
کُچھ ہی دیر ہوئی تھی اُس نے دیکھا چھ سات خاکروب اپنی اپنی جگہ طے کرکے کام میں جُت چکے تھے..
ٹھنڈی تازہ ہوا اُس کی طبیعت پر اچھا اثر ڈال رہی تھی وہ خود کو کافی ریلکس محسوس کر رہی تھی..
گیلری میں رکھی کُرسی کو کھینچ کر وُہ وہی باؤنڈری وال کے ساتھ ٹِک کر بیٹھ گئی...

دل کے تاروں کو چھوتی ہوئی انسان اور انسان کی محبتوں کی کہانی، رویوں، جذبوں، دُکھوں، امیدوں اور خوابوں کی کہانی۔ تنہائی کی کہانی، تنہائی کی محفلوں کی کہانی۔ ہر فرد کی زندگی اور زندگی کے حالات کی طر ح منتہٰی کی کہانی بھی الگ تھی۔ ہر فرد کی طرح اُس کی کہانی دنیا کی تمام کہانیوں اور تمام باتوں سے زیادہ رنگین و سنگین اور اہمیت کی حامل تھی۔اُس کی کہانی مدوجزر کا شکار ہوتی تھی۔  اُس کی زندگی میں کردار In ہوئے تھے۔ کچھ کردار خاموشی سے out  ہوگئے تھے۔ حاضر منظر سے نکل کر پسِ منظر میں چلے گئے۔
جیسے زیان اب ماضی ہوچکا تھا چاہت کے جس احساس کو وُہ محسوس بھی نہ کرسکی تھی وہ اب ماضی ہوچکا تھا اور اُس کا حال غفران تھا...

مگر کچھ کرداروں کا اثر رہتی عمر تک رہتا ہے۔وُہ لوگ وقت طور پر ہی شاید زندگی میں آتے ہیں "زندگی" حسین ہے احساس کروانے اور پھر چلے جاتے ہیں شاید دوبارہ نہ ملنے نہ آنے کے لیے مگر کچھ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مگر کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ کب اْس کی یکسانیت سے بھرپور کہانی میں کوئی موڑ آجائے یا اُچھل کود سے بھرپور زندگی سکوت اور ٹھہراؤ کے سمندر میں اُتر جائے۔ کبھی کبھی پوری زندگی عمرقید میں گْزرتے گزرتے خاتمے کی جانب ہوتی ہے تو اچانک کہیں سے کوئی اجنبی محبت بھرا دل آزادی کی کنجی تھامے نمودار ہوجاتا ہے، تو کبھی تمام عمر، شوق آوارگی ٹوٹے پتوں کی طرح ادھر سے اُدھر اُڑاتا پھرتا ہے تو ایسے میں کوئی مہرباں، کوئی ہمدم، زخموں سے چُور بدن کو مرہم لگانے اور مدد کو چلا آتا ہے۔

کچھ پتا نہیں  کب کیا ہوجائے ۔ بس یو نہیں یک دم سے کچھ ہوجاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گہر ے سرمئی بادل چاروں اور اندھیرا کرکے بارش برسانا شروع کردیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یک دم سورج، بادلوں کی اوٹ سے نکل کر اُجالا کرڈالتا ہے۔
ایسا کچھ ہوجاتا ہے جو سوچ میں بھی نہیں ہوتا۔ کبھی تو بُجھا ہوا دل، نئی نمو نئی حرارت پاکر دوبارہ دھڑکنے لگتا ہے، تو کبھی ہنستا مُسکراتا شاداب چہرہ، غم اور اُداسی کی زرد چادر اوڑھ لیتا ہے۔ کب اوپر سے بلاوا  آجائے اور وہ ہوجائے، کچھ پتا نہیں چلتا۔
ہم تیار ہوں یا نہ ہوں، ہم پُرامید ہوں یا نہ ہوں، ہمارے دل میں اُس بات کی خواہش ہو یا نہ ہو۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ کسی خاص خیال کو لفظوں کی شکل دینے بیٹھا جاتا ہے لیکن تحریر کی تصویر جب پوری ہوتی ہے تو متن اور حوالوں سے لے کر مرکزی خیال تک سبھی کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔

زندگی بدلتی رہتی ہے۔ کبھی کسی بات کی و جہ سے، کِسی فرد کے آنے یا جانے کی وجہ سے، کسی واقعے یا سانحے کی وجہ سے۔ تبدیلی جاری رہتی ہے۔ کبھی بہت آہستگی سے، غیرمحسوس طریقے سے اور کبھی اچانک، یک دم، آناًفاناً ، بنا کسی دستک کے دھڑا، دھڑوم کی آواز آتی ہے اور ہمارے اندر اور باہر سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ہماری مرضی کے خلاف۔ ہمار ے خواب و خیال کے گمان سے بالکل ہٹ کر۔

ہم چاہیں، نہ چاہیں۔ ہمیں تبدیلیاں برداشت کرنی پڑتی ہی۔  مگر پھر ہماری سوچیں پراگندہ اور خیالات، منتشر ہونے لگتے ہیں۔ انجانی اُداسی کے سائے ہماری  روح میں تاریکی پھیلانے لگتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب خلا کے مہیب سناٹے ہمارے خون میں سرسرانے لگتے ہیں۔ یہاں سے واپسی کا سفر پھر ممکن نہیں رہتا۔ نہ ہمت بچتی ہے نہ خواہش ۔ Point of No Return  پر پہنچ کر ایسے لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندوں میں نہیں رہتے
لیکن جس تبدیلی کا ازن قدرت کی طرف سے ہوتا ہے، جو انتہائی خاموشی سے اچانک ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہے اُس میں کسی خودرو اُگنے والے جنگلی پودے کی طرح بڑی مضبوطی بڑی جان ہوتی ہے۔ اُس میں پنپنے اور بڑھنے کی بڑی اہلیت ہوتی ہے۔ اس طرح کی تبدیلی میں عام طور پر قدرت کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ مصلحت ہماری سمجھ میں آجائے تو زندگی بہت سہل ہوجاتی ہے...

"میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں..."
وُہ بارہا خود سے کہتی تھی اُسے زیان سے محبت نہیں تھی مگر اُسے اُس کی محبت کی قدر تھی...

"پُرانی باتوں کو بھول جاؤ  میں پہلے والا غفران نہیں ہوں تُم سے محبت کرتا ہوں بس اب تُم میری ہوچکی ہو نا اب میں سارے شکوے ساری شکایت دور کردوں گا..."
اِس اظہارِ محبت سے اُسے نفرت تھی کیونکہ اِس میں صرف ذلت تھی مگر کل رات کو اُس نے غفران کا جو روپ دیکھا تھا وُہ اُسے خوش فہمی میں مبتلا کر رہا تھا کہ زندگی اچھی گزر سکتی ہے وُہ سراپا محبت تھا کل اُسے لگا ہی نہیں کہ وُہ اُس غفران کو جانتی ہے...
"میری زندگی کی سب سے بڑا "خواب" زیان آپ ہیں "خوبصورت خواب" مگر میری زندگی کی حقیقت میرے خوابوں پر حاوی ہے میں سراب کے پیچھے نہیں بھاگ سکتی نہ بھاگنا چاہتی ہوں میں حقیقت تسلیم کرنا چاہتی ہوں جبراً ہی سہی مگر حقیقت یہ ہے کہ میں "منتہٰی غفران" ہوں حالانکہ یہ نام میرے لیے باعثِ شرم ہے باعثِ ذلت، باعثِ رسوائی، مگر اب یہ میری شناخت بن چُکا ہے اور مُجھے اِسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے.."
وُہ اپنی زندگی کا احتساب کرنا چاہتی ایک راہ پر چلنا چاہتی تھی اور بدقسمتی وُہ راہ غفران کی طرف جاتی تھی...
اُسے پتا ہی نہیں چلا اُسے بیٹھے ہوئے گھنٹے سے بھی اوپر ہوگیا تھا اُس کی سوچوں میں مخل کمرے سے آتی غفران کی آواز سے پڑا تھا.....
"آرہی ہوں غفران.."
اُس نے پیر زمین پر بدقت جماتے ہوئے کھڑے ہوتے ہوئے کہا..
"کہاں چلی گئی تھی کب سے آوازیں دے رہا ہوں..؟"
وُہ الماری میں کُچھ ڈھونڈھ رہا تھا..
"ایسے ہی ہوا لینے بیٹھ گئی تھی آپ کیا ڈھونڈھ رہے ہیں.."
اُس نے قریب آکر پوچھا...
غفران نے اِس تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کیا تھا...
"کپڑے دیکھ رہا ہوں کیا پہنوں آج آفس کے لیے.."
وُہ ہینگ شرٹس کو اِدھر اُدھر کرتے ہوئے جھنجھلاہٹ سے بولا...
"میں نکال دوں؟.."
اُس نے اجازت مانگی تھی...
پہلے اُس نے ہے  یقینی سے اُس کی طرف دیکھا پھر اپنے ہاتھ پیچھے کرلئے..
وُہ بڑے اطمینان سے شرٹس دیکھنے لگی وُہ غفران سے بار بار ٹکرا رہی تھی جگہ کم تھی مگر اُس کے چہرے پر اطمینان تھا اندرونی خلفشار ظاہر نہیں ہو رہتا وُہ قصداً اُس تنگ جگہ پر کھڑا ہوا تھا پھر خود ہی پیچھے ہوگیا...
کُچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد اُس نے آسمانی رنگ کی شرٹ اور نيوی بلو رنگ کا کوٹ پینٹ نکال کر اُس کے سامنے کرکے پوچھا...
"یہ ٹھیک ہے؟.."
"ہاں پرفیکٹ ہے..."
غفران نے اُسے سراہتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا..
"یہ لیں آپ نہا لیں جاکر جب تک میں ناشتہ بنا لاتی ہوں آپکے لیے..."
وُہ ہینگر میں سے پینٹ اور الماری سے تولیہ نکال کر اُسے دیتے ہوئے بولی...
وُہ بھی چُپ چاپ اُس کے ہاتھ سے پینٹ اور تولیہ لے کر واشروم میں چلا گیا..
اُس نے بالوں کو کیچر میں قید کیا اور کمرے کا سامان سمیٹنے لگی...

_________________________________________

"ماہی کیا کر رہی ہو.."
شائنہ نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا...
"ناشتہ بنا رہی ہوں آپی غفران کے لیے اُن کے آفس جانے کا ٹائم ہورہاہے.."
اُس نے توے پر یک طرفہ تل چُکے پراٹھے کو پلٹتے ہوئے جواب دیا..
"آپ کے لیے بھی بنادیتی ہوں آپکو بھی تو اسکول جانا ہوگا.."
وُہ پیڑے کو خشکی لگا کر چکلے پر رکھتے ہوئی بولی...
"نہیں جانا مُجھے آج تُم سب چھوڑو یہ بتاؤ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟؟"
اُس نے تشویش ناک نظروں سے اُسے دیکھا..
"کُچھ نہیں ہوا  ہے آپی مُجھے کیا ہونا ہے بِلکُل ٹھیک ہوں میں.."
وُہ دوسرے چولہے پر فرائی پین رکھ کہ اُس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔
"یہ کیا کررہی ہو تم تمہاری حرکتیں بِلکُل نارمل نہیں ہیں ماہی مُجھے بتاؤ کیا ہوا ہے کیا اُس گھٹیا آدمی نے کُچھ کہا یا پھر سے تُم پر ہاتھ اُٹھایا بولو.."
وُہ چولہا بند کرکے اُسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے بولی..
"کُچھ نہیں ہوا ہے آپی بس میں نے حقیقت تسلیم کرلی ہے.."
"کیسی حقیقت.."
"کہ غفران میرا شوہر ہے اور یہ فیصلہ بھی میرا تھا وجہ چاہے جو بھی ہو مگر حقیقت یہی ہے اور میں اِسے مان چُکی ہوں اور غفران اتنا بھی بُرا نہیں ہے جتنا میں اُسے سمجھتی آرہی تھی ہم لوگ ایک فعل پر بہت جلدی کسی کو جج کرلیتے ہیں ہوسکتا ہے وُہ اِنسان دِل کا اچھا ہو شاید حالات کُچھ غلط ہوں.."
اُس نے خود کو تسلی دی تھی اور اُس سے جھوٹ بولا تھا..
"مُجھے یقین نہیں آرہا یہ تُم  کہہ رہی ہو ماہی مُجھے بِلکُل یقین نہیں آرہا  صرف دو دنوں میں اتنی جلدی ہار مان لی تُم نے.."
شائنہ نے طنز کیا تھا..
وُہ چُپ چاپ ٹرے میں ناشتہ سجانے لگی...
"ماہی وُہ میرا بھائی ہے بچپن سے جانتی ہوں میں اُسے اُس کی ہر عادت ہر خصلت سے واقف ہوں وہ ایک سرکش اِنسان ہے بہت زیادہ خود پسند ،خود پرست،انا پرست.."
"آپی اُس نے مُجھے سے معافی مانگی اور کہا آئندہ نہیں کریں گے اور میرے زخموں پر اپنے ہاتھوں سے مرہم لگایا کل رات میرے ہاتھ پر گرم چائے گر گئی تھی جلن مُجھے ہورہی تھی مگر وہ تڑپ رہا تھا..."
اُس نے نظریں چرا کر کہا...
"تمہارے لیے معافی کے چند لفظ کافی ہیں "ماہی" کتا اگر کاٹ کر کے آپکے زخم پر زبان پھیرے تو کیا آپ اُس سے محبت کرنے لگیں گے.."
وُہ تلخ لہجے میں بولی...
"آپ اُس سے اتنی نفرت کرتی ہیں.."کیوں؟"
"کیونکہ اُس نے میری زندگی تباہ کی ہے وُہ "قاتل" ہے قاتل..."
اُس کی آنکھوں کے سامنے چار سال پہلے کی اُس بھیانک رات کا واقعہ رونما ہوگیا تھا جس نے اُسے جیتے جی مار دیا تھا...
"قاتل.." اُس نے ہراساں ہوکر شائنہ کو دیکھا...
"ہاں قاتل "قاتل ہے وُہ.."
اُس کے چہرے پر شدید نفرت تھی..
اُسے یکدم احساس ہوا کہ وُہ زیادہ بول گئی ہے یہ راز تو اُسے راز رکھنا تھا وُہ جیسا بھی تھا وہ جو بھی تھا وُہ اُس کا خون تھا اور اِنسان کمزور پڑ جاتا ہے اِن رشتوں کے سامنے...
"میری خوشیوں کا قاتل ہے وُہ میری خوشیوں کا.."
اُس نے فوراً سے بات بنائی تھی...
"میں کیا کروں آپی رونے بیٹھ جاؤں اللہ سے شکوے کروں شکایتیں کروں..
کیا اِس سے حققیت بدل جائے گی؟؟ اگر ہاں تو میں بھی ماتم کرنے  بیٹھ جاتی ہوں آہیں بُلند کرتی ہوں دہائیاں دیتی ہوں آہ دُنیا والوں بڑا ظُلم ہوگیا میرے ساتھ ایک جانور کے پلے مُجھے باندھ دیا گیا.."
وُہ جیسے پھٹ پڑی تھی...
"ماہی میری بات..."
منتہٰی نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے روک دیا اور ٹرے اُٹھا کر چلی گئی......
وُہ وہی کھڑی تاسف سے اُسے جاتا دیکھتی رہی...
"غفران ایک کرمنل ہے شائنہ میں ایسے ہی اُسے ناپسند نہیں کرتا اور کیا پتا قتل بھی کیے ہو اُس نے.."
مُنیر اور اُس کی آخری ملاقات میں کہے جانے والے الفاظ آج بھی اُس کی سماعتوں میں زندہ تھے...
_________________________________________

وُہ نہا کر باہر آیا تو کمرہ سِمٹا ہوا تھا ہر چیز اپنی جگہ پر تھی روایتی بیویوں کی طرح منتہٰی نے اُس کی گھڑی،رومال،والٹ اور موبائل سب ایک جگہ کرکے رکھے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر کُچھ دیر کے لئے اُس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی تھی...
وُہ شرٹ پہننے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے بال سیٹ کرنے لگا...
وُہ اُسی وقت کمرے میں داخل ہوئی تھی ٹرے اٹھائے...
اُس نے پرفیوم کے دو تین اسپرے کرکے طائرانہ نظر اُس پر ڈالی جو بیڈ پر پڑا تولیہ اُٹھا رہی تھی...
"شام کو تیار رہنا اچھے سے شاپنگ کے لئے چلیں گے.."
اُس نے موبائل کا لاک کھولتے ہوئے تحکم بھرے انداز میں کہا...
"ٹھیک ہے.."
اُس نے مختصر سا جواب دیا...
"ناشتہ.."
"مُجھے دیر ہورہی ہے جانا ہوگا ناشتہ تُم کرلینا..."
اُس کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی جو اُسے وجیہہ سے وجیہہ تر بناتی تھی مگر موبائل پر کُچھ دیکھتے ہوئے اُس کے نقوش تن گئے وُہ شدید طیش میں نظر آرہا تھا...
اُس کا فون بجنے لگا...
"آرہا ہوں پڑھ لیا ہے میں نے میسج آکر بتاتا ہوں اُس سور کر کے بچے کو ہمت کیسے ہوئی اُسکی..."
اُس نے مغلظات بکتے ہوئے فون بند کیا اور کوٹ اُٹھا کر شدید غصّے میں کمرے سے نکل گیا...
وُہ سراسیمہ سی اُسے دیکھتی رہ گئی...

_________________________________________

"تیری ہمت کیسے ہوئی میرے آفس میں میرے ساتھ میں گھسنے کی.."
غفران نے دروازہ پٹخ کر بند کرتے ہوئے شدید غصّے میں کہا...
"کام ڈاؤن اتنا ہائپر مت ہو میں تو صرف سہراب خان کا پیغام لے کر آیا ہوں پھر بھلے پیغام سُن کر تُم اُسے گولیوں سے بھون دینا میرا کیا..."
حیدر نے انتہائی مکاری سے کہا...
"یوں اِس طرح میرے گارڈز کے منع کرنے کے باوجود بھی زبردستی گھسنے کی غلطی کا نتیجہ جانتے ہو.."
وُہ سہراب خان کے نام پر کُچھ ڈھیلا ہوا تھا مگر لہجے کی تندی بدستور قائم تھی...
"ہاں جانتا ہوں بس ایک گولی اور قصہ ختم مگر تُم ایسا میرے ساتھ نہیں کرو گے کیونکہ آل ریڈی تُم بہت کرائسیز میں گھرے ہو یہ نئی کنٹرورسی افورڈ نہیں کرسکتے.."
اُس نے صحیح کہا تھا غفران نارمل ہوچکا تھا...
"کیا کہا ہے سہراب نے.."
اُس نے حتٰی المکان نارمل رہنے کی کوشش کی تھی...
"بھڑک مت اُٹھنا تحمل سے بات سننا اور سمجھنا.."
"بک بھی چُکو..."
وُہ درشتگی سے بولا...
"سہراب خان کو تمہاری گھر والی بڑی پسند آگئی ہے کہا ہے اُن کی بھی دوستی کروا دو اپنی بیوی سے اگلا ٹینڈر تمہارا پکا ہو..."
اُس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی غفران کے ہاتھوں میں اُس کی گردن تھی اُس نے ایک جھٹکے سے اُسے گلاس ٹیبل پر پھینکا جس سے اُس میں دراڑ پڑ گئی..
"تیری ہمت کیسی ہوئی میری بیوی کے بارے میں اتنی گھٹیا بات کہنے کی.."
اُس کے ماتھے پر اور کان کے پاس کی رگیں خطرناک حد تک پھولی ہوئی تھیں..
"بزنس ہے غفران ٹیک اٹ ایزی..."
اُس کے الفاظ وہی دم توڑ گئے جب فضا میں فائر کی کئی آوازیں گونجی....

_________________________________________

آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر منتہٰی نے اپنا تنقیدی جائزہ لیا اُس نے شائنہ کا ہلکے ہرے رنگ کا لباس پہن رکھا تھا جس پر سنہری گوٹوں کا کام ہوا تھا اُس نے ہم رنگ دوپٹہ اچھی طرح شانوں پر پھیلایا سیاہ ریشمی بالوں کو  آگے کی طرف کیا  ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ ہمیشہ کی طرح وُہ بے حد حسین نظر آرہی تھی غفران کے آنے کا وقت ہورہا تھا اور صبح وُہ تنبیہ کرکے گیا تھا کہ واپسی پر وُہ اُسے تیار ملے شام میں باہر لے کر جائے گا اُسے شاپنگ پر...
قدموں کی آواز پر اُس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ غفران ہی تھا..
بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے شرٹ بھی بازو کے پاس سے پھٹی ہوئی تھی اور ناک سے خون بھی بہہ رہا تھا  شاید کسی سے لڑ کر آیا تھا  کھول کر اُس نے شرٹ کمرے میں دور پھینکی اور گرنے والے انداز میں بیڈ پر لیٹ گیا...
وُہ کُچھ دیر یونہی کھڑی اُنگلیاں مروڑتی مضطرب سی کھڑی رہی پھر کُچھ ہمت کرکے اُس کے پاس آئی..
"غفران.." اُس نے آہستہ سے اُسے پُکارا مگر جواب ندراد تھا..
"غفران آپ ٹھیک ہیں..؟"
اُس نے جھک کر اُس کا بازو ہلایا تو اُس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اُس کی آنکھیں خون چھلکا رہی تھیں وہ ڈر کر بے اختیار پیچھے ہٹی مگر اب وُہ اُٹھ چکا تھا سرعت سے جاکر کمرے کے دروازہ بند کیا اور جارحانہ تیور لیے اُس کی جانب بڑھا پیچھے بیڈ تھا وُہ بیڈ پر گر گئی اُسی لمحے وُہ اُس پر جُھکا تھا..

"شوہر ہوں تمہارا نام مت لیا کرو میرا سمجھ آئی نام مت لیا کرو اور یہ کس کے لیے اتنا سج دھج کر تیار ہوئی ہو اب کسے پھانسنا ہے.."
وُہ پھر وحشی جانور بن چُکا تھا اُس کے جسم کو زخمی کرنے لگا منتہٰی کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا غفران کے تھپڑوں سے گویا سارے جسم کا خون سمٹ آیا ہو وُہ اب اپنا بیلٹ اُتار رہا تھا منتہٰی نے اُس کے ہاتھ کو روکنا چاہا مگر اُس نے اُلٹے ہاتھ سے اُس پر وار کیا ہاتھ میں پہنی گھڑی ٹوٹ کر زمین پر جاگری منتہٰی کا گال چِھل گیا تھا...
اُس نے بیلٹ نچلا حصہ پکڑ کر بکل والا حصہ مارا تھا جو اُس کی آنکھ کے قریب لگا تھا...
"نہیں نام لوں گی کبھی بھی نہیں لوں گی"
وُہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی...
"غفران دروازے کھولو غفران مت مارو اُسے تمہیں خُدا کا واسطہ ہے.."
دروازہ پیٹنے کے ساتھ ساتھ شائنہ کی لرزتی آواز سنائی دی..
اُس کے طیش میں میں مزید اضافہ ہورہا تھا اُس نے اُسے بالوں سے پکڑ کر بری طرح جھٹکے دے ڈالے...
"بدکردار عورت مردوں کو اپنے پیچھے لگانے والی..."
وُہ نجانے کیا کیا بول رہا تھا مگر وُہ بے ہوش ہوچکی تھی...

_________________________________________

"ماہی..."
وُہ نیند سے ایک دم ہڑبڑا کر اُٹھا تھا سانس دھونکی کی مانند چل رہا تھا چہرہ پراگندہ تھا...
"کیا ہوا زیان..؟"
سمیر فوراً صوفے سے اُٹھ کر اُس کے پاس آیا...
"ماہی کو کوئی مار رہا ہے وُہ مُجھے آوازیں دے رہی ہے.."
وُہ کھوئے کھوئے سے انداز میں بولا...
"کیا بول رہے ہو یار یقیناً تُم نے کوئی خواب دیکھا ہے.."
"ہاں بہت بُرا خواب دیکھا ہے کوئی نادیدہ شے ماہی کو مار رہی ہے وُہ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے پھر سمٹ جاتی ہے مگر پھر کوئی اُسے مارتا وُہ پھر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی وُہ مُجھے آوازیں دے رہی ہے سمیر میں سُن سکتا ہوں وُہ مُجھے بلا رہی ہے.."
اُس کی حالت غیر ہورہی تھی...
"کُچھ نہیں ہوگا ماہی کو وُہ بِلکُل ٹھیک ہوگی."
"نہیں وُہ ٹھیک نہیں ہے وُہ بہت تکلیف میں ہے وُہ مُجھے بلا رہی ہے مُجھے جانا ہوگا ہاں وُہ مُجھے بلا رہی ہے "میری ماہی مُجھے بلا رہی ہے..."
اُس کی حالت جنونی ہورہی تھی  اُس نے ایک جھٹکے سے ڈرپ اور لگی مشینیں کھینچ کر خود سے الگ کیں اور اُٹھنے لگا...
"زیان کہاں جارہے ہو زیان..."
سمیر چیخا تھا مگر اتنے میں وُہ باہر نکل چُکا تھا....
"زیان ہم کل ہی دُعا کو اُس کی طرف بھیجتے ہیں تُم رُک جاؤ تمہاری طبیعت ابھی اِس قابل نہیں ہے.."
وُہ اُس کے پیچھے پیچھے ہسپتال کے کوریڈور میں بھاگ رہا تھا...
"وُہ ابھی تکلیف میں ہے وُہ مُجھے بلا رہی ہے میں کیسے رُک جاؤں نہیں میں نہیں رُک سکتا.."
وُہ تیزی سے سیڑھیاں اُترنے لگا...
سمیر سمیت بمشکل تین چار بندوں نے مل کر اُسے قابو کیا..
"نرس انجیکشن ریڈی کرو.."
آن دیوٹی ڈاکٹر بھی آچکا تھا...
"مُجھے جانے دو وُہ مُجھے بلا رہی ہے سمیر کوئی اُسے مار رہا  بہت بری طرح مُجھے جانے دو.."
اُس نے دونوں ہاتھ چھڑوانے  کی بھرپور کوشش کی...
ڈاکٹر اُسے انجیکشن لگا چُکا تھا...
"میں اُسے بچاؤں گا وُہ مُجھے بلا رہی ہے۔۔۔ مُجھے جانا ہے سمیر "میری ماہی" بلا رہی ہے..."
وُہ کہتے ہوئے ہوش کی دُنیا سے ناطہ توڑ گیا...
جبکہ سمیر اِس نئی صورتحال کو دیکھ کر بہت پریشان ہوگیا تھا....

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro