قسط نمبر ۱۷
#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۷
وُہ بس بے بسی سے بیٹھی اُس کی جسارتوں پر ضبط کرتی رہی کبھی جس کے ساتھ کا خیال اُسے اچھا لگا کرتا تھا جسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اُس کی نظریں شرم سے جھک جایا کرتی تھیں آج وُہ اتنی ہی شدت سے اُس اِنسان سے نفرت کرتی تھی جس شخص نے اُسے کبھی عزت کے قابل بھی نہیں سمجھا تھا وقت اور حالات نے اُسے اُس ہی کی عزت بنادیا تھا...
"اتنا ڈر اتنا خوف بس یہی یہی تو دیکھنا چاہتا ہوں میں تمہاری آنکھوں میں اب سے میری پوری کوشش ہوگی کہ میرے ساتھ گزارے جانے والا زندگی کا ہر لمحہ تمہیں یہ پچھتاوا رہے کہ کیوں کیوں تُم نے اُس دِن مُجھے روکا تھا کیوں؟.."
غفران نے اُس کی کلائی کو بے دردی سے مروڑتے ہوئے نخوت سے کہا...
"غفران مُجھے درد ہورہاہے.."
وُہ دھیمے پن سے بولی...
"اور کیا چاہتا ہوں میں یہی تو چاہتا ہوں تُمہیں درد ہو تُمہیں تکلیف ہو بلکل اتنی جتنی ذلت میں نے اُٹھائی تھی تمہارے بھائی کی لگائی گئی ہر ضرب کا بدلہ تُم سے سود سمیت لوں گا مائی بیٹر ہالف.."
اُس نے دائیں کان میں آویزاں سونے کی بالی میں اپنی شہادت کی اُنگلی پھنسائی اور استہزایہ انداز میں منتہٰی کی طرف دیکھا اُس کی سیاہ آنکھوں میں صرف خوف موجزن تھا...
"ایک نہایت ناخوش گوار زندگی میں تمہارا سواگت ہے منتہٰی غفران.."
وُہ اپنی اُنگلی پر زور دیتے ہوئے مکروہ مسکراہٹ سے بولا تو منتہٰی کے کان سے خون بہہ نکلا…
اُس کی آنکھیں لبالب پانیوں سے بھر گئیں تو وُہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا...
"تمہاری رہی سہی اکڑ بھی کل رات ٹوٹ جائے گی کیونکہ کل کی رات تمہاری زندگی میں آنے والی ہر رات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہوگی تیار رہنا تُم.."
وُہ تنفر سے کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا...
اُس نے شل ہوتے اعصابوں پر قابو پایا مگر آگے آنے والی زندگی کے خوفناک سائے اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے دکھائی دیئے...
_________________________________________
"دُعا تُم اتنی جلدی آگئی انکل کی طبعیت کیسی ہے ؟؟"
زیان نے اُسے اپنی طرف آتے دیکھ کر بے تابی سے پوچھا مگر اُس کا چہرہ سپاٹ تھا بلکل..
"دُعا کُچھ بتاؤ یار.."
زیان نے اُسے خاموش کھڑے دیکھ کر اُلجھن بھرے انداز میں پوچھا..
"گھر چلو اور مُجھ سے پورے راستے کُچھ مت پوچھنا گھر جاکر سب بتاؤں گی.."
اُس نے بے تاثر چہرے کے ساتھ کہا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیک سیٹ پر بیٹھ گئی...
"دُعا کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے نا آپ نے انتہائی عجلت میں کال کرکے ہمیں بلایا."
فرنٹ سیٹ پر بیٹھے سمیر نے چہرہ پیچھے کرکے اُس سے پوچھا..
"مُجھے اُس گھر کے ماحول میں گهٹن ہورہی تھی عجیب حبس کا عالم ہے وہاں رشتوں کی بھیڑ ہے مگر مگر ہر نفس بے حِس ہے
اپنی خوشیاں اپنے سُکھ دیکھ رہا ہر خون کے رشتوں میں کوئی گرم جوشی نہیں سرد بلکل برف جیسے احساس ہیں.."
وُہ نجانے کیا کیا بول رہی تھی اُن دونوں کو دُعا اپنے حواسوں میں نہیں لگی..
"میں منتہٰی کو کال کرتا ہوں وُہ ہی کُچھ بتا سکتی ہیں.."
سمیر نے جیب سے موبائل نکال کر منتہٰی کا نمبر ملایا مگر کسی نے نہیں اُٹھایا سمیر میں تین سے چار مرتبہ ٹرائی کیا پہلے کوئی کال اُٹھا نہیں رہا تھا پھر نمبر بند ہوگیا..
"دیکھو دُعا جو بھی بات ہے صاف صاف بتادو ماہی تو ٹھیک ہے نا.."
اُسے نئے خدشے نے آگھیرا...
"ہاں وُہ ٹھیک ہی ہے اُسے کیا ہونا ہے "اب" تک تو ٹھیک ہی ہے.."
اُس نے اب پر زور دیتے ہوئے کہا....
"زیان تُم گاڑی چلاؤ ماہی ٹھیک ہے فکر مت کرو انکل بھی ٹھیک ہیں بس تُم گھر چلو اپنے میں تمہیں سب بتاتی ہوں.."
اب کی بار وُہ لجاجت سے بولی تو زیان نے مزید کُچھ پوچھنے کا ارادہ ترک کرکے گاڑی مین روڈ پر ڈال دی..
پورے راستے اُن کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی ایک عجیب سی خاموشی تھی اُن تینوں کے بیچ...
دُعا نے میسج کرکے سمیر کو سرسری سا بتادیا تھا کیونکہ زیان کو وُہ اکیلے نہیں سنبھال سکتی تھی...
"یا خُدا.."
سمیر نے میسج پڑھ کر دل میں کہا اور ایک نظر بیک ویو مرر میں سے اُسے دیکھا جو اُس کی پشت کو ہی گھور رہی تھی اور ترحم بھری نظر زیان پر ڈال کر خود کو آنے والے طوفان کے لئے تیار کرنے لگا...
______________________________________________
"مبارک ہو ماہی بہت بہت مبارک ہو چاچا جان نے تمہاری غفران کے ساتھ آج ہی رخصتی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے بہت مبارک ہو..."
شائنہ نے طنزیہ لہجے میں کہا...
"اتنی بیزاری کیا اتنا بوجھ ہوں میں ابو پر.."
وُہ محض سوچ کر ہی رہ گئی..
"تُم نے خود پر بہت ظلم کیا ہے ماہی بہت ظلم..."
وُہ تاسف سے کہتے ہوئے اُس کے سامنے آکر بیٹھ گئی...
"آپی مانی بھائی مُجھ سے بہت ناراض ہوں گے اُن کی روح بہت تکلیف میں ہوگی.."
وُہ بالآخر اپنا ضبط کھو رہی تھی...
"تُم نے زندگی برباد کرلی ہے اپنی ماہی تُم جیسی لڑکی کا گزارہ نہیں ہے غفران جیسے خرانٹ مرد کے ساتھ تُم پھول ہو اور وہ پھولوں کو اپنے پیروں تلے روندنے والا سفاک اِنسان.."
"آپ نے ابو کے جڑے ہوئے ہاتھ نہیں دیکھے تھے آپی آپ نے اُن کی خود کو مار دینے کی دھمکی نہیں سنی تھی آپ پر نہیں آیا یہ مرحلہ آپ کبھی نہیں سمجھ سکیں گی کبھی بھی نہیں.."
وُہ دُکھ سے بولی...
"ماہی کسی بھی رشتے کی کامیابی کے لیے اس میں عزت کا رشتہ ہونا ضروری ہے عزت احساس سے جڑی اور احساس پیار اور محبت کی پہلی سیڑھی کا نام ہے یہ ہی نہ ہو تو کوئی رشتہ نہیں چل سکتا احساس ختم ہوجائے تو انسانیت مر جاتی ہے۔
اور غفران کے اندر کا اِنسان مرچکا ہے وُہ کسی کو خوشی نہیں دے سکتا کسی کو بھی نہیں..."
وُہ اُس کے سرد ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر مصالحت سے بولی...
"انسان کو کسی بھی تکلیف کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود اس تکلیف سے نا گزرے۔ ہمارے معاشرے سے احساس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہم کسی انسان کو پریشان دیکھ کر اس کی مدد کرنے کے بجائے اس کو ہی باتیں سنانا شروع ہوجاتے ہیں کہ تم نے یہ کام غلط کیا، تمہیں فلاں کام نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کوئی یہ نہیں سمجھتا جو کام اُن لوگوں کو دیکھنے میں اتنا مشکل اور اذیت ناک لگ رہا ہے اُس اِنسان کو اب ساری عُمر اُس کے نتائج سہنے ہیں.."
وُہ ہر ایک سے شدید بددل ہوچکی تھی..
احساس ہی ہے جو رشتوں کو جوڑے رکھتا ہے اور احساس کے خاتمے کے ساتھ ہی تمام رشتے اور تعلقات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔
جیسے منتہٰی آج اپنا ہر رشتہ اُس گھر سے ختم کرکے جانے والی تھی اُس نے خود سے عہد کیا تھا اب چاہے زندگی دُکھ دے یا سُکھ اُس نے بس چُپ رہنا ہے فیصلہ کیا ہے تو نبھانا بھی ہے..
" آپی یہ بات درست ہے کہ احساس نہ ہو تو تمام رشتے ادھورے سے لگتے ہیں۔ احساس کی عدم موجودگی کی وجہ سے رشتوں میں جو خلاء پیدا ہوتا ہے وہ جو کبھی بھی پورا نہیں ہوپاتا۔ کسی نے بلکل ٹھیک کہا ہے رشتے درختوں کی مانند ہوتے ہیں، بعض اوقات ہم اپنی ضرورتوں کی خاطر انہیں کاٹ دیتے ہیں اور خود کو گھنے سائے سے محروم کر دیتے ہیں..ابو نے آج اپنی ضرورت و حساب سے مُجھے کاٹ کر الگ کردیا خود نے دُنیا کے جھوٹے الزامات سے بچنے کے لیے مُجھے حقیقی دوزخ میں دھکیل دیا ہے کسی نے مُجھ سے کہا تھا مردوں کو غیرت کے بوجھ بھی ہم نے ہی ڈھوہنے ہوتے باپ کی غیرت کے بھائی کی غیرت کے شوہر کی غیرت کے جہاں کوتاہی ہوئی جہاں ذرا سی عورت کی باغیانہ سوچ نے انگڑائی لی وہی یہ غیرت کے مارے یا تو خود مرنے کی دھمکیاں دیتے یا ہمیں ہی مار دیتے...
ابو نے وہی کیا آج مُجھے لگتا تھا وہ ستم ظریف عورت ہے ذبردستی کی مظلوم مگر آج میں خود وہی ہوں مُجھے اپنے کاندھوں پر منوں بوجھ محسوس ہو رہا ہے ہاں میں بھی ایک بزدل لڑکی ہوں مُجھے بھی غیرت پر بھی غیرت محمول کردی گئی ہے اور مُجھے اِس بوجھ کو اب ساری عُمر ڈھوہنا ہے.."
وُہ اُس کے گلے لگ کر روپڑی...
__________________________________________________
زیان نے گاڑی کو بریک لگائے تب بھی دُعا یونہی بیٹھی رہی..
"دُعا گھر آگیا ہے.."
سمیر نے ذرا زور سے کہا تو وہ بغیر کُچھ کہے اُس کے برابر میں آکر کھڑی ہوگئی..
"چلو اندر.."
اُسے اتنا تو پتا تھا کُچھ بہت غلط ہوا ہے مگر وہ مسلسل دُعا گو تھا یہ منتہٰی کے متعلق نہ ہو...
"مما ہم لوگ کمرے میں ہیں ابھی پلیز کسی کو آنے مت دیجئے گا.."
زیان نے روشانے بیگم سے کہا اور اُن دونوں کو لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا..
"آپ صاف صاف بتاؤ کیا ہوا ہے دُعا اور سچ سچ.."
زیان نے دروازہ لاک کرتے ہوئے کہا..
دُعا نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو بولنے کے لئے تیار کیا...
"زیان میری بات تحمل سے سننا اور سمجھنے کی کوشش کرنا.."
دُعا نے اُس سے ملتجی انداز میں کہا..
"میں نے کہا جو بھی بات ہے صاف صاف بتاؤ دُعا.."
"زیان اُس کی مجبوری سمجھنے کی کوشش کرنا اُسے غلط نہیں.."
وُہ اُسے ہر طرح سے اعتماد میں لینا چاہتی تھی..
"دُعا مُجھے بات بتاؤ.."
وُہ دھاڑا..
"منتہٰی کو اُس کے ابو نے جھوٹ بول کر یہاں بلایا تھا اور اپنی قسم دے کر.."
اُس کی ہمت نہیں ہورہی تھی رشتوں کی سفاکی بیان کرسکے...
"قسم دے کر کیا.."
اُس کے سر میں دھماکے ہونے لگے تھے..
"دُعا بولو.."
اُس نے دُعا کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر بری طرح جھنجھوڑ ڈالا...
"منتہٰی کا نکاح کروادیا ہے اُس کے تایا زاد سے .."
دُعا نے کہہ کر رُخ موڑ لیا وُہ اب تک یقین نہیں کر پا رہی تھی خون کے رشتے اتنے بے رحم اور سفاک بھی ہوتے ہیں...
پورے کمرے میں خاموشی چھا گئی زیان کے چہرے پر بے یقینی تھی۔۔۔
"کیا کہا تُم نے..."
زیان کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا تھا..
"دیکھو زیان اُس کی مجبوری تھی.."
سمیر نے اُسے سمجھانا چاہا..
"دُعا یہ مذاق ہے یقیناً یار یہ مذاق ہی ہے تُو ہر بار اِسی طرح کرتی ہے مگر میں کہہ رہا ہوں بہت بھدا مذاق ہے یہ.."
وُہ ہنستے ہوئے بولا اُسے واقعی یقین نہیں آیا تھا...
"زیان اُس کی مجبوری تھی اُسے کرنی.."
دُعا نے ڈرتے ڈرتے کہا تُو زیان نے ہنس کر اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا...
"تمہیں کس نے کہا اتنا فضول سا مذاق کرنے کے لئے ماہی نے ویسے اُس کے اندر میرے جراثیم کب سے منتقل ہوگئے.."
"زیان.."
دُعا نے سختی سے پُکارا..
"کیا ہے یار دُعا کی بچی کتنی بڑی ڈفر ہو تُم یار ایسا مذاق کوئی کرتا ہے.."
وُہ اب اپنی کانپتی آواز خود محسوس کرسکتا تھا...
"تُم لوگ کیا کھاؤ گے میں امی کو بتاکر آتا ہوں.."
وُہ اپنی دونوں مٹھیاں بھینچے نقلی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اُن دونوں کی طرف دیکھ کر بولا...
دُعا کے لیے اُسے یوں دیکھ پانا محال ہورہا تھا وہ تو ہر دم ہنسنے مسکرانے والا تھا...
"دُعا یار کہہ دے یہ مذاق ہے پلیز.."
وُہ پُر اُمید نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا...
"کاش میں کہہ سکتی زیان.. کاش... کاش.."
اُس نے پلکیں جھپکیں تو آنسو لڑھک کر گال پر بہنے لگے...
"کیسے..؟ نہیں نا یار دُعا نکاح کیسے کرسکتی ہے وُہ اُس نے تو صبح مُجھ سے کہا تھا کہ وہ میرا ساتھ چاہتی ہے.."
اُس کی حالت قابلِ ترس تھی..
"زیان میرے بھائی وُہ مجبور تھی.."
سمیر نے آگے بڑھ کر اُسے سنبھالنا چاہا مگر اُس نے بری طرح سے اُس کے ہاتھ جھٹک دیئے..
"زیان اُس نے کھائی میں چھلانگ لگائی ہے گہری اندھیری کھائی میں وُہ شخص بہت گھٹیا ہے بہت بہت ماہی مُجھے سب بتا چُکی ہے اُس کے بارے میں مگر پھر بھی اُس نے اُس اِنسان.."
دُعا کے لیے ضبط کرنا مشکل ہورہا تھا الفاظ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے...
"ایسے کیسے کرسکتی ہے وُہ نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتی.."
وُہ مسلسل خود کلام تھا پھر اچانک تیز تیز قدم اُٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا...
"سمیر روکیں اُسے کہیں کُچھ.."
دُعا نے اُس سے کہا اور خود زیان کے پیچھے جانے لگی...
"ابھی اکیلے رہنے دو اُسے کُچھ وقت کے لیے تنہا رہنے دو اُسے خود سے سنبھلنے دو.."
سمیر نے متانت سے کہا...
"ماہی نے خود کو برباد کرلیا ہے سمیر اپنے آپ کو تباہ کرلیا ہے غفران ایک گھٹیا اِنسان ہے انتہائی گھٹیا.."
دُعا اُس کے کندھے سے لگی سسک رہی تھی..
اُس کا دِل کر رہا تھا اِس لڑکی کو اپنے سینے میں بھر لے مگر وُہ ایسا کوئی اختیار نہیں رکھتا تھا بس اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے پُر سکون کرنے کی سعی کرنے لگا....
_______________________________________________
کسی بھی اِنسان کے دو سفر عجب لاچارگی کے ہوتے ہیں ،، سب کچھ دوسروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور بس ہوئے چلا جاتا ہے،،، ایک وہ سفر جب بندہ بحالت لاش میت کے گہوارے میں ہو اور دوسرا شادی کا اس سفر کا اختتام بھی تقریباً یکساں ہوتا ہے،،، سارے حاضرین منہ دیکھ دیکھ کر آگے بڑھتے جاتے ہیں،،، تھوڑا سا فرق منزل کی جانب سفر میں ضرور ہے پہلا والا سفر سفر بالجبر ہے اور دوسرا سفر بالرضا ہے،،، لیکن اکثر صورتوں میں آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی۔۔۔۔ منتہٰی کی کہانی بھی کُچھ یوں ہی تھی...
سیاہ شلوار قمیض میں اپنی چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ وہ ظاہری طور پر بلکل ایسا تھا جس کی خواہش ہر لڑکی کرتی ہے وہ صرف وجیہہ نہیں بے حد وجیہہ مرد تھا نہایت پُر کشش وُہ اپالو کا مجسمہ تھا اُس کی مغرور ناک آج مزید کھڑی کھڑی تھی اُس کے چہرے پر مفتوح کرلینے کے آثار نمایاں تھے کشاں کشاں سا لاریب اُس کے اوسان بجا تھےاور حواس خمسہ حددرجہ چوکس...
فتحمندی کے سرشار احساس کے ساتھ وہ اپنی عروسی گاڑی میں آ بیٹھا...
منتہٰی میکانکی انداز میں چلتے ہوئے گاڑی میں جاکر بیٹھنے لگی...
"رُک جاؤ منتہٰی رخصتی کی رسم تو پوری کرلینے دو.."
آواز حمید کی تھی...
آصف صاحب کی پُر اُمید نظریں اُسی پر جمی ہوئی تھیں نجانے کیوں اُنہیں اُمید تھی وُہ اُن کے سینے سے آ لگے گی اور پھوٹ پھوٹ کر روئے گی...
"آپ لوگ مُجھے بہت پہلے رخصت کرچکے ہیں اپنے دلوں سے مگر آج آپ لوگ میرے دِل سے رخصت ہوگئے ہیں اِس گھر میں میرا کوئی اپنا نہیں ہے کوئی ایک بھی نہیں جو تھا وُہ کب کا اِس دُنیا سے جاچکا ہے اب یہاں میرا کوئی نہیں ایسا جو میرے سر پر قرآن رکھنے کا اہل ہو ..."
اُس کے لہجہ برف سے بھی سرد تھا...
اُس نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا تھا مبادا پتھر کی نہ ہوجائے...
____________________________________________
شبِ عروسی کے لئے غفران کا کمرہ نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا پورا کمرہ گلاب کی خوشبو سے مہک رہا تھا
وہ کاسنی رنگ کے لہنگے میں لال گلابوں کے درمیان بیٹھی تھی۔پورا بیڈ اس کے لہنگے سے سجا ہوا تھا۔شبینہ اُسے بٹھا کر گئی تھی اور تب سے وُہ اُسی حالت میں بیٹھی تھی اُسے ہرگز بھی غفران کا انتظار نہ تھا اُس کے لیے تو یہ خیال ہی سوہان روح تھا کے کا شخص کی طرف دیکھنا بھی وُہ گوارہ نہیں کرتی تھی اب سے اِس کمرے میں اُس کے ساتھ شب و روز گزارنے تھے جس کی نظریں تک اُسے مشتعل کردیا کرتی تھیں اب سے روز وُہ اُس ہی اِنسان کے قریب رہا کرے گی...
دروازہ بند ہونے کی آواز پر اُس نے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو وہ وہی تھا جلا دینے والی مسکراہٹ لئے...
اُس کے کھردرے بھاری ہاتھوں کا لمس اپنے ہاتھوں پر پاکر اُس جیسے بجلی کا جھٹکا لگا تھا اُس نے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا مگر وُہ ہلا بھی نہیں سکی گرفت مضبوط ہوتی جارہی تھی...
"ہپپی فرسٹ ویڈنگ نائٹ میری جان.."
اُس نے منتہٰی کے کان کے پاس جاکر سرگوشی کی تو اُس نے نخوت سے منہ موڑ لیا...
اُس کے وجیہہ چہرے پر چھائی نرمی یکدم غائب ہوئی اور اب دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ کے گرفت میں لے کر اُس پر زور دیتے ہوئے بولا...
"آج کیسے روکو گی مُجھے اب تو نا تُم غیر ہو نا میں کوئی غیر مرد اب کسے بُلاؤں گی اپنی مدد کے لئے اپنے اُس مردہ بھائی کو.." وُہ استہزایہ ہنسا...
"آج اگر وُہ بھی قبر سے نکل کر آجائے تو مُجھے تمہیں حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا.."
وُہ نفرت سے کہتے ہوئے اُس کے چہرے کی جانب جُھکا...
"درد ہورہاہے میرے ہاتھ چھوڑیں.."
وُہ ہلکے سے بولی...
"کیا کہا تُم نے.."
غفران نے اب اُس کے بالوں کو کھولتے ہوئے مخمور لہجے میں کہا..
اُس کے چھونے کا ہر انداز ایسا تھا منتہٰی کو اپنے وجود سے گھن آنے لگی تھی...
"شاید رونمائی کا تحفہ چاہتی ہو.."
اُس نے دو اُنگلیوں سے اُس کے گال کو چھوتے ہوئے کہا..
"آنکھیں بند کرو میری جان.."
اُس نے نرمی سے کہا..
"جی..."
منتہٰی نے نظریں اُٹھا کر اُسے دیکھا...
"میں نے کہا آنکھیں بند کرو.."
وُہ ذرا سختی سے بولا تو منتہی نے اپنی آنکھیں بند کرلیں...
کمرے کی خاموش فضا میں چٹاخ کی آواز گونجی..
منتہی اپنے دائیں گال پر ہاتھ رکھے سراسیمہ سی اُسے دیکھ رہی تھی..
"میں نے کہا تھا ہر چیز کا بدلہ سود سمیت لوں گا.."
غفران نے اپنے آہنی شکنجے میں اُس کا جبڑا پکڑ کر زہر خنداں بولا...
اگلے ہی لمحے ایک اور زوردار آواز کمرے میں گونجی جس میں منتہٰی کی چیخ بھی شامل تھی...
"ہر چیز کا ہر چیز کا.."
وُہ اُس کا سر بیڈ کراؤن پر پٹخ کر بولا...
"امی..."
اُس کی بے اختیار چیخ نکلی تھی...
"غفران بہت درد ہورہاہے.."
اُس کی ہچکیاں بندھنے لگی تھیں...
"تو اور چاہتا کیا ہوں میں.."
اُس کا ہاتھ منتہٰی کے چہرے کو مزید سُرخ کرگیا تھا وُہ جو خود کو بچانے کے لیے ہاتھوں کا استعمال کر رہی تھی غفران نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا...
اُس نے بالوں سے پکڑ کر اُس کا سر تکیے پر رکھ دیا...
وُہ غوں غوں کرنے لگے اُس کا دم گھٹ رہا تھا...
"کیا کہا تھا میں اگر دُنیا کا آخری مرد بھی ہوا تو بھی تُم میرا انتخاب نہیں کرو گی...یہی کہا تھا نا تُم نے.."
وُہ اُس کا چہرہ اپنے سامنے کرکے دھاڑا...
"پانی.."
وُہ نیم بیہوشی کی حالت میں تھی...
غفران نے پانی کا گلاس اُٹھا کر اُس کے منہ پر انڈیلا تو وہ حواسوں میں لوٹی تھی سر سے خون بہہ رہا تھا...
"اب ہر رات اِسی مرد سے تمہارا سامنہ ہوا کرے گا.."
اُس نے کہہ کر اُسے بیڈ پر پٹخ دیا اور لائٹ بند کرنے اُٹھ کھڑا ہوا...
______________________________________________
"آپ کون بات کر رہے ہیں.."
سمیر کی گھبرائی آواز پر دُعا، روشانے بیگم اور زاہد صاحب اُس کی طرف متوجہ ہوئے...
"جی میں آرہا ہوں.."
اُس نے نہایت عجلت میں فون بند کیا...
"کیا ہوا ہے بیٹا.."
"کُچھ نہیں آنٹی سب ٹھیک ہے آپ ریلکس رہیں انکل آپ میرے ساتھ چلیں.."
کہہ کر وُہ باہر کی طرف بھاگا زاہد صاحب بھی اُس کے پیچھے پیچھے گئے...
"انکل زیان کا ایکسڈنٹ ہوگیا ہے اور اُس کی حالت بہت نازک ہے مجھے ابھی اُسی کے نمبر سے کسی کی کال آئی ہے آپکو ہمت سے کام لینا ہوگا.."
سمیر نے اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز لہجے میں کہا...
زاہد صاحب کے پیر لڑکھڑائے تھے مگر ابھی اُنہوں نے خود کو سنبھالنا تھا اور اپنے بیٹے کے پاس جانا تھا...
دُعا جو اُن دونوں کے پیچھے آئی تھی ایکسیڈنٹ کی بات سُن کر بے اختیار دیوار کا سہارا لیا تھا ورنہ وہ گرچکی ہوتی...
"نہیں زیان تُمہیں کُچھ نہیں ہوسکتا.."
وُہ بڑبڑائی...
______________________________________
وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی منظر دھواں دھواں سے
یہ عکسِ داغِ شکستِ پیماں، وہ رنگِ زخمِ خلوصِ یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے
یہ سنگریزے عداوتوں کے، وہ آبگینے سخاوتوں کے
دلِ مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے
بچھڑنے والے بچھڑ چلا تھا تو نِسبتیں بھی گنوا کے جاتا
تیرے لئے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھاؤں زباں زباں سے
میری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہو کے آیا وہاں وہاں سے
تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے، کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا، مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے
ابھی محبت کا اسمِ اعظم لبوں پہ رہنے دے جانِ محسنؔ
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro