Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۶

Mega Episode

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۶

"حال.."

منتہٰی نے جب سے آصف صاحب کی طبیعت خرابی کا سنا تھا اسے کسی طور چین نہیں آرہا تھا اُس کا دِل کر رہا اُڑ کر اُن کے پاس چلی جائے بس کسی طرح اُن تک پہنچ جائے اُن کے سینے سے لگ جائے...
"ماہی حوصلہ رکھو اِس طرح پریشان ہونے سی کُچھ نہیں ہوگا تُم نے انکل کو بھی سنبھالنا ہے جاکر..."
وُہ مسلسل اُس کی دلجوئی میں لگی ہوئی تھی...
"میں ابو کو نہیں کھو سکتی دُعا وُہ واحد اِنسان ہیں اِس دُنیا میں جو مُجھ سے محبت کرتے ہیں اُنہیں میری فکر ہے میں اُنہیں نہیں کھو سکتی..."
وُہ اُس کے گلے لگ کر بری طرح روتے ہوئے بولی...
"ششش.... کُچھ نہیں ہوگا اللہ بہت رحیم ہے اُس سے رحم کی دُعا کرو وُہ سُنتا ہے وہی تو سنے گا..."
دُعا اُس کے سر میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی...
منتہی کا فون بج اُٹھا...
"ابو کی کال آرہی ہے.."
دُعا نے فون اُٹھا کر اُس کی طرف بڑھایا...
اُس کے دِل کو کئی خدشوں نے آگھیرا....
"ماہی فون اُٹھاؤ بات کرو۔۔۔"
دُعا نے زور دے کر کہا تو اُس نے ہمت کرکے کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگا لیا...
"منتہٰی میرا بچہ کیسا ہے..."
اُن کی مضمحل آواز ابھری تو اُس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بمشکل خود کو رونے سے روکا...
"ابو..." نا چاہتے ہوئے بھی اُس کی آواز رندھ گئی...
"میری شہزادی کیا ہوا.."
وُہ دِل و جاں سے تڑپ اُٹھے...
"ابو آپ ٹھیک ہے ناں؟ میں بہت ڈر گئی تھی ابو..."
وُہ ضبط کھو رہی تھی...
"میں ٹھیک ہوں بس ذرا طبیعت خراب ہوگئی تھی میں نے تمہیں بھی پریشان کردیا..."
وُہ بولتے ہوئے کھانسنے لگے...
"ابو میں کل آرہی ہوں آپکے پاس آپ بیمار ہیں آپکو میری ضرورت ہے اور میں جانتی ہوں وہاں آپکا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے...."
وُہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے زمم بولی...
"کاش میں تُجھے منع کرسکتا کاش میں کہہ سکتا مت آ بہت دور چلی جا یہاں مت آ مت آ..."
وُہ دِل میں سوچنے لگے اُن کا دِل بلک رہا تھا...
"ہاں آجا میرے پاس تُجھے دیکھنا چاہتا ہوں مرنے سے پہلے.."
"ابو ایسے مت بولیں آپ تو ایسے مت بولیں آپ بھی مُجھے چھوڑ جائیں گے مانی بھائی اور امی کی طرح تو میں مرجاؤں گی آپکو میری قسم ہے ایسی باتیں مت کریں..."
وُہ بری طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی دُعا اُس کا کندھا سہلاتے ہوئے اُسے تسلی دینے لگی...
"دُعا دیکھو نا کیسی باتیں کر رہے ہیں میں نے نہیں بات کرنی آپ سے ابو..."
وُہ فون رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی...
"انکل آپ فکر مت کریں ہم کل آرہے ہیں ماہی کو میں سنبھال لوں گی بس آپ اپنا خیال رکھیں..."
دُعا نے اُنہیں تسلی دے کر فون بند کردیا...
"مُجھے معاف کردینا میری بیٹی مُجھے معاف کردینا میں پھر سے ایک غلط فیصلہ کرنے جارہا ہوں تکلیف دہ بات یہ ہے کہ میں جانتا ہوں میرا فیصلہ تیری زندگی میں صرف دُکھ درد لائے گا مگر میں یہ فیصلہ کرنے اور مجبور ہوں  مُجھے معاف کردینا مُجھے معاف کردینا..."
وُہ دِل گرفتگی سے بولے...

  ________________________________________________

"مجبوراً اُس آوارہ کو اپنی بہو بنانا ہوگا مُجھے..."
بختاور نے اُداس لہجے میں شبینہ سے کہا...
"چاچا مان گئے..." اُسے لگا اُس کے سننے میں کئی غلطی ہوئی ہے...
"اُس کے تو اچھوں نے بھی ماننا تھا بات ہی ایسی کرکے آئی تھی ہر باپ اپنی بیٹی کی بدنامی سے ڈرتا ہے..."
وُہ افسوس بھول کر اب فخریہ انداز میں بولیں...
"ویسے پتا نہیں آپکو کیا چڑ اُس سے بیچاری اپنے گھر میں کُچھ بولتی نہیں تھی یہاں آکر کیا خاک زبان کھولے گی..."
وُہ اپنے ناخنوں کو فائل کرتی ہوئی بولی...
"ميسنی ہے ایک نبمر کی گھنی ہے دس گز کی زبان ہے نجمہ بتاتی تھی کیسے  منہ بھر بھر کے میرے غفران کو گالیاں دے رہی تھی اپنے بھائی کے سامنے.."
وُہ نخوت سے بولیں...
"امی وُہ تین سال پہلے کی بات ہے منیر بھائی کے جانے کے بعد سے اُس کی حیثیت کیا رہ گئی ہے اُس گھر میں..."
وُہ تمسخر اڑاتے ہوئے بولی...
"اُس کی عقل تو میں ٹھکانے لگا کر رکھوں گی آنے تو دے اُسے..."
بختاور نے مکروہ انداز میں کہا...
"کس کی عقل ٹھکانے لگائیں گی آپ..؟"
شائنہ نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا اور اپنی چادر اُتارنے لگی...
"وہی چھپکلی منتہٰی.."
وُہ تند لہجے میں بولیں...
منتہٰی واپس آگئی کیا..؟"
اُس نے استفسار کیا...
"ہاں کل آرہی ہے وُہ کمبخت واپس اور غفران کی ضد کے مطابق جلد از جلد اُس سے شادی کروا کے اِس گھر میں.."
"امی ابو یہ رشتہ ختم کرچکے تھے آپ لوگ کیوں اُس بیچاری کی زندگی تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں غفران اُس کی زندگی برباد کردے گا وُہ اِنسان کسی کو کوئی خوشی نہیں دے سکتا وُہ سب تباہ کرنا جانتا ہے خُدارا منتہٰی کا پیچھا چھوڑ دیں اُسے تو بخش دیں..."
وُہ بعجز بولی...
"تُجھے پتا نہیں کس بات کا بیر ہے اپنے ہی بھائی سے جب دیکھو زہر اُگلتی رہے گی میرے بیٹے کے خلاف ..."
وُہ چیختے ہوئے بولیں...
"میرا بھائی ہے اِسی لیے اُسے بہت اچھے سے جانتی ہوں وُہ اُن لوگوں میں سے ہے جو کبھی نہیں بدل سکتے جیسے کہ ابو جہل اُس کی فطرت بھی ایسی ہی ہے اپنی ذات سے وُہ کبھی کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا صرف دُکھ درد اور تکلیف دے سکتا ہے..."
شائنہ زہر خند لہجے میں بولی...
"تمہارے دِماغ میں میرے لئے کتنا زہر بھرا ہے..."
غفران جو کب سے سیڑھیوں کے پاس کھڑا سب سُن رہا تھا اب اُس کی برداشت سے باہر ہوگیا وہ اُسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر سخت تیوریوں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا...
"چھوڑو مُجھے اور آئندہ مُجھ پر اپنی دھونس جمانے کی کوشش مت کرنا..."
وُہ اُس کے ہاتھ جھٹک کر غصّے سے بولی...
"بڑا بھائی ہوں تمہارا.."
وُہ اِس حرکت پر بپھر کر بولا...
"بھاڑ میں جاؤ میری طرف سے تُم بھاڑ میں جاؤ سمجھ آئی میرا تُم جیسے ذلیل اِنسان سے کوئی تعلق نہیں ہے..."
وُہ اپنا بیگ اُٹھا کر جانے لگی...
"اپنی زبان سنبھال کر بات کرو میں کُچھ کہہ نہیں رہا ہوں تو سر پر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہے..."
وُہ اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرتے ہوئے بولا...
"تمہیں جو کرنا ہے کرو مُجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا..."
وُہ اب دونوں ہاتھ سینے پر لپیٹے اُس کے چہرے کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے بولی...
"جس لڑکی کے پیچھے سگے رشتوں سے بیر لے کر بیٹھی ہو مت بھولو اُسی کے بھائی کی وجہ سے تُم اب تک ہمارے سروں پر مسلط ہو بوجھ بنی ہوئی ہو سب پر...."
غفران استہزایہ بولا...
"پہلی بات یہ گھر میرے باپ کا ہے اِس پر میرا بھی حق ہے تُم طے کرنے والی کوئی نہیں ہوتے کے میں یہاں رہوں یا نہیں...
دوسری بات تمہارے ٹکڑوں پر نہیں پل رہی ہوں اپنا کماتی ہوں اپنا کھاتی ہوں...
تیسری اور آخری بات میری زندگی کو برباد کرنے والا منیر نہیں تُم ہو تمہاری ضد ہے تمہاری نام نہاد غیرت ہے جس کی وجہ سے میں اب تک یہاں ہوں...
آئندہ مُجھ سے اِس ٹون میں بات مت کرنا ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا غفران..."
وُہ اب اُس کے چہرے کی طرف اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے ہوئے بولی..
"اُنگلی دکھاتی ہے مُجھے.."
غفران نے ہاتھ اُٹھایا مگر  شائنہ نے اُس کا ہاتھ بیچ میں ہی تھام لیا۔۔۔
"سوچنا بھی مت تمہارا وُہ حشر کروں گی ساری زندگی یاد رکھو گے عورت ہوں تمہارے پیر کی جوتی ہوں بقول امی کے تو یاد رکھنا یہ ہی جوتی سر پر بجے گی تمہارے منتہٰی کی زندگی تو میں تمہیں برباد کرنے نہیں دوں گی یاد رکھنا اب ہٹو میرے راستے سے.."
وُہ اُسے دھکا دے کر وہاں سے چلی گئی...
جب کے وُہ غصّے سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا...
"اُس کی شادی تو مُجھ سے ہی ہوگی اور وہ بھی تین دن میں.."
وُہ پیچھے سے چلا کر بولا...
"چل بیٹھ جا میرے بچے کیوں منہ لگتا ہے اُس کے جانتا تو ہے شادی نہ ہونے کی وجہ سے چڑچڑی ہوگئی ہے.."
بختاور اُسے صوفے پر بٹھاتی ہوئی محبت سے بولیں...
"دیکھا نہیں کیسے بات کرتی ہے مُجھ سے کتنی نفرت ہے اُس کی آنکھوں میں میرے لیے..."
وُہ غصے سے بولا...
"وُہ تو ہے ہی بدذات تو کیوں اپنا خون جلاتا ہے اب تو تیری خواہش پوری ہونے جارہی ہے خوش رہا کر پاگل..."
وُہ اُس کے بال سنوارتی ہوئی بولی...
"یاد رہے امّاں منتہٰی صرف میری ہے..."
وُہ اُنہیں باور کرواتا اپنے کمرے میں چلا گیا...
"آئی ہے نہیں ابھی سے بہن بھائی کو لڑوا دیا منحوس ماری نے بیڑا غرق ہو اُس کا..."
وُہ اُسے کوسنے لگیں...

    ______________________________________________

"ماہی اب تو سکون میں آجاؤ تمہاری بات ہوگئی ہے انکل سے وُہ ٹھیک ہیں اور ہم کل جا بھی تو رہے ہیں نا..؟"
اُس نے منتہٰی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا...
"مجھے بہت سکون ملا ہے دُعا ابو سے بات کرکے.."
وُہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولی..
"شاباش اب کُچھ کھا لو تُم صبح سے بھوکی ہو چلو میری جان.."
وُہ اُس کے گال کو تھپتھپا کر محبت سے بولی...
"آئی لو یو دعا آئی لو یو سو مچ..."
وُہ بے اختیار اُس کے گلے لگ گئی...
"آئی لو یو ٹو میری جان.."
اُس نے بھی اُس کس کر گلے لگالیا..
"اگر تُم نہیں ہوتی تو پتا نہیں میں کیا کرتی تمہارا جتنا شکریہ..."
"تھپڑ کھائے گی میرے ہاتھوں.."
وُہ اُس کی بات کاٹ کر ہاتھ اُٹھا کر بولی تو وُہ ہنس دی..
"ماہی میں جانتی ہوں یہ وقت اِس بات کا نہیں ہے مگر زیان نے جو آج تُم سے کہا ہے اُس کے بارے میں ضرور سوچنا وُہ واقعی تُم نے بہت محبت کرتا ہے..."
دُعا اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر بولی...
"ابھی مُجھے صرف ابو کی فکر ہے دُعا جہاں تک زیان کی بات ہے وُہ بہت اچھے اِنسان ہیں کسی بھی لڑکی کے لئے اُن کا ساتھ باعثِ فخر ہوگا..."
وُہ پوری صداقت سے بولی...
"میں چاہتی ہوں وُہ لڑکی تُم ہو ماہی تُم دونوں مُجھے بہت بہت عزیز ہو میری زندگی میں تمہارے زیان اور سمیر کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور میں تُم دونوں کو ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں.."
دُعا نے متانت سے کہا...
"انشاءاللہ..."
اُس نے اپنی رضامندی ظاہر کردی تھی...
"مُجھے یقین نہیں آرہا تُم بھی اُس سے ..."
"نہیں ایسا کُچھ نہیں ہے وُہ بہت اچھے اِنسان ہیں اور میں نے کہا کسی بھی لڑکی کے لئے اُن کا ساتھ باعثِ فخر ہوگا تو میں نے اپنے لیے دُعا کردی..."
اُس نے دُعا کی بات کاٹ کر نرمی سے کہا...
"انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا..."
    ______________________________________________

وُہ چاروں اگلے دن چار بجے کراچی پہنچے...
"چلیں آپکے گھر چلتے ہیں.."
وُہ لوگ اسٹیشن سے باہر آئے تو زیان نے کہا...
"آپ دونوں بھی آئیں گے..."
منتہٰی نے سمیر اور زیان کو دیکھ لڑ کر کہا...
"ظاہر سی بات ہے ماہی اب ہم اتنی دور کراچی کی اسٹوڈنٹ بریانی تو کھانے نہیں آئے ہیں..."
وُہ دوبارہ اپنے موڈ میں آچکا تھا...
اُس نے ماہی بلائے جانے پر چونک کر اُسے دیکھا جبکہ سمیر اور دُعا دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے...
"چُپ کر تُو تو.."
سمیر نے اُسے آنکھ دکھا کر کہا۔۔۔
"اگر آپکے گھر پر کوئی مسئلہ ہوگا تو ہم لوگ نہیں جاتے صرف دُعا چلی جائیں گی آپ کے ساتھ ."
وُہ نرمی سے بولا جس پر زیان نے بُرا سا منہ بنایا...
"میں تو جاؤں گا اتنی دور سے جن کی عیادت کے لیے آئے ہیں اُن سے نا مِل سکے تو کیا فائدہ..."
وُہ بضد تھا...
"زیان میرے گھر والوں کو شاید آپ دونوں کو آنا ٹھیک نہ لگے میں آپ سے گزارش کرتی ہوں برائے مہربانی میری معذرت قبول کیجئے۔۔۔"
وُہ اب براہِ راست اُس سے مخاطب تھی...
"اب ایسے بولیں گی تو کون نہیں مانے گا..."
وُہ فوراً ہتھیار ڈال کر بولا...
"شکریہ..."وُہ مسکرا دی...
ابھی وُہ کُچھ آگے ہی چلے تھے زیان کا پیر پھسلا اور وُہ زمین پر گرتے گرتے بچا مگر اُس کا پیر مڑ گیا تھا...
"اللہ اللہ میرا پیر.."
وُہ سیدھے ہاتھ سے اپنا بایاں پیر پکڑتا اُچھل رہا تھا اور پھر وہی بینچ پر بیٹھ گیا...
"دکھا..." سمیر نے جھک کر اُس کے پیر کو ہاتھ لگایا...
"بہت درد ہورہاہے مما جی.."
وُہ چھوٹے بچے کی طرح بولا تو منتہٰی کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ دوڑ گئی...
اُس کا فون بجنے لگا۔۔
"دیکھ کیا رہا ہے نکال نا اور اسپیکر پر رکھ.."
وُہ دونوں ہاتھوں سے اپنا پیر دباتا سمیر سے بولا...
"السلام علیکم بڑی لمبی عُمر ہے مما آپکی ابھی ابھی آپکو ہی یاد کر رہا تھا.."
"وعلیکم سلام خیر تو ہے مُجھے کیوں یاد کر رہا تھا! اور یہ بتا کراچی پہنچ گیا؟میری بہو کو لے گیا اُس کے گھر؟ گھر کب تک آرہا ہے؟ ماہی کے ابو کی طبیعت کیسی ہیں اب؟ بول بھی کچھ کب سے کُچھ پوچھ رہی ہوں..."
دوسری طرف سے اُس کی مما نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی...
زیان نے دانت نکوسے باری باری سب کو دیکھا پھر سمیر کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا اور اسپیکر سے ہٹا کر کان سے لگالیا...
"جی مما بس ابھی ہم لوگ کراچی پہنچے ہیں اور منتہٰی جا رہی ہیں اپنے والد کے پاس ہی میں اور سمیر گھر آرہے ہیں صرف دُعا جارہی ہے اُن کے ساتھ.."
اُس نے انتہائی نرمی سے اُن کے سوالوں کے جواب دیئے..
"جی مما باقی باتیں گھر آکر کرتا ہوں میں اللہ حافظ..."
وُہ فون رکھ کر دوبارہ اُن تینوں کی طرف متوجہ ہوا تو وُہ تینوں انگشت بدنداں سے کھڑے تھے...
"تُو نے اپنی امی کو سب بتایا ہوا ہے زیان.."
پہلا سوال تھا جو دُعا نے اُس سے کیا تھا...
"ہاں میں اپنی مما سے کُچھ نہیں چُھپاتا..."
وُہ فخر سے بولا تو منتہٰی کے چہرے پر یکدم سنجیدگی چھا گئی وُہ اُسی لمحے جان گئی تھی کہ یہ شخص واقعی اُس سے محبت کرتا ہے کوئی فریب یا وقت گزاری نہیں...
"آپکو بُرا لگا تو میں بہت معذرت چاہتا ہوں مگر میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے میں آپ سے محبت کرتا ہوں کوئی مذاق نہیں کر رہا نا ہی ٹائم پاس بس آپ کے والد صاحب کی طبیعت ٹھیک ہوجائے تو میں اپنے والدین کو آپکے گھر بھیجوں گا ہمارے رشتے کے لئے بس آپ اپنا جواب دے دیں تاکہ میں اپنے گھر والوں سے مزید آگے بات بھی کروں..."
اُس کے انداز میں عاجزی تھی جیسے یہ اُس کی خوش نصیبی ہوگی کہ اگر وُہ اُس کی زندگی میں آئی...
وُہ اب گنجلک نہیں تھی اُس کے حوالے سے ہر بات آئینے کی طرح صاف ہوچکی تھی وُہ اُس سے محبت نہیں کرتی تھی مگر بطورِ ہمسفر وُہ ایک بہترین اِنسان ثابت ہوتا یہ بات منتہٰی جان چُکی تھی..
"آپ بہت اچھے اِنسان ہیں زیان جو بھی لڑکی آپکی شریکِ حیات کے طور پر آپکی زندگی میں آئے گی وُہ بہت خوش نصیب ہوگی..."
وُہ پوری سچائی سے بولی..
"دُعا چلو دیر ہورہی ہے.."
وُہ بیگ اُٹھاتے ہوئے جانے کے لئے مُڑی..
"جواب تو دیتی جائیں کم از کم.."
وُہ لنگڑاتے پیر کے ساتھ اُس کے پیچھے چلتے ہوئے بولا..
منتہٰی نے اپنے قدم روکے اور گردن گھما کر اُسے دیکھا تو وہ پُر اُمید نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا...
"میں چاہوں گی وُہ خوش نصیب لڑکی جو آپکی شریکِ حیات کے طور پر آپکی زندگی میں آئے وُہ میں ہوں.."
اُس نے مسکراتے چہرے کے ساتھ کہا اور پھر اُس کے تاثرات دیکھے بغیر رُخ موڑ لیا...
"ماہی ماہی ماہی تُم جانتی نہیں میں کتنی خوش ہوں.."
دُعا خوشی سے بے قابو ہوکر اُس کے گلے لگ گئی جبکہ زیان ہونقوں کی طرح منہ کھولے کھڑا تھا اُسے کُچھ سمجھ ہی نہیں آیا تھا...
"کیا کہا منتہٰی نے.."
وُہ اب سمیر سے گویا ہوا..
"ہاں کردی ہے اُس نے پاگل.."
سمیر نے کھینچ کر اُسے گلے لگالیا تو وہ جیسے ہوش میں آیا تھا...
"مان گئیں..." وُہ سمیر کے گلے لگے خوشی کے مارے اُچھل رہا تھا اور اُسے بھی اپنے ساتھ اُچھلنے پر مجبور کر رہا تھا...
"کنٹرول میرے بھائی کنٹرول.."
سمیر نے اُسے سنبھالتے ہوئے کہا...
"میں بہت بہت خوش ہوں.."
اُس کا چہرہ پر عجیب سے خوشی اور سرشاری چھائی ہوئی تھی..
"چل اب آنٹی انتظار کر رہی ہوں گی اور تُجھے اُنہیں بھی تو بتانا ہوگا نا سب.."
وُہ اُسے چھیڑتے ہوئے بولا...
"ہاں چل گھر چلتے ہیں.."
زیان نے بیگ اُٹھاتے ہوئے کہا وُہ دونوں جاچکی تھیں...

     _____________________________________________

    گھڑی کی ”ٹک ٹک“ وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ، گزرے وقت کے پچھتاوے کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وقت کے کھو جانے کا غم ہمیشہ ستاتا ہے..
وُہ آج پھر اُسی دہلیز پر آ کھڑی تھی جہاں کبھی واپس نہ آنے کے لئے گئی تھی اِس گھر سے اُس کی کئی تلخ اور خوشگوار یادیں جڑی تھیں  خاص کر بچپن کا دور وُہ اور اُس کا مانی بھائی۔
ہم کتنے ہی بلند مقام و مرتبے پر پہنچ جائیں ، کتنی ہی عمر ہوجائے ، کبھی نہ کبھی لاشعور میں مٹی میں کھیلتے ، بے پروا، معصوم شرارتوں سے مزین بے شمار یادیں کبھی چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں تو کبھی آنسو بن کر بہہ نکلتی ہیں۔ ساری عمر دل و دماغ کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں بچپن کا دور جگمگاتا رہتا ہے جس میں چھوٹی چھوٹی معصومیت، نادانیاں، اٹکھیلیاں، حماقتیں اور والدین،  سے بے وجہ ضد اور پھر بے شمار دلکش اور دلچسپ باتیں، دلربا یادیں وغیرہ ایسے لمحات ہیں جو زندگی کا قیمتی اثاثہ کہلاتے ہیں جو سینے میں یادوں کی شکل میں دفن ہوتے ہیں۔ جب زندگی کے اوراق پلٹتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کب زندگی کی اتنی ساری سڑھیاں پھلانگ ڈالیں، خبر تک نہیں ہوئی۔
وقت ایک گراں مایہ دولت ہے اور یہ دولت تقاضا کرتی ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔  وقت اپنی قدرو قیمت اور اہمیت کو  ہر مرحلے میں بلکہ ہرجزو میں بھر پور طریقے سے واضع کرتا ہے انسان کے اندر کائنات کی گروش اور شب و روز کی آمدورفت کے ساتھ اپنی اہمیت کا احساس اور شعور بیدار کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت برق رفتار ہوتاہے اور گزرا ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا اور نہ ہی اس کاکوئی بدل ہوتا ہے اس لئے یہ انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اور اسکی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر عمل اور نتیجہ کےلئے وقت درکار ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیت میں انسان کا حقیقی سرمایہ وقت ہی ہے۔
آپ کتنی بھی کوشش کرلیں اپنے اصل سے نہیں بھاگ سکتے آپکو لوٹ کر وہی آنا پڑتا ہے دیر بدیر...
"السلامُ علیکم بھائی.."
اُس نے حمید کو دیکھ کر سر آگے جھکا کر سلام کیا..
"وعلیکم سلام تُم واپس آگئی.."
اُسے حیرت ہوئی تھی شدید...
"جی بھائی ابو کی طبیعت کیسی ہے اب.."
اُس نے فوراً آصف صاحب کے بارے میں استفسار کیا...
"ابو کی طبیعت کیسی ہے مطلب؟؟ اُنہیں کیا ہوا ہے.."
اب کی بار چونکنے کی باری اُس کی تھی..
"بھائی ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا ناں..؟"
اُسے اپنی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی...
"ابو بلکل ٹھیک ہیں اُنہیں کُچھ نہیں ہوا ہے.."
حمید بھی حیرت زدہ تھا...
"آگئی واپس ہمارے منہ پر کالک ملنے کے بعد.."
"نجمہ چُپ کرو.."
حمید نے دُعا کو ساتھ دیکھ کر اُسے بری طرح ڈپٹ دیا...
"میں ابو سے مِل کر آتی ہوں چلو دُعا.."
وُہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھنے لگی...
جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو آصف صاحب کسی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھے اور پہلے نظر میں ہی وُہ پہچان گئی کہ وہ بِلکُل ٹھیک ہیں تو اُسے اس طرح بلانے کا مقصد....
"ابو"اُس نے دروازہ پر کھڑے ہوکر اُنہیں پُکارا...
"منتہٰی میری بچی  تُو آگئی.."
اُنہوں نے منتہٰی کو دیکھا تو فوراً اُٹھ کر اُس کے پاس آئے اور اُسے سینے سے لگالیا...
"کیسی ہے تُو.." وُہ اُسے خود سے لگائے ہی بولے...
"میں ٹھیک ہوں ابو آپ کی طبیعت کیسی ہے..؟"
اُس نے اُن سے الگ ہوکر پُر اُمید نظروں سے اُنہیں دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی حمید بھیا کی بات کی تردید کردیں گے..
"ابو حمید بھائی کہہ رہے ہیں کہ آپکو کُچھ نہیں ہوا.."
آصف صاحب کے ہاتھوں کی گرفت اُس کے گرد ڈھیلی پڑی تھی...
"ابو کیا ہوا ہے ابو.."
وُہ بے یقینی کے عالم میں اُنہیں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی..
"ابو اگر آپکی طبیعت ٹھیک ہے تو مُجھے اِس طرح کیوں بُلایا اگر آپکو مُجھ سے ملنا تھا تو ایسے ہی بول دیتے میں آجاتی مگر جھوٹ کیوں بولا آپکو پتا نہیں پورے راستے میں کتنی پریشان رہی ہوں کیسے کیسے خیال آرہے تھے مُجھے..."
وُہ ابھی بھی اپنے باپ کے اِس غچے کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھی...
اُس نے دیکھا آصف صاحب اپنے فون پر کسی کا نمبر ملا رہے تھے...
دُعا نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے کندھے اُچکا دیئے...
"ہاں غفران وہ آگئی ہے شام تک نکاح کی ساری تیاری کرلینا.."
اُنہوں نے شادی کا کہا تھا منتہٰی کے لئے یہ بات اہم نہیں تھی اُنہوں نے غفران کا نام لیا تھا یہ بات اُسے ہلانے کے لئے کافی تھی...
"ابو کیا کہہ رہے تھے آپ نکاح، غفران مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آرہا..."
اُس کا وجود زلزلوں کی زد میں آچکا تھا...
"میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا منتہٰی.."
وُہ ڈھے جانے والے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئے...
"ابو آپ کیا کہہ رہے ہیں کیسا راستہ کون سا راستہ اور آپ غفران کا نام کیوں لے رہے تھے اُس کا کیا ذکر ابو کُچھ بولیں.."
وُہ اُن کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے مضطرب سی بولی...
"آج شام تمہارا اور غفران کا نکاح ہے.."
وُہ سپاٹ آواز میں بولے منتہٰی کو لگا اُسے کسی نے پوری قوت سے زمین پر لا پٹخ دیا ہو...
"ابو آپ مذاق کر رہے ہیں.."
اُس کی آواز کانپ رہی تھی...
"انکل آپ کیا کہہ رہے ہیں؟.."
دُعا جو ابھی تک شاک میں تھی دبی دبی آواز میں بولی...
"آپ ایسا نہیں کرسکتے ابو نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں غفران کیسے.."
اُس کا دماغ ماؤف ہورہا تھا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے جاتی جارہی تھی...
آصف صاحب چُپ بیٹھے رہے...
"ابو آپ جس سے کہیں گے میں شادی کرلوں گی مگر ابو "غفران" غفران نہیں ہرگز نہیں.."
وُہ باخاطر حزیں بولی...
اُنہوں نے بختاور کی ساری باتیں اُسے سنادی...
"ابو کُچھ بھی ہوجائے غفران نہیں آپ جانتے ہیں وُہ کیسا ہے پھر بھی ابو.."
وُہ اُمید و بیم کی کیفیت سے دوچار تھی...
"انکل آپ میری بات.."
دُعا نے کُچھ کہنا چاہا مگر آصف صاحب نے اُسے ٹوک دیا..
"یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے بیٹا..."
"میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں ابو اور غفران سے شادی کسی صورت نہیں کروں گی سُن لیں آپ  ہرگز نہیں.."
وُہ زندگی میں پہلی بار اُن کے سامنے چیخی تھی..
آصف صاحب کو دھچکا لگا تھا کتنے ہی پل خاموشی کی نظر ہوگئے...
"کیوں لوگوں کے باتیں سچ کرنی ہے.."
وُہ بولے تو اُن کی آواز میں لغزش تھی۔۔۔
"ابو میں اُنہیں پسند کرتی ہوں..."
وُہ جھوٹ کہہ رہی تھی مگر وُہ کسی طور بھی غفران کو اپنی زندگی کی حقیقت نہیں بننے دینا چاہتی تھی..
"عزت سے بڑھ کر کوئی موہ نہیں ہوتا بیٹا..."
آصف صاحب نے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا...
"بابا غفران بہت بُرا ہے آپ جانتے ہیں پھر بھی..."
وُہ بے بسی کی انتہا پر تھی...
"بختاور تمہاری عزت کی دھجیاں اُڑا دے گی میرے بچے..."
"تُم دُنیا کے آخری مرد بھی ہوگے نا تب بھی میں تمہارا انتخاب نہیں کروں گی غفران.."
اُسے اپنے ہی کہے الفاظ خود کا تمسخر اڑاتے محسوس ہوئے...
"آپ جانتے ہیں تائی امی کو پھر بھی اُس جہنم میں جھونک رہے ہیں.."
وُہ ترشوئی سے بولی...
"میں مجبور ہوں..."
آصف صاحب نے رُخ موڑ لیا...
"مگر میں نہیں ہوں میں غفران سے کبھی شادی نہیں کروں گی سنا آپ نے بابا کبھی نہیں.."
دِل نے بغاوت پر اُکسایا...
"میری میت کی صفِ ماتم پر اگر اپنی خوشیوں کا شامیانہ کھڑا کرنا چاہتی ہو تو شوق سے کرو..."
وُہ ضبط کی انتہا پر تھے..
مشرقی لڑکی پھر ہار گئی تھی مجبور باپ کی "مجبوری" کے سامنے..
"ماہی میں زیان کو فون کرتی ہوں تُم نے گھبرانا نہیں ہے.."
دُعا کی چھٹی حس کسی خطرے کی طرف اشارہ کر رہی تھی...
"نہیں تُمہیں میری قسم ہے دُعا تُم اُنہیں کُچھ نہیں بتاؤ گی کُچھ بھی نہیں.."
وُہ اب سپاٹ لہجے میں بولی...
"بلا لیں شام کو کیوں ابھی بُلا لیں میں آپکا سر نہیں جُھکنے دوں گی ابو..."
یہ وہی جانتی تھی اُس نے کس دِل سے یہ الفاظ کہے تھے۔۔
اُسے تہمینہ کے کہی باتیں پوری شدت سے یاد آرہی تھیں...
"اِن مردوں کو غیرت کے بوجھ بھی تو ہم نے ہی ڈھوہنے ہوتے باپ کی غیرت بھائی کی غیرت کے شوہر کی غیرت کے جہاں کوتاہی ہوئی جہاں ذرا سی عورت کی باغیانہ سوچ نے انگڑائی لی وہی یہ غیرت کے مارے یا تو خود مرنے کی دھمکیاں دیتے یا ہمیں ہی مار دیتے..."
اُس کے باپ نے بھی بھی ہی دھکمی دی تھی وُہ کارگر ثابت ہوئی..
"ماہی تُم ہوش میں تو ہو کیا بول رہی ہو تم.."
دُعا نے نے اُسے دونوں بازؤں سے پکڑ کر بری طرح جھنجھوڑ دیا...
"مُجھے تیار ہونا ہے آج میرا جنازہ بڑی دھوم سے نکلنا ہے.."
وُہ سنگلاخ لہجے میں آصف صاحب کی طرف دیکھ کر بولی تو اُن کے دِل پر برچھے چل گئے...
"مُجھے معاف کردو منتہٰی.."
وُہ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولے تو اُس نے اُن کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو کھول کر چوم لیا...
"مُجھے گنہگار مت کریں ابو مت کریں.."
"مگر آج میں اچھے سے جان گئی ہوں میرا باپ بھی میرا بھائی ہی تھا جس کے اندر حوصلہ تھا ہمت تھی سب سے لڑ جانے کی وہ میرا اصل سائبان تھا وُہ چلا گیا سب ختم سب تباہ.."
وُہ دِل گرفتگی سے کہتی ہوئی اُٹھ کر چلی گئی...

       ___________________________________________

"منتہٰی تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے یہ کیا کر رہی ہو تم اور واپس آنے کی ضرورت ہے کیا تھا تمہیں.."
شائنہ نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرتے ہوئے...
"میں اسے کب سے یہی بول رہی ہوں مگر یہ نا کُچھ کہہ رہی ہے اور شاید کُچھ سُن بھی نہیں رہی.."
دُعا نے تاسف سے کہا..
"ماہی اِدھر دیکھو میری طرف دیکھو.."
شائنہ نے اُس کا چہرہ پکڑ کر زبردستی اپنے سامنے کیا تو وہ اپنی بنجر آنکھوں سے اُس کے متفکر چہرے کو تکنے لگی...
"مت کرو ایسا انکار کردو ماہی چلی جاؤ ہمیشہ کے لیے وُہ نہیں ہے تمہارے لائق یار یہ قربانی نہیں خود کشی ہے مت کرو خود پر یہ ظُلم میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں بچے مت کروں منیر کے بارے میں سوچو اُس کی روح کی کتنی تکلیف پہنچے گی..."
وُہ اُس کے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے خواستگاری سے کہہ رہی تھی...
منیر کا نام سن کر اُس کی آنکھیں سے دو موتی ٹوٹ کر گر گئے سکتہ ٹوٹنے لگا تھا...
"مانی بھائی...مانی بھائی"
وُہ اُس کا نام لے کر چہكوں پہكوں رونے لگی...
شائنہ نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگالیا..
"آپی اگر مانی بھائی ہوتے تو میں گھر چھوڑ کر ہی نہ جاتی اگر وُہ ہوتے تو یہ سب کچھ ہوتا ہی نہیں دُکھ ہی تو اِسی بات کا ہے کہ وُہ نہیں ہے..."
"وُہ نہیں چاہتا تھا تمہاری شادی غفران سے ہو سوچوں اُس کی روح کو کتنی تکلیف ہوگی ماہی مت کرو یہ شادی.."
"میں جو جاچکے ہیں اُن کا سوچ کر جو ہیں اُنہیں تکلیف نہیں پہنچا سکتی آپی میں ابو سے بہت محبت کرتی ہوں میں اپنا واحد رشتہ نہیں کھونا چاہتی.."
وُہ قنوطی سے بولی...
دروازے پر دستک ہوئی تھی...
"قاضی صاحب ہیں اجازت لینے آئے ہیں.."
اختر کی آواز سنائی دی..
"ماہی انکار کردو.."
دُعا نے روتے ہوئے کہا...
"آجائیں.." وُہ جگر کرکے بولی...

"منتہٰی آصف بیگ آپکا نکاح غفران حارث بیگ کے ساتھ با بعوض پچاس ہزار روپے حق مہر سکہ رائج الوقت طے کیا گیا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے..."
"کیا کہا دفع ہوجاؤں شاید تمھیں یاد نہیں ہے میں تمہارا ہونے والا شوہر ہوں.."
"مگر آپ میرے شوہر ہیں نہیں..
پتا نہیں کیا سمجھ لیا ہے آپ نے مُجھے میں کوئی کنچنیاں نہیں ہوں نہیں ہوں میں کوئی کسبی بیسوائیں جو آپ.... ارے تھوکتی ہوں میں آپ جیسے شوہر پر چھوڑیں میرا ہاتھ..."
وُہ نفرت بھرے لہجے اُسے اپنا مذاق اُڑاتے محسوس ہوئے...
"قبول ہے"
اور وُہ اُسے ہر حق دے گئی جس کا نام اُس کے لیے صرف اذیت تھا وُہ اُس اِنسان سے زندگی بھر کا رشتہ جوڑ بیٹھی...
"منتہٰی آصف بیگ آپکا نکاح غفران حارث بیگ کے ساتھ بعوض  پچاس ہزار روپے حق مہر سکہ رائج الوقت طے کیا گیا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے..."
"اپنی منحوس شکل لے کر دفع ہوجا یہاں سے اور آئندہ میری بہن کی طرف دیکھا بھی تو اپنی بہن کی قسم کھاتا ہوں ایک لمحہ نہیں لگاؤں گا تیرے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے میں..."
منیر کے کہے الفاظ سماعتوں میں گونج رہے تھے...
"کاش آپ نہ جاتے مانی بھائی کاش..."
اُس دِل کرلایا...
  "منتہٰی آصف بیگ آپکا نکاح غفران حارث بیگ کے ساتھ با بعوض پچاس ہزار روپے حق مہر سکہ رائج الوقت طے کیا گیا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے..."
"قبول ہے.."
اُس نے کپکپاتی ہوئی آواز کے ساتھ کہا دُعا مزید برداشت نہ کرسکی کمرے سے باہر چلی گئی...
"مُجھے معاف کردیجئے گا زیان..."
وُہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بے طرح رو دی...
اختر اُس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہوا باہر نکل گیا... ایک ایک کرکے سب چلے گئے بس وہی اکیلی رہ گئی اپنی قسمت پر ماتم کناں...

       __________________________________________

وُہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی دُعا دوبارہ اُس کے پاس نہیں آئی  نا ہی کوئی اور وُہ کسافت آنکھوں کے ساتھ کمرے کے اندھیرے میں نجانے کون سے روشنی کی تلاش میں آنکھیں جمائے خلا میں تکے جارہی تھی...
اُس کی روح پر بڑا دامن دار زخم لگا تھا مگر اُسے بلکنے کی بھی اجازت نہ تھی...
دروازے پر دستک ہوئی مگر وہ ہنوز چُپ چاپ بیٹھی رہی..
مزید دو بار دستک دے کر وُہ کمرے میں داخل ہوا تھا...
اُس نے سوئچ بورڈ تلاش کرکے کمرے کی لائٹس آن کی تو منتہٰی کی آنکھیں روشنی برداشت نا کرسکی چُندھیا گئیں..
اُس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا...
نظروں کی حدت محسوس کرکے  اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا تو اپنے سامنے کھڑے غفران کو دیکھ کر بے اختیار تین قدم پیچھے ہٹی...
اُس کے ہونٹوں کو بڑی دلنشیں مسکراہٹ نے چھو لیا..
وُہ اُس کی اِس حالت سے حظ لے رہا تھا..
"تُم یہاں کیا کر رہے ہو.."
وُہ سراسیمگی سے بولی...
"دیکھنے آیا ہوں تمہیں اور آج کسی کی بھی ہمت نہیں ہوئی مُجھے روکنے کی ببانگ دہل آیا ہوں اپنی بیوی سے مِلنے.."
وُہ اُس کے قریب ہوتے ہوئے بولا تو وُہ پیچھے ہٹنے لگی...
غفران نے اُسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا اور گھٹنوں کے بل اُس کے سامنے بیٹھ گیا...
"کہا تھا میں نے واپس تُم نے میرے پاس ہی آنا ہے کیونکہ تمہیں صرف میرا ہونا تھا صرف غفران کا..."
وُہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر کروفر سے بولا...
شومئی قسمت وُہ آج نا اُسے پیچھے دھکیل سکی نا اپنا ہاتھ چھڑوا سکی کیونکہ وہ اُسے چھونے کے سارے حق حاصل کرچکا تھا...
وُہ خود پر ضبط کرکے بیٹھی رہی...
"پُرانی باتوں کو بھول جاؤ  میں پہلے والا غفران نہیں ہوں تُم سے محبت کرتا ہوں بس اب تُم میری ہوچکی ہو نا اب میں سارے شکوے ساری شکایت دور کردوں گا..."
منتہی کے ہاتھ کانپ رہے تھے اُس کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں وُہ لہجہ وُہ انداز اُسے یقین کرنے پر مجبور کر رہا تھا کہ وہ بدل چُکا ہے...
مگر وُہ یقین نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ اُس کا اصل روپ دیکھ چُکی تھی وُہ اصل غفران کو جانتی تھی...
"بس کل رخصتی ہوجائے گی پھر تُم ہمیشہ کے لئے میری ہوجاؤ گی تُم نہیں جانتی کتنا اِنتظار کیا ہے میں نے تمہارا.."
وُہ اُس ہاتھوں کو اپنے لبوں سے بوسہ دے کر مخمور لہجے میں بولا مگر اُسے آج بھی اُس کے انداز سے گھن آئی..
"بہت زعم ہے نا تُمہیں خود پر بس کُچھ وقت اور اُس تھپڑ کا بدلہ سود سمیت لوں گا تُم سے.."
اُس نے اُس کے چہرے کو نہایت بیہودہ طریقے سے چھوتے ہوئے نفرت سے کہا...

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro