قسط نمبر ۱۳
#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۳
"اتنی اُداس کیوں ہو ماہی کیا تُمہیں اپنے بھائی پر بھروسہ نہیں ہے میں نے جب کہہ دیا ہے کے تمہاری شادی اُس اِنسان سے نہیں ہوگی تو نہیں ہوگی میں زندہ ہوں ابھی.."
منیر اپنے کمرے میں جارہا تھا اُسے صحن میں اُداس بیٹھے دیکھ کر اُس کے پاس آگیا...
"بھائی سب تایا ابو کی موت کے لیے آپکو ذمےدار مان رہے ہیں مگر آپکو پتا ہے اُنہوں ہسپتال میں جب مُجھے اندر ملنے بلایا تھا تو اُنھوں نے مجھے کیا کہا تھا..."
وُہ بہت مشکل سے خود کو رونے سے روکی ہوئی تھی..
"کیا کہا تھا...؟"
منیر نے حیرانی سے پوچھا...
وُہ اُسے بتانے لگی...
_________________________
"پیشنٹ کسی منتہٰی کا نام لے رہے ہیں بار بار.."
ڈاکٹر نے باہر آکر کہا تو آصف بیگ اور منیر نے ایک دوسرے کی طرف متعجب نگاہوں سے دیکھا...
"جاؤ گھر جاکر اُسے لے آؤ.."
شائنہ نے نرمی سے منیر سے کہا تھا..
کُچھ ہی دیر میں وُہ حارث بیگ کے ساتھ تھی باقی سب باہر تھے...
"تایا ابو آپ کیسے ہیں..؟"
منتہٰی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے وُہ کیا کہے وُہ حارث بیگ سے بہت محبت کرتی تھی اور کیوں نا کرتی اُنہوں نے ہمیشہ اُسے اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز رکھا تھا...
اُس کی آواز پر اُنہوں نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں وا کیں اُس نے دیکھا اُن کی آنکھیں نم تھیں...
"تایا ابو کُچھ نہیں ہوگا آپکو آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہوگا میں غفران سے شادی کرلوں گی میں منیر بھائی کو بھی منا لوں گی شائنہ آپی بہت اچھی ہیں وُہ مان جائیں گے بس آپ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں.."
وُہ اُن کا استخوانی ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی تو حارث بیگ کی آنکھیں بھر گئیں...
وُہ اپنے خون کی گرمی محسوس کرسکتے تھے...
اُنہوں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ حیرت سے اُنہیں دیکھنے لگی..
"میری بچی مُجھے معاف کردے.."
اُن کا گلہ شدتِ غم سے رندهنے لگا تھا...
"تایا ابو کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں بس جلدی سے ٹھیک ہوجائیں آپ مُجھے میری وُہ کتابیں بھی تو لاکر دینی ہے آپ نے جو پچھلے ہفتے میں نے آپ سے منگوائی تھی بس جلدی گھر چلیں.."
وُہ حتٰی المکان خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر متواتر بہتے آنسو کوشش ناکام کر رہے تھے...
"میرے بیٹے نے تیرے ساتھ اتنی گھٹیا حرکت کرنے کی کوشش کی مُجھے معاف کردے میں اپنی بچی کی حفاظت نہیں کرسکا وُہ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں رہی میری اپنی اولاد نے میری عزت پر....مُجھے معاف کردے.."
وُہ دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے اُن کا سانس اُکھڑنے لگا تھا...
"تایا ابو ایسا مت کریں آپ بس مُجھے دُعا دیں کے میں یہ رشتہ نبھا سکوں مُجھے اتنی ہمت دے اللہ کے میں اُس کے ساتھ گزاروں کرسکوں بس اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیں میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں آپ جانتے ہیں تایا ابو میں ابو سے زیادہ آپ کے قریب رہی ہوں بس مُجھ سے کبھی خائف نہیں ہونا آپ .."
وُہ اُن کا ہاتھ اپنے سر پر رکھتی اُن کے سینے سے لگ گئی...
"نہیں تیری شادی اُس سے نہیں ہوگی تو میری بیٹی ہے میرا خدا جانتا ہے میں نے کبھی نجمہ، شائنہ، شبینہ اور تُجھ میں کوئی فرق نہیں کیا اگر ایسی کوئی حرکت اگر اُن میں سے کسی کے بھی ساتھ ہوتی تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو منیر نے کیا ہے تو میری بچی ہے میری جان ہے میں کیسے تُجھے اُس جہنم میں جھونک دوں نہیں کبھی نہیں.."
وُہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہے تھے اُس کے رونے میں تیزی آتی جارہی تھی..
"مُجھے االلہ پر پورا یقین ہے وُہ میری کی بچی کے ساتھ غلط نہیں کرے گا میری شائنہ بہت معصوم ہے وُہ بِلکُل تیری طرح ہے بہت بھولی میں جانتا ہوں اللہ نے اُس کے لیے کچھ اچھا ہے سوچا ہوگا اور اچھا یہ ابھی پتا چل گیا اگر شادی کے بعد ایسا کچھ ہوتا تو بہت دیر ہوجاتی میں بس تُم لوگوں کے لیے دُعا کروں گا اللہ نصیب اچھا کرے.."
وُہ اُس پیشانی چومتے ہوئے بولے...
"تایا ابو ...تایا ابو.."
اُن کی حالت بگڑنے لگی تھی..
"آپ کو کُچھ نہیں ہوگا تایا ابو آپ ٹھیک ہوجائیں گے مانی بھائی ابو.."
وُہ اُنہیں دلاسہ دیتی آواز دینے لگی...
"کُچھ بھی ہوجائے مت کرنا یہ شادی میری تربیت میں کمی رہ گئی وُہ عورت کی عزت کرنا نہیں سیکھا.."
"تایا ابو آپ کُچھ نہیں بولیں ابھی آپ کی طبعیت خراب ہورہی ہے.."
وُہ اُن کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے رو پڑی..
"بھائی جان سنبھالیں خود کو منیر ڈاکٹر کو بلاؤ .."
اُن کی بگڑتی حالت دیکھ کر آصف بیگ کے ہاتھ پیر پھول گئے..
"منیر اپنے فیصلے پر قائم رہنا میری بچی کو اُس اِنسان کے حوالے مت کرنا وُہ عورت کی عزت بھی کرسکتا میری دونوں بیٹیوں کی ذمے داری میں تُجھ پر چھوڑ کر جارہا.."
اُن کا سانس دھونکی کی مانند چل رہا تھا...
"تایا ابو کُچھ نہیں ہوگا آپ حوصلہ کریں آپکو کُچھ نہیں ہوگا میں شائنہ سے شادی کروں گا بس آپ ٹھیک ہوجائیں.."
منیر سے اُن کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی..
"بلند تر بخت و نصیب کی مالکہ ہوں میری بچیاں..."
یہ اُن کے آخری الفاظ تھے جو اُنہوں نے منتہٰی اور شائنہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہے تھے وُہ کھنچی کھنچی سانسوں کی اذیت سے آزاد ہوگئے..
"ابو.." شائنہ نے فلگ شگاف چیخ ماری تھی..
"تایا ابو اُٹھیں تایا ابو آپ نہیں جاسکتے اُٹھیں.."
وُہ بلکتے ہوئے بولی..
اُس کے سر پر دھرا اُن کا بے جان ہاتھ ایک طرف لڑھک گیا...
________________________________________
"میں بھی اپنی بہن کو اُس دوزخ میں کبھی نہیں جانے دوں گا بس تُم نے مُجھ پر ہمیشہ بھروسہ رکھنا ہے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑنا.."
منیر نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُس سے وعدہ چاہا..
"خود سے زیادہ بھروسہ کرتی ہوں بھائی آپ پر کبھی آپ سے الگ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی میں.."
وُہ قطعیت سے بولی تو منیر آسودگی سے مسکرا دیا...
"پر شائنہ آپی کا کیا بھائی ان سب میں اُن کی کوئی غلطی نہیں ہے وُہ بہت اچھی ہیں اور یہ بات آپ بھی جانئے ہیں پھر اُن کے ساتھ ایسا کیوں.."
وُہ فکرمندی سے بولی..
"تُم اُس کی فکر مت کرو میں اُس سے بات کروں گا اگر سب جاننے کے باوجود بھی وُہ مُجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے تو میں ضرور کروں گا کیونکہ تایا ابو نے مُجھے اُس کی ذمے داری سونپی ہے اور اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا.."
وُہ زمم بولا...
"چلو شاباش اپنا موڈ ٹھیک کرو بیٹا زندگی جانے والوں کے ساتھ رُکتی نہیں ہے اور نا آنے والوں کی وجہ سے چلتی ہے اِس کی اپنی رفتار ہے اور یہ اُسی طرح چلتی رہے گی یہ ہم پر منحصر ہے کے ہم خود کو وقت کے ساتھ آگے لے کر چلتے ہیں یا پھر پیچھے رہ کر دسترس سے نکل جانے لمحوں کے سوگ میں ماتم کناں.."
وُہ اُسے بڑے پیار سے سمجھا رہا تھا..
"جی بھائی.."
اُس نے اثبات میں گردن ہلائی تو وُہ اُس کے کندھے پر تھپکی دیتا اُٹھ گیا...
___________________________________
"حال"
"آصف چاہتی تو میں بھی نہیں ہوں کہ تمہاری بیٹی میرے گھر میں آئے مگر اپنے بیٹے کی ضد کے آگے مجبور ہوکر اپنے دِل پر پتھر رکھ کر یہاں آئی ہوں اور ویسے بھی بس اب بہت ہوگیا ہے مُجھے اپنے بیٹے کا گھر بسانا ہے اور تمہاری بیٹی کے علاوہ وُہ کسی سے شادی کرے گا نہیں تو اب اُسے واپس بلواؤ جہاں بھی تُم نے اُسے بھیجا ہے اور دو بول پڑھوا کر رخصت کرو.."
بختاور انتہائی بد دلی سے کہا..
"کیسا رشتہ بھابھی وُہ رشتہ میں سالوں پہلے ختم کرچکا ہوں اب میری بیٹی پر آپکا کوئی حق نہیں ہے.."
آصف صاحب نے ضبط کرتے ہوئے کہا...
"او بھئی میں یہاں تمہارا بھاشن سننے نہیں آئی ہوں مُجھے تاریخ دو اور بلاؤ اپنی اُس آوارہ لڑکی کو پتا نہیں کہاں لور لور پھرتی پھر رہی ہے.."
انداز نخوت بھرا تھا..
"میں آپکے احترام میں کُچھ نہیں کہہ رہا بھابھی مگر اب آپ حد سے بڑھ رہی ہیں میں اپنی بیٹی کے خلاف اب ایک لفظ نہیں سنوں گا آپ یہاں سے جاسکتی ہیں میرا جواب آج بھی وہی ہے جو آج سے پانچ سال پہلے تھا میں نے اور بھائی جان نے یہ رشتہ جوڑا تھا مگر جاتے جاتے وُہ یہ خود توڑ کر گئے ہیں اور میں بھی اُسی وقت توڑ چکا تھا..آپ میرے مرحوم بھائی کی بیوہ ہیں میرے لیے بہت قابلِ احترام ہیں اگر آپ نہیں چاہتی کے میں آپکی شان میں کوئی گستاخی کروں تو آئندہ اس مقصد کے لیے یہاں نہیں تشریف لائیے گا باقی آپکے بھائی کا گھر ہے سو بار آئیں.."
آصف نے انتہائی مودبانہ انداز میں کہا..
"میں پوچھتی ہوں آخر کمی کیا ہے میرے غفران میں ماشاللہ سے اتنا حسین ہے لکھوں کماتا ہے اپنا کاروبار ہے گھر ہے گاڑی ہے اور تمہاری منتہٰی کیا بس ذرا شکل ہی اچھی ہے جس سے میرے بیٹے پر جادو کر رکھا اُس نے ورنہ اتنے بڑے بڑے گھر کے لوگ میرے غفران کو اپنی بیٹی دینے کو تیار بیٹھے ہیں اور تمہارے نخرے ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہے ایسی بھی کوئی حور نہیں تمہاری بیٹی..."
وُہ اب استہانت سے بولیں..
"وُہ لاکھ اچھا وُہ لاکھ حسین وُہ کروڑوں اربوں کمانے والا مگر اُسے عورت کی عزت نہیں کرنا آتی اپنے ہی گھر کی عزت پر اُس نے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی اِس سے زیادہ بڑا کیا ثبوت ہوگا اُس کے اعلیٰ کردار کا برائے مہربانی آپ اپنے بیٹے کی شادی اُن گھروں میں جاکر کردیں جنہیں اپنی بیٹی عزیز نہیں مگر مُجھے بہت عزیز ہے.."
وُہ سخت لہجے میں بولے اِس بار۔۔۔
"دیکھتی تو میں بھی ہوں کیسے نہیں کرتے شادی پوری برادری یہ بات جانتی ہے کے منتہٰی میرے بیٹے سے منسوب ہے تمہیں تو وہاں گھسیٹوں گی اور اس آوارہ کو بھی پھر دیکھنا کیسے نہیں کرتے کہیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑوں گی تمہیں اور تمہاری بیٹی کو پھر آؤ گے گھٹنوں کے بل کے میری بیٹی سے شادی کرلو.."
اُن کا لہجہ اہانت آميز تھا کہہ کر وُہ چلی گئیں آصف صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا اور صوفے پر ڈھ گئے...
______________________________________
منتہٰی اور دُعا ابھی فرم میں داخل ہی ہوئے تھے اُن سامنا زیان سے ہوگیا وُہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا...
"او ہیلو لمبو کدھر بھاگا جارہا ہے.."
دُعا نے آواز لگائی...
"مما میں آپکو تھوڑی دیر میں کال کرتا ہوں.."
وُہ فون بند کرتا ہوا اُن کے پاس آگیا...
"السلامُ علیکم.."
"وعلیکم السلام..."
منتہٰی نے سلام کا جواب دیا جبکہ دُعا اُس کی پُر شوق نگاہیں دیکھ رہی تھی جو بھٹک بھٹک کر اُس پر جا ٹھہرتی تھیں..
"کھائے گا کیا زیان.."
وُہ اُس کے جوتے پر اپنی ہیل سے چوٹ کرتی بولی تو وہ تڑپ گیا..
"کیا ہے جاہل.."
وُہ مظلوم ٹانگ ہوا میں کیے اُچھلتا ہوا بولا..
"وُہ میں بول رہی تھی کینٹین میں آج سے شوارما بھی آگیا ہے کھائے گا کیا۔ "
اُس نے فوراً بات بنائی جو اُن دونوں کو متشبہ نظروں سے دیکھ رہی تھی..
"شوارما ضرور کھاؤں گا کیوں نہیں اور تکا بوٹی زنگر بھی.."
وُہ اب دُعا کے کندھے پر ایک زور دار تھپکی دیتا ہوا بولا جس سے اُسے ککھ فرق نہیں پڑا...
"چل ٹھیک ہے مگر پیسے تو دے گا تیری ٹریٹ.."
وُہ اُس تھپکی سود سمیت اُسے لوٹاتے ہوئے بولی مگر اُس نے بہت زور سے مارا تھا...
"مرد کہیں کی.." وُہ بڑبڑایا...
"تُم دونوں میں پاگل ہو سچ میں صبح صبح کوئی شوارمے زنگر کی باتیں کرتا ہے.."
اُسے اُن دونوں کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا...
"میں جارہی ہوں آپ کا اگر آپکا کھیل ختم ہوجائے تو آکر فائل دیکھ لیجئے گا.."
وُہ زیان سے کہتی چلی گئی...
"تُم پوری چڑیل ہو دُعا.."
وُہ غصے سے بولا...
"اور تم ڈریکولا کیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے جیسے اِس سے پہلے کوئی خوبصورت لڑکی دیکھی ہی نہیں.."
"اللہ کو مان لڑکی میں نے کب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا یہ سراسر اِلزام ہے تف ہے تُم پر.."
وُہ ازحد افسوس سے بولا..
"اب زیادہ ملکہ جذبات مت بن مرد بن اور بتا دے اُسے جاکر حالِ دِل.."
وُہ آنکھ دبا کر بولتی چلی گئی...
"ڈفر کہیں کی.."
وُہ پیچھے سے بولا..
"اور تُو ڈبا.."
دُعا کہاں پیچھے رہنے والی تھی....
______________________________________
وُہ آفس میں داخل ہوا تو وُہ لیپ ٹاپ میں مصروف تھی وُہ خاموشی سے جاکر اپنی جگہ بیٹھ گیا اور بے دلی سے فائلز ٹٹولنے لگا مگر ذہنی رو مسلسل بھٹک کر سامنے بیٹھی منتہی پر جا پہنچتی تھی...
"کیا کر رہی ہیں.."
زیان کتنی دیر چُپ بیٹھ سکتا تھا یہ مرض تو اُس کو کبھی لاحق ہی نہیں ہوا تھا..
"گانے سُن رہی ہوں ایم پی تھری پر دیکھیں میرے ہاتھ میں ہے بھی.."
وُہ اُسے شرمندہ کرنے کے لیے ہاتھ میں پکڑا کیلکولیٹر دکھا کر بولی...
"اچھا کام کر رہی ہیں.."
وُہ غائب دماغی سے بولا طنز محسوس نہ کرسکا...
"ظاہر ہے اب کیلکولیٹر کے ساتھ میں فن کروں گی.."
وُہ چڑ گئی تھی..
"آپکو کُچھ کہنا ہے۔"
وُہ اِس ڈیڑھ مہینے کے عرصے میں اُس کے موڈ سوئنگس تو جان گئی تھی..
"ہاں وُہ میں نے..."
اُس کا حلق خُشک ہونے تو پانی گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔۔۔
وُہ اُسے عجیب نظروں سے دیکھتی گئی...
"نہیں کُچھ نہیں آپ کام کریں.."
وُہ سے سخت گنجلک تھا..
"اوکے.."
وُہ شانے اُچکا کر کام میں مصروف ہوگئی...
"دھت تیری زیان ایسے تو نے بول دیا اور ہوگئی وُہ تیری.."
اُس نے خود کو ڈپٹا...
ہمت کرکے اُس نے دوبارہ اُس سے بات کرنے کی کوشش کی...
"آپ کہیں انگیجڈ تو نہیں ہیں.."
وُہ اُسے اپنی باتوں سے ہر بار انگشت بدنداں کردیتا تھا جیسے اب کی بار...
"جی.."
وُہ انتہائی حیرت سے بولی..
"نہیں وُہ میں ایسے ہی جرنل نالج کے لیے پوچھ رہا تھا..."
اُس کی پیشانی عرق آلود ہونے لگی تھی....
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے زیان.."
اب وہ ہمدردی سے بولی..
"جی سب ٹھیک ہے میں واشروم سے آتا ہوں.."
وُہ فوراً باہر چلا گیا منتہٰی اُسے دیکھتی رہ گئی...
_______________________________________
وُہ ٹیبل پر سر جھکائے بیٹھا تھا اور دُعا اُس پر مسلسل برس رہی تھی اور سمیر بھی اُس کی تائید کر رہا تھا..
"بلکل ڈبا ہے تُو زیان ابھی اظہار نہیں کر پارہا آگے جاکر پتا نہیں کیا کرے گا.."
وُہ استہزایہ بولی..
"وُہ جس طرح مُجھے دیکھتی ہے لگتا ہے ابھی اُٹھا کر مُجھے کُچھ مار دے گی.."
"ہاں تو ڈرتا رہ پتا نہیں تُم جیسے بزدل لوگ محبت کرتے ہی کیوں ہیں آج کہا نہیں جارہا آگے جاکر کیا خاک حفاظت کرو گے اگر یہی حال رہا نا تو اُس کی شادی کرسیاں لگانا اور پھر جب اُس کے بچے تُجھے ماموں ماموں کہیں گے تب رونا بیٹھ کر.."
دُعا نے بڑی سخت چوٹ کی تھی...
"میں ابھی جاکر بتاتا ہوں بس بہت ہوا سیدھا جاکر آئی لو یو بول دوں گا.."
وُہ پُر جوش ہوکر اُٹھا...
"تُو نے بول لیا اور میں نے دیکھ لیا ابے کمپت اُس کے سامنے جاتے ہی "سُنیں" "بات سنیں" کے علاوہ کُچھ پھوٹتا نہیں.."
وُہ اُس کی نقل اتارتے ہوئے بولی تو سمیر بے اختیار ہنس دیا..
"کوئی لطیفہ سنایا ہے میں نے۔۔"
وُہ کڑے تیوریوں سے گھورتی ہوئی بولی..
"میں جارہا ہوں.."
زیان باہر نکل گیا..
"جا میرے شیر جا نَصْرٌ مِن الله و فَتْحٌ قَرِيب.."
دُعا نے آواز لگائی...
"ویسے میں دیر نہیں لگاؤں.."
سمیر نے معنی خیز انداز میں کہا تو وُہ اُسے گھورتی باہر چلی گئی...
_____________________________________
"میں یہ فائل طلحہ سر کو دے کر آتی ہوں.."
"بات سنیں.."
وُہ جانے کے لیے مڑی ہی تھی زیان نے پیچھے سے روکا..
"وُہ میں یہ کہنا.."
وُہ پھر رُکا جیب سے رومال نکال کر پیسنہ صاف کیا..
"آپکو کوئی بات کرنی بھی ہے یا اویں شغل لگا رہے ہیں عادت سے مجبور.."
منتہٰی اب اُکتا چُکی تھی وُہ صبح سے ایسی ہی حرکتیں کر رہا تھا..
"میں کیا آپکو مسخرہ لگتا ہوں.."
وُہ اِس جملے پر تپ گیا..
"بھئ بول بھی دیں کیا کہنا آپکو مُجھے مزید اِریٹیت مت کریں..."
وُہ ذرا سختی سے بولی..
"وُہ میں.."
بکریوں کے باڑے سے ہوکر آئیں ہیں کیا.."
وُہ جھلا کر بولی...
"اِس بات کا مطلب محترمہ.."
وُہ سینے پر ہاتھ باندھے مصنوئی خفگی سے بولا وُہ اِس کھیل سے لطف لے رہا تھا..
"صبح سے "میں" "میں" لگا رکھی ہے آپ نے میرے کان پک گئے ہیں.."
"ابے بول بھی چُک گدھے.."
یہ دُعا کی آواز تھی جو گیٹ کے پاس چُھپ کر کھڑی تھی اپنا ضبط کھو کر باہر نکلی...
"یہ کیا ہورہا ہے مُجھے کوئی سمجھائے گا.."
وُہ دُعا کو دیکھ کر اُس پر چڑھ دوڑی...
"یہ گدھا تمہارے ساتھ لو کرتا ہے اور کب سے یہی کفر بکنے کی کوشش کر رہا ہے مگر منہ میں گُلقند ٹھونس رکھا ہے کمبخت نے..."
دُعا نے نہایت تپے ہوئے انداز میں کہا...
"بیڑا غرق ہو تیرا دُعا..."
اُس نے حقیقتاً اپنا سر پیٹ لیا...
"ہیں.."
اُسے دونوں کے پاگل ہونے کا یقین ہوگیا...
"ہاں میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں اور میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں.."
زیان نے بھی آخر کار ہمت کرکے کہہ دیا چونکنے کی باری منتہٰی کی تھی..
"کک کیا کہہ رہے ہیں آپ.."
وُہ لکنت سے بولی...
"تُو بھی ڈفر یہ بھی ڈفر اتنا صاف صاف بول دیا پھر بھی اسٹار پلس کی طرح محترمہ کو تین مرتبہ ریوائنڈ چاہئے.."
دُعا کی رگِ ظرافت پھر پھڑکی...
"دیکھیں آپ کے لئے بہت اچانک ہے مگر آپ آرام سے سوچ کر جواب دیجئے گا میں بس اتنا کہوں گا میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں.."
وُہ سنجیدگی سے بولا تو منتہٰی کنگ رہ گئی...
"آرام سے سوچ کر جواب دینا ماہی.."
اب کی بار دُعا نے بھی سنجیدگی سے کہا تو وُہ بس سر ہلا گئی تو زیان کو کُچھ حوصلہ ہوا...
منتہٰی کا فون بجنے لگا...
اُس نے فون يس کرکے کان سے لگا لیا...
"السلامُ علیکم ابو.."
"ابو آپ ٹھیک تو ہے ناں..؟"
دوسری طرف سے کیا کہا گیا دونوں کو نہیں پتا تھا مگر کوئی پریشانی والی بات ضرور تھی...
"جی میں پہلی ٹرین سے واپس آرہی ہوں ابو..."
"جی خدا حافظ.."
اُس نے فون رکھ کر زیان سے واپسی کی ٹکٹ کروانے کا کہا تو وُہ بس سر ہلا کر رہ گیا..
مگر اب اُس کی چھٹی حس کسی خطرے کی طرف اشارہ کر رہی تھی جیسے کُچھ بُرا ہونے والا تھا بہت بُرا...
وُہ جارہی تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا اب وقت بدلنے والا تھا قسمت بدلنے والی تھیں محبت کے اِس سفر میں اب بچھڑنے کا وقت آ گیا تھا...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro