قسط نمبر ۱۲
#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۲
"آپ بھی تو ایک مرد ہیں زیان پھر آپکی سوچ اس قدر مختلف کیسے..؟"
وُہ پوچھے بنا نہ رہ سکی...
اُس کے چہرے پر بڑی طمانیت بھری مسکان اُبھری تھی..
"آپ نے یہ بات تو سنی ہی ہوگی پانچوں اُنگلیاں ایک سی نہیں ہوتی اسی طرح ہر اِنسان الگ ہوتا ہے منتہٰی اُس کی سوچ الگ ہوتی ہے اُس کی تربیت الگ ماحول میں ہوئی ہوتی ہے میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا میں بہت اچھا ہوں مگر ہاں میں یہ دعویٰ ضرور کرتا ہوں میری مما نے مُجھے عورت کی عزت کرنا بہت اچھے سے سکھایا ہے اور ایک عورت ہی ایک مرد کو دوسری عورت کی عزت کرنا سکھا سکتی ہے .."
اُس نے متانت سے کہا..
"اور اِس میں صرف مردوں کی نہیں عورت کی بھی غلطی ہے بلکہ میرا ماننا ہے زیادہ غلطی عورت کی ہے یہ عورت کی بزدلی اور جہالت ہے جس نے اپنی عزت خود ہی کبھی نہیں کی۔
عورت اس معاشرے کی خود کو مرد کی باندی تسلیم کرچکی ہے۔عورت ہرگز بھی مظلوم نہیں عورت ظالم ہے اور جاہل ہے اُسے اپنی اہمیت۔ کا اندازہ نہیں.."
"میں آپ کی بات سے بلکل اتفاق رکھتی ہوں مگر کیا یہ صحیح کے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مرد حضرات کی تربیت ان خطوط پر کی جاتی ہے کہ وہ برتر ہے عورت اسکے پاؤں کی جوتی ہے وغیرہ وغیرہ."
منتہٰی گنجلک تھی...
"مرد کی ایسی تربیت کرنے والی بھی ایک عورت ہی ہے.."
وُہ بس اتنا کہہ کر چُپ ہوگیا….
واقعی کُچھ دیر کے لیے وُہ بھی چُپ ہوگئی تھی۔۔۔
"مگر اِس بگاڑ میں معاشرے کا بہت بڑا ہاتھ ہے کسی بھی بچے کے تربیت صرف گھر سے نہیں ہوتی وُہ گھر کے باہر جو ماحول اسے مِلتا اُس سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے..."
اُس نے اپنی دانست میں بہت عقلمندی کی بات کی تھی....
"باہر بھی عورت کی تربیت کے زیرِ اثر مرد ہی گھومتے ہیں منتہٰی آپ یہ بات کیوں نہیں مان لیتیں عورت ہی معاشرے کے بگاڑ اور سُدھار کی ذمےدار ہے عورت کے اندر مرد سے دس گنا زیادہ حاکمیت کا جذبہ ہے وُہ مرد کی زندگی پر غاصب رہنے کی ہر ممکن سعی کرتی ہے اور یہی کوشش اُسے مرد کے ظُلم سہنے پر مجبور کرتی ہے صرف یہی سوچ کر کہ وُہ اُس مرد کی بری بهلی سب سُن کر اُسے خود کا گرویدہ کرلے گی مگر یہ صرف اُس کی خام خیالی ہوتی ہے اور وُہ اسی خام خیالی میں اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہے وُہ شوہر پر حکمرانی کرنے کی کوشش کرتی ہے اپنی جی جان لگا دیتی ہیں اور کُچھ اِس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں مگر اُس کے حاکمیت کے جذبے کو تب بھی تسکین نہیں پہنچتی وُہ بیٹے کی صورت میں ایک اور مرد پر غاصب رہتی ہے اُس کی حکمرانی کرنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی وُہ مرد کی اگر اپنے پیروں میں بھی لا بٹھائے گی تو بھی اُس کو سکون نہیں مِلتا وُہ سوچتی ہے یہ صرف میرے قدموں میں ہی کیوں ہے اِس کے ہاتھ میرے پیروں پر کیوں نہیں..."
آخری بات کہتے وقت اُس کے چہرے پر حتمیت کے آثار تھے جیسے اُسے کوئی شک نہیں تھا اپنی کہی کسی بات پر وُہ شرمندگی نہیں تھی...
"آخر کی آپ بھی تو ایک مرد ہی ہیں آخر نکال ہی دی اپنی بھڑاس اور بنا دیا خود کو مظلوم اور سب الزامات کا طوق عورت پر ہی محمول کردیا.."
وُہ اِستہانت سے بولی...
زیان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی چلی گئی وُہ تاسف سے بولا..
"اور یہی عورتوں کی سب سے بڑی شارٹ کمنگ ہے وُہ اپنے متعلق کوئی نیگیٹیو فیڈ بیک لے ہی نہیں سکتیں وُہ خود کو مظلوم سمجھتی آرہی ہے خود کی ہار نہیں سہہ سکتی وہی حکمرانی کی طمع..".
اور اُس نے منتہٰی کو حقیقتاً کُچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا اُس نے بڑی ہی کھری باتیں کہی تھیں اور منتہٰی نے اپنے رویے سے اُس اور مہر لگا دی تھی..
"اور آپکو یہ بتادوں یہ سب باتیں بھی میں نے اپنی مما سے سیکھی ہیں اور وُہ بھی ایک عورت ہی ہیں مگر وہ اپنی اِن شارٹ کمنگس کو مانتی ہیں اور مُجھے اپنی مما پر اور اُن کی تربیت پر فخر ہے.."
اُس کے ہر انداز سے غرور جھلک رہا تھا اپنی ماں کی تربیت کا...
" مورال آف دا اسٹوری اِس ڈیٹ "جو حقیقی اور اچھا مرد ہوگا وہ عورت کو سر کا تاج سمجھے گا نہ کہ پیر کی جوتی اور اسے عزت دے گا اور خبیث مردوں کے بارے میں میری پیاری "مما" ہمیشہ ایک محاورہ کہتی ہیں "اولتی کا پانی بلینڈی نہیں چڑھتا " مطلب کمینہ کبھی شرافت کے مقام پر نہیں پہنچ سکتا.."
اُس نے تحمل سے کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی جبکہ منتہٰی نے قائل ہوجانے والے انداز میں گردن ہلا دی...
"مجھے آپکی امی سے ملنے کی شدید خواہش ہورہی ہے وہ بہت ہی عظیم ہیں جِن کی سوچ اتنی صاف ہے ایک عورت ہوکر بھی.."
اُس نے محبت بھرے انداز میں اُن کی تعریف کرتے ہوئے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی...
"اب تو اب کو ساری عُمر وہی اُن کے پاس ہی تو رہنا ہے.."
وُہ بے اختیاری میں کہہ گیا..
"جی آپ کا مطلب.."
منتہٰی اُس کی بات پر چونکی تھی..
"کُچھ نہیں وقت آنے پر آپ سمجھ جائیں گی.."
وُہ مسکراتا ہوا لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوگیا...
جب کے وُہ استعجاب کے عالم میں واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گئی...
_______________________________
"ماضی"
وُہ اُس وقت تیار ہورہی تھی جب قد آور آئینے میں اُس نے غفران کو اپنے کمرے میں داخل ہوتا دیکھا تھا...
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں.."
وُہ لجاتے ہوئے بولی تو وُہ دروازے کو قفل لگاتا اُس کی طرف بڑھنے لگا..
منتہٰی کو کُچھ عجیب لگا وُہ بے اختیار پیچھے ہٹی تھی..
"ہمیشہ کی طرح بے حد حسین.."
وُہ مخمور لہجے میں بولا تو وُہ ٹھٹکی تھی...
"آپ ابھی اور اسی وقت یہاں سے چلے جائیں غفران کوئی آجائے گا.."
وُہ گھبرا کر بولی..
"کوئی نہیں آئے گا میری جان سب نکل چکے ہیں.."
وُہ قدم پیچھے ہٹتی اور وُہ قدم قدم بڑھتا اُس کے بے حد قریب آچکا تھا وہ دیوار سے جا لگی...
"کتنی خوبصورت لگ رہی ہو تم.."
اُس کا انداز انتہائی لوفرانہ تھا...
اُس نے اُس کے چنگل سے نکلنا چاہا تو غفران نے دونوں ہاتھ اُس کے گرد رکھ کر راستہ بند کردیا...
"آپ کیا کر رہے ہیں ہوش میں تو ہیں آپ میں کہتی ہو دفع ہوجائیں یہاں سے.."
منتہٰی نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اُسے پوری قوت سے پیچھے دھکیلا تو وہ گرتے گرتے بچا...
وُہ ابھی دروازے تک پہنچی ہی تھی غفران اُس پر جھپٹا اور اُس کی نازک کلائی کو اپنے آہنی ہاتھ دبوچ کر اُسے اپنی طرف کھینچا...
"کیا کہا دفع ہوجاؤں شاید تمھیں یاد نہیں ہے میں تمہارا ہونے والا شوہر ہوں.."
وُہ اُس کے ہاتھ کے مزید مروڑتا بولا...
"مگر آپ میرے شوہر ہیں نہیں..
پتا نہیں کیا سمجھ لیا ہے آپ نے مُجھے میں کوئی کنچنیاں نہیں ہوں نہیں ہوں میں کوئی کسبی بیسوائیں جو آپ.... ارے تھوکتی ہوں میں آپ جیسے شوہر پر چھوڑیں میرا ہاتھ..."
وُہ نفرت سے بولی ...
غفران نے اُس کی بات جیسے نظر انداز کی تھی وُہ اُس کے چہرے کی جانب جُھکا...
منتہٰی نے اُس کے چہرے پر ایک زور دار تمام طمانچہ رسید کردیا...
"دور رہ مُجھ سے ذلیل اِنسان دور رہ قتل کردوں گی میں تیرا.."
وُہ پاس پڑے گلدان کو اُٹھا کر بولی اور غفران اِس افتاد پر بوکھلا کر پیچھے ہٹا تھا….
"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے.."
وُہ شدید غصّے میں اُس کی طرف بڑھا تو منتہٰی نے خود کو ٹیبل کی آڑ میں چھپا لیا اور اُس پر رکھا سارا سامان نیچے پھینک دیا جس سے ٹکرا کر وُہ منہ کے بل نیچے گر گیا...
"تیری ماں°° "
وُہ گالی دے کر دوبارہ اُس کی طرف بڑھا تو منتہٰی نے گلدان کو دیوار پر دے مارا تو اُس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اُس نے فوراً نوک دار ٹوٹا ہوا حصہ اُٹھا لیا...
"میں نے کہا دور رہ مُجھ سے..."
اُس نے آنکھوں میں بے پناہ نفرت لیے وُہ نوک دار حصہ اُس کے سینے کے دائیں حصے پر چلا دیا...
"میں تیری جان لے لوں گی..."
اُس کی آنکھوں میں ناچتی نفرت نے غفران کو مزید ت طیش آگیا..
"ماہی تُم اندر ہو سب ٹھیک تو ہے نا.."
دروازہ پیٹنے کے ساتھ ہی منیر کی آواز سنائی دی...
"مانی بھائی..."
وُہ حلق کے بل چلائی...
دوسری طرف سے دروازہ توڑنے کی کوشش شروع ہوگئی تھی...
غفران کے پیروں تلے زمین نکل گئی اُسے لگا تھا منتہٰی اکیلی ہے وُہ اپنی کم عقلی پر سر پیٹ کر رہ گیا منتہٰی کیونکر اکیلی ہوگی گھر میں...
وُہ سرعت سے دروازے کی طرف بڑھی اور کنڈی کھول دی..
"ماہی کیا ہوا.."
اُس نے منتہٰی کی دگردگوں حالت دیکھتے ہوئے تڑپ کر کہا...
"مانی بھائی.."
وُہ اُس کے سینے سے لگ کر ہچکیوں سے رونے لگی...
اب وُہ کمرے داخل ہوا تو کمرے کی حالت اور غفران کی ابتر حالت دیکھ کر اُسے سب سمجھ آگیا اور اُس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا..
"حرام زادے گھٹیا اِنسان..."
منیر نے اُسے کے منہ پر زور دار گھونسا مارا تھا جبکہ جواباً اُس نے منیر کو دھکا دیا تھا...
"مانی بھائی.."
منتہٰی نے فوراً اُسے سنبھالا....
"دیوث اِنسان تیری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کی ہاتھ لگانے کی.."
وُہ شدید غصے میں تھا اور منتہٰی جانتی تھی وُہ بھی اُسے روک نہیں پائے گی کیونکہ غفران نے اُس کی غیرت پر اُس کی ماہی پر حملہ کیا تھا..
وُہ اُسے بے تحاشہ پیٹ رہا تھا اور نادم ہونے کے بجائے غفران اُسے برابر مار رہا تھا...
"مانی بھائی آپکو میرا واسطہ.."
"ھٹو تُم یہاں سے..."
منیر نے اُسے جھٹکے سے خود سے الگ کیا تو وہ زمین پر جا گری..
مگر اُسے آج فکر نہیں تھی اُس نے غفران کا سر دیوار میں دے مارا...
"میں جان لے لوں گا تیری..."
منیر نے ٹوٹے ہوئے گلدان کا ٹکڑا اُٹھا کے اُس کی گردن پر رکھ دیا وُہ چلانے ہی والا تھا منتہٰی نے اُس کے پیر پکڑ لیے...
"مانی بھائی اپنے ہاتھ گندے مت کریں آپکو میری قسم ہے مت کریں رُک جائیں.."
منیر کے ہاتھ رُک گئے اُس نے غفران کی بری طرح دھکا دے کر کہا...
"اپنی منحوس شکل لے کر دفع ہوجا یہاں سے اور اوندھے میری بہن کی طرف دیکھا بھی تو اپنی بہن کی قسم کھاتا ہوں ایک لمحہ نہیں لگاؤں گا تیرے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے میں..."
غفران ایک زور دار آواز سے دروازہ بچھیڑ کر چلا گیا...
"مانی بھائی..."
وُہ اُس کے پیر کو مضبوطی سے پکڑے ہی بلک بلک کر رو پڑی...
منیر اُس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور اُسے اپنی آغوش میں چھپا لیا اُس کے سینے سے لگے رونے میں مزید تیزی آتی گئی جبکہ وُہ اُس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا رہا...
______________________________________
"تُم نے بلکل ٹھیک نہیں کیا منیر غفران کے ساتھ وُہ صرف منتہٰی سے بات کر رہا تھا اور تُم نے اُسے جانوروں کی طرح مارا ہے.."
حارث بیگ نے پہلی بار اُس سے درشتگی سے بات کی تھی..
وُہ چُپ رہا اُس نے غفران کی حرکت کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا تھا مگر وہ نہیں جانتا تھا غفران نے اُنہیں کیا رام سنائی تھی...
"بس آصف اب تُم مُجھے تاریخ دے دو تاکہ اِن دونوں کی شادی ہوجائے پھر کسی کو اُن کے بات کرنے پر اعتراض نہ ہو..."
انہوں نے منیر کو دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں کہا...
"اور ایک ہی دن میں منیر اور شائنہ کی بھی شادی کردیتے ہیں۔۔۔"
اب کی بار بختاور نے آصف بیگ سے کہا..
"ماہی کی شادی آپکے آوارہ بیٹے سے نہیں ہوگی تائی امی اور ابو آپ بھی سُن لیں میں نہیں جانتا آپ نے اُس وقت ہمارے لئے کیا فیصلے کیے جب ہم سوچ سمجھ نہیں سکتے تھے مگر اب اتنا جانتا ہوں کے کم از کم میں آپکے فیصلے کے سامنے اپنی خوشیاں قربان نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنی بہن کی زندگی تباہ ہونے دوں گا ..."
وُہ جو کب سے چُپ تھا بلا آخر پھٹ پڑا...
"کیا مطلب.."
حارث بیگ ٹھٹکے...
"مطلب میں شائنہ سے شادی نہیں کروں گا میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں..."
اُس نے سب کو سماعتوں اور بم گرایا پورے کمرے میں سناٹا چھا گیا..
"شائنہ بہت اچھی ہے مگر میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں زندگی مُجھے گزارنی ہے تو حق بھی مُجھے ہونا چاہیے اپنے جیون ساتھی کو چننے کا نہ کہ آپ لوگوں کے یارانے مضبوط کرنے کے لئے میں ساری زندگی بوجھ اُٹھاؤں اور سب سے اہم بات منتہٰی کی شادی بھی غفران جیسے خبیث اِنسان سے نہیں ہوگی آپ جانتے ہیں اُس نے کیا کِیا ہے... اُس نے منتہٰی کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے وُہ تو میں صحیح وقت.."
اُس نے زہر خندہ کہا..
"کیا بکواس کر رہا تُو..."
آصف بیگ نے اُسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا...
"وہی ابو جو آپ سُن رہے ہیں اور میں صرف کہہ نہیں رہا ہوں میں کر کر دکھاؤں گا دیکھتا ہوں کون کیسے ماہی کی شادی اُسے کُتے سے کرواتا ہے..."
"دیکھ رہے ہو آصف اسے تمہارے سامنے کیسے گالی دے رہا ہے ہمیں... ہمارے بچے کو"
بختاور ہاتھ نچا نچا کر بولی...
حارث بیگ کا چہرہ ضبط کے مارے سُرخ ہورہا تھا...
"وُہ ٹکڑے ٹکڑے کردینے لائق ہے صرف ماہی کی وجہ سے وُہ اُس دن بچ گیا ورنہ میرے ہاتھوں اُس کا قتل ہوجاتا صرف ماہی نے روک لیا کے اپنے ہاتھ گندے مت کرو اِس کے خون سے..."
"میں مر کیوں نہیں گئی یہ سننے سے پہلے ہائے آصف کیا بے شرموں کی طرح کھڑا سُن رہا ہے دیکھ کیسے تیرے خون کو گندہ کہہ رہا ہے.."
بختاور کا واویلا شروع ہوچکا تھا...
منیر کا غصّے کے مارے بُرا حال تھا وُہ کہہ کمرے سے باہر نکل گیا...
"بھائی جان... بھائی جان.."
پیچھے سے بلند ہوتی آوازوں پر اُس نے پلٹ کر دیکھا تو حارث بیگ زمین بوس تھے وُہ اُن کی طرف بھاگا...
____________________________________
"حال"....
"میں ویسے دیکھ رہی ہوں تمہاری آج کل زیان سے زیادہ بن رہی ہے سب خیر.."
دُعا نے اُسے شرارتی انداز میں اُسے کُہنی مار کر کہا...
"توبہ ہے یار کولیگ ہے اور دوست بھی اور سب سے بڑی بات پورا دن اُس کے ساتھ گزارنا پڑتا ہے تو بات نہیں کروں تو کیا دیواروں سے سر پھوڑوں.."
اُس نے تپ کر کہا...
"ہاہاہاہا...تمھیں غصّہ بھی آنے لگ گیا ہے..."
اُس کا انداز ہنوز شرارتی تھا...
"ہاں اور اب تُم نے ایک اور سوال کیا تو اِس چمٹے سے تمہارا سر کھول دوں گی میں۔"
وُہ ہاتھ میں پکڑے چمٹے سے پراٹھا پلٹتی بولی ..
"تُم خونخوار ہوگئی ہو.."
اُس نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی...
"ویسے دُعا ہم کتنی جلدی کسی کے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں بغیر کُچھ سوچے سمجھے سامنے والے کو جانے بغیر بس اپنی رائے کو مقدم جان لیتے ہیں.."
"اور یہ یقیناً تم زیان کے بارے میں کہہ رہی ہو.."
وُہ سالن کا ڈونگا اُٹھا کر بولی...
"ہاں وہی میں نے اُسے بہت ہی کوئی غیر سنجیدہ اور بے فکر سا شوخ،آوارہ اِنسان سمجھا تھا مگر وُہ بہت مختلف نکلا میری سوچ سے.."
اُس نے پُر سوچ انداز میں کہا..
"توبہ توبہ ماہی تُم نے اُس بیچارے کو کیا سمجھا ہوا تھا میرا دوست بہت شریف بچہ ہے میں تو شروع سے کہہ رہی ہوں تمھیں.."
وُہ بھی اُسے اب ماہی کہتی تھی جب سے اُس نے اُسے منیر کے متعلق بتایا تھا...
"ہاں تُم نے سچ کہا تھا اگر وہ آوارہ ہوتا تو سب کو بتاتا کہ ت میں کس طرح کراچی سے اکیلے سفر کرکے یہاں آئی ہوں جبکہ اُس نے تو یہ بات یہاں کسی کو ظاہر تک نہیں ہونے دی کے وہ یہاں مُجھ سے پہلے بھی مِل چُکا ہے.."
منتہی نے سلاد کاٹتے ہوئے کہا...
"میں تو تمہیں پہلے ہی کہتی تھی ضروری نہیں جو اِنسان جیسا دکھتا ہو وُہ ویسا ہی ہو..."
اُس نے اپنی بات کے صحیح ثابت ہونے پر فخر سے کہا۔۔۔
"اُس کی سب سے اچھی بات ہے دُعا کے اُسے عورتوں کی عزت کرنی آتی ہے اور ایسے مرد بہت کم ہوتے ہیں..."
اُس نے بے پناہ عزت کے ساتھ اُس کے بارے میں کہا...
"کیا بات ہے بھئی بڑی تعریفیں ہورہی ہیں اُس کی کہیں پیار ويار..."
"توبہ دُعا تُم بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہو میں بس ایک بات کر رہی ہوں تُم پتا نہیں کیا کیا سوچنا شروع کردیتی ہوں..."
وُہ جھنجھلا کر بولی...
"اچھا میری جان ناراض تو نہ ہو..."
وُہ اُس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولی تو منتہٰی نے سارا غصّہ بھول کر اُسے گلے لگا لیا...
"بہت شکریہ دُعا تُم نے مُجھے اتنی محنت دی۔۔"
وُہ روتے ہوئے بولی...
"ایک لگاؤں گی..."
دُعا اُسے ہاتھ دکھا کر بولی تو وُہ ہنس پڑی....
"پاگل تُم میری بہنوں کی طرح نہیں میری بہن ہو میری واحد سہیلی جو مجھے جھیل پاتی ہے اب تُم سے بھی پیار نہ کروں.."
وُہ اُس کی پیٹھ تھپک کر بولی...
"ہاں ویسے تمھیں جھیل میں ہی پاتی ہوں توبہ اتنی پٹر پٹر کرتی ہے توبہ یہ تو میری ہمت ہے کے..."
وُہ آہستہ آہستہ پیچھے جاتے بولی...
"ماہی کی بچی ابھی بتاتی ہوں تُجھے.."
وُہ اُس کے پیچھے بھاگی تو وُہ بیڈ پر چڑھ کر تکیے اُس کی طرف اُچھالنے لگی...
"اللہ دیکھو تو اِس کو کہاں جی جی کرتی تھی اب دیکھو تو.."۔دُعا نے مصنوئی حیرت سے کہا۔۔۔
" پکڑ لیا.."
دُعا نے اُسے بیڈ پر گرا دیا اور دونوں ایک دوسرے کو کشن سے مارنے لگے۔۔۔
ہر طرف دونوں کی ہنسی کی جلترنگ بکھری تھی مگر کچھ ہی وقت تک قسمت پلٹنے والی تھی کوئی جانے والا تھا...
"کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے چل بہن کھا لیتے ہیں.."
دُعا نے کشن پھینک کر اُٹھتے ہوئے کہا تو وُہ بھی ہنستی ہوئی اُٹھ گئی...
_________________________________________
وُہ چاروں اِس وقت کینٹین میں بیٹھے تھے اور لنچ پر بحث ہورہی تھی..
"بھئی میں تو سموسے کھاؤں گی.."
دُعا زور سے بولی..
"ہاں خیرات کے سموسے.."
آواز سمیر کی تھی دُعا نے کڑی نظروں سے دیکھا تھا...
پھر کُچھ یاد کرکے ہنس دی...
"تمھیں اب تک یاد ہے کیسے بے وقوف بنایا تھا اُس کو..."
وُہ چٹخارے لے کر بولی۔۔۔
"تُم نے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہے آج تک.."
یہ سمیر ہی تھا جو ہر وقت خاموش رہا کرتا تھا مگر وہ لڑکی اُسے بے بس کرتی تھی اور وُہ بے بس ہوگیا تھا اُس کے سامنے...
"میں تو سوپ پیوں گی.."
منتہٰی نے مدھم سی آواز میں کہا...
"میں سموسے.."وُہ پھر چلائی...
"ابے چُپ کر یار.."
وُہ دُعا کو کہتا منتہٰی کی طرف توجہ کرتے بولا..
"کیا کہہ رہی تھیں آپ.."
اُس کی اِس حرکت کو دُعا اور سمیر نے انتہائی حیرت سے دیکھا تھا جبکہ منتہٰی نے اُن کے چہرے پر چھائی حیرانگی نہیں دیکھی تھی..
"میرے لیے سوپ.."
وُہ دوبارہ بولی...
"میں بھی سوپ لوں گا.."
دُعا کو جوس پیتے پیتے اچھوکا لگا...
"آرام سے دُعا.." سمیر نے رومال دیتے ہوئے کہا....
"ٹھیک ہے ماہی تُم جاکر لے آؤ..".دُعا نے قصداً اُسے کہا..
"میں لے آتا ہوں جاکر آپ بیٹھ جائیں.."
زیان اُٹھنے ہی لگا تھا دُعا نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بٹھا دیا...
"نہیں ماہی تُم جاؤ وُہ کیا ہے نہ تمہاری شکل دیکھ کر وُہ پیسے کم لے گا شکل سے ہی غریب لگتی ہو قسمیں.."
وُہ ہنستے ہوئے بولی...
"تمہارا تو منہ توڑتی ہوں آکر.." وُہ اُسے چُٹکی بھر کر چلی گئی۔۔۔
"میں آتا ہوں..." زیان بھی جانے لگا...
"ابے بیٹھ گدھے.."
دُعا نے دوبارہ اُسے کھینچ کر بٹھایا...
"یہ سب کیا ہے.."
دُعا نے ہاتھ کے اشارے سے اُس طرف اشارہ کرتے کہا جہاں سے منتہٰی گئی تھی...
"کیا کِیا ہے.." وُہ انجان بن کر بولا...
"ہاں زیان تُم کافی مشکوک حرکتیں کر رہے ہو آج کل تم اور وُہ بھی منتہٰی کی ہر بات مانو.."اب کی بار سمیر بولا..
"ایک تو تمہیں ہر کوئی اپنی طرح مشکوک کیوں لگتا۔"
اُس کی توپوں کا رخ اُس کی طرف ہوا...
"مُجھ سے کیوں اُلجھ رہی ہو تم زیان سے کچھ پوچھ رہی تھی.."سمیر نے زیان کے طرف آنکھ سے اشارہ کرتے کہا تو پھر اُس کی طرف متوجہ ہوئی...
"ہاں تُم بتاؤ کیا چکر ہے.."
"کیا مطلب کیا چکر تمھارا دِماغ چل گیا ہے دُعا.."
وُہ بوکھلا کر بولا...
"سیدھا سیدھا بتا ورنہ لگاؤں ایک اور جانتا ہے تُو میرے ہاتھ.."
وُہ ہاتھ اٹھا کر بولی...
"کیا ہے.."
وُہ جھٹکے سے ہاتھ جھٹک کر بولا..
"مُجھے بھی نہیں بتائے گا میں تو بیسٹ فرینڈ ہوں نا.."
وُہ اب ایموشنل بلیک میلنگ پر اُتر آئی..
"پسند کرتے ہو اُسے.."
سمیر نے پوچھا تھا...
زیان نہیں نفی میں سر ہلایا...
دُعا نے اُس کے سنجیدہ انداز پر اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا...
"محبت کرتا ہوں اُس سے.."
اب کی بار وُہ دنوں بری طرح چونکے تھے...
"ہاں محبت کرتا ہوں اُس سے بہت محبت کرتا ہوں اُس سے.."
وُہ دوبارہ بولا...
"منہ بند کرلے مکھی چلی جائے گی...
زیان اُس کی تھوڑی اوپر کرکے بولا...
"کیا وُہ جانتی ہے؟"
دُعا نے رازداری سے پوچھا...
"نہیں.." اُس نے معصومیت سے کہا...
"اللہ ہائے میری بہن کا کیا ہوگا.."
وُہ مصنوئی افسوس سے بولی۔۔۔
"ڈرامے نہ کر.."
زیان نے اُسے ڈپٹ دیا...
"آر یو شیور تمھیں اُس سے محبت ہی ہے.."
سمیر نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا...
"میں کوئی ٹین ایجر نہیں ہوں سمیر.."
اُسے بُرا لگا تھا شاید...
"تُم اپنی تفشیش بند کرو بڑے آئے خود نے جیسے بڑی محبت کی ہے.."
وُہ اترا کر بولی...
"کی تو ہے مگر وہ لڑکی بڑی بدماغ ہے اور...."
وُہ اُسے دیکھتے ہوئے بولا تو دُعا لمحے بھر کو رُک گئی سمیر کی آنکھوں میں محبت کے رنگ واضح تھے وُہ نظریں چرا گئی...
"بعد میں بات کریں گے ہماری ماہی آرہی ہے..."
وُہ زیان کو کُہنی مار کر بولی...
"خبردار اُس کے سامنے کوئی بات کی میں خود بتاؤں گا اُسے.."
اُس نے سختی سے کہا اور منتہٰی کو قریب آتا دیکھ کر اُٹھ کر اُس کے ہاتھوں سے ٹرے لے لی...
جبکہ دُعا دبی دبی سی ہنسی ہنسنے لگی....
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro