Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۱

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۱

وُہ کینٹین میں داخل ہی ہوئی تھی اُس کی پہلی نظر کونے میں بیٹھی تہمینہ پر پڑی وُہ اُسے کُچھ پریشان سی نظر آئی مگر پھر اپنا وہم سمجھ کر اُس نے سر جھٹک دیا اور کرسی کھینچ کر اُس سے متوازی ٹیبل پر بیٹھ گئی...
مگر اب اُس کی ذہنی رو مسلسل بھٹکتی اُس پر جا ٹھہرتی تھی اُسے گمان ہوا کے وُہ رو رہی ہے اور تصدیق اُس کے دیکھنے پر جھٹ آنسو صاف کرتی تہمینہ نے کردی اور بڑی دقت سے مسکرا دی..
اُس نے یہ اجتناب واضح طور محسوس کیا تھا...
وُہ وہاں بیٹھی دُعا زیان اور سمیر کا انتظار کر رہی تھی مگر تینوں ہی اب تک غائب تھے...
اُس نے دزدیدہ نظروں سے دوبارہ تہمینہ کو دیکھا تو وُہ ٹیبل پر سر جھکائے بیٹھی تھی اب کی بار اُس سے رہا نہیں گیا وُہ اپنی ٹیبل سے اُٹھ کر اُسکے برابر کُرسی کھینچ کر بیٹھ گئی...
اُس نے چونک کر اپنی گردن اٹھائی تو سامنے منتہٰی کو دیکھ کر فوراً خود کو نارمل پوز کرنے کی بھونڈی کوشش کرنے لگی..
"ہیلو.."
منتہٰی نے بات کرنے میں پہل کی..
"ہائے.."
اُس نے بھی جواباً مسکرا کر کہا مگر اُس کی مسکراہٹ کتنی پھیکی تھی کوئی بھی جان لیتا..
"دو دن سے تُم آ نہیں رہی تھی.."
اُس نے دوستانہ سے انداز میں پوچھا..
"ہاں وُہ احمد کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی .."
وُہ بھی اب اُس کی طرف متوجہ ہوچکی تھی ..
"آب کیسا ہے احمد؟؟"
"اللہ کا شکر ہے اب ٹھیک ہے اِسی لیے میں آسکی ورنہ وُہ میری جان کہاں چھوڑے.."
وُہ دوبارہ مسکرائی..
مگر اب کی بار اُس کی مسکراہٹ پھیکی یا نقلی نہیں تھی اُس کا چہرہ ویسے ہی جگمگا رہا تھا جیسے کسی بھی ماں کا اُس کی اولاد کے نام پر دمکتا ہے...
"بہت محبت کرتا ہے تُم سے؟.."
منتہٰی بے تکے سوال کر رہی تھی مگر وُہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔
"میری جان ہے وُہ وہی تو ہے صرف..."
کہتے ہوئے طوعاً و کرہاً اُس کا گلہ رندھ گیا...
منتہٰی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ بے اختیار رو پڑی جیسے بھری بیٹھی ہو کسی کاندھے کی تلاش تھی جسے سے سر ٹکا کر اپنا درد کہہ سنائے..
"کیا ہوا ہے تہمینہ سب ٹھیک تو ہے نا؟..."
وُہ اُسے یوں روتا دیکھ گھبرا گئی..
"کُچھ بھی ٹھیک نہیں ہے کُچھ بھی تو نہیں کُچھ ٹھیک تھا ہی کب..."
وُہ کہتی گئی اب کی بار منتہٰی نے اُسے ٹوکا نہیں بس اُس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی..
"اچھا میری جان بس چُپ ہوجاؤ.."
اُس کی تہمینہ سے بس رسمی سی علیک سلیک تھی مگر قمست کے ستائے لوگ تو اپنے ہمراہی بھیڑوں بھیڑ میں ڈھونڈھ لیتے..
"میں پانی لاتی ہوں تمہارے لیے.."
وُہ پانی لینے چلی گئی..
"لو پانی پیو اور چُپ ہوجاؤ مُجھے بتاؤ کیا ہوا ہے ہم سب ایک فیملی کی طرح ہیں تہمینہ کم از کم مُجھے تو بتاؤ کیا ہوا ہے تمہارے دِل کا بوجھ ہلکا ہوگا اِس طرح تُم اندر ہی اندر ٹوٹتی چلی جاؤ گی.."
اُس نے اُس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا تو اُسے کُچھ سکون آیا...
"تھینک یو منتہٰی..."
اُس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تشکر آمیز انداز میں کہا..
"چلو شاباش اب بتاؤ کیا ہوا .."
وُہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے نرمی سے بولی...
"میں تھک گئی ہوں میں ہر ممکن کوشش کرتی ہوں کہ اِس رشتے کو باحسن وجوہ نبھا سکوں مگر میں اِنسان ہوں جانور نہیں ہوں جو وُہ مُجھے جانوروں سے بھی بری طرح مارتا ہے یہ دیکھو یہ دیکھو.."
وُہ اپنے ہاتھ پر جمی نیل کے نشان کو دکھاتی بولی اور پھر رونے لگی...
اُس کے دونوں ہاتھوں پر گردن پر جابجا نیل کے نشان تھے جسے اُس نے سیاہ چادر سے چھپا رکھے تھے منتہٰی کا دِل بھر آیا...
"تُم کیوں برداشت کر رہی ہو یہ جہالت ہے تہمینہ ظُلم سہنا کرنے سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے.."
وُہ اُسے سمجھانے لگی...
"تمہاری طرح میری بھی یہی سوچ تھی منتہٰی مگر یہ مرد ہماری سوچ سے دس قدم آگے کا سوچتے ہیں جب شادی ہوتی ہے تو نئی نئی شادی اور بیوی کا خمار اِن لوگوں کے سروں پر چڑھا ہوتا ہے  اُس کے بعد چند مہینے گزر جاتے ہیں وہ جنوں جھاگ سے بھی جلدی بیٹھ جاتا ہے مرد نکاح کے نام پر ملی عورت کو ہر طور برت چُکا ہوتا ہے اُسے اُس کی ذات میں پھر کوئی ایسی دلچسپی نہیں دکھتی جسے پورا کرلینے کی خواہش اُسے باندھ سکے وُہ آوارہ پکھیرو کی طرح اِس ڈالی سے اُس ڈالی تک پھدکتا پھرتا ہے اور عورت وُہ تو نام کو ہی بیوی رہ جاتی ہے پتا ہے کیوں کیونکہ بیوی ہونے کا سارا احساس یہ مرد آغاز میں اتنی شدت سے کرواتا ہے کے بس ہم اندھیوں کی طرح اُس مرد کو دِل کی مسند پر براجمان کرکے ساری زندگی اُسے پوجتی رہتی ہے.."
وُہ زہر خندہ بولی...
"میں سمجھتی تھی چلو کُچھ وقت تو اچھا گزرا اب ویسے بھی ساری عُمر اسی کے ساتھ گزارنی اُس نے نام دے رکھا کافی ہے مگر نہیں وُہ اچھا وقت بھی منصوبہ بندی ہوتی ہے اِن مردوں کی اور جانتی ہو وُہ کیا ہوتی ہے..؟"
وُہ استہزایہ انداز میں کہتی رُکی...
"جیسے قُربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے خوب سیر کھانا کھلایا جاتا ہے اُس کی پیاس بجھائی جاتی ہے اُسی طرح وُہ حسین لمحے عُمر بھر ہماری زندگی پر غاصب رہنے کی سازش ہوتی ہے ایسی سازش جس میں شکار ہونے والا خود شکار ہونا چاہتا ہے اور پھر نتیجہ اور نتیجہ پتا ہے کیا ہوتا ہے؟؟"
وُہ دوبارہ کہتے کہتے رُکی اُس کا انداز چیلنج کرتا ہوا تھا جیسے اُسے یقین تھا منتہٰی کے پاس اِس بات کا جواب نہ ہوگا..
اور واقعی اُس کے پاس اِس بات جواب نہیں تھا...
"اولاد ہاں "اولاد" ایک ایسا شکنجہ جس سے کوئی عورت کبھی نکل نہیں پاتی میں نے تمہیں کہا نا جس طرح جانور کو قربان کرنے سے پہلے کھلایا پلایا جاتا بس ہماری حیثیت بھی یہی ہے فرق صرف اتنا ہے ہمیں قربان نہیں کیا جاتا ہلال کیا جاتا ہے اپنی پوری زندگی کے لیے اپنی قبر تک کے لیے کیونکہ اگر عورت کے پیروں میں یہ بیڑیاں نہ پڑی ہو تو خُدا کی قسم عورت سے بڑی باغی مخلوق خدا نے نہیں بنائی..."
وُہ منتہٰی کی آنکھوں میں دیکھتی کہہ رہی تھی اور اسے اُن آنکھوں سے خوف آرہا تھا...
"تُم طلاق کیوں نہیں لے لیتی تُم ینگ ہو پڑهی لکھی ہو اپنا اور احمد کا خرچہ خود اُٹھا سکتی ہو.."
اُس نے مشورہ دیا۔۔
"کیا واقعی یہ اتنا آسان ہے جتنی آسانی سے تُم نے کہہ دیا.؟"
اب کی بار بھی انداز چیلنجنگ تھا...
"نا ممکن تو نہیں.."
اُس نے اپنی سی سعی کی تو وہ استہزایہ بولی ..
"اِن مردوں کو غیرت کے بوجھ بھی تو ہم نے ہی ڈھوہنے ہوتے باپ کی غیرت بھائی کی غیرت کے شوہر کی غیرت کے جہاں کوتاہی ہوئی جہاں ذرا سی عورت کی باغیانہ سوچ نے انگڑائی لی وہی یہ غیرت کے مارے یا تو خود مرنے کی دھمکیاں دیتے یا ہمیں ہی مار دیتے...ہمارے معاشرے میں لڑکی کو بچپن سے سکھایا جاتا ہے تُم نے دوسرے گھر جانا شادی کے بعد مرد کہتا تو میری لونڈی ہے میری ہاں کی ناں کی تو تجھے تیرے گھر چھوڑ آؤں گا اور باپ کہتا جو بھی ہے اب وہی تیرا گھر ہے.. سچ تو یہ ہے عورت کا صرف ایک ہی گھر ہے اور وہ قبر ہے جہاں سے اُسے پھر کوئی نہیں نکال سکتا وہاں کسی کا زور نہیں چلتا چل ہی نہیں سکتا اگر چلتا تو یہ لوگ وہاں بھی کہتے میری بیٹی،بہن،بیوی،ماں ہوکر سوکھی زمین پر کیوں لیٹی ہے باقیوں کی عورتیں تو گیلی زمین میں دفن ہے اب لوگ کیا کہیں گے میرے بارے میں میری عزت سوکھی زمین میں کیوں دفن..."
وُہ کرب کی اذیت کی حد پر تھی منتہٰی بے اختیار رو پڑی اور اُسے گلے سے لگا لیا...
اُس نے کتنی کڑوی مگر سچ بات کہی تھی بلکل اللہ قدرت سی سچی...
"میں بھی اِس معاشرے کی ایک عام اور بزدل لڑکی ہوں میرے پیروں میں بھی بیڑیاں ہیں مُجھے بھی غیرت کے بوجھ ڈھوہنے ہیں.."
اُس نے نم آنکھوں کے ساتھ مسکرانے کی ناکام کوشش کی...
"مُجھے بہت اچھا لگا تُم سے بات کرکے سچ میں دِل کا بوجھ ہلکا ہوا ہے اب کچھ ہمت مزید جوڑ پائی ہوں اِس بوجھ کو محمول کیے رکھنے کی.."
وُہ منتہٰی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بولی تو اُس نے بھی اپنا دوسرا ہاتھ اُس کے ہاتھ پر رکھ کر اُسے ہمت دلائی تھی..
"لنچ ٹائم ختم ہونے والا ہے اور تُم نے میرے چکر میں کُچھ کھایا ہی نہیں دیکھو تمہارے دوست بھی آ چکے۔۔"
اُس کے کہنے پر منتہی نے سامنے دیکھا تو وُہ تینوں وہی تھے اور اُسے اپنی جانب دیکھتا پا کر دعا نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا...
"تُم جاؤ..."
وُہ متانت سے بولی..
"تُم بھی چلو میرے ساتھ تُم نے بھی کہاں کُچھ کھایا ہے.."
"ارے نہیں تُم جاؤ ویسے بھی مُجھے بھوک نہیں.."
"ایسے کیسے نہیں.."
"منتہی سچ میں۔۔"
وُہ اُس کا ہاتھ ہلکا سا دبا کر بولی..
"ٹھیک ہے پھر بات ہوگی."
وُہ اُٹھ کر جانے لگی..
"ضرور اور سنو.."
وُہ جاتے جاتے پلٹی...
"شکریہ.."
منتہی نے پلکوں کو خم دے کر اُس کا شکریہ قبول کیا تھا..

         ________________________________________

ماضی...

"بھئی آصف اب تُم ہمیں تاریخ دے دو کب ہم منتہی کو لے کر جائیں اپنے گھر.."
حارث بیگ نے اپنے بھائی آصف بیگ سے کہا..
"بھائی جان میری بچی اپنے گھر میں ہی تو ہے.."
آصف بیگ نے چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا...
"میرا مطلب ہے بس اب میں رخصت کروا کر لے جاؤں گا اپنی بچی کو اپنے گھر.."
حارث بیگ نے منتہی کو دیکھ کر کہا..
"بابا میں سموسے لاتی ہوں چائے کے ساتھ.."
وُہ شرما کر وہاں سے جانے لگی تو بے دھیانی میں اندر داخل ہوتے منیر سے بری طرح ٹکرا گئی...
"سنبھل کر بچے کہاں بھاگی جارہی ہو اتنی جلدی میں.."
"کُچھ نہیں.."
وُہ بس اتنا کہہ کر باہر چلی گئی..
"بھائی جان منتہٰی ابھی صرف اٹھارہ کی ہے اور پڑھ رہی ہے اتنی بھی کیا جلدی ہے آپکی امانت ہے جب چاہیں لیں جائیں بس بچی اپنے پڑھنے کا شوق پورا کرلے.."
آصف بیگ نے مسکرا کر کہا..
"بھئی دراصل ہمارے صاحبزادے کو جلدی پڑی ہے اُس کا تو بس نہیں چل رہا آج نکاح پڑھا لے اور میں نے بھی سوچا کیوں نہ بیٹی کے فرض کے ساتھ بیٹے کی بھی کردوں  منیر اور شائنہ کے ساتھ منتہی اور غفران کی بھی کرلیں.."
وُہ منیر کو آتے دیکھ کر خوشی سے بولے...
"تایا ابو آپ غفران کو کہیں پہلے کُچھ بن تو جائے پڑھائی مکمل ہے نہیں کوئی کام دھام ہے نہیں شادی کی پڑی اُسے.."
وُہ نخوت سے بولا جس پر آصف بیگ نے اُسے کڑے تیوریوں سے  گھورا مگر حارث بیگ نظرانداز کرگئے اُنہیں اپنے اِس بھتیجے سے محبت ہی بہت تھی اور اوپر سے وُہ اُن کا ہونے والا داماد بھی تھا..
"ہاں بیٹا تمہاری بات بلکل ٹھیک ہے میں سمجھاؤں گا اُسے پہلے اپنے پیروں پر تو کھڑا ہوجائے کیا اپنی بیوی کو بھی اپنے باپ کی کمائی کھلائے گا.."
وُہ قہقہہ لگا کر بولے تو منیر بمشکل مسکرایا تھا..
"اچھا آصف میں تو چلتا ہوں دکان پر جانا نوکروں کے بھروسے زیادہ دیر نہیں چھوڑنی چاہیے.."
وُہ اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے چلے گئے..
"تمھیں چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے وُہ تو بھائی جان تمھیں کُچھ کہتے نہیں.."
وُہ تند خو انداز میں بولے...
"کیونکہ انہیں بھی اپنے بیٹے کی حرکتوں کا بہر طور علم ہے.."
وُہ ناگواری سے بولا..
"اور بابا میں کہہ رہا ہوں آج آپکو صاف میں اپنی بہن کی شادی اُس اِنسان سے کبھی نہیں ہونے دوں گا یہ آپ اچھے سمجھ لیں مُجھے میری ماہی کو آنکھوں دیکھے جہنم میں دھکیلنے کا کوئی شوق نہیں اور نہ ہی اُس کی روٹیاں مُجھ پر بھاری ہیں.."
وُہ سخت غصے میں کہتا اُٹھ کر چلا گیا جبکہ اُنہوں نے اُس کی بات کو کسی خاطر میں نہیں لیا...

               _________________________________

"منتہی آپ نے فائل تیار کرلی..؟"
اُس نے اُسے کسی سوچ میں محو دیکھ کر کہا..
"منتہی.."
اُس نے دوبارہ پُکارا تو جیسے وُہ ہوش میں آئی...
"کُچھ کہا آپ نے.."
اُس نے ہڑبڑا کر پوچھا..
"کیا بات ہے منتہی آپ صبح سے مُجھے بہت پریشان لگ رہی ہیں.."
وُہ اُس کے سامنے چیئر پر بیٹھ گیا..
"جی.."
اُس کا انداز ہنوز کھویا کھویا تھا...
"میں نے آپ سے صبح بھی کہا تھا ہم صرف کولیگ نہیں دوست بھی ہیں اور میرے لیے تو آپ بہت اہم ہیں.."
آخری بات اُس نے دِل میں کہی تھی..
"آپ سے ایک سوال پوچھوں مگر جواب بلکل ایمانداری سے دیں گے آپ.."
اُس نے زیان سے کہا..
"جی پوچھیں کیا پوچھنا ہے..."
زیان لیپ ٹاپ بند کرکے مکمل طور پر اُس کی طرف توجہ کرچکا تھا انداز شوخ تھا..
"آپکے نزدیک عورت کس لائق ہے اور گھریلو تشدد کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے ؟؟؟ جواب بِلکُل ایمانداری سے دیجیۓ گا.."
اُس نے دوبارہ باور کروایا...
اُس کے چہرے پر اب سنجیدگی چھا گئی گہرا سانس لے کر بولا...
"عورت تو اس لائق ہے کہ اسے دل میں جگہ دی جائے اسے پھولوں کی طرح رکھا جائے جانے کیوں لوگ اس نازک آبگینے کو پیروں کی ٹھوکروں میں رول دیتے ہیں۔"
جو شوخی کُچھ دیر پہلے تک اُس کے ہر انداز سے عیاں تھی اب وُہ مفقود تھی..
منتہٰی نے بغور اُس کے چہرے کو دیکھا تو وُہ ازحد سنجیدہ تھا..
" پھر بے غیور مردوں کو اپنی انا کی تسکین کے لیے عورت ہی کیوں سب کو آسان ہدف لگتی ہے اُسے اپنے عتاب کا نشانہ بناکر سرشاری حاصل کرتا ہے.."
اُس نے نفرت بھرے لہجے میں کہا..
"ایسے ردوے خدوے مردوں  کو مرد کہنا مردوں کی توہین ہے.."
تند و تیز لہجے میں کہتے ہوئے وُہ ریشہ خطمی زیان کا سایہ ہی لگتا تھا..

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro