Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱

زرد اور بے نور چاند مشرق کی جانب جھکا تو فضاء میں عجیب سی موت کی خاموشی مسلط ہوگئی۔رات کا دوسرا پہر شروع ہوچکا تھا۔
کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لاڑکانہ جانے والی ریل گاڑی نے دم لینے کو ذرا دیر کے لیے پاؤں پسارے۔
شیڈ کے نیچے بنچوں پر آڑے ترچھے پڑے نیم غنودہ لوگوں نے اچک کر گاڑی پر نظر ڈالی پھر اکا دکا کھنکھارتے ہوئے آنکھیں ملتے کسلمندی سے اٹھے اور اپنا سامان سنبھالنے لگے جبکہ بقیہ پھر سے اونگھنے لگے۔
لاڑکانہ جانے والوں کی تعداد قلیل تھی۔
پلٹ فارم پر کچھ خاص بھگدڑ نہ تھی۔
ننداسے قلی مسافروں کے سامان کا بوجھ بمشکل کندھوں پہ لادے مارے باندھے غم روزگار کو سہہ رہے تھے۔
انکے قدموں میں لڑکھڑاہٹ ہوتی مگر اتنی بھی نہیں کہ فرض کی راہ میں رکاوٹ بنتا۔
رات کے اس پہر ریلوے اسٹیشن کی عمارت بھی کچھ اداس سی نظر آتی تھی۔
ویٹنگ روم میں بھی کچھ ہی لوگ موجود تھے جن میں کچھ تو اونگھ رہے تھے تو کچھ بیزار صورتیں لیے ادھر ادھر تک رہے تھے۔
ٹکٹ گھر کے باہر محض دو لوگ کھڑے نظر آرہے تھے۔
تبھی ٹرین نے وسل بجائی اور یکدم کچھ لوگ چونک اٹھے۔
انہی میں سے ایک جوان لڑکی تھی جو ویٹنگ روم میں ایک جانب سمٹی سمٹائی کھڑی تھی مضطرب سی ہوکر جھکی اور اپنے پیروں کے پاس رکھے چھوٹے سے سفری بیگ کا اسٹریپ تھام کر اسے اٹھایا۔
اور پھر اسکے قدموں میں بجلی بھر گئی تھی۔ منتہٰی قریب قریب بھاگتے ہوئے پلیٹ فارم تک پہنچی.
ٹرین کے دیو ہیکل پہیوں میں حرکت ہونے لگی اور گڑگڑاہٹ کی آواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کردیا۔
وہ ایک ہاتھ میں سفری بیگ تھامے دوسرے ہاتھ سے سیاہ چادر کو ٹھوڑی کے قریب سے تھام نقاب کیے بھاگ رہی تھی۔
اس سمے رش نہ ہونے کے برابر تھا ورنہ پلیٹ فارم پر یوں تیزی سے بھاگ کر گاڑی میں سوار ہونا مشکل ہی ہوتا۔
وہ بمشکل مطلوبہ کمپارٹمنٹ میں سوار ہوئی اور پھر اپنے قدموں کو بدقت جماتے ہوئے اپنی برتھ پر آبیٹھی۔۔
اسکا تنفس غیر متوازن ہورہا تھا اور وہ کچھ گھبرائی سی نظر آتی تھی۔
یہ ایک سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ تھا جس میں مسافروں کہ تعداد بہت کم تھی۔
یا شاید نہ ہونے کے برابر۔ وہ پہلے پہل دھیان نہ دے سکی۔
چونکی وہ اس وقت تھی جب ایک مردانہ آواز نے اسے مخاطب کیا۔
اسنے بے طرح چونک کے گردن گھمائی۔ اسکے عین سر پہ ایک خوش وضع جوان کھڑا تھا اور اسکے ہاتھ میں پکڑی منرل واٹر بوتل کا رخ اسکی جانب تھا. یعنی وہ اسے پانی پیش کر رہا تھا۔
"جی۔۔"
اس نے تیوری چڑھائی۔
چادر کا کونہ اب تک چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا۔
"پانی پی لیں مادام، معلوم ہوتا ہے کافی دور سے تم رننگ کرتی ہوئی آئی ہیں."
وہ لطیف سے لہجے میں بولا۔
وہ ایک عام شکل و صورت کا انسان تھا مگر اسکی آواز و لہجہ بہت مہذب اور پر کشش تھے۔
"شکریہ میرے پاس پانی ہے۔"
اس نے خشک لہجے میں کہتے ہوئے اپنے بیگ میں سے پانی کی بوتل نکالی۔
"اچھی بات ہے."
وہ کہہ کر اپنی برتھ پر واپس چلا گیا۔ پانی پینے ہے بعد ذرا اوسان بحال ہوئے تو اسنے ذرا غور سے کمپارٹمنٹ کا جائزہ لیا اور پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب پورے کمپارٹمنٹ میں اس لڑکے اور اپنے سوا کسی کو نہ پایا۔
وہ دل ہی دل میں جزبز ہونے لگی.
یہ کیسی آکورڈ سی صورتحال بن گئی تھی۔
اور وہ لڑکا جو بلکل اسکی برتھ کے متوازی برتھ پر براجمان تھا مستقل ہونٹوں پر خیر مقدمی مسکراہٹ سجائے اسے ہی تک رہا تھا۔ وہ بلکل کھڑکی کے ساتھ جڑ گئی اور رخ پھیر کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
باہر گھور تاریکی کا راج تھا اور ٹرین بہت تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔

وُہ لڑکا بھی اُس کی توجہ نا پاکر موبائل نکال کر اُس میں مصروف ہوگیا..

رات کے اِس پہر گھر چھوڑ کر نکلنے کا فیصلہ اُس کے لیے آسان نہیں تھا اُس نے بہت سوچا اور ہر بار اپنے دماغ کی سنی جو کہتا تھا کہ "یہاں سے جاؤ گی تو پھر کہاں جاؤ گی"
بس یہی سوال اُس کی تمام تر ہمت حوصلے اور ارادوں پر چٹان کی طرح گر کر اُسے چکنا چور کردیتا.
مگر جب ظلم انتہا کی حدوں سے بھی تجاوز کرنے لگ جائے تو ایک وقت آتا ہے جب اِنسان ہر ڈر اور خوف سے آزاد فیصلے کرنے لگتا ہے نڈر اور بے باک فیصلے پھر نا انجام کا خیال رہتا ہے نہ دُنیا کی فکر وُہ بے نیاز ہو چُکا ہوتا ہے اپنے ہر عمل کر ردِ عمل سے...

"ویسے آپ کہاں جارہی ہیں..."
تھوڑی ہی دیر بعد اُس کی زبان کو پھر کھجلی ہوئی...

منتہٰی چُپ بیٹھی رہی اُس نے کوئی جواب نہیں دیا...

"دیکھئے میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں آپ کوئی بھی غلط رائے قائم مت کیجئے گا میرے حوالے سے میں بس آپ سے اسی لئے بات کر رہا ہوں جیسا کہ آپ دیکھ سکتی ہیں اِس کمپارٹمنٹ میں میرے اور آپکے علاوہ کوئی نہیں تو بس وقت گزارنے کے لئے..".
اُس نے اپنا مطمع نظر صاف کرنا ضروری سمجھا...

 وُہ ہنوز چپ سادھے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی...

"جیسی آپ کی مرضی..."
وُہ اپنے بیگ سے کتاب نکال کر پڑھنے میں مصروف ہوگیا....

منتہٰی نے ایک نظر بظاھر مشغول نظر آنے والے اُس لڑکے کو دیکھا اور پھر باہر دیکھنے لگی...

"گھر میں جب بھائی اور بھابھیوں کو پتا لگے گا تو نجانے کیا کہرام برپا ہوگا یا اللہ..."
اُسے یہ خیال ہی دہلائے جارہا تھا...

"بابا آپ نے کیوں جانے کے لئے کہا سہہ تو رہی تھی سب پھر کیا فرق پڑتا اگر غفران سے شادی بھی ہوجاتی..."
وُہ مسلسل خود کلام تھی...
آنسو اُس کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر چادر میں جذب ہوتے جارہے تھے ...

پورے کمپارٹمنٹ میں پر ہول سناٹا چھایا ہوا تھا ایسے میں اُس کی ہلکی سی سسکی واضح طور سے اُسے سنائی دی تھی مہر مگر وُہ انجان بنا رہا..

ٹی ٹی ٹکٹ چیک کرنے آیا تو اُس لڑکے سے ٹکٹ لیتے ہوئے منتہی کی عجیب نظروں سے سرتاپا دیکھنے لگا جو منتہٰی کو ہراساں کرنے کے لئے کافی تھا اُس لڑکے نے یہ بات محسوس کرلی مگر مگر غیر محسوس انداز میں گویا ہوا...

"لائیں آپ اپنا ٹکٹ دیں..."
اُس نے اِس بے تکلفی سے ہاتھ آگے بڑھایا جیسے برسوں کی شناسائی ہو مگر منتہٰی نے یہ بات نوٹ کی اُس کا یہ بے تکلفانہ انداز ٹی ٹی کو محتاط کرگیا تھا اُس نے اپنی نظریں اُس پر سے ہٹا لی تھیں...

"منتہی نے بیگ سے ٹکٹ نکال کر چُپ چاپ اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔۔

ٹی ٹی ٹکٹس چیک کرکے آگے بڑھ گیا...

"شکریہ..."
منتہٰی نے نرمی سے کہا...

"کوئی بات نہیں.."
اُس نے رسان سے کہتے ہوئے دوبارہ کتاب کھول لی اور ورق گردانی میں مصروف ہوگیا...

منتہٰی کو محفوظ ہونے کا احساس ہوا تو وُہ بھی پُر سکون ہوکر بیٹھ گئی...

"آپ کہاں جارہی ہیں..."
اُس نے دوبارہ وہی سوال کیا منتہٰی اتنا تو سمجھ چُکی تھی اُس کی ہڈی کو چین نہیں تھا وہ زیادہ دیر چُپ نہیں بیٹھ سکتا تھا...

"لاڑکانہ..."
اُس نے مختصر سا جواب دیا...

"میں بھی..."
اُس نے پُر جوش ہوکر بتایا...

"میرا نام زیان ہے آپکا بالکل بے فکر رہیں اِس پورے سفر میں میں آپکا بھر پور خیال رکھوں گا آفٹر آل میری امی نے مُجھے عورت کی عزت کرنا بخوبی سکھایا ہے..."
وُہ خود سے ہی بولے جارہا تھا جبکہ منتہٰی کو اِس باتونی لڑکے سے کوفت ہونے لگی تھی...

وُہ محض سر ہلا کر رہ گئی...

زیان پاؤں اوپر کرکے بیٹھ گیا.. رہ رہ کر اُس سے کُچھ نہ کُچھ پوچھتا رہتا جس کا وُہ بس ایک لفظی جواب دے دیتی یا محض سر ہلانے پر ہی اکتفا کرتی....

"ویسے ایک بات پوچھوں اگر آپکو بُرا نا لگے.."
زیان نے جھجکتے ہوئے کہا...

"اگر آپکو لگتا ہے کہ  آپکی بات سے مُجھے بُرا لگ سکتا ہے تو بہتر ہوگا آپ نا پوچھیں..."
وُہ دو ٹوک انداز میں بولی...

"ٹھیک ہے.."
وُہ اپنا منہ سہ لے کر رہ گیا..

اُس نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا تو رات کے ۱ بج رہے تھے اُسے یاد آیا اِس وقت تو گھر میں سب سوچکے ہوتے ہیں یا اپنے  اپنے کمروں میں ہوتے ہیں اور وُہ پورا باورچی خانہ سمیٹنے کے بعد سب کے کھانے کے بعد بچے ہوئے سالن اور روٹی پر ہاتھ صاف کر رہی ہوتی ہیں....
اُسے بے اختیار بھوک کا احساس ہوا صبح  ناشتے کے نام پر ایک ڈبل روٹی کے سلائس کے علاوہ اُس نے کچھ کھایا ہی کہاں تھا..
بھوک کا احساس شدت سے ہونے لگا مگر شومئی قسمت وُہ کھانے کے لئے کُچھ بھی نا رکھ سکی بابا نے اُسے بیس ہزار روپے دیئے تھے مگر وُہ جلدی جلدی میں کُچھ بھی لے نہ سکی...

وُہ ضبط کیے بیٹھی رہی....

زیان کانوں میں ہینڈ فری لگائے خود کو مایا ناز گلوکار سمجھتے ہوئے چل رہے گانے کے ساتھ  خود بھی اپنی سریلی آواز میں گانے لگا...

منتہٰی کو با قاعدہ کانوں پر ہاتھ رکھتے دیکھ کر اُسے شدید سبکی کے احساس نے آ گھیرا فوراً کان سے ہینڈ فری نکال کر بیگ میں ڈال دی۔۔۔

جبکہ منتہٰی نے علی ظفر کا بے سرا کنسرٹ ختم ہونے پر سکون کی سانس لی...

تھوڑی ہی دیر گزری تھی منتہٰی نے اُسے اُس کے ہی بیگ کی زپ کے ساتھ نبردآزمائی کرتے ہوئے پایا..

"اِس کے ہاتھوں کو منہ کو کسی چیز کو چین نہیں..."
اُس نے بیزاری سے سوچا...

جبکہ زیان پورے دل و جان سے بیگ کی زپ کو توڑ کر جوڑنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا...
جب وہ جڑ گئی تو بیگ ایک طرف رکھ کر کھڑکی سے سر ٹکا کر بیٹھ گیا...

کُچھ دیر ہو گزری تھی وُہ اس کام سے بھی اُکتا گیا سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ اپنا جوتا کمپارٹمنٹ کی زمین پر مارنے لگا..
کُچھ دیر تک منتہٰی چُپ بیٹھی رہی  پھر اُس کے جوتوں کی ٹھک ٹھک سے عاجز آکر بولی...

"آپ اپنے ہاتھ پاؤں  منہ سب قابو میں رکھ کر چُپ چاپ نہیں بیٹھ سکتے..."

"جی..."
اُس نے معصومیت بھرے انداز میں پوچھا...
منتہٰی نے اُس کے جوتے کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا تو اُس نے کمپارٹمنٹ کی فلور کو کسی نا کردہ گناہ کی سزا دینی بند کرتے ہوئے معذرت کی...

چند منٹ سکون اور عافیت سے گزر گئے..
ابھی اُس کی آنکھ لگی ہی تھی کمپارٹمنٹ راحت فتح علی خان کے گانے "تیرے مست مست دو نین.." سے گونج اٹھا وُہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی...
موصوف بیٹھے بیٹھے جیب سے موبائل نکالنے کی سعی کرنے لگے منتہٰی کی کھا جانے والی نظروں کا ارتکاز برداشت نا کرسکا جھٹ سے اُٹھ کر جیب سے موبائل نکالا اور کال ریسیو کی....

"السلامُ علیکم مما کیسی ہیں آپ.."
منتہٰی نے اُسے گھوری سے نوازتے ہوئے آنکھیں کھڑکی سے باہر ٹکا دی...

"جی مما میں بالکل ٹھیک ہوں آپ فکر نہیں کریں..."
وہ بہت محبت سے بولا..

"او تیری وُہ تو یاد ہی نہیں رہا وہی بولوں پیٹ میں چوہے کیوں دوڑ رہے ہیں کب سے مُجھے لگا کھیل کود کر رہے ہوں گے مگر نہیں ارے اِنہیں بھوک لگی ہے..."
زیان ازحد سنجیدگی سے بولا...
منتہٰی کو بے اختیار ہنسی آ گئی جسے اُس نے چادر منہ پر  رکھ کر چھپا لی...

"ٹھیک ہے مما میں پہنچ کر آپکو کال کروں گا لو یو خُدا حافظ..."
زیان نے فون بند کرتے ہی سائڈ میں رکھا اور ایک کپڑے کی تھیلی سے ٹفن نکالا...

ٹفن کھولتے ہی شامی کباب اور یخنی پلاؤ کی اشتعال انگیز خوشبو پورے کمپارٹمنٹ میں پھیل گئی...
منتہٰی جو بھوک کے احساس کو دبا رہی تھی اُس کی بھوک چمک اٹھی...

زیان نے بڑے مزے سے ایک پلیٹ میں پلاؤ اور شامی کباب لے کر کھانے لگا..
وُہ اُس کی موجودگی کو یکسر نظر انداز کرچکا تھا جب احساس ہوا تو اپنی مگن طبیعت پر ملامت کی...

"آپ کھائیں گی..."
زیان نے مہذب انداز میں پوچھا...

منتہٰی کی آنتیں قٌل پڑھنے لگی تھی مگر خوداری آڑے آ گئی وُہ کیسے کسی اجنبی سے کچھ لے کر کھا سکتی تھی...

"نہیں شکریہ..."
اُس نے نا چاہتے ہوئے بھی انکار کیا...

"میں اتنا سارا اکیلے نہیں کھا سکوں گا اور صبح تک یہ خراب ہوجائے گا اور میری والدہ ماجدہ کہتی ہیں رزق کی بے حرمتی نہیں کرنی چاہیے کتنے ہی لوگ ترستے ہیں اِس کے لیے کتنے ہی پیٹ صرف پانی کر سوجاتے ہیں...ویسے بھی میں یہ کھانا ضائع تو ہونے دوں گا نہیں زبردستی کھانا پڑے گا مگر پھر اوور کھانے کی وجہ سے مُجھے الٹیاں ہوں گی تو کیا آپ چاہیں گی یہاں کوئی گندگی ہو..."

وُہ ایک سنجیدہ بات کرتے ہوئے بھی اُسے مزاح کا رنگ ضرور دے دیتا تھا شاید یہ اُس کی خاصیت تھی جو منتہٰی نے نوٹ کی تھی....

"نہیں رزق کی بے قدری ہرگز نہیں ہونی چاہیے آپ مُجھے دے دیں مجھے ویسے بھی بھوک لگی ہے میں کُچھ لا بھی نہیں سکی..."
اُس نے صداقت سے کہا...

"یہ تو اور بھی اچھی بات ہے..."
زیان نے دوسری پلیٹ میں پلاؤ کباب سلاد اور رائتہ ڈال کر اُسے دے دیا جسے اُس نے شکریہ کہتے ہوئے تھام لیا۔۔۔

رزق کی قدر اُس سے زیادہ کسی ہوسکتی تھی جس نے ماں کے دُنیا سے جانے  اور باپ کے بستر سے لگنے بعد پیٹ بھر کر کھایا نا ہو.. سب کا بچا ہوا کھانے والی وُہ لڑکی جس پر سگے بھائیوں کو بھی رحم نہیں آیا وہ زن مرید اپنی اپنی بیویوں کی آنکھوں سے جو دیکھتے تھے...

آج اُسے پیٹ بھر کھانا نصیب ہوا تھا جو اُسے اپنے نا دے سکے ایک اجنبی ہمسفر نے دیا تھا...
خوشی تھی یا دُکھ وُہ سمجھ نہیں سکی مگر آنکھوں میں آئے نمکین پانی کو روک نا سکی...

"آپ رورہی ہیں..."
زیان چونکا تھا...

"نہیں بس وُہ مرچیں زیادہ ہیں نا اسی لیے.."
اُس نے جھٹ بات بنائی...

"مُجھے تو ٹھیک لگ رہی بلکہ معمول سے بھی کم..."
وُہ پکا تفشیشی بھی تھا...

"مُجھے عادت نہیں نا اتنا بھی تیکھا کھانے کی شاید اِسی لیے.."
اُس نے وضاحت پیش کی..

"مما نے تو نجانے کیا کیا بنا رکھا تھا یہ لے کر جانا وُہ لے کر جانا...میں کبھی اپنی مما پاپا سے دور رہا ہے نہیں ہوں بس ابھی ایک جاب کے سلسلے میں جانا ہورہاہے..."
وُہ کھانا کھاتے ہوئے بول رہا تھا  وُہ اُس کی طرف دیکھ کر ہی بات کر رہا تھا وُہ جانتی تھی مگر جب اُس نے ٹی ٹی کی غلیظ نظروں کا موازنہ اُس سے کیا تو اُسے واقعی عورت کی عزت کرنے والا مرد دکھا...

"ایک بات ہے جو مُجھ مسلسل سوچ میں مبتلا کر رہی ہے.."
زیان نے کباب کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے کہا...

"کون سی بات.."
منتہٰی نے پوچھا...

"آپ اکیلی لڑکی کیسے اتنی رات کو....."
وُہ بولتے بولتے رُکا کیونکہ اُس نے منتہٰی کے چہرے کے زاویے بدلتے دیکھ لیے تھے...

"معذرت چاہتا ہوں ..."
اُس نے فوراً معافی مانگی...

"کوئی بات نہیں یہ ایک فطری بات ہے کوئی بھی مُجھے ایس طرح اکیلے دیکھ کر یہی سوچے گا ہر کسی کو تجسس ہوگا اتنی رات ایک جوان لڑکی ایک شہر سے دوسرے شہر کیوں؟ کیا یہ گھر سے بھاگ رہی ہے کیا کیا آخر کیا بھید ہے کیا اسرار ہے..."
منتہی نے پلیٹ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا..

"چھوڑیں اِس بات کو مُجھے نہیں ہے تجسس کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننے کا ہم صرف ہمسفر ہیں یہ سفر ختم میں اپنے راستے آپ اپنے پھر بھلا کیوں اپنی ذات کو کسی کے سامنے ہلکا کرنا..."
زیان نے پختہ لہجے میں کہا..
وُہ سنجیدگی میں بھی اپنی مثال آپ تھا...

"آپ سوجائیں آرام سے میں جاگ رہا ہوں..."
اُس نے برتھ پر پاؤں پسارتے ہوئے کہا...

منتہی بھی بیگ کو سر کے نیچے لگا کر چادر اچھے سے خود پر ڈال لی...

دوسرے دن صبح پانچ بجے ٹرین لاڑکانہ اسٹیشن پر رکی....

"ہم دونوں کی منزل آگئی اب یہاں سے راستے جدا.."
زیان نے اپنا سامان نیچے اُتارتے ہوئے کہا...

"بلکل اور مُجھے بہت اچھا لگا اپنا سفر آپکے ساتھ بانٹ کر  جب میں گھر سے نکلی تھی تو سوچا نہیں تھا مسافر  بہتیرے ملیں گے۔ کچھ سفر کسی ضروری کام یا کسی مقصد کے لیے ہوتے ہیں اور کچھ محض لذتِ صحرا نوردی کے لیے جہانیاں جہاں گشت بن جاتے ہیں۔شوق سفر انسانی زندگی کے خمیر میں اس طرح پیوست ہے جیسے فولاد میں جوہر، انسان نے اس انوکھی قدم قدم پر حیرت اور استعجاب اور ہر لمحہ رواں دواں زندگی میں کبھی ایک جگہ ٹھہرنا  پسند ہی نہیں کیا، ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا کے مصداق، نئی دنیاؤں کی تلاش اِنسان کی سرشت میں شامل ہے۔
حرکت زندگی کا ثبوت ہے اور آگے بڑھتے رہنے کا شوق مہیا کرتی ہے۔ اُمید ہے میری ذات سے اِس چند گھنٹوں کے سفر میں آپکو کوئی ایذا نہوں پہنچی ہوگی آپ جیسے لوگوں کو دیکھ کر شدت سے احساس ہوتا ہے ہاں دُنیا میں سچے اور اچھے لوگ موجود ہیں..."
منتہٰی نجانے کس رو بہہ کر کہتی چلی گئی وُہ اپنوں کی ستائی ہوئی تھی درد لفظوں میں ڈھل کر ہونٹوں سے بیان ہورہا تھا...

"خُدا حافظ.."
اُس نے اپنے بیگ کے اسٹریپ سنبھالے اور ٹرین سے اُترنے لگی زیان بھی اُس کے ساتھ ساتھ ہی اُتر گیا...

"اگر آپ کہیں تو میں آپکو آپکی مطلوبہ جگہ تک پہنچا دیتا ہوں اِس نئے شہر میں کہاں کہاں بھٹکے گی آپ..."
زیان نے رُکتے ہوئے کہا...

"بہت شکریہ مگر اِس سے آگے ہر منزل مُجھے خود تلاشنی ہے بہت شکریہ آپ نے اتنا سوچا آپ واقعی بہت اچھے اِنسان ہیں اب میں چلتی ہوں اللہ حافظ..."
اُس نے کہہ کر اسٹیشن کے باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے زیان بھی اپنے کندھے اُچکتا باہر چل دیا....

وُہ دونوں سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کا سفر یہاں ختم ہوا تھا مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا یہیں سے تو اِن دونوں کا سفر شروع ہوا تھا...

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro