Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

3: تین سال بعد

یہ گہرے بادلوں سے ڈھکی ہوئی ایک خوشگوار صبح کا آغاز تھا، صبح کے آٹھ بجے رہے تھے اور اس وقت ریاض گروپ آف کمپنیز کی اس اونچی سی عمارت کے سامنے میڈیا کے نمائندوں کا ایک ہجوم موجود تھا۔۔۔ آج یہ کمپنی حکومت کے ساتھ مل کر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھنے جارہی تھی یہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ تھا۔۔۔ لہذا یہ ایک بڑی خبر تھی اور اس خبرکو پانے کی بے صبری وہاں موجود سبھی نمائندوں کے چہروں پر دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ اور یہاں سے کچھ دور وہ اپنے کمرے میں تنہا بیٹھی۔۔۔ سوئی جاگی آنکھوں کو ٹی وی اسکرین پر جمائے بس اسی ایک خبر کی منتظر تھی۔۔۔ وہ پوری طرح ٹی وی کی طرف متوجہ تھی کہ اچانک کمرے کا دروازا کھلا اور عارفہ بیگم اندر داخل ہوئیں ماں کو اندر آتا دیکھ اس نے فوراً ٹی وی آف کردیا۔
" سوہا !!! تم ابھی تک نائٹ سوٹ میں بیٹھی ہو۔۔۔ جانتی ہو کیا وقت ہو چکا ہے۔۔۔ ہاسپٹل نہیں جانا تم نے؟؟ تمہارے بابا بھی صبح سے کئی بار تمھارا پوچھ چکے ہیں۔۔۔ آخر آج ایسا کیا آرہا ہے ٹی وی پر وہ بھی اس وقت۔۔۔" عارفہ بیگم کو اسے یوں بیٹھا دیکھ کر صدمہ ہوا تھا۔
" جی امی بس اٹھ ہی رہی تھی۔۔۔ " سوہا نے اس قدر کھوئے ہوئے انداز میں جواب دیا کہ عارفہ بیگم کی تشویش مزید بڑھ گئی۔
" لاؤ زرا ریموٹ دو میں بھی دیکھو ایسا کیا آرہا ہے ٹی وی پر جس نے تمہیں دنیا جہان سے بے خبر کردیا ہے۔" انہوں نے سوہا کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اصرار کیا۔
" امی پلیز۔۔۔کیا ہوگیا ہے آپ کو میں نے کہا نا اٹھ رہی ہوں۔۔۔ آپ چلیں میں بس تھوڑی دیر میں تیار ہو کر آئی۔" وہ روہانسی ہو کر بولی تو عارفہ بیگم کو ماننا پڑا۔ انکے جاتے ہی وہ پھر سے ٹی وی آن کر چکی تھی۔۔۔اسکی اس دیوانگی کا تعلق نہ کسی خبر سے تھا اور نہ ہی اسے کسی تعمیراتی منصوبے میں دلچسپی تھی اسے انتظار تھا تو صرف ریاض گروپس کے چئیرمن 'شاہویز ریاض' کا۔۔۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

گہرے بادل اب ہلکی بارش کی صورت برسنے لگے تھے۔۔۔ سڑک پر معمول کے مطابق ٹریفک دکھائی دے رہا تھا ایسے میں وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا کھڑکی کے شیشے پر گرتی بارش کی بوندوں کو دیکھتے ہوئے جانے کن سوچوں میں گم تھا۔
وہ بہت بے چین اور مضطرب دکھائی دے رہا تھا۔
یہ دن اسکے لئے بہت اہم تھا آج اسے اپنی تین سال کی انتھک محنت کا ثمر ملنے والا تھا وہ خواب جو اس کے بابا نے دیکھا تھا آج اسے اس خواب کی تعبیر ملنے والی تھی یوں تو اسے آج بہت خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ خوش نہیں تھا۔۔۔ زندگی میں بعض نقصانات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ بڑی سے بڑی کامیابی بھی انکا ازالہ نہیں کرپاتی۔۔۔ اور شاہویز ریاض کی زندگی ایسے ہی نقصانات کا مجموعہ تھی۔۔۔
"ہم پہنچ گئے ہیں سر۔۔۔" ڈرائیور نے گاڑی کا دروازا کھول کر اسے اطلاع دی تو وہ جو گہری سوچوں میں گم تھا زرا سا چونک گیا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

کانفرنس روم میں ہجوم بڑھتا جا رہا تھا ایسے میں افتخار زیدی موبائل فون کان سے لگائے کال پر بات کرتے ہوئے کانفرنس روم سے باہر نکلتے دکھائی دیے۔
" وعلیکم السلام بیٹا کہاں ہو تم پہنچے نہیں کانفرنس شروع ہونے میں بس آدھا گھنٹہ باقی ہے۔۔۔" زیدی صاحب سخت فکر مند نظر آرہے تھے۔
" انکل میں نے آپ کو کل ہی بتا دیا تھا کہ میں نہیں آؤں گا۔" دوسری طرف شاہ ویز ریاض کا چھوٹا بھائی سمیر ریاض مخاطب تھا۔
" سمیر تم کیوں نہیں سمجھ رہے ۔۔۔ دیکھو آج کا دن بہت اہم ہے اور ایسے میں تم اگر شاہ ویز کے ساتھ کھڑے ہوگے تو اسے بہت حوصلہ ملےگا۔۔۔ تمہارے بھائی کو تمہاری ضرورت ہے بیٹا۔!" زیدی صاحب نے اسے سمجھانے کی ایک آخری کوشش کی تھی۔
" بھائی کو کسی کی ضرورت نہیں ہے انکل انہیں اکیلے ہی سب کچھ کرنے کی عادت ہے آپ پریشان نہ ہوں میرے وہاں نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔" تلخی سے بات ختم کرتے ہوئے سمیر نے کال کاٹ دی اور زیدی صاحب بے بسی سے موبائل سکرین کو دیکھتے ہوئے ایک گہری سانس بھر کر رہ گئے۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

قبرستان میں داخل ہوتے ہی اسکی بےسکونی مزید بڑھ گئی تھی آج تین سال بعد وہ اپنے باپ کی قبر پر آیا تھا اور آج بھی دل پر ویسا ہی بوجھ محسوس کررہا تھا جیسا تین سال پہلے کیا تھا وہ کبھی خود کو اس بوجھ سے آزاد کر ہی نہیں پایا۔
قبر کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے اور فاتحہ پڑھنا شروع کی ۔
سیاہ تھری پیس سوٹ پر سیاہ سن گلاسز لگائے اس کا وجیہہ چہرا اور اجلی رنگت مزید نمایاں ہو گئی تھی۔۔۔۔
فاتحہ پڑھ کر اس نے دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا اور پنجوں کے بل قبر کے سرہانے بیٹھ گیا۔۔۔ پھر ہاتھ اٹھا کر قبر کی سنگ مر مر سے بنی سطح کو چھوا ایسا کرتے ہوئے اسکے ہاتھوں میں لرزش تھی۔
" میں آج آپ کا سب سے بڑا خواب پورا کرنے جارہا ہوں ڈیڈ اس امید کے ساتھ کے شاید اس سے میرا احساس جرم کچھ کم ہو جائے لیکن میں جانتا ہوں یہ کم نہیں ہوگا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا۔۔۔۔ میری ساری محنت اور کامیابیاں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں کیونکہ انہیں دیکھنے کے لیے آپ میرے ساتھ نہیں ہیں۔۔۔ میں ایک بدترین بیٹا ہوں۔۔۔ اگر ہوسکے تو مجھے معاف کردیجئے گا۔" کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور جانے کےلئے مڑ گیا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

"اگلےآدھے گھنٹے میں میری جو بھی میٹنگ ہے اسے ملتوی کر دو۔۔۔ اور اس دوران مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔۔ انڈرسٹینڈ ؟؟"
" جی سر!!" معاز آفندی نے اپنی سیکرٹری کو سختی سے تنبیہ کی اور تیزی سے اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا اندر آتے ہی اس نے اپنا لیپٹاپ آن کیا تھا اور کچھ ہی دیر بعد اسکرین پر پاکستان کی لائیو نیوز دکھائی دینے لگی تھی۔
معاز نے ساتھ ہی کلائی سامنے کرتے ہوئے گھڑی میں وقت دیکھا تھا Dubai میں اس وقت دن کے نو بج رہے تھے یعنی پاکستان میں دس بج رہے ہونگے اس نے اندازہ لگایا۔
" اس وقت تک تو کانفرنس شروع ہوجا نی چاہے تھی۔۔۔" سوچتے ہوئے اس کی نظریں بےصبری سے اسکرین پر جمی تھیں اور تبھی دو سیاہ گاڑیاں مین گیٹ سے کمپنی کے احاطے میں داخل ہوتی دکھائی دیں۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

اس کی گاڑی کے گرد رپورٹرز کا ایک ہجوم اکٹھا ہوچکا تھا جسے دیکھ کر شاہویز کا دم گھٹنے لگا... پچھلی گاڑی میں موجود اس کے گارڈز نے اتر کر اس ہجوم کو ہٹانا شروع کیا۔
"آ جائیں سر۔۔۔ راستہ اب کلیئر ہے !!" تقریباً دس منٹ کے انتظار کے بعد اس کے سیکرٹری عزیم نے اس کے لیے گاڑی کا دروازا کھولتے ہوئے کہا تھا۔
اس نے آنکھیں بند کر کے ایک گہری سانس لی اور گاڑی سے باہر قدم رکھ دیا۔۔۔ کیمروں کی لائیٹس اور رپورٹرز کے سوالوں کا شور وہ چند لمحوں تک اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکا۔
اسے لوگوں کے ہجوم اور شور سے سخت گھبراہٹ ہوتی تھی مگر اس نے فوراً ہی اس گھبراہٹ پر قابو پالیا تھا۔۔۔ اور اب وہ عزیم اور گارڈز کی ہمراہی میں میڈیا سے بچتا ہوا کمپنی میں داخل ہورہا تھا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

" تو آج بھی ہجوم سے گھبراتا ہے۔۔۔" لیپٹاپ کی اسکرین پر شاہویز کو دیکھتے ہوئے معاز آفندی نے مسکراتے ہوئے سوچا تھا۔ اسکے ہاتھوں میں لرزش اور چہرے پر گھبراہٹ تھی جسے محسوس کرنا اتنا آسان نہیں تھا لیکن معاز آفندی نے یہ بآسانی محسوس کر لیا تھا۔۔۔ اور کیوں نہ کرتا وہ اسکا جان سے پیارا دوست اور اسکے دل کے سب سے زیادہ قریب تھا۔۔۔
وہیں دور پاکستان میں ٹی وی اسکرین پر اسے دیکھتے ہوئے سوہاامتیاز کی آنکھیں بھی چمک اٹھی تھیں اور دل تیز دھڑکنے لگا تھا۔۔۔ شاہویز کی خوشیاں اور کامیابیاں اس کے لیے کیا اہمیت رکھتی تھیں یہ صرف وہ خود ہی جانتی تھی۔۔۔ شاہویز ریاض اسکی کل کائنات، اس کا سب کچھ تھا مگر افسوس کہ وہ اس بات سے بلکل بے خبر تھا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

کانفرنس کا آغاز ہو چکا تھا نیوز رپورٹرز اب اس سے اور باقی حکومتی نمائندوں سے سوال کر رہے تھے۔۔۔ ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وہ بظاھر جتنا پر اعتماد نظر آرہا تھا اندر سے اتنا ہی بے سکون تھا اور اس بے سکونی کی وجہ تھی سمیر کی غیر موجودگی۔۔۔ کانفرنس کا وقت ختم ہونے کو تھا اور وہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔
" سر۔۔۔ ٹائم کافی ہو چکا ہے آپ کو کانٹریک سائن کر دینا چاہیئے۔۔۔ " زیدی صاحب نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا تھا۔
" آپ کی بات ہوئی سمیر سے۔۔۔؟" وہ اب بھی پر امید تھا۔
" اس نے کہا تھا وہ نہیں آۓگا اور اب اس کا موبائل بھی آف جا رہا ہے!! مزید وقت ضائع مت کریں ۔۔۔ سائن کردیجیۓ سب انتظار کر رہے ہیں ." ذیدی صاحب نے اصرار کیا۔۔۔ جواباً شاہ ویز ایک گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
کچھ ہی دیر بعد کانٹریک کے پیپرز اس کے سامنے میز پر موجود تھے ہاتھ میں قلم تھامے ہوئے اس نے آخری بار دروازے کی سمت دیکھا تھا کہ شاید سمیر آجائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
سائن کرتے ہی وہ کانفرنس روم سے باہر نکل آیا تھا۔
اسکے بعد نجانے کتنے ہی لوگوں نے آکر اسے مبارکبادیں پیش کی تھیں اور وہ دنیا بھر کی بے زاری چہرے پر سجائے انھیں وصول کر رہا تھا۔۔۔ اسی مصروفیت میں صبح سے شام ہوگئی۔۔۔ وہ بری طرح تھک چکاتھا اور گھر جانے کے لیے نکلنے ہی والا تھا کہ زیدی صاحب نے روک لیا۔
" گھر جارہے ہو۔۔؟؟" وہ پوچھ رہے تھے۔
" جی "
" لیکن بیٹا تمہاری کامیابی کی خوشی میں ڈنر ارینج کیا ہے رات کو۔۔۔ کافی اہم لوگ آنے والے ہیں تمہارا ہونا ضروری ہے۔ " زیدی صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
" میں بہت تھک گیا ہوں انکل اب بلکل ہمت نہیں ہے مزید کسی سے بھی ملنے کی۔۔۔ پلیز ڈنر آپ سنبھال لیجیۓ گا۔" کہتے ہوئے اس کے لہجے میں بھی تھکاوٹ تھی۔
" ارے پر۔۔۔۔۔شاہ ویز۔۔۔۔۔" زیدی صاحب اسے پکارتے رہ گئے لیکن وہ اپنی بات مکمل کر کے جاچکا تھا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

جسے وہ گھر کہتا تھا وہ دراصل دو کمروں کا ایک اپارٹمنٹ تھاجہاں وہ اکیلا رہتا تھا اور سوائے کھانا بنانے کے اپنے سارے کام خود کرتا تھا ۔۔۔ تین سال پہلے زیدی صاحب نے اسے یہ جگہ رینٹ پر لے کر دی تھی اور بعد میں شاہویز نے اپنی تخواہ کے پیسوں سے اسے قسطوں پر خرید لیا ۔۔۔ دنیا کے لیے وہ ریاض گروپس کا مالک۔۔۔ ملک کی امیر ترین شخصیات میں سے تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔۔۔ اس نے کبھی خود کو کمپنی کا مالک نہیں سمجھا۔۔۔ اس کے نزدیک اس سارے بزنس اور اس کے والد کی تمام تر جائداد کا اکلوتا حقدار اس کا چھوٹا بھائی سمیر تھا۔۔۔ اور وہ جلد ہی اسے اسکا یہ حق دینے والا تھا۔
چابی گھوماتے ہی کلک کی آواز سے دروازا کھل گیا پورا گھر خاموشی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
مختصر سی راہداری سے گزر کر وہ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوا ساتھ ہی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے وہ وہاں رکھے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔
سر کو صوفے کی پشت پر ٹکا کر اس نے آنکھیں موند لیں تھیں۔۔۔ چند لمحے یوں ہی گزرے اور پھر اچانک اس کا موبائل بجنے لگا جس نے ماحول کی خاموشی کو بری طرح متاثر کیا۔
"سوہا امتیاز" نیم وا آنکھوں سے اس نے موبائل اسکرین پر لکھا ہوا نام پڑھا اور ساتھ ہی کال یس کر کے فون کان سے لگاتے ہوئے آنکھیں دوبارا بند کرلیں۔

"congratulations!!"
" اتنی بڑی کامیابی پر آپ کو بہت بہت مبارک ہو "
دوسری طرف سوہا کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دے رہی تھی۔
"شکریہ!! مگر اسکی ضرورت نہیں تھی۔" کہتے ہوئے شاہ ویز کا لہجہ انتہائی خشک اور سرد تھا۔
"ارے کیوں ضرورت نہیں تھی۔۔۔ گفٹ دینے سے تو منع کیا ہے آپ نے لیکن مبارک باد تو دے ہی سکتی ہوں آخر اتنا بڑا دن تھا یہ آپ کے لیے۔۔۔اورآپ کو پتہ ہے میں نے اس خوشی میں آج اپنے فرینڈز کو ٹریٹ بھی دی۔ " وہ شوخی سے مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی۔
"تم آخر کیوں کرتی ہو یہ سب ؟؟" کچھ تواقف کے بعد اس نے تھکے ہوئے لہجے میں سوہا سے پوچھا تھا۔
" تاکہ میں آپ کو احساس دلا سکوں کے آپ میرے لیے کتنے اہم ہیں!! " مدہم آواز میں بے حد دلکشی سے کہا ہوا سوہا کا یہ جملہ شاہویز ریاض کو بری طرح لاجواب کر گیا تھا۔

وہ سمجھتا تھا کہ وہ پتھر کا ہو چکا ہے۔۔۔ ایسا پتھر جو نہ کبھی پگھلے گا اور نہ ہی ٹوٹے گا۔۔۔ اسے لگتا تھا اس میں کوئی جذبہ اور احساس باقی نہیں رہا۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ سوہا امتیاز اسکی ان تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ارادہ کر چکی ہے۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

(To Be Continued)

Please comment and let me know how you like the story. And do you want me to write it more?

Please do vote, comment and

share. :")

فی امان الّلہ❣

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro