Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

2: ایک غلطی

رات تم کس وقت گھر لوٹے تھے؟ میں بہت دیر تک تمہارا انتظار کرتا رہا۔۔۔کافی کالز بھی کی مگر نمبر بزی جارہا تھا۔" ناشتے کی میز پر ریاض صاحب نے اس سے پوچھا تھا۔

" کچھ پرانے دوست مل گئے تھے انکے ساتھ تھا۔۔۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور موبائل بھی سائیلنٹ پر تھا۔ " شاہویز جانتا تھا کہ ریاض صاب یہ سوال ضرور پوچھیں گے لہذا وہ بہانہ کمرے سے سوچ کر آیا تھا۔

" اگلی بار اگر اتنی دیر تک باہر رہنے کا ارادہ ہو تو ایک کال کر اطلاع دینے کی زحمت کر لینا۔" ریاض صاحب کے لہجے میں خفگی واضح تھی۔

" جی ڈیڈ!! " جوابً وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

شام کے پانج بج رہے تھے اور آفس خالی ہورہا تھا، وہ روز ریاض صاحب کے ساتھ گھر جایا کرتا تھا لیکن آج ریاض صاحب کسی وجہ سے بہت جلدی گھر چلے گۓ تھے، سو اب وہ اکیلا واپس جارہا تھا۔

آج آفس میں اسکا دن کافی مصروف گزرا تھا، نشہ آور گولی کے اثرات کی وجہ سے وہ صبح سے ہی خود کو کافی تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا اور اب آفس کے کاموں نے اسے مزید تھکا دیا تھا۔۔۔۔ وہ نڈھال سا چلتا ہوا اپنی گاڑی کی سمت بڑھ رہا تھا جب اچانک اسکی نظر اپنی گاڑی کے نزدیک کھڑے شخص پر پڑی وہ اسامہ تھا۔ ہونٹوں سے لگی سگریٹ کے گہرے کش لیتے ہوۓ وہ رخ موڑ کر کھڑا تھا اور شاید اسی کا منتظر تھا۔

شاہویز کے قدموں کی آہٹ سن کر وہ مڑا تھا۔

" ارے!! کیسے ہو میرے دوست۔ " کہتے ہوۓ وہ بے حد گرم جوشی سے اس کے گلے لگا تھا یوں جیسے وہ برسوں بعد ملا ہو شاہویز سے۔

" تم یہاں کیا کررہے ہر؟ " جوابً شاہویز نے بڑے ہی روکھے انداز میں پوچھا تھا۔

" میں تمہیں لینے آیا ہوں۔"

" کس لئے ؟"شاہویز الجھا

" یار میں نے اپنے گھر پر ایک چھوٹی سی پارٹی رکھی ہے۔۔۔ صرف کلوز فرینڈز کو ہی انوائٹ کیا ہے۔۔۔۔ اور کیونکہ ابھی ہماری نئی نئی دوستی ہوئی ہے اس لۓ میں چاہتا ہوں تو بھی اس پارٹی میں ضرور آۓ تاکہ یہ دوستی اور بھی گہری ہوسکے۔" اسامہ کہ لہجہ اپنائیت سے چور تھا۔

" معاف کرنا، مگر میں بہت تھکا ہوا ہوں آج آرام کرنا چاہتا ہوں۔"

"ارے یار تو چل تو سہی، میرا یقین کر تو بہت ریلیکس فیل کرے گا۔" اسامہ نے اسرار کیا تو شاہویز زیادہ دیر انکار نہ کر سکا اور کچھ ہی دیر بعد وہ اسامہ کے ساتھ جاتا دکھائی دیا۔۔۔۔ اس پارٹی میں بھی اس نے اسامہ اور اسکے دوستوں کے ساتھ مل کر ڈرگز استعمال کئے تھے۔۔۔ پھر جیسے یہ معمول بن گیا تھا اب وہ آفس کے بعد کا سارا وقت اسامہ اور اسکے دوستوں کے ساتھ صرف کرنے لگا تھا۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کب نشے کا عادی بن گیا اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوسکا۔

وہ سب کچھ بھول کر، زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا تھا۔۔۔اور ایسا کرنے کے ليۓ اس نے ڈرگز کا سہارا لیا ۔۔۔مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اسے اپنی اس غلطی کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

وہ اس دن معمول کے مطابق آفس کے لیۓ نکلا تھا کہ راستے میں اچانک اسے اسامہ کی کال آئی۔ فون یس کر کے کان سے لگایا تو اسامہ کی بےحد پریشان آواز سنائی دی۔

" ہیلو شاہویز یار میں تجھے ایک اڈریس بھیج رہا ہوں تو پلیز پچیس ہزار روپے کیش لے کر یہاں آجا۔۔۔۔ مجھے ابھی بہت سخت ضرورت پڑ گئی ہے۔"

" کیسی ضرورت ؟؟ سب خیریت تو ہے؟؟" شاہویز حیران پریشان سا پوچھ رہا تھا۔

" یار ابھی میں کچھ نہیں بتا سکتا۔۔۔ تو بس پیسے لے کر پہنچ جلدی۔"

شاہویز نے گاڑی موڑ لی تھی اور اب وہ اسامہ کے بھیجے ہوۓ اڈریس کی سمت بڑھ رہا تھا۔۔۔ ساتھ ہی آفس جانے کی فکر بھی کھاۓ جارہی تھی کیونکہ کچھ دنوں سے ریاض صاحب شدید بیماری کے باعث آفس نہیں جا پارہے تھے لہذا کمپنی کی ساری دوڑبھاگ شاہویز کے ہاتھ میں تھی، ایسے میں آفس نہ جا کر وہ اپنے باپ کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا مگر اب دوست کو مصیبت سے نکالنا بھی تو ضروری تھا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

وہ ایک قدرے تنگ سی گلی میں ایک قدیم بوسیدہ عمارت کے سامنے کھڑا تھا یہ دو منزلہ عمارت تھی دوسری منزل پر ایک بڑا سا بوڑڈ نصب تھا جس پر مٹے ہوۓ حروف میں عمارت کا نام لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ " سٹی سنوکر کلب "وہ ایک سنوکر کلب تھا ۔۔۔ وہ درست پتے پر پہنچا تھا پھر دوزینے چڑھ کر وہ عمارت کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا۔۔۔ اندر کافی اندھیرا تھا وہ تنگ سی راہداری سے گزر کر آگے بڑھا تو سامنے ایک کمراہ نما ہال موجود تھا یہاں بھی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی سنوکر کی دومیزیں درمیان میں کچھ فاصلہ دے کررکھی ہوئی تھیں۔ چند لڑکے ایک میز کے گرد کھیل میں محو تھے وہاں زیادہ رش نہیں تھا۔وہ ابھی اسامہ کو ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ اسے دائیں جانب سے اسامہ کی آواز سنائی دی۔ وہ عمارت کی دوسری منزل پر موجود تھا اور شاہویز کو بھی اوپر آنے کو کہہ رہا تھا۔ شاہویز اسے دیکھتے ہی تیزی سے زینے عبور کرتے ہوۓ اس تک پہنچا۔

" پیسے کہاں ہیں۔ " اسامہ نے قریب آتے ہی پوچھا تھا۔۔۔ شاہویز نے فوراً کوٹ کی جیب سے رقم نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔

"پورے پچیس ہزار ہیں نا ؟"شاہویز نے اثبات میں سر ہلادیا۔۔۔۔اسامہ نوٹ ہاتھ میں لیے، ایک طرف کونے میں میز کے پیچھے بیٹھے ایک ادھیڑ عمر شخص کی جانب بڑھا پھر اس نے رقم میز پر رکھی اور آدمی کی طرف بڑھا دی۔۔۔۔ اس آدمی نے نوٹ گننے کے بعد زرا جھک کر میز کے دراز میں ڈال دیے اور ساتھ ہی دس دس گرام کوکین کے دو پیکٹ میز پر رکھ دیے اسامہ نے پیکٹ اٹھائے اور چند قدم آگے ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا شاہویز اسکے پیچھے چلتے ہوۓ اردگرد کا جائزہ لے رہا تھا اس کمرے میں چند لڑکے پہلے سے موجود تھے جو نیم بےہوشی کے عالم میں فرش پر دیوار سے ٹیک لگاۓآڑے تڑچھے بیٹھے ہوۓ تھے۔

وہ دونوں بھی ایک طرف دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔

اسامہ اب سگریٹ تیار کر رہا تھا جب کے شاہویز دلچسپی سے اسےایسا کرتے دیکھ رہا تھا، اس کے بعد اسامہ نے ایک سگریٹ کو جلا کر ایک گہرا سا کش لیا اور سگریٹ شاہویز کی طرف بڑھائی ، شاہویز نے سگریٹ تھام لیا اور چند ہی لمحوں میں نشہ اس کے پورے وجود میں سرائیت کرنے لگا۔

شاہویز کو اندازہ نہ ہوسکا کہ وہ کتنی دیر تک وہاں بیٹھا سگریٹ کے کش برھتا رہا تھا اچانک اسے اپنے اردگرد غیر معمولی ہلچل محسوس ہونے لگی۔۔۔ اسے لوگوں کے بھاگنے کی ، چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں مگر وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔

کچھ لمححے مزید اسی شور میں گزرے وہ آنکھیں موندے بیٹھا رہا۔۔۔ پھر اسے اپنی گردن پر کسی کی گرفت محسوس ہوئی، اس نے نیم غنودگی کے عالم میں سر اٹھا کر اس جانب دیکھا وہ وردی میں ملبوس ایک پولیس والا تھا جو اب اسے ہتھ کڑی لگا رہا تھا پھر ایک دوسرا پولیس والا اسے بازو سے کھینچتا ہوا اپنے ساتھ لے جانے لگا اوروہ بغیر کوئی احتجاج کیۓ چپ چاپ اسکے ساتھ چلتا جارہا تھا نشہ پوری طرح اسکے ذہن پر حاوی تھا اسکے بعد اسکے ساتھ کیا ہوا اسے کچھ بھی علم نہ تھا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

خاور ریاض بیڈ پر نیم دراز تھے۔ آج صبح سے انکے سینے میں وقفے وقفے سے درد اٹھ رہا تھا اور گھبراہٹ بھی محسوس ہورہی تھی۔

" میں نےڈرائیور کو بھیجا ہے وہ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کو لے آۓ گا۔" رفعت بیگم نے اپنے شوہر کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھ کر انھیں تسلی دیتے ہوۓ کہا ساتھ ہی ہاتھ میں تھامہ ہوا سوپ کا پیالہ ریاض صاحب کی طرف بڑھادیا " آپ جب تک یہ سوپ پی لیں۔"

" ابھی دل نہیں چاہ رہا سائیڈ پر رکھ دو تھوڑی دیر تک پی لوں گا۔"

رفعت نے اسرار نہ کیا اور پیالہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر خاموشی سے ریاض صاحب کے چہرے کودیکھنے لگیں وہ آنکھیں بند کیۓ ہو ۓتھے۔۔۔ چند دنوں کی بیماری نے انھیں بے حد کمزور اور لاغر کردیا تھا اور اپنے شوہر کی ایسی حالت دیکھ کر انکا دل ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتا تھا۔

اچانک ریاض صاحب کا موبائل بجنے لگا انھوں نے آنکھیں کھول کر رخ موڑا، سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا، کال کرنے وال نمبر غیر شناسا تھا، کال ریسیو کر کے موبائیل کان سے لگایا۔۔۔ دوسری طرف کوئی بھاری آواز میں گویا ہوا۔

" جی میں سی ایچ او عبدالرحمن بات کر رہا ہوں، کیا خاور ریاض صاحب سے بات ہو سکتی ہے۔ " میں خاور ریاض ہی بات کر رہا ہوں۔"

" سر آج صبح دس بجے ہم نے ایک سنوکر کلب میں چھاپا مارا ہے جہاں منشیات کی خریدوفروخت کی جارہی تھی وہاں آپ کا بیٹا شاہویز ریاض نشے کی حالت میں پایا گیا ہے،اس کے پاس سے بیس گرام کے قریب کوکین بھی برآمد ہوئی ہے اور اس وقت وہ ہماری حراست میں ہے آپ مہربانی کرکے پولیس اسٹیشن تشریف لے آئیں تاکہ ہم آگے کی کاروائی کر سکیں۔" پولیس والے نے بات مکمل کی اور ساتھ ہی کال منقطع ہوگئی موبائل انکے ہاتھ سے چھوٹ کر پہلو میں گرگیا تھا۔

" کیا ہوا ہے خاور ؟ ۔۔۔ کس کا فون تھا؟" انکے چہرے کی اڑتی رنگت دیکھ کر وہ گھبرائی تھیں۔

اچانک انھیں سانس لینےمیں دقت ہونے لگی ۔۔۔

" خاور کیا ہوا ہے کچھ تو بتائیں؟"

رفعت بیگم نے آگے بڑھ کر انکے دونوں ہاتھ تھامتے ہوۓ ایک بار پھر پوچھا۔

انکے سینے میں اٹھتی درد کی ٹیسیں شدید ہونے لگی تھیں۔

" خاور پلیز خود کو سنبھالیں۔۔۔ میں ڈرائیور کو بلاتی ہوں ہم ابھی ہوسپٹل جائیں گے۔" وہ روتی ہوئی، حواس باختہ سی کہہ رہی تھیں۔

خاورریاض درد سے کراہتے ہوۓ بیڈ پر ایک طرف گرتے جارہے تھے۔۔۔ انکے منہ سے سفید جھاگ نکنے لگا تھا۔

" خاور ۔۔۔ خاور " رفعت بیگم دیوانوں کی

طرح چلا رہی تھیں۔

مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔۔۔ انکا جسم بے جان ہوچکا تھا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

تین دن بعد!!
سلاخوں کے پیچھے شاویز ریاض سر جھکائے بیٹھا کسی بھی قسم کی سوچ اور جذبے سے خالی تھا۔ آج اسے یہاں تیسرا دن تھا اسکی ذمانت کے لیے کوئی نہیں آیا تھا اور شاید وہ خود بھی یہی چاہتا تھا کے کوئی نہ آئے اسے چھڑوانے وہ کبھی ان سلاخوں سے باہر نہ نکلے،کیونکہ وہ اب دنیا کا سامنا کرنے سے ڈر رہا تھا اور
اس قید میں اس نے اپنے لیے راہ فرار ڈھونڈ لی تھی۔۔۔ مگر فرار اتنا آسان نہیں تھا ابھی تو اسے اپنی غلطیوں کی ایک طویل سزا کاٹنی تھی۔
" چلو باہر نکلو! تمہاری زمانت ہوگئی ہے " اچانک حوالدار نے آکر اسے یہ خبر دی اور حوالات کا دروازا کھول دیا۔
اس لمحے شاہویز نے شدت سے چاہا تھا کہ وہ کہیں بھاگ جائے یا پھر کہیں چھپ جائے مگر اب یہ ممکن نہیں تھا وہ خاموشی سے اٹھا اور حوالدار کے پیچھے چلنے لگا ہر اٹھتے قدم کے ساتھ اسکا دل ڈوبتا جارہا تھا اسے بہت اچھی طرح اندازہ تھا کہ پچھلے تین دنوں میں اسکا باپ کس عذاب سے گزرا ہوگا اس نے خاور ریاض کی عزت کو مٹی میں ملا کر دنیا کے سامنے انکا سر ہمیشہ کے لیے جھکا دیا تھا۔
تھانے سے باہر نکلتے ہی اسکی نظر زیدی صاحب پر پڑی تھی جو دو مصلح گارڈذ کے ساتھ اسکے منتظر کھڑے تھے۔ زیدی صاحب خاور ریاض کے پرسنل سیکرٹری ہونے کے ساتھ انکے بے حد قریبی دوست بھی تھے خاور ریاض کی زندگی کا کوئی بھی پہلو زیدی صاحب سے چھپا ہوا نہیں تھا۔
وہ سر جھکا ئے چلتا ہوا گاڑی کے قریب آیا زیدی صاحب فرنٹ سیٹ پر بیٹھے جبکہ شاہویز کے لیے گارڈ نے بیک سیٹ کا دروازا کھول دیا۔
گاڑی انتہائی خاموشی سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی جب اچانک شاہو یز نے محسوس کیا کہ یہ راستہ اسکے گھر کا نہیں تھا۔
" ہم کہاں جارہے ہیں؟" اس نے اگلے ہی لمحے سوال کیا تھا۔
"آپ کے والد صاحب کے پاس۔۔۔" زیدی صاحب نے ذرا سی گردن موڑ کر اسے جواب دیا۔
" ڈیڈ کہاں ہیں ابھی؟" اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
" ہم بس پہنچنے والے ہیں۔۔" زیدی صاحب نے بے حد سنجیدگی سے جواب دیا اسکے بعد شاہویز نے مزید کچھ نہ پوچھا۔
ٹھیک دس منٹ بعد گاڑی رکی اور گاڑی سے اترتے ہی سامنے دکھائی دینے والے مناظر نے اسکا دل دہلا کر رکھ دیا۔
وہ ایک وسیع قبرستان کے سامنے کھڑا تھا۔
شاہویز نے بے یقینی سے زیدی صاحب کو دیکھا اور وہ بے ساختہ نظریں چرا گئے۔
انہوں نے شاہویز کو اپنے پیچھے آنے کو کہا اور گارڈز کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ ایک کشادہ قبر کے سامنے کھڑے تھے جسے سیاہ سنگ مرمر سے پختہ کیا گیا تھا۔ قبر کی تختی پر سفید حروف سے مرنے والے کا نام لکھا تھا جسے شاہویز نے آگے ہو کر پڑھا گویا دل میں اٹھنے والے تمام خدشوں کی تصدیق کی۔
تختی پر لکھا ہوا نام "خاور ریاض " کا تھا۔
اسے یوں لگا جیسے کسی نے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو اور آسمان اسکے سر پرآگر ہو۔۔۔ بہت کچھ کھو جانے کا احساس زندگی کے ختم ہوجانے کا احساس۔۔۔۔ یک دم وہ گٹھنوں کے بل گرا اور زارو قطار رو دیا، وہ چیخ رہا تھا، تڑپ رہا تھا۔۔ یہ اذیت اور بے بسی کی انتہا تھی۔۔۔۔ اسکی غلطی کا انجام اتنا سنگین ہوگا یہ اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
نجانے کتنی دیر وہ یوں ہی روتا رہا تھا جب زیدی صاحب نے جھک کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
" گھر چلیں سر۔۔۔ آپکی ماں اور بھائی کو آپ کی ضرورت ہے۔"
" نہیں!! میں کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔ کیسے سامنا کروں گا سب کا ؟... میں مجرم ہوں انکا۔۔۔ میں نے مارا ہے ڈیڈ کو ۔۔۔۔۔ میں نے لی ہے انکی جان۔۔۔۔ کوئی حق نہیں مجھے زندہ رہنے کا ۔۔۔۔ مجھے بھی مر جانا چاہیے۔۔۔ ہاں میں خود کو بھی مار دوں گا۔۔۔ " کہتے ہوئے وہ اٹھ کر کہیں جانے لگا تھا جب زیدی صاحب تیزی سے آگے بڑھے اور اسے کہیں بھی جانے سے روک دیا۔
دکھ اور صدمے کی شدت میں وہ اپنے حواس کھو رہا تھا۔۔۔ اچانک اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ زیدی صاحب کی گرفت سے خود کوآذاد نہ کرواسکا، اور وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

اس نے آنکھیں کھولیں تو خود کو ہسپتال کے بستر پر لیٹا پایا۔۔۔ وہاں اسکے آس پاس اور کوئی نہ تھا ۔۔۔ چند لمحے لگے تھے حواس بحال ہونے میں۔۔۔دردناک حقیقتوں کے نشتر ایک بار پھر دل میں اترنے لگے تھے۔۔۔ وہ اپنے باپ کا قاتل اپنی ماں اور بھائی کا مجرم تھا۔۔۔۔ شدید درد کی لہریں رگ وجاں میں سرائیت کرنے لگی ۔۔۔ وہ کراہ کر اٹھ بیٹھا۔
بازو پر لگی ڈرپ کو بےدردی سے کھینچ کر اتاردیا اور بیڈ سے اٹھنے ہی والا تھا کہ اسی لمحے زیدی صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔
" یہ کیا کررہے ہو شاہویز ؟ دماغ خراب ہوگیا ہے کیا ؟ بیٹھ جاؤ واپس۔۔۔" انہوں نے زبردستی اسے واپس بیٹھایا۔
" مجھے جانا ہے یہاں سے ۔۔۔ پلیز مجھے جانے دیں۔" زوذ آزمائی کی ہمت نہ تھی سو وہ بے بس ہوچکا تھا، دکھ اور صدمے نے اسے نڈھال کردیا تھا۔۔۔ ذیدی صاحب کو بے ساختہ اس پر ترس آیا۔
" دیکھو بیٹا میں جانتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا اسے سہنا کوئی آسان بات نہیں لیکن تمہیں ابھی خود کو سنبھالنا ہوگا۔۔۔ ورنہ جو کچھ بچا ہے تم اسے بھی کھو دوگے۔" زیدی صاحب کے نرم لہجے میں بے پناہ اپنائیت تھی۔
" بچانے کو اب کیا باقی رہ گیا ہے انکل۔۔۔ سب کچھ تو کھو چکا ہو میں۔۔" کہتے ہوئے اسکا لہجہ شکست خوردہ تھا۔
" بہت کچھ باقی ہے بیٹا!! تمہاری ماں اور بھائی تمہاری فیملی اور تمہارے ڈیڈ کا سارا بزنس جس کی ترقی کے لیے انہوں نے دن رات ایک کیے۔۔۔ ان سب کو تمہاری ضرورت۔۔۔ " انہوں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"ان سب پر اب میرا کوئی حق نہیں انکل میں نے سب کھو دیا ہے۔۔۔۔ ماما مجھے دوبارا کبھی نہیں دیکھنا چاہتی اور سمیر کا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔۔۔ میں یہاں سے کہیں دور چلا جاؤں گا تاکہ میری وجہ سے کسی کو مزید تکلیف نہ پہنچے۔" وہ بضد تھا۔
" ٹھیک ہے چلے جاؤ لیکن اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے جانے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تو یہ غلط فہمی اپنے ذہن سے نکال دو۔۔۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے کوئی بھی شخص کمپنی کا چئیرمن بن سکتا ہے اور اسکے بعد کمپنی میں تمہاری اور تمہاری فیملی کی کیا حیثیت رہ جائے گی یہ مجھے تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ سمیر ابھی پڑھ رہا ہے اور اسکا بھی اس بزنس پر اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا۔۔۔ ایسا کر کہ تم صرف اپنے ساتھ نہیں بلکہ سمیر کے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہو بیٹا!!۔۔۔ مت بھولو کے تمہارے بابا اپنے بعد اگر کسی اس کرسی پر بیٹھا دیکھنا چاہتے تھے تو وہ تم تھے شاہویز۔۔۔ انکے سارے خواب تم سے وابستہ تھے اور اگر تمہیں اپنی غلطی پر واقعی پچھتاوا ہے تو آج خود سے ایک وعدہ کرو کہ تم ان سارے خوابوں کو پورا کروگے جو تمہارے بابا نے تمہارے لئے دیکھے تھے۔۔" زیدی صاحب نے بہت تسلی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی, جواباً وہ خاموش رہا۔
وہ اب بھی بہت سی الجھنوں کا شکار تھا اور کوئی فیصلہ نہیں لے پارہا تھا لیکن بہرحال اسے کوئی فیصلہ تو کرنا ہی تھا۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

(To Be Continued)

hope you all like it!!

Please do vote, comment and

share. :")

فی امان الّلہ

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro