Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

1: دوستی

آج یونیورسٹی میں Farewell party تهی، اس نے ہائی ہیلزکے ساتھ سیاه فراق پہن رکھی تھی. ہیلز کے باوجود اسکی فراق فرش کو چھو رهی تهی. بهورے بالوں کو کرل کیے چہرے کے ایک طرف ڈالے اور ہلکے میک اپ کے ساتھ وه آج ہمیشہ سے کئی زیادہ حسین دکھائی دے رہی تھی.
" معاذ اب تو بتا دو ہم کہاں جارهے ہیں ؟" اپنے ڈیپارٹمنٹ کی بلڈنگ میں داخل هوتے ہوئے اس نے تنگ آکر معاذ سے پوچھا تھا.
" یار علیزے تم بغیر سوال کئے، خاموشی سے نہیں چل سکتی تهوڑی دیر." معاذ نے ایک بار پهر اسے ٹال دیا تها.
" کم سے کم یہ ہی بتا دو کہ شاه ویز کہاں ہے؟" اب وه دونوں کوریڈور سے گزر رہے تھے.
" پهر سے سوال !" کہتے هوئے معاذ نے اسے گهورا تو وه بے بسی سے ایک گہری سانس لے کر ره گئی.
" وه کونے والے روم میں ہے شاه ویز جاو." معاذ نے ہاتھ اٹهاکر انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے علیزے سے کہا.
" وه وہاں کیا کر رہا ہے.؟"
"جاکر خود ہی دیکھ لو.." معاذ نے مسکرا کہا تو علیزے کچھ اور الجھ گئی.
" تم ساتھ نہیں آو گے. "
"نہیں اس سے آگے تم نے اکیلے جانا ہے." وه ایک بار پھر مسکرایا اور تیزی سے واپس جانے کو مڑ گیا...
" معاذ رکو... بات تو سنو.." علیزے اسے پکارتی ره گئی اور وه آنکھوں سے اوجھل ہوگیا.

کچھ دیر تذبذب کے عالم میں وہ یونہی کهڑی رہی پھر آ ہستہ آہستہ اس کمرے کی سمت بڑهنے لگی جہاں شاه ویز اسکا منتظر تها.
معاذ اور شاه ویز سے علیزے کی دوستی چھ سال پرانی ہے، یہ تینوں کالج سے ایک ساتھ تهے جبکہ شاه ویز اور معاز بچپن کے دوست ہیں.
وه کمرے کے دروازے پر رک گئی، دروازه بند تها اس نے دستک دی کوئی جواب نہ ملا اس نے دوباره دستک دی، تیسری بار دستک پر بهی جب دروازه نہ کهلا تو اس نے دونوں ہاتهوں سے دروازے کو دهکیل کر کهولا اور کمرے میں داخل ہوئی دروازه کهولتے ہی سرخ گلابوں کی بے شمار پتیاں بارش کی صورت اس پر برس پڑیں، وه بے اختیار ہنسنے لگی، پھر نظر اٹها کر سامنے دیکھا جہاں کمرے کے وسط میں شاه ویز کرسی پر بیٹھا ہاتهوں میں گٹار تهامے هونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ لئیے اسے ہی دیکھ رہا تها کمرے کا فرش گلاب کی پتیوں سے ڈھکا هوا تها.
علیزے اس سے کچھ کہتی اس سے پہلے ہی شاه ویز گٹار پر ایک مخصوص دهن بجانے لگا، شاه ویز کی توجہ اب گٹار کی طرف تهی اور علیزے کمرے میں گونجتی گٹار کی اس دهن میں محو ہو چکی تھی... یہ علیزے کی فیورٹ دهن تهی جسے سننے کے لیے علیزے کو شاه ویز کی سو بار منت کرنا پڑتی تهی... اسکی مسکراتی نگاہیں اب شاہ ویز پر جمی تهیں.
گٹار کی آواز رکتے ہی علیزے کسی بچے کی طرح چہکتے هوئے اس کے لیے تالیاں بجا کر اسے داد دینے لگی.
شاه ویز گٹار ایک طرف رکھ کر کهڑا هوا اور قدم قدم چلتا علیزے کے سامنے آرکا.
اسے قریب آتا دیکھ علیزے کی مسکراہٹ دهیرے دهیرے غائب هونے لگی تهی. شاه ویز کے انداز میں کچھ ایسا تھا جسے علیزے کا دل و دماغ قبول نہیں کر پارہا تها.
شاه ویز نے آگے بڑھ کر بڑی نرمی سے اسکا ہاتھ تهاما وه سانس روکے اسے دیکهتی ره گئی.

🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸

خاور ریاض ایک بےحد نامور اور قابل بزنس مین ہیں. انکے دو بیٹے ہیں شاه ویزریاض اور سمیرریاض.ریاض صاحب کے خاندان کا شمار ملک کے رئیس ترین خاندانوں میں هوتا ہےانکا بزنس ملک کے تمام بڑے شہروں میں پهیلا هوا ہے.ریاض صاحب کو یہ دولت اور رتبہ کسی نے تهال میں سجا کر پیش نہیں کیا تها بلکہ انهوں نے اس کے لئے دن رات محنت کی تهی، وه ایک بہت ہی بااصول، محنتی اور شریف انسان ہیں اور اپنے بیٹوں کو بهی ایسا هی بنانا چاہتے ہیں. شاه ویز چونکہ انکا بڑا بیٹا ہے لہذا انہوں نے اپنی تمام امیدیں اور خواب اسی سے وابستہ کئے تهے، "مگر شاه ویز کے خواب کیا تهے، وه اپنے لیے کیسی زندگی چاہتا تھا یہ سب انهوں نے کبهی نہیں سوچا."

🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸

علیزے کا ہاتھ تهامے اسکی گہری سیاہ آنکهوں میں دیکهتے هوئے، شاه ویز کو اپنے دل کی دهرکن صاف سنائی دے رہی تهی. وه اپنی پوری زندگی میں اتنا نروس کبهی نهیں هوا جتنا اس وقت ہورہا تها، اور کیسے نہ ہوتا وه آج اپنی بیسٹ فرینڈ کو پرپوز کرنے والا تها، وه فیلنگز جنهیں وه خود سے بهی چهپا کر رکھتا تھا آج انکا اظہار علیزے کے سامنے کرنے والا تھا. وه آج اسے سب کچھ بتانا چاہتا تھا کہ کیسے وہ اس کی زندگی میں آئی اور سب کچھ بدل گیا۔.

" I love you Alizay" وه علیزے سے مخاطب تها، جو سانس روکے اسے سن رہی تهی.

تم میرے لیے کیا ہو یہ میرے لیے لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے... صرف اتنا جان لو کہ تم میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی ہو، اور میں اپنی پوری زندگی تمہارے ساتھ جینا چاہتا ہوں." علیزے بے یقینی کے عالم میں اسے دیکهتی ره گئی.
وہ اب کوٹ کی جیب سے ایک بہت نازک سی انگوٹهی نکال کر علیزے کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھ چکا تها، اسکا ہاتھ تھام کر وه ابھی انگوٹهی پہنا ہی رہا تها کہ اچانک علیزے نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھوڑا لیا، انگوٹهی شاه ویز کے ہاتھ سے چهوٹ کر گر گئی.
"آئی ایم سوری شاہ ویز... ائی ایم رئیلی سوری۔۔." وه آنسوؤں کے درمیان بامشکل کہہ پائی وہ جانتی تھی وہ شاہ ویز کو تکلیف پہنچا رہی ہے پر وہ بھی اس وقت اتنی ہی بےبس تھی جتنا شاہ ویز.۔۔ وہ شدید صدمے کی زد میں تها... اس نے تو خواب میں بهی کبهی نهیں سوچا تھا کہ علیزے اسے رد کر سکتی ہے، وه پرامید تها کہ جو جذبات وه علیزے کے لیےمحسوس کرتا هے ویسے ہی علیزے بهی اسکے لیے محسوس کرتی ہے... اور جو صدمہ اسے پہنچا تها وه دراصل انہیں امیدوں کے ٹوٹنے کا تها.
" محبت نہیں ہے تو ہو جائے گی... میں انتظار کر سکتا ہوں علیزے...اور تمہیں خود محسوس ہو جائے گا کہ جو ہمارے درمیان ہے وہ صرف دوستی نہیں ہے. " علیزے سے زیاده وه خود کو یقین دلا رہا تها.

"یہ ممکن نہیں ہے شاہ ویز میں چاہے جتنی کوشش کر لوں پهر بهی تمہارے لیے اپنے دل میں وہ جگہ نہیں بنا سکتی کیونکہ اس دل نے وہ جگہ پہلے ہی کسی اور کے نام کردی ہے..." اسکے لہجے میں بےبسی تهی.
" کون ہے وه؟ " اچانک اسکا چہرہ بے تاثر اور لہجہ سرد ہواتها.
" معاز...!! " نام لیتے هوئے اسکی آواز کانپی تهی.
شاه ویز کی آنکهوں میں بےیقینی تهی. وہ کچھ دیر تک کچھ بول هی نہیں پایا، اس بار کا صدمہ پہلے سے زیاده شدید تها.
پهر اس نے مزید کچھ نہیں کہا اور وہاں سے جانے لگا.
" شاه ویز !! " علیزے نے بےساختہ اسکا بازو تهام   کر اسے جانے سے روکا تها.
" تم میرے لیے بہت اهم ہو... هم بیسٹ فرینڈز ہیں اور میں تمہیں کسی صورت بهی کهونا نہیں چاهتی... آج جو بھی ہوا اسے بهول کر هم ایک نئی شروعات کریں گے اور پهر سب پہلے جیسا هوجائے گا...هم همیشه دوست رہیں گے... هےنا؟" آخر میں اس نے تصدیق چاهی تهی مگر شاه ویز نے کچھ کہنے کے بجائے اسکی گرفت سے اپنا بازو چهڑایا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا. وه پیچهے کهڑی آنسوؤں کے بیچ اسے پکارتی رہ گئی.

🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸

وہ کوریڈورمیں دیوار سے ٹیک لگاۓ فرش پر بیٹھی گٹھنوں میں منہ چھپاۓ رو رہی تھی، آج جسے اس نے کھویا تھا وہ اسے بہت عزیز تھا ، وہ جانتی تھی اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا، آج اس نے اپنے سب سے عزیز دوست کو کھودیا تھا، اچانک اسے کسی کے تیز قدموں کی آواز اپنی طرف آتی سنائی دی۔

سر اٹھا کر دیکھا تو معاز تقریباً دوڑتا ہوا اسکی طرف آرہا تھا۔

" علیزے۔۔۔ کیا ہوا ؟ تم یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔ رو کیوں رہی ہو ؟..." معاز بےحد فکرمند لہجے میں اسکے پاس پنجوں کے بل بیٹھے پوچھ رہا تھا۔

" علیزے کچھ تو بولو یار۔۔۔ شاہ ویز بھی بغیر کچھ بولے چلا گیااور تم بھی اس طرح رو رہی ہو، آخر ہوا کیا ہے کچھ تو بتاؤ." اسکی مسلسل خاموشی معاز کی پریشانی میں اضافہ کررہی تھی۔

" یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا معاز۔۔۔ تم سب کچھ جانتے تھے، پھر بھی تم نے شاہ ویز کو یہ سب کرنے سے نہیں روکا۔" اسکی نم آنکھوں میں بے شمار شکوے تھے۔

" تم کیا بول رہی ہو علیزے۔۔۔" معاز نے بے ساختہ نظریں چرائی تھیں۔

" اتنے انجان مت بنو معاز۔۔۔میں تمہارے لیۓ کیا محسوس کرتی ہوں یہ تم اچھی طرح جانتے ہوں، اور تم نے چاہے کبھی زبان سے کچھ نہ کہا ہو پر تمہاری آنکھوں نے کئی بار مجھ سے کہا ہے کہ ہمارے بیچ صرف دوستی نہیں ہے۔" معاز کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیا تھا۔

" ایسا کچھ نہیں ہے علیزے۔۔۔۔ تم غلط سوچ رہی ہو۔" معاز نے ایک بار پھر نظریں چرائی تھیں۔

" ٹھیک ہے تو پھر میری طرف دیکھو اور کہو کہ تمہارے دل میں میرے لیۓ کوئی جگہ نہیں ہے۔" جواباً وہ سر جھکاۓ خاموش رہا۔

" میں جانتی ہوں تم نہیں بولو گے،تم کبھی کچھ نہیں بولو گے ۔۔۔ ٹھیک ہے نہ بولو۔۔۔ عظیم بننا چاہتے ہو۔۔۔ شاہ ویز کے ليے قربانی دینا چاہتے ہو، تو دو۔۔۔ پر یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دو کہ تمہارے یہ سب کرنے سے میں شاہ ویز کے قریب ہو جاؤں گی۔میں اس کا دل رکھنے کے لیۓ اس سے جھوٹ نہیں بول سکتی، اسے دھوکا نہیں دے سکتی۔۔۔" کہتے ہوۓ وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو چکی تھی۔

" اور اگر میں ایسا کر بھی لوں تب بھی ، ساری زندگی نہ خود خوش رہ پاؤں گی اور نہ اسے خوش رکھ سکوں گی۔" اسکی طرف دیکھتے ہوۓ اس نے حتمی انداز میں کہا اور تیزی سے اسکے پاس سے گزرتی چلی گئی۔

معاز اپنی جگہ شکست خوردہ سا کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہ گیا۔

آج ان تینوں پر الگ الگ طرح سے قیامت ٹوٹی تھی، مگر شاہ ویز کے لیۓ یہ قیامت سب سے زیادہ اذیت ناک تھی۔۔۔ ان دونوں نے تو صرف دوستی ہاری تھی، پر شاہ ویز نے آج اپنا سب کچھ ہار دیا تھا۔

🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸

" یہ سب کیا ہے شاہ ویز دھیان کہاں ہےتمہارا ؟۔۔۔ آدھے گھنٹے میں ہماری اتنی اہم میٹینگ ہے اور تم نے کوئی پرزنٹیشن تیار نہیں کی کلائنٹ کے لیے۔۔۔ میٹنگ میں کیا کرو گے ؟"

وہ انکی میز کے سامنے سرجھکاۓ کھڑا تھا اور ریاض صاحب کا غصہ شدید ہوتا جارہا تھا کیونکہ شاہ ویز کہ پاس اپنی اس لاپرواہی کی کوئی وضاحت تک موجود نہ تھی۔

" تم کچھ بولتے کیوں نہیں۔۔۔ اتنے دنوں سے نوٹ کررہا ہوں تم کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرپارہے ہو، آخر مسئلہ کیا ہے؟"

" سوری ڈیڈ۔۔۔ "

وہ بس اتنا ہی کہہ پایا اور ریاض صاحب نے بے بسی سے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا۔

وہ بے بسی سے چلتا ہوا انکے آفس سے باہر نکل آیا، اور تب ہی پینٹ کی جیب میں اسکا موبائل بجنے لگا۔۔۔ اسکرین پر معاز کا نام لکھا ہوا تھا۔ پورے ایک ہفتے بعد آخر معاز نے اس سے بات کرنے کی ہمت جمع کر ہی لی تھی۔

🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸 🌸

وہ ایک نائٹ قلب کے باہر پارکنگ ایریا میں کھڑامعازکا منتظر تھا، شام گہری ہو چکی تھی۔ وہ بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے دل کا بوجھ بھی بڑھ رہا تھا، وہ سب کچھ ختم کرنے کا فیصلہ تو کر بیٹھا تھا مگر اب اس فیصلے کو نبھانا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا۔

اچانک پارکنگ ایریا میں معاز کی گاڑی داخل ہوتی دکھائی دی اور شاہویز کے قریب آرکی، گاڑی سے اتر کر معاز اسکے قریب آیاچہرے پر مہربان مسکراہٹ تھی وہ ہمیشہ کی طرح شاہویز کو گلے لگا کر اس سے ملنا چاہتا تھا مگر شاہویز نے ہاتھ اٹھا کر اسے قریب آنے سے روک دیا، معاز کو اسکے رویے سے شدید صدمہ پہنچا تھا۔

"جو بھی بات کرنی ہے جلدی کہو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔" کہتے ہوۓ شاہویز کا لہجہ انتہائی تلخ اور بےمروت تھا۔

صدمے کی زد میں معاز کچھ دیر تک خاموش رہا پھر ہمت جمع کر کے اس نے کہنا شروع کیا۔

" پتہ نہیں میں جو کچھ کہوں گا تم اس پر اعتبار کروگے یا نہیں۔۔۔۔۔ لیکن اتنی پرانی دوستی ہے ہماری اتنا تو تم جانتے ہی ہو کہ میں نے تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔۔۔۔کبھی کچھ نہیں چھپایا، علیزے مجھ سے محبت کرتی ہے میں یہ بات واقعی نہیں جانتا تھا اور پھر جب تو نے مجھے بتایا کہ تو اسے چاہتا ہے اسکے بعد تو میں نے غلطی سے بھی ایسا خیال اپنے ذہن میں نہیں آنے دیا۔۔۔ میرا یقین کر شاہویز میرا اس سب سے کو تعلق نہیں۔۔۔ میں علیزے سے محبت نہیں کرتا۔" آخری الفاظ ادا کرتے ہوۓ معاز کی آواز لڑکھڑائی تھی۔

شاہویز نے بہت تسلی سے اسکی بات سنی اور پھر معاز کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا

" ہاں یہ سچ ہے کہ تو نے آج سے پہلے کبھی مجھ سے جھوٹ نہیں بولا لیکن آج تو نے جھوٹ بولا ہے معاز ۔۔۔ تو چاہے لاکھ انکار کر مگر میں جانتا ہوں تو بھی علیزے سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ تیرے بار بار انکار کرنے سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ علیزے تجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔ اور سچ پوچھ تو مجھے اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پرتا۔۔۔میں آگے بڑھ چکا ہوں اور اب وقت ہے کہ تم اور علیزے بھی آگے بڑھ جاؤ اور پرانی باتیں بھول کر ایک ساتھ نئی زندگی شروع کرو۔" اپنی بات کے اختتام پر شاہویز کا انداز بظاہر بے حد مطمئن تھالیکن معاز جانتا تھا وہ صرف دکھاواکر رہا تھا۔

" اورتو ؟؟۔۔۔۔ کیا تو جی لے گا علیزے کے بغیر ؟؟ کیا تو بھول جاۓ گا سب کچھ؟؟ " جوابً معاز نے اس سے پوچھا تھا۔

" میں خو ش ہوں معاز اور اپنی زندگی بھر پور انداز میں جی رہا ہوں۔۔۔ مجھے نہ تیری ضرورت ہے اور نہ ہی علیزے کی، بس ایک بات کا خیال رکھنا کہ دوبارہ کبھی مجھ سے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش نہ کرنا اور پلیز علیزے کو بھی یہ بات سمجھا دینا۔۔۔۔ چلتا ہوں خداحافظ۔" وہ کہہ کر جانے کے لیۓ مڑ گیا تھا۔

"ایسا مت کر شاہویز۔۔۔۔ پندرہ سال کی دوستی کو اس طرح مت توڑ۔۔۔۔ تجھے دوست نہیں بھائی مانا ہے میں نے۔۔۔۔ تو جانتا ہے میرا تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ مجھے اتنی بری سزا مت دے۔۔۔ رک جا پلیز میری بات تو سن۔۔۔۔" پیچھے کھڑا معاز اسکی منتیں کرتا اسے پکارتا رہا مگر شاہویز نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا، یہ اور بات تھی کہ آنکھیں شاہویز کی بھی نم تھی گرتے ہوۓ آنسوؤں اور ٹوٹے ہوۓ ضبط کے ساتھ وہ بنا پیچھے مڑ کر دیکھے تیز قدموں سے آگے بڑھتا رہا۔۔۔ بہت دور تک معاز کی آواز اسکا پیچھا کرتی رہی۔۔۔ یہاں تک کہ وہ کلب کے اندر داخل ہوگیا، بے ہنگم موسیقی کا شور کانوں میں چبھنے لگا لیکن ذہن میں اب بھی معاز کی آواز کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، آنکھیں اب خشک تھیں وہ اردگرد سے بے خبر درد اور ازیت کی شدید لہر کو بڑی خاموشی سے اندر ہی اندر جھیل رہا تھا۔

اور تب ہی کسی نے بڑی اپنائیت سے اسکے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

شاہویز نے سر اٹھا کر اس جانب دیکھا بد ترین ذہنی کیفیت کے باعث وہ بامشکل سامنے کھڑے شخص کو پہچان پایا تھا۔ وہ اسامہ تھا اسکا یونیورسٹی فیلو جس سے شاہویز سلام کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا جسکی وجہ تھی یونیورسٹی میں اسامہ کی خراب Reputation۔ وہ ڈرگز کا عادی تھا۔۔۔۔ اسامہ نہ صرف ڈرگز استعمال کرتا تھا بلکہ اسے دوسرے اسٹوڈنٹس کو فروخت بھی کرتا تھا اور نہ جانےاب تک کتنوں کو نشے کا عادی بنا چکا تھا۔ اسکے علاوہ بھی بہت سی اخلاقی برائیاں اس میں موجود تھی اور اسکا حلقہ احباب بھی ایسے ہی لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔

"تم کچھ پریشان لگ رہے ہو سب خیریت ؟ اور یہ کیا، آج تمہارے دوست بھی نظر نہیں آرہے تمہارے ساتھ ؟" وہ میز کے ساتھ رکھی اسکے سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر بڑے دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔

جوابً شاہویز بنا کچھ بولے خاموشی سے سر جھکاۓ بیٹھا رہا۔

اسامہ کافی دیر تک اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر شاہویز کی خاموشی یوں ہی برقرار رہی، اسامہ کو اتنا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ شاہویز اس وقت کسی ذہنی اذیت کا شکار ہے اور اسامہ کے لیۓ شاہویز کی یہ حالت کسی سنہرے موقعے سے کم نہیں تھی، اور اس سنہری موقعے کا اب وہ بھر پور فائدہ اٹھانے والا تھا۔

اسامہ نے اپنی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک پلاسٹک کی بوتل نکالی، پھر بوتل کا ڈھکن کھولا اس میں سفید رنگ کی گولیاں تھیں، اس نے ایک گولی نکالی اور شاہویز کی طرف بڑھادی۔

" یہ کس چیز کی ٹیبلٹ ہے ؟" شاہویز اس کی اس حرکت پر کچھ حیران ہوا تھا۔

"یہ دوا ہے ہر درد کی۔" اسامہ کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔

"اسے زبان کے نیچے رکھ اور سب کچھ بھول جا ۔۔۔ فکر مت کر اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ یہ تو تجھے سکون دے گی اور تو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ساری پریشانیاں بھول جاۓ گا۔" اسامہ مسلسل بول رہا تھا۔

شاہویز جان چکا تھا کہ وہ کونسی دوا تھی اس کے باوجود وہ اسے منع نہیں کر پارہا تھا،اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوگئی ہے وہ ایک کمزور لمحے کی ذد میں تھا۔

اور پھر ایک جھٹکے میں شاہویز نے اسکے ہاتھ سے گولی لی اور زبان کے نیچے رکھ لی۔۔۔۔ ایک لمحہ، صرف ایک لمحہ لگا تھا اسے اپنی زندگی کا بدترین فیصلہ لینے میں۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸ً

(To Be Continued)

hope you all like it!!

Please do vote, comment and

share. :")

فی امان اللہ ❤

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro