7: کیوں تم کوچاہیں
کھانے کے بعد ہانیہ واپس کمرے میں آگئی، تصویریں اب سامنے صوفے کی میز پررکھی تھیں اور وہ کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی ذہن سوچوں میں الجھا تھا "میں آج وہاج سے بات کر کے رہوں گی انھیں بتانا ہوگا کہ اٌنکو یہ تصویریں کس نے دی؟ کون ہے جو میرے اور وہاج کے درمیان مزید بدگمانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے" وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ آہٹ پر چونکی، وہاج کمرے کادروازاہ کھول کر اندر داخل ہورہا تھا۔
ایک نگاہ غلط ہانیہ پر ڈالے بغیر وہ نقاہت سے چلتا ہوا اندر آیا اور صوفےپر بیٹھ گیا پھر جھک کر جوتے اتارنے لگا، ہانیہ کی نظریں اٌسی پر جمی تھیں، تبھی وہاج کی نظر میز پر رکھی تصویروں پر پڑی اور پھر وہ جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا تھا، ہاتھ بڑھا کر تصویریں اٹھائیں اور خون خوار نگاہوں سے ہانیہ کی طرف دیکھا، جو اٌسکے چہرے کے بدلتے تاثرات پر کچھ سہم گئی تھی۔
" کس نے نکالی یہ تصویریں میری الماری سے ؟ آواز اونچی اور لہجہ سخت تھا۔"
ہانیہ نے کچھ کہنا چاہا مگر زبان ہل بھی نہ سکی۔
" مجھے جواب چاہیے، کس نے اور کیوں نکالی ہیں یہ تصویریں ؟" وہ اب اسکے قریب آکھڑا ہوا تھااور پہلے سے زیادہ سختی سے پوچھ رہا تھا۔
" مے ۔۔۔میں نے! " وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔
" کیوں ؟ تلاشی لے رہی تھی میرے سامان کی؟ کیا ڈھونڈ رہی تھی بولو ؟ "
" نن۔۔۔نہیں و۔۔ وہ میں ب۔۔ بس یونہی دیکھ رہی تھی اور۔۔۔" ہانیہ لرزتے ہوۓ بتانے کی کوشش کر رہی تھی مگروہاج نے مزید کچھ سنے بغیر اسکی کلائی کو پکرتے ہوۓ ایک جھٹکے سے اپنے نزدیک کیا، کلائی پر اسکی گرفت اتنی سخت تھی کہ ہانیہ نے درد سے آنکھیں میچ لیں۔
"دوبارہ میرے سامان کو یا میری کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی کوشش بھی مت کرنا! " سختی سے تنبہی کرتے ہوۓ وہ بولا پھر ایک جھٹکے سے کلائی چھوڑ کر وہ موڑا ہانیہ نے بے ساختہ دوسرے ہاتھ سے کلائی کو تھاما جہاں اب وہاج کی انگلیوں کے نشان تھے۔
" مگر یہ تصویریں جھوٹی ہیں ، ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں" وہاج کا اٹھتا قدم رک گیا اسکی آواز پر وہ واپس مڑا اور اٌسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا۔
" مجھے فرق نہیں پڑتا کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ ۔۔۔۔ سچ پوچھو تو مجھے تم سے جوڑی کسی چیز سے بھی فرق نہیں پڑتا."
" تو کیا آپ کو ان تصویروں پر یقین ہے"
" میں نے کہا نا میرے نزدیک ان تصویروں کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔تم ایک ایسے شخص سے ملتی رہی جسے ملنے سے تمہارے شوہر نے تمہیں منع کیا تھا، جس سے تمہارے شوہر کو شدید نفرت ہے تو پھر تم کچھ بھی کرو کیا فرق پڑتا". کہہ کر اٌس نے ہانیہ کو ایسی نظروں سے دیکھا کہ وہ اندر تک ٹوٹ گئی اور وہ کہہ کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے سورج کی تیز کرنیں کھڑکی کے شیشوں سے کمرے میں داخل ہورہی تھیں ایسے میں وہ بے خبرسوئی ہوئی تھی سورج کی روشنی اسکے چہرے پر پڑی تو اسکی نیند ٹوٹی۔آنکھیں ملتے ہوۓ وہ اٌٹھ بیٹھی پھر اردگرد دیکھا وہاج کمرے میں نہیں تھا اسے عجیب سی مایوسی ہوئی۔ ابھی وہ بستر سے اٹھی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
"آ جاؤ" حلیمہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
"گڈ مارننگ میم ! وہاج سر نے آپکو بلایا ہےوہ اور مرتضا سر آپ کا ناشتے پر wait کر رہے ہیں، آپ پلیز جلدی آجائيے".
"ٹھیک ہے! تم جاؤ، میں آتی ہوں" ہانیہ نے غائب دماغی سے جواب دیا اور دروازہ بند کر کے مڑی " میرے wait کیوں کررہے ہیں؟ ظاہر ہے تایا ابا کی وجہ سے " اٌس نے افسردگی سے سوچا وہاج کی باتوں کا اثر اب تک باقی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتضا صاحب ناشتے کی میز کے گرد سربراہی کرسی پر موجود تھے بائیں طرف وہاج بیٹھااٌن سے گفتگو میں مصروف تھا ناشتہ لگ چکا تھا پر ابھی شروع نہیں کیا گیا تھا تبھی ہانیہ ڈائینگ ہال میں داخل ہوئی۔
"اسلام علیکم ! تایا ابا" ہانیہ نے سلام کرتے ہوۓ سر انکے سامنے جھکایا۔
"وعلیکم سلام! ہمیشہ خوش رہو" مرتضا صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔
ہانیہ انکے دائیں طرف رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"تو کیسا لگا میری بیٹی کو ہمارا گھر؟ "
ناشتے کے دوران وہ بہت اپنائیت سے بولے۔
" بہت اچھا." ہانیہ نے دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
" ہاں مگر اصل رونق تو میری بیٹی کے آنے سے آئی ہے" وہ کہہ کر ہلکا سا ہنسے تو ہانیہ بھی مسکرا دی۔ وہاج اس دوران خاموشی سے ناشتے میں مصروف رہا، پھر چاۓ کا آخری گھونٹ بھر کر جانے کے لیۓ اٹھ کھڑا ہوا۔
" بابا میں ہال جا رہا ہوں Arrangements دیکھنے تھوڑی دیر تک آجاؤں گا۔" مرتضا صاحب کی طرف دیکھتے ہوۓ وہ بولا تو انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
پھر وہ ہانیہ کی طرف مڑا " تمہارا ڈریس تھوڑی دیر تک ڈیزائنر کے پاس سےآجاۓ گا، پہن کر چیک کر لینا اور کوئی پربلم ہو تو مجھے کال کر لینا۔" کہتے ہوۓ لہجہ بہت نرم اور آواز دھیمی تھی۔
"جی ٹھیک ہے" وہ بس اتنا ہی بولی ۔
"اچھا بابا ! چلتا ہوں" کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں واپس آئی تو پہلا خیال گھر کال کرنے کا آیا، موبائل اٹھا کر فیضان بھائی کا نمبر ڈائل کیا کچھ ہی لمحوں بعد دوسری طرف فیضان بھائی کی آواز سنائی دی۔
" بھائی، کیسے ہیں آپ؟ "سلام کے بعد اٌس نے فوراً پوچھا۔
" میں بھی ٹھیک ہوں، مگر آپ سے ناراض ہوں".
"کیوں ؟"
" آپ ائیرپورٹ پر مجھ سے ملنے کیوں نہیں آۓ؟ میں کتنی دیر تک انتظار کرتی رہی پر کوئی بھی نہیں آیا". وہ بھرائی ہوئی آواز میں میں بولی۔ فیضان کے سینے میں درد کی لہر سی اٹھی وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ وہ کتنا روئی ہوگی۔
" بابا مجھ سے ناراض ہیں آپ تو نہیں ہیں نا آپ تو آسکتے تھے نا". وہ مزید بول رہی تھی۔
" ایم سوری ہانی میں آنا چاہتا تھا پر نہیں آسکا".
" آپ آج تو آئیں گے نا ؟امی اور باقی سب بھی آئیں گے نا ؟ " وہ امید بھرے لہجے میں پوچھ رہی تھی، اور فیضان سے کچھ بھی نہ بولا گیا۔
" بولیں نا بھائی آپ لوگ آئیں گے نا؟ ".
" ہانیہ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ اوکے الّلہ حافظ"۔
"ہیلو بھائی ۔۔ بھائی رٌکیں" ہانیہ نے موبائل چہرے کے سامنے کیا اور بھیگی آنکھوں سے اسکرین کو دیکھا جہاں کال کٹ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گہرے نیلے رنگ کی لانگ میکسی پہنے ہوۓ تھی میکسی گلے سے دامن تک نگوں کے کام سے بھری تھی وہ اپنے کمرے میں موجود تھی اور بیوٹیشنز اٌسے تیار کر رہی تھیں وہ بے زاری سےخود کو آئینے میں دیکھ رہی تھیں بالوں کو کرل کر کے ایک طرف ڈالا گیا تھا لباس کی مناسبت سے میک اپ کیے اور نازک جیولری پہنے وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔
بیوٹیشن اب آخری ٹچ اپس دے رہی تھی، تب ہی دستک کے ساتھ دروازہ کھلا، وہاج اندر داخل ہورہا تھا ۔
" she is ready, sir."
بیوٹیشنز میں سے ایک نے کہا۔
" ٹھیک ہے آپ لوگ جاسکتے ہیں." ایک قدم آگے آکر وہاج نے تینوں بیوٹیشنز کو باری باری دیکھتے ہوۓ کہا، کچھ دیر میں کمراہ خالی ہوگیا اب وہاں صرف وہی دونوں موجود تھے۔
ہانیہ کی وہاج کی طرف پشت تھی وہ آئینے کے سامنے جوں کی توں بیٹھی، وہاج کی موجودگی سے بےخبر اپنے ہی خیالوں میں گم تھی۔
" چلو ! ہال ساتھ جانا ہے ہمیں، بابا بھی جا چکے ہیں۔"
اسکی آواز پر جیسے وہ ہوش میں آئی، پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاج کے عین سامنے آرکی۔
تبھی وہاج کی نظر اٌس پر پڑی، ایک لمحے کو وہ سانس لینا بھی بھول گیا کتنی ہی دیر تک اسکے چہرے سے نظر بھی نہ ہٹا سکا۔
" اور اسی لمحے اٌسے احساس ہوا کہ سامنے کھڑی اس لڑکی کی محبت کبھی اٌسکے دل سے ختم ہو ہی نہیں سکتی۔"
"چلیں ؟؟" بہت دیر تک وہاج کے بولنے کا انتظار کرنے کے بعد وہ تھک کر خود ہی بول بیٹھی۔
" ہاں چلو " وہ تیزی سے بولا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کے عالیشان ہال میں وہاج مرتضا کے ولیمے کی تقریب جاری تھی۔ بہت سی نامور سیاسی شخصیات اور دیگر پولیس افسران بھی تقریب کا حصہ تھے جو باری باری دلہادلہن کو مبارک باد اور تحفے پیش کرتے وہ دونوں ہی چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجاۓ ہر آنے والے سے نہایت خوش اخلاقی سے ملتے ۔
اس سب کے دوران ہانیہ گاہےبگاہے مرکزی دروازے پر بھی نظر ڈال لیتی جہاں سے وقتاًفوقتاً مہمان آ اور جارہے تھے، مگر جن کا انتظار ہانیہ کو تھاانکا نامونشان دور دور تک کہیں نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro