Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

3: آخری کوشش

وہاج، سکندر ہاؤس کے اندر موجود تھا۔

ملازم اٌسے لاؤنج میں بیٹھا کر انتظار کرنے کا کہہ گیا تھا۔ وہ اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہوۓ، اپنی بے چينی پر قابو پانے کی کوشش کر رہاتھامگر ماضی کی تلخ یادیں کسی کالے ساۓ کی طرح اس کے ذہن پر حاوی تھیں۔

اسی دوران اٌسے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی، اس نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں عثمان سکندر لاؤنج میں داخل ہورہے تھے۔ آٹھ سالوں نے انکی عمر میں اضافہ ضرور کیا تھا، پر انکی شخصیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، آج بھی انکے ہر انداز سے غرور جھلکتا تھا۔

" اسلام علیکم"

وہاج نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اٌنھیں سلام کیا اور پھر بیٹھ گیا۔ عثمان سکندر نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ سر کی ذرا سی جنبش سے اٌسے سلام کا جواب دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانیہ اپنے کمرے میں موجود تھی جب فاطمہ بھابھی (ہانیہ کے بڑے بھائی فیضان کی بیوی) نےاسکے کمرے کے دروازے پر زوردار دستک دی وہ ساتھ ہی اسے پکار بھی رہیں تھی "ہانیہ۔۔۔ ہانیہ جلدی دروازہ کھولو" ہانیہ نے کچھ پریشانی سے دروازہ کھول دیا۔ "کیا ہوا بھابھی سب خیریت؟" ۔

تمہیں پتہ ہے نیچے با با سے ملنے کون آیا ہوا ہے ؟

کون ؟ ہانیہ نے نا سمجھی سے انھیں دیکھتے ہوۓ پوچھا۔

"وہاج "

ک۔۔کیا۔۔کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں بھابھی؟ ہانیہ نےآنکھوں میں بے یقینی لیے پوچھا۔ اسکے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔" ہاں! وہ نیچے بیٹھا ہے ابا جان کے ساتھ" ۔

ہانیہ نے بیڈ سے اپنا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالا اور دیوانوں کی طرح دوڑتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل کر تیز تیز سیڑھیاں اٌترنے لگی مگر آخری سیڑ ھی پر اٌس کے قدم رک گئے لاونج کی راہداری سے وہاج دکھائی دے رہا تھا، ہانیہ ساکت سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ عثمان سکندر کی ہانیہ کیطرف پشت تھی سو وہ اٌسے نہ دیکھ سکے پر وہاج نے اسکی موجودگی کو محسوس کرلیاتھاتبھی اٌس نے ہانیہ کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا، ایک پل کے لئے دونوں کی نظریں ملی اور اس ایک پل میں جیسے صدیاں حائل ہوگئيں۔ وقت رٌک گیا تھا ہر چیز اپنی جگہ جم گئ تھی۔ مگر پھر وہاج نے اپنی نظریں دوبارہ عثمان سکندر پر جما دیں۔نظروں کا تسلسل ٹوٹا تو وہ جیسے ہوش میں آئی وہاج اب عثمان سکندر سے کہہ رہا تھا۔

میں یہاں اپنے اور ہانیہ کے مطعلق آپ سے

بات کرنے آیا ہوں".

"میں سن رہا ہوں" عثمان سکندر نے بےحد تحمل سے جواب دیا۔

"ہانیہ میرے نکاح میں ہے، میری بیوی ہے سو میں اس کی رخصتی چاہتاہوں، تاکہ باعزت طریقے سے اٌسے اپنے ساتھ لے جاسکوں"۔

ہانیہ لاؤنج کے بیرونی سمت بنی سڑھیوں کے سامنے کھڑی سب سن رہی تھی۔وہاج کے الفاظوں پر اس کا دل زور زور سے دھڑکنیں لگا۔

"کیا تمہیں واقعی لگتا ہے، تم آکر مجھے یہ سب کچھ کہو گے اور میں خوشی خوشی ہانیہ کو تمہارے ساتھ رخصت کردوں گا". عثمان سکندر نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوۓ کہا۔

"نہیں مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا نہیں کریں گے کیوں کہ یہ آپ کی انا کا مسئلہ ہے اور اپنے غرور اور انا کی خاطر تو آپ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں". وہاج نے بھی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔

"اپنی زبان کو لگام دو !!" عثمان سکندر نے تلملا کر قدرے اونچی آواز میں اٌسے تنبیہ کی۔

"آواز دھیمی رکھ کر بات کیجئے عثمان صاحب، آج آپ کے سامنے ' آئی-جی آف سندھ پولیس ' موجود ہےآپ کا وہ بتھیجا نہیں جسے آپ اپنا غلام سمجھتے تھے۔ میرے لیئے ہانیہ کو یہاں سے لے جانا کتنا آسان ہے ،اسکا آپ کو انداز ہی نہیں مگر مجھے کوئی تماشہ نہیں کرنا ،ميں نے امی سے وعدہ کیا تھا کہ ہر حال میں اس رشتے کو نبھانے کی کوشش کروں گا اسلیۓ یہاں ایک آخری کوشش کرنے آیا ہوں".

عثمان سکندر کی برداشت جواب دے گئی، وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھے اور اٌکھڑے ہوۓ انداز میں کہنا شروع کیا۔

" کرلی کوشش ! اب تم جاسکتے ہو " دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ انھوں نے کہا، وہاج بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔

" میرا فیصلہ آج بھی وہی ہے جو آٹھ سال پہلے تھا۔ ہانیہ کا تم سے کوئی تعلق نہیں وہ جلد ہی تم سے خلع لینے والی ہے اور صرف یہی نہیں میں اسکا رشتہ کہیں اور طے بھی کر چکا ہوں".

وہاج پر عثمان صاحب کے لفظ کسی بجلی کی طرح گرے تھے، وہ بے یقین ہوا تھا۔ پھر وہ وہاں مزید نہیں رکا تھا رکنے کا کوئی جواز بھی نہ تھا سو وہ تیزی سے باہرنکلتا چلا گیا۔

ہانیہ اپنی جگہ برف کا مجسمہ بنی کھڑی رہی۔ وہ ایک بار پھر چلا گیا تھا اٌس سے دور ، بہت دور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی میں بیٹھ کر اٌس نے ڈرائیور کو ہوٹل چلنے کا کہا۔

کچھ ہی دیر میں اسکی گاڑی سکندر ہاؤس سے دور نکل آئی تھی۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا، حیرت و بےیقینی کے عالم میں موجود تھا۔

اس پل دنیا کی ہر شے وہاج کوبہت بے اعتبار لگی تھی۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہانیہ اٌس سے علیحدگی کا فیصلہ کرسکتی ہے اٌسے اپنی محبت پر اتنا اعتبار تھا ابھی ،مگر آج وہ اعتباربھی ٹوٹ گیا تھا ۔

ہوٹل پہنچ کر اٌس نے پہلے مرتضا صاحب کو فون کیا تھا ۔

" ہاں وہاج بولو!،سب خیریت تھی نا ؟ تم مل آۓ عثمان سے ؟ " مرتضا صاحب بےحد بےصبری سے فون پر اٌس سے پوچھ رہے تھے۔

" جی مل آیا ہوں، اور جیسا میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا ، انھوں نے انکار کر دیا ہے اور ہانیہ مجھ سے جلد ہی خلع لینے والی ہے ۔"

وہاج کی بات سن کر مرتضا صاحب بٌری طرح مایوس ہوۓ،پھر ایک لحظے کی خاموشی کے بعد انھوں نے کہا۔

"پر وہاج تم اسے سمجھانے کی کوشش تو کر تے اسے کہتے کہ۔۔۔۔۔"

" نہیں بابا اب اور کچھ نہیں، یہ قصہ یہیں ختم کر دیجیۓ اور وعدے کے مطابق اب آپ مجھے فورس نہیں کریں گے، یاد ہے نا آپکو". وہاج نے اٌنکی بات کاٹتے ہوۓ کہا۔

پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد انھوں نے کہا، " ٹھیک ہے تم واپس کب آؤ گے ؟" انکے لہجے میں مایوسی تھی جسے وہاج نے محسوس کیا تھا۔

"پرسوں تک آجاؤں گا ،کل ایک سیمنار اٹینڈ کرنا ہےاور ایک دو میٹنگز بھی ہیں اس لیۓ"۔

"چلو ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا".

"آپ بھی ۔۔۔ اور خبردار جو کسی بھی قسم کی فضول ٹینشن لے کر اپنی طبیعت خراب کی تو !" وہاج نے نرمی سے اٌنھیں تنبیہ کرتے ہوۓ کہا۔

"ہاں۔۔ہاں ٹھیک ہے، خداحافظ"

"خداحافظ" وہاج نے کہہ کر فون بند کیا اور ٹیبل پر اٌچھال دیا، پھر اپنا کوٹ اٌتار کر صوفے پر پھینکا، اٌسکی آنکھیں بری طرح جل رہی تھیں، جوتے اٌتار کر وہ بیڈ تک آیا، ہاتھ میں تھامی نیند کی گولیوں کی شیشی جو وہ اپنے پاس ہی رکھتا تھا میں سے چند گولیاں نکالی اور بغیر پانی کے نگل لیں ، اس وقت صرف نیند ہی اٌسے سکون دے سکتی تھی، اسکے سینے میں اٹھتی تکلیف کو دور کرسکتی تھی، وہ اٌوندھے منہ بیڈ پر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر میں ہی نیند اٌسکے وجود پر غالب آگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہاج کے جانے کے بعد سے ہانیہ اپنے کمرے میں بند روۓ چلے جارہی تھی۔وہ اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی تھی، نہ وہ عثمان سکندر کے خلاف جاسکتی تھی اور نہ ہی وہ وہاج کو چھوڑ سکتی تھی۔ عثمان سکندر سے اٌسے بے حد محبت تھی اور وہ جانتی تھی کہ عثمان صاحب بھی اٌس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اپنے بابا اور وہاج میں سے کسی ایک کو چٌنا اٌسکے لیۓ بہت مشکل تھا۔

ایسے میں ہانیہ کے پاس

بس ایک ہی راستہ بچا تھا اور اٌس نے وہی کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro