15: اختتام
مرتضا صاحب ہوسپٹل کی راہ داری میں تیز تیز چلتے جارہے تھے نہ تو کچھ دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی سنائی دے رہا تھا۔ ہر شے پس منظر میں جاتی محسوس ہورہی تھی، انھیں اس لمحے کسی چیز کی پرواہ نہ تھی اگر اس وقت کچھ اہم تھا تو وہ تھا "وہاج" انکا اکلوتابیٹا، اٌنکا آخری سہارا، انکی زندگی کا کل حاصل ۔۔۔۔
راہداری کے دائیں جانب وہ ایک وارڈ کی طرف مڑے دروازہ کھلا ہوا تھا وہ سیدھا اندر چلے آۓ جہاں سامنے ہی انھیں وہاج ہسپتال کے بستر پر بیٹھا نظر آیا، نرس اسکے ہاتھ پر پٹی باندھ رہی تھی اسی طرح کی چند پٹیاں اسکے سر ،بازو، اور کندھے پر بھی بندھی ہوئی تھیں، اسکے علاوہ چہرے اور گردن پر بھی گہری خراشیں واضح تھیں۔
اٌسے اس حالت میں دیکھ کر مرتضا صاحب کا دل کٹ کر رہ گیا۔
وہاج نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا جن کے چہرے کا رنگ اٌڑا ہوا تھا اور آنکھوں میں نمی بھی تھی ۔
وہ اسکے پاس آکر رٌک گيئے اور خاموشی سے نرس کو اسکا کام مکمل کرنے دیا، اسکے جانے کے بعد وہ وہاج سے مخاطب ہوۓ۔
" یہ کیا حالت کرلی ہے تم نے اپنی۔۔۔ "
" میں ٹھیک ہوں بابا۔۔۔ یہ تو معمولی سی خراشیں ہیں بس۔۔" وہ اٌن سے نظریں ملا نہیں پارہا تھا۔
" معمولی؟۔۔۔ انھیں تم معمولی کہہ رہے ہو؟" وہ اسکے پٹیوں سے بندھے ہوۓ بازو کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔
" آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔میں ٹھیک ہوں بلکل۔۔" اٌس نے ایک بار پھر یقین دلانا چاہا۔
" پولیس نے بتایا کہ تم بہت تیز گاڑی چلا رہے تھے۔۔ا یکسیڈنٹ کی وجہ بھی یہی ہے۔۔۔ کیا یہ سچ ہے؟" وہ تصدیق کرنا چاہتے تھے۔
وہاج خاموش رہا۔۔۔ مرتضا صاحب کو اٌنکے سوال کا جواب مل گیا۔
کیوں کررہے ہو تم یہ سب وہاج ۔۔۔ خود کو دیکھا ہے تم نے آئینے میں کیا سے کیا ہوتے جارہے ہو۔۔۔ جب رہ نہیں سکتے تھے اٌس کے بغیر تو کیوں چھوڑ آۓ اٌسے۔۔۔اگر تمہیں یہی سب کرنا ہے تو پہلے میرے مرنے کا انتظار کر لو، پھر جو دل میں آۓ کرناتم ۔"
" ایسا مت کہیں بابا پلیز۔۔۔۔"انکے لفظوں پر وہ تڑپ کر رہ گیا۔
" تو اور کیا کروں پھر۔۔۔۔ تمہیں خود کو برباد کرتا دیکھوں۔۔۔تم میری اکلوتی اولاد ہو وہاج۔۔۔۔ میں تمہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ " وہ بے بسی کی انتہا پر تھے۔
وہاج خاموش ہوگیا وہ بھی اتنا ہی بے بس تھا جتنا کہ مرتضا صاحب۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اندر آجاؤ ہانیہ۔۔۔" وہ جو دروازے کی اوٹ سے کمرے میں جھانک رہی تھی، آواز پر بری طرح چونکی۔
عثمان سکندر اٌسے نہیں دیکھ رہے تھے وہ دروازے کی طرف پشت کیے لیٹے تھے، اسکے باوجود انھوں نے ہانیہ کی موجودگی کو محسوس کرلیا تھا۔
وہ وہیں کھڑی رہی تو انہوں نے دوبارہ پکارہ " اپنے بابا کے پاس آکر نہیں بیٹھو گی۔۔" وہ اب گردن موڑے دروازے کی سمت دیکھ رہے تھے۔
اسکی آنکھیں آنسؤوں سے بھر گئیں، بہت ساری ہمت جمع کر کے وہ قدم قدم چلتی انکے قریب آرکی۔
" یہاں بیٹھو۔۔" اپنے قریب بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ وہ بولے۔
وہ جھکے سر اور جھکی نظروں کے ساتھ بیٹھ گئی۔
" کیا تم ناراض ہو اپنے بابا سے؟ " اس نےفوراً گیلی پلکیں اٹھ کر نفی میں سر ہلایا۔
" تو پھر آکر مجھ سے ملی کیوں نہیں ، اتنے دن سے آئی ہوئی ہو ، ایک بار بھی میرے پاس نہیں آئی ۔۔۔"
" مجھے لگا آپ مجھ سے نہیں ملیں گے۔۔۔ آپ کو ناراض کر کے گئی تھی نا ۔۔۔میں اچھی بیٹی نہیں ہوں بابا ایم سوری ۔۔۔ میں بہت بری ہوں ۔۔۔ سب کا دل دکھایا ہے میں نے۔۔۔" وہ سر جکاۓ رونے لگی تھی۔
" نہیں میری بچی ۔۔۔ بٌرا تو میں ہوں جس نے اپنی پھول جیسی بیٹی کو اتنی اذیت دی ۔۔۔ مجھے احساس ہوگیا ہے ہانیہ میں غلط تھا ۔۔۔ مجھے بہت غرور تھا اپنی قابلیت اور کامیابی پر۔۔۔ اسی غرو ر میں ،میں نے اپنے بڑے بھائی کی بےلوث محبت کو ، اپنے سگے رشتوں کو روند دیا۔۔۔ مگر اللّہ نے ایک ہی جھٹکے میں مجھے میری اوقات بتادی، یہ دنیا اور اسکی شان و شوکت تو محض ایک دکھاوا ہے ، قبر تو سب کی ایک جیسی ہی ہوگی ۔۔۔ پھر غرور کیسا ؟"
ہانیہ ساکت نظروں سے انھیں دیکھتی رہی وہ مزید کہہ رہے تھے۔
" جانتی ہو جس وقت میں آئی۔سی۔یو میں بے حوش لیٹا ہوا تھا ، میری آنکھیں بند تھیں مگر میرا ذہن جاگ رہا تھا اور میری پوری زندگی کسی فلم کی صورت مجھے دکھائی دے رہی تھی، دوسروں کے ساتھ کی گئ ذیادتیاں اور اپنی تمام تر بداعمالیاں میرے سامنے تھیں۔۔۔ اور اٌس وقت میرا دل اللّہ سے صرف ایک ہی درخواست کررہا تھا... کہ یا اللّہ بس ایک موقعہ اور دے دے۔۔۔ بس ایک موقعہ اور ۔۔۔ بالآخر اللّہ نے مجھے وہ موقعہ دے دیا۔۔۔ اور آج جب میں ٹھیک ہو چکا ہوں تو مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں کا میں تمہارا، وہاج کا، یا مرتضا بھائی کا سامنا بھی کر سکوں۔۔۔۔ مگر تم دیکھنا میں جلد ہی کراچی جاؤں گا مرتضا بھائی اور وہاج سے معافی مانگوں گا اور پھر سب پہلے کی طرح ٹھیک ہو جاۓ گا۔" آخری جملہ کہتے ہوۓ انکی آنکھوں میں چمک تھی۔
ہانیہ اپنی جگہ خاموش پتھر کی مورت بنی بیٹھی تھی اور اپنے باپ کے پٌر امید چہرے کو دیکھتے ہوۓ سوچ رہی تھی، " میں آپ کو کیسے سمجھاؤں بابا، کہ اب ٹھیک ہونے کے لیئے کچھ باقی نہیں رہا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اسلام علیکم! مرتضا انکل...."
مرتضا صاحب جو لان میں لگے پودوں کی تراش خراش میں مصروف تھے آواز پر چونک کر مڑے۔
" ارے سارہ بیٹی تم۔۔۔۔ وعلیکم سلام ۔۔۔۔ تم کب آئی؟" وہ کافی حیران نظر آرہے تھے۔
" بس ابھی ہی آئی ہوں ۔۔۔ دراصل آپ اپنے پودوں میں اتنا گم تھے کہ آپ کو پتہ ہی نہیں چلا۔" کہتے ہوۓ وہ ہلکا سا ہنسی۔
" آؤ بیٹھو نا۔۔" پاس رکھی کرسیوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ وہ بولے ساتھ ہی دوسری کرسی پر خود بھی بیٹھ گئے۔
" امجد کیسا ہے ؟" وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ چکے تھے۔
" ٹھیک ہیں بابا بھی۔۔۔ پر آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ۔۔۔ بہت کمزور ہورہے ہیں۔"
" میں اب صحت مند رہ کر کروں گا بھی کیا !" وہ گہری سانس بھر کر بولے۔
" وہاج کی وجہ سے پریشان ہیں"
" ظاہر ہے، اور کیا پریشانی ہوگی مجھے، وہاج کو دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے، پتہ نہیں کیا کرنا چاہتا ہے وہ اپنے ساتھ، نہ ڈھنگ سے کھاتا پیتا ہے نہ کوئی بات کرتا ہے، خاموش ہوگیا ہے بلکل۔۔۔۔" انکے لہجے میں فکریں بول رہی تھیں۔
" آپ فکر نہ کریں انکل وہ ٹھیک ہوجاۓ گا وقت کے ساتھ ساتھ۔۔"
" تم دوست ہو اٌسکی، تم سمجھاؤ نا اٌسے شاید تمہاری ہی سن لے۔" انھوں نے اٌمید بھری نظروں سے سارہ کو دیکھا۔
" ٹھیک ہے ! میں کروں گی وہاج سے بات۔" وہ پٌرعزم سی ہوکر بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں زمین پر گٹھنوں کے بل بیٹھا تھا، اردگرد بہت سی کتابیں بکھری پڑیں تھیں، وہ باری باری اٹھا کر ہر کتاب کا نام پڑتا پھر ایک طرف رکھ دیتا، شاید وہ کوئی کتاب ہی ڈھونڈ رہا تھا، صرف کتابیں ہی نہیں پورا کمراہ اسی طرح بکھرا ہوا تھا۔
اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی۔
" آجاؤ۔۔"
سارہ درواز دھکیل کر کمرے میں داخل ہوئی، وہاج نے سر اٹھا کر اٌسے آتے دیکھا پھر مصروف سے انداز میں دوبارہ کتابوں پر جھک گیا۔
سارہ نے ایک نظر پورے کمرے میں دوڑائی، شاید ہی کوئی ایسی شے تھی جو اپنی جگہ پر تھی۔ وہ زمین پر بکھری چیزوں سے بچتی ہوئی اس تک پہنچی مگر وہ متوجہ تک نہ ہوا۔
" کیسے ہو وہاج؟... تمہارے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلا مجھ سے رہا نہیں گیا تو ملنے چلی آئی۔"
" ٹھیک ہوں۔" آگے ہو کر کچھ مزید کتابیں اٹھاتے ہوۓ وہ انتہائی سرد لہجے میں بولا۔
" کچھ ڈھونڈ رہے ہو تم ؟ میں مدد کروں ؟"
" نہیں ، شکریا۔" لہجہ اب بھی سرد تھا۔
" تم اس طرح بات کیوں کر رہے ہو وہاج، میں کوئی اجنبی تو نہیں ہوں ۔"
" اجنبی ہی تو ہو تم، بلکہ یہ ساری دنیا اجنبی ہے میرے لیۓ، ہر چہرہ ، ہر رشتہ، ہر جذبہ جھوٹا ہے، کسی پر اعتبار نہیں مجھے۔" کہتے ہوۓ اسکی آواز اونچی اور لہجہ تلخ تھا۔
" صرف اسلیۓ کہ ہانیہ تمہیں چھوڑ کر چلی گئی، اس نے تمہارے اعتبار کو توڑا تو تمہارے لیۓ ہر شخص بےاعتبارہوگیا۔"
" مجھے ، تم سے مزید بات نہیں کرنی چلی جاؤیہاں سے۔۔" وہ ضبط کرتے ہوۓ بولا کتابیں اب بھی ہاتھ میں تھیں۔
" کیوں، بات نہیں کرنی ؟..تم تو حقیقت کا سامنا کرنے والوں میں سے تھے وہاج پھر آج کیوں بھاگ رہے ہو۔۔۔۔ ہانیہ تمہارے لائق نہیں تھی۔۔۔ اسے تمہارے پیار کی قدر نہیں تھی۔۔۔ اگر وہ تمہیں چھوڑ کر چلی گئی ہے تو اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے خود کو سزا مت دو۔۔۔ اور آگے بڑھو ان لوگوں کی خاطر جو تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔"
" میں کسی کو سزا نہیں دے رہا، نہ ہی مجھے آگے بڑھنا ہے۔۔ میں جہاں ہوں ٹھیک ہوں۔"
" مگر کیوں وہاج ؟ کس کے لیۓ ؟ جس کے لیۓ تم نے اپنا یہ حال بنا رکھا ہے اٌسے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔۔"
" نہ ہو پرواہ ۔۔۔ مگر میرا دل اٌسکی پرواہ کرنا نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ میں نے محبت کی ہے اس سے سودے بازی نہیں کی۔۔۔ اٌسے نہیں ہے میری محبت کا احساس تو نہ سہی۔۔۔ میں اسی کا تھا، اسی کا ہوں اور ہمیشہ اسی کا رہوں گا۔ " وہ سارہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔
" اتنی محبت کرتے ہو اٌس سے ؟" سارہ نے رشک بھری نظروں سے اٌسے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
" میں خود بھی نہیں جانتا کہ میں اٌس سے کتنی محبت کرتا ہوں، میں تو ہمیشہ اسکی محبت سے بھاگتا رہا ہوں صرف اس لیۓ کہ مجھے ہمیشہ اسے کھونے کا ڈر رہتا تھا، جس دن اسے چھوڑ کر آیا تھا اٌس وقت بھی خود کو یہی سمجھاتا رہا کہ وہ اہم نہیں ہے، اسکے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔ لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اسکی کمی کا احساس شدید ہوتا گیا، اور آخر میں نے ہار مان لی، میں یہ جان گیا کہ میں اٌسکے بغیر ادھورا ہوں۔۔۔ بلکل ادھورا۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا ۔ انداز اتنا ٹوٹا ہوا تھا کہ پھر اٌس سے مزید کچھ
نہ کہا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بابا تھوڑا سا اور پی لیں۔۔ بس ختم ہونے والا ہے۔۔" وہ سوپ سے بھرا چمچہ انکے منہ کے قریب کرتے ہوۓ اصرار کررہی تھی، مگر عثمان سکندر منع کرہے تھے۔
" بس بیٹا اور نہیں پیا جاۓ گا ، رکھ دو تھوڑی دیر بعد پی لوں گا۔"
" آپ کہتے ہیں بعد میں پینے کا مگر ،پیتے نہیں نہیں ہے کل بھی آپ نے آیسے ہی کیا تھا۔" وہ خفگی سے کہہ رہی تھی۔
تبھی فاطمہ بھابھی کمرے میں داخل ہوئیں ۔
" ہانیہ تم سے حمزاہ ملنے آیا ہے ، نیچے ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہے، تم جاؤ ۔۔۔ سوپ میں پلا دیتی ہوں بابا کو۔۔"
نام سنتے ہی اسکے اندر ایک آگ بھڑک اٹھی۔۔ وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی ملنا تو اٌسے بھی تھا حمزاہ سے۔۔۔
" میں ابھی آتی ہوں بابا۔۔" جبراً مسکر ا کر عثمان سکندر کو دیکھا ساتھ ہی سوپ کا پیالا فاطمہ بھابھی کو تھما کر وہ کمرےسےباہر نکل آئی اور تیز قدموں سے ڈرائینگ روم کی طرف بڑھنے لگی۔
" کس قدر گھٹیا اور بے شرم انسان ہو تم۔۔۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد۔۔۔ کس ڈھٹائی سے میرے سامنے کھڑے ہو۔" وہ جو صوفے پر بیٹھا اسکا منتظر تھا، اسکے اچانک آجانے سے ایکدم اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
" دیکھو ہانیہ مجھے پتہ ہے تم غصے میں ہو اور تمہارا غصہ جائز بھی ہے پر پلیز پہلے تسلی سے بیٹھ کر ایک دفعہ میری بات سن لو۔۔"
" مجھے تمہاری کوئی بکواس نہیں سننی ۔۔۔ میں نے تمہیں اپنا دوست سمجھا تھا تم پہ اعتبار کیا تھا۔۔۔ مگر تم نے مجھے دھوکہ دیا۔۔۔ وہاج بلکل ٹھیک کہتے تھے تمہارے بارے، تم ایک انتہائی گرے ہوۓ انسان ہو۔۔"
" یہ تم کیا کہہ رہی ہو ہانیہ۔۔۔ میں نے تو مدد کی ہے تمہاری۔۔۔ آزاد کروایا ہے تمہیں اسکی قید سے۔۔"
" تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے؟.. کونسی قید ۔۔۔ رخصتی میری مرضی سے ہوئی تھی۔۔۔ میری زندگی برباد کر کے تم نے کونسی مدد کی ہے میری۔۔" ہانیہ کی آواز غصے سے پھٹنے لگی تھی۔
" مگر مجھ سے تو کہا گیا تھا کہ تم خوش نہیں ہو وہاج کے ساتھ۔۔۔ اور تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے۔"
" کس نے کہا تم سے یہ ؟" ہانیہ کی چہرے کا رنگ بدلہ، حمزاہ خاموش کھڑا صدمے اور حیرت میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔
" جواب دو مجھ کس نے کہا تم سے یہ سب؟" اس نے زور دیتے ہوۓ سوال دہرایا۔
" سارہ نے۔۔۔ "
وہ پھٹی پھٹی نظروں سے شاک کے عالم میں حمزا کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ صدمہ، حیرت، بےیقینی کیا کچھ نہ تھا اسکی آنکھوں میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امجد صدیقی سٹڈی روم میں موجود تھے اور معمول کی طرح فائیلز کا انبار لیئے بیٹھے بہت مصروف نظر آرہے تھے ایسے میں دروازے پر آہٹ سن کر وہ چونکے ۔۔۔
" ڈیڈ ۔۔۔کیامیں آجاؤں؟"
" آجاؤ۔.." وہ ہاتھ میں پکڑی فائل بندھ کرتے ہوۓ مسکرا کر بولے۔
" ایم سوری میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔" وہ کچھ شرمندہ نظر آرہی تھی۔
" اٹس اوکے بیٹا ۔۔۔ کہو کیا بات ہے۔"
" مجھے آپ سے ایک سوال کرنا ہے ۔۔۔"
" ہوں ۔۔۔ میں سن رہا ہوں۔" وہ آنکھوں سے عینک اتارتے ہوۓ پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوۓ۔
" فرض کریں ڈیڈ آپ کے پاس ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو بہت عزیز ہے اور آپ کے لیۓ بہت قیمتی بھی ہے لیکن کوئی دوسرا شخص اچانک سے ایک دن آکر آپ سے وہ چیز چھین لیتا ہے ۔۔۔ تو آپ کیا کریں گے۔" امجد صدیقی سوال سن کر پہلے کچھ حیران ہوۓ مگر پھر زرا سا سوچ کر جواب دیا۔
" ظاہر ہے میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کروں گا، جس سے وہ چیز مجھے واپس مل جاۓ ۔۔۔" سارہ کی آنکھیں یکدم چمکیں اٌسے اٌس کے مطلب کا جواب ملا تھا۔
" چاہے وہ طریقہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو؟ ہے نا؟"
" ہرگز نہیں! میں صرف جائز طریقہ اختیار کروں گا اور اگر پھر بھی وہ چیز مجھے نہ ملی تو میں اٌسے پانے کی خواہش چھوڑ دوں گا۔"
"مگر کیوں ڈیڈ۔۔۔ وہ آپ کی چیز ہے، آپ اتنی آسانی اپنی سب سے قیمتی چیز کسی کوکیسے دے سکتے ہیں؟" اٌسے واقعی حیرت ہوئی تھی۔
" وہ اسلیۓ بیٹا کہ جب کوئی بہت پیاری چیز، لاکھ کوششوں کے بعد بھی جائز طریقےسے آپ کو نہ ملے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ چیز آپ کی ہے ہی نہیں، وہ کسی اور کی ہے، اور آپ چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں۔۔۔ جتنے بھی ناجائز طریقے اختیار کرلیں وہ چیز آپ کو نہیں ملے گی۔" وہ نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ سامنے بیٹھی اپنی بیٹی کو دیکھ رہے تھے، جو اب بلکل خاموش تھی۔
وہ اسی خاموشی سے انکے پاس سے اٹھی دروازے کی طرف بڑھی، تبھی امجد صاحب نے اسے پیچھے سے پکارہ۔
" سب ٹھیک ہے نا۔۔۔ سارہ ؟ " پہلے سوال اور پھر اسکی خاموشی۔۔۔ امجد صاحب کو تشویش ہونے لگی تھی۔
" جی ڈیڈ۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔ گڈ نائٹ " وہ کہہ کر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر باہر نکل آئی اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔
کمرے میں آکر لائٹ آن کیۓ بغیر وہ بیڈ کے قریب زمین پر بیٹھ گئی۔
" تو کیا وہاج میرا نہیں ہے ۔۔۔" صرف یہ ایک حقیقت تسلیم کرنا کتنا مشکل تھا۔ کھلی آنکھوں سے اندھیرے کو گھورتے ہوۓ وہ اپنے آپ میں گم تھی۔
"میں اسی کا تھا، اسی کا ہوں اور ہمیشہ اسی کا رہوں گا۔ " وہاج کے کہے ہوۓ الفاظ کمرے میں گونج رہے تھے۔
" میں خود بھی نہیں جانتا کہ میں اٌس سے کتنی محبت کرتا ہوں " سارہ نے بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر آوازوں کو روکنا چاہا مگر بے سود۔
"میں اٌسکے بغیر ادھورا ہوں۔۔۔ بلکل ادھورا۔۔"
اٌس نے آنکھیں میچ لیں، وہ حقیقت سے نظریں چرا رہی تھی مگر یہ بھی ممکن نہ تھا، اور ساری رات اسی کشمکش میں گزر گئی، مگر صبح تک وہ بالآخر ایک نتیجہ پر پہنچ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ بھی پوری رات جاگتی رہی تھی، حمزاہ نے سارہ کی جو حقیقت اٌسکے سامنے رکھی تھی اٌس پر یقین کرنا بہت مشکل تھا، اٌسکے فہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ سارہ ایسا کر سکتی ہے، اٌسے تو کبھی یہ احساس چھو کر بھی نہیں گزرا تھاکہ سارہ بھی وہاج سے محبت کرتی ہے۔۔۔ انہی سوچوں میں غرق وہ تنہا بیٹھی تھی پاس رکھا اسکا موبائل تھرتھرانے لگا، سکرین پر چمکتا نام دیکھ کر اٌسے حیرت کا زور دار جھٹکا لگا، سارہ اٌسے کال کر رہی تھی۔
" ہیلو۔۔۔ ہانیہ کیسی ہو؟" دوسری طرف دوستانہ سی آواز سنائی دی۔
" ٹھیک ہوں۔۔۔فون کیوں کیا تم نے " جواباً ہانیہ اتنی ہی تلخی سے گویا ہوئی۔
" میں اسلام آباد آئی ہوئی ہوں ۔۔۔ آج صبح ہی پہنچی ہوں، تم سے ملنا چاہتی ہوں ، کچھ بات کرنی ہے تم سے۔۔۔ کیا ہم مل سکتے ہیں؟"
" ضرور۔۔۔ میں بھی ملنا چاہتی ہوں تم سے۔" ہانیہ نے اب کی مزید تلخ لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے۔۔۔ ٹائم اور جگہ میں تمہیں میسج پر بتا دوں گی تھوڑی دیر تک۔" اسنے مزید کچھ کہے بغیر فون کاٹ دیا۔
" جو کچھ تم نے کیا ہے سارہ اس کا انجام بھی بھگتنا ہوگا تمہیں۔" موبائل کی آف سکرین کو دیکھتے ہوۓ وہ سوچ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک فاسٹ فوڈ ریستورانٹ میں بیٹھی، ہانیہ کی منتظر تھی، شام کے ساۓ گہرے ہو رہے تھے اور ساتھ ہی سارہ کی گبھراہٹ بھی بڑھتی جارہی تھی۔
تبھی ہانیہ ریستورانٹ کے مرکزی دروازے اندر آتی دکھائی دی، سارہ نے فوراً ٹشو پیپر سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور ایک گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کرتے ہوۓ اٌسنے ہانیہ کی طرف دیکھا جو اٌسے ہی دیکھ رہی تھی، قریب آکر ہانییہ نے اٌس سے سلام کرتے ہوۓ ہاتھ ملایا، وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔
" تم اگر یہاں مجھے وہاج کے بارے میں مزید بدگمان کرنے آئی ہو تو جان لو کہ مجھ پر تمہاری کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوگا، کیونکہ میں تمہاری اصلیت جان چکی ہوں۔۔۔ دوست کے روپ میں سب سے بڑی دشمن ہو تم، میری اور وہاج کی۔" کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد ہانیہ نے انکشاف کیا، مگر سارہ کو زیادہ حیرت نہ ہوئی، وہ جانتی تھی کہ حمزاہ ہانیہ کو سب کچھ بتا چکا ہوگا۔
" میں یہاں تمہیں بدگمان کرنے نہیں بلکہ۔۔۔ اعتراف کرنے آئی ہوں۔" ہانیہ نے کچھ حیرت سے اٌسے دیکھا۔
" حمزاہ نے میرے بارے میں جو بھی بتایا وہ سب سچ ہے۔۔۔ مگر کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو تم نہیں جانتی۔" سارہ بامشکل ہانیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔
" جو بھی کہنا ہے، صاف صاف کہو۔؟"
" میں نے تمہیں اور وہاج کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے کے لیۓ بہت سی کوششیں کیں۔ سب سے پہلے میں نے وہ تصویریں حمزاہ کے ذریعے حاصل کر کے وہاج تک پہنچائی، اٌسکے بعد وہ بریسلیٹ کا تحفہ اور پھر ہمارے گھر آتے ہوۓ حمزاہ کے ساتھ وہ اتفاقیہ ملاقات، جس کے بعد مجھے یقین تھا کہ وہاج تمہیں چھوڑ دے گا یا پھر تم خود ہی اٌسے چھوڑ کر چلی جاؤ گی۔۔۔ مگرایسا نہ ہوا الٹا تم بیمار ہوگئی، مجھے سخت مایوسی ہوئی، انھیں دنوں مجھے حمزاہ نے بتایا کہ تمہارے بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے، لیکن مجھے حیرت تب ہوئی جب تم اپنے بابا سے ملنے اسلام آباد نہیں گئ، مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہاج نے تمہیں کچھ نہیں بتایا، اور اسی بات کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوۓ میں نے حمزاہ سے کہا کہ وہ تمہیں کال کرے،حالانکہ میں جانتی تھی کہ تمہارے بابا کی حالت بہتر ہے مگر میں نے جان بوجھ کر حمزاہ سے کہا کہ وہ تمہیں اس طرح اطلاع دے کہ تمہیں یقین ہوجاۓ، کہ وہاج نے جان کر تمہیں کچھ نہیں بتایا،اور پھرمیری امیدوں کے عین مطابق وہاج تمہیں خود یہاں چھوڑ کر چلا گیا۔" ہانیہ بنا پلکیں جھپکاۓ اسکی شکل دیکھتی رہی۔
" میں نے یہ سب کچھ کیوں کیا ،مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے شاید، مگر میں پھر بھی بتانا چاہتی ہوں۔۔۔ جس دن میں نے وہاج کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا، مجھے اٌسی لمحے اٌس سے محبت ہوگئی تھی۔۔۔ اور پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ محبت شدید ہوتی گئی، مگر میں نے کبھی اس بات کا احساس وہاج کو نہیں ہونے دیا، شاید میں اٌسکی سنجیدہ طبیعت سے خائف تھی۔۔۔ اور جب میں نے اظہار کرنا چاہا اٌس وقت مجھے پتہ چلا کہ اٌسکی زندگی میں تو پہلے سے ہی تم موجود تھی، یہ بات مجھے وہاج نے نہیں مرتضا انکل نے بہت رازداری میں بتائی تھی تاکہ میں انکی مدد کرسکوں وہاج کو تمہاری رخصتی کے لیۓ منانے میں۔۔۔ مگر میری تو پوری دنیا ہی اٌلٹ گئی تھی ۔۔۔ وہ شخص جس کے ساتھ میں نے اپنی پوری زندگی گزارنے کے خواب دیکھ لیۓ تھے وہ تو سرے سے میرا تھا ہی نہیں۔" سارہ کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔
اسکے بعد میں نے وہ کیا جو مجھے صیح لگا۔۔۔ محبت اندھی ہوتی ہے میری محبت بھی اندھی ہوگئی تھی، میں یہ دیکھ ہی نہ سکی کہ میں جو کر رہی ہوں اٌس سے وہاج کو کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے۔۔۔ مجھے لگتا تھا وہ چند دنوں میں تمہیں بھول جاۓ گااور پھر ہمیشہ کے لیئے میرا ہوجاۓ گا۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہوا، اور نہ ہی کبھی ہوگا۔۔۔ وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے، ہانیہ۔۔۔ وہ ساری زندگی تمہاری یادوں کے سہارے گزار سکتا ہے مگر تمہاری جگہ کسی اور کو نہیں دے سکتا۔۔۔ اور یہ میں نہیں کہہ رہی اٌس نے خود کہا ہے مجھ سے۔"
"مجھ سے کیا چاہتی ہو تم ؟" ہانیہ نے قدرے نرم لہجے میں پوچھا۔
" معافی۔۔۔ میں جانتی ہوں جو میں نے کیا وہ معافی کے لائق نہیں ہے، مگر مجھے امید ہے کہ تم مجھے معاف کردو گی کیونکہ تمہارا دل بہت صاف ہے۔۔۔ پلیز ہانیہ مجھے معاف کردو۔۔" سارہ کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے۔
" معافی مجھ سے نہیں وہاج سے مانگو ،اصل مجرم تو تم اٌسکی ہو۔"
" نہیں۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اسکا سامنا کرسکوں ۔۔۔ میں اسی ہفتے لندن جارہی ہوں ہمیشہ کے لیۓ۔۔۔ تمہاری اور وہاج کی زندگی سے بہت دور۔۔۔ " وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی ساتھ ہی ، بیگ میں سے ایک کاغذ نکال کر میز پر ہانیہ کہ سامنے رکھا۔
" یہ کیا ہے ؟" ہانیہ کاغذ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی۔
" یہ وہاج کے لیۓ ہے، اس کاغز پر میں نے اپنے ہر جرم کا اعتراف کیا ہے۔۔۔ میں جانتی ہوں اسے پڑھنے کے بعد وہاج مجھ سے نفرت کرنے لگے گا اور اٌسکی آنکھوں میں اپنے لیۓ نفرت دیکھنے سے بہتر ہے کہ میں مر جاؤ ۔۔۔ جس شخص سے میں نے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کی اٌسے مجھ سے نفرت ہوجاۓ گی۔۔۔ شاید یہی میری سزا ہے ۔" وہ جانے کے لیۓ اپنی جگہ سے اٹھ چکی تھی ۔
" چلتی ہوں، خداحافظ." وہ کہہ کر تیزی سے ہانیہ کے پاس سے گزر گئی۔
ہانیہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ میز پر رکھے ہوۓ کاغذ کو دیکھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر آکر بنا کسی سے بات کیۓ سیدھا اپنے کمرے میں گئی تھی، دروازہ بند کر کے کنڈی لگائی اور دھیرے دھیرے دروازے سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھتی چلی گئی، وہ اب تک صدمے میں تھی، سارہ کا دیا ہوا کاغذ اب بھی اسکے ہاتھ میں تھا۔
" جانے کتنے لمحے ایسے ہی گزر گئے، حواس کچھ بحال ہوۓ تو ہانیہ نے ہاتھ میں تھاما ہوا کاغذ کھولا، نظروں کے سامنے سارہ کی لکھی ہوئی تحریر موجود تھی، ساتھ ہی دماغ میں اٌسکے کہے ہوۓ الفاظ گونج رہے تھے۔
" جس شخص سے میں نے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کی اٌسے مجھ سے نفرت ہوجاۓ گی۔۔۔ شاید یہی میری سزا ہے ۔"
وہ عجیب سے احساسات میں گھری ہوئی تھی، اس وقت اس کے دل میں نہ تو سارہ کے لیۓغصہ تھا، اور نہ ہی نفرت صرف ہمدردی تھی۔
وہ کچھ دیر خالی نظروں سے تحریر کو دیکھتی رہی پھر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر ديۓ۔
" تمہارے لیۓ یہی سزا کافی ہے سارہ کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور تم خود وہاج سے دور چلی گئی۔۔۔ اب اگر میں مزید سزا دوں گی تو یہ تمہارے ساتھ زیادتی ہوگی۔۔۔ کیونکہ تم نے جو بھی کیا وہاج کی محبت میں کیا۔" وہ خودکلامی کرتے ہوۓ کاغذ کے ٹکڑوں کو دیکھ رہی تھی جو اب زمین پر بکھرے ہوۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا سکندر ہاؤس رات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، ایسے میں ہانیہ اپنے کمرے میں موبائل دونوں ہاتھوں میں تھامے بےچین سی بیٹھی نظر آرہی تھی۔ وہاج کا موبائل نمبر اسکرین پر موجود تھا، مگر نمبر ڈائل کرنے کی ہمت وہ جمع نہیں کر پارہی تھی۔
" کیا کہوں گی میں۔۔۔ کیسے بات کروں گی۔۔۔ میں تو سب کچھ ختم کر کے آئی تھی۔۔۔ وہ میری کوئی بات نہیں سنیں گے" اپنی بے بسی پر اٌسے رونا آرہا تھا۔
بالآخر بہت ہمت کر کے اٌس نے نمبر ڈائل کیا، دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔
" ہیلو۔۔۔ " دوسری طرف وہاج کی آواز سنائی دی۔
وہ اس طرح خاموش رہی جیسے دوبارہ کبھی کچھ بول نہیں پاۓ گی۔
" ہیلو۔۔۔ ہانیہ۔۔۔؟" اسکی آواز دوبارہ ابھری۔
وہ اب بے آواز رو رہی تھی۔
" ہانیہ تم ٹھیک ہو؟؟ کیا ہوا ہے ، کچھ تو بولو۔۔۔ "
" مجھے لینے آجائیں، پلیز۔۔۔" بالآخر اٌس نے کہا۔
ایک جملہ اور دونوں طرف مکمل خاموشی چھاگئی، ہانیہ نے محسوس کیا کال کٹ چکی ہے اٌس نے بے یقینی سے موبائل کان سے ہٹا کر نظروں کے سامنے کیا۔۔۔ وہاج نے کال کاٹ دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن کی صبح بہت سی انجانی خوشیں اور مسرتوں کے ساتھ سکندر ہاؤس پر اتری تھی۔ ہانیہ آئینے کے سامنے کھڑی بالوں میں برش پھیر رہی تھی، رات بھر جاگنے اور رونے کے باعث اٌسکی آنکھیں سوجھی ہوئیں تھیں، اٌس نے بےزاری سے شانو پر دوپٹہ پھیلایا اور کمرے سے باہر چلی آئی۔ گھر میں غیر معمولی سی چہل پہل محسوس ہو رہی تھی، وہ کچھ بھی محسوس کیۓ بغیر کچن کی سمت بڑ رہی تھی جب لاؤنج کے پاس سے گزرتے ہوۓ کچھ شناسا آوازیں سنائی دیں، ہانیہ کا دل زور سے دھڑکا، وہ تیز تیز چلتی لاؤنج میں داخل ہوئی اور اگلے ہی لمحے اٌس کے قدم زنجیر ہوگئے۔
سامنے ہی فیضان بھائی اور وہاج اسکی موجودگی سے بےخبر محو گفتگوتھے۔
وہ بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ ، آنکھوں میں بے یقینی لیۓ دوقدم آگے آئی، وہاج نے نظریں اٹھا کر اٌسے دیکھا ساتھ ہی لبوں پر دلفریب سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ فیضان بھائی بھی اب ہانیہ کی طرف متوجہ تھے۔
" شکر ہے محترمہ آپ جاگ گئیں۔۔۔ آپ کے شوہر کافی دیر سے آپ کے منتظر تھے ۔" فیضان بھائی مسکراتے ہوۓ اٹھ کر اسکے پاس آکر بولے، وہاج بھی اٌنکے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا نظریں اب بھی ہانیہ پر جمیں تھیں۔
" چلو اب سب اٹھ گئے ہیں تو میں فاطمہ سے کہہ کر ناشتہ لگواتا ہوں، تم لوگ بھی آجاؤ جلدی۔" وہ کہہ کر لاؤنج سے باہر چلے گئے۔
" آپ کب آۓ ؟"
" صبح پانچ بجے پہنچا تھا۔۔۔ تمہاری کال سن کر سیدھا ائیرپورٹ گیا تھا اور جو پہلی فلائیٹ ملی اسلام آباد کی، لے کر سیدھا یہاں آگیا۔"
ہانیہ نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں وہ مزید کہہ رہا تھا۔
" تم سوچ رہی ہو گی کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی میں کتنی بے شرمی سے تمہیں لینے آگیا۔۔۔ مگر سچ یہ ہے ہانیہ کہ میں بہت تھک چکا ہوں، مجھ میں تم سے لڑنے کی مزید ہمت نہیں ہے۔۔۔ سب کچھ بھول کر میرے ساتھ چلو۔۔۔ میں تمہارے بغیر نہیں جی سکتا۔"ہانیہ نے نظریں اٹھا کر اٌسے دیکھا، وہاج کی آنکھوں میں محبت کا ایک جہان آباد تھا اور اگلے ہی لمحے ہانیہ وہاج کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ وہاج ساکت ہوگیا، ہانیہ کے آنسو اٌسکی شرٹ کو بھیگورہے تھے۔
" ایم سوری وہاج۔۔۔ ایم رئیلی سوری۔۔۔" وہ آنسوؤں کے بیچ میں یہ جملہ مسلسل دہرا رہی تھی۔
اسکو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر وہاج نے آنکھیں بند کر لیں ، وہ اس لمحے میں قید ہو جانا چاہتا تھا۔
آٹھ سالوں کی مسافت چند لمحوں میں طے ہوگئی تھی ہر زخم سلنے لگا تھا، ہر فاصلہ مٹ گیا تھا، باقی رہ گئی تھی تو صرف محبت، خالص اور سچی محبت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بابا ؟؟" ہانیہ نے عثمان سکندر کو پکارہ جو آنکھیں موندے لیٹے ہوۓ تھے۔
" ہوں ۔۔" آواز پر آنکھیں کھولیں۔
" آپ سے کوئی ملنے آیا ہے " اٌسکا چہرا خوشی سے تمتمارہا تھا۔
" کون۔۔۔ "
" وہاج ۔۔۔" ہانیہ نے وہاج کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا جو دروازے پر کھڑا تھا۔
عثمان سکندر نے بھی گردن موڑ کر اٌسے دیکھا، اٌنکی آنکھیں بے ساختہ نم ہوگئیں اور لبوں پر اداس سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
" وہاج۔۔۔" انھوں نے سر کے اشارے سے اٌسے قریب بلایا۔
وہ انکے قریب چلا آیا اور پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔ ہانیہ پیچھے ہٹ گئی۔۔۔ عثمان سکندر نے اپنے بازو پھیلاۓ تو وہاج نے اپنا سر اٌنکے سینے پر رکھ دیا۔۔۔ عثمان سکندر کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئی تھیں۔۔۔ شرمندگی اور پچھتاوے کے آنسو۔۔۔ وہاج کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں آخر خون کا رشتہ تھا، اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹ سکتا تھا۔
" مجھے معاف کردو وہاج ، میں مجرم ہوں تمہارا، تمہاری زندگی کے آٹھ سال ضائع کیۓ ہیں میں نے، مجھے معاف کردو۔" وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے تھے۔
" ایسے مت کہیں چاچو۔۔۔ آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔۔۔ یہی کافی ہے کہ آپ کو احساس ہوچکاہے." پیچھے کھڑی ہانیہ کے دل میں ڈھیروں سکون اترتا چلا گیا۔ بہت سال بعد ہی سہی مگر آخر سب کچھ ٹھیک ہو ہی گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاج نے ہاتھ بڑھا کر بیل بجائی اور مسکرا کر ساتھ کھڑی ہانیہ کو دیکھا، جو آنکھوں میں ایک خوبصورت مستقبل کا خواب سجاۓ اٌسے ہی دیکھ رہی تھی۔
چند لمحوں کے تواقف سے دروازہ کھل گیا۔
سامنے مرتضا صاحب ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کربےیقینی کے عالم میں کھڑے تھے۔
" ہانیہ۔۔۔ میری بیٹی۔۔۔" انھوں نے آگے بڑھ کر اٌسے کندھے سے لگایا اور سر پر پیار کیا۔
" مجھے یقین تھا تم جلد ہی واپس آجاؤ گی۔"اٌنکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔
" ہاں۔۔۔ پراس بار میں اکیلی نہیں آئی ہوں تایاابا۔۔۔ کسی کو ساتھ لے کر آئی ہوں۔۔۔"
" کسے ؟؟" وہ حیران ہوۓ۔
ہانیہ نے وہاج کی طرف دیکھا تو وہ ایک طرف ہوا اور اس کے پیچھے عثمان سکندر کا کمزور اور نحیف وجود نظر آیا، مرتضا صاحب کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں۔
عثمان سکندر چل کر انکے قریب آرکے، دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش تھے، پھر عثمان سکندر نے اس خاموشی کوتوڑا۔
" اتنے سالوں بعد مل رہا ہوں آپ سے۔۔۔ کیا گلے نہیں لگائیں گے ؟؟" اور اگلے ہی لمحے مرتضا صاحب نے شدت جزب کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو سینے سے لگا لیا۔۔۔ وہ تو جانے کب سے اس پل کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ پیچھے کھڑے وہ دونوں بھی انھیں ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔ وہاج نے ہانیہ کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔.
زندگی نامکمل ہوکر بھی مکمل ہوگئی تھی۔۔۔ انکی کہانی محبت سے شروع ہوکر محبت پر ختم ہو رہی تھی۔۔۔ مگر یہ اختتام نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ محبت کا کوئی اختتام نہیں ہوتا یہ وہ احساس ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
((ختم شد))
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro