Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

13: واپسی

ððمیرا حق تھا کہ مجھے ٹوٹ کر چاہا جاۓ

اس لیۓ تجھ سے محبت نہیں مانگی میں نے۔۔۔۔

ہلکی سی آہٹ کے ساتھ وہ کمرے میں داخل ہوا، رات کے بارہ بجنے والے تھے، وہ بہت دیر تک مرتضا صاحب کے پاس بیٹھا رہا تھا اٌن سے باتیں کرتے ہوۓ اٌسے وقت کا اندازہ ہی نہ ہو سکا، آج بہت سالوں بعد وہ اپنا دل بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔

وہ بنا آواز کیے بہت احتیاط سے بیڈ کی طرف بڑھنے لگا جہاں ہانیہ کروٹ لیے لیٹی ہوئی تھی اٌسے اٌمید تھی وہ سو چکی ہوگی مگر وہ جاگ رہی تھی اور رو رہی تھی اور اٌسے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ کیوں رو رہی ہے،وہاج کے اٹھتے قدم رٌک گۓ وہ بھی اسکی موجودگی محسوس کر چکی تھی۔

وہ آہستگی سے بیڈ پر اٌسکے قریب آبیٹھا، ہانیہ ہنوز لیٹی رہی، پورا کمرا ایک ازیت بھری خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا، وہاج کی نظریں اٌسکے چہرے پر جمی تھیں، کتنا کچھ تھا جو وہ اٌسے کہنا چاہتا تھا کتنا کچھ تھا جو وہ سننا چاہتی تھی مگر ہاۓ یہ اَنا۔۔۔۔

آخر خاموشی ٹوٹی۔۔۔ " بخار تیز ہورہا ہے، تم نے دوائی لی تھی ابھی؟؟ "

اسکے ماتھے کو چھو کر وہ تشویش بھرے لہجے میں بولا۔

وہ خاموش رہی،وہاج نے بے بسی بھری نظروں سے اٌسے دیکھا، کتنا تکلیف دیتی تھی اٌسکی خاموشی، کاش وہ سمجھ پاتی۔

ایک بار پھر ویسی ہی خاموشی چھا گئی تھی۔

" آئم سوری "وہاج کی آواز کمرے میں ابھری، اسکی نظریں اب جھکی ہوئیں تھیں۔

ہانیہ نے پلکیں اٹھا کر اٌسے دیکھا، اسکی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی سے ملے جلے تاثر تھے۔

وہ مزید کہہ رہا تھا " میں جانتا ہوں میرا رویہ تمہارے ساتھ اچھا نہیں رہا، غلطی میری بھی ہے پر اب اور نہیں، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں تمہیں مجھ سے اب کوئی شکایت نہیں ہوگی ہم خوش رہیں گے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب تم بھی ایسا ہی چاہو۔"

" اور جو کچھ آپ نے کل کہا اسکا کیا۔۔۔۔کل تک تو میں ایک انتہائی بے اعتبار لڑکی تھی ، پھر آج کیسے آپ میرے ساتھ خوش رہنے کے دعوے کر سکتے ہیں۔۔۔۔میں تو آپ کی محبت کے لائق نہیں ہوں پھر مجھے اپنی زندگی میں کیسے برداشت کریں گے؟ " اسکا ضبط ٹوٹ گیا تھا، آخری جملہ کہتے ہوۓ اسکی آواز بھرا گئی تھی۔

" میں معافی مانگ رہا ہوں اٌس سب کے لیۓ" وہ اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوۓ بولا نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں ۔

" تو کیوں مانگ رہے ہیں معافی؟ کیوں کر رہے ہیں مجھ پر یہ احسان ؟ قصور تو میرا ہے بری تو میں ہوں۔"

" پھر کیا چاہتی ہو تم؟ کیا کروں میں؟" وہ بے بسی سے اٌسےدیکھتے ہوۓ بولا۔

" چھوڑ دیں مجھے، اور آزاد کر لیں خود کو اس مجبوری سے۔" وہ بے رحمی سے کہہ گئی۔

"اگر چھوڑ سکتا تو آٹھ سال بہت تھے تمہیں چھوڑنے کے لیۓ ۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہومیں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔۔۔۔ مگر تمہیں زبردستی اپنے ساتھ رہنے پر مجبور بھی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔ فیصلہ تمہارا ہے چاہو تو میرے ساتھ رہو، چاہو تو چھوڑ کر چلی جاؤ۔" وہ بات مکمل کرکے بیڈ کی دوسری جانب اپنی جگہ پر آکر لیٹ گیا ساتھ ہی لائٹ بھی آف کر دی۔

دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش مگر گہری سوچوں میں گم تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون کہتا ہے نفرتوں میں درد ہے محسن

کچھ محبتیں بھی بڑی اذیت ناک ہوتی ہیں۔

" ہانیہ کیسی ہے اب؟" چاۓ کا کپ ہاتھ میں تھامے وہ پوچھ رہے تھے۔

"ٹھیک ہے، بخار اب کم ہےسو رہی ہے فلحال۔" وہ اپنے سامنے رکھی پلیٹ سے آخری لقمہ اٹھاتے ہوۓ بولا اور ساتھ ہی جانے کے لیۓ اٹھ کھڑا ہوا۔

" اتنی جلدی کیا ہے، ڈھنگ سے ناشتہ تو کر لو۔" اسکی اٌجلت کو دیکھتے ہوۓ وہ بولے۔

" کچھ پولیس آفسرز کے ساتھ ایک اہم میٹنگ ہے میری اور مجھے دیر ہوچکی ہے۔۔۔۔۔ آپ ناشتا کرلیں اور ہانیہ کو بھی دیکھ لیجۓ گا ۔۔۔ خدا حافظ۔" وہ ابھی ہانیہ کے متعلق مذید ہدایات دینا چاہتا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث اتنا ہی کہہ کر نکل آیا، البتہ اٌسے یقین تھا کہ مرتضا صاحب اٌس سے زیادہ ہانیہ کا خیال رکھ سکتے ہیں۔

اسکی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں اکیلی تھی وہاج جا چکاتھا کچھ دیر وہ یونہی خالی نظروں سے چھت کو گھورتی رہی پھر اٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی، پورے جسم میں درد کی شدید لہر دوڑ گئی، اسنے آنکھیں میچ کر درد کو سہنے کی کوشش کی جبہی دروازے پر دستک ہوئی، مرتضہا صاحب اندر داخل ہوۓ۔

" گڈ مارننگ " چہرے پر پٌر شفقت مسکراہٹ لیۓ وہ اسکے قریب آ بیٹھے۔

"اچھا ہوا تم جاگ رہی ہو میں جگانے ہی آیا تھا، اب کیسی ہے میری بیٹی۔"

"ٹھیک ہوں ،بس تھوڑی کمزوری ہے شاید۔"

"وہ تو ہوگی ہی بخار جو اتنا تیز تھا۔۔۔ پر کوئی بات نہیں کھاؤ پیو گی تو جلدی ٹھیک ہو جاؤ گی۔"

" وہاج چلے گۓ ؟" وہ جھجکتے ہوۓ بولی۔

" ہاں۔۔۔۔ اسکی کوئی ضروری میٹنگ تھی اسليۓ جلدی چلا گیا۔"

" کیاتم نے اٌسے معاف کیا؟" کچھ لمحوں کی خامشی کے بعد وہ بولے۔

" میرے معاف کرنے سے کیا ہوجاۓ گا، تایا ابا۔"

"سب ٹھیک ہوجاۓ گا." جواباً وہ مسکرا کر بولے۔

" اور کیا گارنٹی ہے کہ وہاج دوبارہ یہ سب نہیں دہرائیں گے؟"

" اٌس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے بیٹا، اور وہ اپنے وعدے کبھی نہیں توڑتا تم جانتی ہو۔"

ہانیہ خاموش ہوگئی۔

" اچھا چھوڑو ان باتوں کو فلحال اور اٹھ کر منہ ہاتھ دھولو۔۔۔۔ میں حلیمہ سے کہہ کر تمہارا ناشتا یہیں بھیجوا دیتا ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے۔" اسکی خاموشی اور چہرے کی پریشانی کو دیکھتے ہوۓ وہ بولے۔

وہ چلے گۓ تو وہ بامشکل اٹھ کر بیٹھی اب کی بار درد کچھ کم تھا، وہ بیڈ سے اترنے ہی والی تھی جب سائیڈ ٹیبل رکھا اسکا موبائل بجنے لگا۔

اس نے موبائل اٹھایا، کال کسی غیر شناسا نمبر سے آرہی تھی۔

"ہیلو؟" موبائل کان سے لگا کر وہ بولی۔

" ہیلو ہانیہ ؟"

" آپ کون ؟"

" ہانیہ میں حمزاہ بات کر رہا ہوں؟"

" تم ۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے کال کرنے کی۔۔۔ کیوں میری زندگی عزاب کرنے پر تٌلے ہوۓ ہو." نام سنتے ہی اسکا دماغ گھوم گیا۔

" تم آرام سے پہلے میری بات سنو۔۔۔ مجھے تمہیں بہت ضروری بات بتانی ہے۔"

" اب کیا بتانا ہے، اور کیا باقی ہے"

" تمھارے بابا ہسپتال میں ہیں، انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔"

"کیا بکواس کر رہے ہو تم۔" وہ ایک دم چلائی۔

" میں سچ کہہ رہا ہوں ہانیہ، اٌنکی حالت بہت خراب ہے وہ کل سے ہسپتال میں ہیں ، فیضان بھائی نے وہاج کو کل ہی بتادیا تھا، اس نے نہیں بتایا تمہیں ؟"

ہانیہ کا پورا وجود بے جان ہونے لگا تھا وہ موبائل کان سے ہٹا کر پھٹی پھٹی نظروں سے سکرین کو دیکھنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ میٹنگ سے فارغ ہوکر اپنے آفس کی طرف بڑھ رہا تھا جب اسکا فون بجنے لگا۔

" جی بابا بولیں ؟ " وہ مسکراتے ہوۓ فون کان سے لگا کر بولا۔

" وہاج تم جلدی گھر آجاؤ، پلیز !"

" کیا ہوا بابا ؟؟ سب خیریت ہے نا ؟؟" اسکی مسکراہٹ غائب ہوئی."

" نہیں ہے خیریت ۔۔۔۔۔۔ تم بس گھر آؤ ؟" مرتضا صاحب کی صدمے سے بھری آواز سنائی دی۔

" پر مجھے بتائیں تو سہی کہ آخر ہواکیا ہے ؟ "

" ہانیہ گھر چھوڑ کر جا رہی ہے ۔"

" کیا؟.... مگر کیوں .... ہوا کیا ہے؟ " اٌسے بٌری طرح شاک لگا تھا۔

" پتہ نہیں ،وہ مجھے کچھ نہیں بتارہی ." انکی آواز میں بےبسی تھی۔

"اچھا آپ پریشان نہ ہوں میں آرہا ہوں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرتضا صاحب لاؤنج میں ہی پریشانی اور بے چینی سے ٹہل رہے تھے، جب وہاج انھیں اندر آتا دکھائی دیا۔

" شکر ہے تم آگۓ۔۔۔۔جاؤ دیکھو اٌسے "

" کہاں ہے وہ ؟"

وہاج کے لہجے میں پریشانی بول رہی تھی۔

" اوپر ہے کمرے میں۔۔۔۔ اپنا سامان باندھ رہی ہے ۔"

مرتضا صاحب نے بتایا۔

وہ تیزی سے کمرے کی طرف بڑھا۔

دروازاہ کھول کر وہ کمرے میں داخل ہوا، سامنے ہانیہ اپنے کپڑے سوٹ کیس میں بھر رہی تھی۔

" یہ سب کیا ہے ہانیہ ؟" وہ اٌسکے قریب آکر بولا۔

وہ خاموشی سے مسلسل کپڑے سوٹ کیس میں ڈالتی رہی۔

" میں تم سے بات کر رہا ہوں ہانیہ۔۔۔۔ کیا کر رہی ہو یہ تم ؟" اٌسے کلائی سے پکڑ کے زبردستی اپنی جانب کرتے ہوۓ بولا۔

" چھوڑیں مجھے۔۔" وہ زورآزمائی کرنے لگی۔

"پہلے مجھے جواب دو.." اس کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی۔

" جواب مجھ سے نہیں خود سے پوچھیں۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی آپ اس حد تک جاسکتے۔"

" کس بارے میں بات کر رہی ہو تم۔۔ کیا کیا ہے میں نے صاف صاف کہو۔۔۔" وہ مزید الجھ گیا۔

" کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ میرے بابا ہسپتال میں ہیں، انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولی۔

وہاج کے چہرے کے تاثر بدلے، ایک ہی لمحے میں

وہ پوری صورت حال سے واقف ہوگیا۔

" تم پہلے یہاں بیٹھ جاؤ اور آرام سے میری بات سنو۔" وہ اب کے نرمی سے گویا ہوا۔

" مجھے کچھ نہیں سننا "۔۔۔۔ وہ چلائی "اور کیا سنو میں؟۔۔۔ میرے بابا ہوسپیٹل میں ہیں انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور آپ نے مجھے یہ بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ کیوں ؟" بخار اور جذبات کی شدت سے وہ نڈھال ہونے لگی تھی۔وہاج اسکے ہاتھوں کی لرزش دیکھ سکتا تھا، وہ دھیرے دھیرے لرز رہی تھی۔

" ایسا کچھ نہیں ہے ہانیہ وہ ٹھیک ہیں۔۔۔ اور میں تمہیں بتانا چاہتا تھا مگر۔۔"

"مگر کیا؟۔۔۔" ہانیہ اسکی بات کاٹتے ہوۓ بولی۔

" کوئی وجہ نہیں ہے آپ کے پاس ۔۔۔۔ سچ یہ ہے کہ آپ نہیں جاتے تھے کہ میں بابا سے ملوں۔۔۔ آپ اٌن سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ آپ کو فرق ہی نہیں پڑتااس سے کہ وہ جیۓ یا مر جائیں۔۔۔" وہ مزید بولی۔

وہاج نے بے یقینی سے اٌسے دیکھا، اسے ہانیہ کے الفاظوں سے شدید صدمہ پہنچا تھا۔

" تم پلیز بیٹھ جاؤ ۔۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔ پلیز میری بات مان لو۔" اسکی حالت دیکھتے ہوۓ وہ ایک بار پھر اسے نرمی سے سمجھانے لگا۔

" مجھے نہیں بیٹھنا ۔۔۔ مجھے یہاں ایک پل بھی اور نہیں رٌکنا آپ چاہتے تھے نا میں فیصلہ کر لوں ۔۔۔۔۔تو کر لیا ہے میں نے فیصلہ ۔۔۔۔۔ مجھے واپس جانا ہے اپنے بابا کے پاس۔۔۔ اپنے گھر۔۔۔ سنا آپ نے۔۔" وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہۓ بولی ۔

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro