Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

11: رنجشیں ۔۔۔

شکر ہے تم لوگ خیریت سے پہنچ گئے، مجھے تو فکر ہونے لگی تھی، اتنی دیر کیوں لگی" امجد صدیقی انھیں لاؤنج میں بیٹھاتے ہوۓ بولے۔

" راستے میں ایک آدھ جگہ رکنا پڑ گیا تھا کام سے بس اٌسی میں دیر ہوگئی۔" وہاج نے وضاحت دی،ہانیہ خاموش رہی۔

" تم فون بھی تو نہیں اٹھا رہے تھے پھر آج کل کے حالات کا بھی تمہیں اندازہ ہےاور تم گارڈذ بھی ساتھ نہیں رکھتے، سارہ نے ایک گھنٹے پہلے بتایا تھا کہ تم لوگ نکل گئے ہو بس اسی لیۓ پریشانی ہونے لگی۔"

"آپ اور بابا تو بس بہانے ڈھونڈتے ہیں پریشان ہونے کے۔"

"بلکل صیح کہا، " لاؤنج میں داخل ہوتی سارہ نے وہاج کی بات پر بھرپور اتفاق کیا۔

"اسلام علیکم ! " وہ سلام کرتی آگے آئی،لاؤنج میں موجود تینوں نفوس اب اٌسکی طرف متوجہ تھے، وہ مسکرا کر نہایت گرم جوشی سے ہانیہ کے گلے لگی اور اٌسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

" خود تو یہ پریشان ہوتے ہی ہیں ساتھ میں مجھے بھی کر کے رکھتے ہیں تم ہی کچھ سمجھاؤ انہیں" وہ وہاج کو دیکھتے ہوۓ بولی۔

" میں اگر سمجھ سکتا تو اب تک بابا کو سمجھا چکا ہوتا" وہاج نے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ کہا تو سارہ اور امجد صدیقی ایک ساتھ ہنس دیے، جبکہ ہانیہ مسکرا بھی نہ سکی۔

باتوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈائینگ ہال کھانے کی خوشبو سے مہک رہا تھا، وہ چاروں میز کے گرد موجود تھے امجد صدیقی مسلسل وہاج کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے جو لقمے بامشکل حلق سے نیچے اتر رہا تھا، یہی حال ہانیہ کا تھا۔ وہاج خاموش تھا وہ امجد صاحب کی گفتگو سن رہا تھا مگر جواباً صرف " ہاں ، ہوں" سے کام چلاتا۔

امجد صاحب مسلسل اٌسکی خاموشی محسوس کرتے ہوۓ آخر بول اٹھے۔

"کیا بات ہے وہاج آج تم بہت چپ چپ ہو؟"

" نہیں ایسی کوئی بات نہیں انکل" وہاج سنبھل کر بولا۔

" بابا آپ کو نہیں پتہ وہاج اب شادی شدہ ہے اور شادی شدہ مرد اپنی بیوی کی موجودگی میں خاموش ہی رہتے ہیں" سارہ نے کھیرے کا ٹکرا کانٹے سے اٹھ کر منہ میں رکھتے ہوۓ ہنسی دباتے ہوۓ ہانیہ کی طرف دیکھا جسکی نظریں پلیٹ پر جھکی تھیں۔

وہاج بھی زبردستی مسکرایا۔

کھانے کے بعد وہ دوبارہ لاؤنج میں آبیٹھے ۔

" ہانیہ تم نے ہمارہ گھر نہیں دیکھا نا! چلو میں تمہیں ہمارا گھر دکھاتی ہوں " سارہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ بولی تو ہانیہ نے بے ساختہ وہاج کی طرف دیکھا جو لاتعلق سا بیٹھا امجد صدیقی سے گفتگو میں مصروف تھا۔

"کیا سوچنے لگی"

سارہ نے دوبارہ اسے مخاطب کیا۔

"کچھ نہیں"

کہتے ہوۓ وہ بھی اٹھ گئیاور سارہ کے پیچھے چل دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" اور اب اس گھر کی سب سے خاص جگہ ۔۔۔" وہ کہتے ہوۓ دروازے کا لاک کھول رہی تھی ۔

" میری چھوٹی سی آرٹ گیلری" سارہ کہتے ہوۓ اندر داخل ہوئی ہانیہ بھی اسکی ہمراہی میں اندر آئی اور اردگرد کمرے میں اک بھر پور نگاہ ڈالی۔

کمرے کی دیواریں پینٹنگز سے بھری ہوئی تھیں کچھ زمین پر دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں اور کچھ ابھی ادھوری تھیں، وہ باری باری ساری پینٹگز دیکھ رہی تھی وہ سب ہی شاندار تھیں۔

" بہت خوبصورت" ہانیہ کہے بغیر نہ رہ سکی۔

"شکریہ" سارہ عاجزی سے مسکرائی۔

" وہاج کو بھی پینٹگز کابہت شوق ہے وہ تو اچھی پینٹگز جمع کرنے کا شوقین ہے"

ہانیہ نے پینٹگ سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا۔

" اچھا! مجھے نہیں پتہ تھا۔" ہانیہ سادگی سے بولی۔

" کیوں ؟ تم تو وہاج کو پچپن سے جانتی ہوپھر کیوں نہیں پتہ؟" سارہ کو حیرانی ہوئی۔

" بچپن میں اور اب میں بہت فرق ہے، اب وہاج کی پسند اور شوق بدل گئے ہیں " ہانیہ کے لبوں پر ایک اداس مسکراہٹ آن ٹھری۔

سارہ خاموش ہوگئی اوربغور ہانیہ کا چہرہ پرھنے لگی کچھ تھا اسکی آنکھوں میں جس نے سارہ کو بے سکون کردیاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اچھا انکل اب ہمیں اجازت دیں، بہت دیر ہوگئی اور بابا بھی اکیلے ہیں گھر پر"

" ارے تھوڑی دیر تو اور رٌک جاتے"

" نہیں انکل بس اب ہمیں چلنا چاہیے"

وہاج نے اصرار کیا تو وہ جیسے ہار مان گئے۔

" ٹھیک ہے جاؤ مگر اس وعدے کے ساتھ کے جلد ہی چکر لگاؤ گے"

" جی ضرور" وہاج نے مسکرا کر یقین دھانی کروائی۔

واپسی پر بھی گاڑی میں گہری خاموشی تھی البتہ اب گاڑی کی اسپیڈ نارمل تھی اور وہاج کے چہرے کے تاثرات بھی۔ہانیہ نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اب وہ اپنا غصہ گاڑی پر نہیں اتار رہا تھا۔

گھر پہنچتے ہی اس نے مرتضا صاحب کے بارے میں پوچھا تھا۔

"سر وہ سو رہے ہیں"

ملازم نے اطلاع دی مگراسے تسلی نہ ہوئی، وہ خود انھیں دیکھنے انکے کمرے میں گیا، وہ پرسکون نیند میں سورہے تھے ،مکمل تسلی کے بعد وہ اپنے کی طرف بڑھ گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں آتے ہی اٌس نے کوٹ اتار کر ایک طرف پھینکا ہانیہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھی بے چین اور مضطرب سی

"وہاج!"

لرزتی آواز میں ہانیہ نے اٌسے مخاطب کیا۔

کف کے بٹن کھولتے ہوۓ وہاج نے اٌسے یوں نظر اندازکیا جیسے سنا ہی نہیں ۔

" مجھے آپ سے بات کرنی ہے" اس نے پھر سے ہمت جمع کر کے کہا۔

" مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی" وہ ایک دم اتنی سختی سے اسکی طرف دیکھ کر بولا کہ ہانیہ سہم کر رہ گئی، مگر آج اٌس نے چپ نہیں رہنا تھا۔

" آپ کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ ایسا میرا قصور کیا ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے حمزاہ یہ سب میرے کہنے پر کر رہا ہے یا میں نے بلایا تھا حمزاہ کو وہاں۔"

" میں نے کہا نا نہیں کرنی تم سے بات" وہ پوری قوت سے چلایا۔

"آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں ! کیا آپ مجھ پر اعتبار نہیں کرتے؟" بے بسی سے اسکی آواز بھرا گئی۔

"ہاں نہیں کرتا اعتبار !" وہاج جارہانہ انداز میں ہانیہ کے قریب آیا،اتنا کہ انکے درمیان کوئی فاصلہ نہ تھا وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بول رہا تھا

" اور کیوں کروں میں تم پر اعتبار ؟ کیا تم میرے اعتبار کے قابل ہو؟ میں نے جب جب تم پر اعتبار کیا تم نے میرا اعتبار توڑا ہے مجھ سے قصور پوچھ رہی ہو، مجھے بتاؤ میرا قصور کیا ہے تم سے محبت کرنے کے سوا اور کون سی غلطی کی میں نے ؟ اسکے باوجود تم نے مجھ پر اوروں کو ترجیح دی، ہر انسان اہم ہے تمہارے لیۓ بس میں اہم نہیں تھا، مجھے چھوڑنا تو ہمیشہ سے آسان تھا تمہارے لیۓ اسلیۓ تو خلاء بھی لینے والی تھی تم مجھ سے ،خیر اتنے سالوں میں ایک بات میں بہت اچھے سے سمجھ گیا کہ تم کبھی میری محبت کے لائق تھی ہی نہيں۔نفرت ہے مجھے تم سے شدید نفرت " ہانیہ کے آنسو گالوں پر بہنے لگے بے یقینی سی بے یقینی تھی۔

" اس سب کے باوجود تم چاہتی ہو کے میں تم پر اعتبار کروں تو یہ ناممکن ہے اب ، میں ہرگز تم پر اعتبار نہیں کرسکتا، کبھی بھی نہیں، سنا تم نے " وہ کہہ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا یہ جانے بغیر کہ کمرے میں کھڑی تنہا لڑکی کے اندر باہر سب ٹوٹ گیا ہے۔

................................................۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا جانے کون سا پہر تھا، وہ بے جان قدموں سے زینے عبور کرتی ٹیرس کی سمت بڑھ رہی تھی، چہرے پر زمانے بھر کی ویرانی اور وجود صدیوں کی تھکن سے چور چورتھا اسکا دوپٹہ ڈھلکتے ڈھلکتے آخر وہیں زمین پر گر گیا مگر اٌسے پرواہ نہ تھی، وہ قدم قدم زینے چرھتی رہی آخری زینے پر آکر رک گئ، سامنے ٹیرس کا دروازہ تھا جسے ہاتھ بڑھا کر اٌس نے کھول دیا۔

تیز ہوا کا جھونکا اسکے وجود سے ٹکرایا تو ریڑھ کی ہڈی تک سنسناہٹ دور گئی۔ ہلکی بارش اور دسمبر کی خون جما دینے والی ٹھنڈ میں وہ ننگے پیر ٹیرس پر قدم رکھ رہی تھی، وہاج کی آواز اب تک اسکی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی۔

"ہاں نہیں کرتا اعتبار !"

کیا تم میرے اعتبار کے قابل ہو؟ "۔"

آنسو ایک بار پھر بہنے لگے۔وہ چلتے چلتے ٹیرس کی دیوار کے قریب آ رٌکی۔

"تم کبھی میری محبت کے لائق تھی ہی نہيں"

وہ دیوار سے ٹیک لگاتی دھیرے دھیرے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔بارش اور اسکے آنسوؤں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔آوازیں اب بھی گونج رہی تھیں۔

"نفرت ہے مجھے تم سے شدید نفرت ۔"

"میں ہرگز تم پر اعتبار نہیں کرسکتا."

وہ گٹھنوں پر سر رکھے سسکیوں سے رو دی، بارش اٌسے پوری طرح بھیگو چکی تھی۔وہ ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی، چہرا زرد، ہونٹ نیلے پڑنے لگے اوردھیرے دھیرے وہ ہوش وحواس سے بے خبر ہوتی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro