10: بڑھتے فاصلے
سرمئی شام اسکے آفس کے باہر پھیل رہی تھی ایسے میں وہ آفس کے اندر میز کے پیچھے رکھی اپنی کرسی پر بیپٹھا فائل پر تیز تیز کچھ لکھ رہا تھا ساتھ ہی بار بار لیپ ٹاپ کی سکرین پر بھی نگاہ ڈال لیتا۔ اسی دوران فون کی گھنٹی بجی۔ " ہیلو" اسنے مصروف سے انداز میں فون کان سے لگا کرکہا۔
" سر آپ سے ملنے مس سارہ امجد آئی ہیں " دوسری طرف ریسپشنسٹ نے اطلاع دی۔
" بھیج دو" کہتے ساتھ فون رکھ دیا۔
" اسلام علیکم " وہ دروازہ دھکیلتی آفس میں داخل ہورہی تھی۔گہرے نیلے رنگ کا سلیولس ٹاپ اور سیاہ جینز کے نیچے اونچی ہیل پہنے ساتھ ہی چھوٹے کٹے بالوں کی اونچی پونی بنا رکھی تھی ، ہلکا میکپ کیۓ وہ بہت ہشاش بشاش نظر آرہی تھی۔
"واعلیکم سلام" وہاج نے فائل بندھ کر کے ٹیبل پر رکھتے ہوۓ جواب دیا۔
" آج تم یہاں؟ خیریت ؟" وہ واقعی کچھ حیران ہوا تھا۔
" ہاں میں نے سوچا تمھیں تو فرصت نہیں ملتی سو میں خود ہی آکر خیریت معلوم کرلوں۔"
" ٹھیک کہہ رہی ہو، فرصت تو واقعی ہی نہیں ملتی۔" وہ اب لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوچکا تھا،اور ایک ہاتھ 'کی پیڈ' پر رکھے مختلف بٹن دبا رہا تھا۔
" شرمندہ ہونا تو تم نے سیکھا ہی نہیں ہے نا ؟" وہ اسکے انداذ پر چڑ گئی تھی۔
" شرمندہ غلطیوں پر ہوا جاتا ہے، اب میں غلطیاں ہی نہیں کرتا تو شرمندہ کیوں ہوں۔"
" جی بلکل Mr perfect جو ٹھہرے آپ" وہ مسکراتے ہوۓ طنزیہ انداز میں بولی۔
" کوئی شک ؟" ہونٹوں کے کنارے مسکراہٹ دباتے ہوۓ وہ بولا تو سارہ ہلکا سا ہنسی، پھر جیسے کچھ یاد آنے پر رٌک کر بولی " خیر چھڑو! میں یہاں جس کام کے لیۓ آئی ہوں پہلے وہ کر لوں، دراصل میں تمہں انوائٹ کرنے آئی ہوں، آج رات بابا نے تمہارے اور ہانیہ کے لیۓ ڈنر آرینج کیا ہے، اور تم دونوں کو لازمی آنا ہے"
" اسکی کیا ضروت ہے"
" کیوں نہیں ہے ضرورت؟ ہانیہ ایک بار بھی نہیں آئی ہمارے گھر اور تم اسے بغیر کہے کبھی لے آؤ یہ امید کرنا بے کارہے۔اب آؤ گے یا نہیں؟"
" ہاں ہاں آجائیں گے ہم، اب یہ طعنے دینا بند کرو پلیز۔"
پھر وہ کچھ دیر مزید بیٹھنے کے بعد چلی گئی۔
اسکے جانے کے کچھ دیر بعد وہاج نے میز سے موبائل اٹھایا اور ہانیہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مرتضا صاحب کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی ساتھ ہی ان سے ہلکی پھلکی گفتگو بھی کر رہی تھی۔
تب ہی گود میں رکھا اسکا موبائل تھرتھرانے لگا، اسکرین پر وہاج کا نام جگمگا رہا تھا۔
" کس کا فون ہے بیٹا؟" چاۓ کا گھونٹ بھر کر وہ بولے۔
" وہاج کا ہے بابا۔"
" تو سن لو! کوئی ضروی کام نا ہو اٌسے"
" جی" کہہ کر اٌس نے ریسیو کا بٹن دبا کر فون کان سے لگایا۔
" ہیلو ہانیہ ؟" دوسری طرف وہاج کی آواز سنائی دی۔
" جی بولیں"
" شام کو امجد انکل نے ڈنر پر ہم دونوں کو انوائٹ کیا ہے، تم سات بجے تک ریڈی ہو جانا میں تمہیں پک کر لوں گا۔ "
" جی ٹھیک ہے" وہ چاہتے ہوۓ بھی انکار نہ کر سکی وہاج نے انکار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی، سیدھا حکم سنایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ملازمہ کو مرتضا صاحب کی دوا اور کھانے کے متعلق رات تک کے لیۓ ہدایات دے کر اپنے کمرے میں آگئی۔ پھر بے دلی سے کپڑے نکالنے کے غرض سے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی، تھوڑی دیر بعد باہر آئی تو ہاتھ میں سیاہ جوڑا تھا گھڑی پر وقت دیکھا جہاں سات بجنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔" اٌف اتنی سی دیر میں کوئی کیسے تیار ہوسکتا ہے بھلا؟" وہ جھنجھلا کر تیزی سے باتھ روم کی سمت بڑھ گئی۔
آئینے کے سامنے کھڑی وہ کانوں میں آویزے پہن رہی تھی جب ہی وہاج کی گاڑی کا ہورن سنائی دیا، اٌس نے مڑ کر گھڑی کی طرف دیکھا جہاں اب پورے سات بج رہے تھے، وہ وقت پر آیا تھا، اٌس نے جلدی جلدی بالوں میں برش پھیرنا شروع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سڑھیاں اٌتر کر لاؤ نج کی طرف بڑھ رہی تھی، جہاں وہاج بیٹھا اٌسکا منتظر تھا۔
وہ کاؤچ پر بیٹھا ہاتھ میں پکڑے موبائل پر انگلیاں چلاتا مصروف نظر آرہا تھا تبہی ہیل کی مدہم آواز نے اٌسے مڑ کر دیکھنے پر مجبور کیا۔
پاؤں تک آتی خوبصورت سیاہ فراک جس کے گلے پر سنہرا کام تھا اور گہیرے پر بھی سنہری کناری لگی تھی، ہلکی جیولری اور میکپ کے ساتھ وہ بہت خوبصورت نظر آرہی تھی۔
وہ آخری سیڑھی اتر رہی تھی،جب وہاج اسے آتا دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ایک نظر اٌسکے سراپے پر ڈال کر وہ جیسے نظر ہٹانا ہی بھول گيا۔
"چلیں؟"
وہ اسکے سامنے آکر بولی تو وہاج نے اثبات میں سر ہلایا اور اٌسکے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گیاوہ بھی اسکے پیچھے چل دی۔
"بابا ہم جارہے ہیں"
وہ دونوں مرتضا صاحب کے کمرے میں تھے جبکہ مرتضا صاحب بیڈ پر لیٹے آرام کر رہے تھے۔
" ٹھیک ہے بیٹا جاؤ! پر زرا جلدی آنے کی کوشش کرنا، رات کا وقت ہے مجھے فکر لگی رہے گی۔" وہ فکر مندی سے بولے۔
" آپ فکر نہ کریں ہم جلدی آجائیں گے۔ "
اسکےبعد مرتضا صاحب سے رخصت لے کر وہ دونوں باہر آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہاج نے گاڑی ایک مارکیٹ کے پارکنگ ایریا میں روک دی۔ وہ الجھن بھری نظروں اردگرد کا جائزاہ لینے لگی۔
" یہیں بیٹھو! "میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں "
وہاج کہہ کر چلا گیا۔
وہ شاید امجد انکل اور سارہ کے لئیے
تحفے لینے گیا تھا،ہانیہ نے اندازہ لگاتے ہوۓ سوچا۔
وہ آنکھیں موندےسیٹ سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی جب گاڑی کے شيشے پر کسی نے دستک دی۔
اٌس نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور شیشے کے اٌس پار کھڑا شخص ہانیہ کو سکتے میں ڈال گیا۔
"حمزاہ؟" اسکے ہونٹوں پر سرگوشی سی ابھری۔
خوفزدہ نظروں سے اٌسے دیکھتے ہوۓ وہاج کے الفاظ اسکے ذہن پر گونج لگے تھے اور سارا خوف غصے میں بدلتاگیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا اور باہر آگئی۔
" تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ " وہ اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوۓ تقریباً غصے سے چلا کر بولی۔
" ریلکس ہانیہ کیا ہوگیا ہے، تم چلا کیوں رہی ہو؟"
"چلاؤں نہ تو اور کیا کروں! ہنس ہنس کر ملوں تم سےیا تمہارا شکریا ادا کروں میری زندگی میں مزید مسائل کھڑے کرنے کے ليۓ " اسکا غصہ مزید بڑھ گیا تھا۔
" یہ تم کیا کہہ رہی ہو ہانیہ میں کیوں کروں گا ایسا، میں تو یہاں تمہاری مدد کرنے آیا ہوں، میں جانتا ہوں تمہیں ضرورت ہے میری۔"
" بند کرو اپنی یہ بکواس، میں آج تک تمہیں بہت غلط سمجھتی رہی ہوں حمزاہ، وہاج بلکل ٹھیک تھے تمہارے بارے میں،جس دن تم نے مجھے پرپوز کیا تھا مجھے اٌسی دن تمھارا دماغ ٹھیک کر دینا چاہیے تھا، مگر مجھے تواندازہ بھی نہیں تھا کہ تم اتنے گرے ہوے اور گٹھیا انسان ثابت ہو گے۔" وہ بنا رکے بولے جارہی تھی۔
" ہانیہ" وہاج کی آواز اٌسے اپنے عقب سے سنائی دی، ایک پل کے لیۓ بلکل سناٹا چھاگیا۔
دونوں نے ایک ساتھ مڑ کر دیکھا جہاں وہاج بگڑے ہوۓ تیوروں کے ساتھ انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔
"گاڑی میں بیٹھو!" وہ اتنی سرد آواز میں بولا کہ ہانیہ کو اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا۔وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی تو وہ پوری قوت سے چلایا۔
"میں نے کہا گاڑی میں بیٹھو۔"
" تم اس طرح اٌس پر چلا نہیں سکتے " حمزاہ بیچ میں بول اٹھا، اور وہاج کی برداشت ختم ہوگئی۔ اٌسنے ایک جھٹکے سے حمزاہ کو گریبان سے پکڑا اسکا ردعمل اتنا فوری تھا کہ حمزاہ سنبھل بھی نہ سکا۔ خونخوار نگاہوں سےاٌسے دیکھتے ہوۓ وہ اًسےجان سے مار دینے کے درپہ تھا۔ " وہاج" ہانیہ دبی دبی آواز میں چلائی۔
" اب جو میں کہوں گا اٌسے کان کھول کر سنو اور اپنے دماغ میں محفوظ کر لو۔ اگر آج کے بعد ہانیہ کے آس پاس بھی نظرآئےیا دوبارہ اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو میں اپنے ہاتھوں سے تمہیں گولی ماروں گا اور تمہاری لاش کو لاوارث ثابت کر کے یہیں کہیں گاڑ دوں گا۔" شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ ایک زور دار جھٹکے سے اٌسے دور دھکیلا اورمڑ کر دیکھا جہاں ہانیہ بے جان کھڑی تھی وہ آگے آیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے کلائی سے پکڑ کر گاڑی کے اندر دھکیلتے ہوۓ دروازہ بند کیا ساتھ ہی دوسری طرف سے خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا اورتھوڑی دیر میں گاڑی دور جاتی دکھائی دینے لگی، احمر اٌڑی رنگت کے ساتھ اپنی جگہ کھڑا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہاج پلیز گاڑی آہستہ چلائیں"
اسکے کہنے کی دیر تھی کہ وہاج نے گاڑی کی اسپیڈ مزید بڑھادی۔ بےہنگم ٹریفک کے درمیان تیزرفتار گاڑی بار بار اپنا توازن کھورہی تھی مگر وہاج کو پرواہ نہ تھی وہ اپنے حواس کھونے لگا تھا۔
ہانیہ میں پھر مزید کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ ہوئی وہ دم سادھے سارہ راستہ دل ہی دل میں خیر سے پہنچنے کی دعائیں کرتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro