1: آٹھ سال بعد
وہاج مرتضا موبائل فون کان سے لگاۓ ،تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اسلام آباد ائیرپرٹ سے باہر نکل رہا تھا۔ اسکے چہرے پر بےسکونی واضح تھی ،ساتھ ہی وہ مسلسل فون پر بات بھی کر رہا تھا " بابا آپ پریشان نہ ہوں میں سب سنبھال لوں گا " خود کو پرسکون رکھتے ہوۓ وہ فون پر کہہ رہا تھا۔
کچھ دیر مزید بات کرنے کے بعد اس نے موبائل کوٹ کی جیب میں واپس رکھ دیا وہ اب ائیرپرٹ سے باہر آچکا تھا سا منے پارکنگ میں بڑی سی کالی گاڑی کے ساتھ اسکا سیکریٹری "احمر" دو مصلح گارڈذ کے ساتھ اسکا منتظر تھا ۔
وہ چلتا ہوا گاڑی کے قریب آیا۔ "اسلام علیکم سر " احمر نے گرم جوشی سے اسکا استقبال کیا۔ " واعلیکم اسلام ! تمہیں زیادہ انتظار تو نہیں کرنا پڑا ؟ " اس نے اپنی بے چینی پر با مشکل قابو پاتے ہوۓ پوچھا۔
"بلکل بھی نہیں سر ، دراصل میں خود ہی جلدی آگیا تھا تاکہ آپ کو میری وجہ سے انتظار نہ کرنا پڑے " احمر نے مسکرا کر جواب دیا اور ساتھ ہی گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازاہ اسکے لۓ کھول دیا وہ مسکرا کر احمر کو شکریہ کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا احمرنے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے زرا سا رک کر اسے دوبارہ مخاطب کرتے ہوۓ پوچھا " سر پہلے کہاں جانا ہے ؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن قبل :
وہ گہری نیند میں تھا جب کمرے کے دروازے پر زور دار دستک سے اس کی آنکھ کھلی، " کون ہے ؟ " سخت جھنجھلا کر اس نے قدرے اونچی آواز میں پوچھا ، دوسری طرف سے ملازم کی دبی ہوئی سی آواز سنائی دی " چھوٹے صاحب وہ آپ کو بڑے صاحب جی نیچے بلا رہے ہیں "
" کہہ دو آرہا ہوں " ملازم کو کہہ کر اس نے، زرا سا سر اٹھا کرسامنے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا جہاں صبح کے دس بج رہے تھے وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا ۔
پچھلی رات سر درد کی وجہ سے وہ نیند کی گولیاں لے کر سویا تھا اور اب اتنی دیر تک سوتے رہنے کی وجہ سے اسے آفس سے کافی دیرہوچکی تھی۔
مرتضا سکندر صاحب گھر کے لان میں موجود تھے ایک ہاتھ میں چاۓ کا کپ اور دوسرے میں اخبار تھامے ،وہ اخبار کی سُرخیوں پر نظر دوڑا رہے تھے ساتھ ہی باربار کلائی پر بندھی گھڑی پر بھی ایک نگاہ ڈال لیتے ، وہ اپنے سست بیٹے کا انتظار کر رہے تھے جو اب تک نیچے نہیں آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ عثمان اپنے کمرے کی کھڑکی کے ساتھ کھڑی ڈھلتی ہوئی شام کا اٌداس منظر دیکھ رہی تھی، کبھی ڈھلتی شام کا یہ منظر اسے بہت خوبصورت اور دلکش لگتا تھا اور آج یہی منظر اس کی اداسیوں میں اضافہ کررہا تھا، " کیا سب سچ کہتے ہیں کہ آپ مجھےبھول چکے ہیں ہمارے رشتے کو بھول چکے ہیں، کیا میں آپ کے لئے اتنی غیر اہم تھی؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ! آپ نےمجھ سے محبت کی ہے آپ مجھے یوں ہی نہیں بھول سکتے میرا دل کہتا آپ ضرور لوٹ آئیں گے اور میں آخری سانس تک آپ کا انتظار کروں گی" وہ اپنی سوچوں میں غرق تھی جب دروازے پر دستک ہوئی ہانیہ کی والدہ نصرت بیگم کمرے میں داخل ہورہی تھیں جوڑوں کے درد کے باعث انھیں چلنے میں کافی دقت ہوتی تھی "ماما آپ کیوں آئی اوپر مجھے بلا لیتیں، اب آپ کا درد بڑھ جاۓ گا" ہانیہ نے آگے بڑھ کر اٌنھیں سہارا دیتے ہوۓ کہا۔ " کچھ نہیں ہوا بھئی ! ٹھیک ہوں میں تم لوگوں نے تو آرام کروا کروا کر ناکارہ کردیا ہے مجھے" بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ نصرت بیگم بولی ،ہانیہ بامشکل مسکرائی اور ان کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ "کوئی کام تھا آپ کو ؟ "
" نہیں بس مجھے تمہاری فکر ہورہی تھی کچھ دنوں سے تم کافی پریشان لگ رہی ہو، کتنے دن ہوگئے نہ تم میرے پاس آکر بیٹھی نہ ہی مجھ سے بات کی، کیا بات ہے ، کچھ ہوا ہےکیا ؟ " " ایسا کچھ نہیں ہے ماما ! آپ ذیادہ سوچ رہی ہیں " ہانیہ نے بے ساختہ نظریں چرائی۔ " میں ماں ہوں تمہاری ہانیہ! تمہیں دیکھ کر ہی تمہارے دل کا حال بتا سکتی ہوں۔۔۔" ہانیہ کچھ دیر خاموش رہی پھرہار مانتے ہوۓ یکدم رو پڑی اپنے آنسوؤں پر اسکا ضبط ٹوٹ گیا تھا " ماما مجھے خلع نہیں لینی ،مجھے یہ رشتہ نہیں توڑنا آپ بابا کو سمجھائیے نا !وہ مجھے خلع لینے کے لئے فورس نہ کریں میں یہ نہیں کرسکتی " وہ آنسوؤں کے بیچ میں کہ رہی تھی " اٌسے یوں روتا دیکھ کر نصرت بیگم کو شدید تکلیف محسوس ہورہی تھی مگر وہ کچھ نہیں کرسکتیں تھیں، کیونکہ وہ جانتی تھیں نہ ہی سکندر عثمان اپنا فیصلہ بدلیں گے اور نہ ہی ہانیہ اس فیصلے کو قبول کر پاۓ گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتضا صاحب ایک ادھیر عمر کے شخص ہیں انکی فیملی میں دو ہی لوگ ہیں ایک یہ خود اور دوسرا انکا بیٹا وہاج ۔
مرتضا صاحب کی بیوی چند سال قبل دل کے عارضے کے باعث فوت ہو چکی ہیں۔ اپنی بیوی سے انہیں بے حد محبت تھی یہی وجہ ہے کے انکی وفا ت کے بعد وہ خود بھی بہت بیمار رہنے لگے ہیں ، بیماریوں کی وجہ سے وہ بہت کمزور اور اپنی عمر سے کئی زیادہ بوڑھے لگنے لگے ہیں۔ اب انکی زندگی کی ایک ہی خواہش ہے کے انکے بیٹے وہاج کا گھر بس جاۓ ،اور وہ ایک خوشحال زندگی گزارے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے ، جو کچھ آٹھ سال پہلے ہوا اسکے بعد تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مرتضا صاحب بار بار وہاج کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، انکو امید ہے کہ وہاج کبھی نا کبھی مان ہی جاۓ گا اور انکی بہو کو اس گھر میں ہمیشہ کے لئے لے آۓ گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بابا کہاں ہیں ؟" وہاج نے کچن میں کام کرتے ملازم سے پوچھا۔ "وہ لان میں ہیں جی ۔۔۔ ناشتہ کر رہے ہیں۔" ملازم نے فوری جواب دیا ۔وہ مزید کچھ کہے بغیر لان کی طرف بڑھ گیا۔
"صبح بخیر ! بابا جان " وہاج نے مرتضا صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا اور ذرا آگے جھک کر میز پر رکھی کیتلی سے اپنے لیے کپ میں چاۓ انڈیلنے لگا ۔
" صبح بخیر " مرتضا صاحب نے بغور اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوۓ جواب دیا۔ اسکی آنکھیں سوجھی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور چہرے پر تھکن واضح تھی ۔
آج اٹھنے میں بہت دیر کر دی تم نے ! اپنی نظریں مسلسل وہاج پر جماۓ وہ پوچھ رہے تھے
"جی بس آنکھ ہی نہیں کھلی"
کچھ لمحے خاموشی سے گزر گئے پھر مرتضا صاحب نے کہنا شروع کیا۔ " میں نے کل رات جو کچھ کہا کیا تم نے اس بارے میں کچھ سوچا "
"بابا میں اپنا فیصلہ آپ کو بتا چکا ہوں، پھر میرے مزید سوچنے سے کیا ہوگا"
" وہاج ہانیہ بیوی ہے تمہاری ،آٹھ سال ہوچکے ہیں تمہارے نکاح کو ،تم آخر کوئی فیصلہ کیوں نہیں لے لیتے" مرتضا صاحب نے برہمی سے کہا، مگر وہاج خاموش رہا وہ بےبس نظر آرہا تھا وہ ہاتھ میں چاۓ کا کپ تھامے سر جھکاۓ بیٹھا رہا۔ " میں ہمیشہ نہیں رہوں گا وہاج ، ابھی تو میں ہوں تمہارے ساتھ مگر میرے بعد۔۔ "
"بابا پلیز " وہاج نے انھیں بیچ میں ہی ٹوک دیا۔ وہ خود میں اتنں ہمت نہیں پاتا تھا کہ ایسا کچھ سوچ بھی سکتا، وہاج کی والدہ کی وفات کے بعد مرتضا صاحب وہاج کے پاس رہ جانے والا واحد رشتہ تھے وہ انھیں کھونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
" میرے چپ ہوجانے سے حقیقت بدل نہیں جاۓ گی ! کیا تم اپنی ماں سے کیا ہوا وعدہ بھول گئے؟ کتنی خواہش تھی اسکی کے وہ تمہاری شادی پر اپنے سارے ارمان پورے کرے، تمہیں اور ہانیہ کو ایک خوشحال زندگی گزارتا دیکھ سکے اور تمہاری اولاد کو اپنی گود میں کھلا سکے مگر قسمت کو شاید یہ منظور نہیں تھا اور اب مجھے لگتا ہے کہ میں بھی یہی ارمان لے کر اس دنیا سے۔۔۔" مرتضا صاحب نے بات قصدً ادھوری چھوڑدی۔ وہ جانتے تھے انکی باتیں وہاج کو تکلیف دےرہی ہیں مگر وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے، وہ وہاج کو ایموشنل بلیک میل کررہے تھے, یہ وہاج کو منانے کے لئے ان کا آخری حربہ تھا جو واقعی کام کرگیا تھا.
" آپ کیا چاہتے ہیں." وہاج نے شکستگی سے پوچھا۔ " تم اپنے چاچو سے ایک بار مل آؤ ٌاس سے ہانیہ کی رخصتی کی بات کرو تاکہ اسے پتہ چل جاۓ کہ تم اس رشتے کو لے کر سنجیدہ ہو۔"
" اور آپ کو لگتا ہے وہ مان جائیں گے ، وہ کبھی نہیں مانے گے بابا اٌنھیں اپنی انا اور اپنا غرور بہت عزیز ہے اور اس بات کا اندازہ مجھے آٹھ سال پہلے ہی ہوگیا تھا جب اٌنھوں نے ہم سے اپنا ہر رشتہ توڑا تھا، کیا آپ بھول گئے وہ سب؟"
"میں کچھ نہیں بھولا مگر اٌن باتوں کو ہوۓ کافی وقت گزر چکا ہے، اب حالات بدل چکے ہیں"
"کچھ نہیں بدلہ ہے بابا ، یہ صرف آپ ہیں جو ایسا سوچ رہے ہیں، مگر ٹھیک ہے اگر آپ چاہتے ہیں تو میں چاچو سے ملوں گا پر آپ کو وعدہ کرنا ہوگا کہ اٌنکے انکار کے بعد آپ مجھے اس سب کے لئے دوبارہ فورس نہیں کریں گے۔"
" ٹھیک ہے" مرتضا صاحب نے اطمینان سے جواب دیا، وہ اب مطمئن تھے کہ سب ٹھیک ہونے لگا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro