9: بکھرتے لمحے
گھر میں داخل ہوتے ہی اٌسکی نظر مرتضا صاحب پر پڑی۔
"باباہانیہ کہاں ہے؟" سلام کے بعد اٌس نے پوچھا، زرد لفافہ اب بھی ہاتھ میں تھام رکھاتھا۔
" کچن میں ہے،آج کھانا ہانیہ نے خودبنایا ہےنا اس لیۓ، اچھا ہوا تم جلدی آگئے ، میں اسے کہتا ہوں کھانا لگاۓ تم فریش ہوکر آجاؤ۔" وہ کہتے ہوۓ اٹھ کھڑے ہوۓ۔
وہاج مزید کچھ کہے سنے بغیر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
کمرے میں آتے ہی اٌس نے لفافہ بیڈ پر اوچھال دیا پھر کوٹ اتار کرصوفے پر پھینکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا، سر پیچھے صوفے کی پشت پر رکھے وہ آنکھیں بند کر چکا تھا۔ماضی ایک بار پھر اٌس پر پوری شدت سے حاوی ہورہا تھا اور وہ دھیرے دھیرے اردگرد سے بے خبر ہوتا چلاگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمیوں کی خوشگوار شام تھی وہ ٹیرس پر بیٹھی اپنی کتابوں میں گم تھی جب وہاج نے اٌسے پکارا " ہانیہ !" اٌس نے سر اٹھا کر دیکھا سامنے وہ کھڑا تھاچہرے کے تاثرات معمول کے مطابق بگڑے ہوۓ تھے، اچانک اٌسے سامنے پاکر وہ کچھ گھبرائی تھی انکے نکاح کو ہوۓ ابھی صرف دوہفتے ہی گزرے تھے۔
"جی " وہ پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوکر بولی۔
وہ اب اسکے سامنے کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔
" تم کالج سے واپس کس کے ساتھ آئی تھی؟" لہجہ سخت تھا۔
" وہ آج مجھے گھر جلدی آنا تھا اور ۔۔"
"میں نے تفصیل نہیں پوچھی صرف اسکا جواب دو جو میں پوچھ رہا ہوں۔کس کے ساتھ آئی تھی تم گھر ؟"
"حمزاہ کے ساتھ ۔" اٌس نے بے ساختہ نظریں چٌرا کر کہا۔
" کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم اٌس سے دور رہا کرو پھر کیا ضرورت تھی اٌس کے ساتھ آنے کی؟" وہ مٌٹھیاں بھنچے سختی سے کہہ رہا تھا مگر آواز نیچی تھی۔
"بتایا تو ہے آپ کو مجھے دیر ہورہی تھی اور وہ بھی یہیں آرہا تھا امی سے ملنے تو میں نے سوچاکہ۔۔۔"
" میری بات کان کھول کر سنو ! چاہے دنیا ادھر کی اٌدھر ہوجاۓ میں تمہیں دوبارہ حمزہ کے ساتھ نہ دیکھوں۔ سناتم نے؟" وہاج نے اٌسکی بات کاٹتے ہوۓ ،کرسی پر ذرا آگے ہوکر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا۔
وہ اندرتک سہم گئی،مگراسکی بے جا سختی پر بے چین بھی ہوئی تبھی وہاج اٹھ کر جانے لگا تو وہ بہت ہمت کر کے بول اٹھی۔
"حمزاہ بھی میرا کزن ہے، پھر میں اسکے ساتھ ایسا سلوک کیوں کروں۔"
"کیوں کے میں کہہ رہا ہوں اسلیۓ ، کیا یہ وجہ کافی نہیں ہے۔"
وہ اسطرح بولا کہ ہانیہ پھر کچھ نہ بول سکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پر دستک ہوئی تو اسکی سچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
"آجاؤ۔" وہ اب بھی صوفے پر نیم دراز تھا۔
دروازے کے عقب سے ہانیہ نمودار ہوئی ۔
" آپ ابھی تک فریش نہیں ہوۓ میں کھانا لگا چکی ہوں آپ بھی آجائیں، تایا ابو انتظار کر رہے ہیں۔"
اسکی آواز پر وہاج آنکھیں کھول کر سیدھا ہوبیٹھا تھا اور اٌسے ہی دیکھ رہا تھا،آنکھوں میں عجیب سی ویرانی تھی۔اسکی بات ختم ہونے پر وہ تھکے ہوۓ انداز میں اٹھا اور بیڈ سے لفافہ اٹھا کر ہانیہ کی طرف بڑھادیا۔
وہ الجھی ہوئی نظروں لفافے کو دیکھ رہی تھی۔
" لے لو تمہارے لیۓ ہے" اٌس نے کہا تو ہانیہ مزید الجھی مگر پھر لفافہ تھام لیا اور کھولنے لگی۔
اور چند لمحوں میں وہ جیسے پتھر کی ہوگئی۔
" وہاج میں نہیں جانتی یہ بریسلیٹ حمزاہ نے کب خریدا اور مجھے کیوں بھیجا، میں سچ میں نہیں جانتی وہاج میرا یقین کریں۔"
" میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کے اٌس کی اتنی ہمت ہوئی کیسے جو وہ تمہارے لیۓ تحفے خرید رہا ہے کس کی شہ پر کررہا ہے وہ یہ سب؟ " کہتے ہوۓ اسکی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔
ہانیہ سہمی نظروں سے اٌسے دیکھتی رہی لفظ چاہ کر بھی زباں سے ادا نہیں ہو پارہے تھے۔
" جواب دو مجھے میں کچھ پوچھ رہا ہوں" ہانیہ کا ہاتھ بے رحمی سے دبوچ کر اٌسے بری طرح جھنجھوڑتے ہوۓ وہ حلق کے بل چلایا تھا۔
اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں ہاتھ پر وہاج کی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ درد سے کراہ اٹھی،آنسو بھی گالوں پر بہنے لگے تھےمگر وہاج کو پرواہ نہ تھی وہ بے حسی کی حدوں پر تھا۔
" وہاج مجھے درد ہورہا ہے " درد سے کراہتے ہوۓ وہ بھیگی آواز میں بولی۔ تواٌس نے کچھ محسوس ہونے پر ہانیہ کے ہاتھ کی طرف دیکھا، اسکے ہاتھ پر پٹی بندھی تھی، یہ وہی ہاتھ تھا جو کھانا بناتے ہوۓ زخمی ہوگیا تھا، پٹی پر خون کا نشان گہرا ہورہا تھا،اٌس نے فوراً ہاتھ چھوڑ دیا۔
وہ دوسرے ہاتھ سے پٹی والا ہاتھ تھامے سسکیوں سے رودی، وہاج کے دل کو کچھ ہواآخر اٌس سے رہا نہ گیا۔
" مجھے دکھاؤ!" کہتے ہوۓ وہ اسکی طرف بڑھا تو وہ مزید دو قدم پیچھے ہوگئی، وہ اٌس سے خوف زدہ تھی، وہ شرمندگی سے اپنی جگہ پر رٌک گیا اور بے بسی سے اٌسے تکلیف میں دیکھنے لگا۔
ہو سسکیوں سے رورہی تھی، کچھ لمحے اسی طرح گزرے پھر ہانیہ نے بے دردی سے آنس رگرتے ہوۓ کہنا شروع کیا۔
" بابا نے میری طرف سے خلع کی درخواست عدالت میں جمع کروائی تھی وہ میری شادی حمزاہ سے کروانا چاہتے تھے اس بارے میں وہ خالہ امی سے بات بھی کر چکے تھے سب راضی تھے، پھر ایک دن حمزاہ نے مجھے ملنے بلایا یہ کہہ کر کہ اٌسے اس رشتے کے بارے میں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں، مجھے لگا کہ شاید وہ بھی اس رشتے پر راضی نہیں ہے اور وہ اسی بارے میں بات کرنا چاہتا ہے اسی لیۓ میں چلی گئی پر اٌس سے مل کر مجھے پتہ چلا کہ وہ تو اس رشتے پر بہت خوش ہے وہ ہمیشہ سے یہ چاہتا تھا، پھر اٌس نے مجھے پرپوز کیا اور انگوٹھی پہنا دی وہ تصویریں جو آپکی الماری میں تھیں وہ اٌسی دن کی ہیں ۔"
" اور تم نے یہ سب ہونے دیا؟" وہاج کو اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
" تو اور کیا کرتی آٹھ سال انتظار کیا میں نےآپ کا جبکہ آپ نے تو انتظار کرنے کو کہا بھی نہیں تھا بس چلے گئے مجھے اکیلا چھوڑ کر۔"کہتے ہوۓ اسکی آواز اونچی تھی۔
"تمہاری مرضی سے گیا تھا، تم نے جانے دیا تھا تو گیا تھا۔"
" میں نے آپ کو جانے کے لیۓ نہیں کہا تھا۔"
"تم نے روکا بھی نہیں تھا" وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولا۔
" میں کبھی بابا کے خلاف نہیں جاسکتی تھی آپ جانتے تھے۔"اسکے لہجے میں شکوے بول رہے تھے۔
" چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ ہے ناں!" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا۔
اورہانیہ کے پاس لفظ ختم ہوگئے، یہیں وہ غلط تھی وہ جانتی تھی۔ مگر وہاج کو سمجھا نا اٌسکے لیۓ بہت مشکل تھا۔
اسی لمحے دروازے پر دستک کے ساتھ حلیمہ اندر داخل ہوئی۔
" آپ دونوں کو سر نیچے بلارہے ہیں"
" تم جاؤ ہم آرہے ہیں۔" وہاج نے کہا وہ ابھی ہانیہ سے مزید بات کرنا چاہتا تھا۔
حلیمہ سن کر جانے لگی تو ہانیہ بھی تیزی سے اٌسکے پیچے کمرے سے باہر نکل آئی، وہ مزید وہاج کے سامنے کھڑے رہنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی، وہ سٌلگتی نظروں سے اٌسے جاتا دیکھتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں کھانے کی میز پر موجود تھے اور مرتضا صاحب مسلسل کھانے کی تعریف کر رہے تھے،جبکہ وہاج بلکل خاموش تھا۔
" آج تو تمھارے کھانے نے مجھے وہاج کی والدہ محترم کی یاد دلا دی، بہت عرصے بات میں نے اتنا زائقہ دار کھانا کھایا ہے ورنہ ہاجرہ بیگم کی وفات کے بعد تو ہم بس ملازموں کے رحم و کرم پر رہ گئے تھے۔" وہ مسکراتے ہوۓ محبت سے بولے۔
" کوئی بات نہیں تایا ابو، میں آگئی ہوں نا اب آپ کو ملازموں کے ہاتھ کا کھانے کی بلکل ضرورت نہیں پڑے گی۔" وہ بھی بامشکل مسکراتے ہوۓ بولی۔ وہاج نے نظر اٹھا کر اٌسے دیکھا، اسی لمحے ہانیہ نے بھی اٌسے دیکھ لحضے بھر کے لیۓدونوں کی نظریں ملیں اور ایک زخمی سا احساس دل کو چھو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے سے فارغ ہو کر وہ اوپر آگئ تھی، وہاج ابھی مرتضا صاحب کے ساتھ نیچے ہی بیٹھا تھا۔
کمرے میں آکر وہ بیڈ کے سرہانے بیٹھ گئی، اور ہاتھ کی پٹی کو دیکھا جو کافی خراب ہوگئی تھی، اٌس نے پٹی کھولنا شروع کی اور تب ہی وہاج کمرے میں داخل ہوا۔
ایک نظر ہانیہ پر ڈالی جس کے چہرے پر تکلیف کے آثار واضح تھے۔ وہ بہت احتیاط سے پٹی کی تہیں کھول رہی تھی۔ وہ کچھ کہے بنا ڈریسنگ ٹیبل کے قریب آیا اور جھک دراز میں سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر ہانیہ کی طرف دیکھا جو اسکی موجودگی کو مکمل طور پر نظر انداز کیۓ ہوۓ تھی۔
فرسٹ ایڈ باکس تھامے وہ اٌسکے سامنے آبیٹھا ہانیہ نے اب بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔
"لاؤ ہاتھ دو اپنا"وہاج نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔
" کوئی ضرورت نہیں آپکے احسان کی میں خود کر سکتی ہوں" سخت اکھڑے ہوۓ انداز میں وہ بولی۔
وہاج نے کچھ کہنے کے بجاۓ آگے ہو کر تقریباً زبردستی اٌسکی کلائی تھام لی اور پٹی کھولنے لگا۔
"چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔۔ سنا نہیں آپ نے چوڑیں میرا ہاتھ" وہ کچھ دیر اسی طرح احتجاج کرتی رہی مگر وہاج پر کچھ اثر نہ ہوا وہ اٌسی طرح سر جھکاۓ احتیاط سے پٹی کھولنے میں مصروف رہا، آخر ہانیہ نے کوشش ترک کر دی۔
وہ اب اسکے ہاتھ پر نئی پٹی باندھ رہا تھا۔
ہانیہ اٌسے بغور دیکھتی رہی۔ عجیب شخص تھا تکلیف بھی دیتا تھا پھر مرہم بھی خود رکھتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro