Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

6: نفرت یا محبت؟

وہ بوجھل قدموں سے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا، عثمان سکندر کے الفاظ اب تک اسکی سماعتوں میں گونج رہے تھے، کمرے کے دروازے کے سامنے آکر وہ رک گیا، دروازے کے اٌس پار ہانیہ کچھ خوفزدہ سی گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی۔

وہاج نے آہستگی سے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا، کچھ دیر اسی حالت میں بے حس وحرکت کھڑا رہا پھر ہینڈل گھما کر دروازہ کھول دیا۔

وہ سامنے ہی بیڈ پر بیٹھی نظر آئی،وہاج اسی خاموشی اندر آیا اور سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا، ہانیہ اسے دیکھ سکتی تھی وہ اب اپنی شیروانی کے بٹن کھول رہا تھا چہرے کے تاثرات سخت اور عصاب تنے ہوۓ تھے انداز ایسا تھا جیسے کمرے میں اس کے سوا اور کوئی نہ ہو۔شیروانی اتار کر ایک طرف رکھی اب وہ سادہ سفید سوٹ میں ملبوس تھا ایک نظر ہانیہ پر ڈالی

پھر اٹھ کر اسکے پاس آیا اور بیڈ پر اسکے سامنے بیٹھ گیا، ہاتھ میں گہرے نیلے رنگ کی مخملی ڈبیہ تھامے وہ اسے کھول رہا تھا۔ ہانیہ بنا پلکیں جھپکاۓ اسکی ہر حرکت دیکھ رہی تھی ، ڈبیہ کے اندر ہیرے کی انگوٹھی چمک رہی تھی وہاج نے دوسرے ہاتھ سے انگوٹھی باہر نکالی اور اگلے ہی لمحے وہ ہانیہ کا ہاتھ تھامے انگوٹھی اسکی انگلی میں پہنا رہا تھا، ہانیہ کی سانس تک رٌک گئی، وہ بے تاثر تھا ہانیہ کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔انگوٹھی پہنا کر وہ کافی دیر تک یوں ہی سر جھکاۓ بیٹھا رہا پھر خاموشی کا سحر ٹوٹا۔

"بے حد محبت کیا ہوتی ہے ہانیہ؟" وہ بولا تو انداز بے حد تھکا ہوا اور آواز مدھم تھی۔

ہانیہ ہونق بنی اسے دیکھتی رہی کہا کچھ بھی نہیں پھر وہ خود ہی جواب دینے لگا۔

" ایسی محبت جو خود سے زیادہ کسی سے کی جاۓ، یعنی اپنی ذات سے بڑھ کر کسی کو چاہنا " کہہ کروہ کچھ دیر کو رٌکا پھر سر اٹھا کر ہانیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا " ایسی ہی محبت میں نے تم سے کی تھی" ہانیہ ساکت سی اسکے لفظوں کو سنتی گئی۔

" پرآج ہمارے بیچ کچھ باقی نہیں، میری محبت تم آٹھ سال پہلے کھوچکی ہو، اب تو صرف ایک رشتہ باقی ہے جسے قائم رکھنا ہے" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بے رحمی سے کہہ رہا تھا۔" دنیا میں بہت سے لوگ سمجھوتے کی زندگی گزار رہے ہیں اٌن میں سے ایک ہم بھی سہی، ہانیہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ وہ مزید کہہ رہا تھا " میں شوہر ہونے کی حیثیت سے اپنے تمام فرائض پورے کروں گا اور کوشش کروں گا کہ تمہیں مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو، بدلے میں صرف ایک چیز چاہتا ہوں تم سے، وہ جیسے کوئی سودا کر رہا تھا " میرے بابا کی خوشی اور انکی خوشی کی خاطر میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں، امید ہے تمہیں میری باتیں اچھی طرح سمجھ آگئی ہوںگی، وہ اسکے سامنے سے اٹھ کر اب بیڈ کی دوسری طرف جارہا تھا" اب اٹھواورجاکر چینج کروتمہارے کپڑے ڈریسینگ روم میں رکھے ہیں، صبح نو بجے کی فلائیٹ ہے ہماری سو کل صبح جلدی اٹھنا ہے، لیٹتے ہوۓ وہ معمول کے انداز میں کہہ رہا تھا ساتھ ہی اس نے لائٹس آف کر دی۔ ہانیہ گیلی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تیز تیز ٹھنڈےپانی کے چینٹے چہرے پر مارتے ہوۓ مسلسل آنسوؤں کو روکنے کی کوشش میں تھی مگر بے سود۔" کچھ نہیں بچا میرے پاس، سب ختم ہو گیا" وہ روتے ہوۓ خود سے مخاطب تھی " کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہو پاۓ گا، وہاج مجھ سے نفرت کرتے ہیں، بابا مجھ سے ناراض ہیں، میں نے سب کھو دیا" آخری جملہ کہتے ہوۓ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات گہری ہو چکی تھی سکندر ہاؤس پھولوں اور برقی قمقموں سے سجا مگر ویران تھا سب مہمان جاچکے تھے اور وہ بھی جس کے ہونے سے اس گھر کی رونقیں قائم تھیں عجیب سا سناٹا اور خاموشی چھائی تھی ایسے میں عثمان سکندر تنہا لان میں بیٹھے تھے، آنکھوں میں نمی بھی تھی جسے وہ آج سارا دن چھپاتے رہے تھے۔تبھی فیضان انکے پاس چلا آیا " آپ ابھی تک سوۓ نہیں بابا ؟ "

" ہاں وہ نیند نہیں آرہی تھی اسلیۓ " آنکھوں کو تیزی سے رگڑتے ہوۓ وہ بولے مگر فیضان انکے آنسوؤں دیکھ چکا تھا۔

"کیوں خود کو تکلیف دے رہے ہیں، میں جانتا ہوں آپ ہانیہ سے بہت پیار کرتے ہیں پھر کیوں اسے خود سے دور کرہے ہیں ؟"

" تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں واقعی اس سے بہت پیار کرتا ہوں مگر یہ کرنا ضروری تھا، ہانیہ نے میری ، اپنے بابا کی محبت پر شک کیا میرے فیصلے کے خلاف جانا چاہا ، میں چاہتا تو زبردستی کرسکتا تھا اور اتنا یقین تو ہے مجھے اپنی پرورش پر کہ وہ کبھی مجھ سے بغاوت نہ کرتی مگر میری بیٹی ساری زندگی کے لیۓ مجھ سے بدگمان ہو جاتی اور یہ میں نہیں چاہتا تھا سو میں نے وہ کیا جو ہانیہ چاہتی تھی ، ہانیہ نے میری نفرمانی کی ہے تو اٌسے اسکی سزا بھی بھگتنا ہوگی" وہ حتمی سے انداز میں کہہ کر اندر چلے گيۓ فیضان وہیں بیٹھا اپنے باپ کے فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرتضا صاحب سمیت تمام مہمان فلائٹ میں سوار تھے،ایسے میں ہانیہ وہاج کے ساتھ ائیرپورٹ کے اندر موجود عثمان صاحب کی منتظر تھی۔

" وہ نہیں آئیں گے۔" وہاج نے ایک بار پھر اٌس سے کہا۔

"بس تھوڑی دیر اور.."ہانیہ آنکھوں میں نمی لے کربولی تووہ خاموش ہوگیا، وہ دیکھ سکتا تھا وہ کس قدر بے چینی سے ائيرپورٹ کے بیرونی دروازے پر نظریں جماۓ کھڑی تھی اور اٌسے اسطرح دیکھ کر جانے کیوں مگر اٌسے تکلیف ہورہی تھی۔ بالآخر وہاج نے تقریباً زبردستی اٌسکا ہاتھ پکڑا اور چلنے لگا " وہاج پلیز بس دو منٹ اور۔۔۔وہ آتے ہی ہونگے" ہانیہ نے منت کرتے ہوۓکہا۔

" کوئی نہیں آۓ گا، سنا تم نے۔اگر آنا ہوتا تواب تک آچکے ہوتے، میں نے کل فیضان بھائی کو بتایا تھا کہ ہماری صبح نو بجے کی فلائٹ ہے،پھر بھی تمہارے گھر سے کوئی نہیں آیا، کیونکہ وہ ہم سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتے اور اگر پھر بھی تمہیں انتظار کرنا ہے تو یہاں کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ میں تمہیں تمہارے بابا کے پاس واپس چھوڑ آؤں" بہت درشتگی سے وہ بولا۔

ہانیہ نے بے یقینی سے اٌسے دیکھا، اتنی بے حسی، اتنی کرواہٹ وہ یقین نہیں کر پارہی تھی۔"چلو" وہاج نے غصے بھرے لہجے میں اسکا ہاتھ پکرتے ہوۓ کہا تو وہ مزید کچھ نہ بول سکی اور بے جان قدموں سے اسکے ہمراہ چلنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وہاج بیٹا ہانیہ کو اپنا کمرہ دکھادو، وہ تھک گئی ہوگی، میں بھی آرام کرنے جا رہاہوں." مرتضا صاحب گھر میں داخل ہوتے ہوۓ بولے۔

"حلیمہ...حلیمہ ؟" وہاج نے مرتضا صاحب کو جواب دینے کے بجاۓ ملازمہ کو آواز دی اس دوران ہانیہ خاموشی سے کھڑی اٌسے ہی دیکھ رہی تھی۔

"جی سر " حلیمہ نے ادب سے کہا۔

"انھیں میرا کمراہ دکھادو اور انکا سامان بھی میرے روم میں سیٹ کروا دو " ہانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ وہ بڑی بے نیازی سے حکم دے رہا تھا۔

"جی ٹھیک ہے سر" حلیمہ ہانیہ کے قریب آئی اور اپنی ہمراہی میں اٌسے ساتھ چلنے کو کہا وہ خاموشی سے اٌسکے پیچھے چل دی۔

"تم خود چھوڑ کر نہیں آسکتے تھے، حلیمہ کو کہنے کی کیا ضرورت تھی۔" مرتضا صاحب کچھ ناپسندیدگی سے بولے۔

" کمراہ ہی تودکھانا تھا بابا، اب میں دکھاؤں یا کوئی اور کیا فرق پڑتا ہے " اس نے جیسے ناک سے مکھی اٌڑائی پھر مزید کہا " میں ہیڈآفس جارہا ہوں آنے میں دیر ہوجاۓ گی"

"اتنی جلدی کیا ہے کل چلے جانا"

" شادی کی وجہ سے میں پہلے ہی کافی دن چھٹی پر رہا ہوں اتنے دن اپنی سیٹ سے غائب رہوں گا تو گورنمنٹ نکال دے گی مجھے." وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا۔

کل ولیمہ ہے کم از کم کل تک ہی رک جاتے، ہانیہ کیا سوچے گی تمہارے پاس وقت ہی نہیں ہے اسکے لیۓ" وہ کچھ فکر مندی سے بولے۔

" وہ کچھ نہیں سوچے گی اور نہ ہی آپ کو اتنا سوچنے کی ضرورت ہے، مجھے دیر ہورہی ہے کل کے سارے انتظامات بھی دیکھنے ہیں " وہ جانے کے لیۓ مڑا پھر رک کر مزید کہا "کھانا کر اپنی دوا لے لیجۓ گا " مرتضا صاحب نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ مطمئن سا ہو کر چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حلیمہ اسے کمرے میں تنہا چھوڑ کر جاچکی تھی اور اب وہ اس کمرے کا جائزہ لے رہی تھی، کمرے کی کلر تھیم بلیک اینڈ وائٹ تھی جواس کمرے کو مزید بے رنگ بنا رہی تھی، بلاشبہ کمرہ بہت نفاست سے سجا تھا،مگر ہانیہ کو وہاں ایک عجیب سی ویرانی محسوس ہورہی تھی۔ کمرے کا مکمل جائزہ لے کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے ہی سامنے کپڑوں کی بڑی بڑی الماریاں دکھائی دے رہی تھیں، وہ آگے بڑھی اور پہلی الماری کھول دی، اس میں وہاج کے کپڑے موجود تھے۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اوپر رکھی ایک شرٹ اٹھائی اسے ناک کے قریب لے جا کر ایک گہری سانس لی، وہاج کے پرفیوم کی مہک اسکی سانسوں میں گھل سی گئی وہ اسی مہک میں کھوئی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی وہ بری طرح چونکی اور تیزی سے شرٹ کو الماری میں واپس رکھا اور اس جلدبازی میں ساتھ رکھی ہوئی دوسری شرٹس گرا دیں ، دروازے پر مسلسل دستک ہو رہی تھی اس نے شرٹس کو وہیں چھوڑا اور باہر آکر ڈرتے ہوۓ کمرے کا دروازہ کھولا سامنے حلیمہ کو کھڑا پایا تو اسکی سانسیں واپس بحال ہوئیں۔ " میم آپ کاکھانا یہاں ہی لگوادوں یا آپ نیچے مرتضا صاحب کے ساتھ کھائیں گی؟."

"نیچے ہی لگوادو، میں چینج کر کے آتی ہوں"

"اوکے میم" حلیمہ کہہ کر چلی گئی تو وہ واپس ڈریسنگ روم کی طرف مڑی۔

وہاج کی چند شرٹس فرش پر پڑی تھیں، ہانیہ نے آگے بڑھ کر شرٹس اٹھائی اور الماری میں واپس رکھنے کے لیۓ مڑی مگر تبھی اسکی نظر فرش پر گرے ہوۓ زرد لفافے پر پڑی،جو شایدکپڑوں کے بیچ میں سے نکلا تھا

اس کے اندر کچھ تصویریں موجود تھیں جو گرنے کی وجہ سے باہر آگئی تھیں اس نے جھک کر لفافہ اٹھایا اور اور اسکے اندر موجود تصویریں باہر نکالی۔ اور اگلے لمحے نے ہانیہ کو بے جان کر دیا وہ بےیقینی سے تصویروں پر نظر جماۓ کھڑی تھی تصویر میں ایک چہرہ اسکا اپنا تھا اور دوسرا ایک درازقد لڑکے کا جسے ہانیہ پہنچانتی تھی، وہ ایک ریسٹورانٹ کی تصویر تھی جہاں وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے اور اٌس لڑکے نے ہانیہ کا ہاتھ تھام رکھا تھا وہ اس منظر کو پہچانتی تھی وہ لڑکا ہانیہ کا کزن اسکی خالہ کا بیٹا " حمزہ" تھا، اور جس چیز نے ہانیہ کو پریشان کیا تھا وہ اس تصویر کی وہاج کے پاس موجودگی تھی اور جس انداز میں وہ تصویریں کھنچی گئی تھیں اس سے وہاج پر کیا اثر ہوا ہو گا وہ بہت اچھی طرح سے جانتی تھی۔

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro