Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

2: یادوں کے زخم

وہاج آنکھیں موندے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ٹیک لگاۓ بیٹھاتھا۔ اسکے چہرے پر اضطراب تھا ،بےسکونی تھی۔ذہن کے پردوں پر بہت سی پرانی یادیں ابھر رہی تھیں جو اسے آٹھ سال پیچھے لے گئ تھیں، اور وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی بھی اٌن تلخ یادوں میں کھو نے لگا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آٹھ سال پہلے:

وہاج لان کے دروازے کے سامنے بنی سڑھیوں پر تنہا بیٹھا تھا۔ سر جھکاۓ وہ ضبط کے گھونٹ پی رہا تھا۔کچھ دیر پہلے ہی عثمان سکندر نے اٌسے گھر دیر سے آنے پر کھری کھری سنائی تھی جبکہ وہ بتا چکا تھا کہ وہ دوست کے ہاں پیپر کی تیاری کے غرض سے گیا تھا۔ مگر عثمان صاحب نے اسکی کوئی بات نہیں سنی۔

وہ دبے پاؤں چل کر لان کے دروازے پر آرکی، دروازے کی آڑ سے وہ اب اٌسے دیکھ سکتی بھی ، چاند کی مدھم روشنی میں وہ کچھ اور وجیہ نظر آرہا تھا وہ ناجانے کتنی دیر اٌسے اسی طرح دیکھتی رہی ،بہت غور سے بہت پیار سے، جیسے اسکا ہر نقش گھول کر پی لینا چاہتی ہو۔

وہاج اسکی موجودگی کو محسوس کرچکا تھا تبھی اس نے پکارا" ہانیہ" ۔

وہ چونک گئی پھر مسکرا کر آگے آئی اور کچھ قدم آگے بڑھ کر اسکے پاس آرکی۔

کیا میں یہاں بیٹھ جاؤں ؟ لبوں پر دلفریب مسکراہٹ سجاۓ وہ پوچھ رہی تھی ۔

تمہارا ہی گھر ہے جہاں مرضی بیٹھو!، اس نےکہا،تو ہانیہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔

"آپ ابھی تک بابا کی باتوں پر خفا ہیں ؟"

"نہیں مجھے اسکی عادت ہوچکی ہے میں یہ جان گیا ہوں کہ چاچو کو ساری زندگی مجھ سے مسئلہ ہی رہے گا "وہاج وہ جو بھی کہتے ہیں آپکے بھلے کے لیۓ ہی کہتے ہیں۔

ہاں اٌنھیں صرف میرے بھلے کی ہی فکر رہتی ہے، فیضان بھائی ،ذید اور حارث وہ تینوں نظر نہیں آتے چاچو کو کیونکہ وہ بیٹے ہیں اسلیۓ!"

"آپ بابا کے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں "

وہاج کی باتوں سے اٌسے صدمہ پہنچا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندراحمد اپنے وقت کے نامور بزنس مین تھے انکے دو ہی بیٹے تھے مرتضا سکندر اور عثمان سکندر ۔

ان کے بڑے بیٹے مرتضا سکندر، بے حد نرم دل اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ وہ بچپن میں بہت بیمار رہا کرتے تھے جسکی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت کمزور ہو چکے تھے اور پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتے تھے،یہی وجہ تھی کہ بہت کوششوں کے باوجود بھی وہ زیادہ نہ پڑھ سکے اور انٹر کے بعد پڑھائی چھوڑ دی ،سکندر احمد نے بھی زیادو زور نہ دیا کہ انکابزنس اتنا بڑھ چکا تھا کہ اب اٌنھیں اپنے بیٹوں کے مستقبل کی کچھ زیادہ فکر نہ تھی۔

اسکے برعکس عثمان سکندر اپنے بڑے بھائی سے بلکل مختلف تھے ،

انکے لئے زندگی ایک ریس تھی، کامیابی کی ریس، سب سے آگے اور سب سے نمایاں رہنے کی ریس، اور اس ریس کو وہ ہر حال میں جیتناچاہتے تھے کیونکہ ہار' سے انھیں نفرت تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کے وہ بے حد زہین اور قابل بھی تھے۔

تعلیم کم ہونے کی وجہ سے مرتضاسکندر ، سکندر صاحب کے بزنس میں زیادہ حصہ نہ لے سکے وہ آفس جایا کرتے مگر آفس کی کوئی زمہ داری ان پر نہیں ڈالی گئی، ایسے میں عثمان سکندر نے آفس کو پوری طرح سنبھال لیا، اس سب کے باوجود مرتضا سکندر نے کبھی اپنے چھوٹے بھائی سے کسی قسم کاحسدمحسوس نہ کیا کیونکہ انھیں خونی رشتے ہر چیز سے زیادہ عزیز تھے۔

وقت اسی طرح گزرتا رہا سکندر صاحب عمر کے آخری حصے میں پہنچے تو خود کمپنی سے ریزائن کر دیا جس کے بعد عثمان سکندر کو کمپنی کا نیا چیئرمین منتخب کیا گیا اور مرتضا سکندر کوکمپنی کے 50 % شیرز کا مالک بنا دیا گیا، ایسا کرنے کا فیصلہ سکندر صاحب کا اپنا تھا۔

عثمان سکندر کو یہ فیصلے بلکل منظور نہ تھا کہ مرتضا سکندر کو پچاس فیصد شیرز دے ديے جائیں مگر سکندر صاحب اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ کسی قسم کی ذیادتی نہیں کرسکتے تھے، انکے لیۓ وہ دونوں ہی برابر تھے، اور یوں آہستہ آہستہ عثمان سکندر کے دل میں اپنے بڑے بھائی کے لیۓ رنجشیں پیدا ہونے لگی تھیں اور یہ رنجشیں اس وقت کچھ اور بھی بڑھ گئیں جب سکندر صاحب نے عثمان سکندر سے ہانیہ اور وہاج کے رشتے کی بات کی ۔

ہانیہ عثمان ،عثمان سکندر کی اکلوتی بیٹی تھی جو تین بیٹوں کے بعد بہت منت و مرادوں سے اللّہ نے اٌنہیں عطاع کی تھی عثمان سکندر کسی صورت وہاج کو ہانیہ کے لائق نہیں سمجھتے تھے، اور انھوں نے سکندر صاحب کو ان دونوں کے رشتے کے لئے صاف انکار کر دیا تھا مگر سکندر صاجب ٌان پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے یہاں تک کے انھوں نے عثمان سکندر سے ہر رشتہ توڑنے اور انھیں جائیداد سے بےدخل کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی اور آخر کار عثمان سکندر نے ہتھیار ڈال ديے۔

ان دنوں وہاج کی والدہ ہاجرہ بیگم کی طبیعت بہت خراب تھی ،انھیں ہارٹ کینسر تھا اور ڈاکٹر جواب دے چکے تھے انکے پاس وقت بہت کم رہ گیا تھا اور ہاجرہ بیگم یہ بات جان چکی تھیں ایسے میں جب وہ اپنی زندگی کے آخری دن گن رہی تھیں ،انھوں نے مرتضا صاحب سے اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا وہ مرنے سے پہلے اپنے اکلوتے بیٹے کی خوشی دیکھنا چاہتی تھیں۔

ہانیہ ہاجرہ بیگم کو بےحد عزیز تھی، اٌنکی اپنی کوئی بیٹی نہ تھی، ہانیہ کو انھوں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کی طرح پیار کیا تھا، انکی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہانیہ اور وہاج کی شادی ہوتے دیکھنا تھا۔

سکندر احمد نے کھلے دل سے ہاجرہ بیگم کی اس خواہش کا احترام کیا اور دو دن کے اندر ہانیہ اور وہاج کا نکاح طے پاگیا ، عثمان سکندر کو اس پر بھی اعتراض تھا کیونکہ ہانیہ ابھی پڑھ رہی تھی اور وہ صرف سولہ سال کی تھی جبکہ وہاج انیس سال کا ، لیکن سکندر صاحب کے فیصلے کے آگے اٌنکی ایک نہ چلی۔

ہاجرہ بیگم نے آخری سانسیں لیتے وقت وہاج سے یہ وعدہ لیا تھا کے وہ ہر حال میں اپنے اور ہانیہ کے رشتے کو نبھاۓ گا اور وہاج نے انھیں اس بات کی پوری پوری ضمانت دی تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ عثمان سکندر اس رشتے کے جڑنے سے پہلے ہی اسے توڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" آپ بابا کے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں "

میں سوچتا ہوں ایسا ؟ کیا تمہیں نظر نہیں آتا ہانیہ دادا جان کی ڈیتھ کے بعد سے انکا رویہ کیسا ہوچکا ہے ،ملازموں جیسا سلوک کرتے ہیں وہ میرے اور بابا کے ساتھ، پسند تو ہم اٌنھیں پہلے بھی نہیں تھے، پر اب یہ سب کچھ حد سے زیادہ بڑھتا جا رہا ہے ، میں یہ سب برداشت کر بھی لوں پر بابا۔۔" اس نے قصدً بات ادھوری چھوڑ دی۔

"پر وہاج وہ ۔۔۔۔"

ہانیہ نے کچھ کہنا چاہا پر وہ نہیں سن رہا تھا ۔

میں جانتا ہوں تم اپنے بابا کے بارے میں کچھ برا سن نہیں سکتی،نہ ہی تمہیں میری کسی بات پر یقین ہے، مگر اس سے حقیقت نہیں بدلے گی ہانیہ ،چاچو اس رشتے کو توڑنا چاہتے ہیں اور وہ یہ سب تب تک کرتے رہیں گیں جب تک یہ رشتہ ٹوٹ نہیں جاتا، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ انکے ایسا کرنے کے بعد بھی تم انکا ہی ساتھ دو گی ، کیونکہ اپنے بابا کے ليئے تم مجھے بھی چھوڑ سکتی ہو۔

"کہہ چکے جو کہنا تھا "

ہانیہ نے بری طرح چونک کر پیچھے دیکھا جہاں عثمان سکندر کھڑے جانے کب سے انکی باتیں سن رہے تھے۔

وہاج نے بھی پلٹ کر دیکھا مگر اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا اور نہ ہی وہ ہانیہ کی طرح گھبرایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" آخر کیا کچھ سیکھاتے رہے ہیں آپ اسے میرے بارے میں۔۔

عثمان سکندر قدرے اونچی آواز میں مرتضا صاحب سے کہہ رہے تھے، وہ اس وقت مرتضا صاحب کے کمرے میں موجود تھے وہاج بھی انکے ساتھ خاموشی سے کھڑا ضبط کے گھونٹ پی رہا تھا ۔

"یہ تم کیا کہہ رہے ہو عثمان !" مرتضا صاحب حیرت ذدہ سے ناسمجھی کے عالم میں پوچھ رہے تھے،

"یہ آپ اسی سے پوچھیے ، جو میری بیٹی کے دل میں میرے ليۓ زہر بھر رہا ہے اٌسے میرے ہی خلاف کر رہا ہے۔

" وہاج تمہارے چاچو کیا بول رہے ہیں تم کچھ بتاتے کیوں نہیں ہو۔ "

اب کے مرتضا صاحب کی آواز بھی غصے سے بلند ہو چکی تھی ۔"کچھ نہیں ہوا بابا ، میں نے صرف سچ بولا تھا پر چاچو کو سچ سننے کی عادت نہیں ہے اسلئيے ان سے برداشت نہیں ہورہا۔" وہاج نے اپنی ازلی بےنیازی سے جواب دیا۔

" بند کرو اپنی بکواس ! کیا کچھ نہیں کیا میں نے اس خاندان کے ليۓ ،تم لوگوں کے ليۓ اور یہ صلہ مل رہا ہے مجھے۔"

" ايسا کیا کیا ہے آپ نے آخر جسکا احسان ہر وقت جتاتے رہتے ہیں،ہم پر! یہ گھر صرف آپ کا نہیں ہے اور نہ ہی اس بزنس پر صرف آپ کا حق ہے." وہاج نے سخت جھنجھلا کر جواب دیا۔ مرتضا سکندر اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔

" میں نے کیا کچھ کیا ہے،یہ تم مجھ سے نہیں اپنے بابا سے پوچھو جن کی ہر زمہ داری کا بوجھ میں نے اٹھایا ہے ہمیشہ ، کہنے کو تویہ بڑے ہیں پر بڑے ہونے کا ہر فرض میں نے ادا کیاہے، اور جس بزنس پر آج تم اتنا حق جتارہے ہونا اس بزنس کے ليۓ آج تک انھوں نے کچھ نہیں کیا، یہ میری دن،رات کی محنت ہے جو آج ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ہماری فیکٹریاں موجود ہیں، اگر ان پر چھوڑا ہوتا تو یہ بزنس (مرتضا صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا) تو آج ہم سڑک پر آچکے ہوتے" عثمان سکندر کے لہجے میں غرور بول رہا تھا۔

مرتضا سکندر انتہائی بے یقینی کے عالم میں عثمان سکندر کو دیکھ رہے تھے ،انکے ليۓ اس بات کو قبول کرنا کہ انکے سگے بھائی کے دل میں انکے لیۓ اتنی نفرت ہے، بہت مشکل تھا۔

" اگر ایسی بات ہے تو آپ۔۔۔"

"خاموش ہو جاؤ وہاج" وہاج کو بات پوری ہونے سے پہلے ہی مرتضا صاحب نے اسے ٹوک دیا۔ پھر عثمان سکندر کی طرف دیکھ کر بولے، " تم نے ٹھیک کہا عثمان میں نے اس بزنس کے ليۓ کچھ نہیں کیا تو مجھے اس پر حق جتانے کا بھی کوئی حق نہیں، یہ گھر ،یہ دولت،یہ فیکٹریاں سب تمہارا ہے مجھے اس میں سے کچھ نہیں چاہیے، کیونکہ میں نے کبھی ان چیزوں کو اہمیت دی ہی نہیں، میرےليۓ یہ خاندان اہم تھا ، رشتے اہم تھے، جب میں یہ ہی نہیں بچاسکا تو ان سب چیزوں کا کیا کروں گا ۔ آج سے یہ سب کچھ تمہارا ہے ، میں اور میرا بیٹا ابھی اسی وقت یہاں سے جارہے ہیں۔

مرتضا سکندر اپنی بات کہہ کر جانے کے ليۓ مڑے تھے وہاج بھی ان کے پیچھے تھا، جب عثمان سکندر نےکہا۔"اگر یہی آپ کا فیصلہ ہے تو میں آپ کو نہیں روکوں گا پر ایک بات میری بھی سن لیجيۓ،یہاں سے جانے کے بعدآپ کا مجھ سے یا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں رہے گا،اور رہی بات ہانیہ کی تو اس رشتے کو بھی ختم سمجیے۔"ان کا لہجہ نفرت اور غرور سے چور تھا۔

مرتضا صاحب نے شکستگی سے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا، جس کے دل میں نجانے کہاں سے اتنا زہر بھر گیا تھا۔" چلو وہاج" وہ بغیر کچھ کہے کمرے سے باہر نکلتے چلے گۓ۔

وہاج مرتضا صاحب کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل رہا تھا، جب دروازے کے پاس پہنچ کر اس کے قدم بے ساختہ رٌک گۓ، سامنے ہانیہ کھڑی تھی، اور کمرے کے اندر ہونے والی ہر بات سن چکی تھی۔ وہاج چل کر اسکے قریب آیا اور ہانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔" کیا اب بھی تم کہو گی کہ تمہارے بابا صیح ہیں اور میں غلط ہوں" ہانیہ کچھ نہ کہہ سکی اس نے خاموشی سے سر جھکا دیا، آنسو اٌسکے چہرے کو بھگو رہے تھے پر وہ خاموش تھی ۔

اور اٌسکی اس خاموشی نے وہاج کے اندر جانے کیا کچھ توڑ دیا تھا، بہت ٹوٹے ہوۓ لہجے میں وہ بولا" میں نے تم سے کہا تھا نا ہانیہ تم اپنے بابا کی خاطر مجھے بھی چھوڑ سکتی ہو، دیکھو آج تم نے مجھے کھو دیا ہمیشہ کے لیۓ." ہانیہ نے تڑپ کر سر اٹھایا، وہ کہہ کر رٌکا نہیں تھا ہانیہ اپنی جگہ ساکت کھڑی اٌسے جاتا دیکھ رہی تھی وہ اٌسے روکنا چاہتی تھی، بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، مگر وہ اپنی جگہ سے ہل تک نہ سکی اور وہ چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی روکنے کی آواز سے وہاج جیسے چونک کر اٹھا، آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد دیکھا ،وہ یادوں کے دلدل سے نکل کر حال میں لوٹ آیا تھا، اردگرد کا منظر بدل چکا تھا اس نے سر اٹھا کر گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھا جہاں وہ سفید محل نما سکندر ہاؤس ویسےکاویسا ہی تھا جیسا وہ آٹھ سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم!

Dear readers 😊

Sorry for the late update. Hope you guys like it.. Let me know your views and please do vote and comment, silent readers please show up ☹..

Until next update, stay blessed, stay happy 😇 and keep smiling 😊.

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro