قسط نمبر ۷
#میدان_حشر
قسط نمبر ۷
باب نمبر ۱
اب باقاعدہ اصل کہانی کا آغاز ہونے جارہا ہے ..
میدان حشر لکھنے کا مقصد آپ سب پر اب عیاں ہوگا..اُمید ہے آپ لوگوں کو بھی میدان حشر کا اصل مقصد سمجھ آئیگا...
انسان ہو غلطیوں کا پُتلا میں بھی ہوں اگر کوئی بھول چوک ہوئی ہو تو معاف کیجئے گا....
✴✳✴✴✴✳✴✳
ہم اصل کہانی کی شروعات اسی ایک لفظ سے کرتے ہیں انسانی ردعمل انسانی رویے...
سب سے پہلے اتنا لکھنا چاہوں گا
"زندگی نے بہت کُچھ سکھایا
کتابوں نے بھی رہنمائی کی لیکن
انسانی رویوں نے جو سبق دیا
نہ وہ زندگی کے کسی ورق نہ
کسی کتاب کے صفحے پر تحریر تھا"
اکثر لوگوں سے سُنا ہے کہ اُن کی زندگی میں آنے والے نشیب و فراز اُن کے رویہ کا باعث بنتے ہیں۔آج ہم سب سے پہلے یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رویہ کسے کہتے ہیں اور اس کی کتنی اقسام ہیں۔
سوچنے، سمجھنے اور اس کی عملی شکل کو رویہ کہتے ہیں ۔
والدین ، اساتذہ اور معاشرہ کسی بھی انسان کے رویہ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں مثبت اور منفی۔
پر اُمید،بھروسہ ، شکر گز اری،ذمہ داری کا احساس،دوسروں کا احترام، صفائی، نظم و ضبط، ایک دوسر ے کی مدد اور قناعت پسندی وغیرہ مثبت رویہ کی علامتیں ہیں۔
منفی رویہ کی وجہ بے یقینی، ناشکری، غیرذمہ داری، کفر، عدم اطمینان، رشک،غیبت اور فضول گفتگو ہے۔
اسلام میں رویہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور مثبت رویہ رکھنے کا درس دیتا ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ کا رویہ ایسا تھا کہ جسے دیکھ کر پتھر دل بھی موم ہوجاتے تھے۔
رویوں میں تبدیلی یہ چاہے آپکے اندر آئے یہ پھر کسی دوسرے کے منحصر کرتا ہے حالات پر
کا طرح کے حالات ہے کیا کے کس طرح لوگوں کے رویوں میں لب و لہجے میں تبدیلی آتی ہے....
جب حالات بدلتے ہیں...
یقین جانیے اِس بات کو میں نے بہت نزدیکی سے محسوس کیا ہے... تب ہی اس قدر لکھ پایا ہوں... لوگوں کو بدلتے دیکھا ہے اپنی آنکھوں کے سامنے کل تک کُچھ تھا آج کُچھ..
"رویے"
وقت اور حالات زندگی کے سفر میں انساں کو اتنا دلبرداشتہ نہیں کرتے جتنا لوگوں کے روئیے اور لہجے ۔
،وقت سے پہلے زندگی کے چہرے پر تھکں کے اثار نمایاں کر دیتے ہیں۔
راستے سے گزرتے ہوئے اک سرسری نظر اک بے بس اور ضیعیف انساں کے چہرے پر پڑی ،تھکا ٹوٹا ہوا جسم،شاید کسی کی مدد کی آس لگائے ہر نظر کو پرامید ہو کر دیکھ رہا تھا ،ہر آنے والا شخص جیسے اسکی جانب قدم بڑھا رہا تھا اسکے چہرے کی پراثر مسکھراہٹ اسکی آنکھوں میں چمک بن کر نمایاں ہورہی تھی ۔ مگر کہاں !!! یہ بے حس دنیا بھلا کس کے حال پر رحم کھاتی ہے ! لوگ نظروں کے تیر چلاتے ہوئے اسے پتھر کی مورت سمجھ کر کچھلتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو اس شخص کی آس اس طرح ٹوٹتے ہوئے محسوس ہورہی تھی گویا جیسے کوئی بچہ بازار میں اپنا من پسند کھلونہ تکتا ہے لیکں اسے خریدنے کی ہمت نہ پاکرمایوس ہوجاتا ہے ۔۔
بلکل اس کا چہرہ بھی کس معصوم بچے کی مایوسی کے مانند تھا ۔۔
یہ منظر ویسے تو عام سی بات ہے بہت سے ایسے لوگ گلی و بازار میں مل جاتے ہیں اور ہم اپنے انسانی رویوں کے جوئر دیکھاتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ویسے تو اس شخص کا سفر زندگی اب آخری مراحل طے کر رہا ہےلیکں أس شخص نے اپنی پوری زندگی بے حس اور بے دل لوگوں میں کس طرح گزاری ہے یہ اسکے چہرے کے نشانات سے صاف واضع ہورہا تھا کبھی وقت اور حالات کی مار، تو کبھی لوگوں کے بے جان کہکہوں کا زوردار تھپڑ، اسکے چہرے پر پڑے نشان اج تک نہیں مٹا پایا تھا ۔
زیادہ کچھ نہیں شاید وہ اپنے اردگرد ہجوم سے اک مسکراھٹ کی امید لگائے بیٹھا تھا شاید لوگ اسے بھی انساں سمجھے یہ پتھر دل مورتیوں میں معصومیت سے بھری انسانیت کے رنگ اپنے چھرے پر سجائے چوک پر مجسمہ بنا بیٹھا تھا۔۔۔۔
میں نے سنا تھا آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں لیکں ان آنکھوں میں چلکتے آنسو بھلا کوں دیکھتا ہے اس دوڑتی باگتی دنیا میں اک سمت جاتا ہوا لوگوں کا ہجوم بھلا کہاں کسی کی آنکھیں اور چہرے کے تاثرات پڑھنے کی ہمت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کیوں ہے آج کا انساں جذبات اور احساسات سے اتنا خالی اور کھوکھلا کیوں ہے ؟؟
شاید یہ انساں اتنا ترقی یافتہ ہوگیا ہے کہ اسے کسی کے جذبات کی قدر یا ضرورت نہیں رہی ۔ہمارے پاس اک مزدور کو دو شکریئے کے الفاظ بولنے کا وقت نہیں ہاں بلکل اسے کام کرنا ہوگا پیسے جو لئے ہیں بھلا شکریہ کس بات کا ؟؟
حیرت اس وقت بھی ہوتی ہے جب ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے بچوں سے لوگوں کو جاہلانہ الفاظ بولتے ہوئے سُنتا ہوں اس وقت افسوس مجھ اس اکڑے ہوئے بندے پر ہورہا ہوتا ہے جو اپنی تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت اس بچہ کو معذب الفاظ کی صورت میں دئے رہا ہوتا ہے۔
اک مفلس کی پوری بات کہاں سنی جاتی ہے گاڑی کا شیشہ پہلے ہی بند ہوجاتا ہے ۔۔
98اس سارے تماشے میں مجھ سمجھ نہیں آتی جاہل کوں اور تعلیم یافتہ کون؟؟؟
بحرحال یہ پڑھی لکھی دنیا ہے ادھر دل صرف خوں سپلائے کرنے والا اعضاء ہے آنکھیں دیکھنے کے کام آتی ہے ۔۔۔
بھلا میں بھی کیا یہ دقیہ نوسی باتیں لکھنے بیٹھ گیا ..
ہم کہانی کی طرف بڑھتے ہیں...
✳✴✳✳✳✴✳✳✳
ایان بھائی کو کال کرو اتنی رات تک بھائی کبھی باہر نہیں رہے"
طیات سخت پریشان تھی...
"بھائی کی نمبر بند آرہا ہے آپی ایان رونے لگا رات کے ۲ بج رہے ہیں ابتک نہیں ائے بھائی"
"دروازے پے دستک ہوئی طیات کو لگا امان آگیا مگر امان کے پاس چابی تھی اُسکے دِل میں نجانے کیوں کھٹکا ہوا"
"کون ہے"
"میں ہو ابوبکر دروازہ کھولیں "
طیات نے جھٹ دروازہ کھولا...
"بھائی کہاں ہے آپ بولتے کیوں نہیں چُپ کیوں کھڑے ہے....
امان کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے اور وہ....
ابوبکر نے روتے ہوئے ایان کو گلے لگایا...
اگر پیروں تلے زمین کھسکنے والا محاورہ سچ تھا تو طیات کو اپنے پیروں کے نیچے کی زمین سچ میں سرکتی محسوس ہوئی....
اندر سے کہی آواز آئی کیا ایک بار پھر چھت چھین چُکی ہے اسے یکدم جھلستی دھوپ کا احساس ہوا کیا وہ سائبان نہیں اب...اُسکا باپ بھائی اُسکا دوست...
ابوبکر اور بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا پر اُسکا دماغ ماؤف ہوچکا تھا...
اُسے نہیں پتہ وہ کب ہاسپٹل پہنچی کوریڈور میں گھومتے ہزاروں مریض اُسے دکھے...
اُسکی آنکھوں نے اپنے سائبان کا خون میں سنا وجود دیکھا۔۔
"بھائی بھائی اٹھیں آپ کو کُچھ نہیں ہوگا بھائی آپ اپنی طیات ایان کو اِس طرح چھوڑ کر نہیں جا سکتے"
ابوبکر نے طیات کو زبردستی امان کے مشینوں میں جکڑے وجود سے الگ کرا....
وہ ایان کے گلے لگ گئی.. روتے روتے بے ہوش ہوگئی...
غنودگی اور بے خوابی کے عالم میں ایک اور قیامت خیز منظر اُسکی آنکھوں نے قید کیا....
امان کے بے جان چہرہ اور وہ روتی چلی گئی.....
سامنے جنازہ رکھا تھا اور وہ گُم سم سی بیٹھی تھی خالی نظروں سے جنازے کو دیکھ رہی تھی ....
اندر کُچھ مرد آۓ امان کو لے جانے کے لیے اُس نے بجلی سے تیزی دکھائی اور جاکر جنازے کے سامنے کھڑی ہوگئی...
"نہیں بھائی کو کُچھ نہیں ہوا وہ سورہے ہے آپ لوگ چلے جاؤ...”
"جاؤ...”
وہ دھاڑی...
کسی عورت نے اُسے ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کھینچا....
وہ چیخے جا رہی تھی مگر وہ لوگ امان کو اُٹھا کر لے جا رہی تھی...
"نہیں بھائی کو مت لے کر جاؤ بھائی بھائی"
طیات نے ایک دم چیخ مار کر آنکھ کھول دی....
اُس نے خود کو ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹا پایا...
اردگرد نظر دوڑائی تو ڈرپ کو دیکھا جو ہلکی ہلکے اُسکے جسم میں داخل ہو رہی تھی...
ابھی وہ گزرے واقعات یاد کر ہی رہی تھی کے اُسکے ساتھ صوفے پر لیٹے ایان کی آنکھ کھل گئی..
"آپی آپ ٹھیک ہو نہ اب"
ایان نے تڑپ کے پوچھا...
"چند لمحے پہلے اُسکی آنکھوں سے گزرے لمحات کی تصدیق کے لیے اُس نے بس کہا تو صرف اتنا..
"ایان... بھائی کہاں ہے”؟
طیات نے لرزتی آواز میں کہا...
ایان روتے ہوئے اُسکے گلے لگ گیا...
طیات کو کھٹکا ہونے لگا...
وہ ایان کو خود سے الگ کرکے بولی "خدارا ایان بتاؤ بھائی کہاں ہے کیسے ہے"
طیات نے ایان کو جھنجوڑ کر پوچھا...
"آپی بھائی کو اب تک ہوش نہیں آیا اُنکی حالت بہت سیریس ہے”
"تو یہ سب خواب تھا ایک بہت بہت بھیانک خواب میرا بھائی مجھے چھوڑ کر نہیں گیا وہ جا ہی نہیں سکتا کیسے جائیگا وہ بھی جانتا ہے اُسکے علاوہ ہمارا اِس دُنیا اور کوئی نہیں ہے"
"یہ اللّٰہ میرے بھائی کو صحت دے شفا دے اُسکا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ سلامت رکھنا"
طیات نے کانپتی آواز میں کہا...
طیات نے ایان کو دوبارہ خود سے لگا لیا...
"کُچھ نہیں ہوگا میری جان بھائی کو کُچھ بھی نہیں ہوگا... بس اللّٰہ سے دعا کرو"
طیات نے ایان کو تسلی دی جبکہ وہ خود ڈری ہوئی تھی اندر سے...
✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴
"امان کی طبیعت کیسی ہے اب"
جازم نے کوریڈور میں بیٹھے ایان سے پوچھا...
"پتہ نہیں جازم بھائی ڈاکٹر کہتے ہے ٹھیک ہوجائینگے مگر ۳ دن ہوگئے ہے بھائی کو ہوش نہیں آیا"
ایان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا...
"صبر سے کام لو ایان سب ٹھیک ہوجائےگا...اللہ نے اُسکی زندگی بچائی ہے تو صحت بھی وہی دےگا...”
جازم نے اُسکا کندھا تھپتھپایا...
" طیات کہاں ہے ایان؟"
جازم ۳ دنوں میں تقریباً ۷ بار آچکا تھا مگر طیات اُسکے سامنے نہیں آئی...
"آپی روم میں ہوگی"
ایان نے مختصر سہ جواب دیا...
"اندر آسکتا ہو"
جازم نے روم کے باہر کھڑے ہوکر اجازت طلب کی....
طیات نے اُسکی طرف دیکھا پھر بغیر کی جواب دیے دوبارہ تسبیح کے دانے گرانا شروع ہوگئی...
"کیسی ہے آپ"
جازم نے اُس سے کُچھ دور فاصلے پر بیٹھ کر کہا...
وہ اب بھی خاموش رہی...
"میری ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے وہ کہہ رہے ہیں کے امان کو جلد ہی ہوش آجائیگا"
طیات نے اِس بار بھی کوئی ردِ عمل کا اظہار نہیں کرا...کیونکہ یہ الفاظ وہ پچھلے ۳ دنوں میں کتنی بار ڈاکٹرز سے سن چُکی تھی...
جازم کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اُسے کن الفاظوں میں تسلی دے...
جازم کُچھ دیر یونہی بے مقصد دیواروں کو تکتا رہا پھر جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا...
"دعا کیجئے گا بھائی کے لیے"
جاتا ہوا جازم اُسکی آواز پر چونکا پھر بولا...
"بلکل کرونگا آپ فکر مت کریں امان کو کُچھ نہیں ہوگا وہ بلکل ٹھیک ہوجائے گا...مگر جب وہ اُٹھے گا اور آپکی اور ایان کی ایسی حالت دیکھے گا تو اسکو کتنی تکلیف ہوگی"
اُس نے رسانيت سے سمجھاتے ہوئے کہا...
"بھائی ٹھیک تو ہوجائے گے نہ"
طیات نے بچوں کی طرح پوچھا جیسے اگر اُس نے کہہ دیا ٹھیک ہوجائے گے تو امان سچ میں ٹھیک ہوجائے گا...
"اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ سب بہتر کرے گا"
"اُسی کا تو آسرا ہے"
طیات نے روتے ہوئے کہا...
جازم سے وہاں رکا نہیں گیا وہ کمرے سے باہر نکل گیا....
واپس آکر ایان کے پاس بیٹھ گیا...
ایان کی حالت بھی مختلف نہیں تھی گُم سم بلکل چُپ چاپ وہ بھی رو رہا تھا...
فرق بس اتنا تھا وہ بے آواز رو رہا تھا...
"امان اِس طرح کیسے چلے گا نہ تُم نے ۳ دن سے کُچھ کھایا ہے بس کل جو زبردستی کھلایا تھا ایک سینڈوِچ بس وہی کھایا ہوا ہے تُم دونوں نے اگر اسی طرح کرو گے تُو تُم دونوں بھی بیمار پڑ جاؤ گے... طیات نے خود کو رو رو کر خود کو ہلکان کرا ہوا ہے...”
جازم نے ایان کو سمجھایا...
"ایان چلو بیٹا کُچھ کھا لو تمہاری طبیعت خراب ہوجائےگی"
طیات نے ایان کے پاس آکر کہا...
"آپی میرا دل نہیں کر رہا بلکل بھی کُچھ بھی کھانے کا نے مجھے بھوک ہے "
ایان بار بار اصرار پر جھنجلا گیا...
طیات اُسکے برابر میں آکر بیٹھ گئی...اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی...
"دل یہ بھوک کے لیے نہیں زندہ رہنے کے لیے تو کھانا پڑے گا جان... "طیات نے اُسکے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا...
"آپی مجھے بھائی سے بات کرنی ہے مجھے اُن کی ڈانٹ سُنّی ہے بولو نہ اُنکو جاکر میں نے پھر غلطی کی ہے میں پڑھائی نہیں کر رہا آپکو بہت تنگ کر رہا ہوں میں بولو آپ اُن کو وہ اُٹھ جائینگے مجھے ڈانٹنے کے لیے"
ایان طیات کے کندھے سے لگ کر بلک بلک کر رونے لگا....
"بس میری جان بس کُچھ نہیں ہوگا ہمارے بھائی کو بہت مضبوط ہے وہ یہ چھوٹی موٹی چوٹ اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی”
طیات نے اُسے بہلاتے ہوئے کہا...
جازم کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی...
✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴✳✴
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro