قسط نمبر ۶۶
#میدان_حشر
قسط نمبر ۶۶
باب نمبر ۱۴
"ابا حتی"
(وُہ شخص جو حرام حلال کا قائل نا ہو...)
ابوبکر جب سے ماریہ کے گھر سے آیا تھا شرمندگی کے سمندر میں غوطہ زن تھا صدیق صاحب کا التجائی لہجہ اُسے مجرم بنا رہا تھا...
"میری ناکام محبت صرف اور صرف اللہ کی مرضی تھی میں کیوں ماریہ کو سزا دے رہا ہوں...وُہ ٹھیک ہی کہتی ہیں میں بہت خود غرض ہوں صرف اپنے بارے میں ہی سوچتا ہوں...مگر کیا میرا کسی بھی خوشی پر کوئی حق نہیں مجھے ہی کیوں اتنے دُکھ ملیں ہے.."
اُس نے کروٹ بدلی...
"میں کل ہی اُنہیں رُخصتی کے لیے ہاں بول دوں گا میں خود اب اِس تنہائی سے تنگ آ چکا ہوں مُجھے بھی سکون چاہئے..."
ابوبکر نے اردہ کیا اور آنکھیں بند کرلی اِس فیصلے بعد وُہ مطمئن تھا اُس نے صدیق صاحب کو ہاں کردی اور ایک ہفتے بعد ماریہ رُخصت ہوکر اُسکے گھر آگئی اُسکی زندگی میں ماریہ کے صبر اور محبت کے امتحانوں کا اصل مرحلہ اب شروع ہوچکا تھا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
کیا بات ہے بیٹا پچھلے ۱ ہفتے سے میں تُجھے دیکھ رہا ہوں روز یہاں آکر بیٹھتا ہے بے چین ہوتا ہے روتا ہے پھر چلا جاتا ہے.."
مولوی محمد رزاق نے آج اُس سے پوچھنے کا ارادہ کیا اور اُسکے پاس آ بیٹھے...
راحیل کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے....
"پریشان ہے؟ مایوس ہے؟"
اب کی بار اُسکی آنکھوں کی پتلیوں میں حرکت ہوئی ہونٹ بولنے کے لئے کپکپانے لگے...
مولوی صاحب جان گئے...
"مایوسی کفر ہے..."
آنکھیں پُر نور تھی....
"ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ.."
"جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"،
راحیل کے ساکت وجود میں دوبارہ جنبش ہوئی...
" بیٹا اللہ پر توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے، اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے کا نام توکل ہے، اسباب اختیار کئے بغیر اللہ پر توکل کرنا ہیں سخت غلط ہے.."
وُہ دم سادھے اُنکی باتیں سُن رہا تھا جو بغیر بتائے اُسکا مسئلہ جان گئے تھے...
"اس قسم کے توکل کا شریعت نے حکم نہیں دیا ہے، قرآن میں ایسی تعلیم ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسی کوئی تعلیم دی ہے۔"
اُسکو اپنے جلتے وجود پر پھوار پڑتی محسوس ہوئی....
" ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ.."
"جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا"۔
انہوں نے دوبارہ دہرایا...
اللہ تعالی نے فرماتا ہے...
"ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین"
"اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو"۔
راحیل کی آنکھوں کے سامنے اپنی ۳۱ سالہ زندگی گھومنے لگی کوئی ایسا لمحہ نہیں ملا اُسے جو اُسکے مسلمان ہونے کا ثبوت ہو محض ایک نام تھا جو اُسے نام کا مسلمان ہونے کا شرف عطا کرتا تھا...
" وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین."
"تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے"۔
راحیل کو اپنے اندر نئی ترنگ محسوس ہونے لگی...
ارشاد الہی ہے:
"وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون..."
وہ مسلسل اُس کے ذہن کا بوجھ کم کررہے تھے...
"مومنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے"۔
ان آیات پاک میں اللہ تعالی نے مومنوں کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا حکم اور اس کی انتہائی ترغیب دی ہے.."
وہ اُنہیں سنتے رہنا چاہتا تھا اور وہ وہی کر رہا تھا....
"مُجھے بھی مسلمان بننا ہے اللّٰہ کا مقرب بننا ہے..."
راحیل نے اُن سے کہا...
راحیل کے اس بات پر وہ محض مسکرائے تھے...
✳✴✳✴✳✴✳✴✳
ٹیبل پر رکھے موبائل پر طیات کالنگ دیکھ کر اُسکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اُس نے ایکسکیوز کرکے کال ریسیو کی...
"السلامُ علیکم.."
طیات نے کہا...
"وعلیکم سلام.."
"کیا کر رہے ہیں آپ..."
طیات نے کال تو کرلی مگر سمجھ نہیں کیا کیا بات کرے مگر اتنا طے تھا اُسے عامر سے بات ضرور کرنی تھی...
"کُچھ نہیں بس ایک میٹنگ میں ہوں..."
"آپ آتے ہوئے میرے ڈریسز لے آئے گے ٹیلر سے..."
"اچھا ٹھیک ہے اور کُچھ.."
عامر میٹنگ میں تھا اِس لیے جلدی بات ختم کرنا چاہی...
"اور جلدی آئے گا مُجھے گھر کے لیے کُچھ شاپنگ بھی کرنی.... حماد کے کپڑے بھی لینے ہیں اور..."
"طیات ایک منٹ..."
عامر خود اُس سے بات کرتے رہنا چاہتا تھا...
عامر نے اُس سے کہہ کر ساتھ بیٹھے لوگوں کو باہر جانے کی اجازت دیتے ہوئے آرام سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کیا...
"ہاں بولیں اب آپ..."
عامر اب تمام تر توجہ اُسکی طرف کر چُکا تھا....
"آج ہم لوگ ساحل سمندر بھی چلیں گے.."
طیات نے ایک اور آرڈر دیا...
جیسا آپ کہیں محترمہ اُس نے واقعی سر کو خم دیا...
"اچھا تو میں ابھی آفیس سے نکلتا ہوں..."
"جی ٹھیک ہے آجائیں..."
وُہ خوش ہوکر بولی...
عامر نے اُسے گھر کے باہر سے ہی پک کیا حماد کو نزہت خاتون نے اپنے پاس ہی رکھ لیا...
عامر نے گاڑی سی ویو کے راستے پر ڈال دی...
"آپکو پتا ہے عامر مجھے ساحل سمندر جانے کا بہت بہت شوق میں بھائی کے ساتھ ہر دو تین ہفتوں میں جاتی تھی مگر پھر...."
وُہ بولتے بولتے چُپ ہوئی کُچھ یاد آیا تھا بلکہ بھولا ہی کہاں تھا وہ...
"کوئی بات نہیں میں لے آیا کروں گا آپکو.."
عامر نے اُس کی مشکل آسان کی....
"لیجئے آگیا آپکا ساحل سمندر..."
عامر نے گاڑی سائڈ میں روکتے ہوئے کہا...
طیات فوراً سے نیچے اُتر گئی نگاہوں کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا حد نگاہ تک صرف آب تھا....
طیات نے اپنے سینڈلز اُتار لیے جنہیں عامر نے پکڑ لیا....
وُہ اُسکا کندھے سے سر ٹکائے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی....
یہ سمندر بھی روز نجانے کتنے مناظر دیکھتا ہے.. کہیں کوئی نیا نویلا عاشق، اپنی نئی نئی محبوبہ سے چاند توڑ لانے کی جھوٹی قسمیں کھا رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف پر ایک عمر رسیدہ جوڑا پوری جوانی لٹا کر اپنے بچوں کا مستقبل سنوار کے اور اسے اس ملک سے دور کسی اور ملک میں بھجواکر زندگی کے آخری دن بغیر کسی بات چیت کے ایک دوسرے کے ساتھ بِتا رہا ہوتے ہیں۔
دوسری جانب دسترخواں پر ضیافت کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔
نا ہی انہیں سمندر کی مست موجوں اور مدھر آوازوں سے محظوظ ہونے کاطریقہ آتا ہے۔
نا ہی اس کے آنگن میں بیٹھ کر کھانے کا سلیقہ۔ وہ شہر کا شور بھی اپنے ساتھ ہی لے آتے ہیں اور جاتے جاتے فضا کو شور سے اور کنارے کو کچرے سے آلودہ کر کے چل پڑتے ہیں۔
شام ہوتی گئی ساحل پر آنے والے لوگوں کا رش بڑھتا گیا اونٹ بان اور گھوڑے بان کی سواری میں اضافہ ہوتا گیا لوگ سمندر پہ سمندر کی لہروں کی طرح آتے گئے کوئی کسی کو نہیں جانتاتھا سب سمندر کی لہروں سے کھیلنے میں مصروف تھے ۔
زندگی کے دن کو رات اور رات کو دن بننے کی طرح لہریں آگے سے پیچھے ہو جاتی تھی۔
یہ لہریں ساون کے پہلی کرن کی طرح سب کو خوش کر رہی تھیں۔
یہاں سب لوگ اپنی اپنی خوشیوں میں مگن تھے۔
ساحل سمندر پر اتنے سیپ کے خول بکھرے پڑے ہیں کہ چبھ چبھ کر پیر زخمی ہوجاتے ہیں... لیکن پھر بھی۔۔۔.. سمندر ,سمندر ہے۔۔۔..سہانا موسم اور خوبصورت سمندر... دل جتنا ہی اداس ہو سمندر اس اداسی کو دور کر دیتا ہے...
دن بھر کا تھکا ماندا آفتاب افقِ مغرب کی اوٹ میں سرنگوں تھا۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا طبیعت میں کسل مندی پیدا کررہی تھی اور آسمان کے کنارے شفق رنگین بڑے دیدہ زیب نظر آرہے تھے۔ دور تک سرخ دھاریں اس طرح پھیل گئی تھیں جیسے عروسِ شام رنگین آنچل سے ڈھلک گئی ہو۔
وُہ دونوں کنارے پر موجود ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھے کافی دیر سے غروبِ آفتاب کے اس روح پرور نظاری سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
اِس بات سے بے خبر کسی کی بنجر آنکھیں اِس منظر کی تکلیف سے بھر آئی تھی...
"عزت عامر اِنسان کی زندگی کے سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے محبت سے بھی زیادہ..."
اُس نے دل گرفتگی سے کہا...
"واقعی محبت ہو یا نہیں عزت اور عقیدت کا رشتہ سب سے بڑھ کر ہوتا ہے..."
عامر نے متانت سے جواب دیا...
"کیا سوچنے لگ گئی اب آپ..."
عامر نے اُس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وُہ واپس لوٹ آئی...
"کُچھ نہیں بس ایسے ہی کُچھ یاد آگیا تھا..."
طیات نے کھلے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا...
"مُجھے بتا سکتی ہیں آپ..."
عامر نے اُس کا سر اپنے کندھے پر رکھتے ہوئے دوسرا ہاتھ اُس کے شانوں پر پھیلاتے ہوئے نرمی سے کہا...
تھوڑے فاصلے پر کھڑے اِنسان نے اپنا رُخ بدلا تھا...اُسکے کانوں میں آواز آرہی تھی...
" کبھی کبھی نا آپکو بڑا مان ہوتا ہےکسی پہ کے یہ شخص آپکو ضرور سمجھے گا مگر کوئی اور سمجھے نا سمجھے پھر وہی آپکو سب سے زیادہ غلط سمجھ لیتا ہے....
اور یہ جو بے اعتباری ہوتی ہے نہ یہ ایک کنکر کی طرح ہوتی ہے عامر یہ آپ کے مان کو ایک لمحے میں کرچیوں میں توڑ دیتی ہیں...
اور پھر اُس ٹوٹے ہوئے مان کی کرچیاں ساری عمر کے لیے دِل میں ایک زخم کردیتی ہے جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ناسور بن جاتا ہے اور اُس ناسور سے اذیت رستی ہے.."
طیات نے عامر کے کندھے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا...
کُچھ لمحے یوں ہی سرک گئے...
"عامر..."
طیات نے پُکارا تو عامر نے آنکھیں کھولیں...
"جی..."
"آپ تو کبھی میرا مان نہیں توڑیں گے نا..."
طیات کے انداز میں پُرانے زخموں کی تکلیف نمایاں تھی...
راحیل کی آنکھوں کے سامنے وُہ منظر آگیا جب اُس نے طیات کا مان توڑا تھا....
"تُم نے جو کچھ بھی دیکھا محض نظر کا دھوکا ہے ابوبکر تُم سے ہی مِلنے آیا تھا میں نے اُسے بولا کہ تُم گھر پر نہیں ہو تو وہ جا ہی رہے تھے کے مجھے چکر آگئے اور بس وہ مجھے کمرے تک چھوڑنے آیا تھا اِس سے زیادہ اور کُچھ نہیں تمہیں مجھ پر اپنی طیات پر بھروسہ نہیں میں صرف اور صرف تمہاری ہوں...."
ایک مان تھا اُسکے لہجے میں کرب تھا آواز میں....
"کیا میں آپ کا مان ہوں.."
عامر نے تصدیق چاہی...
طیات نے اثبات میں سر ہلایا...
عامر کے دِل کو کُچھ ہوا تھا اور وُہ جان گیا اُسے کیا ہوا تھا...
راحیل کا دِل کٹ کر رہ گیا...
"کبھی بھی نہیں.."
عامر نے اب کی بار اُسے اپنے سینے سے لگا لیا....
راحیل سے مزید نہیں رُکا گیا وُہ دور جاتی لہروں کی طرف بڑھا....
"مُجھے بھی ساتھ لے جاؤ مُجھے بھی..."
وُہ بھاگنے لگا یہاں تک کے پانی اُسکے سینے تک آگیا اور پھر ایک لہر اُس پر مہربان ہوگئی اُسے اپنی لپیٹ میں لیا.... وُہ سمندر کی گہرائیوں میں کھونے لگا شاید یہی اختتام تھا راحیل آفتاب کا..
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro