قسط نمبر ۳۹
#میدان_حشر
قسط نمبر ۳۹
باب نمبر ۱۰
"جہاں وقت تھم جاتا ہے"
"خدارا مُجھے جانے دو"
وُہ ہاتھ جوڑ کر بولی...
دونوں پر کوئی اثر نہیں ہوا...
ایک نے آگے بڑھ کر دوپٹہ پکڑا جبکہ اگلے ہی لمحے ہوا میں اچھال دیا....
"نہیں"
چیخ بلند ہوئی...
مقابل پر اب بھی اثر نہیں ہوا....
وہ چند قدم پیچھے ہوئی دونوں اُسکی طرف بڑھے...
"کیا ہوا آگے پھر؟"
اِس سے آگے وہ سوچ نہ سکی...
ایک تیز روشنی سے اُسکی آنکھیں چندھیا گئی....
بریکس لگنے کی آواز پر اُس نے نیم وا آنکھوں سے سامنے دیکھا مگر کُچھ صاف نظر نہیں آیا....
اُسے بائک چلنے کی آواز آئی....
حماد چلتا ہوا اُس تک آیا...
"آپ ٹھیک تو ہے"
وُہ اُسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پوچھنے لگا....
طیات نے ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا....
ہیلو بیوٹیفل برائیڈ"
طیات کے سامنے ایک منظر آگیا....
حماد کی آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی...
"آپ بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں بھائی"
طیات کے کہے گئے الفاظ دوبارہ زندہ ہوئے....
"ویسے بھائی بنا لیا ہے تُو سُن لیں میں بہنوں کو تنگ بہت کرتا ہوں...
اور آپکو جھیلنا ہوگا "
ایک ایک منظر آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا....
"خوش رہو... بِلکُل میرے بھائی ایان کی طرح ہو تُم "
"بھائی"
طیات کے منہ سے بے اختیار نکلا...
"ہمیشہ ہنستی رہیں"
حماد کو اپنی دی ہوئی دعا یاد آئی...
"آپ یہاں ایسی حالت میں کیسے..."
حماد فکرمندی ہوا.....
طیات سے کُچھ بولا نہیں گیا....
وُہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی....
" طیات.... طیات"
حماد نے طیات کے چہرے کو تھپتھپایا....
مگر وہ بے ہوش ہوچکی تھی....
حماد نے اُسے اُٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا....
گاڑی فل اسپیڈ میں دوڑا دی.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"میں نے ٹھیک نہیں کیا وہاں جاکر میری وجہ سے طیات کے لیے کتنی پریشانیاں ہوئی ہوگی"
ابوبکر گھر نہیں گیا تھا وُہ سڑک کے کنارے بیٹھا تھا....
"آخر کیوں میری زندگی میں کُچھ اچھا نہیں ہوتا ہر چیز غلط ہر چیز بری.....
میں ہر چیز میں اتنا بد قسمت کیوں ہوں...."
ابوبکر کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک گئے.....
"میں کبھی بھی اُسے بھُلا نہیں سکّتا اُسکی محبت میرے دِل سے کبھی ختم نہیں ہوسکتی اور میں کبھی بھی اُسے کوئی دُکھ درد یا تکلیف نہیں دینا چاہتا مگر ہر بار کُچھ نا کُچھ غلط ہوجاتا ہے.... پتا نہیں آج اُس شخص نے کیا سلوک کیا ہوگا اُسکے ساتھ..."
ابوبکر کو طیات کی فکر ہورہی تھی دِل ہے چین تھا....
کہتے ہیں جن سے محبت ہو جب اُنہیں دُکھ ہو درد ہو آپ اُنکا درد اپنے اندر محسوس کرنے لگتے ہیں....
ابوبکر بے خبر تھا طیات پر کیا قیامت گزر چکی تھی مگر وُہ اُسکا درد محسوس کرسکتا تھا....
"میں زندگی میں آگے بڑھو گا شاید یہی میرے لیے بہتر ہے میں اُسے بھول نہیں سکتا مگر میں اُسکے لیے اور پریشانیاں پیدا نہیں کرسکتا....
اور وُہ بھی تو یہی چاہتی ہے اور ابوبکر کیسے
طیات کی کوئی بات پوری نا کرے..."
ابوبکر نے نم آنکھوں کے ساتھ سوچا.....
"میری صرف یہی دعا ہے اُسے زندگی میں ہر وُہ خوشی ملے جس کی وُہ حقدار ہے وُہ ہمیشہ خوش رہے کبھی کوئی درد کوئی تکلیف اُسے چھو کر بھی نا گزرے....میرے اختیار میں بس یہی ہے کہ اُسکے لیے دعا کرسکوں اور وُہ میں ہمیشہ کرتا رہوں گا ہمیشہ...
جنہیں پایا نہیں جاسکتا اُسے چھوڑا بھی نہیں جاسکتا اُن سے محبت نہیں عشق ہوا کرتا ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوتا وقت کے ساتھ خاموش ضرور ہوجاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا...
کیونکہ کھونا یا پانا محبت نہیں ہوتی محبت تو بس محبت ہوتی ہے ادب ہوتا ہے حاصل اور لا حاصل سے بے نیاز ایک احترام ہوتا ہے کسی کو پکار پر لبیک ہوتا ہے....تُم مُجھے زندگی کے کسی بھی موڑ پر پکاروں گی اگر زندہ ہوا تو سامنے پاؤ گی طیات....ابوبکر نے تُم سے عشق کیا ہے صرف تُم سے ..."
ٹہری محبت کے سمندر میں ایک طوفان سا اُٹھ کر تھم چُکا تھا...
ابوبکر اور طیات کا ساتھ نہیں تھا خُدا لکھ چُکا تھا دیر سے سہی اُسے بھی سمجھ آگئی.....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
راحیل کمرہ بند کرکے اوپر اپنے کمرے میں آگیا....
اُس کی زندگی پھر سے وہی ہوگئی تھی جیسی طیات کے آنے سے پہلے تھی ویران سُنسان اُجڑی ہوئی کمرے میں مُکمل سناٹا تھا چیزیں بِکھری ہوئی تھی آدھی رات گزر چُکی تھی....
وُہ سست روی سے چلتا ہوا زمین پر بیٹھ گیا.....
آنکھوں کے سامنے طیات کی اُس کمرے میں پہلی رات گزر گئی.....
طیات کانچ کے ٹکڑوں کے گرد بیٹھی تھی خود بھی کسی ٹوٹے ہوئی شے کی مانند....
اُس نے اب اپنے زیور اُتار کر پھینکا شروع کردیے کانچ کی چوڑیوں نے ٹوٹ کر الگ رنگ کے کانچوں کا مزید اضافہ کردیا....
اُس نے دوبارہ نظر اُٹھا کر کمرے پر نظر دوڑائی
مگر منظر وہی تھا وہ برباد ہو چُکی تھی آج اُس شخص کی بیوی بن کر اُسکی خواب گاہ میں لا پھینکی گئی تھی....
اپنے میڈلز میں اسے ایک اور جیت کا تمغہ بنا کر لانے وہ شخص غائب تھا...
طیات نے ہاتھ کانچ کے ٹکڑوں پر زور سے رکھ دیے...
دروازہ کھول کر ہونٹوں پر کوئی معرکہ سر کرلینے کی مسکراہٹ خوشی لیے وہ اندر داخل ہوا....
راحیل نے ایک نظر زمین پر بیٹھی طیات کو دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اُسکی نظر اُسکے ہاتھ سے بہتے خون اور ہاتھ کے نیچے پڑے کانچ پر پڑی...
وہ اُسکی طرف آکر بولا....
"خودکشی کرنے کا ارادہ ہے کیا؟"
وہ سادہ لہجے میں بولا....
"اگر خودکشی ہی کرنی ہوتی نہ تُو اُس دن ہی کرلیتی جب تُم نے.."
طیات نے دانستہ اپنی بات ادهوری چھوڑی....
اُسے اپنی پیٹھ پر کچھ محسوس ہوا منظر غائب ہوگیا تھا....
تصدیق کے لیے جو ہی نظروں کا رُخ پیچھے کیا وہاں صرف سناٹا تھا....
"پہلے رات سے آخری رات تک میں اُسے صرف درد دیتا رہا صرف تکلیف اذیت....مگر طیات تُم مُجھے ساری عمر کا پچھتاوا دے گئی....میں نے کہا تھا مجھے چھوڑ کر مت جانا کبھی بھی مگر تُم چلی گئی...تُم تو صرف میری ہو نا صرف راحیل کی..."
پھر وہی ضد اُٹھی تھی جِس سے سفر کی شروعات ہوئی تھی اسے حاصل کرنے کی...
وُہ بھُلا بیٹھا تھا چھوڑ کر وُہ نہیں گئی تھی اسے چھوڑا گیا تھا راحیل نے اُسے خود سے الگ کیا تھا اب پھر سے وہی ضد نے انگڑائی لی تھی جو اسے پہلی بار دیکھ کر اُٹھی تھی...
مگر اِس بار ضد کا انجام اُسکے حق میں نہیں تھا اب تو صرف پچھتاوا تھا اُسے تو اور گرنا تھا اپنے ہی گناہوں کے دلدل میں....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"بعض دفعہ آنسوؤں کا بہنا بہت ضروری ہوتا ہے طیات یہ نمکین پانی اگر اِنسان اپنے ہی اندر جذب کرنے کی کوشش کرے تو یہ پورے وجود میں آگ لگا دیتا ہے... اِن آنسوؤں کو بہنے دو جو ہوچکا ہے اُسے بدلا نہیں جاسکتا مگر اُس پر ایک ہی دفعہ آنسو بہا کر اپنے اندر کی کُچھ گھٹن کم کی جاسکتی ہے"
حماد نے طیات کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی....
وُہ چُپ بیٹھی رہی...
"طیات کُچھ تو بولو رو، ہنسو چاہو تو مُجھے مار بھی لو مگر خُدایا چُپ نہ رہو اپنے اندر کا غم باہر نکالو یہ تمہارے لیے بھی خطرناک ہے اور تمہارے وجود سے جڑی ننھی سی جان کے لیے بھی اُس پر تو رحم کرو...."
حماد نے طیات کو باقاعدہ جھنجوڑ ڈالا...
"کیا بولوں میں سب ختم ہوچکا ہے سب تباہ ہوگیا ہے....
کہنے کو کُچھ نہیں میرے پاس...
میں چُپ ہو مُجھے چُپ ہی رہنے دو....
کیونکہ جب خواہشیں مردہ ہونے لگیں تو سب سے پہلے انسان چُپ ہوجاتا ہے....
اپنے اندر خوابوں کی قبریں بناتا بناتا انسانوں سے کٹ جاتا ہے...
پہلی قبر۔ ۔ ۔
دوسری قبر۔ ۔ ۔
تیسری۔ ۔ ۔
دِل دِل نہیں رہتا قبرستان بن جاتا ہے...
اور قبرستان میں کیا ہوتا؟؟"
اُس نے زخمی نظروں کا رُخ اُس کی جانب کیا اور اُس سے جواب چاہا......
اُس سے مزید طیات کے چہرے کی طرف نہیں دیکھا جاسکا....
کوئی جواب ناپاکر طیات خود ہی بولی...
”سناٹا..
گہرا سناٹا۔
میری ساری خواہشیں مردہ کردی گئی ہیں...
میں اُنہیں دفنا چُکی ہوں....
میرے دِل میں میری خواہشات کی ان گنت قبریں ہیں میرا دِل لا حاصل اور ادھُوری خواہشات کا قبرستان بن چُکا ہے....
طیات نے سپاٹ انداز میں چہرے پر کسی بھی قسم کے دُکھ درد یہ تکلیف کا ہلکا سا تاثر بھی لائے بغیر نم آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا....اور وُہ نم آنکھیں سب کہہ گئی....
ماحول کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا...
نیم وا کھڑکی سے آتی سرد ہوا اُسے اپنے وجود میں اُترتی محسوس ہونے لگی تھی اُس نے ایک جھرجھری سی لی آنکھوں کے سامنے چلتا منظر کہی غائب ہوگیا...
گہری سانس لے کر اُس نے آنکھوں کے پٹ گرا دیئے...
حماد وہاں سے اُٹھ تو گیا مگر اب اُس کا دِل بیٹھنے لگا تھا....
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro