قسط نمبر ۳۸
#میدان_حشر
قسط نمبر ۳۸
باب نمبر ۱۰
"جہاں وقت تھم جاتا ہے"
"اگر میرا خون میچ نہیں ہوا تو انعم کا بھی تو نہیں ہوا...میں کیوں اُسکا ہاتھ اِس طرح جھڑک کر آیا ہوں"
آفتاب کو اپنے رویے پر شرمندگی ہوئی تھی....
"مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے ماں باپ سے بلڈ میچ نہ ہو..."
اُسکّے اندر سوال اُٹھ رہے تھے....
وُہ ڈاکٹر کے سامنے بیٹھا تھا....
"ضروری نہیں ہے کے بچے کا بلڈ گروپ ہمیشہ ماں باپ سے میچ ہو ہمیشہ اس طرح نہیں ہوتا. مثال کے طور پر، جیسے آپکا کیس ہے ہوسکتا ہے ابوبکر کا بلڈ گروپ آپکے فادر یا مدر سے ملتا ہو یا پھر آپکے کسی بھائی بہن سے ملتا ہو...."
ڈاکٹر نے ایک قائل کردینے والا جواب دیا تھا.....
"میں Dna ٹیسٹ کروانا چاہتا ہوں..."
وُہ بنا سوچے سمجھے بولا تھا وُہ جاہل نہیں تھا مگر شک نے اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی تھی....
شاید بے اعتباری بھی اُس کلاس کا تقاضہ تھی جس سے وہ تعلق رکھتا تھا....
وُہ ایک انتہائی آسان فہم جواب سے بھی مطمئن نہ ہوا....
"کیا مُجھے اپنی بیوی پر اعتبار نہیں..."
کسی کونے سے آواز آئی تھی....
"ابوبکر کی آنکھیں"
شک نے ایک اور طرف توجہ مبذول کروائی جواب اُس سوال کا بھی وہی تھا مگر شک نے اُسکے حواسوں پر قبضہ کرکے اُسکی عقل کو تالے لگا دیے تھے....
شک کا تعلق ماحول سے بھی ہوتا ہے۔
اُسکے دِل ملامت کر رہا تھا مگر دِماغ اُکسا رہا تھا....
اِن سب باتوں سے سوالوں سے بچنے کا بس ایک ہی حل دکھا اُسے DNA......
"اوکے جیسے آپکی مرضی میرے پاس آپکے اور آپکی مسز کے بلڈ سیمپل موجود ہے رپورٹس آپکو مِل جائے گی..."
ڈاکٹر نے کہہ کر اپنی توجہ فائلز کی طرف کرلی....
وُہ آہستہ آہستہ چلتا باہر آگیا....
"دِماغ میں ہزاروں بے بنیاد سوالوں نے گھر کرلیا تھا وُہ نا چاہتے ہوئے بھی یہ کر آیا تھا....
"کہاں چلے گئے تھے آپ..."
انعم نے آفتاب کو اپنی طرف آتا دیکھ کر کہا....
"بس پریشان ہوگیا تھا میرا بچہ کِتنی تکلیف میں ہے...."
اُسکے منہ سے میرا بچہ سُن کے انعم کو کُچھ اطمینان ہوا تھا....
"ڈاکٹر نے جو بلڈ...."
اُس نے بات قصداً آدھی چھوڑی....
"ہوتا ہے ایسا کوئی پریشانی کی بات نہیں..."
آفتاب کو اپنی ہی آواز اجنبی سی لگی تھی....
"your child is out of danger"
نرس نے آکر دونوں کو خوشخبری سنائی....
"Thank you so much"
"کیا ہم مِل سکتے ہیں..."
"جی بلکل مِل سکتے ہے آپ دونوں"
نرس نے اجازت دیتے ہوئے راستہ چھوڑ دیا....
آفتاب پچھلی ساری باتیں بھُلا کر ابوبکر سے ملنے چلا گیا....
ابوبکر کا ننھا سے وجود پٹیوں میں جکڑے دیکھ کر آفتاب کے اندر شدید درد اُٹھا تھا...
"یہ میری ہی اولاد ہے میرا ہی بچہ ہے....مُجھے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے"
اور اُس پل دِل دِماغ پر حاوی ہوگیا.... وُہ اپنے Capri کو دیکھ کر سب بھول گیا وُہ جنونی محبت جو رکھتا تھا اُسکے لئے اور شاید حد سے زیادہ حساس ہونا بھی ایک وجہ تھی اُسکے شک کی...
"پاپا"
ابوبکر نے ہوش میں آتے ہی اُسے پُکارا....
"ہاں پاپا کی جان پاپا یہی ہے آپکے پاس.."
اُس نے ابوبکر کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا....
"گھر جانا ہے...پاپا"
وُہ اپنی معصوم زبان میں بولتا اُسے شرمندگی کے سمندر میں غرق کر رہا تھا...
"میں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ یہ میرے وجود کا حصہ نہیں..."
وُہ مسلسل اپنی سوچ کو کوس رہا تھا....
"جی میری جان بس ابھی گھر چلتے ہیں"
وُہ اُسکے چہرے کو چومتا اُٹھ گیا ڈاکٹر سے گھر لے جانے کی اجازت لینے....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
وُہ لوگ ابوبکر کو لے کر گھر آگئے آفتاب نے جو ہاسپٹل میں فیصلہ کیا تھا رپورٹس نا لینے کا اُس پر قائم رہا.....
انعم پھر سے مطمئن ہوگئی تھی طوفان آیا تھا مگر بغیر کسی تباہی کے گزر گیا اُس نے شُکر ادا کیا...
کُچھ دن سکون سے گزر گئے....
آفتاب اپنی اسٹڈی میں بیٹھا تھا ایک سرونٹ نے آکر آکر ایک لفافہ اُسے دیا....
"یہ کیا ہے؟"
اُس نے اُلٹ پلٹ کر دیکھا....
وُہ ہاسپٹل کی رپورٹس تھی...
آفتاب کے ذہن میں دھماکے ہونے لگے اُسے یکدم سب یاد آگیا....
"مُجھے نہیں دیکھنی"
اُس نے کہہ کر رپورٹس ٹیبل پر اچھال دی اور اضطرابی کیفیت میں دوسری طرف رُخ کرلیا....
"دیکھ لینے میں کیا حرج ہے"
کسی نے اندر سے اُکسایا....
اُس نے اِنسانی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وُہ لفافہ اُٹھا لیا مگر کھولنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا....
بلا آخر اُس نے لفافہ چاک کرکے رپورٹس باہر نکالی....
"آفتاب ابوبکر آپکو بلا رہا ہے..."
انعم اُسے بلانے آئی تھی مگر نجانے کیوں اُسے کُچھ کھٹکا ہوا...
آفتاب جو جو ہی رپورٹس پڑھ رہا تھا اُسکے چہرے کے زاویے بدل رہے تھے....
انعم کو کُچھ عجیب لگا تھا...
"آفتاب....آپ سُن رہے ہیں میں...."
اُسکی بات ادھُوری رہ گئی آفتاب کا بھاری ہاتھ اُسکے چہرے پر نشان چھوڑ گیا....
"بد کردار عورت... میری محبت کا یہ صلہ دیا تُم نے"
آفتاب نے غصے میں ارد گرد کی چیزیں پھینک ڈالی....
"آفتاب کیا ہوا ہے؟"
اُسے کُچھ سمجھ نہیں آیا بس ایک لفظ "بد کردار" دِماغ پر ہتھوڑے برسا رہا تھا....
"کیا ہوا ہے تمہیں نہیں پتا کیا ہوا ہے تُم نے سوچ بھی کیسے لیا ساری عُمر میری آنکھوں میں دھول جھونک دو گی تُم...."
اُس نے سختی سے اُسکا بازو پکڑا اور رپورٹس اُٹھا کر اُسکے منہ پر مار دی.....
"دیکھو اپنے اعمال نامے..."
وُہ زہر خندہ بولا....
انعم نے نا سمجھی کی کیفیت میں رپورٹس کو اُٹھا کر پڑھنا شروع کردیا...
انعم کا چہرے پر اب صرف ڈر تھا خوف تھا احساس جُرم تھا شرمندگی تھی....
"ساری تدبیریں کر لی مگر سچ سامنے آ ہی جاتا ہے..."
اُس نے ایک گہری سانس اندر اُتاری اور آگے کے مرحلے کے لیے خود کو تیار کرنے لگی تھی....
"تُم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتی ہو انعم تُم نے کیوں کیا کیا ایسا..."
وُہ اپنا ہاتھ مسلسل دیوار پر مار رہا تھا.....
"آفتاب مُجھ سے غلطی ہوگئ مُجھے معاف کردو مُجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہوئی ہے مُجھے معاف کردو آفتاب..."
انعم نے اُسکے قریب جانا چاہا....
"غلطی"
وُہ استہزایہ ہنسا....
"تُم ایک بد کردار عورت ہو....اور لفظ بد کردار کسی بھی عورت کے ساتھ غلطی پر نہیں گناہ کرنے پر لگتا ہے.... تُم ایک زانی عورت ہو انعم زانی....تُم نے مُجھے دھوکہ دیا ہے بیوفائی کی ہے تُم نے..."
آفتاب اپنا غصّہ بے جان چیزوں پر نکال رہا تھا....
"مُجھ سے گناہ ہوا ہے مگر مُجھے معاف کردو میں نے خیانت کی ہے خدارا مُجھے معاف کردو میں خُدا کے بعد سب سے بڑی تمہاری گنہگار ہوں مُجھے معاف کردو مُجھے معاف کردو..."
انعم اُسکے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی....
"دفع ہوجاؤ اِس گھر سے انعم اِس سے پہلے میں کُچھ کر بیٹھو.."
آفتاب نے اُسے دھکا دیا....
دروازے پر تینوں بچے تھے سہمے ہوئے اُنہوں نے تو کبھی اپنے ماں باپ کو اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا....
"آفتاب ایسا مت کرو میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں"
"میں تمہارا وجود ایک پل کے لیے بھی اِس گھر میں برداشت نہیں کرونگا دفع ہوجاؤ..."
وُہ دھاڑا....
"پاپا..."
ابوبکر اپنی معصوم آواز میں روتے ہوئے اُسکی طرف بڑھا....
"اسے بھی لے جاؤ اپنے ساتھ تمہارے ساتھ ساتھ اسکا وجود بھی میرے لیے ناقابل برداشت ہے"
اُس نے ابوبکر کا ہاتھ پکڑ کر انعم کی طرف دھکیلا....
"آپ تینوں کمرے میں جاؤ"
انعم نے ابوبکر کو اقراء کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا....
"تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی اِس کو لو اور دفع ہوجاؤ یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے..."
آفتاب اب اُسے پکڑ کر گھر کے دروازے تک لایا اور باہر دھکا دے دیا....
ابوبکر بھی انعم کے پیچھے پیچھے باہر نکل گیا....
"capri"
راحیل باہر کی طرف لپکا....
آفتاب نے اُسے پیچھے کرکے دروازہ بند کردیا.....
"آفتاب دروازہ کھولو مُجھے ایک موقع دو آفتاب خُدارا"
انعم بند دروازہ پیٹتی رہی...مگر وُہ شخص سب دروازے بند کرچکا تھا....
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
مما مما"
ہم پاپا کے پاس واپس کب جائے گے...
ابوبکر اُسکی گود میں بیٹھ کر بولا....
وُہ چُپ چاپ بیٹھی رہی...
"مما بتائیے نہ؟"
وُہ دوبارہ بولا..
"کبھی نہیں شاید"
کھوئے کھوئے انداز میں اُس نے کہا...
"مما... پاپا آپ سے ناراض ہو"
ابوبکر نے معصومیت سے پوچھا...
جبکہ وُہ اُسکے اتنی کم عُمر میں بِلکُل صحیح اندازہ لگانے پر لمحے بھر کو حیران رہ گئی...
"آپکو کیسے پتا پاپا مما سے ناراض ہے "
وُہ پیار سے اُسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی...
" نانو کے گھر آئے اتنے دن ہوگئے ہیں نہ پاپا آئے نا راحیل بھائی اور آپی کو بھیجا"
وُہ اب منہ پھولا کر بولا...
"بھائی اور آپی بھی آجائے گے..."
وُہ اُسے بہلانے کی خاطر بولی جبکہ حقیقت کیا تھا یہ صرف وُہ ہی جانتی تھی...
"آجاؤ میرے بچے میرے پاس سوجاؤ...."
وُہ اُسکا سر تکیے پر رکھتے ہوئے خود بھی اُس کے ساتھ لیٹ گئی....
کُچھ دیر بعد ہی وُہ سوگیا...
وُہ اب چھت کو تکنے لگی...
"میں بد کردار ہوں مان لیا مگر اُس شخص کا کیا جو بھاگ گیا..میں زانی ہوں سچ ہے مگر وُہ شخص اب بھی کہی اپنی زندگی سکون سے گزار رہا ہوگا....
سب کچھ عورت ہی ہوتی ہے....بدکردار بھی طوائف بھی۔ ۔ مرد کُچھ نہیں ہوتا؟؟ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے مگر سارے الزامات القابات صرف ایک ہی کے حصّے میں...
معاشرے کی اِس سے بڑی منافقت کیا ہوگی کے ایک بدکردار مرد کے لیے کوئی الفاظ ہی نہیں۔
زیادہ سے زیادہ اُسے تماش بین اور عیاش کہہ دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔
اور القابات کا سہرا بھی عورت ہی کے سر ہے٬وہ تماشہ کرتی ہے تو مرد تماش بین بن جاتا ہے۔ ۔ ۔
وہ بری ہوتی ہے تو مرد عیاش بن جاتا ہے۔ ۔ ۔
وہ دن کب آئے گا جب ایک بدکردار مرد کو بھی اتنی ہی ذلت اور حقارت سے نوازا جائے گا جتنا کے عورت کو نوازا جاتا ہے۔ ۔ ۔"
وُہ مسلسل خود سے باتیں کر رہی تھی مگر اُسکی بات کو سننے والا کوئی نہیں تھا....
کانوں میں ہلکی سی آواز آئی اذان کی غالبًِا مسجد کُچھ دور تھی یہ شاید وُہ آج پہلی بار محسوس کررہی تھی کے کانچ کے خوبصورت محل کی اونچی دیواروں کو مزید خوبصورت اور محفوظ بنانے کی وجہ سے وُہ اپنے رب سے دور ہوچُکی تھی کمرے میں ہر طرف ساؤنڈ پروف شیشے لگے تھے مگر آج اذان کی آواز اُنہیں چیرتی سیدھا دِل میں اُترتی محسوس ہونے لگی....
"بے شک نماز ہی بہترین ساتھی ہے،دُنیا سے قبر تک،قبر سے حشر تک اور حشر سے جنت تک"
"اِنسان مطلب کے لیے ہی اُسے یاد کرتا ہے"
وُہ زیرِ لب بڑبڑائی...
اُٹھ کر پاؤں چپلوں میں ڈال کر باتھروم کی طرف چل دی....
✡✡✡✡✡✡✡
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro