Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۷


قسط نمبر ۷

"علی بل بھروا دیئے تُو نے.."
وُہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا شاہد مسعود کا پروگرام دیکھ رہا تھا تو شفق خاتون عشاء کی نماز کے لیے صحن میں لگے بیسن سے وضو کرتے ہوئے بولیں..
"ہاں بجلی کا بھروا دیا ہے اماں باقی پانی اور گیس کا کل بھروا دوں گا.."
اُس نے قریبی مسجد سے آتی اذان کی آواز سُن کر ٹی وی کی آواز بند کی..
"کوئی جواب آیا جہاں انٹرویو دے کر آیا تھا.."
اُنہوں نے نماز کی سفید چادر اپنے چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے رسان سے پوچھا...
"نہیں ابھی تک تو نہیں آیا اور وہاں سے آنا بھی نہیں ہے تُو آس مت رکھ وہاں بھی پرچیاں چلتی ہیں.."
اُس نے تمسخرانہ انداز میں کہتے ہوئے سر کو جھٹکا...
"پتا نہیں تُجھ پر کس نیک روح نے بسیرا کر رکھا ہے ورنہ آج کل کے لڑکے تُو دو دونی چار کرنے مصروف ہوتے ہیں.."
اُنہوں نے افسوس سے کہا..
"آپ کو تو فخر ہونا چاہیے کہ آپ نے ہماری تربیت اتنی اچھی کی ہے.."
وُہ محبت سے بولا..
"تربیت تو میں نے دانیال کی بھی کے ہے مگر وہ تو ایک اور ایک گیارہ کرنے کے راستے کھوجتا رہتا ہے.."
اب کی بار وُہ ہلکا سا ہنس کر بولیں اُن گئینداز میں فخر و ناز کا تاثر نمایاں تھا جیسے دانیال بہت اچھا کام کرتا ہو..
"اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے جو آپ یوں فخریہ کہہ رہی ہیں.."
اُس نے براہِ راست چوٹ کی..
"ملنا کُچھ نہیں ہے اِس طرح یہ دُنیا شریفوں کی نہیں رہی اب آج کے زمانے میں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی کتنا پاک ہے سب پیسا دیکھتے ہیں کیا فرق پڑتا ہے کہاں سے آتا.."
وُہ اپنا دوپٹے کو اچھی طرح سینے پر پھیلا کر آستینیں نیچے کرتے ہوئے بولیں...
وُہ اُٹھ کر جانے لگا..
"کہاں جارہا ہے؟؟"
اُنہوں نے پیچھے سے ٹوکا...
"اللہ اکبر اللہ اکبر.."
اب کی بار آواز قریبی مسجد سے آئی تھی..
"اللہ کی طرف وُہ بلا رہا ہے اور ہاں اُس سے لاکھ سفارش کروں گا وُہ خالی نہیں لوٹاتا دیر بدیر ضرور دیتا ہے اور نہیں بھی دے تو اُس کی کوئی مصلحت ہوتی ہے.."
اُس نے مضبوط لہجے میں کہا اور ڈوائیڈر کی دراز سے ٹوپی نکال کر پہنتا ہوا جانے لگا...
"آتے ہوئے صبح کے لئے دودھ انڈے اور ڈبل روٹی بھی لے آنا اور اپنے ابو کے لیے تین چپاتی بھی لے آنا وُہ چاول نہیں کھاتے.."
"اچھا لے آؤں گا.."
اُس نے دو پٹی کی چپل پیروں میں ڈالتے ہوئے کہا..
"کُچھ ادب يا لحاظ ہے یا سب ختم ہوچکا ہے سنائی نہیں دے رہی اذان کی آوازیں.."
اُس نے دروازے سے اندر داخل ہورہے دانیال پر گرجتے ہوئے کہا جو کانوں میں ہینڈ فری لگائے فل والیوم میں گانے سُن رہا تھا شاید کیونکہ آواز اتنی تیز تھی کہ باہر تک آرہی تھی..
"میں نے ہینڈ فری لگائی ہوئی ہے بھائی.."
وُہ شانِ بے نیازی سے بولا..
"اب تو پتا چل گیا نا کہ اذان ہورہی ہے تو کم از کم اب تو تھوڑی دیر کے لئے بند کردو نہیں پڑھتے ہو کم از کم احترام تو کرلو.."
وُہ ہینڈ فری اُس کے کانوں سے کھینچ کر غصے سے بولا تو وہ منہ بناکر میوزک پلیئر بند کرنے لگا...
"مولوی کہیں کے.."
علی کے جانے کے بعد اُس نے تنفر سے کہا اور دوبارہ ہینڈ فری جیک میں لگاتا موبائل پر گانا لگا لیا...

_____________________________________________

"وُہ کون مرد ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے کون ہوتے ہیں جو عزتوں کے محافظ ہوتے ہیں.."
یہ وُہ سوال تھا جو نور اکثر خود سے کیا کرتی تھی اُس نے تو جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنے اِرد گِرد ایسے مردوں کو ہی پایا تھا جو تاک میں رہتے ہیں عورت کی کی عزت کو پیروں میں روندنے کو ہر دم تیار...
شام ڈھل چکی تھی آسمان پر سیاہ تھان پھیل چکا تھا چھوٹے چھوٹے ستارے اور آدھا موتی بڑی آب و تاب سے چمک رہے تھے..
اُس نے شال کو مزید اچھے سے اپنے گرد لپیٹا اُس کا بس نہیں چل رہا اپنی آنکھوں کو بھی ڈھک لے...
عورت اکیلے گھر سے نکلنے کے بجائے کسی مرد کے ساتھ جانے میں خود کو زیادہ محفوظ خیال کرتی ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ باہر مردوں سے محفوظ رہنے کے لیے مرد کا ہی سہارا لیتی ہے اُس کا دِل شدت سے اِس بات کی خواہش کرتا تھا کہ کاش اُس کا کوئی بھائی ہوتا کاش اُس کے ابو حیات ہوتے تو وُہ اُن کا ہاتھ پکڑے چلتی کسی کی ہمت تک نہ ہوتی کہ میلی نگاہ سے تک دیکھ لیتا...
گلی کے کون پر بجلی کی کھمبے کے ساتھ موٹر بائک لگائے تین لڑکوں نے اُسے سرتاپا دیکھا اُن کی نظریں اتنی بے باک تھیں نور کو خود سے شرم آنے لگی حالانکہ اُس کا سراپا ہرگز بھی ترغیب انگیز نہیں تھا... اُس کے قدموں میں بجلی بھر گئی وُہ تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل گئی...
پیچھے سے کسی لڑکے نے کوئی واہیات سا فقرہ کہا تھا...
"بھائی یہ چیزیں دے دیں.."
اُس نے کاسمیٹک شاپ پر پہنچ کر کاغذ دکاندار کو تھمایا...
دکاندار نے اُسے یکسر نظر انداز کیا اور باقی خواتین کی طرف متوجہ ہوگیا...
"بھائی مُجھے دیر ہورہی ہیں جلدی کردیں.."
بیس منٹ کھڑے رہنے کے بعد اُس نے پھر کہا..
"یہ لیں.."
اُس نے لفافہ نور کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا.. جیسے ہی نور نے لفافہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دُکاندار نے اپنی ہاتھ کی ایک اُنگلی سے اُس کے ہاتھ کو نرمی سے چھو لیا جس پر اُس نے جلدی سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا اور پیسے ہاتھ میں دینے کے بجائے کاؤنٹر پر پھینکتے ہوئے دُکان سے باہر آگئی..
"پھر سے یہی لڑکے.."
گلے میں داخل ہونے سے پہلے چند قدم کے فاصلے پر رُک کر اُس نے اُن لڑکوں کو دیکھا جو اُسے آتا دیکھ کر پھر حرکت میں آچکے تھے...
طوعاً و کرہاً اُسے آگے چلنا پڑا.. ابھی وُہ گلی کے کونے تک پہنچی ہے تھی ایک شخص بِلکُل اُس کے اور اُن لڑکوں کے درمیان اِس طرح آکھڑا ہوا کہ وُہ بِلکُل ہی چُھپ گئی اور نور نے اِس موقع کو غنیمت جانا وُہ شخص تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گلی کے اندر بڑھ رہا تھا اُس نے ایک نظر مڑ کر پیچھے دیکھا تو اُن لڑکوں کی نظریں اُس پر سے ہٹ چُکی تھی نور نہایت غیر محسوس انداز میں اُس کے ساتھ قدم قدم ملانے کی کوشش میں بری طرح ہانپ رہی تھی وُہ بس اُس کی پیچھے پیچھے چل کر اُن لڑکوں سے چُھپ جانا چاہتی تھی...
قصداً تھا یا اتفاقاً اُس شخص نے اپنی رفتار کم کردی تھی اب وہ آہستہ چل رہا تھا وُہ لڑکے پیچھے نکل چُکے تھے نور بھی چین کا سانس لیا...
"ہاں ایسے مرد ہوتے ہیں محافظ جنہیں معلوم تک نہیں اُن کا اجنبی بن کر بھی ساتھ چلنا بھی کسی کو تحفظ دے دیتا ہے ایسے مردوں کا طنطنہ کمال کا ہوتا ہے جنہیں دیکھ کر نظریں مرعوبیت سے نیچے ہوجائے کُچھ خاص نا ہوتے ہوئے بھی وُہ بہت خاص ہوتے ہیں وُہ سایہ دار شجر ہوتے ہیں.."
اپنے سب سوالوں کے جواب اُسے مِل گئے تھے..
نور نے دیکھ لیا تھا وُہ علی ہے وُہ بغیر پیچھے دیکھے لاتعلق سا چل رہا تھا...
گھر آجانے پر وُہ گیٹ کھول کر اندر چلی گئی...
علی نے اپنے گھر کے دروازے پر رُک کر برابر گھر میں جاتا اُسے دیکھا اسے تو ابھی پتا چلا تھا کہ وہ نور ہے...
"ہاں عورت کو ایسا ہی تو ہونا چاہئے کہ کوئی مرد اُسے پہچان نہ سکے.."
اُس کے ذہن میں بے اختیار بات آئی تھی...

______________________________________________

"امّاں امّاں..."
وُہ باعث مسرت پورے گھر میں اُنہیں ڈھونڈھتا پھر رہا تھا...
"کیا ہوگیا ہے کیوں اتنا گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا ہے کوئی قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے کیا.."
وُہ اپنے گیلے ہاتھ دوپٹے سے صاف کرتیں کچن سے برآمد ہوئیں..
"اماں میری نوکری لگ گئی ہے.."
وُہ خوشی پر خوشی بولا...
ہائے اللہ سچی.."
اُنہیں یقین نہ آیا...
"ہاں امّاں سچی لگ گئی ہے ای میل تو کل سے آئی ہوئی تھی میں نے ابھی دیکھا..."
"مبارک ہو بیٹا بہت.."
مرتضی صاحب نے رسان سے کہا...
"اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے .."
شفق خاتون نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر کہا..
"وہی کمپنی ہے جہاں تو کل گیا تھا انٹرویو کے لئے.."
اُنہوں نے اندر لاؤنج کی طرف جاتے ہوئے پوچھا...
"نہیں امّاں دوسری کمپنی ہے جہاں ہفتہ پہلے گیا تھا انٹرویو کے لئے..."
علی نے سوئچ بورڈ میں چارجر پلگ ان کرتے ہوئے نرمی سے کہا...
"تنخواہ کتنی ہے..؟"
سوال متوقع تھا علی کے لئے...
"پچاس ہزار ہے آگے بڑھ بھی جائے گی..."
وُہ ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی آن کرچکا تھا...
"اچھا ہے بیٹا کُچھ نا ہونے سے کُچھ تو بہتر ہے کیوں شفق؟"
ا مرتضیٰ صاحب نے اُن کی تائید چاہی...
"ہاں اچھا ہے نا ایک لگی بندھی رقم تو آئے گی گھر میں ورنہ یہ قسطوں میں ملتی ٹیوشن کی فیس کے باعث کئی کام اٹکے رہتے..."
وُہ اپنا پاندان کھول چُکی تھیں۔۔۔
"شام کو پانچ بجے تک چھٹی ہوجائے گی پھر ٹیوشنز تو ویسے بھی سات بجے کے بعد شروع ہوتے..."
اُس نے پاندان سے سونف اور سپاری کے دانے اُٹھاتے ہوئے کہا...
"ٹیوشن پڑھانا یوں ضروری بھی نہیں اب.."
مرتضٰی صاحب کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی شفق خاتون بول پڑیں..
"کیوں ضروری نہیں اچھا ہے نا چار پیسے مزید آجائیں گے گھر میں کل کلا کو فرح کی شادی ہوگی اِس کی شادی ہوگی دانیال کی پڑھائی ہے اچھا ہے نا کُچھ پیسے جوڑ لوں گی.."
"بچے کو آرام بھی کرلینے دو شفق پورا دِن آفس میں فارغ نہیں بیٹھا ہوگا وہاں بھی کام کرے گا گھر آکر سکون لینے دو اُسے.."
اُنہیں اپنی بیوی کی یہ بات خاصی ناگوار گزری...
"آپ دونوں تو مت اُلجھیں یار میں بھی چھوڑوں گا ٹیوشن امی کی بات ٹھیک ہے اضافی پیسے ہوں گے تو ہاتھ کھلا ہوگا تھوڑا اور کون سا ہل چلانا ہے ابا گیارہ بجے تک فارغ بھی ہوجاتا ہوں پھر آرام ہی آرام..."
علی نے بیک وقت دونوں کو مطمئن کرنا چاہا..
مرتضیٰ صاحب تاسف سے شفق خاتون کو دیکھ کر مبشر لقمان کے تجزیوں سے لطف اندوز ہونے لگے..
"اے بات سن.."
اُنہوں نے گاؤ تکیے سے ٹیک لگاکر لیٹتے علی کو ٹوکا..
"جا جا کر مُجھے پان چھالیہ لا کر دے ختم ہوگئے ہیں صرف دو ٹکڑے بچے ہیں ابھی پان نا کھاؤں تو حالت بگڑنے لگتی ہے جا میرا بیٹا.."
اُنہوں نے اُسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا...
"تھکا ہوا ہوں اماں کُچھ دیر آرام تو کرلینے دو.."
وُہ عاجزی سے کہتے ہوئے پیر پورے پھیلا چُکا تھا..
"میں خود ہی لے آتی ہوں اللہ کا شکر ہے ٹانگیں سلامت ہے میری ایک ایک چیز کے لیے لِگ لِگ کرتے رہو منحوسوں کی.."
وُہ اپنی بڑی سیاہ چادر اُٹھاتے ہوئے مظلومانہ انداز میں بولیں تو وہ تن فن کرتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا..
"صبر نہیں ہے بس لا دو آپکو آپکے یہ پان شان.."
وُہ ریگ کے پاس کھڑا ہوکر چپل نکالتے ہوئے غصّے سے بولا..
"سیلون لائیو پان اور چھالیہ درمیانی کتری ہوئی اے ہاتھ درد کرجاتے ایک ایک گری کترتے ہوئے ایک ایک چھٹانک لینا..."
وُہ کُچھ بھی جواب دیئے لاؤنج سے باہر نکل گیا تو کُچھ یاد آنے پر وُہ اُس کے پیچھے آئیں..
"کتھا اور تمباکو بھی لے لینا آج ہی چلے گا یہ والا نواب کتھا اور راجہ رانی تمباکو..."
شفق خاتون نے صحن میں کھڑے ہوکر آواز لگائی...
"بھائی میرا فیس فاش بھی لے آنا.."
اوپری منزل سے فرح کی آواز بھی گونجی...
"میرے باپ نے فیکٹریاں لگا رکھی ہیں نا.."
وُہ بڑبڑا کر رہ گیا۔۔

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro