Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۳۳

#محبت_ہوگئی_آخر

قسط نمبر ۳۳

از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

کمرے میں مکمل اندھیرا تھا بلکل ویسے جیسے آج اُس کے اندر تھا وُہ جو کبھی نہیں تھکا تھا آج بری طرح ٹوٹا تھا....

نور نے کمرے میں آکر بتیاں روشن کی تو اُس نے آنکھیں میچ لیں روشنی اب چبھتی تھی آنکھوں کو...

"علی کُچھ کھا لیں پھر آپکی دوائی کا بھی وقت ہورہاہے..."

نور نے ٹرے بیڈ پر رکھتے ہوئے اُسے کہا...

"کیوں لے کر آئی ہو یہ...؟"

اُس کی لہجے میں چٹانوں سی سختی تھی...

"آپ نے دوپہر میں بھی کُچھ نہیں کھایا تھا صبح بھی صرف چار توس کھائے تھے ایسے کیسے ٹھیک ہوں گے آپ.."

اُس نے علی کی بات کو نظرانداز کیا...

"نور میں پہلی اور آخری مرتبہ کہہ رہا ہوں یہ بات اچھے سے اپنے ذہن میں بٹھا لو نہ نیچے کی کوئی چیز اوپر آئے گی اور نہ ہی تُم کسی بھی کام کے لئے نیچے جاؤ گی رہنا تو میں ایک منٹ نہیں چاہتا یہاں مگر صرف اور صرف ابو کی وجہ سے رُک گیا ہوں تُم میری اِس بات کو گرہ باندھ لو آئندہ مُجھے کُچھ نہ کہنا پڑے..."

علی نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا...

"علی امی کی باتوں کا بُرا نہیں مانیں وُہ تو ماں ہیں غصّے میں کُچھ بھی بول دیں گی مگر وہ دِل سے نہیں کہتی..."

"مُجھے کُچھ بھی سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے نور میں بچہ نہیں ہوں ابھی سے نہیں بچپن سے یہ فرق دیکھتا آرہا ہوں بس اب اور نہیں..."

وُہ کُچھ بھی سننے پر آمادہ نہیں تھا...

"اور لیجاؤ اِسے مُجھے کسی کے بھی ٹکڑوں پر نہیں پلنا اور مزید کوئی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے مُجھ سے کیونکہ ابھی میں بلکل بھی اِس کنڈیشن میں نہیں ہوں نور..."

اُس نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ سنایا....

"ٹھیک ہے.."

وُہ بھی ہار مان کر اُٹھنے لگی کہ علی کی نظر اُس کے جلے ہوئے ہاتھ پر پڑ گئی...

"یہ اتنا کیسے جل گیا تمہارا ہاتھ..."

اُس نے نرمی سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر فکرمندی سے پوچھا...

"کُچھ نہیں بس چائے گر گئی تھی چھانتے ہوئے.."

اُس نے صاف جھوٹ بولا...

"رُکو اِدھر ہی.."

علی نے سائڈ دراز سے آئنٹمنٹ نکالتے ہوئے کہا..

"میں نے تُم سے کہا تھا میری بات کو ماننا مگر تُم نے وہی کیا جو تُم کرنا چاہتی ہو.. کتنی بدتمیزی کر رہی تھی وُہ تمہارے ساتھ اور تُم اُلٹا اُسے کُچھ کہنے کے بجائے سوری کہہ رہی تھی.."

وُہ اُس کے ہاتھ پر کریم لگاتے ہوئے کہنے لگا...

"مُجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہورہاہے مطلب میں حیران تھی علی اتنی چھوٹی بات کو کوئی کیسے اتنے بڑے جھگڑے میں بدل سکتا ہے..."

اُس کے لہجے میں ابھی تک حیرت تھی...

"تُم نے مثال تو سنی ہی ہوگی رائی کا پہاڑ بس وہی ہوا..."

علی نے طنزیہ کہا...

"آج نہیں کہو گی کہ میں نے کیوں اتنا کہا نیچے..."

وُہ نجانے کیا جاننا چاہ رہا تھا...

نور کی گردن بے اختیار نفی میں ہلی...

"کیونکہ مُجھے آپکی ضرورت تھی آج آپکا بولنا مُجھے اندر سے بہت مضبوط کرگیا ہے کہ چاہے کُچھ بھی ہوجائے جیسے بھی حالات جب آپکا جیون ساتھی آپکو سمجھتا ہو تو زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے میری یہی تو خواہش تھی "تحفظ" کی جو آپ نے آج مُجھے دیا جو کہ میرا حق بھی تھا.."

اُس نے براہِ راست علی کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا...

"ایک بات پوچھوں.."

علی نے بھی بغور اُسے دیکھتے ہوئے کہا..

"پوچھیں..."

"مُجھے اب ہمارے لیے سوچنا ہے ایک نئے سرے سے شروعات کرنی ہے اور میرے پاس اب کُچھ نہیں ہے بلکل خالی ہوں میں بلکل خالی حتیٰ کہ میری جیب میں اتنی رقم بھی نہیں ہے کہ ہم کل کُچھ کھا سکیں میری جتنی جمع پونجی تھی سب ختم ہوگئی ہے آفس سے پہلے ہی لون لیا ہوا تھا جو اُنہوں نے مِلنے والی سیلری سے کاٹ لیا اب ایک روپے کا آسرا نہیں ایک کٹھن مرحلہ ہے اب ہمارے سامنے کیا تُم میرا ساتھ دو گی اِس سب میں.."

علی کا انداز یوں تھا جیسے اُسے قوی اُمید ہو جواب مثبت ہی ملے گا...

"کیا آپکو پوچھنے کی ضرورت ہے..؟"

اُس نے اُلٹا سوال کیا..

"نہیں بس ایسے ہی دِل چاہ رہا تھا تمہارے منہ سے سُننے کو کہ ہاں تُم میرے ساتھ ہو ہمیشہ چاہے جیسے بھی حالات ہوں زندگی کتنی ہی تنگ کیوں نہ ہوجائے تم کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑو گی..."

وُہ پُر اُمید لہجے میں بولا...

"میں نہیں جانتی آپکو کس طرح یقین دلاؤں کہ چاہے کیسے بھی حالات ہوں میں ہمیشہ آپکو آپکے ساتھ کھڑی ملوں گی..."

نور نے اس کے چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر قطعیت سے کہا...

"اگر نوکری نہیں ملی تو نوبت فاقوں تک کی آسکتی ہے...؟"

"پرسوں پہلا روزہ ہے ویسے بھی.."

اُس کے پاس ہر سوال کا جواب تھا...

"افطار تک کروانے کی حیثیت نہیں رکھتا اب تمہارا شوہر تُم سمجھ کیوں نہیں رہی ہو نور مُجھ پر چیخو چلاؤ تُم ملامت کرو مُجھے... واقعی میں تمہیں کُچھ نہیں دے پایا ساری زندگی میں نے اِن لوگوں کے پیچھے خود کو خوار کیا جب تمہارا وقت آیا تو کیا دے رہا ہوں میں تمہیں ..؟؟"

اُس کے دِل پر بوجھ بڑھتا جارہا تھا...

"اللہ بھوکے پیٹ اُٹھاتا ضرور ہے سلاتا نہیں ہے یہ اُس کی شان ہے میں بھلا کیوں آپ پر چیخوں ؟؟میں کم پڑھی لکھی ضرور ہوں مگر جاہل نہیں.. کیوں ملامت کروں میں آپکو؟؟ مُجھے آپ پر فخر ہے میں جانتی ہوں میرا شوہر ہر ممکن کوشش کرے گا مگر مُجھے بھوکا نہیں سونے دے گا یہ میرا یقین ہے آپ پر..."

"اگر کبھی..."

علی نے کچھ کہنا چاہا مگر اُسے نور نے اُسے روک دیا...

"اگر کبھی سونا پڑا تو اِس میں میرے اللہ کی کوئی بہتری ہوگی وُہ پاک پروردگار دے کر بھی آزماتا ہے لے کر بھی..."

وُہ جانتی تھی علی کیا بولنے والا تھا اِسی لیے اُس کی بات سنے بغیر ہی جواب دے دیا...

"اور میں تمہارا یہ یقین کبھی نہیں ٹوٹنے دوں گا کبھی بھی نہیں میرا وعدہ ہے تُم سے نورِ حیات،نورِ علی بس اِسی طرح میری ہمت بنی رہنا میں بہت جلد تُمہیں ہر وُہ خوشی دوں گا جس کی تُم حقدار ہو آج جو یقین تُم نے مُجھے تمھایا ہے ناں یہ مُجھے کبھی تھکنے نہیں دے گا یہ یقین تو مُجھے ہمت دے گا..."

اُس نے اپنے چہرے پر دھرے نور کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایک نئے عزم کے ساتھ کہا...

"آپکا ساتھ سب سے بڑی خوشی ہے باقی چیزیں بے معنی ہے جب تک یہ میرے ساتھ ہے میں بھی کبھی نہیں تھک سکتی آزمائش ہے ہماری پورا اُترنا ہے..."

"سب ٹھیک ہوجائے گا میں یقین دلاتا ہوں تُمہیں۔۔۔"

"میں ہمیشہ ساتھ رہوں گی یہ وقت ثابت کرے گا.."

اُس نے برجستہ کہا...

"میرے پاس کُچھ پیسے ہیں تقریباً تین چار ہزار روپے کُچھ دِن نکل جائیں گے جب تک انشاءاللہ آپکو کوئی نوکری مِل ہی جائے گی اللہ پر بھروسہ رکھیں..."

اُس نے رسانيت سے کہا..

"تمہارے پاس کیسے آئے مطلب میں نے تو آج تک تمہیں تمہارے لیے پیسے دیے ہی نہیں نا کبھی تُم نے مانگے.."

وُہ شرمندہ ہوکر بولا...

"تو مُجھے کب سے آپ سے مانگنے کی ضرورت پڑ گئی ایک طرح سے ناں میں نے چوری کی ہے آپکی پینٹوں شرٹیں، شلوار قمیض، ٹراؤزر سیدھے کرتے وقت جیب میں سے سو پچاس دس بیس ایسے مُجھے روز ہی ملتے تھے تو میں نے انہیں جمع کرنا شروع کردیا..."

اُس نے ہنس کر بتایا...

"چورنی.." علی نے اُس کی ناک دبا کر کہا...

"ابھی چلتے ہیں سامان وغیرہ لے کر آجاتے ہیں.."

علی نے کھڑے ہوکر کہا...

"آپ بائک چلا لیں گے..؟"

"ہاں اب تو بِلکُل ٹھیک ہے یار میرا ہاتھ..."

"آپ بائک نکالیں جاکر میں برقع پہن کر آئی.."

اُس نے الماری کھولتے ہوئے کہا...

"یہ دوائیاں کہاں لے کر جارہے ہیں آپ.."

اُس نے علی کو ساری دوائیاں شاپرز میں ڈالتے دیکھ کر پوچھا...

"تُم برقع پہن کر نیچے آجانا مزید مُجھ سے سوالات مت کرو نور.."

اُس نے بہت نرمی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا...

وُہ بھی جلدی جلدی برقع پہننے لگی...

"دانیال..." اُس نے صحن میں کھڑے ہوکر آواز لگائی...

"ہاں کیا ہوا..؟"

اُس کے بات کرنا کا انداز ہی بلکل بدلا ہوا تھا...

"یہ لو میری وُہ دوائیاں جو تمہارے پیسوں سے آئی تھی اب مزید تُم پر بوجھ نہیں بننا چاہتا..."

علی نے تھیلی اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا...

"میرے کس کام کی یہ آپ اپنے پاس ہی رکھیں.."

اُس کا انداز مضحکہ اڑاتا تھا جس پر علی کو تپ چڑھ گئی...

"تو میرے بھی کسی کام کی نہیں ہے.."

اُسے نے شاپر کھینچ کر سامنے کچن کی دیوار پر دے مارا...

جس پر دانیال حیرت زدہ اُسے دیکھتا رہ گیا کیونکہ علی کا یہ روپ اُس کے لیے بلکل نیا تھا...

"میں باہر انتظار کر رہا ہوں تمہارا.."

اُس نے سیڑھیاں اُترتی نور سے کہا اور سرعت سے باہر نکل گیا...

_________________________________________

تقریباً ایک گھنٹے بعد اُن دونوں کی واپسی ہوئی دروازہ فرح نے کھولا تھا۔۔۔

"بھائی کیا آپ دونوں واقعی الگ.."

اُس نے علی اور نور کے ہاتھ میں پکڑے شاپرز دیکھتے ہوئے پوچھا..

"کیا اتنی ذلالت کے بعد بھی میں بے غیرتوں کی طرح چپ بیٹھا رہوں..."

علی نے اُسکی بات کاٹ کر کہا...

"ٹھیک کہہ رہے ہو تُم بیٹا..."

سبحان صاحب نے غالبًا اُن کی باتیں سُن لی تھیں...

"میں تمہارے ساتھ ہوں مجھے فخر ہے تُم پر کہ تُم نے بھلے اپنے لیے نہیں کم از کم اِس بچی کے بارے میں تو سنجیدگی سے سوچا اِس کی عزت کو واقعی اپنی عزت سمجھا..."

اُنہوں نے علی کا کندھا تھپتھپا کر کہا...

یہ کُچھ پیسے رکھ لو۔۔"

اُنہوں نے ہزار پانچ سو کئی نوٹ علی کی جیب میں ڈالنے چاہے...

"یہ کیا کر رہے ہیں آپ ابو میں آپ سے پیسے ہرگز نہیں لوں گا..."

اُس نے سبحان صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہا...

"باپ ہو تیرا اور یہ میرے پیسے ہیں جو تو مُجھے دیا کرتا تھا الگ سے میرے لیے آج وہی تیرے کام نہیں آئے تو اِن کا کیا فائدہ..."

اُنہوں نے متانت سے کہا...

"ابو یہ آپکے پیسے ہیں میں نہیں لے سکتا مُجھے خود کُچھ کرنے دیں میری بیوی کے لیے ابھی اتنا ناکارہ نہیں ہوا ہوں کہ باپ کے پیسوں پر اپنی بیوی کو پالوں..."

اُس نے دو ٹوک انداز میں کہا...

"بھائی آپ جذباتی ہورہے ہو..."

"تُم یہاں کی ٹینشن لینا چھوڑ دو بیٹا کم از کم تُم تو اپنے گھر میں خوش رہو..."

علی نے فرح کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا...

"بھائی مُجھے آپ میرے سسرال ہی چھوڑ دیں میں یہاں نہیں رہ سکتی کم از کم دانیال اور اُس بندریا کے ساتھ بلکل نہیں..."

فرح نے بیزاری سے کہا..

"تُم اُوپر چلو میں آکر اسٹور سے انگیٹھی نکالتا ہوں پھر کونے والا باورچی خانہ بھی صاف کرنا ہے..."

اُس نے نور کو اوپر جانے کا کہا...

"میں بھی اُوپر ہی جارہا ہوں تُم تیار ہوکر آواز دے دینا میں چھوڑ آؤں گا ٹھیک ہے..."

علی نے ہموار لہجے میں بات مکمل کی۔۔

"ٹھیک ہے بھائی..."

فرح نے آہستہ سے کہا اور اپنا سامان لینے اندر چلی گئی..."

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro