Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲


#سُنبل_کا_آفاق
دوسری قسط

"حرا جا سنبل کو لے آ..."
سلمیٰ بیگم نے حرا کو ایک طرف لے جاتے ہوئے کہا...
"اور اس آفت کی پرکالہ کو کہہ دینا اپنے منہ پر گوند لگا کر آئے.."
دھیمے لہجے میں سخت تنبیہ کی گئی...
"چل باجی آگئے تیرے سسرالی..."
حرا نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا...
وُہ شرما بھی گئی...
اُٹھ کر دوبارہ خود کو ایک دفعہ آئینے میں نہارا دوپٹا ٹھیک سے بٹھاتے ہوئے کمرے سے باہر جانے لگی...
"کہاں چلی یہ چائے کی ٹرے کون لے کے جائے گا.."
حرا نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹرے اُسے تھمائی...
"کیا مصیبت ہے آگ لگے ایسی رسم بنانے والوں کو لڑکی بھی لے کر جانی اور ٹھوسنا بھی ہے.."
وُہ جلتی کڑھتی کمرے سے نکل گئی "ٹرے" لے کر....

"السلامُ علیکم.."
ڈرائنگ روم میں داخل ہوکر اُس نے سب کو با آواز بلند سلام کیا....
"وعلیکم سلام.."
اتنی ہی تیز آواز دو خواتین اور ایک ہلکی سی آواز ایک آدمی کی بھی تھی...
سُنبل نے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو وہ ایک خوش شکل نوجوان تھا سیاہ شلوار قمیض میں نمایاں ہو رہا تھا...
احمد کے ساتھ محو گفتگو تھا...
اُسکے ہاتھ بے اختیار کپکپائے تھے...
اُس نے فوراً اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے ٹرے سنبھالی ورنہ ممکن تھا ٹرے زمین سے ملاقات کرچُکی ہوتی....
"اللہ کتنا ہینڈ سم ہے..."
اُس نے خود سے کہا....
کانپتے ہاتھوں سے آفاق کی امی چاچی اور دادی کو چائے دی....
"آپ کتنی چینی لیں گے..."
"1 چمچ بس..."
آفاق نے بغور اُسے دیکھتے ہوئے کہا اُس کی آواز بھاری تھی....
"بس ایک چمچ اتنی کڑوی چائے..."
اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا پھر زبان دانتوں  تلے دبا کر خود کو ہی سرزنش کی...
سلمیٰ بیگم نے اُسّے گھوری سے نوازا...
"کھڑوس لگتا ہے.."
سنبل نتیجے پر آ پہنچی...
پیالی پرچ پر رکھ کر اُس نے آفاق کی طرف بڑھائی ہاتھوں میں لغزش اتنی تھی کہ چائے چھلک پڑی...
"آئی ایم سوری.."
سُنبل نے پيالی جلدی سے ٹیبل پر رکھتے ہوئی کہا...
"اٹس اوکے..."
آفاق نے سنجیدہ لہجے میں کہا...
وُہ کوئی اندازہ نہیں لگا پائی...
"بیٹا ہمارے پاس آکر بیٹھو..."
آفاق کی امی فردوس  بولیں...

سُنبل  آفاق کی دادی کے برابر میں جا کر بیٹھ گئی...
"بیٹا کیا کرتی ہو آپ..."
سوال آفاق کی چاچی کی طرف سے تھا...

اُس نے سلمیٰ بیگم کی طرف دیکھا اُن کی آنکھیں تنبیہی انداز میں سکڑی تھی....
سُنبل نے تھوک نگلا اور بولا...

"کُچھ نہیں آنٹی بس کالج اسٹڈیز اور گھر کے کام کاج..."
اُس نے بات بنائی...
سلمیٰ بیگم نے  اُسے سراہتی نظروں سے دیکھا...

"اچھی بات ہے بیٹا اور کیا مصروفیات ہیں آپ کی مطلب آپ کو کس چیز کا شوق ہے..."
آفاق کی چاچی نے پوچھا...

اب کی بار اُس نے سلمٰی بیگم کو ایسی نظروں سے دیکھا گویا کہہ رہی ہو اب میری غلطی نہیں یہ خود مُجھے اُکسا رہی ہیں۔۔۔۔..

"کُچھ زیادہ نہیں آنٹی بس ناولز وغیرہ پڑھتی ہوں یہی واحد شوق میرا رسالے ڈائجسٹ نونہال،بچوں کا باغ،ساتھی،آنکھ مچولی،خواتین ڈائجسٹ.. بس یہی شوق میرے...."
سُنبل نے فخریہ انداز میں بتایا تُو سلمٰی بیگم نے دِل ہی دِل میں سوچ لیا رشتہ گیا...

"اے فوزیہ مُجھے بات کرنے دے بچی سے...."
آفاق کی دادی نے پکی سہیلیوں کی طرح سُنبل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا...

"بیٹا تیری عُمر کیا ہے..."
اُنہوں نے اپنی الگ تفشیش شروع کی...
سُنبل اس سوال کے لیے تیار ہی نہیں تھی گھبراہٹ کے مارے منہ سے بس "جی"نکلا...

"کیا کہہ رہی ہے..."
اُنہوں نے ایک ہاتھ کان پر رکھ کر کہا...

"جی بیس سال.."
اُس نے حرا کو دیکھتے ہوئے کہا جس نے اپنی ہنسی روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھا تھا.....

"اے فردوس یہ تو اپنے آفاق سے بڑی ہے تیس سال کی عورت ہے..."
وُہ ملامتی انداز میں فردوس سے گویا ہوئی...

چائے پیتے ہوئے آفاق کو اچّھوکا لگا تھا...
سُنبل نے اُسے دیکھا وہ ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا....

"وُہ امی کو تھوڑا کم سنائی دیتا ہے..."
فردوس نے وضاحت پیش کی...
"امّی بات سنیں..."
فوزیہ نے اُن کا دھیان سُنبل کی طرف سے ہٹانا چاہا....

"نہیں بھئ میں اپنے اکلوتے پوتے کی شادی کسی  عورت سے نہیں کروں گی..."
وُہ تو بس اپنی بولی جارہی تھی...

" تو کیا "خواجہ سرے" سے کروائیں گئیں..."
سُنبل نے جل کر سوچا....

"کھانے میں کیا کیا بنا لیتی ہو..."
وُہ اب لٹھ مار انداز میں بولی....

"بے وقوف بہت اچھا بنالیتی ہے..."
حرا نے سنبل کے کان میں کہا تو اُسے مرچیں ہی لگ گئیں مگر چُپ کرگئی ابھی سامنے اُس سے بڑی مُشکِل  تھی...

زبیدہ خاتون بڑی گہری نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھیں...
"جی کُچھ نہیں..."
سُنبل نے سچ کا دامن تھامتے ہوئے کہا...
سلمٰی بیگم نے رشتے پر فاتحہ پڑھ لی....

"ہائے رس ملائی مُجھے بھی بڑی پسند..."
زبیدہ خاتون کے تاثرات پل بھر میں پھر سے دوستانہ ہوئے...

سُنبل کا دِل کیا اپنا سر پیٹ لے...
اُس  نے رحم طلب نظروں سے فردوس اور فوزیہ کی طرف دیکھا مگر وہ دونوں خود بے بس سی نظر آئی....

"اے لڑکی کتنا پڑھا ہوا ہے.."
"جی ہارویں میں ہوں۔۔۔۔"
سنبل نے جان کر عجیب سا لفظ بولا...

"اچھا اچھا بارہویں میں پر 30 سال کی عمر میں بھی بارہویں میں کتنی بار فیل ہوئی ہے..."
سُنبل جہاں بارہویں لفظ صحیح سمجھنے پر خوش ہوئی تھی وہی فیل والی بات پر اُس کی شکل روہانسی سی ہوگئی تھی...

"نام کیا ہے تیرا.."
وُہ اپنی عینک ٹھیک کرتے ہوئے بولیں...
"سُنبل.."
اُس نے ڈرتے ڈرتے بتایا....

"آئے ہائے فردوس کہاں لے آئی تو تیس سال کی لڑکی اوپر سے نام بھی  ہندو والے بھلا یہ کیسا نام ہوا "چُھمن".اے میں نے تو نا سنے ایسے اترنگی نام..."
وُہ بُرا سا منہ بناتے ہوئے سُنبل کو ناگواری سے دیکھتے ہوئے بولی...

"اچھا سلمٰی بہن ہم چلتے ہیں کل  تک آپکو بتا دیں گے..."
فردوس نے اُٹھنے میں ہی عافیت جانی ورنہ اگر وُہ ایک اور سوال کرتی تو سُنبل رو ہی پڑتی...

سلمٰی بیگم اور احمد اُنہیں چھوڑنے کے لیے دروازے تک آئی آفاق کا موبائیل اندر ہی رہ گیا تو وُہ لینے واپس آیا..

سُنبل نے جاتے ہی سُکھ کا سانس لیا اور صوفے پر دونوں پاؤں اوپر کرکے بیٹھ گئی اور پیٹیز نوش فرمانے لگی...

"اتنی گھبرائی تو کبھی پیپر کے وقت بھی نہیں تھا جتنا آج اُس چمپو کی دادی کی وجہ سے پریشان ہوئی.."
اُس نے حرا سے کہا جو ہنس ہنس کر دوہری ہورہی تھی...
"چمپو... ہائے باجی اتنے اچھے تو ہیں..."
"ممی ڈیڈی ہے پورا.."
سُنبل سخت چڑے ہوئے انداز میں بولی...

جبکہ حرا کی ہنسی کو بریک لگے تھے...
"یہ ایسی منحوس شکل کیوں بنا لی پتا ہے مُجھے تم عجیب سی ہو پر ابھی کیا ہوا..."
سُنبل چپس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے کولڈ ڈرنک سیدھا بوتل سے منہ لگاتے ہوئے پی رہی تھی....اُس کی نظر بھی آفاق پر پڑی تھی...
اچھوکا لگنے سے ایک پچکاری کے ساتھ کولڈ ڈرنک منہ سے نکل گئی اور گیس بنی ہوئی کولڈ ڈرنک ایک دم سے اُچھل کے اُس کے منہ پر آگئی....

حرا ہنسنے لگی....
آفاق ضبط کی انتہا پر تھا...
سُنبل نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چپس منہ میں ڈالے اور جلدی جلدی منہ چلاتے ہوئے مُسکرا کر اُسے دیکھنے لگی منہ اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے چپس کے کُچھ ٹکڑے نیچے گر پڑے....
ایک عجیب سا منظر تھا ہونق زدہ سُنبل کا چہرہ اور ہنسی ضبط کرتا
آفاق....
"وہ میرا موبائیل رہ گیا تھا۔"
وہ جلدی سے صوفے سے اپنا موبائیل اٹھاتے ہوۓ بولا۔
سنبل صرف منہ چلاتے ہوۓ مضحکہ خیزی کی تصویر بنی اسے دیکھی جارہی تھی۔ آفاق واپسی کے لیے مڑا پھر کچھ سوچ کر پلٹ کے دیکھا۔ "ویسے آپکا کھانے کا انداز بہت مہذب ہے.."
مسکراہٹ ہونٹوں میں دباۓ ہوۓ اسکی جانب جملہ اچھال کر وہ کمرے سے جاچکا تھا جبکہ اسکے اس شستہ سے طنز پر سنبل تو جیسے کسی شہید کا مجسمہ بن گئی تھی۔

"منہ تو بند کرلو باجی۔ وہ جاچکے ہیں۔ "
حرا نے بوتل سے ابل ابل کر باہر گرتی پیپسی کے غصے کو ٹھنڈا کرتے ہوۓ سنبل کو یاد دلایا کہ وہ منہ وا کیے ہوۓ کھڑی ہے...
سنبل نے جلدی سے منہ بند کیا اور اسے خشمگیں نظروں سے گھورتی کمرے سے واک آٶٹ کرگئی
   ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"تو میں کیا کرتی امی ارے  بی بی میرا دِماغ کی دہی کردی تھی اللہ توبہ قسم سے ایک منٹ اور رُکتی میں پکا رودیتی.."
وُہ مسکین صورت بنا کر بولی...

"ویسے اگر تمہارا رشتہ اُس گھر میں ہوگیا تو سیر کو سوا سیر مِل جائے گا خوب بنے گی تُم دونوں  کی..."
احمد نے اُس کے سے پر ہلکی  چپت رسید کرتے ہوئے کہا...

"نا بیٹا جو آج اِس نے کیا ہے اُسکے بعد تو وُہ لوگ کبھی اِس طرف نہیں آئیں گے..اتنا اچھا لڑکا تھا خود کا وہ کیا کہتے ٹليٹی اسٹور ہے..."
"امّاں یوٹیلیٹی اسٹور.."
احمد نے تصیح کی...
"ہوں...اچھا لڑکا تو ایسے بول رہی ہے جیسے بڑا کوئی بزنس مین ہے پرچون والا..."
سُنبل ناک چڑھا کر بولی...

"اے بی بی زمین پر آ جا گیارہویں فیل دو سپلیاں لگا کر بیٹھی ہیں اور محترمہ کے مزاج ہی نہیں ملتے..."
سلمٰی بیگم نے اچھی طرح مزاج پوچھے....

"پتا نہیں کیسی ماں ہیں آپ باقی مائیں اپنے بچوں کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتیں اور ایک آپ جنہیں سارے جہاں کو چھوڑ کر اپنی اولاد ہی سب سے بگڑی ہوئے لگتی..."
اب کی بار احمد بولا سُنبل اُس کی ہمدردی پاکر اُس ہی کی گھٹنے پر سر رکھ کر لیٹ گئی...

"امی میں نے کیا کیا آپکو تو بس سارے کیڑے مُجھ میں ہی نظر آتے..."
"کیا ضرورت تھی بولنے کی کھانا بنانا نہیں آتا ارے لوگ گھرداری ہی دیکھتے ہیں.."
وُہ اُسکی گدی پر ہاتھ مارتے ہوئے بولیں..
"ہاں تو اگر شادی کے بعد پتا چلتا تو بڑا عزت رہ جانی تھی..."
سُنبل ترکی بہ ترکی بولی...
"زبان چلوا لو بس قینچی کی طرح...

"اور کیا ضرورت تھی اپنے موئے ناولوں کے بارے میں بکنے کی...اتنے فخر سے بتا رہی تھی جیسے ناول نہیں ایل ایل بی کی کتابیں ہو.."
اُنہوں نے چینل بدلتے ہوئے کہا....

سُنبل کو ناول لفظ سے کُچھ یاد آیا فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئی...

"آج تو ليی عون نے "تیرے لیے ہی تو دھڑکے دِل میرا کی قسط دی ہوگی..."
اُسے یاد آیا اور فوراً اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی....
"ہاں جا لگ جا اپنے سگے کے ساتھ بیڑا غرق ہو اِن موبائیل بنانے والوں کا آگ لگ جائے سارے موبائیلوں کو..."
وُہ ہمیشہ کی طرح آخر میں فساد کی جڑ موبائیل کو ہی  کوسنے لگ گئیں...

سُنبل نے کمرے میں جاکر جلدی سے ڈیٹا کنیکشن آن کرکے پیج کھولا تو وہاں کی پوسٹ دیکھ کر اُس کا اشتعال مزید بڑھ گیا....
مختصر یہ کے ایپی کل آئے گی....
سُنبل جو ایپی پڑھ پڑھ کر کھسک جایا کرتی تھی تنقید کرنے کے لیے اور اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے ایک لمبا سا لو لیٹر ٹائپ کرکے پوسٹ کردیا...
جس کے دو منٹ بعد ہی جواب آگیا...
"ہر کسی کی مجبوری ہوتی ہے سمجھنا چاہیے..."
"بڑی ہی ڈھیٹ ہے یہ لڑکی..."
اُس نے ليی عون کو القابات سے نوازا اور موبائیل بند کرکے لیٹ گئی....

"ویسے تھا اچھا پرچون والا..."
آفاق کو تصور کرکے سوچا...

"کھڑوس سا طاہرہ کے احتشام کی طرح..."
"ہائے نہیں کہاں احتی کہاں وُہ پرچون والا..."
خود نے ہے  اپنی رائے کی نفی کی...

موبائل پر بیپ ہوئی...
اُس نے لاک کھول کر دیکھا تو واٹس ایپ پر انجان نمبر سے ہائے کا میسج آیا تھا...
"یہ کون ہے..."
سُنبل نے خود سے کہا پھر بغیر کوئی جواب دیے موبائل بند کردیا...

آنکھیں موند لیں اور سوگئی....

  ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

اگلے ہی دن اُن لوگوں کا جواب آگیا اُنہیں سُنبل اپنے آفاق کے لیے بہت پسند آئی تھی....
مگر اُنہوں نے منگنی کے بجائے نکاح کا کہا اور عید کے بعد رُخصتی جسے سُنبل کے گھر والوں نے بخوشی مان لیا....

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro