Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

اخری قسط (آخری حصہ)

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
آخری قسط (آخری حصہ)
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

اگلے دِن لنچ ٹائم کے وقت اُنہیں مارٹ کے آنر کے وزٹ کی خبر ملی تو وہ سب اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھی سارہ مارٹ کی باقی لڑکیوں سے بھی بات کرچکی تھی اُن سب نے ساتھ دینے کو یقین دہانی کروائی تھی یہاں تک کہ مارٹ میں کام کرنے والے لڑکے بھی ساتھ دینے کے لیے تیار تھے...
"کیا جھمگٹا لگا کر رکھا ہے کوئی کام نہیں ہے کیا تُم لوگوں کو.."
خضر نے اُن تینوں کو ساتھ کھڑے دیکھ کر بدتمیزی سے کہا..
"کام تو بہت ہے اب ہر کوئی آپ کی طرح تو ہوتا نہیں ہے کہ سوٹ بوٹ پہن کر بس دوسروں پر چیختے چلاتے پھرے.."
سارہ نے تلخی سے جواب دیا.
"اِس کے لیے بھی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے ڈیر ایسے ہی کوئی اپنا کروڑوں کا کاروبار آپ کے بھروسے نہیں چھوڑ دیتا.."
اُس نے تمسخر اڑایا..
"ہاں جب آپ جیسے لوگ مقابل ہو جو سامنے والے کو بوتل میں اُتارنے کا ہنر جانتے ہو تو کون نہیں آئے گا اِس فریب میں.."
سارہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا.
"مگر تُمہیں نہیں اُتار سکا  اب تک بوتل میں میری جان اِس کا افسوس ہے خیر آج نہیں تو کل یہ کارنامہ بھی سرانجام دے ہی دوں گا آج نہیں تو کل باقیوں کی طرح تُم بھی میرے آگے گھٹنے ٹیک ہی دو گی.."
وُہ اپنی مکروہ ہنسی کے ساتھ بولا..
"نوکری باقی رہے گی تو کچھ کرسکو گے تُم اُلو کے پٹھے.."
سارہ نے آہستہ سے کہا..
"کُچھ کہا کیا تم نے ۔۔" وُہ اپنا چہرہ تھوڑا قریب لاکر بولا..
"علاج کرواؤ اپنا دِماغ کے ساتھ ساتھ کان کا بھی اب جاؤ دفع ہو ادھر سے ہمیں بہت کام ہیں تُمہاری طرح فارغ نہیں."
کب سے چُپ کھڑی عائشہ ترشی سے بولی..
"واہ آج تو اِس کے منہ میں بھی زبان آگئی.. اچھا ہے،اچھا ہے مزہ آئے گا۔" خضر نے تمسخر اڑایا..
ابھی وُہ لوگ بات کر ہی رہے تھے کہ سامنے سے مارٹ کے آنر صدیقی صاحب آتے دکھائی دیے۔
"تُمہیں تو بعد میں دیکھوں گا میں.."
وُہ عائشہ کو دھمکاتا آگے بڑھ گیا تو بینش نے آنکھ کے اشارے سے باقی لڑکیوں کی ایک بار پھر تائید چاہی تو سب نے ہمت افزا جواب ہی دیا..
"ایکسکیوز می سر.." بینش نے بہت نرمی سے کہا..
خضر کو لگا کہ اُسے بلایا ہے کیونکہ سب کے سامنے وُہ اُسے سر ہی بولتی تھی..
"مس بینش میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں.."
"تُم سے نہیں سر تابش صدیقی سے بات کرنی ہے.."
اُس نے خضر کو یکسر نظر انداز کیا..
"آپ کو جو بھی کام ہے آپ پلیز مُجھے بتا دیجئے گا سر کے پاس ٹائم نہیں ہے وُہ جلدی میں ہیں .." خضر کی چھٹی حس نے کسی خطرے کی طرف اشارہ کیا..
"سر ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لیں گے بس ہمیں آپ کو اُن باتوں سے آگاہ کرنا ہے جو آپ کے پیچھے سے اِس مارٹ میں ہورہی ہیں اور وُہ کوئی اور نہیں وہی شخص کررہا ہے جس کے ہاتھ میں ساری باگ ڈور دے رکھی ہے آپ بس تھوڑی دیر رُک کر ہماری بات سُن لیں پلیز.."
عائشہ نے مداخلت ضروری سمجھی۔
"بولیں کیا کہنا ہے آپ کو میں سُن رہا ہوں.."
تابش صدیقی ہمہ تن گوش تھے۔
"سر چھوڑیں اِنہیں آپ کو ضرورت نہیں ہے اِن معاملات میں اُلجھنے کی میں دیکھ ۔"
اُنہوں نے ہاتھ اُٹھا کر خضر کو مزید بولنے سے باز رکھا..
خضر کا بس نہیں چل رہا تھا اِن لڑکیوں کی جان نکال لے..
"سر آپ نے جس اِنسان کے حوالے اپنی رزق کے ذریعے کے کیا ہوا ہے وُہ یہاں کس قسم کی گھٹیا اور اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرتا ہے کیا آپ کو اِس بات کا علم ہے ۔۔"
بینش نے متانت سے کہا جبکہ نظریں خضر کے دُھواں دُھواں ہوتے چہرے پر تھیں..
"یہ کس قسم کے الزامات۔" خضر نے اپنا دفاع کرنا چاہا مگر ایک بار پھر اُسے کُچھ کہنے سے روک دیا گیا اور بینش کو اپنی بات جاری رکھنے کا کہا۔
"آپ چاہیں تو یہاں موجود ہر ایک لڑکی سے بلکہ میل اسٹاف سے بھی اِس گھٹیا اِنسان کی حرکتوں کی بابت دریافت کرسکتے ہیں کہ کس طرح یہ معصوم لڑکیوں کو ہراساں کرتا ہے،بلیک میل کرتا ہے جاب سے نکلوانے کی دھکمیاں دیتا ہے، ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا ہے، کس قسم کی بیہودہ آفرز دیتا ہے چلتے پھرتے گندے فقرے چست کرتا ہے اور اِس کی نظریں
اتنی غلاظت بھری ہیں کہ ہمیں خود سے شرم آنے لگتی ہے مگر اِس اِنسان کو رتی برابر شرم نہیں آتی.."
بینش نے اپنی بات مکمل اعتماد اور پورے سیاق و سباق کے ساتھ مکمل کی تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہ جائے..
مارٹ میں موجود کسٹمرز بھی حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے..
"سر یہ سازش ہے اِن سب کی.." خضر کی سمجھ نہیں آرہا تھا وُہ کہے تو کیا کہے اُس کے تو وہم وگمان بھی نہ تھے کہ جن لڑکیوں کو کمزور اور بے بس سمجھ کر اپنی کمینگی دکھایا کرتا تھا وُہ اُسے ایسا پدا ماریں گی..
"سر بینش بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے .." مارٹ کے باقی تمام فیمیل اور میل ایمپلائیز نے یک آواز ہوکر اُس کی تمام گھٹیا حرکتوں کو سند اُسی کے منہ پر دے ماری تھی جس پر وہ بوکھلا اُٹھا۔
"یہ ساری بے سروپا باتیں ہیں سر میں اِن لڑکیوں کو کام کے وقت کوئی رعايت نہیں دیتا ہوں نہ اِن کی باتیں مانتا ہوں تو اِن سب نے میرے خلاف گٹھ جوڑ کرلیا ہے آپ اِن کی باتوں میں نہ آئیں.." خضر نے اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے اپنے لہجے کو حتیٰ الامکان مضبوط رکھا۔۔
"میرے پاس ثبوت ہے۔ طاہر بھائی ذرا وُہ ویڈیو سر کو دکھائیں.." بینش نے خضر کے سر پر بم پھوڑا اور ویڈیو والی بات سے تو باقی لڑکیوں سمیت عائشہ اور سارہ بھی لاعلم تھیں۔۔
طاہر مارٹ کے ہاؤز کیپنگ اسٹاف کا ہیڈ تھا جو شروع سے اِن لوگوں کے ساتھ تھا اور جب خضر تابش صدیقی کی آمد سے قبل سارہ اور عائشہ سے بیہودہ باتیں کر رہا تھا تب ہی بینش نے پیچھے ریگ میں کھڑے طاہر کو اشارہ کردیا تھا اور خضر کے ذہن کی گندگی اُنہوں نے کیمرے کی آنکھ میں بند کرلی اور اب وُہ ویڈیو چیخ چیخ کر خضر کی سچائی بیان کر رہی تھی..
"کیسے لوگوں کو کام پر رکھا ہوا ہے آپ نے یہاں کام کر رہی ہر لڑکی کی عزت اور تحفظ کی ذمے داری آپ کی ہے مگر آپ اِس سب سے قطعی انجان ہیں کہ آپ کے پیچھے وُہ شخص جسے آپ نے ساری ذمے داری دے رکھی ہے وُہ کیا کرتا پھر رہا اندازہ بھی ہے آپ کو یہ کتنا سنگین مسئلہ ہے ورک پلیس ہراسمنٹ کا کیس بنتا ہے اِس اِنسان پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 509 کے مطابق اِس گھٹیا شخص کو لڑکیوں کے ساتھ  الفاظ سے،  رویے سے بے توقیری کرنے کے جُرم کی پاداش تین سال قید کی سزا، یا جرمانہ، یا پھر دونوں ہو سکتے ہیں۔"
کسٹمرز میں سے ایک عورت نے سامنے آکر تابش صدیقی سے کہا۔۔
"میں ایڈووکٹ زُلیخا احمد ہوں اور اب جبکہ میں یہ ساری صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھ چُکی ہوں وُہ بھی ثبوت کے ساتھ تو کیس بنتا ہے مگر پھر بھی میں چاہتی ہوں آپ بذاتِ خود انصاف قائم کریں اور اِس شخص کی قانون کے حوالے کریں۔" پروقار سراپے میں ملبوس اُس عورت کے بولنے کا انداز بھی بہت نفیس تھا..
"میں تُمہیں ابھی اور اِسی وقت جاب سے نکالتا ہوں اور صرف یہی نہیں میں خود تُمہیں پولیس کے حوالے بھی کروں گا اِس جگہ سے صرف اِن لوگوں کا ہی نہیں میرا بھی رزق جڑا ہے اور یہاں ایسے گھٹیا کاموں کی اور ذلیل لوگوں کی کوئی جگہ نہیں ہے.."
تابش صدیقی نے تمام ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے وہی فیصلہ کیا جو کوئی بھی اِنصاف پسند شخص کرتا..
خضر نے ایک لفظ نہیں بولا وُہ تو بس بغلیں جھانک رہا تھا اِس قدر کركری پر اُس کی زبان کو تو جیسے لقوا ہوگیا تھا اور آنکھوں پر جیسے کسی نے بھاری بوجھ رکھ دیا ہو مسلسل جُھکی ہوئی تھیں.
"میری لا علمی یا کمزوری کی وجہ سے میرے ورکرز کو جن پریشانیوں کا سامنہ کرنا پڑا اُس کے لیے میں آپ سب سے معذرت خواہ ہوں وکیل صاحبہ نے بلکل درست کہا آپ سب میری ذمے داری ہیں اور مُجھے اِس بات کوئی ماننے میں کوئی عار نہیں کے میں نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی مگر آئندہ کے لیے یقین دلاتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا اور اگر ایسا کبھی بھی کچھ ہوا تو چھوٹے سے لے کر بڑے ہر ملازم کو اجازت ہے بلا جھجھک آکر مُجھ سے بات کرے.."
تابش صدیقی کا لہجے میں واقعی پشیمانی تھی..
میں اِس بات کی آپ کو یقین دہانی کرواتی ہوں کہ آپ کے مارٹ پر کوئی کیس نہیں ہوگا مگر یہ بات ضرور ملحوظ خاطر رکھی جائے کے آئندہ کسی بھی اِنسان کو نوکری پر رکھتے وقت اُس کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ بطور اِنسان وُہ شخص کیسا ہے اِس بات کو بھی ترجیح دی جائے.."
زُلیخا احمد نے متانت سے کہا اور لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئیں.
"مُجھے فخر ہے آپ جیسی ساری با ہمت خواتین پر آپ لوگوں نے جنسی ہراسگی کے سامنے چُپ سادھنے کے بجائے آواز اُٹھائی اور اپنی جیسی اُن تمام ورکنگ ویمنز کے لیے ایک مثال قائم کی ہے جہاں ہمارے اِس معاشرے میں عورت صرف اِس لیے آواز اٹھانے سے ڈرتی ہیں کہ اگر وہ ہراسیت کی شکایت کریں گی تو ان کے کردار، ان کے لباس، چال چلن پر تنقید کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا اور اِس پر تنقید کرنے والی آپ کو عورتیں مردوں سے زیادہ ملیں گی جن کی سوچ صرف اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود ہے اور اِس میں اُن بیچاریوں کا بھی کوئی قصور نہیں ہے یہ سوچ اُن کے ذہنوں میں نسل در نسل منتقل ہوئی ہے زمانہ جاہلیت میں جہاں عورتوں کو پیر کی جوتی سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا تب ہمارے دین نے عورت کو وُہ عزت دی جس کی وُہ حقدار تھی مگر دین نے عزت دی تو دُنیا اور معاشرے نے چھین لی عورت کو پھر وہی اُسے مقام پر لا پھینکا جہاں وہ اُس وقت تھی جب اُسے اپنے حقوق کے بارے میں علم نہیں تھا اور اسی سوچ نے ہمارے معاشرے میں عورت کا کھل کر سانس لینا محال کیا ہوا ہے۔ مردوں کے اِس معاشرے میں عورت کا سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ وُہ "عورت" ہے۔۔"
زُلیخا خان نے اپنی بات کو ادھورا چھوڑ کر اِرد گرد دیکھا تو وہاں موجود ہر عمر کی عورت اور مرد اُن کی طرف متوجہ تھے کُچھ ہنس رہے تھی کُچھ سنجیدگی سے سُن رہے تھے اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھی..
"وُہ عورت جسے گھر پر بیٹھے اُس کے محرم سے لے کر سڑک پر چلتے نا محرم بھی اُس کے کردار کی سند دیتے پھرتے ہیں، ہراسگی اور زیادتی جیسے شدید قابلِ مذمت فعل کے خلاف آواز اٹھانے پر سراہنے والی دس آوازوں کے ساتھ ہزار آوازیں کردار کشی کرنے والی ہوتی ہے۔ ننگے سر باہر کیوں نکلی،بغیر دوپٹے کے باہر کیوں نکلی،برائے نام پردہ،رسی کی طرح گلی میں ڈالا تھا دوپٹہ،عورت کی عزت پردے میں ہے،بغیر آستینوں کو قمیض اور چست پاجامے پہن کر خود ہی دعوتِ گناہ دیتی ہیں اور اگر کچھ ہوجائے تو پھر ڈرامہ, اچھا ہی ہوا اِس کے ساتھ، ہمارے اسلامی معاشرے کو تباہ کر دیا ہے ، یہ کیا بیغیرتی ہے،كنجر خانہ لگا رکھا ہے،طوائفیں ہیں ساری، یہ ساری وُہ آوازیں ہیں جو ہر اُس عورت کو سننے کو ملتی ہیں جو ظلم کے خلاف چُپ رہنے کے بجائے مجرموں کو بے نقاب کرنے کا راستہ چنتی ہیں مگر یہ آوازیں اُس کی ہمت پسپا کرتی ہے، اِس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے دین نے عورت کے پہننے اوڑھنے کے بارے میں کو حکم دیا ہے وُہ صحیح ہے مگر ہمارے دین نے یہ کہیں نہیں کہا کہ جو اِن باتوں کو نہ مانے اُس کے جسم کو بھنبوڑ کر رکھ دو ، عورت ہر حال میں ہر صورت میں قابلِ عزت ہے اور مرد پر اُس کا احترام لازم ہے خود خُدا بن کر جہنمی یا جنتی ہونے کا سرٹیفکیٹ بانٹنے کے بجائے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے اِس معاشرے میں عورت کے لیے جو گھٹن ہے اُسے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہر وُہ عورت جو کہیں پر بھی کسی بھی طرح کے ظلم اور زیادتی کا شکار ہے وُہ بلا خوف سامنے آکر انصاف کی اپیل کرسکے۔۔"
وُہ اپنی بات مکمل کرچکی تو پورا مارٹ تالیوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔

                         ••••••••••••••

"خالہ کتنی ہی بار کالز کرچکی ہوں مگر فون مسلسل بند آرہا ہے صبح کے نکلے ہوئے ہیں رات ہوگئی ہے.."
راشدہ نے بے چینی سے کہا..
"ہوسکتا ہے کسی کام میں پھنس گیا ہو آجائے گا تھوڑی دیر تک.."
منیرہ نے  تسلی آمیز انداز میں کہا جبکہ پریشان وُہ خود بھی تھیں کیونکہ اِس سے پہلے جنید نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا گھر آنے میں دیر اکثر ہوجاتی تھی مگر فون کبھی بند نہیں ہوتا تھا..
"پتا نہیں کیوں خالہ میرا دِل بیٹھا جارہا ہے عجیب سی حالت ہورہی ہے.."
راشدہ نے دوپٹے سے اپنی عرق آلود پیشانی صاف کرتے ہوئے کہا..
"کُچھ نہیں ہوگا ایسے ہی لگ رہا ہے تُجھے ابھی آتا ہی ہوگا.."
منیرہ نے تسبیح کے دانے متواتر گراتے ہوئے کمزور آواز میں کہا اُن کی خود کو حالت بھی عجیب ہورہی تھی شام سے بار بار اُن کی آنکھوں کے سامنے جنید کا چہرہ گھوم رہا تھا جیسے وُہ اُنہیں پُکار رہا ہو بہت ہی تکلیف میں ہو. عائشہ اور اُس کے بچوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے سارے منظر اُنہیں یاد آرہے تھے..
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی..
"جنید آگئے.." خدا کا شکر ادا کرتی راشدہ دروازے کی جانب لپکی منیرہ نے بھی جیسے سکون کی سانس لی مگر جیسے ہی دروازہ کھولا قیامت اُن کی منتظر تھی. باہر کوئی انجان شخص تھا اور اُس پیچھے لوگوں کا ایک ہجوم دروازے سے تھوڑی دور ایمبولنس کھڑی تھی جس کا دروازہ کھول کر لوگ میت کاندھوں پر اٹھائے چھ آدمی اور اُن کے پیچھے محلے کی کافی عورتیں اور مرد اندر داخل ہوئے کسی نے آگے بڑھ کر راشدہ کو سہارا دیا تو کسی نے منیرہ کو گلے لگایا مگر  اُنہیں کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے پھر کسی نے جیسے اُن کے کانوں میں صور پھونکی..
"جوان بیٹے کی موت ہے سکتہ ہوگیا ہے بیچاری کو صبح بھلا چنگا گھر سے نکلا تھا ٹرک سے ٹکر ہوگئی گاڑی کی.."
منیرہ جیسے گہری نیند سے جاگی جھپاک سے آگے بڑھی اور گلی میں جا کھڑی ہوئی مگر جنہیں ڈھونڈھنے بھاگی تھی وُہ وہاں نہیں تھے..
"میرے بچوں کو رکھ لیں صرف ایک رات بلکہ صرف چند گھنٹے میں فجر میں لئے لے جاؤں گی اِنہیں اپنے ساتھ باہر بہت سردی ہے میرے پاس کوئی دوسری جگہ نہیں..."
"کوئی ایک تو سن لے بس مُجھے نکال دیں مگر میرے بچوں کو آج رات یہیں رہنے دیں میں صبح آکر لے.."
عائشہ کی منت سماجت کرتی صدائیں منیرہ کے کانوں میں ٹکریں مار رہی تھیں.
"امی دروازہ کھولیں امی بچوں کو لے لیں امی..."
محلے کی عورتیں منیرہ کو اندر لے آئیں صحن کے بیچ میں جنید کی میت رکھی تھی راشدہ ایک طرح بیہوش پڑی تھی۔۔
"بس ایک رات صرف ایک رات یا اللہ رحم کر مُجھ پر رحم کر.."
"امی دروازہ کھول دیں میرے بچوں کو لے لیں بس ایک رات صرف ایک رات۔۔۔"
"دادی بس ایک رات دروازہ کھول دیں..."
"دادی دروازہ کھول دو.."
خود کو لوگوں کی گرفت سے آزاد کرواتی وُہ دوبارہ گھر سے باہر بھاگی اور چیخ کر بولی..
"پورا دروازہ کھلا ہے .._
"خُدا تُم لوگوں کو برباد کرے تمہارا کیا تمہارے بچوں کے آگے آئے کبھی خوش نہیں رہ سکو گے تُم لوگ میرے بچوں کو بے گھر کرکے تُم لوگ بھی بس نہیں سکو گے  میرے ہاتھ عرش کی طرف اُٹھے ہیں یا اللہ میری بددعا ہے اِن فرش والوں کو نیست و نابود کردے موت مانگیں موت نہ ملے جینا چاہیں جی نہ سکیں میری بد دعا ہے تُم لوگوں کو کبھی سکھ نہیں پاؤ گے کبھی نہیں مجھے اللہ کو قسم مرتے دم تک معاف نہیں کروں گی کسی کو..."
عائشہ کی بددُعا لگ گئی تھی جوان اور سب سے پیارے بیٹے کا جنازہ دیکھ کر منیرہ نے اپنی موت کی دُعا مانگی مگر اُسے نہ آئی جی وُہ سکتی نہیں تھی..
"ہائے میرا جنید میں میرا کتنا پیارا بیٹا،ہائے میری گود اجڑ گئی.." وُہ اب بین کر کر کے رو رہی تھیں..

"ہائے اللہ... یہ کیسا منظر دیکھ رہی ہوں میں. میں خالی ہو گئی آج. ہائے مولا... یہ دن کیوں دکهایا مجهے... ہائے..."
منیرہ نے میت پر رک کر منہ سے کف گراتے جو منہ میں آیا بولنا شروع کر دیا. ان کی حالت پاگلوں کی سی ہو گئی تهی.
ہائے میرا جنید.."
اب وہ ہاتھ جهلا جهلا کر طرح طرح کے بین کر رہی تهیں. ان کی حالت سے وہاں اک کہرام برپا ہوا. ہر آنکھ سمندر ہونے لگی. اس وقت کچھ رشتہ دار خواتین بهی گهر پہنچیں اور ایسے ہی مختلف بین کرتی ہوئی لپک کر ان سے لپٹ گئیں. وہ منیرہ کا درد سمجھ بٹا رہی تهیں. انہیں ڈهارسیں دے رہی تهیں لیکن وہ کسی سے نہیں سنبهل رہی تهیں...

                  ••••••••••••••••••

"اتنی صبح  کون آگیا بھلا ؟"
ثروت باجی پیروں میں چپل پہنتے ہوئے دروازہ کھولنے اٹھ کھڑی ہوئیں..
"امی آپ رکیں میں دیکھتا ہوں..."
سلمان بھی اپنے کمرے سے باہر نکلا اُس کی آنکھ بھی دروازے پر ہوتی مسلسل دستک کی وجہ سے کھلی تھی..
سلمان نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اُسے یوں لگا جیسے وُہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔اُس نے اپنی آنکھیں زور سے بند کرکے کھولیں مگر منظر اب بھی وہی تھی..
"احسن یہ تُم ہو." بے یقینی سے اُس نے پوچھا..
"ہاں سلمان میں ہی ہوں یار.." احسن اِس طرح کی صورتحال کے لیے تیار تھا کیونکہ وُہ لوگ تو اُسے مرا ہوا سمجھ بیٹھے تھے اب وہ یوں اچانک اُن کے سامنے جا کھڑا ہوگا تو یہ کوئی عام بات تو نہیں تھی..
                     ______________________

"مُجھے یقین نہیں آتا امی عائشہ سے اِس قدر نفرت کرتی ہیں کہ اُنہیں میرے بچوں پر بھی ترس نہیں آیا.."
احسن اِس وقت ثروت باجی کے گھر میں بیٹھا تھا کیونکہ جب وہ اپنے گھر گیا تو وہاں تالا لگا تھا..
"عائشہ نے بڑے دُکھ جھیلے ہیں تمھاری غیر موجودگی میں احسن بڑا کٹھن وقت گزارا ہے خود نے کئی دن فاقے کیے ہیں اور اپنے بچوں کے منہ میں نوالے ڈالیں ہیں وُہ لڑکی جو اپنی نئی چیزیں ایسے ہی لوگوں کو دے دیا کرتی تھی اُس نے اپنے بچوں کی خاطر محلے کے گھروں کا دروازے کھٹکھٹا کر کھانا  مانگا ہے پھر بھلے جتنی حقارت اُسے جھیلنی پڑتی مگر اپنے بچوں کی شکل دیکھ کر اُس نے سب برداشت کیا..."
ثروت باجی نے تاسف سے کہا احسن کی آنکھوں سے نمکین پانی بے اختیار بہہ رہا تھا وُہ بار بار اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا مگر دُکھ اتنا تھا کہ آنسو تھم نہیں رہے تھے..
"مُجھے میری عائشہ اور بچوں کے پاس لے چلیں.."
اُس نے بڑی دقت سے کہا تھا ورنہ اُس کی زبان جیسے ساتھ چھوڑ چُکی تھی..

                         •••••••••••••••

"معاذ ، زونی اُٹھ جاؤ بیٹا شاباش اسکول کے لیے دیر ہورہی ہے ۔۔"
عائشہ نے دونوں کو باری باری اُٹھایا..
"چلو شاباش اور آج تو ویسے بھی آپ کا  ٹیسٹ ہے معاذ تیار ہوکر ایک بار ریوائز کرلو پہلے پریڈ میں ہی ٹیسٹ ہے میں جب تک ناشتہ بنارہی ہوں.."
اُس نے معاذ کے گال پر پیار کرتے ہوئے کہا تو وُہ اپنی آنکھیں مسلتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا..
"بلکل اپنے باپ پر گئی ہے نیند کی پکی زونی بیٹا اُٹھ جاؤ شاباش دیکھو بھائی بھی اُٹھ گیا ہے .."
اندر سے آتی عائشہ کی آواز سُن کے احسن کے قدم دروازے پر ہی رُک گئے اِس آواز کو سننے کے لیے اُس کے کان کتنے ترسے تھے یہ آواز آج بھی اُسے ہی پُکار رہی تھی اُس نے نم مگر مسکراتی آنکھوں کے ساتھ بند دروازے پر دستک دی..
سلمان احسن کو چھوڑ کر جاچکا تھا وُہ اُن دونوں کو اُن کا وقت دینا چاہتا تھا..
"دیکھو شاہد انکل بھی آگئے لینے اور آپ دونوں ابھی تک تیار ہی نہیں ہو کتنی بری بات ہے.."
زونیرہ اگر اب آپ نہیں اُٹھیں تو میں بہت بری طرح پیش آؤں گی..."اُسے خبردار کرتی وُہ دروازے کی طرف بڑھ گئی..
احسن کا دِل پوری شدت سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے کا پنجرہ توڑ کر باہر آجائے گا..
دوپٹہ سر پر اچھی طرح سے جماتی عائشہ کی نظریں جیسے ہی احسن کے چہرے سے ٹکرائیں تو ٹھہر سی گئیں وقت جیسے رُک گیا تھا وُہ آنکھوں میں سارے جہاں کی بے یقینی لیے بغیر پلکیں جھپکے اُس کو بس دیکھے ہی جارہی تھی اُسے یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا اِس وقت عائشہ کی حالت ریگستان میں بھٹکے اُس مسافر کی سی تھی جسے چلچلاتی دھوپ اور سورج کی برستی تمازت میں کہیں دور ریگستان کی ریت پر پانی کا عکس ایسا بھنور بن کر گھومتا دکھائی دیتا ہے جیسے اُس میں کوئی چشمہ پھوٹ پڑاہے؛ لیکن جب وہ مسافر، پیاسا ، پانی کا متلاشی اپنے سوکھے حلق کو تر کرنے اس کی طرف تیز گام ، سرپٹ دوڑتا چلا جائے تو وہ کسی ریت کے ڈھیر کی طرح پھسلتا جاتا ہے، اور انجام یہ کہ  پیاسا اپنی پیاس یونہی لیے ہچکیوں میں مبتلا ہوجائے، اس کے ہاتھ نہ مینا آئے نہ ساقی وہ یونہی شدت پیاس میں مرغ بسمل بن جائے۔ عائشہ کے لیے احسن کا یوں اُس کے سامنے آجانا بلکل ایسا ہی تھی اُسے یوں لگا کہ اگر اُس نے اپنی پلکیں جھپکی تو منظر بدل جائے گا وُہ پھر سے اُسی دُنیا لوٹے گی جو احسن کے بغیر ہے بڑی بے رحم، بڑی مشکل ہے ۔
احسن چپ چاپ اندر آیا عائشہ کسی سنگی مجسمے کی طرح ایستادہ تھی۔
"عاشی.." احسن نے تڑپ کر اُسے پُکارا.. مگر وُہ تو جیسے کسی طلسم کے زیر اثر تھی۔۔ احسن اسکی طرف بڑھا اور ہاتھ بڑھا کر اُس کا ہاتھ تھاما تو وہ بے طرح چونکی۔۔ یہ لمس۔۔ اسکے لیے تو وہ صدیوں سے ترسی تھی۔
وہ تڑپ اٹھی۔ "احسن کیا واقعی آپ ہیں.." اُس نے احسن کے چہرے کو چھونے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تو احسن نے بیچ میں ہی اُس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھم کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا اور اُسے اپنے سینے سے...
"میری جان.. میری زندگی.." احسن نے اُس کی خوشبو اپنے اندر اُتارتے ہوئے محبت سے کہا۔۔ چند خاموش لمحے یونہی گزر گئے.
"اب یہی کھڑا رکھو گی یا اندر بھی آنے دو گی مُجھے میرے بچوں سے تو ملنے دو.."
احسن نے مسکراتے ہوئے کہا مگر عائشہ پر مطلق اثر نہ ہوا وُہ ابھی بھی اُس کے سینے میں سر چھپائے بے آواز رورہی تھی..
"مما میں نہا لیا.."
عقب سے معاذ کی آواز آئی تو عائشہ کو اِس منظر کی حقیقیت کا یقین ہوا وُہ احسن سے الگ ہوئی...
"پاپا..." معاذ نے حیرت سے اُسے دیکھا اور بھاگ کر عائشہ سے لپٹ گیا...
احسن اُس کی اِس حرکت پر بے اختیار ہنس دیا..
"یہ تو آج بھی اپنی ماں کا بیٹا ہی ہے مطلب باپ کو دیکھ کر بھی ماں کے پیچھے چھپ گیا.."
احسن نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے محبت سے کہا..
"معاذ پاپا کو پیار نہیں کرو گے دیکھو پاپا آگئے ہیں.."
احسن نے معاذ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شفقت سے  پوچھا..
"مگر آپ تو اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے تھے.." اُس نے معصومیت سے کہا۔ عائشہ نے بیڈ پر چُپ بیٹھی سب دیکھتی زونیرہ کو گود میں اُٹھالیا اور معاذ کے ساتھ کھڑا کردیا..
"ہاں مگر اللہ تعالیٰ نے مُجھے واپس بھیج دیا اپنے معاذ اور زونی کے پاس.."
احسن نے آگے بڑھ کر فوراً اپنے بچوں کو  شفقت کے سائے میں لے لیا اور دیوانہ وار اُنہیں چومنے لگا...
بھیگی آنکھوں سے اُن تینوں کو دیکھتی عائشہ نے اللہ کا کروڑں بار شکریہ ادا کیا تھا..

مری سوچ کے ٹھہرے پانی میں
تیرے نین کنول جب ہنستے ہیں
میرے دھیان کے اجلے آنگن میں
جب صبح ستارے چنتی ہے
جب شام کوئی سر بنتی ہے
جب اندیشوں کی بانہوں میں
تیرے سانس کا ریشم کھلتا ہے
جب میرے ہرے کچور خیالوں میں
تیرے جذبوں کا زر گھلتا ہے
میں سوچتا ہوں ان رستوں میں
جب کتنی دیر کے بعد ملے
جب کتنے موسم بیت گئے
اس کرب کٹھور مسافت میں
دل صدیوں چکنا چور ہوا
اس ہجر کے تپتے صحرا میں
کیا غزلیں تھیں جو راکھہ ہوئیں
کیا نیندیں تھیں جو خاک ہوئیں
ہم کتنی دیر کے بعد ملے .؟
کب اتنی دیر کے بعد ملے .؟
یہ دیر بھی کیا جب آنکھوں کے
سب آنسو اب مرجان ہوۓ
سب آبلے پھوٹ کے ٹوٹ گئے
سب زخم ہوۓ یاقوت صفت
یہ اجر ہے ہجر کے موسم کا
خود قرب کی رت گلپوش ہوئی
تیرے نین کنول جب بول پڑے
تیرے سات سروں کے سرگم کا
سب سونا میرے نام ہوا
اب تیرے قرب میں سوچتا ہوں
یہ صدیوں بعد کا بہلاوا
اک خواب سرشت سراب نہ ہو
یہ روپ سوال نہ ہو جائے
یہ خواب خیال نہ ہو جائے
یہ راحت کرب انجام نہ ہو
تیرے سات سروں کے سرگم میں
سب روپ خزانہ سب سونا
کسی اور سخی کے نام نہ ہو
جب شام ڈھلے میں سوچتا ہوں
میں سوچتا ہوں کیوں سوچتا ہوں ؟
میری سوچ کے ٹھہرے پانی میں
تیرے نین کنول جب ہنستے ہیں
محسن نقوی

                  ••••••••••••••••••••

"کُچھ دن بعد"

جس دن سے احسن واپس آیا تھا اُس دن سے وُہ روز منیرہ کے پاس آتا تھا مگر سوائے تسلی دینے کے اُس نے دوسری کوئی بات نہیں کی تھی مگر جب آہستہ آہستہ لوگوں کی بھیڑ کم ہوئی اور اُس گھر میں جب صرف وُہ اکیلی رہ گئیں تو احسن نے اپنے ذہن میں چلتے تمام سوالوں کا جواب چاہے ..
"عائشہ سے آپ کو جتنی نفرت سہی امی مگر کیا آپ کو مُجھ سے ذرا بھی محبت نہیں تھی.."
منیرہ چُپ رہی کہتی بھی کیا کہنے کو کُچھ نہیں تھا..
"ماں اپنی اولاد کی خاطر  انتہاء کی تکالیف سے گزرتی ہے پہلے وہ اپنے بچوں کو اپنی کوکھ میں 9 مہینے تک رکھ اپنی ممتا کا احساس دلاتی ہے پھر اسے جنم دے کر ہر مشکل کا سامنا کرتی ہے اور اپنی اولاد کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔مگر آپ تو میری اولاد کو تک نہ سنبھال سکیں... امی اِس طرح تو کوئی غیر کے بچوں کے ساتھ بھی نہیں کرتا جو آپ نے اپنے ہی خون کے ساتھ کیا ہے.."
احسن کا لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہورہا تھا اُس کے لیے ضبط کرنا بہت مشکل تھا۔۔
"آپ نے میرے بعد میری بچوں کو پلٹ کر تک نہ دیکھا یہاں تک کہ میری ایک اولاد اِس دُنیا میں آنے سے پہلے ہی دَم توڑ گئی مگر آپ کی یہ کیسی نفرت تھی کہ جس نے آپ کو اِنسانیت کے ہر حد بھلا کر اتنی پستی میں گرا دیا میں پاگل یہی سوچتا رہا میری ماں مُجھ سے جتنی ناراض سہی مگر میری موت کی خبر نے اُسے بدل دیا ہوگا اُس نے میرے پیچھے میرے بیوی بچوں کو اپنی آغوش میں لے لیا ہوگا مگر آپ نے سہارا دینا تو دور میرے بچوں کے سروں سے چھت چھین کر سردیوں کی ٹھٹھرتی رات میں دھکے مار کر گھر سے نکال دیا..کیسے کرلیا آپ نے یہ ایک لمحے کو بھی آپ کا دِل نہیں پسیجا..."
وُہ اب سارے لحاظ بالائے طاق رکھ کر اُن سے سخت لفظوں میں بات کر رہا تھا مگر منیرہ ہنوز چُپ تھی مگر چہرے پر دُکھ،ملال،پچھتاوا صاف رقم تھا اور آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہہ رہے تھے..
"امی میرے بچے میری جان ہیں آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی میرا خیال نہیں آیا ارے آپ کے لیے تو میں مرگیا تھا تو کیا یہ سب کرتے وقت آپ کو یہ نہیں یاد آیا کہ مجھے کتنی تکلیف ہوگی میرے ساتھ جو ہوا جیسا ہوا مگر میں نے وُہ سب اپنی اولاد اپنی بیوی اپنی ماں سے ایک دن واپس ملنے کی اُمید میں برداشت کیا مگر میرے بچوں اور میری بیوی کو میرے پیچھے کیا ملا سگے رشتوں کے ہوتے ہوئے غیروں کی دھتکار ،بھیک، کئی کئی دنوں کی بھوک اور سردی کی وُہ رات جس میں اُن کے سروں پر چھت نہیں تھی، دُنیا کتنے ہی بھیڑیوں سے بھری ہے کیا آپ نہیں جانتیں تو آپ کو کیوں اِس بے سہارا لڑکی کی عزت کا خیال نہیں آیا جو آپ کے سگے بیٹے کی بیوی اور آپکے پوتے پوتیوں کی ماں تھی اگر اُس کے ساتھ کُچھ..میری زبان وُہ بول نہیں سکتی جن حالات میں آپ نے اِنہیں بے گھر کیا تھا..."
احسن نے بری طرح دُکھتے اپنے سر کو پکڑ کر کرب سے کہا..
"میں بس معافی مانگنے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتی میں گنہگار ہوں خطاکار ہوں بس یہی میری سچائی ہے.."
منیرہ نے عائشہ کی طرف دیکھتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے عائشہ جو نفرت سے اُنہیں دیکھ رہی تھی بولی..
"ایک عورت آپ کو معاف کرسکتی ہے مگر ایک ماں چاہ کر بھی آپ کو مرتے دم تک معاف نہیں کرسکتی میری آنکھوں کے سامنے سے وُہ منظر نہیں جاتا جب میں آپ سے بھیک مانگ رہی تھی اپنی بچوں کو صرف ایک رات اُنہی کے باپ کے گھر میں گزارنے کی مگر تب آپ فرعون بنی ہوئی تھیں آپ نے میری ایک نہ سنی تو آج مجھ سے کس منہ سے معافی مانگ رہی ہیں.."
احسن چُپ رہا بھلے وُہ اُس کی ماں تھی مگر وہ اِنسانیت کی مجرم بھی تھی..
"میں آپ کو طرح سفاک نہیں ہوں منیرہ بیگم کہ میں اپنے شوہر کو اُس فرائض کی ادائیگی سے روکوں احسن کو آپ کو معاف کرنا ہے بھلے کرے آپ سے تعلق رکھنا ہے بھلے رکھے مگر میں آپ سے زندگی میں دوبارہ کبھی ملنا نہیں چاہوں گی نہ اپنے بچوں کو ملنے دوں گی اور اگر اِس بات سے احسن کو انکار ہے تو جہاں میں نے اتنے سال اُن کے بغیر گزار لیے ہیں آگے بھی گزار لوں گی مگر آپ کو مرتے دم تک معاف نہیں کروں گی.."
عائشہ نے دو ٹوک انداز میں اپنی فیصلہ سنایا اور زوہیب اور منعم کو لے کر وہاں سے چلی گئی۔۔
عائشہ اکثر اُس سے کہتی تھی کے میں کسی بھی شخص سے نفرت نہیں کرتی مگر جس سے نفرت ہوجائے اُس کو مرتے دم تک معاف نہیں کرتی اور اُس کی بات کی سچائی احسن نے آج دیکھ لی تھی وُہ اُس کو ماں سے اِس قدر نفرت کرتی تھی کہ وہ اُسے تک چھوڑ سکتی تھی...
عائشہ کے وہاں سے جانے کے بعد کُچھ لمحوں کے لئے خاموشی چھائی رہی..
"ماں کا حق کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ماں باپ کا یہ ادب ہے کہ ان کی خدمت جان و مال دونوں طرح سے کرے یہ اللہ کا حکم ہے اور میں اسے مانوں گا آپ میری ماں تھی ماں ہوں ماں رہو گی آپ کا احترام مُجھ پر فرض ہے اور میں اِسے نبھاؤں گا امی ہر حال میں،"
عائشہ اپنا فیصلہ سناکر جاچکی تھی احسن نے اپنا فیصلہ سنادیا جسے سن کر منیرہ نے اُسے گلے سے لگا لیا اور نس نس کر رونے لگی...
"مجھے معاف کردے میرے بیٹے میں نے بہت گناہ کیے ہے مگر تو میری کسی نیکی کا صلہ ہے میرا احسن میرا بیٹا.."
احسن نے مزید کوئی تلخ بات نہیں کی وُہ بس ایک بات جانتا تھا وُہ جیسی بھی تھی اُس کی ماں تھی اور اُسے حسنِ سلوک سے پیش آنا ہے وُہ عائشہ کو مجبور نہیں کرسکتا تھا مگر وُہ اپنی جنت کو یوں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ نہیں سکتا تھا. 

              ••••••••••••••••••••

عائشہ صحن میں بیٹھی بچوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی وُہ کہہ تو آئی تھی کے احسن کو چھوڑ دے گی اگر اُس نے اُسّے منیرہ کو معاف کرنے پر زور دیا مگر اب وہ احسن کی واپسی کی منتظر تھی...
"چاچی بھوک لگ رہی ہے.." زوہیب کی آواز پر وہ اپنی سوچوں سے باہر نکلی..
"ٹھیک ہے بیٹا آپ منہ ہاتھ دھو لو میں ابھی سنڈوِچ بناکر دیتی ہوں.."
عائشہ نے محبت سے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا..
جنید کی موت کے تیسرے ہی دِن راشدہ زوہیب اور منعم کو چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئی تھی ویسے بھی وُہ بچے اُس کے لیے شروع وُہ بوجھ تھے جسے وہ مجبوری میں ڈھو رہی تھی۔ تب عائشہ نے ہے احسن سے کہا تھا کہ ہم اِن بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے اُنہیں ماں باپ بن کر پالیں گے کیونکہ بغیر ماں یا باپ کے دُنیا بچوں پر کتنی تنگ ہوجاتی ہے یہ وُہ دیکھ چُکی تھی اور اِن بچوں کو تو نہ ماں تھی نہ باپ تو وہ کیسے اُنہیں دُنیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی نہ منیرہ میں اتنی ہمت تھی کے وُہ اُن کی ذمے داری نبھا سکتیں..
"زوہیب بیٹا یہ لو اور پورا ختم کرنا ہے چڑیا جتنی خوراک ہے تُمہاری.."
اُس نے زوہیب کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا سامنے اُسے گھر کا دروازہ بند کرتا احسن دکھائی دیا تو وہ اُسے نظر انداز کرتی اندرونی کمروں کی طرف بڑھ گئی..
"مجھ سے کیوں کترا رہی ہو تُم یار.."
احسن نے اُس کا بازو پکڑ کر اُس کا رُخ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا..
"کیونکہ میں جانتی ہوں آپ کیا کہیں گے مگر میں آپ کو اپنا فیصلہ سنا چُکی ہوں اور وہ اٹل ہے.."
عائشہ نے قطعیت سے کہا...
"تو کیا مُجھ سے دور رہ لو گی.." احسن نے اُس کے بالوں سے کھیلتے ہوئے لگاوٹ سے پوچھا...
"مطلب آپ مجھے چھوڑ دیں گے اگر میں نے آپ کو ماں کو معاف نہیں کیا..؟" وُہ روہانسی ہوگئی..
"دیکھو عائشہ اُنہوں نے جتنا بھی غلط کیا ،جو بھی کیا مگر وُہ "میری ماں" ہے مُجھ پر اُن کے حقوق فرض کیے گئے ہیں مُجھ پر اُن کا احترام لازم و ملزوم ہے مجھے منع کیا گیا ہے اُن کو اُف بھی کہنے سے مُجھے صرف اُن کی عزت کرنی ہے چاہے جیسے بھی حالات ہوں مگر ہر حال میں وُہ "میری ماں" ہے تُمہاری نہیں..."
احسن نے کہتے کہتے رُکا اور عائشہ کے جُھکے چہرے کو اوپر کیا تو وہ رو رہی تھی..
"اِس بات کی میں گواہی دیتا ہوں کہ تُم نے ہمیشہ میری ماں کو اپنی ماں کی طرح سمجھا ہے تُم میں اُن کا ہر طرح سے احترام کیا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ صرف میری ماں ہے میں اُنہیں معاف کروں یا نہیں مگر مجھ پر اُن کے حقوق ہیں جو مُجھے پورے کرنے ہیں میں تُم پر اُن کو معاف کرنے کا دباؤ نہیں ڈال سکتا یہ میرے تُم پر حقوق کے ساتھ نا انصافی ہوگی جو میں کبھی نہیں کروں گا تُم ساری زندگی اُنہیں معاف نہ کرو یہ تمہارا اور اُن کا معاملہ ہے اِس بات کو لے کر میں کبھی تُم سے ناراض نہیں ہوسکتا کیونکہ میں چاہ کر بھی اُس درد اور تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا جو تُم نے ایک عورت اور ایک ماں ہونے کئی حیثیت سے جھیلی ہے مگر پھر بھی تم نے اپنے اندر کی انسانیت کو مرنے نہیں دیا تُم نے سوگ کے دِنوں میں اُن کی خوب دلجوئی کی کوئی کڑوی بات نہیں کی،کوئی طعنہ نہیں دیا  اُنہیں یہ تُمہاری اِنسانیت ہے میری ماں نے مجھ سے ناراضگی اور تُم سے نفرت میں ہمارے بچوں کا بھی نہیں سوچا یہ اُن کا ظرف تھا تُم نے جنید بھائی کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح اپنایا یہ تُمہاری اچھائی ہے تو بتاؤ بھلا میں ایسی بیوی سے کیوں ناراض ہوں گا عائشہ تُمہاری جیسی جیون ساتھی نصیب والوں کو ملتی ہے اور میں وُہ خوش نصیب شخص ہوں.."
احسن نے عائشہ کی بھیگی پلکوں پر اپنے لب رکھتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں کہا تو طمانیت کا احساس اُس کے رگ و پے میں دوڑ گیا..
خواب اور آرزوؤں کے اس سفر میں کٹھنائیوں نے ان کی راہ کھوٹی کی تھی ، ہجر کی فصل کاٹتے کاٹتے دونوں کے ہاتھ چِھل گئے تھے۔ ایک جانب عائشہ تھی ، ایک باوفا بیوی اور ایک دکھیاری مجبور ماں جس نے اپنی اولاد کی خاطر کتنا ہی درد سہا تو دوسری جانب وہ مرد تھا جس نے اپنی زندگی کا خوبصورت حصہ ایک ایسے جرم کی سزا بھگتنے میں بِتا دیا جو جرم اس نے کِیا ہی نہ تھا۔
وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر مظلوم بھی تھے اور بیچارے بھی۔ انہوں نے لہجوں کے تیر سہے تھے ، جسمانی و روحانی مشقت کاٹی تھی مگر جو ایک چیز ان کے بیچ سانس لے رہتی تھی وہ محبت کی طاقت تھی کہ جس نے ہمیشہ ہی ان کو جینے کی ہمت دی۔ ملن کی آس میں جیتا ہوا احسن موت کی مایوسی کو پچھاڑ کر اپنی محبوب بیوی کو رفاقت کا احساس دلانے بالآخر لوٹ آیا تھا۔ بیوگی کی چادر اوڑھے دکھوں کو جھیلتی عائشہ کیلیے احسن کا لوٹ آنا کسی معجزے جیسا تھا اور وہ اس کے فراخ سینے پہ سر رکھے کچھ دیر کو وہ تمام دکھ درد بھول گئی جو اس نے کاٹے تھے۔
بس یہی تو محبت کی خوبی ہے کہ محبت انسان کے سب زخم بھر دیتی ہے سب چھید رفو کردیتی ہے۔ ان کی بھیگی پلکوں پر کچھ روٹھے خوابوں کے ماتم تھے لبوں پر سسکیاں بھی تھیں مگر ان کے دل باہم دھڑکتے تھے ، امید دلا رہے تھے کہ آنے والی صبح بڑی روشن ، بڑی خوبصورت ہوگی۔

(ختم شد)

نوٹ: برائے مہربانی اپنی مکمل رائے ضرور دیں یہ نہیں کہ پورا ناول پڑھ کر اچھا تھا،گڈ،جیسے کمنٹس کرکے آگے بڑھتے جائیں..

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro