۲۲قسط نمبر
قسط نمبر ۲۲
"ارے ارے کہاں یوں بھاگی جارہی ہو جانم.."
غفران نے اسٹیشن سے باہر آتی سیڑھیوں سے آتی منتہٰی کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا..
"آپ یہاں کیسے..؟"
وُہ اُسے دیکھ کر حقیقتاً گھبرا گئی تھی یہ خیال ہی روح فرسا تھا کہ اگر وُہ تھوڑی دیر پہلے آجاتا تو کیا ہوجاتا...
"ہاں میرا کام ختم ہوگیا تو آگیا اور یہ تُم رو کیوں رہی ہو کُچھ ہوا ہے کیا.."
اُس نے منتہٰی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا..
"میں کُچھ پوچھ رہا ہوں تُم سے ..؟"
کوئی جواب نہ ملنے پر دوسری بار ذرا سختی سے پوچھا گیا..
"نہیں کُچھ نہیں ہوا وُہ بس دوست جارہی تھی تو تھوڑا.."
آنکھوں کو رگڑ کر صاف کرتے ہوئے کہا گیا...
"یہی بات ہے ناں..؟"
اُسے یقین نہ آیا..
"میں آپ سے کیوں جھوٹ بولوں گی.."
اُس نے ہموار لہجے میں کہا...
"سچ بھی کیوں بولو گی تُم مُجھ سے..."
وُہ بے اختیاری میں منہ بول گیا جسے منتہٰی نے سنا ہی نہیں اُس کا ذہن تو زیان میں اُلجھا ہوا تھا...
"اب چلیں..؟"
اُس نے محبت سے پوچھا...
"ہاں چلیں.."
"یہ تُم ایسے حلیے میں کیوں گئی تھی کیا دکھانا چاہتی تھی اپنی دوست کو کہ تمہارا شوہر کتنا ظلم کرتا ہے تُم پر.."
اُس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا..
"نہیں میں تو بس ایسے ہی.."
"خیر چھوڑو آج رات ایک پارٹی رکھی ہے میں نے اپنے تمام آفس کے اسٹاف اور بزنس پارٹنرز کے لئے کیونکہ وُہ لوگ ولیمے میں نہیں آسکے تھے تو اچھے سے تیار ہوجانا بلکہ ہم لوگ ابھی چلتے ہیں تمہارے لیے ڈریس لینے..."
اُس نے حکم سنایا...
"غفران میرے پاس.."
وُہ بے ساختہ بول گئی مگر کُچھ یاد آنے پر رُک گئی...
"جی میرے پاس بہت کپڑے ہیں پچھلے ہفتے ہی آپ نے درجنوں کپڑے دلوائے تھے اُس میں سے ہی کوئی پہن لوں گی.."
آہستہ سے کہا...
"غفران بولو ناں.."
اُس کی آنکھوں میں اِلتجا تھی...
"جی.."
"جی نہیں غفران میرا نام لیا کرو ناں تُم.."
اِس بات پر منتہٰی نے بے طرح چونک کر اُسے دیکھا سب کُچھ اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا کیسے صرف نام لینے پر اُس نے کیا حالت کرکے رکھ دی اُس کی اب خود ہی کہہ رہا تھا نام لو...
"آپ نے کہا تھا میرا نام نہیں لیا کرو.."
اُس نے یاد کروایا..
"مرضی ہے تمہاری اور اب آئندہ غلطی سے کبھی میرا نام مت لینا سمجھ آئی بات.."
اُس نے فوراً تند لہجے میں کہا اور منتہٰی اُسے دیکھتی ہی رہ گئی اُسے یقین ہوچلا کہ اُس کے ساتھ کوئی دماغی مسئلہ ہے..
"اور تُم ابھی میرے ساتھ چل رہی ہو کپڑے لینے دوسرا لفظ نہ سنوں تمہارے منہ سے سمجھ آئی بات.."
اُس نے تحکمانہ انداز میں کہتے ہوئے گاڑی پارکنگ سے نکال کر فل اسپیڈ میں روڈ پر ڈال دی...
دو بار اُن کا ایکسڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا..
منتہٰی نے غفران کی طرف دیکھا تو اُس کی آنکھوں میں اتنی سختی تھی کہ وہ اپنی نظریں ہی ٹہرا سکی...
"سنیے گاڑی آہستہ چلائیں.."
منتہٰی نے ڈرتے ہوئے کہا جواباً اُس نے اسپیڈ مزید بڑھا دی...
"پلیز گاڑی آہستہ چلائیں مُجھے ڈر لگ رہا ہے بہت.."
وُہ ہراساں ہوکر بولی مگر جیسے وُہ تو بہرا ہوچکا تھا اُس کی ہر التجا پر رفتار دوگنی کردیتا...
"خُدا کے واسطے گاڑی آہستہ کریں ورنہ میں کود جاؤں گی مُجھے پلیز پلیز.."
اُس نے اسٹیئرنگ کی طرف ہاتھ بڑھائے...
"سوچنا بھی مت.."
اُس کے ہاتھوں کو بُری طرح جھٹک کر خشک لہجے میں کہا گیا...
"یا اللہ.."
وُہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگی...
"میں کود جاؤں گی پلیز گاڑی روکیں پلیز پلیز پلیز.."
وُہ چیختے ہوئے بولی...
غفران کی آنکھیں نجانے کیوں چمکی تھی دیکھنے پر نمی کا گُمان ہوتا تھا..
منتہٰی نے اپنی طرف کا دروازہ کھولنا چاہا مگر وہ لاک تھا..
"تُمہیں کیا لگتا ہے میں تُمہیں یوں آسانی سے مرنے دوں گا.."
اُس کی مضحکہ اُڑاتی آواز نے اُسے جھنجھوڑ ڈالا...
وُہ دونوں اب ون وے پر جارہے تھے وُہ بار بار سامنے سے آتی گاڑیوں کے سائڈ سے گاڑی نکالتا تو وہ بُری طرح ڈر جاتی...
"میں مرجاؤں گی پلیز بند کریں بند کریں یہ سب یا ایک ہی بار مُجھے مار دیں یوں نہ کریں آپکو خُدا کا واسطہ.."
سامنے سے ٹرک آتا دیکھ کر اُس کے اوسان خطا ہوگئے...
"غفران پلیز گاڑی روک دیں پلیز آپکو میری قسم ہے پلیز.."
وُہ اُسے جھنجھوڑتے ہوئے بولی...
"کیا کہا تُم نے.."
اُس کے چہرے پر عجیب سے مسکراہٹ آرُکی تھی...
"پلیز گاڑی روکیں.."
"نہیں اِس سے پہلے۔۔۔"
وُہ زور زور سے سانسیں لیتے ہوئے بولا...
"غفران۔۔۔"
وُہ دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ کر بُری طرح چلائی...
ٹرک بلکل سامنے آگیا تھا...
یکدم بریک لگانے کے باعث فضا میں عجیب آواز گونجی تھی...
وُہ اب تو کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔۔۔
"جانم.."
غفران نے اُس کے چہرے سے دونوں ہاتھ ہٹا کر نیچے کیے تو اُسے لگا کسی نے اُس کے دِل کو مُٹھی میں جکڑ لیا اُس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا آنکھیں خطرناک حد تک بھینچی ہوئی تھی وہ سسکیاں لے رہی تھی...
"کُچھ نہیں ہوا کُچھ نہیں ہوا جانم.."
غفران نے اُسے کا چہرہ صاف کرتے ہوئے رسان سے کہا...
اُس نے آہستہ آہستہ آنکھیں وا کیں اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روپڑی...
"میں بہت ڈر گئی تھی میں بہت ڈر گئی تھی غفران.."
اُس نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا..
"میں بھی ڈر گیا تھا کہ کیا واقعی تُم مُجھ سے اتنی نفرت کرتی ہو کہ اب کبھی میرا نام نہیں لو گی میں بھی تو ڈر گیا تھا.."
اُس نے منتہٰی کو اپنے سینے میں بھینچتے ہوئے اپنی اُتھل پُتھل سانسیں دُرست کرتے ہوئے کہا اُس کا دِل پوری شدت سے دھڑک رہا تھا...
"میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے موت کو آج اور یہ بہت بھیانک ہے بہت میں بہت ڈر گئی تھی.."
اُس نے بھی غفران کو سختی سے پکڑ لیا۔۔۔
"میں تُم سے بہت پیار کرتا ہوں منتہٰی بہت.."
اُس کی آنکھیں خطرناک حد تک سُرخ ہورہی تھیں...
"یہ صرف پاگل پن ہے پیار نہیں.."
وُہ یکدم اُس سے الگ ہوکر غصّے سے بولی...
"جو کہنا ہے کہہ لو مگر دور نہ جاؤ.."
اُس نے دوبارہ اُسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے تڑپ کر کہا...
"تُم ٹھیک ہو بلکل میرے ہوتے ہوئے تُمہیں کُچھ نہیں ہوسکتا کبھی نہیں.."
اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے قطعیت سے کہا گیا....
___________________________________________
"زیان تُم ٹھیک ہو ناں۔۔"
دُعا نے ٹرین چلنے کے کافی بعد اُس سے پوچھا کیونکہ وُہ بالکل چُپ بیٹھا ہوا تھا۔۔
"زیان۔۔"
سمیر نے کوئی جواب نہ آنے پر اُس کے کندھے پرہاتھ رکھ کر کہا۔۔
"ہاں ٹھیک ہی ہوں مُجھے کیا ہونا ہے اب جو ہونا تھا جس کے ساتھ ہونا تھا ہوگیاِ۔۔"
اُس نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔۔
"زیان میں مانتی ہوں آسان نہیں ہے ہرگز آسان نہیں ہے مگر پھر بھی آج جو کُچھ ہوا اُس کے بعد میں یہی کہوں گی پلیز تُم اب اُسے بھول جاؤ ۔۔"
"آج جو کُچھ ہوا اُسے دیکھنے کے بعد بھی تُم یہی کہتی ہوں دُعا تُم نے اُس کی حالت نہیں دیکھی یا تو تُم دیکھ کر بھی انجان بن رہی ہو صرف دوست ہی تو تھی وُہ تمہاری مگر میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا سُنا تُم نے۔۔"
اُس نے مضبوط انداز میں کہا ۔۔۔
"کیا کہا تُم نے کہ مُجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وُہ کِس حال میں ہے زیان اپنی زبان سنبھال کر اِستعمال کرو ورنہ بہتر ہوگا اپنا منہ بند رکھو سمجھے۔۔"
اُسے زیان کی بات سخت گراں گُزری تھی ۔۔
"دُعا وُہ پاگل ہے آپ تو سمجھداری سے کام لیں ۔"
سمیر نے فوراً بات سنبھالنی چاہی ۔۔
" کوئی پاگل واگل نہیں اِس کی طبیعت تو میں صاف کرتی ہو ہاں کیا ہے بے تُجھے لگتا ہے تُو اُس سے محبت کرتا دُنیا جہاں کا سارا درد صرف تیرے ہی دِل میں ہے باقی تو صرف دوست ہیں اُنہیں کیا وُہ تو ایسے ہی ہیں ۔۔"
دُعا نے اُسے کندھے سے پکڑ کر سامنے کیا۔۔
"نظریں کیوں چُرا رہا ہے اِدھر دیکھ کر بات کر ۔۔"
اُٗس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔۔
"وُہ تیری محبت ہونے سے پہلے میری بہن ہے ،میری دوست واحد دوست تیرے پاس بچپن سے لے کر اب تک سارے رشتے رہے ہیں ماں کا باپ کا مگر میرے پاس ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا کوئی ایک بھی نہیں زندگی کے پچیس سال اندھیروں میں ویرانیوں میں گُزارنے کے بعد مُجھے ایک رشتہ میسر آیا تھا میری ماہی کا میری بہن کا میری دوست کا تو صرف اُسے کھو کر پاگل ہوا پھر رہا ہے مُجھے کہتا ہے کہ تُمہیں کیا فرق پڑتا ہے میں کس اذیت میں ہوں یہ تُم دونوں میں سی کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ تُمہیں ہاسٹل کے کمرے میں اکیلے راتیں جو نہیں گُزارنی پڑیں ،تُم میں سے کسی نے یہ کبھی محسوس ہی نہیں کیا کہ اکیلا ہونا ہوتا کیا ہے تُم لوگ رشتوں کے سائے میں بڑے ہوئے ہو محبتوں کے سائے میں مگر میں اکیلے ماہی میرے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے یہ مُجھے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں خاص طور پر تُجھے تو بالکل نہیں تُو نے ایک رشتہ کھویا ہے میں نے واحد تیرا مسئلہ صرف یہ ہے کہ تُجھے اپنا بالا پرایا ڈھینگر ہی لگتا ہے خود ترس اِنسان ا ہے تُواِس سے زیادہ کُچھ نہیں۔۔۔"
دُعا نے تند و تیز لہجے میں اپنی بات مکمل کی ۔۔۔
زیان چُپ رہا کُچھ نہیں بولا جبکہ سمیر صرف گہری سانس لے کر رہ گیا۔۔
"کہاں جارہی ہیں ؟"
سمیر نے دُعا کو اُٹھتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔
"کہیں بھی جہاں اِس جیسا اِنسان نہ ہو کیونکہ مُجھے نفرت ہے ایسے کم ظرف لوگوں سے یہ قصہ یہی ختم کرتی ہوں میں زیان جِس کی وجہ سے ہماری سو کالڈ دوستی ہوئی تھی جب وُہ ہی نہیں تو میں مزید تُم جیسے اِنسان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی ۔۔"
دُعا نے سپاٹ لہجے میں کہا جس پر زیان نے آنکھوں میں حیرت لیے اُسے دیکھا مگر کُچھ کہا نہیں۔۔
"تُم دونوں بالکل پاگل ہو یہ وقت ایک دوسرے کو سہارا دینے کا ہے نہ کہ ایسی فضول جزباتیات دِکھانے کا رشتے یوں ختم نہیں کیے جاتے ۔۔۔"
وُہ بولتا ہی رہ گیا دُعا اپنا سامان اُوپر سے نکال کر پیچھے والے خالی کمپارٹمنٹ میں جاکر بیٹھ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نہیں یہ بلیک والا پہننا تُم پر یہ رنگ بہت خوبصورت لگتا ہے۔۔"
غفران نے اُسے ہرے رنگ کا ڈریس پکڑے دیکھ کر کہا۔۔
وُہ اُس کے لیے پھر درجنوں کپڑے اُٹھا لایا تھا وُہ لاکھ منع کرتی رہی مگر وُہ غفران ہی کیا جو کسی کی بات سُن لے۔۔
"ٹھیک ہے میں بدل کر آتی ہوں ۔۔"
وُہ متانت سے کہتے ہوئے چینجنگ روم میں چلی گئی ۔۔
وُہ بیڈ پر لیٹ گیا جب سے وُہ گھر آیا تھا ایک عجیب سا بُوجھ تھا اٰس کے اعصابوں پر سماعتوں میں اٰس کی چیخیں گونج رہی تھی۔۔۔
"میں مرجاؤں گی پلیز بند کریں بند کریں یہ سب یا ایک ہی بار مُجھے مار دیں یوں نہ کریں آپکو خُدا کا واسطہ.."
"تُم کب پہلے والی "مُنتا" بنو گی "منتہٰی"..
اُس نے دِل گیری سے سوچا..
"وُہ بچپن سے اُسے مُنتا بولتا تھا سب نے لاکھ سمجھایا "منتہٰی" مگر وہ اُس کے لیے مُنتا ہی رہی..
"میں تو اب تمہارا نام بھی صحیح لیتا ہوں "منتہٰی غفران." ہاں یہی ہے تمہارا اصل نام میرے ساتھ میری "مُنتا" کا سب تُمہیں پیار سے ماہی ماہی بولتے ہیں مگر میری تو تُم مُنتا ہو پتا نہیں کب کہہ سکوں گا تُمہیں پھر سے "مُنتا"...میری محبت زہر ہے مُنتا ہے اور تُمہیں اِس زہر کو پینا ہوگا میں اپنا کُچھ نہیں کرسکتا میں تُمہیں بھی نہیں کھوسکتا یہ بات اچھے سے جانتا ہوں نجانے یہ کیسی محبت ہے مگر جو بھی ہے بس ہے اور صرف تُم ہی سے ہے صرف تُم سے مگر میں چاہتے چاہتے تھک چُکا ہوں تُم مُجھے چاہوں جس قدر میں چاہتا ہوں تُمہیں مُجھے چاہو مُجھے احساس کرواؤ چاہے جانے کا ورنہ تو سب رشتے دیکھ لیے میں نے ہر ایک مطلبی ہے یہ تُمہاری چاہت ہی تو ہے جو مُجھے زندہ رکھی ہوئی ہے اور اِس چاہت کے سہارے ہی زندگی گزار لوں گا اپنی.."
وُہ اپنی سوچوں میں مستغرق تھا اُسے پتا ہی نہیں چلا کب وُہ باہر آکر تیار بھی ہونے لگ گئی تھی...
"بہت اچھی لگ رہی ہے تُم پر یہ ڈریس."
اُس نے لیٹے لیٹے ہی کہا...
"آپ بھی جاکر کپڑے چینج کرلیں نو بجنے والے ہیں.."
اُس نے سادہ سے انداز میں کہا...
"اپنی پسند کے کپڑے نکالو ناں میرے لیے.."
یاسیت سے کہا گیا..
"نکال دیے ہیں میں نے چینجینگ روم میں رکھے ہیں آپ دیکھ لیں.."
"حیران کر دیا آج تو تُم نے بغیر کہے ہی.."
وُہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا...
"آپ دیکھ لیں ٹھیک لگے تو پہن لیں ورنہ دوسرے نکال دیتی ہوں میں.."
اُس نے بال آگے کرتے ہوئے کہا اُسی وقت وُہ چلتا ہوا اُس کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور اُسے اپنی طرف کیا...
"تُمہیں لگتا ہے میں اُن کپڑوں میں اچھا لگوں گا..."
اُس نے پُر اُمید نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا..
"ہاں.."
منتہٰی نے جان چُھڑائی...
"تو پھر ٹھیک ہے میں آتا ہوں کپڑے بدل کر "جانم".."
وُہ مسکرا کر بولا...
---------------------------------------------------------------------
سمیر تیسری بار اُسے بلانے آیا تھا اور اُس کی ناں سُن کر واپس جارہا تھا...
"میرا فون آرہا ہے سو پلیز تُم جاؤ ابھی کے لیے مُجھے اکیلا چھوڑ دو پلیز .."
اُس نے انتہائی رُکھائی سے جواب دیا جس پر وُہ اپنا منہ سا لے کر واپس چلا گیا...
"کیا انفارمیشن ہے اُس کے بارے میں.."
اُس نے کال اُٹھاتے ہی سیدھا مطلب کی بات پوچھی..
"نہ سلام نہ دُعا سیدھا.."
"بکواس بند کرو اور کام کی بات کرو.."
دُعا نے اُسے بھی ڈپٹ دیا..
دوسری طرف سے پتا نہیں کیا کہا گیا دُعا کے چہرے پر ہراس پھیلتا گیا....
---------------------------------------------------------------------
وُہ دونوں ہوٹل پہنچے تو وہاں بہت گرمجوشی سے اُن کا استقبال ہوا ہر کسی کی زبان پر اُن دونوں کی جوڑی کے لیے ستائشی کلمات تھے ہر آنکھ رشک سے پُر تھیں...
غفران اُسے چند خواتین کے پاس چھوڑ کر اپنے کسی دوست سے ملنے گیا تھا...
"بھابھی کُچھ پریشان پریشان سی دکھ رہی ہیں غفران..."
اُس کے کسی بزنس پارٹنر نے کہا تو اُس نے منتہٰی کی طرف دیکھا وُہ واقعی اُداس دکھائی پڑتی تھی..
"نہیں ایسا تو کُچھ نہیں تھکی ہوئی ہے شاید صبح سے باہر نکلے ہوئے تھے ہم لوگ.."
اُس نے جھٹ بات بنائی...
"نہیں مُجھے تو لگ رہا ہے وُہ اُداس ہیں کہیں تُم دونوں کے بیچ کوئی بات.."
اِس بات پر غفران کا دماغ بھک سے اُڑ گیا..
"جب میں کہہ رہا ہوں ایسا کُچھ نہیں ہے تو ایسا کُچھ نہیں ہے.."
وُہ اب کی بار سختی سے بولا آواز بھی بُلند تھی سب لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوئے...
"ارے غصّہ کیوں ہورہے ہو بھائی اِس نے تو صرف ایک سوال.."
کسی نے اُس کی حمایت کرنی چاہی مگر بات ادھوری ہی رہ گئی غفران اُسے نیچے پٹخ چُکا تھا...
"جب میں کہہ رہا ہوں ایسا کُچھ نہیں تو تُجھے کیا ہے.."
غفران نے اُسے گریبان سے پکڑ کر کہا...
"چلو۔۔"
اُسے چھوڑ کر اب وُہ منتہٰی کی طرف بڑھا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گیا پیچھے لوگ آوازیں دیتے رہ گئے...
---------------------------------------------------------------------
"جانتی ہو تمہاری وجہ سے میری کتنی سبکی ہوئی ہے جاہل عورت نہ پہننے کا سلیقہ نہ بات کرنے کا ڈھنگ اپنی منہوس رونی شکل لے کر پوری پارٹی میں نحوست پھیلا رکھی تھی سب کو دکھانا کیا چاہتی ہو آخر تُم کہ میں کتنا ظلم ہوں بولو..."
غفران شدید غصّے میں تھا وُہ چیزیں اُٹھا اُٹھا کر پٹخ رہا تھا منتہی ہر چیز کے ٹوٹنے کے ساتھ مزید سہم اور سمٹ جاتی...
"سوری.."
اُس نے دبی دبی سے آواز میں کہا تو غفران کو مزید طیش آگیا..
"So hell with your sorry you bitch..."
اُس نے منتہٰی کو بالوں سے پکڑ کر بیڈ پر دھکا دیا تو منتہٰی کا سر بری طرح سے بیڈ کراؤن سے جا لگا وہ تڑپ بھی نہ سکی تھی غفران کا بھاری ہاتھ اُس کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا...
پھر پےدرپے کئی وار ہوئے وہ چیختی رہی گڑگڑاتی رہی تڑپتی رہی ہر وار پر ماہی بے آب کی طرح مگر سننے والا کون بچانے والا کون...
"غفران میں ماں بننے والی ہوں.."
اُس کے کہے جانے والے الفاظ نے واقعی اُسے روک دیا تھا وُہ حیرانگی سے اُسے دیکھنے لگا...
"ہاں میں ماں بننے والی ہوں خُدایا اِس بچے کے لیے مت کریں ایسا مُجھے بہت درد ہورہاہے .."
وُہ ہاتھ جوڑ کر بولی تو غفران اُسے دھکا دے کر کمرے سے باہر نکل گیا...
--------------------------------------------------------------------
اگلی صبح اُس کی آنکھ کھلی تو غفران جاچکا تھا صبح کے دس بج رہے تھے...
اُس نے بمشکل خود کو کھڑا کرنے کی کوشش کی مگر بُری طرح ناکام ہوئی...
"یا اللہ میری بچے کی حفاظت کر.."
بے بس ایسی تھی کہ خود بخود ہی آنکھ سے آنسو بہنے لگے ..
"بھابھی جی بڑی بیگم کہہ رہی ہیں آج کا ناشتہ آپ بنائیں گی اُن کا.."
ملازمہ نے آکر اطلاع دی یقیناً شائنہ گھر پر نہیں تھی ورنہ بختاور کی ہمت بھی نہ ہوتی اُسے کوئی کام کہنے کی...
"ٹھیک ہے .."
اُس نے پاؤں پر زور ڈال کر کھڑے ہوکر کہا اور اُس کے پیچھے چل دی...
"منتہی او منتہی کدھر مر گئی ارے میں کہتی ہوں آج ناشتہ ملے گا یا نہیں؟"
بختاور کی تیز چنگھاڑتی ہوئی آواز نے منتہی کی سماعتوں پر بم گرایا تھا۔ وہ چائے کا پانی چولہے پر چڑھا کر بھول گئی تھی۔
اسنے چونک کر نظر گھمائی۔
پانی ابل ابل کر آدھے سے بھی کم رہ گیا تھا۔
"ارے کیا جہنم کی بھٹی پر چائے کا پانی رکھنے چلی گئی ہے یا میرے مولا کونسی منحوس گھڑی تھی ایسی بد ذات لڑکی کو اپنے ہیرے جیسے بیٹے کے لیے بیاہ کر لے آئی۔"
اسکی ساس کا واویلا شروع ہوچکا تھا۔
منتہٰی نے دیگچی میں مزید پانی ڈالا تبھی دوسری ملازمہ باورچی خانے میں داخل ہوئی۔
"ہائے بی بی یہ کیا ہوگیا آپکو؟"
وہ اسکا سوجا ہوا ماتھا اور زخمی پاؤں دیکھ کر دہل گئی تھی۔
"کچھ نہیں۔ تم برتن دھو دو۔"
اسنے بہت سے آنسو اپنے اندر ہی اتار کر ہموار لہجے میں جواب دیا اور پلٹ کر ابلتے ہوئے پانی میں پتی ڈالنے لگی۔
"صاحب نے مارا ہے ناں آپکو؟"
وہ بہت مدھم آواز میں پوچھ بیٹھی مبادا کوئی سن نہ لے۔ منتہی نے اپنا نچلا ہونٹ اتنی سختی سے دانتوں تلے دبایا کہ خون بہہ نکلا۔
"ہائے باجی میرا بندہ بھی بڑا مارتا ہے مجھے۔"
وہ ٹرے میں ناشتہ سیٹ کرتے ہوئے اسے بتانے لگی۔ خون کا ذائقہ آنسوؤں کی تلخی میں مدغم ہوکر منتہی کے حلق کو کڑوا کرگیا تھا۔
"مگر ایک بات ہے باجی ہر بار مارنے کے بعد معافی بھی مانگتا ہے اور سمندر پر بھی لے کر جاتا ہے گول گپے بھی کھلاتا ہے۔"
وہ مزے کے کر بولی یوں جیسے گول گپوں کے ذائقے کو محسوس کر رہی ہو۔
منتہی نے چائے سے نظریں ہٹا کر اُسکی طرف دیکھا۔
وہ بلکل مگن سی نظر آرہی تھی۔
یوں جیسے شوہر کے ہاتھوں پٹنا کوئی بڑی بات ہی نہ تھی۔
"تمہارے لیے ایک معافی کا لفظ گول گپے اور سمندر کی سیر بہت کافی ہوتی ہے آسیہ؟"
اسنے بے اختیار ہی سوال پوچھا۔
"تو اور کیا۔ مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے بس بہت ہے یہ۔"
وہ ٹرے اٹھا کر اسکی ساس کو ناشتہ دینے چلی گئی تو منتہی نے اپنے دکھتے ہوئے پاؤں پر بمشکل وزن ڈالتے ہوئے کیبنٹ سے کپ نکالا اور چائے اسمیں نکال لی۔ ملازمہ واپس آئی اور کپ لیکر پھر چلی گئی۔
وہ وہیں کھڑی رہی۔ اسکی چوٹیں بری طرح دکھ رہی تھیں۔ سر میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور بائیں پہلو میں بھی شدت کا درد تھا۔ غفران کی ٹھوکروں نے اسکے نازک وجود کو بہت بری طرح مجروح کیا تھا۔
چند ثانیے بعد ملازمہ پھر آدھمکی۔
"باجی آپ نے ناشتہ نہیں کیا؟"
"میرا دل نہیں چاہ رہا۔"
وہ بے دلی سے بولی۔
"لیں یہ کیا بات ہوئی۔ مجھے تو میرا بندہ جب جب مارتا ہے تو میرے بھوک کھل جاتی ہے۔ میری ماں کہتی ہے تجھے جب تک جمالے کے چانٹے نہ پڑیں تیری راٹی ہضم نہیں ہوتی۔"
وہ منہ پہ ہاتھ رکھے کھی کھی کرنے لگی۔ منتہی اسے دیکھ کر رہ گئی۔
"شوہر کے ہاتھوں پٹنا کوئی اعزاز کی بات نہیں جو تم یوں خوش ہورہی ہو۔"
وہ ترشروئی سے بولی۔
"مرد کے پیار کا یہی طریقہ ہوتا ہے باجی۔
ہم عورتیں مرد کے آگے پیچھے پھر کے اسکی خدمتیں کرکے اپنے پیار کا اظہار کرتی ہیں اور مرد تھوڑا بہت مار کر اپنا پیار دکھاتا ہے "
اسکی منطق نرالی ہی تھی۔
"تھوڑی بہت مار اور ہزاروں گھونسوں سے مارنے میں بہت فرق ہوتا ہے."
اسکی روح گھائل تھی سو وہ تڑپ کر بولی۔
"تو باجی مرد کو حق ہے وہ عورت کو مارے جلا دے گاڑ دے۔ شوہر تو مجازی خدا ہوتا ہے۔"
وہ برتن دھونے لگی۔
"یہ کیا بکواس ہے۔ کس نے دیا مرد کو یہ حق۔"
وہ تلخ ہوئی۔
"اللہ نے دیا ہے باجی۔"
"تم پاگل تو نہیں ہو۔ اللہ نے مرد اور عورت کو برابر بنایا ہے۔"
"نہ نہ باجی توبہ کریں. مرد تو سر کا سائیں ہوتا ہے عورت کی کیا مجال کہ اس کے سامنے سر اٹھائے.
عورت تو پاؤں کی جوتی ہے۔
وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولی۔
"عورت ایک انسان ہے اور سب انسان برابر ہیں۔ اللہ نے کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ دوسرے کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرے پھر چاہے وہ شوہر ہی کیوں نہ ہو."
"باجی جی برا نہ ماننا مگر اتنی زبان چلانے والی عورت تو مار کھاتی ہی ہے۔
شوہر کے سامنے زبان نہیں چلانی چاہیے وہ چڑتا ہے زبان چلانے والی عورت سے۔
آپ بھی صاحب کے سامنے چپ رہا کریں۔"
وہ اسے مشورہ دے رہی تھی۔
منتہی سر جھٹک کر پاؤں گھسیٹتی باورچی خانے سے باہر آئی جہاں بختاور سامنے ہی کاؤچ پہ براجمان ناشتے سے نبردآزما تھیں۔
اسے دیکھ کر اُس کے چہرے پر استہزائیہ سے مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ٹھنڈ پڑ گئی تجھے. کہا بھی تھا زبان نہ چلایا کر شوہر کے سامنے۔ میرا غفران بڑا غیرتمند مرد ہے وہ نہیں برداشت کرتا فضول کی بک بک۔"
وہ ہاتھ نچا کر بولیں۔
"یہ کیسی غیرت ہے جس کی تسکین عورت کے نازک وجود کوزخم زخم کرکے ہوتی ہے؟"
اسکا دل کرلایا تھا مگر وہ کچھ بھی کہے بناء بمشکل چلتی اپنے کمرے میں چلی آئی۔
اسکے قدم بلا ارادہ ہی سنگھار میز کے سامنے رکے تھے۔ اسکی پیشانی پر ورم تھا اور ہونٹ کے قریب نیل کا نشان۔۔ بال بکھرے اور لباس شکن آلود تھا۔
وہ اُس منتہی کا سایہ ہی لگتی تھی جس کے نازک سے سراپے اور معصوم چہرے پر ہمہ وقت دل موہ لینے والی مسکان سجی رہا کرتی تھی۔
"کیا عورت اسی لائق ہے کہ اُس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے۔"
اسنے خود سے سوال کیا تھا یکدم آئینے میں ایک مسکراتا چہرہ ابھرا اور ایک نرم سی آواز اسکے اردگرد بکھر گئی۔
"عورت تو اس لائق ہے کہ اسے دل میں جگہ دی جائے اسے پھولوں کی طرح رکھا جائے جانے کیوں لوگ اس نازک آبگینے کو پیروں کی ٹھوکروں میں کیوں رکھتے ہیں۔"
وہ قائل کرلینے کا ہنر جانتا تھا۔
منتہی اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے بستر کنارے ٹک گئی۔
وہ اسے بڑا بے وقت یاد آیا تھا۔۔
"باجی" آسیہ کی آواز پر وہ چونکی۔
"ہاں" اسنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔
"بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں آج بریانی اور شامی کباب بنیں گے غفران صاحب فرمائش کرکے گئے ہیں۔"
اسنے تائی کا فرمان اسے بتایا تھا۔
منتہی اپنے دکھتے وجود اور زخمی روح کو مزید گھسیٹنے کی ہمت خود میں نہ پاتی تھی۔
"باجی اچھا سا کھانا بنائیں غفران صاحب خود ہی خوش ہو جائیں گے "
آسیہ نے اسکے کمرے کی چیزیں سنبھالتے ہوئے مشورہ دیا۔
"اور میری خوشی؟"
اسنے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
"عورت کی اپنی کوئی خوشی نہیں ہوتی باجی۔ اسکو اللہ نے بنایا ہی قربانی دینے کے لیے ہے."
وہ سر جھٹک کر بولی تھی۔
"قربانی۔۔"وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔
"باجی عورت کی عزت اسکے سر کے سائیں سے ہوتی ہے مرد اگر زیادہ بھی کر رہا ہو تو بھی اس سے معافی مانگ لینی چاہیے۔ اسی میں بھلائی ہوتی ہے عورت کی ورنہ مرد کو کونسا عورتوں کی کمی ہوتی ہے ایک گئی دوسری آگئی۔ مشکل تو عورت کے لیے ہوتی ہے۔ جس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا."
وہ کمرے کی چیزیں سمیٹ چکی تھی سو کمرے سے چلی گئی مگر اسکے جملوں کی بازگشت اب بھی منتہی کی سماعتوں میں گونج رہی تھی۔
سچ ہی تو تھا عورت کی بھلا کیا وقعت مرد کے بغیر۔۔ ایک مرد کی چھوڑی ہوئی عورت پر تو ماں باپ کا گھر بھی تنگ پڑ جاتا ہے۔
معاشرے کی غیر منصفانہ ڈگر کے مخالف چلنے کے لیے بہت ساری بے حسی اور چٹان جیسے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور منتہی میں ان دونوں چیزوں کی ہی شدت سے کمی تھی وہ کم ہمت تھی بزدل تھی۔ ظلم سہنے کو ظلم کے خلاف بولنے پر ترجیح دینے والی بزدل انسان۔۔
اسنے گہری سانس بھری اور اپنے زخمی پاؤں پر بمشکل زور ڈالتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ ایک لمحہ کو رکی تھی وہ ابھی بھی وہیں تھا
"تم مجھ پر بھروسہ تو کرو ماہی۔"
وہ آج بھی اس سے یہی کہہ رہا تھا۔ اسنے سر جھٹک کر نظریں چرالیں۔
"میں مجبور ہوں۔۔ میرے پیروں میں بیڑیاں ہیں۔۔"
وہ اسے جواب دے کر کمرے سے نکل گئی تھی اسے غفران کے لیے بہترین کھانا تیار کرنا تھا کہ عورت کا تو مصرف ہی یہی ہے۔۔۔
--------------------------------------------------------------------
"یہ لو..."
غفران نے اُس کے سامنے ایک پیکٹ پھینکتے ہوئے کہا...
"یہ کھاؤ اور جان چھڑاؤ اِس عذاب سے..."
وُہ نخوت سے بولا..
اُس نے دیکھا تو وہ ترک حمل کی گولیاں تھیں...
"آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں یہ ایسا کُچھ کروں گی.."
اُس کے اندر نجانے اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی بے خوف اُس کے سامنے کھڑے ہوکر بولی...
"کرنا تو ہوگا.."
"میں نہیں کروں گا ایسا کُچھ بھی سنا آپ نے.."
وُہ یکدم چیخی...
"آہستہ آواز میں بات کرو مُجھے ایسی عورتیں سخت ناپسند ہیں .."
وُہ تند خو لہجے میں بولا...
"آپ اِنسان نہیں ہیں جانور ہیں ایک معصوم کی جان لینا چاہتے ہیں جو آپکی ہی اولاد ہے.."
"کیا کہا تُم نے پھر سے کہنا.."
وُہ بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح اُس پر پِل پڑا...
"آپ جانور ہیں بِلکُل جانور مگر ایک بات میری اچھے سے سُن لیں میں اِس بچے کو کُچھ نہیں ہونے دوں گی چاہے اُس کے لئے مُجھے کُچھ بھی کرنا پڑے .."
منتہٰی کے ہاتھ اُس کے گریبان پر تھے وُہ بنا خوف و خطر اُس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی..
"ایک لات کی مار ہے یہ بچہ کونسی دُنیا میں ہو تُم منتہٰی بی بی.."
غفران نے اُس کا مضحکہ اُڑایا..
"میں اپنے بچے کو کُچھ نہیں ہونے دوں گی سنا آپ نے ہرگز نہیں.."
غفران کی دھمکی کا اُس پر مطلق اثر نہ ہوا..
"دیکھ لیں گے کب تک ایک بات اچھے سے یاد رکھنا جانم جب تک میں نہیں چاہوں گا تب تک ہم دونوں کے بیچ میں کوئی تیسرا نہیں آئے گا ہرگز نہیں یہ بچہ بھی نہیں.."
اُس نے منتہٰی کی عرق آلود پیشانی کو ہاتھ میں پکڑے رومال سے صاف کرتے ہوئے نرمی سے کہا..
"میں بھی دیکھتی ہوں کوئی میرے بچے کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے بس بہت ہوگیا اب اور نہیں غفران اب بات مُجھ تک محدود نہیں رہی بات میری اولاد کی ہے اب آپکو اصل منتہٰی دکھے گی.."
وُہ خود حیران تھی اپنی جرات پر واقعی ماں بننے کا احساس بہت طاقت ور ہوتا ہے اُسے آج پتا چلا...
"آہ میری فلمی بیوی بس کرو یہ ڈائلاگ بازی کل تک یہ قصہ ختم ہوجانا چاہیے ورنہ مُجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا.."
وُہ اُسے کے ہاتھوں کو گریبان سے ہٹا کر کہتے ہوئے چلا گیا...
"میں اپنے بچے کو کُچھ نہیں ہونے دوں گی.."
اُس نے خود سے کہا....
----------------------------------------------------------------------
"کھانا دے آ اُسے دو دن سے کُچھ نہیں کھایا ہے مر مرا گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے.."
"شیدا گیا ہے دینے آتا ہو ہوگا.."
اُس نے بے نیازی سے کہا..
اچانک اندرونی کمرے سے کسی کے چیخنے کی آواز آئی تو وہ لوگ اندر بھاگے ابھی اُن دونوں نے کمرے میں قدم رکھا ہی تھا اندھیرے میں کہیں سے اُن دونوں کے سر پر وار ہوا اور وُہ دونوں اپنے اپنے سر پکڑ کر زمین پر گرتے چلے گئے.
اُس نے کمرے سے باہر آکر دیکھا تو راستہ صاف تھا وُہ تینوں بے ہوش پڑے تھے...
وُہ دیوانہ وار باہر کی طرف بھاگا اور بھاگا اور دور تک بھاگتا ہی چلا گیا جب سورج کی تیز روشنی اُس کی آنکھوں سے ٹکرائی تو اُس نے سختی سے اپنی آنکھیں بھینچ لیں پانچ سالوں سے ایک اندھیرے کمرے میں زندگی گزار رہے اُس اِنسان کی آنکھیں یکدم روشنی برداشت نہ کرسکیں وُہ آنکھیں بند کیے ہی بھاگنے لگا نجانے کس کس چیز سے اُس کے پیر زخمی نہیں ہوئے تھے مگر وُہ لمحہ نہ رُکا اُسے یہاں سے دور نکلنا تھا بہت دور...
"شانو میں آرہا ہوں تمہارے پاس اپنے بچے کے پاس..."
وُہ یہی کہتے ہوئے بھاگا جارہا تھا یکدم اُس کی سماعتوں میں ہارن کی زوردار آواز سنائی دی اُس نے آنکھیں کھولی تو سامنے سے ٹرک آرہا تھا...
"نہیں..."
جتنی شدت سے ہوسکتا تھا وُہ چلایا فضا میں پہیوں کی چرچراہٹ کی آواز نے عجیب ارتعاش پیدا کردیا تھا....
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro