قسط نمبر ۸
#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۸
"کیا کر رہے ہیں..."
منتہٰی نے اُس کے سامنے والی کُرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"کُچھ نہیں فری بیٹھا ہوا تھا تو سوچا کتاب ہی پڑھ لوں.."
اُس نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا..
"کون سی کتاب ہے.."
سمیر نے کتاب اُس کے آگے کردی...
"مفتی غلام رسول کی اِس کتاب کے بارے میں میں نے کافی تعریف سنی ہے مگر کبھی پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا..
"منتہٰی نے کتاب کے صفحے پلٹتے ہوئے کہا.."
"امام زین العابدین کی ہر بات بہترین ہے آپکو پڑھنی چاہیے یہ کتاب..."
سمیر نے متانت سے کہا...
"ضرور انشاءاللہ.."
"آپکو کوفہ پتا ہے کیا ہے..؟"
سمیر نے پوچھا...
"ہاں عراق کا شہر ہے جہاں حضرت امام حسین علیہ السلام جامِ شہادت نوش کرگئے تھے۔۔"
اُس نے مختصر جواب دیا..
"کربلا کی داستان میں کوفہ کا شہر ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس کے باشندوں نے خط لکھ کر امام عالی مقام کو بلایا اور اسی شہر کی تلواروں نے ان کے خانوادہ کی بربادی میں حصہ لیا اور جو لوگ اِس ظُلم میں شریک نہیں تھے وُہ بس خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے..مگر امام زین العابدین نے کوفہ کو ایک الگ طرح سے ہم سب کے سامنے پیش کیا ہے.. میں نے خود آج اِس طرح سے پہلی بار سوچا کیونکہ میں نے پہلی بار اُنہیں پڑھا.. امام زین العابدین کا فرمان ہے کوفہ کسی ایک جگہ کا نام نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں ظلم ہے اور اس پر چپ رہنے والے موجود ہیں، وہ جگہ کوفہ ہے۔"
منتہٰی کو لگا یہ الفاظ اُسی کے لیے کہے گئے ہوں شاید پتا ہو اُنہیں بھی آگے زمانے میں کوئی منتہٰی ہوگی کوفہ مزاج..
"ابو دیکھیں کتنا پیارا ہے اِس کی ناک تو بِلکُل مانی بھائی جیسی ہے اور اُن کی آپکے جیسی اِس کی آنکھوں کا رنگ تو مُجھ پر ہے بالکل سیاہ ایک دم سیاہ اور اِس کے ہونٹ بالکل بھابھی پر ہیں.."
منتہٰی کو اپنی کوششیں یاد آنے لگی جو وُہ کرتی تھی آصف صاحب اور منیر کو ملانے کے لیے...
"کیوں لے کر آئی ہو اسے یہاں.."
"ابو آپ کا پوتا ہے آپ اتنے سنگدل تو کبھی نہ تھے آپ تو کسی جانور کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تو کیسے اپنے مانی کی تڑپ آپکو نہیں دکھتی.."
"ابو روکیں حمید بھائی کو وُہ مانی بھائی کو مار رہے ہیں ابو خون نکل رہا ہے مانی بھائی کے منہ سے..."
اُس کا اپنے ہی باپ کے پیروں میں گر کر بھیک مانگنا...
"ابو مانی بھائی مرگئے ابو امی مرگئیں فرحان مرگیا ابو علیشہ مرگئی ابو سب مرگئے آج میں نے اپنے سارے مخلص رشتے کھو دئیے ابو میرا دِل پھٹ جائے گا ابو میرا فرحان چلا گیا میری جان میرا بچہ..."
"فرحان.."
وُہ ایک دم ہوش میں آئی تو سمیر بڑے غور سے اُس کے بھیگتے چہرے کو دیکھ رہا تھا جیسے کُچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو..
"آپ ٹھیک ہیں..؟"
اُس نے پانی کا گلاس اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا..
"جی میں ٹھیک ہوں آپ بتائیں میں سننا چاہتی ہوں.."
اُس نے ایک گھونٹ پی کر گلاس ایک طرف رکھ دیا...
"یہ ایک استعارہ بن گیا ہے بے حسی اور بے عملی کا۔ یہ ظالموں کے گروہ کا نام نہیں ہے، بلکہ اس ظلم پر چپ رہنے والے مجمعے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کی شکل ہے جہاں کسی ایک مظلوم گروہ کو ایک ظالم گروہ مسلسل ظلم کا نشانہ بناتا ہے، لیکن اس ظلم سے نفرت کے باوجود لوگ تماشائی بنے اپنی اپنی عافیت گاہوں میں دبکے رہتے ہیں۔"
اُس نے متوازن لہجے میں اپنی بات مکمل کی..
"میں بھی شاید کوفہ مزاج ہی تھی آنکھوں کے سامنے سب ہوتا رہا دیکھتی رہی چُپ رہی اور پھر ایک وقت آیا میں مظلوم بنی اور باقی لوگ وہی اپنے کردار نبھاتے رہے خاموش تماشائی کا..."
غلافِ چشم پر کئی منظر چلنے لگے...
"آپ ضرور پڑھیے گا یہ کتاب جاتے ہوئی لے جائیے گا جب تک میں مکمل کرلوں گا.."
سمیر نے نجانے کیسے اُس کے لفظوں میں چھپے درد کو جان لیا تھا اِس لیے فوراً بات بدلی...
"شکریہ.."
اُس نے آہستہ سے کہا...
وُہ دونوں پر دوسری باتوں میں مصروف ہوگئے...
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وُہ فائل کو پڑھنے میں مصروف تھی جب زیان نے پیچھے آکر اُسے بلایا...
"لنچ کا ٹائم ہوگیا ہے چلیں.."
اُس نے متانت سے کہا...
"مُجھے بھوک نہیں ہے آپ جائیں.."
اُس نے ایک نظر زیان کو دیکھ کر دوبارہ خود کو فائل میں مصروف کرلیا...
"یہ غلط بات ہے.."
وُہ دیوار سے ٹیک لگائے بولا..
"اِس میں کیا غلط بات ہے میری مرضی مُجھے بھوک نہیں ہے بس اِسی لئے نہیں جارہی آپ کو بھوک لگی ہے برائے مہربانی آپ کھا لیں جاکر..."
اُس نے سرد مہری سے کہا..
"مرضی ہے آپکی۔۔اور غلط اِس میں یہ ہے کہ اِنسان جس کے لیے اتنی محنت کررہا ہے اگر اُس کے پاس اُسی چیز کے لئے وقت نہ ہو تو کس کام کی ایسی مصروفیت ہم اِنسانوں سے اچھی تو پھر مشینز ہوتی ہیں جب اِن کی ہمت نہیں ہوتی تو کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں پھر کوئی مائی کا لال نہیں جو اِن کو اِن غذا دیئے بغیر اِن سے کام کروا لے مگر ہم اِنسان اپنی صحت اپنی سکت سب بھلائے خود کو گھسیٹنے میں لگے رہتے ہیں...اور ایسا بِلکُل مت سوچیے گا یہ میں صرف آپکو ہی کہہ رہا میری رائے ہر اُس اِنسان کے بارے میں ایسی ہی ہے جو یہ حرکتیں کرتے ہیں.."
اُس نے آخر میں اُنگلی سے اُس کے ہاتھ میں پکڑی فائلز کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے نرمی سے کہا..
اُسے لگا اُسے بُرا لگا ہے مگر وُہ اُس کے لہجے میں کہیں بھی ایسا کوئی عنصر نہ پاسکی...
"آپ کام کریں اور یہ فائل مُجھے لنچ کے فوراً بعد چاہئے۔۔"
زیان نے اب کی بار محظوظ ہونے والی مسکراہٹ اُس کی طرف اُچھالتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔
وُہ سنجیدہ بھی بول سکتا تھا منتہٰی کو یقین نہ آیا اُسے زیان کی بات بلکل ٹھیک لگی واقعی اِنسان جس کے لیے اتنی محنت کرتا جب اُس ہی چیز کے لیے وقت نہ مِلے تو کیا فائدہ ایس مصروفیت کا...
وُہ فائل بند کرتی اُٹھ کھڑی ہوئی اور کینٹین کی طرف جانے لگی...
"منتہٰی.."
اپنے نام کی پُکار سن کر اُس نے پلٹ کر دیکھا تو دُعا بھاگتی ہوئی اُسے اپنی طرف آتی دکھائی دی...
"اچھا ہوا تُم یہی مِل گئی میں تمہیں ہی بلانے آرہی تھی چلو لنچ کا ٹائم ہوگیا ہے ساتھ چلتے ہیں۔"
دُعا نے تنفس بحال کرتے ہوئے کہا۔۔
"بھوک تو مُجھے بھی لگی ہے اور تمہارا سانس کیوں پھول رہا ہے..".
منتہٰی نے لفٹ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا...
"لفٹ پر تو ایسے حملہ ہوا تھا جیسے شادی کا کھانا کھل گیا ہو.."
اُس نے منہ بناتے ہوئے کہا..
"اچھا چلو اب.."
اُس نے لفٹ میں داخل ہوتے ہوئے کہا...
"زیان نہیں آرہا کیا؟"
دُعا نے پوچھا..
"وُہ چلا گیا پہلے ہی.."
اُس پر پھر بیزاری چھانے لگی تھی..
"یہ تُم اتنی چڑتی کیوں ہو اُس سے یار اتنا اچھا لڑکا تو ہے بلکل میری طرح پہلی بار مُجھے اپنے مقابلے کا کوئی ملا ہے..."
وُہ پُر جوشی سے بولی...
"کیوں تُم نے اُس کے ساتھ ریسلنگ کرنی ہے.."
وُہ تنک کر بولی...
"ارے بور لڑکی ذہنی ہم آہنگی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔۔"
دُعا نے اُس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا...
"دُعا تمہیں اُس سے مِلے صرف پانچ دن ہوئے ہیں ایک اِنسان کو جاننے کے لیے اتنا قلیل عرصہ بہت نہیں ہوتا ہوسکتا ہے اُس کا باطن اُس کے ظاہر سے بِلکُل مختلف ہو.."
منتہٰی نے اُسے سمجھانا چاہا...
"مُجھے تُم سے مِلے ہوئے بھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے منتہٰی مگر میں اِنسان کو پہلی نظر میں ہی پہچان جاتی ہوں تُم سے کہیں زیادہ تجربہ ہے مُجھ اِنسانوں کی پرکھ ہے مُجھے یہ بال کالا کولا سے کالے نہیں کیے میں نے..."
اُس نے آخر میں ہنستے ہوئے کہا تو منتہٰی بھی بے ساختہ ہنس دی...
"سفید بال ہوتا بُدھو.."
اُس نے اُس کے کندھے پر ہلکی سی دھپ رسید کی...
"جانی میں تمہیں بُڈھی دکھتی ہوں کیا جو سفید بال بولوں.."
اُس نے منتہٰی کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا..
"ڈرامے باز ہو تُم پوری..."
"مُجھے فہد مصطفیٰ کے ڈرامے کے لیے آڈیشن نہیں دے دینا چاہیے پھر.."
اُس نے ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"ہاں تُم تو ہو بھی اتنی پیاری فوراً سلیکشن ہوجانا۔۔"
زیان نے دُعا کے برابر والی کُرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا...
"آگئے تُم برگرز کہاں ہے میں نے تمہیں میسج بھی کیا تھا برگرز لے کر رکھنا مُجھے قسمیں بڑی بھوک لگی ہے.."
دُعا نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا...
"بھوکی وہ لا رہا سمیر.."
زیان نے سمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو برگرز کی ٹرے سنبھالے ہوئے تھا...
"یہ لیجئے.."
اُس نے ایک ٹرے دُعا اور زیان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا اور ایک منتہٰی کے سامنے رکھتا ہوا اُس کے برابر میں ہی بیٹھ گیا...
منتہٰی نے اُس کو دیکھ کر مسکرانے پر اکتفا کیا..
"ویسے میں نے آپکو کہا تھا مُجھے وُہ فائل لنچ کے فوراً بعد چاہیے تو آپ یہاں کیسے..."
وُہ اُسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا..
"توبہ توبہ لڑکے اب کیا میری دوست لنچ بھی نہ کرے کتنے ظالم ہو تُم مُجھے لگتا ہے منتہٰی ٹھیک کہتی ہے تمہارے بارے میں۔"
دُعا نے برگر کا بائٹ لیتے ہوئے بھرے منہ کے ساتھ کہا..
"یار تمہاری دوست ہی کہہ رہی تھی اُسے بھوک نہیں تو میں نے سوچا چلو اچھا ہے اتنے میں یہ فائل ختم کر لیں گی کیوں منتہٰی.."
زیان نے بدستور اُسے دیکھتے ہوئے شوخی سے کہا..
وُہ اُس کو کڑے تیوریوں سے دیکھتی سمیر کی طرف متوجہ ہوگئی...
"سمیر وُہ میرے پاس موبائل نہیں ہے اور مُجھے پتا بھی نہیں ہے یہاں کہاں سے مِلے گا تو کیا آپ مُجھے لا دیں گے.."
اُس نے اُنگلیوں کے آپس میں مس کرتے ہوئے کہا..
"جی ضرور میں لا دوں گا آپ مُجھے اپنی رینج بتا دیجئے گا میں آج ہی آف کے بعد لے لوں گا جاکر.."
وُہ اطمینان سے بولا..
"بلکہ ایسا کریں آپ بھی میرے ساتھ چل لیں اپنی مرضی کا لے لیجئے گا اور یہ زیادہ بہتر رہے گا میرے خیال سے.."
سمیر نے برگر کا ٹکڑا اُٹھاتے ہوئے کہا...
"دُعا تُم چلو گی میرے ساتھ.."
منتہٰی نے زیان کے ساتھ مُلکی سیاست پر گمبھیر بحث کرتی دعا سے پوچھا تو اُس نے سابق وزیر اعظم ٹکو کا مذاق اڑاتے ہوئے اُسے ہاتھ کے اشارے سے ہاں کردیا...
"شرمیلا بہن فاروق ستار بھی چلیں گے تمہارے ساتھ.."
زیان نے ہنس ہنس کر دوہری ہوتی دُعا کے ہوا میں بلند ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہا...
"ہاں چل لے نہ فاروق بھائی مگر پہلے کمال چچا کو انفارم کردینا کہیں اِس بات پر پریس کانفرنس بلا کے لندن والی بہن کو ہلا نہ دے..."
دُعا نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا...
"بڑے مزاخیہ ہو تسی بڑے مزاخیہ ہو.."
وُہ آخر میں کاجل کا ڈائلاگ بولتی جوس گلاس اُٹھانے لگی...
"بس جی کبھی غرور نہیں کِتا.."
اُس نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا..
منتہٰی اپنی آنکھیں خطرناک حد تک پھیلائے اُن دو عجوبوں کو دیکھ رہی تھی...
"کتنی فضول بحث کرتے ہو یار تُم دونوں.."
سمیر نے افسوس بھرے انداز میں کہا..
"ہاں تو تُم دونوں کی طرح ایائنسٹائین کے سیب اور درخت کی باتیں کریں ہم اتنے خشک نہیں...
"وُہ نیوٹن کا یونیورسل لاء آف گریوٹیشن ہے.."
منتہٰی سے رہا نہیں گیا وُہ بھی بیچ میں بول پڑی...
"تُم لوگوں نے پڑھا کیا ہے اتنا بھی نہیں پتا..."
سمیر نے زیان کو اور دُعا کو ملامت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا..
"ایک تو تُم بُک وارمز کی سب سے بری بات ہر ایک پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھانا چاہتے ہو کیا ضرورت تھی پورے کے پورے لاء کا نام بتانے کی صرف عذاب پیدا کرنے والے کے نام کی تردید کرسکتی تھی نہیں نہ ایسے تُم لوگ یہ کیسے بتا سکو گے تمہیں آتا ہے.."
دُعا نے دوبارہ قہقہہ بلند کرتے ہوئے زیان کا ساتھ چاہا مگر اُس نے منتہٰی کے اُترے ہوئے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُس کی ہنسی کو بریک لگایا...
"اچھا نا جانو میں تو مذاق کر رہی تھی.."
دُعا نے اپنی کُرسی سے اُٹھ کر اُس کے پاس آکر گلے میں بانہیں ڈال کر محبت سے بولی وہ کیسے اُسے ناراض ہونے دیتی..
"ارے کوئی بات نہیں یار دوستوں میں ایسا چلتا ہے.."
منتہٰی نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہموار لہجے میں کہا...
"لے میں ایویں سینٹی ہوگئی خیر کوئی گل ہی نہیں پھیر کبھی کسر پوری کرلوں گی.."
دُعا نے پنجابی اور اُردو ملا کر کہا تو منتہٰی بے اختیار ہنسی دی..
"اے اے میری شیرنی ہنسی.."
وُہ اُس کے گلے لگتے ہوئے بولی...
"چل بھائی اُٹھ کر سامنے دفع ہوجا مُجھے اپنی دوست کے پاس بیٹھنے دے.."
وُہ زیان کے کندھے پر دھپ رسید کرتی بولی..
"توبہ توبہ لڑکی کون سی چکی کا آٹا کھاتی ہو بلکل مردانہ ہاتھ ہے اتنے بھاری.."
وُہ اپنا کندھا سہلاتا سمیر کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا..
"کون سا موبائل لو گی تُم.."
وُہ اُس کی باتوں کا اثر لیے بغیر منتہٰی سے بولی
"دیکھتے ہیں جاکر.."
منتہٰی نے بے فکری سے کہا...
"باہر آؤٹنگ بھی ہوجائے گی اِسی بہانے ہم سب کی ورنہ فرم سے ہوسٹل ہوسٹل سے فرم.."
دُعا نے کوفت سے کہا..
"ہاں ٹھیک کہا کوئی ایکسائٹمنٹ ہی نہیں زندگی میں روبوٹ بن کر رہ گئے ہیں.."
زیان نے اُس کی بات کی تائید کرتے ہوئے منتہٰی کو دیکھ کر کہا..
"بات تو ٹھیک ہے.."
سمیر نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی تو منتہٰی جو منع کرنے والی تھی چُپ ہوگئی وُہ اُس کی رائے کو مقدم جانتی تھی...
"اور ہوسٹل.."
اُس نے دُعا سے کہا..
"یار ہوسٹل کا گیٹ نو بجے بند ہوتا ہے ہم لوگ کون سا بہت لمبا باہر رہنے والے ہیں آٹھ بجے تک آجائیں گے.."
دُعا نے ناک سے مکھی اُڑائی..
"ٹھیک ہے"
منتہٰی بھی چُپ ہوگئی..
"ایک کام کرتے ہیں آج ویسے بھی جمعہ ہے ہالف ڈے ہوگا تو ہم سب گھر جاکر چینج کر آتے ہیں اور ایک پوائنٹ طے کرلیتے ہیں سیدھا وہی پہنچتے ہیں.."
سمیر نے اپنی رائے دی..
"یہ ٹھیک ہے.."
منتہٰی نے فوراً کہا..
غیر محسوس سے انداز میں سمیر اُس کے لیے بہت خاص ہوتا جارہا تھا بس ایک ہفتے کے ساتھ میں ہی وُہ اُس کی شخصیت سے کافی متاثر ہوچکی تھی اور بات اب پسندیدگی تک آ پہنچی تھی..
سمیر نے نرم مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اُس کی طرف دیکھ کر پلکیں جھپکائی تو وُہ شکریہ ادا کرنے کے اِس انداز کو سمجھ گئی اور جواباً اپنے سر کو ہلکا سا خم دے کر مسکرا دی..
"پھر ہم لوگ چار بجے ہوسٹل سے آگے والی چوک پر ملتے ہیں وہاں سے پہلے منتہٰی کا موبائل لیں گے پھر کسی اچھے سے ہوٹل میں جاکر ڈنر کریں گے.."
زیان نے ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے پُر جوشی سے کہا...
"یہ نمبر رکھو اور اِس کا استمعال کرلینا.."
دُعا نے اپنے پرس سے ایک کارڈ نکال کر زیان کو دیتے ہوئے کہا..
"یہ کیا ہے..؟"
اُس نے کارڈ لیتے ہوئے پوچھا...
"اچھا
کارڈ دیکھ کر وُہ اُس کی بات سمجھ کر چُپ ہوگیا...
"اب چلو چلتے ہیں.."
دُعا نے بیگ اُٹھاتے ہوئے کہا..
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وُہ دونوں تیار ہوکر ساڑھے چار بجے تک ہوسٹل سے تھوڑا آگے مرکزی چوک تک پہنچی تو زیان اور سمیر کو گاڑی میں بیٹھے دیکھ کر منتہٰی حیران ہوگئی...
"کرلیا تُم نے کارڈ کا استعمال سمجھدار لڑکے.."
اُس نے جان کر چھیڑا..
"ہاں بہت سستے میں مِل گئی گاڑی کرائے پر ورنہ میں تو تو سمجھ رہا تھا نجانے کتنے لے گا.."
زیان نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔۔
"گاڑی کا رینٹ ہے کتنے اب تو بتادو زیان یار تاکہ ہم برابر بانٹ لیں.."
سمیر نے کہا..
"تُم انہی میں اُلجھے رہنا کتنے کس کے حصے میں آنے بھئی دوستوں میں تو جتنی ایک انسان کی بینڈ بجا سکتے اُتنی بجا دو کیوں بے.."
دُعا نے زیان کو پیچھے سے گردن پر چپت لگا کر کہا...
"جنگلی لڑکی اپنے مرادنہ ہاتھ سو کوس دور رکھا کرو مُجھے سے ارے تُم سے زیادہ نرمی تو میرے ہاتھوں میں ہے نجانے پتھر توڑتی رہی ہو یا کیا کرتی رہی ہو تم.."
"Idiot.."
دُعا بے ہنستے ہوئے اُس کے بازو کی چٹکی لے لی...
جس پر سس کرکے رہ گیا...
"ویسے راز تو بتادو اِن مرادنہ ہاتھوں کا.."
زیان نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا...
"زندگی کی مشقتیں اور اِس ظالم دُنیا میں اکیلے ہونا اگر تُم لوگوں میں سے کوئی بھی جانتا ہوتا تو یہ سوال پوچھتا ہی نہیں نو سال کی عمر سے روٹی کی تلاش میں تگ ودو کرنے والوں کے وجود کومل نہیں ہوتے.."
دُعا نے حد درجے سنجیدگی سے کہا تو منتہٰی سمیر سمیت گاڑی چلاتے زیان نے بھی گاڑی روک کر پیچھے اُس کی طرف دیکھا جہاں صرف کرب تھا...
سمیر نے پہلی بار اُسے سنجیدہ دیکھا تھا اور وُہ سنجیدہ ذرا بھی اچھی نہیں لگتی تھی اُسے دُعا بولتی شوخ و چنچل سے اچھی لگتی تھی...
منتہٰی نے اُس کا کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینی چاہی...
"ارے یار تُم لوگ تو ہونقوں کی طرح مُجھے تکنے لگ گئے مانا میں آج بے ہے خوبصورت لگ رہی ہوں مگر تُم لوگ منتہٰی کو جیلس فیل مت کرواؤ یار.."
دُعا نے منتہٰی کو آنکھ مارتے کہا تو وُہ دِل کھول کر ہنسی دی...
زیان نے بیک ویو مرر سے اُسے ہنستے ہوئے دیکھا اور گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کردی بلاشبہ وُہ بہت اچھی لگتی تھی ہنستی مسکراتی..
سمیر نے دزیدہ نظروں سے دُعا کو دیکھا تو اُسی پل دُعا کے نظریں بھی سمیر کی طرف اُٹھی تھیں دونوں کو نظریں ایک دوسرے سے ملی تھیں اگلے ہی لمحے دونوں نے اپنی نظروں کا رُخ بدل لیا..
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro