Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۲

کنال روڈ سے ممتاز گرلز ہاسٹل کا سفر اُس نے آدھے گھنٹے میں طے کیا۔
"بس بھائی یہی روک دیں..."
منتہٰی نے رکشے سے گردن باہر نکال کر ہاسٹل کو بورڈ کو دیکھتے ہوئے کہا...
رکشے والے کو کرایہ دے کر اُس نے اپنے بیگ سنبھالے اور دروازے پر دستک دی۔۔
تیسری بار دستک دینے پر چوکیدار نے دروازہ کھولا...
"کون ہے تُم.."
لہجہ پشتو تھا...
"تہمینہ آپا سے ملنا ہے میں ہاسٹل میں رہنے کے لئے آئی ہوں میرے بابا کی اُن سے بات ہوئی تھی ..."
منتہٰی نے چادر کو مزید لپيٹتے ہوئے کہا...
"وُہ تو دس بجے آئے گا تُم بعد میں آنا..."
چوکیدار  دروازہ بند کرنے لگا...
"بھائی میں تب تک کہاں جاؤں گی میں بہت دور سے آئی ہوں کراچی سے..."
"بھائی" لفظ نے اُس کی غیرت جگا دی پُر جوش ہوکر بولا...
"باجی تُم اندر آجاؤ ادر کوریڈور  میں بیٹھ جاؤ کہاں گھومتا پھرے گا اتنی ٹھنڈ میں صبح صبح..."
اُس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے اندر آنے کا راستہ دیا...

"بہت شکریہ بھائی.."
وُہ اُس کا شکریہ ادا کرتی ہوئے کوریڈور میں رکھے صوفے پر آکر بیٹھ گئی...
ہر چیز پر بڑی گہری گہری نظروں سے دیکھنے لگی اُسے سب کچھ نارمل ہی لگا..
گھڑی اُس وقت صبح کے ساڑھے سات بجا رہی تھی...
"بچے اسکول جانے کے لئے اُٹھ گئے ہوں گے اب سب کو پتا چل جائے گا کہ میں گھر میں نہیں ہوں.."
وُہ خود کو اُن سوچوں سے آزاد نہیں کروا پا رہی تھی...
"یا اللہ میرے بابا کو ہمت دینا کہ وُہ سب کا سامنا کرسکیں اتنا بڑا قدم اُٹھایا ہے نام نہاد طبقاتی ناہمواری سے دشمنی مول لی ہے اُنہوں نے میری خاطر بس اُنہیں ہمت دیجئے گا..."
نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے اُس نے دعا کی...
ٹھنڈ بہت تھی اُس نے پیر اوپر کرکے چادر کو اچھی طرح اپنے اطراف لپیٹ لیا اور اور صوفے کی پُشت پر سر رکھ لیا...
"زندگی کتنی عجیب ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنا گھر چھوڑ کر اِس طرح دربدر ہونا پڑے گا.."
اُس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سوچا...
"کیا بابا نے صحیح فیصلہ کیا؟"
وُہ خود سے پوچھنے لگی...
"اُن حالات میں وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے اپنی اولاد کو اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں رُلتا دیکھ اُن کا دِل خون کے آنسو روتا ہوگا وُہ جو کرسکتے تھی اُنہوں نے کیا..."
اُس نے خود ہی جواب دیا..
"آہ میرے بھائی... چھوٹی بہن تو سب کی لاڈلی آسودگی  ہوتی ہیں..."
اُس نے یاسیت بھرے انداز میں سوچا..
"میں بھی تو اپنے دونوں بھائیوں کی لاڈلی تھی۔"
برسوں پُرانی بات یاد کرکے اُس کے چہرے آسودگی چھا گئی..
"ہاں بس جب تک بھابیاں نہیں آئی تھیں..."
نا آسودگی نے آسودگی کو یوں غائب کیا جیسے تھی ہی نہیں بس چہرے پر اب فکروں کا جال تھا اندیشے تھے اک نا معلوم سا خوف...
"بھابیوں کے آتے ہی بھائی کیوں بدل جاتے ہیں وُہ بّھی اتنا کہ جس بہن پر جان چھڑکتے ہوں  اُنہیں پر اُس کی دلدوز چیخوں سے بھی فرق نہیں پڑتا.."
کُچھ یاد آنے پر آنکھیں پھر بھر آئی...
انہی سوچوں میں مستغرق اُس کی آنکھ لگ گئی
کسی لڑکی نے اُس کا شانہ ہلایا تو اُس نے جھٹ اپنی آنکھیں کھول دی اور کھڑی ہوگئی...
"جی آپ کون...؟"
لڑکی نے پوچھا...
"میں کراچی سے آئی ہوں تہمینہ آپا سے ملنا تھا ..."
اُس نے مختصر سا بتایا...
"تمہارا نام منتہٰی ہے.."
"جی.."
اُسے حیرت ہوئی...
"مُجھے تہمینہ باجی نے کل صبح بتایا تھا تمہارے بارے میں تُم چلو میرے ساتھ تھک گئی ہوں گی آرام کرلو..."
اُس نے نرمی سے کہا...
منتہٰی اپنے بیگز سنبھالتی اُس کے پیچھے چلنے لگی...
"لاؤ میں اُٹھا لیتی ہوں.."
وُہ لڑکی مدد کے لیے آگے بڑھی...
"نہیں میں اُٹھا لوں گی...شکریہ.."
"ارے لاؤ ایک مُجھے دے دو کمرہ تیسری منزل پر ہے اِس طرح تُم تھک جاؤ گی..."
اُس نے منتہٰی سے ایک بیگ لے ليا اور سیڑھیاں چڑھنے لگی...
"ویسے تُم کراچی سے اتنی دور یہاں کیوں آئی ہو...میرا مطلب تُم وہاں بھی جاب کرسکتی تھی پھر یہاں..."
انداز دوستانہ تھا..
"بس قسمت کے کھیل.."
اُس نے پھر مختصر جواب دیا...
"کافی کم بولتی ہو تُم میرے ساتھ کیسے گزارا ہوگا تمہارا..."
وُہ ہنستے ہوئے بولی...
"آپکے ساتھ..."
منتہٰی نا سمجھ آنے والے انداز میں بولی...
"جی ہاں  میرے ساتھ کیونکہ ہم دونوں ایک ہی کمرہ شیئر کر رہے ہیں عموماً تو میں اپنے ساتھ کسی کو ٹکنے نہیں دیتی پر تم اچھی لڑکی لگ رہی ہو..."
باتیں کرتے کرتے وُہ دونوں تیسری منزل پر بھی آگئے...
"چلو خوش آمدید میری تنہائیوں کی ساتھی میری ہونے والی راز دار میری ٹو بی فرینڈ..."
اُس نے کمرے کا دروازہ کھول کر شوخ انداز میں کہا...
منتہٰی ایک خاموش طبع اِنسان تھی اُسے خاموشی ہی پسند تھی مگر اِس لڑکی کا شوخ پن دیکھ کر اُسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی وہ محض مسکرا کر رہ گئی...
"یہ رہا ہمارا کمرہ ابھی تُم آرام کرو مُجھے بھی فرم کے لئے لیٹ ہورہاہے شام پانچ تک آجاؤں گی بھوک لگے تو فریج میں کل رات کا مرغی کا سالن رکھا ہوا ہے اور روٹی بھی گرم کرکے کھا لینا ..."
اُس نے دوبارہ سینڈلز پہنتے ہوئے کہا...
"میں بھی چلتی ہوں آپکے ساتھ آج سے ہی جوائن کرلیتی ہوں یہاں اکیلی کیا کروں گی میں..."
منتہٰی نے اُٹھتے ہوئے کہا...
"کوئی نہیں تُم کل سے چلنا ابھی آرام کرو پھر شام میں تہمینہ باجی سے بھی مِل لینا..."
اُس نے رسان سے کہا...
"آپکا نام کیا ہے؟"
وُہ بے اختیار پوچھ بیٹھی...
"دُعا..."
دُعا نے مسکراتے ہوئے بتایا....
"ماشاءاللہ بہت پیارا نام ہے بالکل آپکی طرح بہت خوبصورت.."
وُہ ستائشی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولی...
"بہت شکریہ  تُم بھی بہت کیوٹ ہو.."
وُہ اُس کے گال کو چھوتے ہوئے پیار سے بولی...
"آپ جائیں آپ کو میری وجہ سے دیر ہورہی ہے
آپکو.."
وُہ متانت سے بولی...
"یار اب دِل نہیں کر رہا میرا تمہیں اکیلے چھوڑ کر جانے کو اور دیر بھی ہوگئی ہے منیجر سنائے گا تو کیوں نہ کل ہی اُس کی بک بک سن لوں آج تمہیں کمپنی دے دیتی ہوں اور تھوڑا آرام بھی کرلوں گی..."
وُہ بیگ بیڈ پر پھینکتی ہوئے بیٹھ گئی...
"ارے تم ابھی تک بیٹھی ہوئی ہو یار تُم کوئی مہمان نہیں ہو جسے بار بار کہنا پڑے گا یہ تمہارا بھی کمرہ ہے تو بے فکر ہوکر پاؤں پسار لو اپنے..."
دعا نے ہموار لہجے میں کہتے ہوئے سینڈلز اُتار کر دور پھینکے اور لیٹ گئی...
"یہاں بیڈ پر لیٹ جاؤں میں..."
منتہٰی نے حیرت سے پوچھا...
"نہیں باہر کوریڈور میں بستر لگاؤں اپنا..."
اُس نے ازرہ مذاق کہا...
"جی..."
منتہٰی نے آہستہ سے کہا...
"یار تُم سچ میں اتنی ڈمب ہو یا پھر بن رہی ہو..."
دعا کو منتہٰی میں دلچسپی ہونے لگی تھی..
"میں سمجھی نہیں..."
وُہ اپنے ازلی معصوم انداز میں بولی...
"کُچھ نہیں تم واقعی ڈمب ہو بلکل صفر..."
دعا نے اُس کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا..
منتہٰی اپنا بیگ کونے میں رکھنے لگی۔
"میری باتوں کا بُرا مت ماننا میں ایسی ہی ہوں مجھے سُن لوگوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے مطلب کوئی کیسے گونگا بنا رہ سکتا ہے یار..."
"چُپ رہنا فضول بولنے سے بہتر ہوتا ہے .."
منتہٰی بے دھیانی میں کہہ گئی...
"یہ یہ چیز میری عزیز  بولی نہ آخر اپنے دفاع میں.."
دعا پُر جوش ہوکر بولی...
"دفاع نہیں یار... بس مُجھے چُپ رہنا پسند ہے..."
منتہٰی نے متانت سے کہا۔
"اچھی بات ہے خوب جمے گی ہمارے کیونکہ مُجھے بولنا پسند ہے تُم خاموش رہ کر میری ہر بکواس سن لینا.."
دعا نے لیٹتے ہوئے شوخی سے کہا...
منتہٰی کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی...
"یار اِدھر آکر بیٹھو نا میں نے تمہارے لئے چھٹی کی ہے اور تُم کام میں لگ گئی ہو.."
دعا نے جنجھلاتے ہوئے کہا...
"مُجھے بکھیڑا بالکل نہیں پسند بکھری ہوئی چیزیں دیکھ کر مُجھے سخت چڑ ہوتی ہے.."
منتہٰی نے اُس کے پھینکے ہوئے سینڈلز اٹھاتے ہوئے کہا...
"یا خُدا پھر تمہارا اور میرا گزارا ہوگا کیسے..؟"
"مطلب.."
"مطلب یہ کہ مُجھے چیزیں سمیٹنے سے چڑ آتی..."
دعا نے یوں منہ بنایا گویا کریلے کا جوس پی لیا ہو...
"ہاہاہاہا..."
وُہ بے اختیار ہنس پڑی...
دعا حیران سی اسے دیکھتی رہ گئی ازحد سنجیدہ باتوں سے ارسطو کی شاگرد دکھائی دینے والی وُہ لڑکی اتنی سی بات پر کیسے ہنس دی تھی...
دعا کی بھونچکی شکل دیکھ کر منتہٰی کے چہرے کے زاویے پل بھر میں بدلے اور چہرہ پھر سے سپاٹ ہوگیا...
"ارے تُم پھر سے وہی 80's کی پدمنی کولا پوری بن گئی سنجیدہ ..."
"ایسی کوئی بات نہیں بس ایسے ہی.."
اُس نے بیڈ پر  اُس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا...
"آپ کہاں سے ہیں..؟"
منتہٰی نے پوچھا...
"میں یہی سے ہوں.."
دُعا نے اُس کے سوال کو سمجھتے ہوئے بھی نظر انداز کیا...
"میرا مطلب آپکی فیملی وغیرہ کہاں سے ہے..؟"
منتہٰی نے صاف لفظوں میں کہا...
"جن لڑکیوں کے گھر ہوتے ہیں سر پر ماں باپ یا بھائی بہن ہوتے ہو نا وُہ ایسے بے آسرا ہاسٹلز میں زندگی نہیں گزار رہے ہوتے.."
وُہ یکدم سنجیدہ دکھائی دینے لگی...
منتہٰی نے بے دردی سے اپنا نچلا لب کچلا تھا  اور آنکھوں کو جھٹ پٹ کرکے آنسؤں کو گرنے سے روکا...
"ضروری نہیں جو بے امان ہو وہی دربدر ہو کُچھ لوگ خونی رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی رُل جاتے ہیں..."
وہ رِقت قلب سی کیفیت میں بولی...
"میرا کوئی نہیں ہے اِس دُنیا میں پتا نہیں کیسے اتنی بڑی ہوگئی میں کس کے سہارے پر جب سے ہوش سنبھالا تہمینہ باجی کو اپنے سر پر سایہ فگن کیے پایا تو میرے لیے تو وہی سب کُچھ ہیں.. اگر یاد کرنے کی کوشش بھی کروں کوئی بھی ایسی ایک یاد "یاد" نہیں آتی  جس میں ایک چھوٹی بچی ماں باپ کے پیار سے محظوظ ہوتی دکھائی پڑے ...."
وُہ دردِ آلودگی سے بولی آنکھوں میں چمک ابھری تھی "اشکوں" کی۔
اُس نے بے رحمی سے آنکھیں رگڑ ڈالی...
"ہم بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے قسمیں مُجھے اچانک بڑی زور کی بھوک لگی ہے میں فریج سے سالن نکال کر گرم کر رہی ہوں ہم دونوں کے لیے.."
دعا نے بشاشت سے کہا...
"پر مجھے تو بھوک..."
"ہاں ہاں تمہیں یقیناً بھوک نہیں ہوگی مگر میں اکیلی نہیں کھاؤں گی تمہارے ہوتے ہوئے.."
اُس نے سادہ سے انداز میں کہا...
"بہن دیکھ میں بھی کتنی بھلکڑ ہوں سالن لے آئی صرف فریج سے ذرا روٹی اور گوندھا ہوا آٹا دے دے میں روٹی ڈال دیتی ہوں دو روٹی کہاں پوری ہوگی..."
دعا نے دیا سلائی ڈھونڈتے ہوئے مصروف انداز میں کہا...
منتہٰی سرعت سے اُٹھی اور فریج سے پیالی اور روٹی اُٹھا کر کونے میں چھوٹے سے بنے کچن کی طرف آگئی ہے...
"اب تم جاکر بیٹھ جاؤ میں بس ۱۰ منٹ میں روٹی لاتی ہوں..."
دعا نے خشکی کے لیے آٹا چھانتے ہوئے کہا...
"آپ نے  ہی کہا نا کہ یہ میرا بھی کمرہ ہے تو مُجھ سے پھر کیوں مہمانوں جیسا برتاؤ..."
منتہٰی نے مسکرا کر کہتے ہوئے تسلا اپنی جانب لیتے ہوئے کہا...
دعا بھی مُسکرا دی...
"میں روٹی بناتی ہوں آپ سالن گرم کرلیں..."
منتہٰی نے آٹے کے پیڑے بناتے ہوئے نرمی سے کہا...
دعا نے اثبات میں سر ہلا دیا...
وُہ  سالن گرم کرکے چائے کا پانی رکھنے لگی..
دونوں نے ساتھ مِل کر کھانا کھایا پھر دعا چائے کے کپ لے کر کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئی جہاں سے دسمبر کے اوائل دنوں کی نرم خو دھوپ ہلکی ہلکی سی آرہی تھی..
"شکریہ.."
منتہٰی نے متشکرانہ انداز سے کہتے ہوئے کپ اُس کے ہاتھ سے لے لیا...
"فلک تک چل ساتھ میرے..
فلک تک چل ساتھ چل..
یہ بادل کی چادر...
یہ تاروں کے آنچل میں چھپ جائیں ہم پل دو پل..."
دُعا گنگنانے لگی...
"میرا بھی پسندیدہ گانا ہے.."
منتہٰی غیر محسوس انداز میں اُس کے ساتھ گھلنے ملنے لگی تھی صرف چند گھنٹوں کی ملاقات میں..
"تُم بھی گانے سنتی ہوں.."
دُعا نے مسکرا کر کہا...
"کیوں میں نہیں سن سکتی.."
منتہٰی اُس کی طبیعت سے مانوس ہونے لگی تھی...
وُہ تو محبت اور خلوص کی ترسی ہوئی تھی...
"نہیں تمہیں دیکھ کر لگتا ہے تُم نے کبھی کورس کی کتابوں کے علاوہ کوئی الگ سے کتاب بھی نہیں پڑھی ہوگی کبھی تو گانے تو بہت دور..."
"اب میں اتنی بھی بور نہیں ہوں.."
اُس نے مصنوئی خفگی سے کہا تو دُعا ہنس دی...
"دوست.."
دُعا نے بچوں کی طرح اُس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا...
"ہاں دوست.."
منتہٰی نے خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کا ہاتھ تھام لیا...
"شکریہ.."
منتہٰی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا...
"ارے کیا ہوا.."
دُعا نے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے محبت سے پوچھا...
"کُچھ نہیں بس ایسے ہی دِل بھر آیا.."
وہ نم آنکھوں کے ساتھ ہنستے ہوئے بہت ہی پیاری لگی دُعا کو..
"ارے پاگل..."
اُس نے ہلکی سی چپت اُس کے سر پر لگاتے ہوئے کہا...
"ویسے تُم نے کتنا پڑھا ہوا ہے.."
دُعا نے باتوں کا رُخ بدلا...
"کیمیکل انجینئرنگ کے سیکنڈ لاسٹ ایئر..."
منتہٰی کے چہرے پر یک دم پژمردگی چھا گئی...
"پوری کیوں نہیں کی.."
دُعا کو حیرت ہوئی...
"منیر بھائی جو چلے گئے.."
منتہٰی نے جاں گدازی سے کہا...
"مطلب..."
دُعا نے اُس کی طرف دیکھے بغیر کہا ورنہ وُہ اُس کے چہرے پر در آئی دُکھ اور اذیت کی داستاں پڑھ لیتی...
"کُچھ نہیں بس حالات ایسے ہوگئے کہ آگے پڑھ ہی نا سکی... پھر کبھی بتاؤں گی..."
منتہٰی نے دونوں کپ اُٹھاتے ہوئے کہا...
"ٹھیک ہے.."
دُعا نے شانے اُچکا دیئے...
"واشروم..."
اُس نے دور کچن کے پاس کھڑے کھڑے ہی پوچھا...
"اِس طرف.."
منتہٰی تیزی سے واشروم میں گھس گئی...
"منیر بھائی....آپ دیکھ رہے ہیں نا آپ کے بعد میری کیا حیثیت رہ گئی ہے صرف آپ علیشہ اور بابا ہی تو تھے میرے ہمدرد ..."
منتہٰی بے آواز روتے ہوئے خود سے بولی...
"میں کہتی تھی نہ آپکو آپ کے بعد میرا کوئی خیال نہیں رکھے گا دیکھیں آج آپکی بہن کیسے رُل رہی ہے سگے رشتوں کے ہوتے ہوئے..."
بہت عرصے بعد پُرانے زخم اُدھڑے تھے اب درد ہی درد بہہ رہا تھا اُن زخموں سے...
اُس نے منہ پر پانی مارا اور خود کو نارمل پوز کرتی باہر آگئی...

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro