قسط نمبر ۲۶
#بچھڑے_سفر_میں
(season 1)
قسط نمبر ۲۶
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
"کیسی ہو تُم اب...؟"
طیات نے منتہٰی کے ساتھ ہی کُرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے شفقت سے پوچھا...
اُس نے محض گردن ہلانے پر اکتفاء کیا...
"گھبرانا مت تُم بہت جلدی ٹھیک ہوجاؤ گی.."
منتہٰی چاہ کر بھی کُچھ بول نہ سکی...
"بہت ہمت ہے تُم میں ورنہ جس حالت میں تُم یہاں لائی گئی تھی میں ڈاکٹر ہوکر ایک لمحے کو سہم گئی تھی..."
طیات نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا...
"گھبراؤ مت ریلیکس رہو تُم میری بیٹیوں کی طرح ہو بلکل میری بِلکُل تمہاری عُمر کی ایک بیٹی ہے تمہاری طرح ہی بہت پیاری معصوم سی.."
وُہ اُس کی چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی...
"اچھا سب چھوڑوں میں تمہیں ایک بات سناتی ہوں...."
طیات نے نرمی سے کہا...
"میرے شوہر نے میرے لیے لکھ چھوڑی ہے یہ بات اور ایسی کئی ہیں جسے میں نے اُن کے اِس دُنیا کے جانے کے بعد پڑھا کیونکہ وہ لکھی ہی اِس لیے گئیں تھیں کہ جب وُہ میرے ساتھ نہ ہوں تو اُن کی باتیں مُجھے ہمیشہ زندگی کے فیصلے کرنے میں مدد دے..."
عامر کا مسکراتا چہرہ اُسکی آنکھوں کے سامنے تھا...
منتہٰی چپ چاپ اُسے دیکھ رہی تھی طیات نے پھر بولنا شروع کیا...
"عقاب کی عمر ستر سال ہوتی ہیں.... اِس عُمر تک پہنچنے کے لئے اُسّے سخت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے....جب اُس کی عُمر چالیس سال ہوتی ہیں تو پنجے کند ہوجاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کرپاتا... مضبوط چونچ بھی عُمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہوجاتی ہے...پربہت بھاری ہوجاتے ہیں سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں.. اُڑان بھرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے... اِن مشکلات کے ہوتے اُس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں.. موت کو تسلیم کرلے یا 150 دِن کی سخت ترین مشقت کے لئے تیار ہوجائے..."
وُہ کہتے کہتے رُکی منتہٰی کی طرف دیکھا اُس کا چہرہ سپاٹ تھا وُہ گہری سانس لے کر پھر سے بولنے لگی....
"وُہ پہاڑوں میں جاتا ہے چونچ کو پتھروں پر مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے..
کُچھ دن بعد نئی چونچ نکلتی ہے تو اُس سے اپنے ناخن جڑ سے نکال پھینکتا ہے....
نئے ناخن نکل آتے ہیں تو وُہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال اُکھاڑ پھینکتا ہے ..
اِس عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل مشقت سے گزرنا پڑتا ہے...
پانچ ماہ بعد پھر اُڑان بھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُس نے نیا جنم لیا ہو... اِس طرح وُہ مزید تیس سال زندہ رہ پاتا ہے..."
منتہٰی کے چہرے پر اب ناسمجھی کے تاثرات تھے...
" بیٹا بعض دفعہ زندگی کو بدلنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ہم اِس سے بہتر زندگی گزار سکیں....
بھلے زندگی بدلنے کے لیے سخت جدوجہد ہی کیوں نہ کرنی پڑے... ڈٹ کر ہر مشکل کا سامنہ کرنا چاہیے ایک بار ہمت ضرور کرنی چاہیے اللہ بھی انہی لوگوں کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرنا جانتے ہیں اب تُم جانتے بوجھتے ہوئے بھی کوئلے کی کان کو دیا سلائی دکھاؤ گی اور پھر یہ اُمید رکھو گی کہ اللہ سب ٹھیک کرے گا تو ایسا نہیں ہے تُم خود کشی کر رہی ہو زندگی اتنی سستی نہیں ہے بلکل نہیں ہے تُم نے زندگی کی اہمیت کھو دی ہے بیٹا میں نہیں جانتی ایسی کونسی مجبوری نے تمہیں ایسے انسان سے شادی کرنے پر مجبور کردیا کیونکہ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں اپنی مرضی کے خلاف کسی اِنسان کا زندگی میں داخل ہوجانا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے زندگی بےمعنی اور بے مقصدبالکل نہیں ہےبلکہ زندگی کا مقصد معلوم نہ ہونے کا تعلق صرف بے علمی سے ہے۔اگر ہمیں زندگی اور مقصد،دونوں الفاظ کا علم ہی نہ ہو تو،تعین کیسے ہوگا؟ اپنا مقصد ڈھونڈو دوسروں کو اپنی زندگی برباد کرنے کا موقع مت دو ابھی وقت ہے تمہارے پاس بہت تکلیف ہوتی ہے جب آپ چاہ کر بھی واپس نہیں پلٹ سکتے تمہارے بچے کا نا بچنا اِس میں مُجھے اللہ کی مصلحت ہی دکھ رہی ہے کیونکہ اگر بچہ ہوجاتا تو تُم چاہ کر بھی اِس بندھن سے خود کو آزاد نہیں کروا پاتی میں جانتی ہوں اِس بات کو مگر تُم جو اب فیصلہ کرو گی وُہ صرف تمہاری ذات کے لئے ہوگا اب کوئی مجبوری تُمہیں باندھنے کو نہیں رہی اپنے لیے لڑو منتہٰی ہوسکتا ہے اللہ نے تمہارے لئے ایک بہترین جیون ساتھی کا انتخاب کر رکھا ہو اور یہ تمہاری آزمائش ہو اُس تک پہنچنے کی..."
طيات نے محبت بھرے انداز میں اسے سمجھانا چاہا وُہ واقعی اُسے سمجھ سکتی تھی ایک اچھی زندگی کے لئے اُس نے خود بھی تو ایک لمبا سفر طے کیا تھا راحیل آفتاب جیسے انسان سے عامر تبریز تک کا سفر آسان تو بلکل نہ تھا یہ عامر کی محبت کی شدت ہی تھی جو دور چلے جانے کے بعد بھی اُسے اپنے ہر سوں محسوس ہوتی تھی بلاشبہ "عامر" نے اُسے بہت چاہا تھا.....
"میری بات سمجھ رہی ہو ناں منتہٰی کسی چیز کی فکر مت کرو میں نے تمہاری نند سے سب پوچھ لیا ہے وُہ بہت اچھی لڑکی ہے تمہاری خیر خواہ ہے وُہ اپنے بھائی کے خلاف گواہی دینے کے لئے تیار ہے میرا بیٹا وکیل ہے تمہاری ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کروں گی بس ایک بار ایک بار حمر کرلو ظلم کے خلاف بولو..."
طیات نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے مضبوط انداز میں کہا پولیس بھی آچکی تھی اُس کا بیان لینے اُن کے پیچھے پیچھے ہو شائنہ اور غفران اندر داخل ہوئے تھے...
"اسلام علیکم کیسی ہیں اب آپ..."
انسپکٹر صاحب نے شائستگی سے اُس کا حال احوال دریافت کیا...
منتہٰی نے سر کو ہلکی سی جنبش دی مطلب تھا "ٹھیک ہوں.."
"دیکھیے بیٹا جی آپکو کسی سے بھی ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلا جھجھک بتاؤ میں آپکو یقین دلاتا ہوں آپ کی ہر ممکن مدد کی جائے گی..."
وُہ غفران کی طرف دیکھ کر سخت لہجے میں بولے...
"کیا آپکا شوہر آپکو مارتا پیٹتا ہے....؟"
انہوں نے نرمی سے پوچھا....
منتہٰی نے نم آنکھوں کی ساتھ غفران کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا شاید جانتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے...
"ایک نہایت ناخوش گوار زندگی میں تمہارا سواگت ہے منتہٰی غفران.."
"ہپپی فرسٹ ویڈنگ نائٹ میری جان.."
"آج کیسے روکو گی مُجھے اب تو نا تُم غیر ہو نا میں کوئی غیر مرد اب کسے بُلاؤں گی اپنی مدد کے لئے اپنے اُس مردہ بھائی کو.." اُس کی ہنسی منتہٰی کے کانوں میں گونج رہی تھی...
"آج اگر وُہ بھی قبر سے نکل کر آجائے تو مُجھے تمہیں حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا.."
"درد ہورہاہے میرے ہاتھ چھوڑیں.."
اپنا رونا سسکنا رحم کی بھیک مانگنا سب یاد آرہا تھا...
"کیا کہا تُم نے.."
اُس کے چھونے کا ہر انداز منتہٰی نے بے ساختہ جھرجھری لی ...
"شاید رونمائی کا تحفہ چاہتی ہو.."
"آنکھیں بند کرو میری جان.."
کمرے کی خاموش فضا میں چٹاخ کی آواز گونجی..
منتہی اپنے دائیں گال پر ہاتھ رکھے سراسیمہ سی سب کو دیکھ رہی تھی..
"منتہٰی تُم ٹھیک ہو.."
طیات نے اُسکی پُر خوف نظریں غفران کی جانب اٹھتی دیکھیں...
اگلے ہی لمحے وُہ پھر ڈری تھی اُس نے اپنی آنکھیں سختی سے بھینچ لیں پلکیں لرز رہی تھیں آنسو متواتر بہہ رہے تھے...
اُس نے آنکھیں کھول کر غفران کو دیکھا اور سر کو آہستہ سے نفی میں جنبش دی وُہ صرف غفران کے لئے تھی مطلب صاف تھا وُہ اُسے معاف نہیں کرسکتی تھی...
"غفران بہت درد ہورہاہے.."
"تو اور چاہتا کیا ہوں میں.."
"اب ہر رات اِسی مرد سے تمہارا سامنہ ہوا کرے گا.."
"ہاں ہاں..."
منتہٰی نے لڑکھڑائی آواز میں آہستہ سے کہا اُس کا پورا جسم کانپ رہا تھا...
"دیکھئیے آپکو ڈرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے قانون آپکے ساتھ ہے بس آپ سچ بتائیں..."
انسپکٹر صاحب نے برابر میں کھڑے غفران کو کڑے تیوریوں سے دیکھتے ہوئے کہا..."
"غفران کے کان میں منتہٰی کے کُچھ دیر پہلے کہے گئے الفاظ گونج رہے تھے..."
"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے منتہٰی سچ بتاؤ..."
طیات نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُسکی ہمت بڑھائی شائنہ بھی اُسکے فیصلے کی منتظر تھی...
"جی انسپکٹر میرے شوہر کی وجہ سے ہی میری یہ حالت ہوئی ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہے اِس سے پہلے بھی انہوں نے مُجھے بے رحمانہ طریقے سے مارا ہے آج اِن کی وجہ سے میں نے اپنا بچہ کھویا ہے اور اب میں کبھی ماں نہیں بن سکتی..."
منتہٰی نے اب براہِ راست غفران کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا نہ تو غفران کو حیرانی ہوئی نہ دُکھ وُہ تیار کرچکا تھا خود کو اِس فیصلے کے لئے بس آنکھوں میں ہلکی سی نمی دکھائی دی تھی...
"منتہٰی میں تُم سے وعدہ کرتا ہوں میں آئندہ کبھی تُم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا میں تُم سے بہت محبت کرتا ہوں بہت جو سزا دینی ہے دے دو بس دور جانے کی بات مت کرنا میں تُمہیں خود بھی مُجھے چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں دیتا میں مرجاؤں گا یا خود کو مار لوں گا..."
کُچھ دیر پہلے کہے گئے غفران کے جملہ اُسکی سماعتوں میں ابھی بھی ٹکریں مار رہے تھے...
"اوئے پھڑ لو اِسے..."
انسپکٹر نے اپنے ساتھ آئے حوالداروں کو حکم دیا جنہوں نے غفران کو پکڑنے کی ناکام کوشش کی...
"ہاتھ مت لگانا مُجھے میں خود چل رہا ہوں ہاتھ مت لگا سمجھ آئی..."
وہی ڈھیٹ خود سر طبیعت پھر غالب آگئی تھی اُس پر....
"اوئے شہزادے چل تیری مان لی نہیں لگاتے ہاتھ ابھی تھانے تو چل ایسے کس بل ڈھیلے کروں گا ساری مردانگی نکل جائے گی..."
انسپکٹر صاحب نے غفران کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا...
"مُجھے اپنی بیوی سے دو منٹ اکیلے میں بات کرنی ہے..."
منتہٰی کو یقین ہوگیا کہ وُہ پاگل ہے پولیس اُسے کس جرم میں پکڑ کر لے جارہی تھی یہ جاننے ہوئے بھی وُہ بڑے آرام سے منتہٰی سے اکیلے میں بات کرنے کی فرمائش کر رہا تھا...
"اپنے پیو کے ولیمے میں آیا ہے تُو فرمائشیں کر رہا اوئے شہزادے تُجھے تھانے لے جارہے ہیں محل نہیں..."
اب کی بار حوالدار نے اُسے آگے گھسیٹتے ہوئے کہا...
"سالے حرام زادے اپنی اوقات میں رہ ہاتھ مت لگانا مُجھے چیر کر رکھ دوں گا میں نے کہا ناں مُجھے اپنی بیوی سے کچھ بات کرنی ہے اور وُہ میں کرکے رہوں گا ورنہ تُو تو کیا تیرا باپ بھی مُجھے اِس کمرے سے نہیں لے کر جاسکتا تُو جانتا نہیں ہے میں کون ہوں تمیز سے پیش آرہا ہوں تو چڑھے ہی جارہا ہے..."
غفران کے ہاتھ اب انسپکٹر کے گریبان پر تھے...
"یہ ہاسپٹل ہے تمیز سے اپنی غنڈہ گردی تھانے جاکر دکھانا لے کر جائیں انسپکٹر اسے..."
طیات نے تند لہجے میں کہا....
"لالے اپنے لیے کیوں کیس بڑھا رہا ہے اوئے خالد یاد رکھ آن ڈیوٹی افسر پر ہاتھ اٹھانے کا کیس بھی ٹھوکنا ہے اِس سُور پر..."
انسپکٹر
"کیوں اپنی ذات بتا تھا مادر ****...."
غفران نے ایک موٹی گالی بک کر کہا...
"کیوں تماشہ لگا رہے ہو دفع ہوجاؤ۔۔۔"
شائنہ نے نخوت سے کہا....
"مُجھے اپنی بیوی سے اکیلے میں کُچھ بات کرنی ہے اور وُہ کرکے ہی میں جاؤں گا ورنہ جس نے جو اکھاڑنا ہے اُکھاڑ لے..."
وُہ ہٹ دھرمی سے بولا....
"ٹھیک ہے انسپکٹر آپ اِنہیں بات کرنے دیں..."
منتہٰی نے اپنی مداخلت ضروری سمجھی...
"ہرگز نہیں میں اِس بات کی اجازت نہیں دیتی یہ کُچھ بھی کرسکتا ہے ماہی تمہارے ساتھ..."
شائنہ نے قطعی انداز میں کہا...
"کُچھ نہیں کرسکتے اب یہ کُچھ نہیں..."
اُسے نجانے کیوں یہ یقین تھا...
"جو بات کرنی ہے سامنے کر۔۔۔"
انسپکٹر تو اپنی ذاتی پرخاش بھی نبھا رہا تھا اب...
"مُجھے اکیلے میں بات کرنی ہے اور اکیلے ہی بات کروں گا..."
ٹس سے مس نہ ہونے والا انداز تھا...
منتہٰی نے آنکھ کے اشارے سے انسپکٹر صاحب کو باہر جانے کا کہا پھر ایک ایک کرکے سب باہر چلے گئے صرف وُہ دونوں رہ گئے کمرے میں....
"تُم نے کہا دور چلے جاؤ میری زندگی سے تو جواب سُن لو میرا جب تک میں زندہ ہوں میں تُمہیں نہیں چھوڑوں گا تُم صرف میری ہو سمجھ لو اِس بات کو میرا اور تمہارا تعلق صرف میری موت ختم کرسکتی ہے صرف میری موت تُم نے میری محبت کو جنون سے تشبیہ دی تھی ناں اب میں تمہیں اصل جنونی بن کر دکھاؤں گا مگر اپنا وعدہ نبھاؤں گا اب تُم پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا منتہٰی کے نام کے ساتھ غفران کا نام کبھی الگ نہیں ہوسکتا کبھی نہیں یاد رکھنا "سدرۃ المنتہٰی" میری جان میرا سب کُچھ صرف مریض صرف میری ،صرف اور صرف میری ہو تُم صرف غفران کی اپنے خیالوں میں بھی مُجھ سے الگ ہونے کا خیال نہ آنے دینا کیونکہ یہ نا ممکن ہے جب تک میرا دِل زندہ ہے دھڑک رہا ہے اُس کی دھڑکن تُم ہو میرے جیتے جی تمہیں کوئی مُجھ سے دور نہیں کرسکتا کوئی نہیں کبھی نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا منتہٰی میں نے تُم سے بہت بہت بہت محبت کی ہے بہت...."
وُہ منتہٰی کے قریب جاکر اُسکی خوشبو اپنے اندر اُتارنے لگا....
"یاد رکھنا جس دِن میرے دل کی ہر اُمید ختم ہوگئی کہ تُم مُجھ سے محبت کرو گی وُہ میرا آخری دِن ہوگا اُس دِن میں تُمہیں آزاد کردوں گا اور خود کو بھی کیونکہ.... چھوڑو اِس "کیونکہ" کو یہ وقت آئے گا ہی نہیں کیونکہ اپنی دیوانگی پر مُجھے پورا یقین ہے تُم بھی مُجھے ایک دِن اتنی ہی شدت سے چاہوں گی اتنی ہی شدت سے یاد رہے یہ حق صرف میرا ہے تمہیں چھونے کا تُمہیں محسوس کرنے کا تمہاری خوشبو سے خود کو مہکانے کا حق صرف میرا ہے صرف میرا..."
غفران نے مخمور لہجے میں کہتے ہوئے اُسکی پیشانی اپنی ہونٹوں سے چھو لی اور دور ہونے لگا تب ہی منتہٰی نے ایک ہاتھ سے اُس کا گریبان پکڑ کر خود سے قریب کیا اور پھر چھوڑ کر پاس پڑی فروٹس کے ساتھ رکھی چُھری اُٹھا کر اُس کا پھل غفران کے گال پر رکھتے ہوئے بولی ....
"یہ نشان یاد دلائے گا تُمہیں اِس دِن کی کہ غفران "منتہٰی غفران" کبھی "غفران" سے محبت نہیں کرسکتی کبھی نہیں..."
منتہٰی کی آنکھوں میں شعلے ناچ رہے تھے اُس نے غفران کے آنکھ سے تھوڑا دور چُھری سے چہرے پر ہونٹ کے اوپری حصے تک ایک نشان بنایا وُہ اِس پورے عرصے میں ہونٹ بھینچے ضبط کرتا رہا خون بہنے لگا تھا مگر غفران کو پرواہ کہاں تھی ...
"کُچھ تو یادگار دیا تُم نے مُجھے چلو زخم ہی سہی.."
اُس نے اپنا زخمی گال منتہٰی کے گال سے مس کیا جس سے خون اُس کے چہرے پر بھی لگ گیا...
"اتنا سُرخ کہ سیاہ معلوم ہوتا ہے بلکل تمہاری زندگی کی طرح..."
منتہٰی نے اُس پر چوٹ کی...
"اتنا خالص کہ کسی رنگ کی ضرورت نہیں میرے خون کو کیونکہ اِس میں تمہاری محبت بہتی ہے.."
وُہ باہر کی طرف چل دیا...
"جانور..."
منتہٰی نے آہستہ سے کہا مگر غفران نے سُن لیا اور گردن جھٹکتا ہوا باہر چلا گیا ۔۔۔
"کیا کر کے آئے ہو تُم ماہی کے ساتھ..."
اُسے باہر آتا دیکھ اور چہرے پر لگا خون دیکھ کر شائنہ کا ماتھا ٹھنکا...
"میں نے کُچھ نہیں کیا البتہ میری رانی ہوش میں آچکی ہے..."
وُہ ذومعنی خیز لہجے میں استہزایہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا...
شائنہ فوراً اندر بھاگی...
"ماہی کیا ہوا ہے یہ خون..."
شائنہ نے اُسکی چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے کہا...
"کُچھ نہیں ہوا..."
منتہٰی نے تسلی بخش انداز میں کہا...
"نرس اِن کی بینڈچ کردو..."
طیات نے پاس کھڑی ایک نرس سے کہا...
"نہیں کروانی..."
وُہ سختی سے کہتا ہوا پولیس والوں کے ساتھ چلا گیا....
_________________________________________
"زیان اب کیا کرنا ہے ہم کراچی تو آگئے ہیں...؟"
دُعا نے چائے کا مگ اُس کے اور سمیر کے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا...
"ہمیں کُچھ بھی کرنے سی پہلے ماہی کو اپنے اعتماد میں لینا ہوگا جس کے لیے تمہارا اُس سے ملنا بہت ضروری ہے کیونکہ صرف تُم ہی اُس سے مِل سکتی ہو اور تُم ہی اُسے یقین دلا سکتی ہو کہ اب اُسے زیادہ دِن اُس رشتے بندھے رہنے کی ضرورت نہیں ہے میں اُس سے مِل نہیں سکتا ورنہ میں اُسے یہ یقین دلاتا.."
زیان نے پُر اُمید انداز میں کہا...
"تمہاری ایک دفعہ بھی بات نہیں ہوئی یہاں سے جانے کے بعد ماہی سے..."
زیان نے نجانے کیوں پوچھا تھا...
"ہوئی تھی دو تین بار ہوئی تھی.."
"کیسے بات کر رہی تھی وُہ کوئی ہنٹ مِل سکے ہمیں تاکہ..."
"وہی بُجھا بُجھا سا انداز اُداس لہجہ ہم جانتے ہیں وُہ کس حال میں ہیں پھر اِن سب باتوں کا کیا مطلب..."
"ٹھیک ہے دُعا آپ آج اُس کے گھر جائیں اور اُسے ساری بات بتائے گا اور اُسے منانا آپکا کام ہے اِس بار ہار نہیں ماننی ہم نے وُہ بھلے لکھ منع کرے مگر آپ نے اُسے قائل کرکّے آنا ہے تب ہی ہم مزید کُچھ کرسکیں گے..."
سمیر نے کُچھ سوچتے ہوئے بولا...
"میں جانتی ہوں مُجھے کیا کرنا ہے تُم مُجھے مت بتاؤ..."
وُہ خامخواہ اُس سے چڑنے لگی تھی سمیر کی نظریں اُسے پریشان کیے رکھتی تھیں حالانکہ سمیر نے کُچھ کہا نہیں تھا اُس سے اب تک مگر وُہ اُس کی ذومعنی باتیں سمجھتی تھی اُس کی آنکھوں میں تحریر پیغام بے غلاف تھے با آسانی پڑھے جاسکتے تھے...
"تُم کیوں اتنی چڑچڑی ہوگئی ہو دُعا ایسی تو نہ تھی کبھی..."
زیان جی کتنے دنوں سے اُسکی کیفیت نوٹ کر رہا تھا آج بول ہی دیا...
"کُچھ نہیں ہوا یار وُہ بس ایسے ہی..."
دُعا نے بات ٹالی...
"یہی بات ہے ناں.."
سمیر نے ایک بار پھر اُسے تپایا...
"میں ماہی کی طرف نکلتی ہوں۔۔"
وُہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی اور باہر چلی گئی...
"میں چھوڑ آتا ہوں اِسے..."
سمیر پیچھے بھاگا جبکہ زیان حیرت سے سب دیکھتا رہا...
"کیوں پیچھا کر رہے ہو میرا.."
سمیر کو آتا دیکھ کر وُہ اُس پر چڑھ دوڑی...
"مدد کرنے کے لئے آیا ہوں آپکو ماہی کے گھر تک چھوڑنے کے لئے..."
سمیر نے اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی حتٰی المکان کوشش کی...
"میں نے مانگی تمہاری مدد کیوں پیچھے پڑ گئے ہو تم مفت میں.."
وُہ جھنجلا کر بولی...
"کس بات کا غصّہ ہے آپکو میں نے کُچھ کہا کیا آپ سے اپنے طور ہی نجانے کیا اخذ کر بیٹھی ہیں.."
وُہ صاف بات کرنا چاہتا تھا آج...
"سمیر دیکھو.."
"کیا دیکھوں میں نے کُچھ نہیں کہا آپ سے پھر بھی آپ مُجھے اِس طرح نظرانداز کر رہی ہیں.."
وُہ اُس کے قریب ہوکر بولا...
"میں جانتی ہوں تُم کیا..".
"ہاں میں کیا..؟"
وُہ غصّے سے بولا۔۔
"یہیں کہ تُم..."
بول بھی دیں کہ آپ بھی مُجھ سے محبت کرتی ہیں..."
وُہ اتنے صاف صاف کہہ دینے پر حیرت سے اُسے دیکھتی رہ گئی مگر کُچھ ہی لمحوں میں سنبھل کر بولی....
"کیا بکواس ہے ہٹو یہاں سے.."
دُعا تقریباً اُسے دھکا دے کر آگے بڑھی...
"دُعا میری بات سنیں میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں میں آپ سے محبت کرتا ہوں.."
اُس نے پیچھے بھاگتے ہوئے دُعا کا ہاتھ پکڑ لیا جس پر اگلے ہی پل دُعا کا ہاتھ گھما اور فضا میں ایک زوردار آواز گونجی....
"میں نے کہا تھا یہ بکواس مت کرنا میرے ساتھ ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی تمہاری..."
وُہ چیختے ہوئے بولی۔۔۔
"آئی ایم سوری مُجھے ہاتھ نہیں پکڑنا چاہیے تھا مگر جو میں نے کہا وُہ سب..."
"وُہ سب بھول جاؤ سمیر وُہ ناممکن ہے یہ پہلی اور آخری بار بول رہی ہوں تُمہیں..."
دُعا نے اپنا آواز دھیمی کرتے ہوئے کہا..
"کیوں.."
سمیر نے سوال کیا..
"اِس "کیوں" کا جواب بہت تلخ ہے سمیر بہت تلخ بس اِس بات کو یہی ختم کرو پلیز..."
وُہ خواستگاری سے بولی...
"ختم تو نہیں کروں گا میں جاننا ضرور چاہوں گا مگر ابھی آپ چلیں ابھی وُہ کام زیادہ ضروری ہے.."
سمیر نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا...
سامنے دیکھا تو زیان کھڑا تھا دونوں اپنی جگہ ساکت ہوگئے تھے جیسے چوری پکڑی گئی ہو...
"میں بھی آرہا ہوں تُم دونوں کے ساتھ ماہی کے گھر سے تھوڑا پہلے گاڑی روک لیں گے..."
وُہ یوں بن گیا جیسے کُچھ سنا یا دیکھا ہی نہیں...
"ٹھیک ہے چلو..."
سمیر نے سکون کا سانس لیا...
(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro