Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۳

#بچھڑے_سفر_میں
قسط نمبر ۲۳
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"تمہاری عقل ٹھکانے آ گئی.."
غفران نے ناشتے کی ٹرے رکھتی منتہیٰ کو مخاطب کیا مگر وہ کوئی بھی جواب دیے بغیر کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی....
غفران نے ایک نظر اُسے دیکھا اور گہری سانس لے کر ناشتہ کرنے لگا...
"شام کو تیار رہنا..."
اسے منتہیٰ کی خاموشی سے اب چڑ ہونے لگی تھی...
وہ ہنوز چپ رہی...
"جانم..."
محبت بھرے لہجے میں پکارا گیا مگر وہ تو جیسے سننے کی حس کھو بیٹھی ہو...
بلآخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا...
"تمہیں کیا لگتا ہے یوں تم مجھ سے اپنی بات منوا لو گی.."
منتہیٰ نے ایک نظر اس پر ڈال کر دوبارہ نظریں کھڑکی سے باہر ٹکا دیں...
"جانم..میں یہ نہیں کہہ رہا ہمارے بچے نہیں ہونگے میں صرف ابھی ان بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتا تم میری اتنی سی بات نہیں مان سکتی.."
غفران نے اس کے دائیں گال پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا..
"یہ اتنی سی بات ہے آپکے لیے "اتنی سی" آپ مجھے میرا بچہ مارنے کو کہہ رہے ہیں اور  بس اتنی سی ہی بات ہے..."
منتہٰی نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھتےہوئے کہا...
"منتہٰی مت ضد کرو تم جانتی ہو ہوگا وہی  میں نے کہہ دیا ہے تو یوں خود کو مت تھکاؤ..."
وُہ اُس کے کندھوں پر اپنے اپنے دونوں  ہاتھوں سے وزن ڈالتے ہوئے صوفے پر بٹھایا اور خود دو زانوں ہوکر ساتھ بیٹھ گیا...
"اِس بار ایسا کُچھ نہیں ہوگا میں یہ ہرگز نہیں ہونے دوں گی سن لیں آپ..."
وُہ قطعی انداز میں بولی...
"میں بہت شرافت سے پیش آرہا ہوں تمہارے ساتھ مُجھے مت مجبور کرو کہ میں پھر سے وہی غفران بن جاؤں..."
اُس کا لہجہ اب بدلنے لگا تھا نرمی کی جگہ سختی نے لے لی تھی...
"آپ مُجھے اِن دھمکیوں سے نہیں ڈرا سکتے جتنا مارنا ہے مار لیں مگر میں اِس بار آپکی بات نہیں مانوں گی.."
"تُم مُجھے غصّہ دلا رہی ہو اب منتہٰی ضد چھوڑ دو اپنی جب میں نے کہہ دیا مُجھے یہ بچہ نہیں چاہیے تو نہیں چاہیے..."
"تو یہ پہلے سوچنا تھا ناں..."
وُہ سب بھول کر یکدم چیخ اٹھی...
"آواز نیچے سمجھ آئی..."
غفران نے تنبیہی انداز میں کہا...
"غفران میری بات سنیں..."
منتہٰی نے اُس کے چہرے کو اپنے دونوں  ہاتھوں میں لیتے ہوئے ملتجی انداز میں کہا تو غفران اُسکے اِس والہانہ انداز پر ششدر رہ گیا...
"آپ کہتے ہیں آپ مُجھ سے محبت کرتے ہیں.."
"تمہیں کوئی شک ہے..."
غفران نے اُس کا بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مخمور انداز میں کہا...
"میری ہر بات مانیں گے آپ نے کہا تھا.."
وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہی تھی...
"مانوں گا سب مانوں گا میری جان..."
وُہ اُس کے کان میں سرگوشی کرنے والے انداز میں کہا...
"بس یہ بات مان لیں میری صرف یہ بات پھر کبھی کُچھ نہیں مانگوں گی آپ سے پلیز..."
"کون سی بات جانم..."
وُہ مدہوش لہجے میں بولا...
منتہٰی اپنی کامیابی پر مسکرائی تھی اِس عرصے میں وُہ غفران کی کمزوری تو جان چکی تھی...
"ہمارے بچے کو کُچھ نہیں ہوگا ناں..؟"
منتہٰی نے پُر اُمید انداز میں پوچھا...
غفران کی ساری خُماری لمحے کے ہزارویں حصے میں ہوا ہوئی ایک عجیب سی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں کو چھو لیا گزر گئی وُہ یکدم اُس سے دور ہوا....
منتہٰی نے حیران نظروں سے اُسے کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا وُہ اب اپنا کوٹ پہن رہا تھا وُہ اس اِنتظار میں تھی کہ وُہ کُچھ بولے...
منتہٰی نے ایک گہری سانس لی اور کھڑی ہوکر اُسکے پاس آئی وُہ اپنے بال سیٹ کر رہا تھا...
"غفران آپ نے جواب نہیں دیا..."
منتہٰی نے اُس کے کوٹ سے نادیدہ مٹی جھاڑتے ہوئے کہا تو غفران نے ایک ناگوار نگاہ اُس پر ڈالی اور اپنے سینے پر دھرا اُس کا ہاتھ بری طرح جھٹک دیا...
"ٹھیک ہے مان لی تمہاری بات مگر آئندہ یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں جانتا ہوں تُم مُجھ سے نفرت کرتی ہو تو  مُجھے تمہارا دکھاوا نہیں چاہیے..."
وُہ بولا تو اُس کے لہجے میں چٹانوں سی سختی تھی منتہٰی لمحے کو تھم گئی تھی...
"سچ کہہ رہے ہیں آپ..."
اُس نے بے یقینی سے پوچھا...
"میں ایک ہی بات بار بار نہیں کہتا.."
اُسی انداز میں کہا گیا مگر منتہٰی کو یاد رہا تو بس اتنا کہ اُس کا بچہ محفوظ ہے ...
"بہت شکریہ غفران.."
وُہ واقعی بے حد خوش تھی غفران نے ایک اچٹتی نگاہ اُس پر ڈالی اور کمرے سے باہر چلا گیا...

_________________________________________

وُہ دونوں کینٹین میں داخل ہوئے تو زیان پہلے سے وہاں موجود تھا اپنے اِرد گِرد کُچھ تلاش کر رہا تھا...
دُعا اور سمیر جانتے تھے وُہ کسے ڈھونڈھ رہا.. تھا مگر وُہ یہاں ہوتی تو ملتی...
"زیان.." سمیر نے اُسکے برابر میں بیٹھتے ہوئے اُسے پُکارا مگر زیان خود میں ہی مگن تھا اُسے  اُن دونوں کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوا....
"زیان کہاں گُم ہو...؟"
سمیر نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو اُسے جیسے ہوش آیا..
"تُم دونوں کب آئے..."
زیان کھوئے ہوئے انداز میں بولا...
"جب تُم اُسے ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہے تھے جس کا یہاں ہونا ممکن ہی نہیں.."
دُعا نے سپاٹ انداز لہجے میں کہا...
"میں کسی کو  نہیں ڈھونڈھ رہا تھا سمجھ آئی تمہیں.."
زیان اب کی بار سختی سے بولا تو دُعا ہلکا سا مسکرا دی....
"جھوٹ بھی بولو گے تُم اب..."
"دُعا نے اُس کا تمسخر اُڑایا....
"کیا ہمارے پاس ماہی کے علاوہ کوئی اور موضوع نہیں ہے بات کرنے کے لیے اُس نے اپنی راہ چن لی ہے ہم کیوں اُس کا سوگ منائے آگے بڑھو یار...."
اپنے لہجے کے کھوکھلے پن کا اُسے خود بھی بہر طور علم تھا....
"تُم واقعی آگے بڑھ گئے ہو زیان.."
"ہاں میں بڑھ چُکا ہوں آگے..."
وہ نظریں چرا کر بولا...
"تمہارے لیے اب تک وہ "ماہی" سے منتہٰی نہیں ہوئی اور تُم کہتے ہو آگے بڑھ گئے ہو.. جاؤ جاؤ کسی اور کو فریب دو..."
"تو تُم کیا چاہتی ہو بیٹھ کر ماتم کروں..."
وُہ پھٹ پڑا...
"کوشش تو کرسکتے ہو ناں..."
"کیسی کوشش...؟"
زیان نے حیرت سے پوچھا...
"زیان، سمیر سب کُچھ جانتے ہوئے ہم تینوں میں سے کوئی بھی یہاں سکون سے نہیں رہ پائے گا میں نے فیصلہ کرلیا ہے میں کراچی شفٹ ہورہی ہوں وہاں  جاب ڈھونڈھ لی ہے ہاسٹل بھی کچھ نہیں تو کم از کم اُس کے قریب تو رہ سکوں گی میں تُم دونوں اپنے فیصلوں میں خود مختار ہو جانا ہے جاؤ نہیں جانا ہے مت جاؤ مجھے روکنے کی کوشش کوئی نہ کرے..."
دُعا نے اُن دونوں  کے سروں پر بم پھوڑا...
"یہ کیا کہہ رہی ہو تم دُعا.."
زیان نے حیرت سے پوچھا....
"تُم اُس سے محبت کے دعویدار ہو یونہی چھوڑ آئے اُسے تمہارے ضمیر نے گوارہ بھی کیسے کرلیا یہ زیان ملامت کرنے کا دِل نہیں کرتا.. ایک ہفتہ ہوگیا ہے ہمیں یہاں آئے ہوئے سکون کی نیند سو سکے ہو تُم..؟"
زیان کے زخم پھر سے اُدھڑنے لگے تھے جو ابھی سوکھے بھی نہ تھے....
"تُم جانتی ہو اُس نے کیا کہا تھا دُعا.."
"بھاڑ میں گیا کیا کہا کیا نہیں کہا وُہ اذیت میں ہے بس یہ بات یاد رکھو تُم کُچھ بھی کرو کیسے بھی کرو ماہی کو اُس شخص سے بچا لو..."
"میرا جانا اُس کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے دُعا.."
"اِس کا مطلب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں رہیں..."
دُعا نے تند انداز اپنایا....
"میرے خیال میں دُعا ٹھیک کہہ رہی ہے..."
سمیر نے مداخلت ضروری سمجھی...
"میں نے بھی کراچی میں ایک کمپنی میں اپلائی کیا ہوا تھا کل وہاں سے ای میل آئی ہے جوائن کرنے کے لئے امی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے یہاں بھی کرائے پر ہی رہتے ہیں وہاں بھی رہ لیں گے..."
سمیر نے تفصیل سے ساری بات بتائی...
"مگر میں..."
"اگر مگر کُچھ نہیں زیان وہاں جاکر سوچیں گے کیا کرنا ہے مُجھے اُمید ہے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا ہم منتہٰی کو بھی بچا لیں گے..."
سمیر نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے مزید کُچھ کہنے سے باز رکھا....
زیان نے ایک گہری سانس لے کر کرسی کی پشت سے گردن ٹکا دی...

_________________________________________

"ارے باؤلا ہوگیا ہے کیا میری ہی گاڑی ملی ہے تُجھے خود کشی کرنے کے لیے..."
ٹرک والے نے دروازے سے گردن باہر نکال کر بیچ سڑک پر گٹھری بنے بیٹھے اِنسان کو ملامت کرتے ہوئے کہا...
وہ اب تک تھر تھر کانپ رہا تھا...
"شیرا اُستاد دیکھو کہیں ڈر کے مارے ہی نہ مرگیا ہو.."
دوسری سیٹ پر بیٹھے ایک نوجوان نے کہا..
وُہ دونوں ٹرک سے اُتر کر تقریباً بھاگتے ہوئے اُس کی طرف بڑھے مگر اب وہ ساکت ہوچکا تھا....
"اوئے عمران اِس کی تو سانس نہیں چل رہی..."
شیدا نے سہم کر کہا..
"اُستاد تُم بھی پاگل ہو اچھے خاصے زندہ اِنسان کو مار دیا بے ہوش ہے بیچارہ ڈر کے مارے ہوگیا ہوگا فقیر لگتا ہے کوئی..."
عمران نے اُس چیتھڑے نما کپڑوں کو دیکھتے ہوۓ کہا....
"جو بھی ہے اِنسان تو ہے چل ڈال گاڑی میں ہاسپٹل لے کر چلتے ہیں شہر زیادہ دور نہیں ویسے بھی.."
شیدا اور عمران نے مل کر اُسے اُٹھایا اور ٹرک کے پچھلے حصے میں لٹا دیا اور ٹرک کراچی کے راستے پر ڈال دیا....

_________________________________________

"اسلام علیکم تائی امی..."
منتہٰی نے لاؤنج میں داخل ہوکر بختاور کو سلام کیا تو انہیں نے ناگوار نگاہ اُس پر ڈالتے ہوئے رُخ پھیر لیا....
"آج کیسے راستہ بھول گئی یہاں کا..."
"تائی امی کوئی کام ہو تو بتائیں..."
منتہٰی نے اُن کا خُشک رویہ نظرانداز کرتے ہوئے خوش اخلاقی سے کہا...
"آئی بڑی کام بتاؤ بی بی تُم جس کام کے لئے لائی گئی ہو ناں وہی کرو آنے والا تیرا مرد جا گھس کمرے میں لیپا پوتی کرکے رجھانے بیٹھ جا اُسے..."
بختاور زہر خنداں بولی۔۔۔
"آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں تائی امی..."
منتہٰی کو اتنی بیہودہ باتوں کی توقع اُن سے ہرگز نہ تھی...
"کیا غلط کہا امی نے جو تمہاری حرکتیں ہیں وہی بتائی ایسی ہی ادائیں دکھا دکھا کر بھائی کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے ہماری سُنتا ہی نہیں ہے اب وُہ..."
شبینہ نے جلے دِل کے پھپھولے پھوڑے...
"تمیز سے بات کرو شبینہ..."
منتہٰی نے سختی سے کہا...
"اب تُو مُجھے سکھائے گی کس سے کیسے بات کرنی ہے.."
وہ کمرے پر ہاتھ رکھ کر جاہل  عورتوں کی طرح بولی...
"میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں تائی امی.."
منتہٰی نے اسے قطعی نظرانداز کرتے ہوئے کہا اور جانے لگی...
"تیری ہمت کیسے ہوئی مُجھ سے ایسے بات کرنے کی کیسے ہمت ہوئی..."
شبینہ کے آنکھوں میں شرارے پھوٹ رہے تھے...
"ہاتھ چھوڑو میرا..."
منتہٰی نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا ....
"نہ تو گھر پر بھائی ہے نہ ہی شائنہ باجی تو کس کے دم پر اتنا پھدک رہی ہے..."
"میں نے کہا ہاتھ چھوڑو میرا.."
اُس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اُسکی گرفت آزاد کروایا اور چیخی....
"اے......"
شبینہ نے کمرے سے جاتی منتہٰی کے بال پکڑ کر اُسے پیچھے کھینچا تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور دیوار سے جا ٹکرائی...
"تُم لوگوں کی جاگیر نہیں ہوں میں جس کا دِل کیا مار دیا...."
وُہ سنبھل کر بری طرح دھاڑی...
"آواز آہستہ کر..."
بختاور کا ہاتھ گھما اور منتہٰی کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا...
"آپ اسے کُچھ بھی کہنے کے بجائے مُجھے مار رہی ہیں دکھ نہیں رہا تائی امی آپکو کہ غلطی کس کی ہے۔۔۔"
"مُجھے اب کوئی بکواس نہیں سُننی جا یہاں سے..."
وہ تنفر سے بولیں جس پر نم آنکھوں کے ساتھ وُہ اُن دونوں کو دیکھتے ہوۓ کمرے سے چلی گئی....

_________________________________________

"بہت شکریہ آپ دونوں کا.."
اُس نے عمران اور شیرا کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے تشکر سے کہا...
"اوئے تھنک یو شینک یو چھوڑ یہ بتا وہاں اتنے ویرانے میں کر کیا رہا تھا بات چیت سے تو تُو فقیر نہیں لگتا مگر جن کپڑوں میں تُو ہمیں ملا تھا تیری حالت بہت بری تھی..."
شیرا نے تشویش ناک انداز میں پوچھا....
"وہ ایک لمبی کہانی ہے بھائی بہت لمبی بہت پانچ سال لمبی..."
وُہ کھوئے کھوئے سے انداز میں بولا...
"کہیں جانا ہے تو چھوڑ دیں؟"
شیرا نے مروتاً کہا...
"آپ لوگوں نے اتنی کیا یہی بہت ہے میں شکرگزار ہوں آپ دونوں کا...."
اُس نے ممنونیت سے کہا...
کُچھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بعد وُہ دونوں  بھی چلے گئے تو وُہ خود بھی جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تن پر لباس اب پہلے والا نہ تھا...
ہاسپٹل کے کوریڈور سے گزرتے ہوئے اُس کی نظر ایک چہرے پر ٹھہری آنکھوں میں بے یقینی تھی دِل میں سوال تھا کیا میرے امتحان اب تمام ہوئے کیا سامنے سچ ہے یا نظر کا دھوکا....
تصدیق کے لئے وُہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا شائنہ کی طرف بڑھنے لگا...
"شانو..."
مانوس آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو اُس کے قدم خود بخود تھم گئے دِل کی کھنڈر بستی میں ایک بار پھر ہلچل ہونے لگی تھی مگر پھر اُسے اپنا وہم جان کر آگے بڑھنے لگی...
"اتنا عرصہ تو نہیں بیت گیا کہ میری آواز بھی اجنبی لگے تمہیں..."
اسکی میٹھی سی پکار سماعتوں میں کسی امرت کی مانند اتری تو شائنہ بے یقینی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگی جبکہ وُہ اُس کے عین سامنے کھڑا تھا...
"یہ آج کیا ہوگیا ہے مُجھے اِن کی آواز کیوں سنائی دے رہی ہے آه میں بھی نہ..."
ارد گرد نظریں گھماتے ہوئے خود سے بولی...
"میں یہاں ہوں کہاں نظریں تھکا رہی ہو کیا تمہارے دِل میں بسی میری تصویر پر اتنی گرد اٹ چُکی ہے کہ پہچان بھی نہ سکو.."
اُس کا دِل جیسے کٹ کر رہ گیا تھا...
"نہیں یہ آواز جھوٹی نہیں ہے مگر کہاں ہیں آپ صرف آواز ہے چار سوں پیکر اُوجھل ہے نظروں سے.."
اُس نے ظلم کی حد کردی تھی مگر سامنے والے سے رہا نہیں گیا آگے بڑھ کر اُسے خود سے لگا لیا...
وہی مضبوط حصار وہی شدت وہی تپش وہی والہانہ پن تھا وُہ لمحے کے ہزارویں حصے میں اُس لمس کو پہچان گئی تھی....
"عماد..."
منہ سے بے ساختہ اُس کا نام ادا ہوا تو عماد نے مزید سختی سے اُسے خود میں بھینچ لیا.....

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro