Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۱

بچھڑے_سفر_میں
از قلم  "مصطفیٰ چھیپا "
قسط نمبر ۲۱

''راسخ بات سُنو''
کسی لڑکی نےاُسے پیچھے سے روکا تووُہ بیزاری چہرے پر سجاےٓ وُہ اُس کی طرف مُڑا۔۔
''بُولو کیا ہے میں جلدمیں ہوں۔''
''تُمہاری جب سے شادی ہوئ ہےتُم ایک دِن بھی میرے پاس نہیں رُکے ہو میں کیا صرف تمہارے بچے کی آیا بننے کے لیے رہ گئ ہوں''
''اپنی اوقات مت بھولو اور خود کو میری بیوی کےساتھ ملانے کی کوشش بھی مت کرنا۔''
اُس نے سختی سے کہا تو اُس لڑکی کے چہرے پر اِستہزائہ مسکراہٹ آرُکی۔
''وُہ جو تُمہیں گھاس بھی نہیں ڈالتی اور تُم پھر بھی۔۔''
اُس کی بات بیچ میں ہی رہ گئی غفران کے ہاتھ اُس کے گلے پر تھے آنکھوں میں بے تحاشہ نفرت لیے گویا ہوا۔
''اپنی حد میں رہو تُم سمجھ آۓۓئ ورنہ منہ بند کرنا مُجحے اچھے سے آتا اور پھر ایسا بند ہوگا کے دوبارہ کھولنے کے لاۓۓۓۓئق نہیں رہے گا سمجھ آئ بات۔''
''سچ توسچ رہے گا راسخ تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے بدل تو نہیں جائے گا تُم ایک ایسی لڑکی کے پیچھے خوار ہورہے ہو جسے تمہاری ذرا پرواہ نہیں ہے نشے میں تُم میرے پہلو میں ہوتے ہو اور اُس ناقدری لڑکی کی ساری باتیں تُم مُجھے سناتے ہو مگر جو تُم سے سچ میں محبت کرتی ہے تُمہیں اُس کی کوئ قدر نہیں ہے ۔''
رِقت آمیز لہجے میں کہا گیا۔۔
''دولت صرف دولت وجہ ہے میری قدر کی ورنہ تُم جیسی لڑکیاں آج ایک مرد کے ساتھ کل دوسرے کے ساتھ مگر وُہ میری بیوی ہے ''بیوی'' سمجھ آۓئ بات آۓۓۓئندہ اپنی زبان سے اُس کا نام بھی مت لینا ورنہ تُم تو بہت اچھے سے جانتی ہو میں کیا کیا کرسکتا ہوں۔۔''
ایک جھٹکے سے اُس کا گلا چھوڑکر کہا اور جانے لگا۔۔
''اور خُرم کا خیال رکھنا۔۔''
اُس نے پلٹ کر کہا ۔۔
''تُمہیں ہر بار ایک ہی بات بولنے ضرورت نہیں ہے۔۔''
''تُمہیں باور کروانا ضروری ہے کہ اُس کا خیال رکھنے کے لیے ہی یہاں رکھا گیا ہے وُہ میری آدھی جان ہے ۔۔''
اُس نے تنبہی انداز میں کہا۔۔
''اور آدھی جان وُہ لڑکی خُرم کی ۔۔''
"کُچھ نہیں لگتی وُہ میرے بیٹے کی اِس دُنیا میں خُرم کا صرف ایک رشتہ ہے اور وُہ ہے اُس کے باپ کا اپنی زبان کو اگر کٹوانا نہیں چاہتی تو اپنا منہ بند رکھو مُجھے اپنی باتیں دہرانا ہرگز نہیں پسند ۔۔"
نخوت سے کہا گیا۔۔
"جاؤ راسخ تمہاری آدھی جان کی حفاظت میں کرلوں گی تُم جاکر اپنی آدھی جان کو دیکھو۔۔"
اُس نے طنزیہ انداز میں کہا مگر وُہ سُننے کے لیے رُکا ہی کہاں تھا ۔۔
"اُس کا نشہ بھی اُتر ہی جائے گا کیونکہ راسخ محبت نامی روگ پالنے والوں میں سےہے ہی نہیں۔۔"
اُس نے خُود سے کہا اور سر جھٹک کر اندر چلی گئ۔۔۔۔
-------------------------------------------------------------------------------
"اُٹھ گئی محترم جب سے گھر میں آئی ہے مجال ہے جو ٹانگڑا کمرے سے باہر نکالا ہو بس پورے دِن بستر توڑتی رہے گی اور شام کو میاں کے آنے کا وقت ہوا نہیں سج دھج کر اُسے لُبھانے بیٹھ جائیں گی او بی بی کیا صرف اُس کے دِل بہلانے کا سامان کرنے اِس گھر میں آئی ہو بس بہت ہوگیا بہت ہوگئی نازبرداریاں اب اُٹھو اور گھر گرہستی دیکھو۔۔"
بختاور نے منتہٰی کے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر تقریباــۓۓً چیختے ہوئے کہا۔۔
وُہ دوائیوں کے زیرِ اثر سورہی تھی اِس لیے اُن کے غل غپاڑے کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔
"امی آپ کیا ہوگیا اِنسانیت دِکھائیں کُچھ تو اُس کی طبیعت بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے اور آپ یہاں آکر شور شرابہ کر رہی ہیں امی جائیں یہاں سے ۔۔"
اُٗن کی شور وغل کی آواز سُن کر شائینہ فوراً اُس کے کمرے میں اور بختاور کو وہاں کھڑا دیکھ کر اُس پر برس پڑی۔۔
"آگئی حمایتی فوراً شوہر کم ہے اِس کے نخرے اُٹھانے کے لیے جو تُم بھی پیش پیش رہتی ہو سُنو بی بی تمہاری یہ چہیتی بہو ہے اب اِس گھرکی کُچھ فرض ہیں کُچھ زمہ داریاں ہیں ۔۔"
وُہ ہاتھ جھلا کر بولیں ۔۔
"کیوں جاہل عورتوں کی طرح برتاؤ کررہی ہیں امی نوکروں کی فوج ہے گھر میں اُنہیں بولیں جاکر اٰن سے کروائیں جاکر جان چھوڑ دیں اِسکی آپ لوگ خُدا کا واسطہ ہے امی یہ دیکھیں میں ہاتھ جوڑتی ہوں آپکے آگے ۔۔"
اُس نے واقعی اُن کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔
"ہاں ہاں تُم سب کو ایک میں ہی بُری لگتی ہوں بیٹا دھمکیاں دے کر جاتا ہے کہ اُس کی بیوی کو کُچھ نہ کہوں اِدھر تُو ماں سے بدتمیزی کی ساری اگلی پچھلی حدیں پار کر رہی ہے آنے دے آج اُسے بھی صاف کرتی ہوں سب کُچھ کہ بھئی بتادے اگر اپنی بیوی کو صرف اپنے کمرے میں سجانے کے لئے لایا ہےتو بتادے ۔۔"
وُہ تن فن کرتی چلی گئیں۔۔
اُس نے گہری سانس لے کر پُرسکون سوتی منتہٰی کو تاسف زدہ نظروں سے دیکھا اور دروازہ دوبارہ بند کرکے چلی گئی۔۔۔
------------------------------------------------------------------------------
"شائینہ حارث بیگ آپکو اپنے نکاح میں قبول ہے "
خواب اور حقیقت کے بھیتر جھولتا وُہ اِنسان واقعی قابلِ رحم حالت میں تھا ۔۔
"ہاں قبول ہے قبول ہے ۔۔شائینہ مُجھے چھوڑ کر مت جاؤ میں مرجاؤں گا میں پہلے ہی سب کھو چُکا ہوں ،،،فرحان فرحان۔۔"
وُہ ےیکدم چیخ مار کر اُٹھ بیٹھا ۔۔
"شائینہ شائینہ۔۔"
اُسے گمان ہوا وُہ سامنے کھڑی ہے اُٹھ کردیوانہ وار اُس کے پیچھے بھاگا مگر وُہ پھر سے کہیں گُم ہوگئی۔۔
"نہیں نہیں نہیں۔۔۔نہیں تُم پھر سے نہیں جاسکتی نہیں نہیں۔۔"
بند دروازےکو بُری طرح پیٹتے ہوئے وُہ ہذدیانی انداز میں چلانے لگا ۔۔
"نکال مُجھے ۓ یہاں سے نکال نکال سور کی اولاد نکال ۓۓ یہاں سے مرد کا بچہ بن سامنے آکر لڑ سامنے آغفران خنزیر اپنی ماں ،بیوی،بچے سب کا بدلہ لوں گاتُجھ سے باہر نکال مُجھے یہاں سے۔۔"
"جا جاکر دیکھ اُسے پھردورہ پڑا ہے۔۔"
کمرے کے باہر بیٹھے پتے کھیلتے آدمیوں میں سے ایک بولا۔۔
"میں وے نہیں جارہا کوئی چیز اُٹھا کر مار دےگا آجکل ویسے بھی اُسے بڑے شدید قسم کے دورے پڑتے ہیں ۔۔"
دوسرے بندے نے فوراً اِنکار کیا ۔۔
"تو بیٹھےرہو پھر جب وُھ جلاد کا بچہ آکر ایک ایک گولی تُم دونوں کے سروں میں مارے گا نا تب ٹھیک رہے گا۔۔"
تیسرے آدمی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
"ابے تُو چلا جا نا یار تیری تو شادی بھی نہیں ہوئی میرے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔۔"
اُن میں سے جو ایک تھوڑا ادھیڑ عُمر تھا لجاجت بھرے انداز میں دوسرے سے بولا۔۔
"ہاں خود نے دُنیا دیکھ لی اورمیں جس نے اب تک کُچھ نہیں دیکھا اُسے مرنے کے لیے بول رہا پرسوں ہی اُس نے میرے سر پر اِسٹیل کی پلیٹ کھینچ کر ماری تھی اب تک درد ہورہا ہے۔۔"
وُہ اپنی کنپٹی سہلاتے ہوئے بولا۔۔
" بیٹھے رہو تُم دونوں میں ہی چُپ کرواتا ہوں اِسے۔۔"
تیسرا آدمی جو سب سے صحت مند بھی تھا پورے جوش سے کھڑا ہوا اور کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔۔
"اِنجیکشن دے اوئے۔۔"
" کھولو دروازہ دیکھو مُجھے جانے دو ۔۔"
وُہ اب مِنت کرتے ہوئے بولا۔۔
اُس کی بات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے وُہ آدمی تالا کھول کر اندر داخل ہوگیا اورکُچھ دیر میں اُس کی آواز آنا بند ہوگئی۔۔۔
"اُو کنجرو پھر سے پتے بانٹو میں بھی آیا۔۔"
دروازہ کُھلا تو وُہ بے ہوش فرش پر پڑا تھا ۔۔
"واہ اُستاد کیسےبھیگا بلا بنا پڑا ہے ورنہ چیخ چیخ کر سردرد کردیا تھا۔۔ "
"عجیب ڈھیٹ اِنسان ہے پانچ سالوں سے یوں قید رہنا منظور ہے اِسے مگر وُہ چیز نہیں دیتا جس کے لئے راسخ باس نے اِسے پکڑ کر رکھا ہوا ہے ،،بیوی بچوں والا ہے اکژ رو رو کر اُنہیں یاد کرتا ہے اپنی ماں کو یاد کرتا ہے ،مگر ہار پھر بھی نہیں مانتا بڑا ہی ہمت والا ہے ورنہ اگر کوئی اور ہوتا تو کب کا مرچُکا ہوتا۔"
اُس نے دروازہ دوبارہ مقفل کرتے ہوئے تاسف سے کہا۔۔۔
--------------------------------------------------------------------------------
"جانم کیسی ہو؟؟"
غفران نے اُس کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے پوچھا۔۔
جبکہ منتہٰی نے صرف سر ہلانے پر اکتفاء کیا۔۔
"میں دیکھتا ہوں تمہارا زخم مُجھے ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔"
اُس نے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے نرمی سے کہا اور اُسکی پٹی اُتارنے لگا ۔۔
"ہمم اب کافی بہتر ہے پہلے سے تمہارا زخم ،،،ایک دو دِن میں اور فرق پڑ جائے گاَ۔۔"
وُہ اب دوبارہ اپنی پٹی باندھنے لگا ۔۔
"ابھی تک ناراض ہو مُجھ سے ۔۔"
اِنتہائی معصومیت سے پوچھا گیا۔۔
اُس نےنفی میں سرہلایا ۔۔
"جاؤ جاکر فریش ہوجاؤ باہر چلتے ہیں تُم بہتر محسوس کرو گی۔۔"
"کہاں ۔۔"
اُس نے نجانے کیوں پوچھ لیا تھا۔۔
"جہاں سُکون ہو بہت بہت بہت سُکون کوئی ڈر کوئی خوف نہیں صرف میں اور میری جان۔۔"
آنکھیں بند کرکے اُس نے کہا نجانے کیوں منتہٰی کو اُس کے لہجے میں یاسیت محسوس ہوئی۔۔
"تُم بھی سوچتی ہوگی عجیب خبطی آدمی ہے کبھی جانور ، وحشی بن جاتا ہے کبھی اِتنی محبت کہ پہہچاننا مُشکل ہو جائے کہ یہ وہی درندہ ہے۔سوچتی تو ہوگی تُم--؟"
اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
وُہ ےیکدم اُس کے چہرے کے قریب آیا منتہٰی ڈر کر پیچھے ہٹی۔۔
"مُجھے بھی حیرت ہوتی تھی خُود پر پہلے مگر اب نہیں،،اور جہاں تک تمہاری بات ہے تُمھارے معاملے میں میں بلکل ہی پاگل ہوں تُم سے محبت کرتا ہو بہت کرتا ہو اور صرف تُم ہی سے تو کرتا ہوں جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنا نام تمہارے نام کے ساتھ ہی سنا ہے محبت تو ہونی تھی مگر تُم یہ بھی جان چُکی ہو تُمہارے معاملےمیں جنونی ہوں بہت بہت زیادہ کیونکہ تُم صرف میری ہو صرف میری۔۔"صرف اور صرف غفران کی" "
اُس کی حالت عجیب ہونے لگی تھی وُہ ڈر کے مارے بیڈ کراؤن سے جا لگی۔۔
"سنو اِدھر آؤ..."
غفران نے اپنی حالت پر قابو پاتے ہوئے رسانیت سے کہا...
"تُم ڈرتی کیوں ہو مُجھ سے شوہر ہوں تمہارا کوئی چور اُچکا نہیں..."
غفران نے مسکراتے ہوئے کہا تو اُس کی جان میں جان آئی...
"بولو بھی..."
وُہ محبت بھرے لہجے میں کہتا ہوا اُس کے چہرے پر آئی شریر زلفوں کو کان کے پیچھے اڑسنے لگا...
"آپ ایسے ہی رہا کریں نا.."
اُس نے ہلکی سی آواز میں کہا...
"کیسے؟"
وُہ اُس کے قریب ہوا تو اُس نے نظریں جُھکا لیں...
غفران نے اُس کے بالوں کے قریب جاکر اُن کی خوشبو کو اپنے اندر اُتارا پھر یکلخت اُس سے دور ہوگیا...
"اُٹھو یہاں سے اور دفع ہوجاؤ..."
وُہ اس اچانک افتاد پر بوکھلا سی گئی ۔۔
"جی۔۔"
بے یقینی سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"سوری میرا مطلب جاؤ تیار ہوجاؤ ۔۔"
وُہ اُس کے پل بہ پل بدل رہے انداز کو متحیر سی دیکھنے لگی۔۔
"کیا ہوا جانِ غفران ۔۔"
اُس نے منتہٰی کو چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سحر آگیں لہہجے میں کہا۔۔
"کُچھ نہیں میں آتی ہوں " اُس نے فوراً اُٹھتے ہوئے کہا ۔۔
"آہ غفران آہ ۔۔۔"
اُس نے خود کو کہتے سُنا اور ٹھیک اُسی جگہ لیٹ گیا جہاں کُچھ دیر پہلے وُہ بیٹھی تھی۔۔۔

----------------------------------------------------------------------------------

کُچھ دِن بعد-----
کُچھ دن مزید گزر گئے زیان ہسپتال سے گھر آگیا مگر اُس کی ضد یہی تھی اُس نے منتہٰی سے ملنا ہے دُعا اور سمیر نے اُسے طرح سمجھا لیا بلا آخر معماملہ مجبوراً اُنہیں سب کُچھ روشانے بیگم اور زاہد صاحب کے سامنے رکھنا پڑا جس کے بعد کئی قسمیں ،مامتا کے واسطے دینے کے بعد اُسے واپس لاڑکانہ بھیجنے کے لیا منالیا گیا حالانکہ روشانے بیگم ہرگز اُسے خُود سےدور نہیں بھیجنا چاہتی تھیں مگر ابی اُس کے لئے یہ ہی بہتر تھا کہ وُہ کُچھ وقت کے لئے اِس شہر سے دور رہے اُسے منتہٰی کو بھولنے میں آسانی ہوگی--
(جو کہ ایک ناممکن بات ثابت کرکے دِکھانی تھی زیان نے)۔۔۔
---------------------------------------------------------------------------------
بات سُنیں ۔۔"
اُس نے شرٹ پریس کرکے غفران کو دیتے ہوئے کہا۔۔
"بولو۔"
انداز سنجیدہ تھا ۔۔
"کُچھ نہیں۔۔"
اُس نے اِرادہ ترک کیا۔
"اُنہوں ۔۔ایسے نہیں کہو کیا کہنا ہے"
اُس نے اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا۔۔
"میری دوست ہے دُعا وُہ آج واپس لاڑکانہ جارہی ہے کیا میں اُ سے چھوڑنے اِسٹیشن جاسکتی ہوں۔۔
"ٹھیک ہے میں خُودلے چلتا ہوں تمہیں کب چلنا ہے۔۔"
خلافِ توقع اُس نے اِجازت دے دی مگر اب نیا مسئلہ در پیش تھا وہ خود بھی ساتھ جانا چاہتا تھا جبکہ وہ دُعا کے ضد کرنے پر زیان سے مِلنے جارہی تھی "آخری بار"..
"آپ.."
"کیوں کوئی مسئلہ ہے۔۔"
اُس نے سرسری نگاہ اُس پر ڈال کر پوچھا..
"نہیں کوئی مسئلہ نہیں.."
منتہٰی نے ہموار لہجے میں جواب دیا تاکہ اُسے کسی قسم کا شک نہ ہو...
اُسی وقت اُس کا فون بجنے لگا...
"ہیلو.."
"ٹھیک ہے آرہا ہوں.."
نجانے دوسری طرف کون تھا جو غفران کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی..
"جانم مُجھے جانا ہوگا ارجنٹ تُم ایسے کرنا ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا اگر مُجھے ٹائم ملا تو میں تمہیں اسٹیشن سے ہی پک کرلوں گا.."
غفران نے فون پر کُچھ تصویریں دیکھتے ہوئے کہا..
وہ کسی بچے کی تصویریں تھیں..
"ٹھیک ہے۔۔"
اُس نے غفران کے ساتھ نہ جانے پر چین کی سانس لی...
"اچھا خُدا حافظ.."
وہ حسبِ معمول اُس کی پیشانی چومتا ہوا چلا گیا..
وُہ دُعا کال ملانے لگی۔۔۔

_____________________________________________

ﺳﺮﭘﭧ ﺩﻭﮌﺗﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ،ﺁﺧﺮﯼ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﺑﺘﯿﺎﮞ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ،ﻧﺎﺩﺍﻥ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﺩِ ﺳﻔﺮ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻣُﮍ ﻣُﺮ ﮐﺮ ﻧﻈﺮ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﻨﮯ ﺗﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﻥ ﺭﻓﻘﺎﺀ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺘﻨﺎ ﮨﯽ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ کیوں ﻧﮧ ﮨﻮ،ﻭﮦ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﺑﻨﮯ ﻧﻘﺶ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﺎﺋﯿﺪﺍﺭ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ۔ﻭﻗﺖ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﺭﯾﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺮﮐﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮯﻭﻗﻌﺖ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻮﮒ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺗﻢ ﮐﻨﺎﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻠﺘﮯ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ..
ایسی ہی حالت تھی زیان زاہد کی کہنے کو تو وُہ جارہا تھا مگر روح یہیں چھوڑ کر جارہا تھا اور جس کے حوالے کرنی تھی اپنی روح اُس کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی تھیں وہ سامنے سے چلتی ہوئی آرہی تھی "منتہٰی" اُس کی ماہی"

ﻣﺎﮨﯽ "...
ﺍُﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺩِﻝ ﻧﮯ ﺩﮬﮍﮐﻨﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺩﯾﺎ ..
ﺟﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺭﯾﮕﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﭙﺘﯽ ﺭﯾﺖ ﭘﺮ ﺑﺮﮨﻨﮧ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ ﮨﻮ ﺧﺎﺭﺩﺍﺭ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﯿﺮ ﭼﻼ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ..
ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺑﺎﻝ،ﻣﺘﻮﺭﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺠﺮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ، ﺯﺧﻤﯽ ﭼﮩﺮﮦ ﭘﮋﻣﺮﺩﮦ ﭼﺎﻝ ...
" ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟ "
ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺩﻻﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ تھی ﻭﮦ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﻧﮑﺎﺭﺗﺎ ﺍُﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﻮ ...
سمیر کی آنکھوں میں بھی کرب اُترا تھا اُسے اِس حالت میں دیکھ کر...
"ماہی میری جان.."
دُعا نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگالیا..
"کیسی ہو دُعا ..؟"
اس نے سادہ سے اندز میں پوچھا اُس کے کسی انداز میں کوئی گرمجوشی نہیں تھی..
"ماہی کیا وہ تمہیں مارتا ہے.."
دُعا نے اُس کے زخموں کو دیکھتے ہوئے پوچھا..
"یہاں بات صرف ہماری ہوگی میرے شوہر کو بیچ میں نہیں لایا جائے.."
اُس کے سپاٹ انداز پر کوئی بھی نہیں چونکا تھا کیونکہ وہ تینوں اُسے بہت اچھے سے جانتے تھے یہ اُن کی ماہی تھی ہی نہیں..
"جارہے ہو آپ لوگ اچھی بات ہے زندگی تو چلتی رہتی ہے رُکتی تھوڑی ہے کسی کے آنے یا جانے سے میں آپ لوگوں کی شکرگزار ہوں بہت جتنا بھی آپ لوگوں نے میرے لئے کیا.."
وُہ فریب دینے میں بُری طرح ناکام ہورہی تھی آواز رندھنے لگی تھی...
"ہم سے مت چھپاؤ خود کو ماہی اور کم از کم مُجھ سے تو بالکل نہیں.."
دُعا کا اتنا کہنا تھا بس وہ اُس کے گلے لگ کر چہکوں پہکوں رونے لگی دو ہفتوں بعد اس کا بندھ آج ٹوٹا تھا وہ بھی کس کے سامنے...
"ماہی رو مت مت رو."
زیان اپنی جگہ کھڑا بس بے بس یہی کہہ سکا اُس کے اختیار میں نہیں تھا وہ اس کے آنسو صاف کرلے اُسے اپنے سینے سے لگا لے اُسے کوئی ایسا حق حاصل نہیں تھا..
"مُجھے معاف کردیں زیان میں نے آپ کا بہت دِل دکھایا.."
"نہیں نہیں ہرگز نہیں بلکہ میرا دِل تمہیں اِس حالت میں دیکھ کر ٹوٹ رہا ہے میں خدا کی قسم ایک دفعہ بھی تُم سے نہیں ملتا اگر مُجھے یقین ہوجاتا کہ تُم خوش ہو تم سُکھی ہو اپنی زندگی میں مگر میرا دِل کہہ رہا تھا تُم تکلیف میں ہو بہت بہت تکلیف میں میں صرف تُم سے مِل کر تمہیں یہ احساس تھمانا چاہتا تھا کہ میں ساری عُمر تمہارا انتظار کروں گا میں تمہیں یقین کی یہ دولت دینا چاہتا تھا کہ میں تُم سے بہت بہت محبت کرتا ہوں کبھی بھی تُمہیں نہیں چھوڑ سکتا میں تمہیں وعدے کے اِس گرہ سے باندھ کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں کہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی تُم پلٹ کر اگر دیکھو گی تو میں تمہیں ہمیشہ تمہارے پیچھے ملوں گا میں تُم سے آگے کبھی نہیں جاسکتا میں یہ اختیار اِن چند دنوں میں مزید کھو چُکا ہوں ہونا تو یوں چاہیے تھا میرے دِل سے تمہاری محبت پانی کے بھانپ کی طرح اُڑ جاتی مگر ہو یوں گیا میری روح کی حرارت تمہاری محبت کا احساس لیے نقطہ انجماد کے مقام پر آکر ٹھہر گئی ہے اب اسے صرف تمہاری محبت ہی حالتِ گردش میں لاسکتی بے ورنہ یہ یوں ہی رہے گی ہمیشہ.."
اُس نے رقت آمیز لہجے میں کہا...
"مت کریں ایسی باتیں زیان آپ خود کو تکلیف دے رہے ہیں.."
اس کے دِل کو یکدم کُچھ ہوا تھا ہاں وہ کیا بھلا سا نام اُس جذبے کا ہاں "محبت" اُسے اب زیان سے محبت کا احساس ہوا تھا جب کُچھ بھی ہاتھ میں نہ تھا...
"دیکھو ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺳﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍُﺳﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮرہا ہے ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﻨﺘﮩٰﯽ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ "...
" ﺑﺲ ﮐﺮﻭ ﺯﯾﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼُﮑﯽ ﮨﻮﮞ،ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﻮﮞ ﺗُﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺍﮦ ﮐﮭﻮﭨﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮐﻮﺷﺸﯿﮟ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ تُم ﺧﻮﺩ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮﺟﺎﺅ ﮔﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺅﮞ ﮔﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻨﺰﻝ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺼﺪ ﺻﺎﻑ ﮨﯿﮟ "...
محبت کے احساس کے ساتھ ہی اُس نے "آپ" سے تُم کا سفر طے کیا تھا کیونکہ جو لوگ دِل کو بھا جائے اُن سے لحاظ نہیں نبھائے جاتے اُن کی محبت سموئی جاتی ہے دِل میں..
" ﮔﮭﺎﺋﻞ ﺭﻭﺡ ﮐﯿﺎ ﯾﮩﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻨﺰﻝ ﮨﮯ "..
ﻭُﮦ ﺗﮍﭖ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ..
ﻣﻨﺘﮩٰﯽ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺑﮯ ﻧﯿﻞ ﻭ ﻣﺮﺍﻡ ﺍُﺱ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﯾﺎ۔۔۔
" ﺗُﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﺗُﻢ ﻣﯿﮟ "...
ﺯﯾﺎﻥ ﻧﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ...
" ﺟﮭﻮﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﯽ .. ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ ہم عورتوں کی یہی زندگی ہے ہمیں اپنے باپ بھائی کا نام اونچا رکھنا ہے "..
ﻭُﮦ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺭﮐﯽ ﺗﮭﯽ ...
" ﺳﭻ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﺩﻡ ﮨﺮ ﻟﻤﺤﮧ ﺗُﻢ ﻣﻨﮑﺮ ﺭﮨﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﺳﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻟﮩﺠﮧ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﻮ ﻣُﺠﮭﮯ "...
ﺯﯾﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﻢ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ...
" ﮨﺠﺮ ﺗﻮ ﺭﻭﺡ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﺳﻢ ﮨﮯ ﺳﺮﺩ ﺗﻨﮩﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﺠﺐ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮨﮯ ﺍُﻓﻖ ﺗﺎ ﺍُﻓﻖ ﯾﮧ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺘﻨﺎ ﺳﭻ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺯﯾﺎﻥ ﺯﺍﮨﺪ "...
ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺑﺮﺍﮦِ ﺭﺍﺳﺖ ﺯﯾﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ..
"تُم مُجھے لہد میں اُتار رہی ہو اپنی محبت کا اعتراف کرکے میں کہاں جاؤں گا یہ بوجھ لے کر کہ تُم مُجھ سے محبت کرتے ہوئے کسی اور مرد کا پہلو آباد کرو میں مرجاؤں گا یہ ظلم ہے سراسر ظلم ہے..."
وہ روتے ہوئے نیچے بیٹھ گیا...
"یہ ظُلم ہے تو میں جہنم میں ہوں زیان میں گنہگار بھی ہوں میں غیر مرد کی محبت میں مبتلا ہوں مُجھے اعتراف ہے."
اُس نے اس کے ساتھ ہی فاصلے پر بیٹھتے ہوئے کربناک انداز میں کہا...
"ماہی تُم اُس سے طلاق لے لو میں تمہیں اپنی زندگی بنانا چاہتا ہوں میں اب بھی تُم سے شادی کرنا.."
"بس بس زیان کُچھ بھرم رہنے دیں میرا یوں پتے کی طرح ہلکا مت کردیں مُجھے آپ نے مُجھے یقین تھمایا میں نے سود سمیت آپکو آپکی محبت اب کوئی وعدہ کوئی احساس نہیں سب یہی دفن اِسی جگہ."
یہ کہہ کر وہ رُکی نہیں اتنی ظالم واقع ہوئی کہ پلٹ کر بھی نہ دیکھا کے جس پر اپنا بوجھ لاد آئی تھی وہ زندہ بھی ہے یا نہیں......
_____________________________________________

"آپ کو گئے پانچ سال ہوگئے ہیں مگر میں آپکو کیسے بھلاؤں رات کو نیند نہیں آئی مُجھے اِن پانچ سالوں میں سکون کی میں اُن شب و روز کو یاد کرکے آنکھوں ہی آنکھوں میں رات کاٹ لیتی ہوں جب میں آپکے پہلو میں ہوا کرتی تھی.. مُجھے کوئی خوشی بھی تو راس نہیں آئی
آپکی آخری نشانی کی بھی میں نہیں بچا سکی میرا اپنا خون میرا سگا بھائی میری خوشیوں کا قاتل میرا سہاگ اجاڑنے والا میرا کوکھ اجاڑنے والا مجھے تباہ و برباد کرنے والا میرا اپنا بھائی۔۔"
شائینہ نے ایک شرٹ کو سینے سے لگا کر بلک بلک کر روتے ہوئے کہا...
"ہمارا بچہ اگر ہوتا تو وہ آج چار سال کا ہوتا آج ہی کہ دن تو اُس نے میرے بچے کو میری کوکھ میں ہی ماردیا تھا دُنیا میں آنے سے صرف چند دن پہلے اس نے میرے بچے کو مار دیا سن رہے ہیں آپ اُس میری نو مہینے کے انتظار کو مار دیا مار دیا اس نے ..."
اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا تھا حالت جنونی...
اس کی آنکھوں کے سامنے وہ رات پھر گھوم گئی...
"یہ میرے بیٹی کے لئے.."
"آپکو کیسے پتا بیٹی ہی ہوگی.."
"کیونکہ مجھے چھوٹی شانو چاہیے بالکل تمہاری طرح حسین اور دِل موہ لینے والی.."
"ہماری بیٹی ہی ہوئی تھی ہماری بیٹی ہی ہوئی تھی مگر مردہ "مردہ" میں کہاں جاؤں کس جہاں میں جاکر غرق ہوں کہ میرے دِل رسنا بند کردے میں کیوں جی رہی ہوں میں مر کیوں نہیں جاتی .."
اس کے ہاتھ اب دو ننھے موزوں کی جوڑی پر تھے وہ سینہ کوبی کرنے لگی..
"مجھے موت دے دے اللہ مجھے سکون دے دے.."

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro