Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۲۰

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۲۰

غفران اپنے غصّے میں اتنا اندھا ہوگیا تھا اُسے پتا ہی نہیں چلا وُہ ایک بے ہوش وجود کو مارے جارہا تھا جب وہ مار مار کر تھک گیا تو اُسے ٹھوکر مارتے ہوئے دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گیا...
"سہراب خان کو تمہاری گھر والی بڑی پسند آگئی ہے کہا ہے اُن کی بھی دوستی کروا دو اپنی بیوی سے اگلا ٹینڈر تمہارا پکا..."
اُس کی آنکھوں میں پھر خون اُترنے لگا تھا...
"غفران میرے بھائی خُدا کا واسطہ ہے دروازہ کھول دو  مت کر ایسا وُہ اِنسان ہے اُسے اِنسان سمجھ اتنی بہیمت مت دکھا.."
شائنہ کی آواز بوجھل ہورہی تھی دروازہ مسلسل پیٹا جارہا تھا..
اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا..
"تمہاری گھر والی پسند آ گئی ہے.."
کسی نے پھر صور پھونکی تھی کان میں..
"نہیں نہیں نہیں ..."
اُسے پھر دورہ پڑ چُکا تھا ایک ایک کرکے کمرے کی ہر چیز تہس نہس کردی اُس کا اشتعال کسی صورت میں کم ہونے میں نہیں آرہا تھا اُس نے الماری سے شرٹ نکال کر پہنی اوپر کوٹ پہن کر اُس نے بیڈ کے دائیں طرف کی دراز سے بندوق نکال کر اُس میں گولیاں چیک کرکے بندوق کوٹ کی جیب میں رکھی اور راستے میں پڑے ٹوٹے ہوئے گلدان کو ٹکر مارتا ہوا آگے بڑھ گیا...
اُس نے دروازے کھولا تو شائنہ جو دروازے سے لگ کر ہی کھڑے تھی فوراً اندر بھاگی اُس نے رُک کر ایک نظر منتہٰی کو دیکھا اُس کا طیش مزید بڑھ گیا تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا...
"ماہی آنکھیں کھولو ماہی..."
منتہٰی کا سر اپنی گود میں رکھ کر اُس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا..
"کتنی بے رحمی سے مارا ہے یا اللہ.."
اُس کے سر سے بہتے خون کو روکنے کے کوشش کرتی شائنہ کے لئے خود پر سنبھالنا مُشکل ہوتا جارہا تھا...

_________________________________________

"راسخ راغلی دی لالہ.."
(راسخ آیا ہے بھائی)
سہراب خان اِس وقت کسی دوشیزہ کے ساتھ تھا ایک بندے نے آکر اطلاع دی...
اُس کے منہ حلق تک کڑوا ہوگیا..
"ته لاړ شه"
(تُم جاؤ) اُس نے اُس دوشیزہ سے کہا..
"اوس راځئ"
(ابھی تو آئی ہوں) اُس نے قریب ہوکر کہا...
"ورک شوی"
(دفع ہوجاؤ) وُہ دھاڑا تو لڑکی سہم کر اپنا پرس اُٹھاتی وہاں سے چلی گئی..
ہاتھ کے اشارے سے اُس نے راسخ کی اندر بھیجنے کا کہا اور خود اُس کا انتظار کرنے لگا..
کُچھ ہی دیر بعد ایک شخص دروازے کو ٹھوکر مارتے ہوئے اندر داخل ہوا...
"زہے نصیب زہے نصیب راسخ صاحب خود چل کر ہمارے غریب کھانے تک آئے ہیں تشریف رکھیے..."
سہراب خان نے اُسے اندر آتا دیکھ کر مؤدب انداز میں کھڑے ہوکر اُسے بیٹھنے کا کہا..
"بکواس بند کر اپنی تیری ہمت کیسی ہوئی ایسا سوچنے کی بھی..."
آنے والے شخص نے سیدھا اُس کے گریبان پر ہاتھ ڈالا تھا...
"تاسو دواړه ته لاړ شه او وګورئ چې آیا دا یوازې یا بل څوک راغلی دی"
(تُم دونوں جاؤ اور جاکر دیکھو یہ اکیلے آیا ہے یا کوئی اور بھی ہے ساتھ)
سہراب خان نے آنے والے پر بندوقیں تان چُکے اپنے دو آدمیوں کو حکم دیا...
"راسخ یہ کیسا طریقہ ہوا اپنے میزبان سے پیش آنے کا.."
"میرے طریقے ابھی دیکھے کہاں ہے تُو نے پتا چل جائے گا سب ابھی کے ابھی.."
گریبان چھوڑ کر ذومعنی خیز لہجے میں کہا گیا..
"کم آن راسخ ہم لوگ دوست ہیں ایک ہی دُنیا کے مسافر ہم لڑتے ہوئے اچھے نہیں لگتے اور ویسے بھی یہ بزنس ہے اِس میں کیا تیرا کیا میرا اِس سے پہلے بھی تو تُم نے مُجھے لڑکیاں دی ہیں اور میں نے تمہیں نذرانے دیے ہیں اِس بار بیوی پر دِل..."
"حرام زادے... اپنی زبان سے میری بیوی کا نام بھی مت لینا کاٹ کر رکھ دوں گا تُجھے.."
راسخ نے سیدھے ہاتھ کا گھونسہ اُس کے جبڑے پر مارا...
"اوہ اوہ.. راسخ عُرف (غفران) نکلا وہی مشرقی مرد بیوی کے معاملے میں.."
اُس نے اپنے منہ سے نکلتے ہوئے خون کو کو صاف کرتے ہوئے کہا...
"سور کے بچے آج تو کہہ دیا آئندہ اگر سوچا بھی تو تیری ہڈیوں کا سُرمہ کردوں گا.."
اُس کے جارحانہ تیوریوں سے اُسے دیکھتے ہوۓ کہا...
"د ورور تینیویر غږ ویل کیږي، هغه ویل کیږي چې زموږ د مخدره توکو ټرک په پولیسو کې ودرول او هغه یې ونیول. "
(بھائی تنویر کی کال آئی ہے وُہ کہہ رہا ہے ہمارا ڈرگز والا ٹرک ہائی وے پر پولیس نے روک لیا اور اُنہوں نے اُسے حراست میں لے لیا ہے")
کُچھ دیر پہلے بندوق تانے کھڑے آدمی نے بدحواسی کے عالم میں کر دوبارہ اندر آکر بتایا...
سہراب خان اور راسخ کی نظریں آنِ واحد میں ایک دوسرے کی طرف اُٹھی تھیں ایک کی آنکھوں میں خون ٹکرے مار رہا تھا دوسرے کی آنکھوں میں تمسخر..
"مبارک ہو بیس کروڑ کا نقصان سہراب خان میں نے کہا تھا نا میرے طریقے تُمہیں ابھی پتا چل جائیں تو دیکھ لو اور آئندہ اپنی خیالوں کے بھی خیالوں میں میری بیوی کو سوچنے کی غلطی مت کرنا ورنہ اب کی بار تمہارا سر میرے ہاتھوں میں ہوگا سہراب لالہ.."
اُس نے اپنی سیاہ آنکھوں  میں بے پناہ نفرت لیے اُس کے دھواں دھواں ہوتے چہرے کو دیکھ کر کہا..
سہراب خان نے اپنی ابرو کو جنبش دے کر سامنے کھڑے آدمی کو اشارہ کیا تھا...
راسخ نے اُس کی جنبشِ ابرو دیکھ لی تھی وُہ سرعت سے نیچے جُھکا اور کوٹ میں چھپی بندوق نکال کر سامنے کھڑے آدمی کے سر پر فائر کیا جس سے وہ وہی ڈھیر ہوگیا...
"مت سمجھنا کہ میں بیوقوف ہوں مت بھولو میں بھی اِسی دُنیا کا بادشاہ ہوں آنکھ کے ہر اشارے کو سمجھتا ہوں اور آج تو ہمت کرلی اگر آئندہ موڈ ہوا تو مردوں کی طرح سامنے لڑنا..."
اُس نے بندوق کی نوک اُس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے اُسے مزید طیش دلایا...
"تُم ایسا کیسے کرسکتے ہو غفران.."
سہراب چیخا تھا...
"راسخ" راسخ نام ہے میرا.."
اُس نے تنبیہی انداز میں کہا...
"تمہارے بہت سے راز میرے پاس بھی ہیں اگر اُنہیں میں نے سب کے سامنے کردیا تو تُم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے احسان فراموش..."
سہراب نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بے خوفی سے کہا...
"کون سے راز... مُجھے تو کُچھ یاد نہیں البتہ تمہارے کارناموں کا بہی کھاتا میرے پاس ضرور ہے جس میں سے اگر ایک بھی سامنے آگیا تو تُم منہ دکھانے کے قابل تو کیا اگلا سانس لینے کے قابل نہیں رہو گے.."
اُس نے بے فکری سے کہا...
"تمہیں اِس کا حساب چکانا ہوگا غفران چکانا ہوگا.."
"دیکھتے ہیں کون کیا چُکاتا ہے ابھی کے لئے تُم پھر سُن لو آئندہ میری بیوی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھا تو یہ جو آنکھیں ہیں نا تمہاری کُچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہیں گی.."
اُس کے سر سے بندوق ہٹا کر نیچے کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا...
"آہ غفران آہ کتنے بیوقوف اور جذباتی ہو تُم خود نے آکر مُجھے اپنی کمزوری بتا دی اب بڑا مزہ آنے والا ہے کھیل میں کیونکہ تمہاری "بیوی" جو نشانے پر ہوگی تمہاری "محبت".."
اُس نے کمینگی سے سوچا مکروہ مسکراہٹ اُس کے چہرے پر پھیلتی چلی گئی...

_________________________________________

"کیا ہے یہ سب زیان.."
دُعا کو جب سے سمیر نے اُس کے پاگل پن کا بتایا تھا وُہ شدید پریشان تھی اب اُس کے سامنے کھڑی اُس پر برس رہی تھی..
"تُم کوئی ٹین ایجر نہیں ہو زیان جو اِس طرح کی حرکتیں کر رہے ہو اور تُمہیں کیا لگتا ہے یہ سب کرنے سے سب کُچھ بدل جائے گا.."
"تُم جاؤ یہاں سے مُجھے کسی سے بات نہیں کرنی تُم دونوں جاؤ یہاں سے واپس چلے جاؤ مُجھے میرے حال پر چھوڑ دو میری وجہ سے پریشان مت ہو مُجھے اکیلا چھوڑ دو جاؤ جاؤ.."
وُہ ہسٹریک انداز میں چلایا..
"بہت ہوگیا زیان بس کرو بس کرو اپنے حواسوں میں لوٹو کسی ایک کے چلے جانے سے دُنیا ختم نہیں ہوجاتی اور تمہیں کب سے اُس سے اتنی دھواں دار محبت ہوگئی..."
وُہ اُس کی چلانے کو خاطر میں نا لاتے ہوئے تیزی سے بولی..
"دُعا آرام سے بات کرو وُہ تو پاگل ہے آپ تو سمجھ دار ہیں اطمینان سے بات کریں.."
"کیا اطمینان سے بات کروں اِس کے تماشے ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے عجیب سب کو پریشان کرکے رکھا ہوا ہے ایک لڑکی کے پیچھے اپنے ماں باپ کی فکر نہیں اِسے ہمارا خیال نہیں ہے سب کُچھ وہی تھی کیا اُس کے لیے.."
وُہ بولتے بولتے روپڑی..
"اِسی لیے کہہ رہا ہوں مجھے اکیلا چھوڑ دو راہیں الگ کرلو...  تُم کہہ رہی ہو مُجھے اُس سے کب اتنی محبت ہوئی کیا تُمہیں بتاؤں گا کہ مُجھے اُس سے کتنی محبت ہے تُم ہو کون؟ ہاں ہوتی کون ہو مُجھ سے سوال کرنے والی؟ تُم لوگ دفع کیوں نہیں ہوجاتے مرنے کھپنے دو مجھے اپنا وقت برباد مت کرو تُم دونوں.."
اُسے نہیں پتا تھا وُہ کیا بول رہا تھا۔۔
"ہم تمہارے دوست ہیں سمجھ آئی اور یہ مت سمجھنا کہ تمہاری اِس طرح کی باتیں سُن کر تُمہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے تم اِس وقت نہیں جانتے تُم کیا کہہ رہے ہی اِسی لئے اچھا ہوگا اپنا منہ بند کرکے بیٹھو سمجھ آئی.."
سمیر نے اُس کی گردن کو اپنے ہاتھ میں لے کر دھونس سے کہا...
وُہ پہلو بدل کر رہ گیا...
"اور تُم دُعا تُم بھی اِس سے کم جذباتی نہیں ہو اُس کی مینٹل اسٹیٹ سمجھنے کے بجائے اُسی پر چلا رہی ہو.."
یہ پہلا موقع تھا جب اُس نے دُعا کو "تُم" کہہ کر مخاطب کیا تھا...
"زیان میں آج جارہی ہوں اُس کے گھر انشاءاللہ وُہ ٹھیک ہوگی مگر پلیز خود کو اتنی تکلیف مت دو اور یہ مت سوچو کہ اِس طرح صرف تُم خود کو اذیت دے رہے ہو ہرگز نہیں اگر انکل آنٹی کی یہ سب پتا چلا تو اُن پر کیا گزرے گی تمہیں اِس طرح دیکھ کر ہم دوں پر کیا گزرتی ہے کبھی سوچا ہے کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے ایک ایسے اِنسان کو اِس حالت میں دیکھنا جو ہر دم ہنستا،ہنساتا مسکراتا مسکراہٹیں بکھیرتا رہتا ہو اُس اِنسان کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا بہت تکلیف دیتا ہے میرے بھائی بہت تکلیف.."
دُعا نے تاسف سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا...
"ماہی کے گھر..؟"
اُس نے صرف اتنا سنا تھا باقی باتیں تو کہیں گُم ہوگئی تھیں...
"ہاں ماہی کے گھر.."
"دُعا تُم اُسے سمجھانا تُم اُس سے کہنا وُہ پریشان نہیں ہو میں اُسے اُس مشکل سے نکال لوں گا بس تھوڑی ہمت اُسے بھی کرنی ہوگی تُم اُسے یقین دلانا کے میں آج بھی اُس کا منتظر ہوں میں اُسے آج بھی اپنا بنانا چاہتا ہوں میں اُسے کبھی نہیں چھوڑوں گا بس اُسے یقین دلانا دُعا اُسے یقین دلانا.."
وُہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر التجائیہ انداز میں بولا...
اُس نے کُچھ نہیں کہا بس اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا...

_________________________________________

"تمہارا دھیان کہاں رہتا ہے بیٹا دیکھو کاٹ لیا نا ہاتھ بہت گہرا کٹ چلو ڈاکٹر کے پاس کوئی انفیکشن نہ ہوجائے.."
منیر نے اُس کے ہاتھ سے بہتے خون کو روکتے ہوئے کہا..
"اے باؤلے لڑکے ذرا سا کٹ لگا ہے کوئی پورا ہاتھ نہیں کٹ گیا خدانخواستہ جو یوں ہلکان ہورہاہے.."
نفیسہ بی بی نے اُسے ڈپٹ دیا...
"تُم تو اُٹھو کیا منہ دیکھ رہی ہو میرا..."
وُہ خود کو تکتی منتہٰی کو دیکھتے ہوئے سختی سے بولا...
"بھائی امی ٹھیک کہہ رہی ہیں بہت معمولی سی چوٹ ہے.."
"تُم سے کس نے پوچھا ہے جتنا کہاں ہے اُتنا کرو جاؤ جاکر اندر سے چادر لاؤ اپنی اور چلو میرے ساتھ ٹین سے ہاتھ کٹا ہے پورا زنگ آلود ہے وُہ اور امی آپ کہہ رہی ہیں ٹھیک ہے یہ آپکو اپنی بیٹی پیاری ہو یا نہ ہو مُجھے اپنی ماہی بہت عزیز ہے.."
اُس نے مستحکم انداز میں کہا..
"لو جی ایک نیا اِلزام اے لڑکے کوئی انوکھی بہن ہے تیری جو بِلکُل ہی دماغ سے پیدل ہوگیا ہے تُو ماں کو کہتا ہے آپکو فکر نہیں تُو نے ہی تو جنا ہے اِسے.."
اُنہیں اِس بات کا بہت برا لگا تھا...
منتہٰی اور آصف صاحب دونوں ہنس دیے..
"باپ بیٹی دونوں کے دانت کیوں نکل رہے ہیں.."
وُہ جلے بھنے انداز میں بولیں..
"کُچھ نہیں نفیسہ بی بی کُچھ نہیں مُجھے بڑا مزہ آتا تُم ماں بیٹے کو یوں اُلجھتا دیکھ کر.."
"بھائی آپ بہت اچھے ہیں بہت بہت بہت کیوٹ.."
منتہٰی نے اُس کے کندھے سے سر ٹکا کر کہا...
"میری چاپلوس بہن انجیکشن تو تُمہیں پھر بھی لگوانا ہوگا چلو شاباش.."
منیر نے اُسی کندھے سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے کہا...
" مانی بھائی۔" اُس نے ہلکا سا احتجاج کیا..
"ماہی شاباش چندا جلدی آؤ چادر لے کر تُم جانتی ہو اِس معاملے میں مُجھے تمہاری ناراضگی کی فکر نہیں جاؤ شاباش.."
اُس نے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا...
"مانی بھائی میری فکر کریں واپسی آجائیں بھائی.."
وُہ بے ہوشی میں بڑبڑا رہی تھی...
شائنہ نے اُسے ہوش میں آتا دیکھ کر چین کا سانس لیا تھا ڈاکٹر کُچھ دیر پہلے اُس کی پٹی کرکے گیا تھا۔۔
"مانی بھائی مُجھے اپنے ساتھ لے جائیں مُجھ سے نہیں ہوتا برداشت.."
وُہ دوبارہ بولی...
"بس کُچھ وقت اور ماہی ابھی نہیں میری جان..."
نیم خوابی میں اُس نے منیر کو کہتے سنا...
"میں مرجاؤں گی مانی بھائی آپکی ماہی مرجائے گی مُجھے بہت تکلیف ہوتی ہے میں نے آپکا دِل دکھایا تھا مُجھے سزا مِل رہی ہے .."
شائنہ دم بخود سی اُسے نیند میں بولتا دیکھ رہی تھی حیران ہونے والی بات یہ نہیں تھی کہ وُہ نیند میں بول رہی تھی بلکہ وُہ نیند میں جس سے بات کر رہی تھی اور جس طرح بات کر رہی تھی وُہ حیران کن بات تھی جیسے سامنے سے کوئی اُسے جواب بھی دے رہا ہو...
"میں لینے آؤں گا میں ہی آؤں گا اپنی شہزادی کو لینے مگر ابھی وقت نہیں ابھی کئی مسافتیں ہیں،،
ابھی نہیں ابھی کئی پہاڑ سر کرنے ہیں تمہیں تنہا ابھی کئی بھید جاننے ہیں ابھی کئی چہرے دیکھنے ہیں مگر وہ وقت بھی زیادہ دور نہیں جب میری ماہی اپنے مانی بھائی کے پاس ہوگی تُم مت رو، تُم مت رو، تُم مت رو میری روح کو تکلیف پہنچتی ہے تمہیں ابھی میرے وجود کے ایک حصے کو تلاش کرنا ہے ماہی ابھی کُچھ وقت ہے ابھی کُچھ مدت باقی ہے بس تُم مت تھکو،تُم مت رو میری روح کو تکلیف پہنچتی ہے میرے بچے.."
کیا خواب تھا کیا حقیقت مگر اُسے خود سے پھر دور جاتا دیکھ کر تحفظ کا وُہ احساس کہیں سرِ راہ رہ گیا وُہ واپسی لوٹ آئی اپنی دُنیا میں اور وُہ یوں غائب ہوا جیسے تھا ہی نہیں...
"مُجھے لے جائیں مانی بھائی مت جائیں اپنی ماہی کو چھوڑ کر مت جائیں مانی بھائی.."
اُس نے زور زور سے کہتے ہوۓ اپنی آنکھیں کھول دیں...
"ماہی خدا کا شکر ہے تُمہیں ہوش آگیا میں کتنی پریشان ہوگئی تھی.."
اُس نے منتہٰی کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا...
"مانی بھائی مُجھے اُن کے پاس جانا ہے آپی اُنہیں دکھانا ہے مُجھے کتنی چوٹیں لگی ہیں وہ میرے لئے پریشان ہوں گے اور مُجھے اُنہیں پریشان دیکھنا ہے مُجھے اُن کی تڑپ دیکھنی ہے اپنے لیے مانی بھائی آپ کہاں ہیں دیکھیں میں رُل گئی ہوں میں برباد ہوگئی ہوں میں تباہ ہوگئی ہوں کہاں ہیں آپ؟؟؟ آپکو میرا درد نہیں دکھ رہا اب میری تکلیف نہیں دکھ رہی مُجھے لے جائیں آکر اپنے کُچھ وقت تو کیا میں لمحہ بھی نہیں گزار پا رہی میرے پیر ابھی سے آبلہ پا ہوگئے ہیں میں کوئی مسافت طے کرنے کی سکت نہیں رکھتی میں کوئی پہاڑ سر نہیں کرسکتی..."
وُہ بلک بلک کر روتے ہوئے بولی گرم گرم آنسو اُس کے چہرے پر پڑی خراشوں میں جلن پیدا کر رہے تھے...
"کیوں ایسی باتیں کر رہی ہو ماہی مت کرو میرا دِل بند ہونے لگتا ہے بچے میں ویسے ہی اذیت میں مبتلا ہوں شدید اذیت میں کہ میں تمہارے لئے کُچھ نہیں کرسکی میں اُس اِنسان سے کیا اپنا وعدہ نہیں نبھا سکی وُہ جو میری زندگی کی واحد خوشی تھا وُہ جو میری اصل محبت تھا وُہ میرا ہمسفر..."
اُس کا گلا رندھنے لگا تھا...
منتہٰی اپنے حواسوں میں نہیں تھی ورنہ "ہمسفر" لفظ پر ضرور چونکتی...
"آپی میں نے سچے دِل سے اِس رشتے کو قبول کرلیا ہے میں اپنی کوششیں کر رہی ہوں میں کوشش کر رہی ہوں اُس کے ساتھ اُس کی مرضی کے مطابق رہنے کی مگر وُہ..."
وُہ اُس کی زیادتیوں کو یاد کرتے ہوئے بولی...
"میں نے تمہیں منع کیا تھا مت کرو خود پر ظُلم مت کرو مگر تُم نے میری ایک بات نہیں سنی.."
"اپنے باپ کو مرنے دیتی آپ بتائیں کیا آپ میری ایسا کرتیں اگر آپ میری جگہ ہوتی..."
"میں ایسا ہی کرتی ماں باپ فرشتے نہیں ہوتے اِنسان ہوتے ہیں اور اِنسان غلطیاں کرتا ہے... اور ایسے ظالم سفاک اِنسان کو باپ کہلانے کا کوئی حق نہیں میرے لئے چچا ایک بزدل اِنسان سے زیادہ اور کُچھ نہیں جنہوں نے اپنی رہتی زندگی پُر سکون بنانے کے لئے تمہاری طویل زندگی جہنم کی نظر کردی.."
وُہ تلخی سے بولی...

_________________________________________

شام کا اندھیرا بیٹھتے ہوئے غبار کی طرح آہستہ آہستہ ماحول میں اتر آیا تھا ۔ نیم کے پیڑ پر چڑیاں دیر ہوئی شور مچا کر خاموش ہو چکی تھیں ۔ لیکن نیچے کنویں پر سہ پہر کے رکھے ہوئے برتن اب تک پڑے تھے جنہیں کوؤں نے کچھ دانے کی تلاش میں کھینچ کھینچ کر ادھر اُ دھر پھیلا دیا تھا ۔ اب اندھیرے میں محض ان کے مدھم خاکے دکھائی دے رہے تھے ۔ وُہ خالی خالی نظروں سے انہیں گھور ے جا رہا تھا ۔
وہ سوچوں میں ایسی غرق تھا کہ اسے بتی جلانے کا خیال بھی نہ آیا ۔ کمرے میں باہر سے زیادہ اندھیرا تھا مگر اس سے بھی زیادہ اندھیرا اس کے دل میں تھا ۔۔۔دل ۔۔۔جہاں خیالوں اور آرزوؤں کی ایک دنیا آباد تھی ۔جہاں ہر طرف اداسی تھی ، ویرانی تھی ، تاریکی تھی ۔ دور دور تک نہ کوئی تارہ جھلملاتا تھا ، نہ کوئی جگنو اُڑتا تھا نہ کوئی آواز آتی تھی..
وُہ بنجر آنکھیں ہاتھ میں پکڑے فوٹو فریم پر جمائے بیٹھا تھا اندھیرا اتنا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے مگر پھر بھی اُس کی نظریں سیاہی میں گُم اُس تصویر پر مرکوز تھی اُس تصویر میں موجود ہستی کو دیکھنے کے لئے اُس کی آنکھوں کو تاب کی ضرورت نہ تھی وُہ تو اُس کے دِل میں بستی تھی...
دنیا کے لئے وُہ پانچ سال پہلے ہی مرچکا تھا مگر وہ زندہ تھا اذیت کے ساتھ زندہ تھا مگر بے بس تھا مجبور تھا وُہ اپنی متاع حیات سے نہیں مِل سکتا تھا وُہ اُسے اپنے گلے سے نہیں لگا سکتا تھا...
"میرا بچہ پورے چار سال کا ہوگیا ہوگا پتا نہیں کیسا دِکھتا ہوگا، کہاں ہوگا..."
اُس نے آنکھوں کو سختی سے بھینچ کر تصویر کو سینے سے لگا لیا...
"کبھی کوشش بھی مت کرنا سامنے آنے کی تمہاری سب سے قیمتی چیز میرے پاس ہے اور میں رحم کرنے والوں میں سے نہیں ہوں.."
انہی باتوں نے اُسے پانچ سال سے روکا ہوا تھا وُہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا لوگوں کی نظر میں...

_________________________________________

پورٹیکو میں گاڑی رُکی تو ایک نوکر نے فوراً آگے بڑھ کر دروازہ کھولا..
نکلنے والے نے اُترتے ہی کسی کی بابت استفسار کیا اور گاڑی میں سے بیگز نکالنے کا حکم دیتا رہائشی عمارت کی طرف بڑھ گیا...
"خرم کہاں ہے..؟"
اُس نے کیئر ٹیکر سے پوچھا...
"جی اپنے کمرے میں وڈیو گیم کھیل رہا ہے.."
اُس نے ہکلا کر بتایا آنے دیکھ کر ویسے بھی اُس کی بولتی بند ہوجاتی تھی...
"یک چھری لا کر دو  اور تُم میرے ساتھ آؤ.."
اُس نے ادھیڑ عمر کی عورت کو حکم دے کر بیگز سنبھالے اپنے پیچھے کھڑے ملازم سے کہا اور سیڑھیاں چڑھنے لگا..
وُہ کمرے میں داخل ہوا تو وُہ کشن پر لیٹا سوچکا تھا...
"یہی رکھ دو یہ سب اور تُم جاؤ..."
اُس نے آہستہ سے کہا اور خراماں خراماں چلتا اُس کے پاس آیا گھٹنے کے بل بیٹھ کر اُسے نرمی سے گود میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا...
دروازے پر ناک ہوئی تو وہی کیئر ٹیکر چھری لئے کھڑی تھی...
اُس نے اُس کے ہاتھ سے چُھری لے کر دروازہ بند کردیا...
اب وہ ساتھ لئے بیگز میں سے ایک سے باکس نکال کر بیڈ پر رکھا اور اُسے ان ریپ کرنے لگا...
اُس میں ایک کیک تھا اب ایک شاپر میں سے اُس نے سات کے ہندسے والی موم بتی نکال کر کیک کے وسط میں لگائی اور اُسے لائٹر کی مدد سے جلا دی...
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہیپی برتھ ڈے مائی جان ہیپی برتھ ڈے ٹو یو.."
اُس نے آہستہ سے اُس کے کان کے پاس جاکر کہا تو وہ کچی نیند سے اُٹھ گیا اور کُچھ دیر یونہی اُسے دیکھتا رہا پھر ایک دم اُس اُٹھ کر بیٹھ گیا...
"پاپا آئی لو یو سو مچ.."
اُس نے کہہ کر اُس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں...
"کیک کاٹیں جونیئر.."
اُس نے محبت سے اُس کے بال بگاڑ کر کہا...
"مُجھے لگا آپکو یاد نہیں رہا.."
وُہ اُس گود میں چڑھ کر بیٹھتے ہوئے بولا...
"امپاسبل.." اُس نے قطعیت سے کہا...
اُس نے پھر کیک کاٹا اور ایک بائٹ اُسے کھلایا...
"کیا وش مانگی.."
اُس نے کیک ہلکا سا اُس کی ناک پر لگاتے ہوئے پوچھا...
"وش بتاتے نہیں وُہ سیکرٹ ہے.."
وُہ رازداری سے بولا...
"پاپا سے کیسا سیکرٹ چلو شاباش بتاؤ ورنہ میں آپکو گدگدی کرتا رہوں گا.."
اُس نے شرارت سے کہا اور اُس کے پیٹ میں گدگدی کرنے لگا...
"اسٹاپ پاپا اسٹاپ بتاتا ہوں.."
وُہ ہنستے ہوئے بولا...
"میں نے وش کی کہ آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں کبھی کبھی نہیں ہر رات میں آپکو ہگ کرکے سوؤں اور آپ روز گھر آئیں روز اِسی طرح مُجھے پیار کریں کبھی ڈنٹیں نا..."
اُس نے معصومیت سے کہا...
وُہ لمحے کو چُپ ہوگیا پھر اُس کے چہرے کو دیوانہ وار چومتے ہوئے بولا...
"پاپا آپ سے بہت پیار کرتے ہیں آپکی وجہ سے ہی تو اُنہوں نے اپنا بدلہ ادھورا چھوڑ دیا.."
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا...
"گن مُجھے بھی دکھائیں پاپا.."
اُس نے کوٹ کی جیب سے جھانکتی گن کو دیکھ کر کہا..
"نہیں ابھی آپ بہت چھوٹے ہو یہ آپکے کام کی چیز نہیں ہاں وقت آنے پر دوں گا آپکو اور خود چلانا سکھاؤں گا.."
وُہ پیار سے اُس کا گال تھپک کر بولا...
"میرا ریٹرن گفٹ کہاں ہے.."
وُہ مصنوئی خفگی سے بولا تو بچے نے اُس کے گال پر پیار کرکے کہا...
"یہ رہا.."
اِس تحفے پر وُہ دِل سے ہنس دیا..

_________________________________________

دروازے پر دستک پر شائنہ نے دیکھا  کہ وہاں دُعا کھڑی تھی...
منتہٰی آنکھیں بند کیے لیٹی تھی...
"آجاؤ دُعا.."
شائنہ نے نرمی سے کہا جبکہ اُس نے "دُعا لفظ پر چونک کر اپنی آنکھیں کھول دیں اور سامنے کھڑا دیکھ کر آنکھوں پر یقین نہ آیا...
"ماہی یہ کیا حال بنایا ہوا ہے اپنا.."
اُس نے پٹیوں میں جکڑی منتہٰی کو دیکھ کر تڑپ کر کہا...
"یہ اتنی چوٹیں کیسے لگی تُمہیں ماہی.."
وُہ متحیر سی اُس معصوم اور سادہ لڑکی کی یوں درگت بنی دیکھ کر تقریباً رو دینے کے قریب تھی..
"اپنے ایک غلط فیصلے کا نتیجہ بھگت رہی ہے.."
شائنہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوئی....
"غفران نے.." اُس نے دہل کر پوچھا...
"اتنی بربریت اُس کے علاوہ کون دکھا سکتا ہے.."
وُہ نخوت سے بولی...
دُعا کا دِل کرلایا تھا ....
"ماہی زیان.."
وُہ مزید کُچھ بولتی غفران کمرے میں داخل ہوا...
"یہ کیا حشر کیا ہے تُم نے غفران اِس کا.."
شائنہ نے اُسے آڑھے ہاتھوں لیا..
"ہوگیا اب جائیں.."
اُس نے شائنہ کو نظرانداز کرکے نہایت بے مروتی سے دُعا سے کہا...
وُہ بے بس سے منتہٰی کو دیکھتی وہاں سے چلی گئی...
"اور تُم بھی دفع ہو یہاں سے.."
اُس نے شائنہ کو دھکے دے کر کمرے سے نکالا اور دروازہ بند کردیا...
"دروازہ کھولو میں کہتی ہوں دروازہ کھولو تُم نے اب اُسے ہاتھ بھی لگایا تو غفران میں پولیس میں شکایت کروں گی اِسے صرف میری دھمکی مت سمجھنا کھولو دروازہ..."
وُہ مسلسل دروازہ پیٹ رہی تھی...
"دفع ہوجاؤ.."
وُہ چلایا..
شائنہ کُچھ دیر کھڑی دروازہ پیٹتی رہی جب اندر سے آواز آنا بند ہوگئی تو تھک ہار کر چلی گئی...

_________________________________________

دُعا نے گھر سے باہر آکر بیگ سے موبائل نکالا اور ایک نمبر تلاش کرنے لگی...
"سوچا تھا اب کبھی کال نہیں کروں گی تُمہیں مگر وُہ دونوں مُجھے بہت عزیز ہیں اُن کے لئے کُچھ بھی.."
اُس نے خود سے کہا اور کال لگا دی۔۔۔
تیسری ہی بیل پر کال اُٹھا لی گئی...
"کون ہوں پوچھنے میں وقت ضائع مت کرنا کیونکہ میں اچھے سے جانتی ہوں تُم مُجھے بھول نہیں سکتے..."
اُس نے کال ملتے ہی فوراً کہا..
"سمجھدار ہو کافی.."
دوسری طرف سے مکروہ ہنسی کے ساتھ کہا گیا...
"ایک بندے کے بارے میں معلومات چاہیے کُچھ جتنی جلدی ہوسکے.."
اُس نے لٹھ مار انداز میں کہا..
"نام بتاؤ.." اب کی بار سنجیدگی سے کہا گیا...
"غفران حارث بیگ.." دوسری طرف خاموشی چھا گئی..
"مر گئے ہو کیا.." وُہ اُکتا کر بولی...
"راسخ.." دوسری طرف سے آواز اتنی آہستہ آئی تھی کہ وُہ سمجھ ہی نہ سکی...
"کیا کہا.."
"کُچھ نہیں ایک دِن دو مُجھے.."
اُس نے جلدی سے کہہ کر فون بند کردیا ..
دُعا نے بھی موبائل واپس بیگ میں ڈالا اور آگے چل دی...

_________________________________________

وُہ اُسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر سوتی بن گئی..
"جان.." اُس نے آہستہ سے پُکارا مگر اُس نے کوئی جواب نہیں دیا...
"منتہٰی میں جانتا ہوں تُم جاگ رہی ہو آنکھیں کھولو.."
رسان سے کہا گیا..
طوعاً و کرہاً اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اُس کی آنکھوں میں خوف کے سائے وُہ دیکھ سکتا تھا...
"سوری جانم.."
غفران نے اُس کے بکھرے بالوں کو سنوارتے ہوئے محبت سے کہا مگر وُہ چُپ رہی...
"میں نہیں چاہتا تُم پر ہاتھ اٹھانا مگر پتا نہیں مُجھے کیا ہوجاتا ہے..."
اُس نے منتہٰی کے زخم پر بہت نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا...
"دیکھی تمہارا اتنا حسین چہرہ میری وجہ سے کیسا ہوگیا ہے.."
تاسف سے کہتے ہوئے اُس نے منتہٰی کی پیشانی کا بوسہ لے لیا...
"مُجھے درد ہورہاہے نیند آرہی ہے.."
اُس نے بدقت کہا...
اُس کے چہرے پر یاسیت پھیلتی گئی...
"ٹھیک ہے تُم آرام کرو میں یہی ہوں تمہارے پاس."
اُس نے چادر برابر کرتے ہوۓ کہا اور اُس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے ساتھ ہی لیٹ گیا...
"تمہیں لگتا ہے معافی کے دو لفظ کافی ہوتے ہیں غفران ہرگز نہیں مُجھے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تُم سے مزید نفرت ہوتی جارہی ہے شدید نفرت،بے تحاشہ نفرت،بے انتہا نفرت.."
اُس نے نخوت سے سوچا اور اپنی آنکھیں موند لیں....
رات کے کسی پہر ایک ناگوار بو سے اُس کی آنکھ کھلی تو غفران بیڈ پر نہیں تھا...
اے سے کی کولنگ کے ساتھ ساتھ سگریٹ کے بدبو بھی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی...
اُس نے ہاتھ بڑھا کر سائڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ آن کیا تو نیم اندھیرے میں سامنے صوفے پر بیٹھا غفران فوراً سیدھا ہوا تھا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتا ہوا اُس کے پاس آیا...
"کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے تمہاری.."
فکرمندی سے پوچھا...
"ہاں بس ایسے ہی آنکھ کھل گئی سر ہاتھ میں بہت درد ہورہاہے.."
اُس نے دایاں ہاتھ دباتے ہوئے کہا...
"پین کلرز لی تھی سوتے ہوئے؟.."
اُس نے نفی میں سر ہلایا...
"تو درد تو ہوگا ناں.."
وُہ بکس میں سے ٹیبلٹس نکالتے ہوئے بولا اور جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر اُسے دیا..
"اب سو جاؤ..." سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے کہا...
کُچھ دیر یونہی اُسے دیکھتا رہا پھر لائٹ بند کرکے دوبارہ صوفے پر آکر بیٹھ گیا اور کیس سے سگریٹ نکال کر ہونٹوں کے درمیان رکھ کر دوبارہ سلگا لی...
وُہ شدید مضطرب تھا.....

آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے

جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے

ہر دم دنیا کے ہنگامے گھیرے رکھتے تھے

جب سے تیرے دھیان لگے ہیں فرصت رہتی ہے

کرنی ہے تو کھل کے کرو انکار وفا کی بات

بات ادھوری رہ جائے تو حسرت رہتی ہے

شہر سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے

سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے

بنتے بنتے ڈھ جاتی ہے دل کی ہر تعمیر

خواہش کے بہروپ میں شاید قسمت رہتی ہے

سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں

رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے

موسم کوئی خوشبو لے کر آتے جاتے ہیں

کیا کیا ہم کو رات گئے تک وحشت رہتی ہے

دھیان میں میلہ سا لگتا ہے بیتی یادوں کا

اکثر اس کے غم سے دل کی صحبت رہتی ہے

پھولوں کی تختی پر جیسے رنگوں کی تحریر

لوح سخن پر ایسے امجدؔ شہرت رہتی ہے

(امجد اسلام امجد)

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro