Chào các bạn! Vì nhiều lý do từ nay Truyen2U chính thức đổi tên là Truyen247.Pro. Mong các bạn tiếp tục ủng hộ truy cập tên miền mới này nhé! Mãi yêu... ♥

قسط نمبر ۱۴

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۴

"ماہی کیا ہوا ہے انکل ٹھیک ہے نا؟.."
دُعا کو اُس کی اُڑی رنگت دیکھ کر ڈر لگنے لگا...
"مُجھے واپس جانا ہوگا فوراً جتنی جلدی ہوسکے.."
وُہ خود سے باتیں کر رہی تھی..
"ماہی کُچھ تو بتاؤ کیا ہوا ہے گھر پر سب ٹھیک تو ہے نا..؟"
وُہ اب اُسے جھنجھوڑ کر بولی..
"ابو کی طبیعت بہت خراب ہے وُہ مُجھے بُلا رہے ہیں واپسی مُجھے اُن کے پاس جانا ہے میرے پاس صرف ایک وہی رشتہ ہے باقی میں اُنہیں نہیں کھو سکتی.."
وُہ اب اپنا ضبط کھو کر اُس کے گلے لگ کر روپڑی...
"ماہی کُچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہوجائے گا بس تُم پریشان مت ہو میری جان شاباش چُپ ہوجاؤ..."
وُہ اُس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی...
"میں کراچی کی ٹکٹس بُک کرتا ہوں منتہٰی آپ پریشان مت ہوں کُچھ نہیں ہوگا آپکے ابو کو اللہ سے اچھی کی اُمید رکھیں بس.."
زیان کا دل کر رہا تھا اُس کی آنکھوں سے ایک ایک اپنی آنکھوں میں نچوڑ لے اور اُس کی آنکھوں میں اپنی محبت کی ٹھنڈک پھونک دے۔۔۔
مگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا اُسے تسلی دینے کے علاوہ...
"کل صبح دس بجے کی ٹکٹس بُک ہوگئی ہیں ہماری..."
اُس نے فون بند کر کے اُن دونوں کو بتایا...
"ہماری.."
"ہاں ہماری ہم تمہیں اکیلے تو نہیں جانے دیں گے ماہی.."
دُعا نے اب ذرا سختی سے کہا...
"تُم لوگ پریشان ہو گے میری وجہ سے میں اكيلی جاسکتی ہوں آئی بھی تو تھی اکیلی.."
منتہٰی نے آہستہ مگر زمم کہا..
"ہاں دیکھ لیا تھا میں نے کیسے اکیلے آئی تھیں ایک ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر محترمہ کی آواز حلق میں پھنسی ہوئی تھی.."
وُہ اُس کی ضدی انداز پر چڑ کر بولا۔۔۔
"ہم میں سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے منتہٰی ہم سب دوست ہیں اور وہ دوست ہی کیا جو مشکل وقت میں کام نہ آئے اور اب اِس پر کوئی بحث نہیں ہوگی ہم لوگ آپکے ساتھ کراچی جارہے ہیں آپ فکر نہیں کریں بس اللہ سے دُعا کریں انشاءاللہ آپکے والد بِلکُل ٹھیک ہوجائیں گے.."
سمیر نے روم میں داخل ہوتے ہوئے حتمی انداز میں کہا..
وُہ آج بھی سمیر کے آگے کُچھ نہیں کہہ پاتی تھی...
"دُعا تُم اِنہیں ہوسٹل لے جاؤ اِس حالت میں یہ کام بھی نہیں کرسکیں گی پریشان رہیں گی تُم اِنہیں لے جاؤ.."
زیان کو اُس کی مسلسل برستی آنکھیں دیکھ کر تکلیف ہورہی تھی..
"چلو چل کر آرام کرلو میری جان اور فکر ناٹ چندا سب ٹھیک ہوجائے گا اللہ بہت بڑا ہے.."
وُہ مسلسل اُس کی ہمت بندھا رہی تھی...
وُہ میکانکی انداز میں اُس کے ساتھ چلتے ہوئی باہر نکل گئی...
"یا اللہ رحم کرنا.."
زیان نے دُعا کی...
"ویسے تمہارا اظہارِ محبت کافی ان لکی رہا منتہٰی کے لیے.."
سمیر نے ازراہِ مذاق کہا..
"سمیر ابھی نہیں ابھی میں بِلکُل مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں.."
وُہ بالوں میں اُنگلیاں پھیرتا ہوا بولا...
"آہا...یار کیا ہوگیا ہے تُم اُسے ہمت دیتے ہوئے خود کیوں ہار رہے ہو.."
سمیر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا...
"پتا نہیں یار ایسا لگ رہا ہے کُچھ غلط ہونے والا ہے عجیب ہی دِل ہورہاہے بہت عجیب..."
وُہ مضطرب دکھائی پڑتا تھا...
"اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ مستقبل میں ہمارے لیے کیا سرنہاں ہے ہم اُمید رکھ سکتے ہیں اچھی اور فکر مت کرو اللہ سب ٹھیک کرے گا.."
وہ مسلسل اُس کا موڈ ٹھیک کرنے میں مجتہد تھا..
"انشاءاللہ.."
زیان نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا...
"انشاءاللہ.."
سمیر نے اخلاص مندی سے کہا ..

                  _______________________________

"ماضی"

وُہ حارث بیگ کے انتقال کے چالیسویں پر اُس گھر میں آیا تھا اُس کی نظریں شائنہ کی متلاشی تھیں وُہ اُس سے بات کرنا چاہتا تھا..
اُس نے شائنہ کے کمرے کے دروازے پر رُک کر ہلکے سے دستک دی...
"آجاؤ.."
اجازت ملنے پر وُہ اندر داخل ہوا تو وُہ کتابوں میں سر دیئے بیٹھی تھی...
"آپ...اسلام علیکم.."
اُس نے منیر کو دیکھ کر فوراً سر پر دوپٹہ لیا...
"وعلیکم سلام کیسی ہو تُم..."
وُہ پُر تکلف انداز میں بولا اُسے خود حیرت ہورہی تھی اپنے لہجے پر کیونکہ اُن دونوں میں کافی دوستی  تھی مگر آج اجنبیت دیوار دونوں کے درمیان حائل تھی...
"ٹھیک ہی ہوں آپکے سامنے ہوں مُجھے لگتا تھا ابو کے جانے کے بعد میری زندگی بھی ختم مگر زندہ ہوں۔۔"
وُہ گرفتہ دلی سے مسکراتے ہوئے بولی...
"یہی تو زندگی ہے آگے بڑھتے رہنا پیچھے یادیں چھوڑ جانا یا جانے والوں کی یادیں سینے سے لگائے آگے بڑھ جانا.."
وُہ متانت سے بولا...
"آپ کا کیسے آنا ہوا..؟"
شائنہ نے نرمی سے پوچھا...
"میں ہمارے بارے میں بات کرنے آیا تھا.."
وُہ جھجھک رہا تھا سامنے بیٹھی لڑکی ہر طرح سے ایک بہترین جیون ساتھی ثابت ہوسکتی تھی مگر وُہ دِل کے ہاتھوں مجبور تھا...
"وُہ بات ابو ختم کرچکے ہیں جاتے جاتے منیر اور مُجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ بہت اچھی بات ہے آپ نے اپنے لیے اسٹینڈ لیا غلط تو تب ہوتا جب ہماری شادی ہوجاتی نا آپ خود خوش رہ پاتے نہ مُجھے رکھ پاتے.."
شائنہ نے ہموار لہجے میں کہتے اُس کے سینے سے بہت بڑا بوجھ ہٹا دیا تھا...
"بہت بہت شکریہ شائنہ تُم نہیں جانتی میں کتنا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں.."
وُہ اِن چالیس دنوں میں شاید پہلی بار دِل سے مسکرایا تھا..
"منیر جو رشتے اعصابوں پر بوجھ ہوں اُنہیں ساری عُمر اُٹھا کر خود کو ہلکان کیوں کرنا ہر اِنسان کو حق ہے اپنی خوشیاں چننے کا اُنہیں جینے کا زبردستی کے رشتے کبھی پائیدار نہیں ہوتے ایسا میرا ماننا ہے.."
وُہ کتابیں سمیٹتی بولی...
"میری دُعا ہے تمہیں مُجھ سے بہت بہتر جیون ساتھی ملے جو تُم سے محبت کرتا ہو..."
اُس نے صدقِ دل سے کہا۔۔۔
"آمین اب آپ بے فکر ہوکر جائیں.."
وُہ اپنی استہلال سے بولی..
"تُم مُجھے بھگا رہی ہو.."
وُہ پھر وہی منیر بن گیا جو اُس کے ساتھ ہوا کرتا تھا اُس کا بہترین دوست...
"ایسا ہی سمجھ لیں مُجھے پڑھنا ہے بھئی.."
وُہ اب جھنجلا کر بولی...
"توبہ لڑکی توبہ تُم بہت بدتمیز ہوگئی ہو.."
وُہ اُٹھتے ہوئے مصنوئی غصے سے بولا..
"بہت شکریہ شائنہ..."
وُہ رُک کر سپاس گزاری سے بولا..
"کوئی بات نہیں اب مُجھے آپ سے محبت تھوڑی ہے اگر ہوتی تو  بچتے نہیں آپ.."
وُہ ہنستے ہوئے بولی مگر پوری بات میں اُس نے پہلی بار محسوس کیا اُس کی ہنسی بے حد کھوکھلی تھی نکلی تھی بناوٹی تھی...
اُس کی آنکھیں محبت کی چغلی کھا رہی تھیں مگر منیر بھی ایک انسان تھا اُس نے سب نظر انداز کردیا وُہ اپنے دِل کے ہاتھوں جو مجبور تھا...
شائنہ دروازہ بند کرکے آکر دوبارہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور کتاب کھول لی...
"آپ سے ہی تو محبت ہے تب سے جب سے آپکا نام خود کے ساتھ سنا ہے آپکی محبت میری عقل میرے شعور کے ساتھ میرے اندر پروان چڑی ہے مگر محبت تو آزادی کا نام ہے کیسے آپ اپنے محبوب کو ایک ان چاہے رشتے میں باندھ سکتے میں جانتی ہوں اگر آج میں کہتی مُجھے اعتراض ہے تو آپ میرے لیے مُجھ سے شادی کر بھی لیتے آپ بہت اچھے شوہر بھی ثابت ہوتے مگر دو محبت کرنے والوں کو الگ کرکے يكطرفہ محبت کے بندھن میں کیوں باندھنا میری قُربانی سے میرے دِل کی سر زمین پر حشر بپا ہوا ہے مگر میری ضد سے تین زندگیاں تباہ ہوجاتی...
اب مُجھے بھی اِنتظار ہے آپکی دُعا کے قبول ہونے کا منیر ایک ایسے شخص کا جو مُجھے چاہے گا مُجھ سے محبت کرے گا.."
وُہ بہت مطمئن اور پُر سکون تھی اپنے فیصلے کوئی ملال کوئی پچھتاوا نہیں تھا...

             _____________________________________

منیر نے سب کی مخالفت برداشت کرتے ہوئے علیشہ سے شادی کرلی نتیجتاً آصف صاحب نے اُس سے سارے رشتے ختم کرکے اُسے گھر سے نکال دیا وُہ اپنی بیوی کو لے کر دوسرے گھر میں شفٹ ہوگیا آصف صاحب نے سب سے کہہ دیا تھا جو اُس سے تعلق رکھے گا اُس کا اُن سے کوئی رشتہ نہیں ہوگا نفیسہ بی بی نے آصف صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا نا منیر نے اُنہیں مجبور کیا اُسے پتا تھا وُہ آصف سے بہت محبت کرتی ہیں اُنہیں نہیں چھوڑ سکتی منتہٰی نے اُس کے ساتھ آنا چاہا مگر منیر نے اُسے سمجھا کر منع کردیا وُہ آصف صاحب سے بہت محبت کرتا تھا اور آصف صاحب کی جان منتہٰی اور اُس میں تھی وُہ جانتا تھا اُسے خود سے دور کرنے کا فیصلہ اُن کے لیے کسی طور آسان نہیں تھا وقتی ناراضگی تھی اُن کی اُسے یقین تھا وُہ اُنہیں منا لے گا اگر منتہٰی بھی اُنہیں چھوڑ کر اُس کے ساتھ آجاتی تو وہ ٹوٹ جاتے اُنہیں اپنی اب اولادوں میں سب سے زیادہ مان اُس پر اور منتہٰی پر ہی تھا  وُہ تو اُن کا مان توڑ چکا تھا مگر ماہی پر اُن کے مان پر وُہ آنچ بھی نہیں آنے دینا چاہتا تھا..
دو سال ہوگئے مگر آصف صاحب نے کبھی پلٹ کر اُسے نہیں پُکارا وُہ باپ کی محبت کے لیے تڑپتا رہا مگر آصف صاحب نے اُسے سینے سے نہیں لگایا شروع شروع میں منتہٰی چُھپ چُھپ کر اُس سے ملنے آتی تھی مگر پھر اُس نے ببانگ دہل آنا شروع کردیا آصف نے اُسے نہیں روکا وُہ جانتے تھے یہ دونوں دو جسم ایک جان تھے دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں تھا سب بھائیوں میں صرف ایک وہی تو تھا اُسے بہن سمجھنے والا اُسے اکلوتی ہونے کا مان دینے والا وُہ ماہی کی خوشی چھین نا سکے...
"ابو یہ دیکھیں اسے بِلکُل آپکا بچپنا ہے میں نے الک بچپن کی تصویر دیکھی ہیں یہ ہوبہو آپ ہیں بس آنکھوں کا رنگ علیشہ آپی جیسا ہے اُس کے علاوہ بِلکُل آپ جیسا ہے اِس کی ناک بِلکُل مانی بھائی جیسی ہے اور مانی بھائی کی آپکے جیسی.."
وُہ اکثر فرحان کو گھر لے آتی تھی آصف صاحب نے اِس پر بھی اسے کبھی نہیں روکا شاید وُہ خود چاہتے تھے اُسے دیکھنا آخر کو اُن کے منیر کی اولاد تھا اُن کے سب سے چہیتے بیٹے کی اولاد  وُہ اُسے سینے سے لگانا چاہتے تھا اُس کے ہر نقش کو آنکھوں کے ذریعے دِل میں اُتارنا چاہتے تھے مگر انا سرِ راہ تھی...
"کیوں لے کر آتی ہو اسے یہاں تمہیں پتا ہے میرا دِل نہیں پگھلنے والا اِن چیزوں سے میں اُس نافرمان کو کبھی معاف نہیں کروں گا اُس کی وجہ سے میرا بھائی اِس دُنیا سے چلا گیا اُس کی وجہ سے میری شائنہ کی زندگی تباہ ہوگئی.."
وُہ اُس سے نظریں پھیر کر بولے...
"شائنہ آپی کی زندگی کو تباہ بھائی نے نہیں تائی امی اور غفران کی ضد نے کیا ہے عماد بھائی کے گھر والوں نے کتنی  کتنی چاہت سے محبت سے اُن کا رشتہ مانگا تھا مگر تائی امی اور غفران نے صرف اِس وجہ سے انکار کردیا کہ عماد بھائی مانی بھائی کے بچپن دوست ہیں جبکہ عماد بھائی اُنہیں بہت پسند کرتے تھے۔۔"
وُہ کہاں منیر کے خلاف ایک لفظ بھی سُن سکتی تھی فوراً بول پڑی...
"میں کُچھ نہیں جانتا بس اسے میرے سامنے نہیں لایا کر.."
وُہ برہم ہوکر بولے...
" سچ بہت کڑوا ہوتا ہے آصف صاحب افسوس بھائی جان نے یہ بات جان لی تھی کے شائنہ اور منیر  ساتھ خوش نہیں رہ سکیں گے مگر آپ نے چھوٹی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے  میں کہتی ہوں بس کریں  گلے لگالیں بچے کو مُجھ سے نہیں دیکھی جاتی اُس کی رونی صورت آپ بھی جانتے ہیں کتنی محبت کرتا ہے آپ سے اگر آپ نے معاف نا کیا ناں تو اب کی بار میں اُس کے ساتھ چلی جاؤں گی.."
نفیسہ بی بی نے دھمکی دی...
"ہاں سب چلے جاؤ مُجھے چھوڑ کر پہلے بیٹا گیا بیٹی بھی بھائی کے کہنے پر رُکی ہوئی ورنہ ابھی چلی جائے تم بھی چلی جاؤ یہی تو ہے حاصل میری زندگی کا اِس عُمر میں مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی تُم اِس سے اچھا میں ہی اِس دُنیا سے چلے جاؤں.."
وُہ دُکھ سے بولے...
"ابو میں نہیں جارہی آپکو چھوڑ کر بس آپ نے اب ایک اور بار یہ بات نہیں كہنی ورنہ میں نے آپ سے نہیں بولنا.."
وُہ اُن کے گلے لگ کر نروٹھے پن سے بولی...
"میری بچی.."
اُنہوں نے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا...

                  °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen247.Pro